ڈاکٹرعبد الرزاق زیادی
)جواہر لعل نہرو یو نیورسٹی، نئی دہلی۔67( Mobile.No.:09911589715 E-mail: arziyadi@gmail.com
کسی بھی سماج کی تعمیر و تشکیل میں افراد کی حیثیت انسانی جسم میں دل کی سی ہوتی ہے۔اگر افراد صحیح ہوں تو سماج کاصحیح اور درست ہونا لازمی ہے۔ لیکن اگر معاملہ اس کے برخلاف ہو یعنی افراد سماج ہی ناکارہ و نا درست ہوں تو پھر سماج کی کیا صورت حال ہو سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سماج کی تعمیرو ترقی کادارومداراس کے افراد پر رکھا جاتا ہے۔افراد سماج جس قدر کامیاب و کامراں ہوں گے وہ سماج اتنا ہی کامیاب اور ترقی یا فتہ تصور کیا جائے گا۔عام طور پر جب بھی سماج اور سماجیات کی بات ہوتی ہے تو اس کے افراد کو ہم صنف قوی اور صنف نازک دو حیثیتوں میں تقسیم کر کے دیکھتے ہیں اور یہ تسلیم بھی کرتے ہیں کہ مردو زن ہی اس کے دو ایسے عناصر ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی اگر کمزور پڑ گیا تو سماج کی تعمیر و تشکیل نا مکمل رہے گی۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پورے سماج کی کامیابی و کامرانی کا انحصار در اصل انھیں دونوں عناصر کی فوزوفلاحاورتعمیرو ترقی پرہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سی اساس اور بنیادیں ہیں جن پر سماج اور افراد سماج کی تعمیر و تشکیل ممکن ہو سکتی ہے؟ وہ کونسی راہیں ہیں جن پر گامزن ہو کر سماج اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے؟وہ کون سا نسخہء کیمیہ ہے جس کو اپنا کر افرادسماج ہر طرح کی ترقیوں سے ہمکنار کر سکتے ہیں؟۔۔۔؟۔۔۔؟ظاہر سی بات ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب آج بھی وہی ہے جو چو دہ سو سال پہلے تھا اور وہ ہے صرف اور صرف تعلیم۔یعنی حصولِ تعلیم ہی میں ان تمام سوالوں کا جواب مضمر ہے۔
اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہر دور میں وہی قومیں سب سے زیادہ کامیاب و کامراں اور ترقی یافتہ رہیں جو تعلیم میں سب سے زیادہ آگے تھیں۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پوری انسانیت کی تعلیم کے لیے اسلام نے بھی جو طریقہ اختیار کیا وہ یہی تعلیمی طریقہ تھا۔ اسلام کا سورج جب طلوع ہوا اور اس کی ضیا پاش کرنیں پوری دنیا کو روشن کرنے لگیں تو اس نے اپنے ماننے والوں پر سب سے پہلے جو امر نافذ کیا وہ تھا تعلیم یعنی علم حاصل کرنے کا حکم دیا۔ تاکہ امت مسلمہ جہالت کی تاریکیوں سے آزاد ہو سکے اور علم کی روشنی میں نہ صرف سانس لے سکے بلکہ پوری دنیا میں ایک کامیاب اور ترقی یافتہ قوم کی شکل میں ابھر سکے۔اسلام کا یہ خواب شر مندہء تعبیر بھی ہوا اور وہ قوم جو ”بدو“ تھی اور بدوئیت جس کے جسم میں خون بن کر دوڑ رہی تھی اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور ہونے کے بعد نہ صرف ایک پاکیزہ اور مقدس قوم کی حیثیت سے سامنے آئی بلکہ پوری دنیا کے لیے ہمیشہ ہمیش کے لیے نظیر اور نمونہ بن گئی۔ اللہ کے رسول، صحابہء کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور ا ن کے بعد کے ادوار کی روشن اور تابناک تا ریخ ہمارے سامنے موجود ہے۔
مگر اسلام میں علم اور تعلیم کی اہمیت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اس کا حکم پہلی وحی کے ساتھ دیا گیا بلکہ مذہب اسلام کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ صرف تعلیم و تعلم سے ہی متعلق ہے اور اس میں حصول علم اور علم والے کی قدرو قیمت جگہ جگہ اجاگر کی گئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کتب ا حادیث میں سے شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو گی جس میں باب العلم کے نام سے کوئی باب موجود نہ ہو اور جس میں تعلیم و تعلم اور معلم و متعلم کی اہمیت و فضیلت نہ بیان کی گئی ہو۔بلکہ بعض بعض حدیثوں میں تو تعلیم حاصل کرنے کو عبادات پرترجیح دیا گیا ہے اور ان تمام احکام وفضائل میں مرد دوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شامل ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسلام میں حصول علم کا حکم مرودوں کے لیے ہی ہے اورصرف مرد ہی تعلیم حاصل کر لے تو یہ سب کے لیے کفایت کر جائے گا تو میرے خیال سے اس کا یہ خیال درست نہیں۔کیونکہ اسلام کے جو بھی احکامات ہیں ان پر عمل پیرا ہونا عورتوں کے لیے بھی اتنا ہی اہم اور ضروری ہے جتنا کہ مردو ں کے لیے،سوائے اس کے کہ ان میں سے کسی کے لیے کوئی تخصیصی حکم الگ سے نہ آگیا ہو۔حصول علم کے حوالے سے بھی یہی بات ہے یعنی اس کے حصول کے جو احکام ہیں وہ صرف مردوں کے لیے نہیں بلکہ مردو خواتین دونوں ہی کے لیے یکساں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود اللہ کے رسول ﷺنے صحابہ کرام کے ساتھ ساتھ اپنی تمام تر ازواج مطہرات کو زیور علم سے اس حد تک آراستہ و پیراستہ کیاکہ ہجرت مدینہ کے بعد ایک طرف جہاں اصحاب صفہ تھے تو وہیں دوسری جانب خواتین کی پہلی مرکزی درسگاہ حضرت عائشہ صدیقہ کی تعلیم گاہ قرار پائی اور جہاں سے مردو زن دونوں ہی نے یکساں طور پر اپنی علمی تشنگی بجھا ئی اور مسائل کا حل تلاش کیے۔
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ خلفائے راشدین کا زمانہ ہو یا عہد بنی امیہ یا پھر دورِ عباسی، ہر ایک میں تعلیم مرداں کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں پر بھی توجہ دی گئی اور دونوں ہی کی علمی صلاحیتوں کو تسلیم کیاگیا۔ یہاں تک کہ ان ادوار میں مردوں وخواتین کے علاوہ غلام اور کنیزوں کو بھی کسی سے پیچھے نہیں رکھا گیا۔خود ہندوستان میں جب مسلمان آئے اور یہاں ان کی حکومت قائم ہو ئی تو مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین نے بھی تحصیل علم کی جانب توجہ دی اور اس کی بدولت وہ نہ صرف ممتاز مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہیں بلکہ بہت سی دینی و غیر دینی در سگاہیں بھی قائم کیں، انھیں اپنے خون جگر سے سینچا اور مسلمانوں کی کامیابی کے لیے راہیں ہموار کیں۔سلطانہ رضیہ کے معزیہ و ناصریہ مدرسے، بی بی رضیہ بیگم کا اپنا ذاتی مدرسہ اور ہمایو ں کی بہن گل بدن کے علمی کارنامے اس کی واضح مثالیں کہی جا سکتی ہیں جو ہماری تاریخ کا حصہ ہی نہیں بلکہ یاد گار بھی ہیں۔
لیکن 1857 کے بعد ہندوستان کی سطح پر جو حالات رونما ہوئے اس نے نہ صرف یہ کہ پوری انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ اس کے اثرات تمام علوم و فنون پر بھی مرتب ہوئے اور ہرمیدان میں تعمیرو تشکیل کے ایک نئے دور کاآغاز ہوگیا۔ کشمکش کے اس دور میں،دیگر مسائل سے قطعِ نظر، جدید تعلیم کے جھنڈے تلے جس مسئلے کو سب سے زیادہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ یہی تعلیم نسواں تھی۔بہت سے لوگوں نے جدید تعلیم اور بالخصوص تعلیم نسواں کی نہ صرف کھل کرمخالفتیں کیں بلکہ ان کے حصول پر کفر کے فتوے تک صادر کر دیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے سب سے بڑے انسان اور دانشور سر سیدبھی تعلیم نسواں کی اس طرح وکالت و حمایت نہیں کر سکے جس طرح کہ انھوں نے لڑکوں کے لیے کی تھی اور انھیں ہر طرح کی تعلیمات سے مزین کرنے کے لیے اپنا سب کچھ لُٹا کر مدرسہ، کالج اور یونیور سٹی تک قائم کر ڈالا تھا۔شایدیہ اس وقت کے حالات کا جبر ہی تھا جس سے وہ بھی باہر نہیں نکل سکے۔ لیکن باوجود اس کے اس عہد میں بھی کچھ لو گ ایسے تھے جو ہر حال میں لڑکیوں کی تعلیم چاہتے تھے اور ان کی خواہش کے بقدر لڑکیاں بھی اعلی تعلیم کے حصول کی راہ پر گامزن تھیں۔ میرے خیال سے لڑکیوں کا یہی وہ تعلیمی رجحان اور جدید تعلیم کی طرف ان کی پیش قدمی تھی جس کو دیکھ کر اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین پردہ اٹھنے کی منتظر ہےنگاہ
ان اشعار سے ہر گز یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اکبر الہ آبادی بذات خود جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کے مخالف تھے۔اگر ایسا ہوتا تو وہ خود مغربی تعلیم سے آراستہ ہوکر بیرسٹری کے پیشے سے منسلک نہ ہوتے اور ان کی اولاد جدید تعلیمی میدان میں اس قدر آگے نہ ہوتیں۔یہ تو ان کا شاعرانہ لب و لہجہ ہے جس میں کہ انھو ں نے اس عہد کی بھر پور تصویر کشی کی ہے۔بہر حال غدر کے بعد ہندوستان کی سطح پر جو حالات رونما ہوئے اور جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کو لے کر جو مخالفتیں ہوئیں اس کی وجہ سے آنے والے ادوار میں اچھے برے اثرات بھی مرتب ہوئے اور بعد کے لوگوں میں بھی دونوں ہی ذہن کے لو گ سامنے آئے۔ مگر جب وقت کچھ اوربدلا اور لوگوں کو جدید تعلیم کی اہمیت وافادیت کا اندازہ ہو گیا تو انھوں نے لڑکوں کےلیے جدید تعلیم تو قبول کر لی مگر لڑکیوں کے لیے اب بھی وہ شجر ممنوعہ ہی بنی رہی۔ لیکن لوگ اپنے اس موقف پر بھی زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکے اوروہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے لیے بھی جدید تعلیم کی حمایت کرنے لگے اور بیسویں صدی کے نصف اول تک آتے آتے تو ہندوستان کا تعلیمی نقشہ ہی بدل گیا۔ اس وقت کے جو زمیندار اور پڑھے لکھے لوگ تھے،جنھیں آج ہم طبقہء اشرافیہ کے نام سے مو سوم کرتے ہیں، ان کا رجحان غیر معمولی حد تک جدید تعلیم اورنسواں کی طرف ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں مردوخواتین دونوں ہی میں حصول علم کا رجحان ملتا ہے۔ پھر طبقہء اشرافیہ کی دیکھا دیکھی دیگر طبقات کے لوگ بھی جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس طرح بدلتے ہو ئے حالات نے جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کے مخالفین کو بہت زیادہ دنوں تک اپنے موقف پر قائم نہیں ر ہنے دیا اور نتیجتاً وہ بھی تعلیم نسواں کے قائل ہوگئے اور پھر لڑکوں کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ لڑکیاں بھی اسکول پہنچ گئیں اور تعلیم نسواں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
لیکن باوجود اس کے تعلیم نسواں کی طرف اس نوع سے پیش رفت نہیں کی گئی جس طرح سے کہ ہونی چاہئے تھی۔ آج ملک کے آزاد ہوئے کوئی نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر پھر بھی ہماری تعلیمی حالت میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ آج بھی ہم تعلیمی پسماندگی کے شکار ہیں۔جب ہم اپنے علاقے کے تعلیمی منظر نامے اور بالخصوص مسلمانوں کی شرح تعلیم پر نظر ڈالتے ہیں توبڑی مایوسی ہوتی ہے بلکہ سر جوڑ کر رو لینے کا دل کرتا ہے کیونکہ ابھی بھی تعلیم نسواں کی نہ صرف کمی ہے بلکہ سرے سے فقدان ہے۔ وقت اور زمانے کی تمام تر ترقیوں کے باوجود ہمارے یہاں وہ تعلیمی نظام اور تعلیمی ماحول نہیں بن پایا ہے جس کی اس دور میں حد درجہ ضرورت ہے۔ دنیا کہاں تھی اور کہاں نکل گئی ہمیں اس کا اندازہ تک نہیں ہے اور ہو بھی کیسے جب کہ ہم نے اپنی پرانی روایتوں کو نہ چھوڑنے کی قسم کھا رہی ہے۔ ہمارے آباء و اجداد اگر کسان اور مزدور پیشہ تھے تو ہماری بھی یہی کو شش ہوتی ہے کہ ہم بھی انھیں پر قائم رہیں۔ ہم نے تو پہلے سے ہی یہ طے کر لیا ہے کہ ہم اپنے آبائی پیشہ و کام کو چھوڑ کر کچھ اور کام یا نو کری پیشہ نہیں اختیار کریں گے اور نہ ہی ہمیں کوئی نوکری و ملازمت مل سکتی ہے۔گویا ہم نے پہلے سے ہی سوچنے سمجھنے اور غور وفکر کرنے کے تمام تر دروازے اپنے لیے بند کر رکھے ہیں اور اسی لمحہ فکریہ نے ہم کو ناکامی و نامرادی کے اس دہانے پر پہنچا دیا ہے جہاں سے ہمیں کامیابی و کامرانی اور ترقی و عروج کی کوئی راہ نہیں دکھائی دیتی ہے اور ہم کولہو کے بیل بنے بیٹھے ہیں۔
مگر یہ اور اس طرح کی سطحی و گھٹیا سوچ دیگر اقوام میں کم ہے۔ بلکہ ان کا تو یہ نعرہ ہے کہ ”آدھی روٹی کھائیں گے پھر بھی اسکول جائیں گے“ یعنی ان کے پاس اگر کچھ بھی کھانے پینے کا نہ ہوتب بھی وہ اسکول جائیں گے اور تعلیم حاصل کریں گے۔کیا یہ امت مسلمہ کے لیے لمحہء فکریہ نہیں ہے؟ کیا اسے اپنے افکار و اعمال پر دو بارہ غور و فکر نہیں کرنا چاہئے؟کیا علاقے کے ذی علم حضرات اور دانشوران کو ا ن مسائل و معاملات پر غور وخوض نہیں کرنا چاہئے؟کیا علماء و خطباء کو اپنی تقاریر میں اس طرح کے مباحث کو موضوع بحث نہیں بنا نا چاہئے؟کیا جمعہ و نماز کے بعد ہونے والی تقاریر و مواعظ میں عوام کو ان امور کی طرف نشاندھی نہیں ہونی چاہئے؟۔۔۔؟۔۔۔؟ یقینا ہونی چاہئے اور خوب ہونی چاہئے۔ کیونکہ اگرنہیں ہوتی ہے تو علاقے کی تباہی و بر بادی اور پسمناندگی و گھٹیاپن کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم ہیں۔ آج ہمیں نہ صرف اپنے افکار نظریات پر نظرثانی کرنے یعنی اپنی ThinkingپرRethinking کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں اپنے تعلیمی رویے کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ آج بھی اگر ہم اپنی قدیم روش پر قائم رہے تو یقین جانئے کہ ہمیں کبھی بھی کوئی کامیابی ہاتھ نہیں آسکتی ہے اور ہماری آئندہ نسلیں ان سے بھی بد ترحالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو ں گی جن سے آج ہم گزر رہے ہیں۔ لیکن اس کے بر خلاف اگرہم نے اپنا رویہ بدل لیا اور ہم نے بھی زمانے کے شانہ بشانہ چلنا سیکھ لیا تو یقین مانئے کہ ہمارے لیے بھی وہی مواقع، کامیابیاں و کامرانیاں اور عزت و اقتدارہیں جو ہم دیگرلوگوں، دیگر جماتوں، دیگر تنظیموں اور دیگر قوموں کے یہاں رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی
اس تعلق سے بہت ساری مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن اس کی سب سے عمدہ مثال ہندوستان ہی کے وہ علاقے اور مسلم خانوادے ہیں جن میں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کیاجاتا ہے اور ان کے بچے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہندوستان کے مختلف اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں بالخصوص جامعہ ملیہ اسلامیہ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد، الہ آباد یونیور سٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی یا پھر اس جیسی دیگر اعلیٰ تعلیم گاہوں کی طرف اپنا رخ کر رہے ہیں اور اپنے عزائم میں کامیاب ہو رہے ہیں او ر پھر وہاں سے نکلنے کے بعد وہ مختلف مدرسوں، اسکولو ں،کالجوں، یونیورسٹیوں، دفتروں، اوراسپتالوں وغیرہ میں اپنے اپنے اعتبار سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور دیگر اقوام کی طرح وہ بھی ایک باعزت سماجی زندگی گزار ر ہے ہیں۔
لیکن غیر مسلمین کے مقابلے میں ابھی بھی ان مسلم لڑکیوں اور خواتین کی تعداد گنی چنی ہے اور گاؤں دیہات میں تو ان کا معاملہ ہی کچھ اور ہے بلکہ اب بھی وہ مدرسوں سے باہر نہیں نکل پا رہی ہیں۔ایک وقت تھا جب کہ گاؤں دیہات میں ناظرہ قران تک کی تعلیم حاصل کرلینے پرلڑکیوں کوتعلیم یافتہ تصور کیا جاتا تھا مگر آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ان کے تئیں یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ انھیں کسی طرح مدرسوں تک بھیج دینا ہی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوشی خیال کیا جاتا ہے۔یہ معاملہ بھی پورے ہندوستان کے گاؤں ودیہات کا نہیں ہے بلکہ یہ تو محض اس علاقے اور صوبے کی داستان پارینہ ہے جہاں سے ہمار ا اور آپ کا تعلق ہے اور جہاں کے لوگ ہمہ وقت ہر طرح کے جائز و ناجائز کام انجام دینے کے لیے تیار رہتے ہیں مگر جب بچوں کو اسکول بھیجنے کی بات آتی ہے تو اس کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ دیگر صوبوں کے دیہی علاقوں میں بھی تعلیم کے تعلق سے کم و بیش شہروں جیسا ہی حال دیکھنے کو ملتا ہے۔ بلکہ ایک اعدادوشمار کے مطابق صوبہء کیرالہ کا تعلیمی تناسب صد فی صد ہے۔ ظاہر سی بات ہے اس صوبے میں بڑے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ گاؤں ودیہات بھی شامل ہیں۔ اسی طرح وہاں تعلیم کے باد ل لڑکے اور لڑکیا ں دونوں ہی پر یکساں طور پر برستے ہیں۔ جبکہ اس کے برخلاف شمالی ہندوستان میں صرف چار سے چھ فی صد ہی خواتین خواندہ ہیں۔ اس تناسب کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے علاقے کو دیکھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارے یہاں تعلیم نسواں کو کس قدر فروغ حاصل ہے اور ہماری مسلم خواتین تعلیمی، سماجی اور رفاہی کاموں میں کس حد تک کار گر و کا ر آمد ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج ہم جس وقت اور زمانے میں سانس لے رہے ہیں وہ پہلے کے مقابلے میں بہت بدل چکا ہے اور اس بدلے ہوئے زمانے اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کی اہمیت وافادیت کو سمجھیں اور کتاب و سنت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انھیں بھی دنیاوی ا ور اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کریں۔ آج اگر ہم اپنے سماج کو ظلمت وجہالت اور غلط رسم ورواج سے پاک و صاف کرناچاہتے ہیں تواس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعلیم مرَداں کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں کی طرف توجہ دیں اور لڑکوں کے شانہ بہ شانہ لڑکیوں کو بھی ہرطر ح کے علوم و فنون سے روشناس کرائیں خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی اورپیشہ ورانہ ہو یا غیر پیشہ ورانہ،تاکہ وہ بھی ہر طرح کے علوم وفنون کے میدان میں آگے بڑھ سکیں او ر خود کو لڑکوں کی طرح ہمارے سماج و معاشرہ کے لیے مفید اور کار آمد ثابت کرسکیں اوراپنے گھروخاندان کے اوپر ایک بوجہ نہ بن کے اپنے آپ کو اقبال کے اس شعر کے مصداق ٹھرا سکیں؎
وجو د ِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی میں سوز دروں
اور بقول اکبر الہ آبادی؎
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہو وہ بے شعور ہے
٭ ٭ ٭