از:عبد السلام صلاح الدین مدنی
داعی اسلامک دعوہ سینٹر؛میسان۔طائف
الحمد لله سامع كل شكوى، ورافع كل بلوى،الذي يعلم السر وأخفى، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الأسماء الحسنى والصفات العلى، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، صلى الله وسلم عليه و بارك فيه وعلى آله وصحبه أولي الأحلام والنهى–
اللہ تعالی کا ارشاد ہے 🙁 وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ)[سورۃ الشوری :30][ترجمہ ٔ آیت:اور جو بھی تمھیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے در گزر کرجاتا ہے]مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اے مسلمانو!تمہیں جو بھی مصیبت پیش آتی ہے,جن دکھ و الم کا سامنا ہوتا ہے وہ تمہارے اپنے کیے کا نتیجہ ہے ؛اسی لیے اللہ تعالی کا ارشاد ہے 🙁 ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ)[سورۃ الروم:41][ترجمہ ٔ آیت:]مطلب یہ ہے کہ بحر و بر ,خشک و تر,زمین و زماں میں جو فساد و فتنہ برپا ہوتا ہے وہ بنی آدم کے اپنے عملوں اور کرتوت کا نتیجہ ہے ۔
لقمان حکیم سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ نے حکمت و دانائی کہاں سے سیکھی؟ کہنے لگے: ’’نادانوں سے کہ جب وہ کوئی نادانی والا عمل کرتے، میں فوراً اپنا محاسبہ کرتا کہ کہیں مجھ میں تو یہ عمل نہیں پایا جاتا؟ اگر میرے اندر وہ عادت ہوتی تو میں فوراً اُسے چھوڑ دیتا۔ ‘‘
سبحان اللہ! ذرا اندازہ کیجیے کہ خود احتسابی کیسے ہوتی ہے اور کیسے کرنا چاہئے؛خلیفہ ٔ دوم حضرت عمر بن الخطاب ۔رضی اللہ عنہ۔فرمایا کرتے تھے:( حاسِبوا أنفسَكم قبل أن تُحاسَبوا ، وزِنوا أنفسَكم قبل أن تُوزنوا ، فإنَّه أخفُّ عليكم في الحسابِ غدًا أن تُحاسِبوا أنفسَكم اليومَ وتزيَّنوا للعَرضِ الأكبرِ)[کتاب الزہد از امام احمد:633,محاسبۃ النفس از ابن الدنیا:ص/2][ترجمہ : حساب لیے جانے سے پہلے پہلے اپنا حساب کر لو، کیوں کہ جس شخص نے دنیا میں اپنا محاسبہ کر لیا، روزِ قیامت اس کا حساب آسان لیا جائے گا,لہذا اپنا محاسبہ کرو اور بڑی پیشی کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھو]
اس وقت ہم زمین پر مختلف قسم کی برائیاں؛معاصی؛بد کاریاں؛ظلم و ستم اور مصائب و آلام دیکھتے ہیں ؛جھیلتے ہیں ,جن کی بنیاد پر اللہ تعالی ہمیں مختلف قسم کے عذاب سے دو چار کر رہا ہے, وجہ کیا ہے,یہ پریشانیاں اور یہ آزمائشیں کیوں آتی ہیں ؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں
(1)جاننا چاہئے کہ مصائب و پریشانیاں اللہ کا نظام الہی ہیں ؛اللہ تعالی اپنی قدرت کے اظہار کے لیے بندوں کو مصیبت سے دو چار کرتا رہتا ہے ؛اللہ تعالی کا فرمان ہے 🙁وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِين)[سورۃ البقرہ:155][ترجمہ: اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آز مائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو]نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے:( أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ)[سورۃ البقرہ:214][ترجمہ ٔ آیت: کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تمہیں وہ (حالات) پیش نہیں آئے جو ان لوگوں کو پیش آئے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور ہلا دیے گئے یہاں تک کہ رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب ہوگی! سنو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے]
(2)یہ بھی جاننا چاہئے کہ ابتلا و آزمائش صرف ذلیل و رسوا اور انتقام لینے کے لیے ہی نہیں ہوتی ہیں ؛فرمان باری تعالی ہے:( وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ، كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيم)[سورۃ الفجر:16۔17][ترجمہ: لیکن انسان تو ایسا ہے کہ جب اسے اس کا رب آزماتا ہے پھر اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے؛ہرگز نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے۔]
بلکہ انسان کی تمحیص و تطہیر اور گناہوں سے مانجھنا بھی مقصود ہوتاہے؛ارشاد باری تعالی ہے:( مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ)[سورۃ آل عمران:179][ترجمہ ٔ آیت: اللہ مسلمانوں کو اس حالت پر رکھنا نہیں چاہتا جس پر تم اب ہو جب تک کہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے]نیز فرمایا:( وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ)[سورۃ آل عمران:154][ترجمہ ٔ آیت: اور تاکہ اللہ آزمائے جو تمہارے سینوں میں ہے اور تاکہ اس چیز کو صاف کردے جو تمہارے دلوں میں ہے، اور اللہ دلوں کے بھید جاننے والا ہے]
(3)کفارہ ٔ ذنوب :کبھی کبھی یہ آزمائشیں اور پریشانیاں گناہوں کے کفارہ کا سبب بھی ہوتی ہیں؛نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(ما يزال البلاء بالمؤمن والمؤمنة في نفسه وولده وماله حتى يلقى الله وما عليه خطيئة)[صحیح ترمذی حدیث نمبر/2399,مسند احمد حدیث نمبر/8759][ترجمہ: مومن اپنی جان، اولاد اور مال کے معاملے میں ہمیشہ آزمائش میں رہتا ہے، یہاں تک جب اللہ تعالیٰ سے اس کی ملاقات ہوتی ہے تو (ان آزمائشوں کی وجہ سے) اس کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں].
نیز آپﷺ نے فرمایا:(إذا أراد الله بعبده الخير عجَّل له العقوبة في الدنيا، وإذا أراد بعبده الشر أمسك عنه بذنبه حتى يوافي به يوم القيامة)[صحیح ترمذی حدیث نمبر/2396,بغوی کی شرح السنۃ حدیث نمبر/1435][ترجمہ ٔ حدیث: اللہ جب اپنے بندہ کے ساتھ خیر کا معاملہ کرنے کا ارادہ کرتاہے تو اسے دنیا ہی میں جلدی سزا دیدیتاہے اوراگر اللہ اپنے بندے کے ساتھ خیر کرنا نہیں چاہتا تو اس کے گناہوں کے باوجود اس سے دست کش رہتاہے (اس کی گرفت نہیں کرتا) پھر قیامت کے دن اس کا اسے بدلہ دیتاہے]
نیز حضرات ابو سعيد خدري و ابو ہریرہ رضي الله عنهما فرماتے ہیں کہ نبی ٔ اکرمﷺ کا ارشاد ہے:(ما يصيب المسلم من نصب ولا وصب ولا هم ولا حزن ولا أذى ولا غم حتى الشوكة يشاكها إلا كفر الله بها من خطاياه)[صحیح بخاری حدیث نمبر/5642,صحیح مسلم حدیث نمبر/6568][ ترجمۂ حدیث:مسلمان کو جو بھی دکھ، گھٹن، حزن، ملال اور تکلیف و غم پہنچتا ہے یہاں تک کہ اگر کانٹا ہی لگ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں ضرور اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے]؛نیز حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: (يا رسولَ اللهِ ! أيُّ الناسِ أشدُّ بلاءً ؟ قال : الأنبياءُ ، ثم الصالحون ، ثم الأمثلُ فالأمثلُ ، يُبتلى الرجلُ على حسبِ دِينِه ، فإن كان في دِينِه صلابةٌ ، زِيدَ في بلائِه ، وإن كان في دِينِه رِقَّةٌ ، خُفِّفَ عنه ولا يزالُ البلاءُ بالمؤمنِ حتى يمشي على الأرضِ وليس عليه خطيئةٌ)[صحیح الجامع للألبانی حدیث نمبر/996][میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول !لوگوں میں سب سے زیادہ اورسب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ تو آپ نے فرمایا:انبیاء کی، پھر صالحین کی، پھر جو اُن کے مثل اوران سے مشابہت رکھنے والے ہوتے ہیں، انسانوں کی آزمائش اس کے ایمان کے بقدر کی جاتی ہے، اگر اس کے دین میں سختی ورسوخ ہوتاہے تو اس کی آزمائش میں اضافہ کردیاجاتاہے اوراگر اس کے دین (ایمان) میں خفت ہوتی ہے تو اس کی آزمائش میں تخفیف کردی جاتی ہے اوراس کی آزمائش ہلکی کردی جاتی ہے اوربندوں کی آزمائش کی جاتی رہتی اوراسے طرح طرح کے مصائب ومشکلات میں مبتلا کیاجاتارہتاہے یہاں تک کہ وہ روئے زمین پر اس طرح چلتا پھرتاہے کہ اس کے اندر کوئی خطا ومعصیت باقی نہیں رہتی]
(4)مصائب محبت الہی کا سبب ہوتی ہیں:کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پریشانیاں اور دقتیں اس لیے آتی ہیں کہ اللہ تعالی اس بندے سے محبت کرتا ہے ,نبی ٔ کریمﷺ کا یہ فرمان ملاحظہ فرمائیں:( إنَّ عِظمَ الجزاءِ مع عِظمِ البلاءِ ، وإنَّ اللهَ إذا أحبَّ قومًا ابتَلاهم ، فمَن رَضي فله الرِّضَى ، ومَن سخِط فله السَّخطُ)[صحیح ترمذی حدیث نمبر/2396][ترجمہ ٔ حدیث :جس قدر بڑی بلا آئے گی اتنی ہی بڑا صلہ ملے گا, اللہ جب کسی قوم کو چاہتااورپسند کرتاہے تو اسے آزمائش میں ڈالتاہے، بندہ جب اس پر راضی رہتاہے تو اللہ اس سے راضی وخوش ہوجاتاہے اوربندہ اگر اس پر ناراض ہوتااورخفگی کا اظہار کرتاہے تو اللہ اس سے ناراض وخفا ہوجاتاہے]
اس حدیث سے اندازہ ہوتاہے کہ محض بیماری، پریشانی، آزمائش، حزن وملال اوررنج والم، سزا وعقاب نہیں بلکہ سزا وعقاب اُس آزمائش پر صبر نہ کرنے میں ہے، یہاں تک کہ اگر مصائب وآزمائش میں اس طرح گھرا ہو اور یقین سے کہا جاسکتاہو کہ یہ اس کے گناہ کی سزا ہے اور اسے بطور عقاب اس میں مبتلا کیاگیاہے تو بھی اسے عذاب الٰہی سے تعبیر کرنا مناسب نہیں ۔
مثال کے طور پر کوئی ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہوگیا اورڈاکٹروں نے اس کی وجہ حرام وناجائز طریقہ پر جنسی تعلق قائم کرنا بتایا اورشہوت پرستی وزنا کاری وبدکاری کو اس کا سبب قرار دیا تو بھی یہ عذاب نہیں بلکہ آزمائش وامتحان ہو سکتا ہے,اگر بندہ یہ تصور کرلے تو اس سے اس کی تکلیف ہلکی ہوجائے گی،یہ اس وجہ سے کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب اوروہاں کی سختی سے بہت ہلکی وآسان ہے؛یہاں کی سزا روح کو پاک کرنے اوربندے پر رحم وکرم کرنے کیلئے ہے تاکہ بندہ اس کے بعد گناہ سے پہلے جس طرح تھا اس سے زیادہ بہتر طریقہ پر پاک وصاف ہوجائے، پہلے وہ اللہ سے جتنا قریب تھا اس سے زیادہ قریب ہوجاتا، پہلے جتنا صاف تھا اس سے زیادہ صاف ہوجاتا اورنکھر جاتاہے، پہلے جتنا پرہیزگار تھا اس سے زیادہ متقی وپرہیزگار ہوجاتاہے,دوسری بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ آزمائش محبت الہی کا نتیجہ ہوکہ رب نے اسے اس لئے کسی دقت و پریشانی میں مبتلا کیا تاکہ اس کی محبت کا امتحان لے اور دیکھے کہ بندہ صبر کرتا ہے یا نہیں ؛امام ابن القیم ۔رحمہ اللہ ۔اس باب میں انتہائی نفیس بات لکھتے ہیں؛فرماتے ہیں:( كَانَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتُسْقِيَ بَطْنُهُ ، فَبَقِيَ مُلْقًى عَلَى ظَهْرِهِ مُدَّةً طَوِيلَةً، [ كانت ثلاثين سنة ] ، لَا يَقُومُ وَلَا يَقْعُدُ . وَقَدْ نُقِبَ لَهُ فِي سَرِيرِهِ مَوْضِعٌ لِحَاجَتِهِ !!فَدَخَلَ عَلَيْهِ مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشِّخِّيرُ ، فَجَعَلَ يَبْكِي لِمَا رَأَى مِنْ حَالِهِ ، فَقَالَ لَهُ عِمْرَانُ: لِمَ تَبْكِي؟ ، فَقَالَ: لِأَنِّي أَرَاكَ عَلَى هَذِهِ الْحَالِ الْفَظِيعَةِ ، فَقَالَ: لَا تَبْكِ ، فَإِنَّ أَحَبَّهُ إِلَيَّ أَحَبُّهُ إِلَيْهِ ، وَقَالَ: أُخْبِرُكَ بِشَيْءٍ ، لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَكَ بِهِ ، وَاكْتُمْ عَلَيَّ حَتَّى أَمُوتَ ، إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَزُورُنِي فَآنَسُ بِهَا ، وَتُسَلِّمُ عَلَيَّ فَأَسْمَعُ تَسْلِيمَهَا.
وَلَمَّا قَدِمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى مَكَّةَ – وَقَدْ كُفَّ بَصَرُهُ – جَعَلَ النَّاسُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ لِيَدْعُوَ لَهُمْ ، فَجَعَلَ يَدْعُو لَهُمْ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ السَّائِبِ: فَأَتَيْتُهُ وَأَنَا غُلَامٌ ، فَتَعَرَّفْتُ إِلَيْهِ ، فَعَرَفَنِي ، فَقُلْتُ: يَا عَمُّ ، أَنْتَ تَدْعُو لِلنَّاسِ فَيُشْفَوْنَ ، فَلَوْ دَعَوْتَ لِنَفْسِكَ لَرَدَّ اللَّهُ عَلَيْكَ بَصَرَكَ ، فَتَبَسَّمَ. ثُمَّ قَالَ: يَا بُنَيَّ، قَضَاءُ اللَّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ بَصَرِي)[مدارج السالکین 2/317][ترجمہ:]
(5)آفات و بلیات گناہوں کا سبب بھی ہیں:آپ نے شروع میں ملاحظہ فرمایا کہ فساد و شر ابن آدم کی کثرت معاصی کی بنیاد پر وجود پژیر ہوتا ہے,کثرت معاصی کی بنیاد پر بارشیں بھی روک لی جاتی ہیں,متعدد آفات میں بھی مبتلا کیا جاتا ہے؛بھانت بھانت کی بلائیں بھی رونما ہوتی ہیں؛یہ حدیث ملاحظہ فرمائیے جس سے بہت حد تک مطلع بے غبار ہوگا؛نبی کریمﷺ نے فرمایا:( يا مَعْشَرَ المهاجرينَ ! خِصالٌ خَمْسٌ إذا ابتُلِيتُمْ بهِنَّ ، وأعوذُ باللهِ أن تُدْرِكُوهُنَّ : لم تَظْهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قَطُّ ؛ حتى يُعْلِنُوا بها ؛ إلا فَشَا فيهِمُ الطاعونُ والأوجاعُ التي لم تَكُنْ مَضَتْ في أسلافِهِم الذين مَضَوْا ، ولم يَنْقُصُوا المِكْيالَ والميزانَ إِلَّا أُخِذُوا بالسِّنِينَ وشِدَّةِ المُؤْنَةِ ، وجَوْرِ السلطانِ عليهم ، ولم يَمْنَعُوا زكاةَ أموالِهم إلا مُنِعُوا القَطْرَ من السماءِ ، ولولا البهائمُ لم يُمْطَرُوا ، ولم يَنْقُضُوا عهدَ اللهِ وعهدَ رسولِه إلا سَلَّطَ اللهُ عليهم عَدُوَّهم من غيرِهم ، فأَخَذوا بعضَ ما كان في أَيْدِيهِم ، وما لم تَحْكُمْ أئمتُهم بكتابِ اللهِ عَزَّ وجَلَّ ويَتَخَيَّرُوا فيما أَنْزَلَ اللهُ إلا جعل اللهُ بأسَهم بينَهم)[ابن ماجہ حدیث نمبر/4019,حاکم حدیث نمبر/8623,المعجم الأوسط از طبرانی حدیث نمبر/4671,صحیح الجامع حدیث نمبر/7978][ترجمہ ٔ حدیث : مہاجرو! پانچ (آزمائشیں) ہیں جن میں تم مبتلا ہو گے اور میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم ان کو پاؤ: (۱) جب کسی قوم میں بدکاری عام ہو جاتی ہے اور وہ اعلانیہ اس کا ارتکاب کرتے ہیں تو ان میں طاعون اور مختلف بیماریاں، جو ان کے اسلاف میں نہیں تھیں، پھیل جاتی ہیں۔ (۲) جب لوگ ماپ تول میں کمی کرتے ہیں تو انہیں قحط سالیاں، سخت تکلیفیں اور بادشاہوں کے ظلم دبوچ لیتے ہیں۔ (۳) جب لوگ زکوٰۃ ادا کرنے سے رک جاتے ہیں تو آسمان سے بارش کا نزول بند ہو جاتا ہے اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان پر بارش نازل نہ ہوتی۔ (۴) جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے عہد و پیمان کو توڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمنوں جن کا تعلق ان کے غیروں سے ہوتا ہے کو مسلط کر دیتا ہے جو ان سے ان کے بعض اموال چھین لیتے ہیں اور (۵) جب مسلمانوں کے حکمران اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے اور اس کے نازل کردہ قوانین کو ترجیح نہیں دیتے تو اللہ تعالیٰ اس کو آپس میں لڑا دیتا ہے] اس حدیث پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ نظر دوڑائیے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ گناہوں کے سبب اللہ تعالی مختلف قسم کی پریشانیوں؛دقتوں؛مصائب؛آلام و رنج میں اپنے بندوں کو مبتلا کرتا ہے ؛نیز اس حدیث ِ عظیم پر غور فرمائیں جس میں آپ ﷺ نے سنگ اسود کے کالے ہونے کا تذکرہ فرمایا ہے؛آپﷺ کا ارشاد ہے:( نزل الحجر الأسود من الجنة وهو أشد بياضا من اللبن فسودته خطايا بني آدم)[مسند احمد حدیث نمبر/2792,ترمذی حدیث نمبر/877,صحیح الترغیب حدیث نمبر/1146][ترجمہ ٔ حدیث:سنگ اسود جنت سے اترا (ہوا پتھر)ہے,جب وہ اترا تھا تو دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا ,آدم کے بیٹوں کے گناہوں نے اسے کالا کر دیا ]صاحب تحفۃ الأحوذی علامہ مبارک پوری فرماتے ہیں:( قال في ” المرقاة ” : أي : صارت ذنوب بني آدم الذين يمسحون الحجر سببا لسواده ، والأظهر حمل الحديث على حقيقته إذ لا مانع نقلاً ولا عقلاً)[تحفۃ الأحوذی 3/525][مرقاۃ میں فرماتے ہیں:بنو آدم (جو سنگ اسود کو چھوتے ہیں) کے گناہ کی وجہ یہ کالا ہوگیا اور صحیح بات یہی ہے کہ اسے اپنی حقیقت پر محمول کیا جانا چاہئے کیوں کہ نقل و عقل سے ممانعت کی کوئی وجہ نہیں ہے ]مطلب صاف ہے کہ انسانی زندگی میں معاصی خوب اثر انداز ہوتی ہیں
(6)آزمائشیں مؤمنوں کے درجات کی بلندی کا سبب ہیں؛تاکہ پتہ چلے کہ مؤمن و منافق میں تفریق کیسے ہوتی ہے؛ تاکہ معلوم ہو کہ کون مؤمن ہے اور کون منافق و کافر ؟:اللہ تعالی کا ارشاد ہے:( لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ)[سورۃ آل عمرا:186][ترجمہ ٔ آیت: البتہ تم اپنے مالوں اور جانوں میں آزمائے جاؤ گے، اور البتہ پہلی کتاب والوں اور مشرکوں سے تم بہت بدگوئی سنو گے، اور اگر تم نے صبر کیا اور پرہیزگاری کی تو یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے]
(7)مصائب و آلام تربیتِ الہی کا سبب ہیں :مصائب و آلام کو ایک بندہ مؤمن اس نگاہ سے بھی دیکھتا ہے اور دیکھنا چاہئے کہ یہ خوش حالی و بدحالی میں تربیتی پہلو بھی ہوتاہے جیسا کہ حدیث گزر چکی ہے
لہذا ضروری ہے کہ ہم اپنے اعمال اور کرتوت کا جائزہ لیں ,اپنے کردار کا محاسبہ کریں؛اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں ؛روئیں گڑگڑائیں ۔
لہذا آئیے چند ایسے امور کا انتہائی اختصار و اجمال کے ساتھ تذکرہ کیا جائے جو اس وقت ہمارے کرنے کےہیں :
صبر و شکیبائی :صبر و تحمل مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے؛عظیم سلاح ہے؛صبرکے ذریعے کٹھن سے کٹھن پریشانی چکناچور اور دیکھتے ہی دیکھتے کافور ہوجاتی ہے,صبر کا صلہ بھی بڑا عظیم ہے اور یہ ایک عظیم عبادت ہے؛نبی کریمﷺ نے فرمایا:( عَجَبًا لأَمْرِ المُؤْمِنِ، إنَّ أمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وليسَ ذاكَ لأَحَدٍ إلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إنْ أصابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكانَ خَيْرًا له، وإنْ أصابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكانَ خَيْرًا له)[صحیح مسلم حدیث نمبر/2999][ترجمہ ٔ حدیث: ایمان والوں کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کا پورا معاملہ خیر ہی خیرہے یہ صرف ایمان والوں کی بات ہے، اگر اسے خوشی وکشائش حاصل ہوتی ہے اوروہ اس پر اللہ کا شکر بجالاتاہے تو یہ اس کیلئے خیر ہے اوراگر اسے کوئی تکلیف ومصیبت پہنچتی اوروہ اس پر صبر کرتاہے تو یہ بھی اس کیلئے خیر وبہتر ہے]
اللہ اکبر! اس سے بڑی بشارت کیا ہو سکتی ہے ایک فرد ِ مؤمن کے لئے کہ مومن ہمیشہ خیر ہی کے ساتھ جیتا اور مرتا ہے,اس کے سارے معاملات خیر پر مبنی ہوتے ہیں؛خوش حالی میسر ہوتی ہے تب بھی خیر اور بد حالی اور زبوں حالی ہاتھ آتی ہے تب بھی خیر ؛یعنی خیر ہی خیر ,بھلائی ہی بھلائی ۔
لہذا جب پریشانیاں آئیں؛دکھوں کا سامنا ہو او ر آزمائشیں دبوچ لیں تو بندہ ٔ مؤمن کو صبر سے کام لینا چاہئے اور جاننا چاہئے کہ آزمائشیں عارضی ہیں ؛ہمیشہ رہنے والی نہیں ہیں؛اسے یہ بھی جاننا چاہئے اور اس بات پر ایمان لانا چاہئے کہ 🙁 فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا٭إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا)[سورۃ الشرح:5۔6][] علامہ ابن القیم فرماتے ہیں:( قوله تعالى : ( فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً ) فالعسر – وإن تكرر مرتين – فتكرر بلفظ المعرفة ، فهو واحد ، واليسر تكرر بلفظ النكرة ، فهو يسران ، فالعسر محفوف بيسرين ، يسر قبله ، ويسر بعده ، فلن يغلب عسر يسرين)[بدائع الفوائد 2/155][]؛نبی ٔ کریمﷺ فرماتے ہیں:( وَاعْلَمْ أَنَّ فِي الصَّبْرِ عَلَى مَا تَكْرَهُ خَيْرًا كَثِيرًا ، وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا))[مسند احمد 5/19؛حافظ ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں:حسن جید؛دیکھئے:جامع العلوم و الحکم 1/459][ناپسندیدہ چیز میں صبر کرنا بہت بڑی بھلائی ہے اور صبر کے ساتھ ہی کامیابی ہے,اور پریشانی کے بعد آسانی ہے ]
(2)توبہ و استغفار؛رجوع و انابت الی اللہ :ایک مومن کا دوسرا بڑا ہتھیار اللہ کے حضور حاضر ہوکر ندامت و شرمندگی کے آنسو کی چند بوندیں ہے؛ اللہ کے نبی ٔ کریمﷺ کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں:( كلُّ ابنِ آدمَ خطَّاءٌ ، وخيرُ الخطَّائينَ التَّوَّابونَ)[ترمذی حدیث نمبر/2499,مسند احمد حدیث نمبر/13049,ابن ماجہ حدیث نمبر/4251][ترجمہ ٔ حدیث:ابن آدم سارے کے سارے گنہگار ہیں اور سب سے بہتر گنہگار توبہ کرنے والے ہوتے ہیں]؛اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جتنا بھی معاصی کا ارتکاب کر لے ؛جب توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالی بے تحاشا خوش ہوتا ہے؛درج ذیل حدیث نبوی ملاحظہ فرمائیے:( إنَّ المُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأنَّهُ قاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخافُ أنْ يَقَعَ عليه، وإنَّ الفاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبابٍ مَرَّ علَى أنْفِهِ فقالَ به هَكَذا، قالَ أبو شِهابٍ: بيَدِهِ فَوْقَ أنْفِهِ. ثُمَّ قالَ: لَلَّهُ أفْرَحُ بتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِن رَجُلٍ نَزَلَ مَنْزِلًا وبِهِ مَهْلَكَةٌ، ومعهُ راحِلَتُهُ، عليها طَعامُهُ وشَرابُهُ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ فَنامَ نَوْمَةً، فاسْتَيْقَظَ وقدْ ذَهَبَتْ راحِلَتُهُ، حتَّى إذا اشْتَدَّ عليه الحَرُّ والعَطَشُ أوْ ما شاءَ اللَّهُ، قالَ: أرْجِعُ إلى مَكانِي، فَرَجَعَ فَنامَ نَوْمَةً، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فإذا راحِلَتُهُ عِنْدَهُ)[بخاری حدیث نمبر/6308,صحیح مسلم حدیث نمبر/2744][ترجمہ ٔ حدیث : مومن اپنے گناہوں کو ایسا محسوس کرتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں وہ اس کے اوپر نہ گرجائے اور بدکار اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح ہلکا سمجھتا ہے کہ وہ اس کے ناک کے پاس سے گزری اور اس نے اپنے ہاتھ سے یوں اس طرف اشارہ کیا۔ ابوشہاب نے ناک پر اپنے ہاتھ کے اشارہ سے اس کی کیفیت بتائی پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے کسی پرخطر جگہ پڑاؤ کیا ہو اس کے ساتھ اس کی سواری بھی ہو اور اس پر کھانے پینے کی چیزیں موجود ہوں۔ وہ سر رکھ کر سو گیا ہو اور جب بیدار ہوا ہو تو اس کی سواری غائب رہی ہو۔ آخر بھوک و پیاس یا جو کچھ اللہ نے چاہا اسے سخت لگ جائے وہ اپنے دل میں سوچے کہ مجھے اب گھر واپس چلا جانا چاہیے اور جب وہ واپس ہوا اور پھر سو گیا لیکن اس نیند سے جو سر اٹھایا تو اس کی سواری وہاں کھانا پینا لیے ہوئے سامنے کھڑی ہے تو خیال کرو اس کو کس قدر خوشی ہوگی]
یہ ہتھیار انتہائی سود مند اور کارگر ثابت ہوتا ہے,اس سے مصیبتیں ٹلتی ہیں؛پریشانیاں دور ہوتی ہیں اور وبائیں رفو چکر ہوجاتی ہیں؛اللہ تعالی کا ارشاد ہے 🙁 وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُون)[سورۃ الأنفال:33][ترجمہ ٔ آیت: اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں ]
(3)صدقہ و خیرات کا اہتمام :وقت ِ پریشانی صدقہ و خیرات کا بھی اہتمام ہونا چاہئے ؛صدقہ و خیرات کی بڑی برکتیں ہیں,اس کے بے تحاشا ثمرات و اثرات ہیں(جن کے استقصاء کا یہ موقعہ نہیں ہے)البتہ امام ابن القیم کے قول سے اس کو مرصع کرتے ہیں؛آں رحمہ اللہ فرماتے ہیں 🙁 للصدقة تأثيرٌ عجيب في دفع أنواع البلاء، ولو كانت من فاجر أو ظالم، بل مِن كافر، فإن الله تعالى يدفع بها عنه أنواعًا من البلاءِ، وهذا أمرٌ معلوم عند الناس، خاصتهم وعامتهم، وأهل الأرض كلُّهم مُقِرُّون به؛ لأنهم قد جرَّبوه)[الوابل الصیب :ص/31][ترجمہ:]نیز فرماتے ہیں:( في الصدقة فوائدُ, ومنافع لا يحصيها إلا الله؛ فمنها أنها تقي مصارعَ السوء، وتدفع البلاء, حتى إنها لتدفَعُ عن الظالم)[عدۃ الصابرین ص/254][ترجمہ:صدقہ کرنے میں بیشمار فوائد ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ,ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں,بلائیں ٹلتی ہیں یہاں تک کہ ظالم سے بھی دور ہوتی ہیں]
(4)دعا کا اہتمام:دعا مؤمن کا بہت بڑا ہتھیار ہے؛اس کے بڑے فضائل ہیں؛اس کی بے تحاشا برکات و اثرات و ثمرات ہیں (جس کے ذکر کا یہ محل و موقعہ نہیں ہے)خصوصی طور پر بوقت ِ کرب و بلا دعائے قنوت کا اہتمام ہونا چاہئے
(5)نمازوں کا اہتمام :نماز کی کیا فضلیت و اہمیت و عظمت و برکات ہیں؛بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛اس کے فضائل و برکات واضح و ظاہر ہیں؛نبی ٔ کریمﷺ کے بارے میں حضرت حذیفہ ۔رضی اللہ عنہ۔ فرماتے ہیں 🙁 كانَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ إذا حزبَهُ أمرٌ صلَّى)[صحیح ابو داؤد حدیث نمبر/1319][ جب رسول اللہ ﷺ کو کوئی کام مشکل اور غم میں ڈال دیتا تو آپ نماز پڑھاکرتے یعنی فوراً نماز میں مشغول ہوجاتے۔]؛اللہ تعالی کا ارشاد عالی ہے:( وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ)[سورۃ البقرۃ:45][ترجمہ ٔ آیت: اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو یہ چیز شاق ہے مگر ڈر رکھنے والوں پر],نیز فرمایا:( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ)[سورۃ البقرۃ:145][ ترجمہ ٔ آیت:اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، اللہ تعالی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے]۔
بلا شبہ نماز دین کا اہم ستون اور اسلام کا دوسرا رکن ہے ، یہ سکون حاصل کرنے، پریشانیاں حل کرنے، مصیبتوں سے نجات پانے اور اللہ سے قریب و نزدیک ہوکر اس سے مدد مانگنے کا اہم ترین ذریعہ ہے؛نماز کو عربی میں صلاۃ کہا جاتا ہے جو صلہ اور تعلق جوڑنے کے لئے مستعمل ہے یعنی نماز بندے کو اللہ سے جوڑتی ہے ,جب بھی بندہ پریشانیوں میں گھرے,مصائب سے دو چار ہو ,اسے نماز کی طرف متوجہ ہوجانا چاہئے۔
(6)نمازوں میں دعائے قنوت کا اہتمام :جب مسلمانوں پر عام بلائیں ٹوٹ پڑتی ہوں,مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہوں,جور و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں تو دعائے قنوت کا اہتمام ہونا چاہئے ؛نبی ٔ کریمﷺ سے ثابت ہے,آپ نے ایسا کیا ہے اور امت کو اس کی تعلیم بھی دی ہےآپﷺ کے بارے میں آتا ہے,یہاں ایک دو حدیثیں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں
(أ) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں :قنت النبي صلى الله عليه وسلم بعد الركوع شهراً يدعو على رعل وذكوان ويقول عصية عصت الله ورسوله ) [بخاری حدیث نمبر/4094][نبی ٔ اکرمﷺ پورے ایک ماہ رعل,ذکوان پر بد دعا فرماتے تھے اور فرماتے تھے:عصیہ نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی ہے]
(ب)حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں : ( دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم على الذين قتلوا أصحاب بئر معونة ثلاثين غداة على رعل وذكوان وعصية عصت الله ورسوله ) قال أنس أنزل في الذين قتلوا ببئر معونة قرآن قرأناه ثم نسخ بعد بلغوا قومنا أن قد لقينا ربنا فرضي عنا ورضينا عنه (بخاری حدیث نمبر/2814][ترجمہ ٔ حدیث: اصحاب بئرمعونہ (رضی اللہ عنہم) کو جن لوگوں نے قتل کیا تھا ان پر رسول اللہ ﷺنے تیس دن تک صبح کی نماز میں بددعا کی تھی۔ یہ رعل ‘ ذکوان اور عصیہ قبائل کے لوگ تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جو (70 قاری) صحابہ بئرمعونہ کے موقع پر شہید کر دئیے گئے تھے ‘ ان کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی جسے ہم مدت تک پڑھتے رہے تھے بعد میں آیت منسوخ ہو گئی تھی (اس آیت کا ترجمہ یہ ہے) ”ہماری قوم کو پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے آ ملے ہیں ‘ ہمارا رب ہم سے راضی ہے اور ہم اس سے راضی ہیں۔“]
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ احادیث کی روشنی میں چند باتیں ذکر کر دی جائیں:۔
«قَنَتَ» قنوت سے ماخوذ ہے۔ اس کے متعدد معانی ہیں۔ یہاں مراد ہے قیام کی حالت میں دوران نماز میں دعا کرنا۔ یہ دعا بعد از رکوع ہے۔
«عَليٰ أَحْيَاءٍ» «عَليٰ»، اس جگہ نقصان و ضرر کے لیے استعمال ہوا ہے، یعنی جب کسی کے لیے بدعا کی جائے تو اس موقع پر «دَعَا عَلَيْهِ» بولا جاتا ہے، یعنی فلاں نے فلاں کے لیے بدعا کی۔ اور «أَحْيَاءٍ» جمع ہے «حَيّ» کی جس کے معنی قبیلہ کے ہیں۔ اور یہ قبائل (عہد شکن) رعل، ذکوان، عصیہ اور بنولحان تھے۔ ان کے لیے رسول اللہ ﷺنے بددعا کی، اس لیے کہ آپ نے ان کی درخواست پر پروردگار کے احکام پہنچانے اور تبلیغ اسلام کے لیے ان قبائل نجد کی طرف اپنے ستر قاری اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو بھیجا تھا۔ جب یہ قافلہ مبلغین، بئر معونہ پر پہنچا۔۔۔ اور یہ کنواں یا چشمہ بنی عامر کے علاقہ اور حرہ بنی سلیم کے درمیان واقع تھا بلکہ یہ حرہ بنی سلیم کے زیادہ قریب تھا۔۔۔ تو بنوسلیم کے قبائل کے جھرمٹ میں سے عامر بن طفیل ان کی طرف نکلا۔۔۔ اور یہ قبائل رعل، ذکوان اور عصیہ تھے۔ (جہاں یہ قراء حضرات ٹھہرے ہوئے تھے) وہیں ان قبائل کے لوگوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ ان قاریوں نے بھی اپنی تلواریں نکال لیں اور مد مقابل دشمنوں سے خوب لڑے حتی کہ سب کے سب جام شہادت نوش کر گئے۔ صرف سیدنا کعب بن زید رضی اللہ عنہ زندہ بچے۔ کفار نے انہیں اس حالت میں چھوڑا تھا کہ زندگی کی رمق ابھی ان کے اندر باقی تھی مگر انہوں نے اپنے گمان کے مطابق انہیں مار دیا تھا۔ اللہ نے انہیں زندگی عطا کی اور بالآخر غزوہ خندق میں جام شہادت نوش فرمایا۔ یہ المناک اور دردناک واقعہ غزوہ احد کے چار ماہ بعد 4 ہجری ماہ صفر میں پیش آیا۔ بنولحیان کے حق میں بددعا کی وجہ یہ تھی کہ عضل و قارہ کے قبائل نے نبی اکرم ﷺ سے ایسے (عالم) آدمیوں کا مطالبہ کیا تھا جو انہیں اسلام کی دعوت دے سکیں اور انہیں احکام شریعت کی تعلیم دے سکیں، چنانچہ آپ نے دس عظیم حضرات ان کی جانب بھیجے۔ جب یہ حضرات رجیع تک پہنچے۔۔۔۔۔۔ یہ جگہ رابغ اور جدہ کے درمیان واقع ہے۔۔۔۔ تو ان قبائل کے لوگوں نے ان دس آدمیوں کے ساتھ دھوکا کیا اور بنولحیان کو بھی اشارہ کیا (شہہ دی۔) یہ ہذیل کے قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا۔ یہ سب لوگ ان کی طرف نکل کھڑے ہوئے اور ان کو گھیرے میں لے لیا، چنانچہ ان لوگوں نے دو صحابہ کرام سیدنا خبیب بن عدی اور سیدنا زید بن دثنہ رضی اللہ عنہما کو گرفتار کر لیا اور ان کے علاوہ باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو انہوں نے تہ تیغ کر دیا۔ اور یہ واقعہ بھی ماہ صفر میں پیش آیا۔ نبیٔ اکرم ﷺ کو ان دونوں المناک واقعات کی اطلاع ایک ہی شب میں ملی۔ اس سے نبی ﷺ نہایت ہی افسردہ اور غمگین ہوئے کہ پورا ایک مہینہ ان کے لیے بددعا کرتے رہے۔ اور پھر بددعا کرنا ترک کر دیا۔ اس قسم کی دعائے قنوت کو قنوت نازلہ کہا جاتا ہے۔ فرض نماز میں اس کے علاوہ کوئی قنوت نہیں ہے۔ یہ دعائے قنوت بڑے بڑے المناک اور دردناک واقعات کے ساتھ مخصوص ہے ورنہ نبی ﷺ دعائے قنوت نہیں پڑھتے تھے، الا یہ کہ مسلمانوں کے لیے دعا فرمائیں یا کفار میں سے بدعہد، عہد شکن قسم کے لوگوں کے لیے بد دعا کریں؛نیز قنوت نازلہ کسی نماز کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اسے تمام نمازوں میں پڑھا جا سکتا ہے؛بعض حضرات جو صرف فجر کی نماز کے ساتھ قنوت ِ نازلہ کو خاص کرتے ہیں وہ درست نہیں ہے کیوں کہ اس باب میں وارد احادیث استنادی طور پر ضعیف ہیں [دیکھئے علامہ صفی الرحمن مبارکپوری کی اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام حدیث نمبر:241]
(ج)حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں : (كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول حين يفرغ من صلاة الفجر من القراءة ويكبر ويرفع رأسه سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد ثم يقول وهو قائم اللهم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبي ربيعة والمستضعفين من المؤمنين اللهم اشدد وطأتك على مضر واجعلها عليهم كسني يوسف اللهم العن لحيان ورعلا وذكوان وعصية عصت الله ورسوله ثم بلغنا أنه ترك ذلك لما أنزل ليس لك من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم فإنهم ظالمون ) [صحیح بخاری حدیث نمبر/1540,صحیح مسلم حدیث نمبر/1129][ترجمہ ٔ حدیث: رسول اللہ ﷺجب نماز فجر کی قراءت سے فارغ ہوتے اور (رکوع میں جانے کے لیے) تکبیر کہتے تو سر اٹھانے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد (اللہ نے سن لیا جس نے اس کی حمد کی، اے ہمارے رب! اور ٰحمدتیرے ہی لیے ہے) کہتے، پھر حالت قیام ہی میں آپ فرماتے:“ اے اللہ!ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مومنوں میں سے ان لوگوں کو جنھیں (کافروں نے) کمزور پایا، نجات عطا فرما۔ اے اللہ!قبیلہ مضر پر اپنے روندنے کو سخت کر، ان پر اپنے اس مؤاخذے کو یوسف رضی اللہ عنہ کے زمانے کے قحط کی طرح کر د۔اے اللہ! الحیان، رعل، ذکوان اور عصیہ پر، جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، لعنت نازل کر۔”پھر ہم تک یہ بات پہنچی کہ اس کے بعد جب آپ پر یہ آیت اتری:“ آپ کا اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں، (اللہ تعالیٰ) چاہے ان کو توبہ کا موقع عطا کرے، چاہے ان کو عذاب دے کہ و ہ یقینا ظلم کرنے والے ہیں” تو]
امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی مایہ ٔ ناز کتاب صحیح مسلم میں وارد فرمایا ہے,علامہ نووی نے جو تبویب فرمائی ہے,مسئلہ کی نوعیت کھل کر سامنے آجاتی ہے,(( كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ اسْتِحْبَابِ الْقُنُوتِ فِي جَمِيعِ الصَّلَاةِ إِذَا نَزَلَتْ بِالْمُسْلِمِينَ نَازِلَةٌ))اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ قنوت نازلہ کا اہتمام تمام فرض نمازوں میں کی جاسکتی ہے اور کیای جانا چاہئے؛امام بخاری ۔رحمہ اللہ ۔ نے نبی ٔ اکرمﷺ کی قنوت ِ نازلہ کے متعلق احادیث کئی مقامات پر ذکر فرمائیں ہیں[بطور مثال دیکھئے: 1001، 1002، 1003، 1300، 2801، 2814، 3064، 3170، 4088، 4089، 4090، 4091، 4092، 4094، 4095، 4096، 6394،]جن میں واضح کیا گیا ہے کہ آپﷺ نے مستقل ایک ماہ تک ان پر بدعائیں کی
قنوت ِ نازلہ کے متعلق چند مسائل
(1)قنوت نازلہ کا مطلب:مسلمانوں پر پریشانی اور مصائب کے وقت دعائے خاص کا اہتمام قنوت ِ نازلہ کہلاتا ہے
(2)قنوت ِ نازلہ کا اہتمام نبی کریمﷺ کی سنت ہے,اس کا اہتمام بوقتِ ضرورت مصلحت و شریعت کا تقاضا ہے
(3)دعائے قنوت تمام فرض نمازوں میں کی جا سکتی ہے بلکہ کرنی چاہئے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس۔رضی اللہ عنہما۔فرماتے ہیں:( قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – شَهْرًا مُتَتَابِعًا فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَاةِ الصُّبْحِ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ إِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَعُصَيَّةَ وَيُؤَمِّنُ مَنْ خَلْفَهُ)[صحیح ابو داؤد حدیث نمبر/1443,مسند احمد حدیث نمبر/2746][ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے مسلسل ایک ماہ نمازِ ظہر,عصر,مغرب,عشاء اور نماز فجر آخری رکعت میں قنوت فرمایا؛جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو بنی سلیم کے رعل و ذکوان اور عصیہ پر بدعا فرماتے اور پیچھے صحابہ آمین کہتے ]
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں:( لأقَرِّبَنَّ صَلَاةَ النَّبِيِّ – صلى الله عليه وسلم – فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقْنُتُ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ وَصَلَاةِ الْعِشَاءِ وَصَلَاةِ الصُّبْحِ بَعْدَ مَا يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَيَدْعُو لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَلْعَنُ الْكُفَّارَ )[صحیح بخاری حدیث نمبر/797,صحیح مسلم حدیث نمبر/676][ترجمہ ٔ حدیث: لو میں تمہیں نبی کریم ﷺ کی نماز کے قریب قریب کر دوں گا۔ چناچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، ظہر، عشاء اور صبح کی آخری رکعات میں قنوت پڑھا کرتے تھے۔ سمع الله لمن حمده کے بعد۔ یعنی مومنین کے حق میں دعا کرتے اور کفار پر لعنت بھیجتے]
امام نووی فرماتے ہیں:( والصحيح المشهور أنه إذا نزلت نازلة كعدو وقحط ووباء وعطش وضرر ظاهر بالمسلمين ونحو ذلك، قنتوا في جميع الصلوات المكتوبات“)[دیکھئے:شرح صحیح مسلم ][]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:( “.. فيشرع أن يقنت عند النوازل يدعو للمؤمنين ويدعو على الكفار في الفجر وفي غيرها من الصلوات، وهكذا كان عمر يقنت لما حارب النصارى بدعائه الذي فيه (اللهم العن كفرة أهل الكتاب))[مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ :22/270]مذکورہ احادیث اور اقوال علماء سے معلوم ہوتا ہے کہ:
(4)دعائے قنوت بالخصوص فجر کی نماز میں ضرور کرنا چاہئے[دیکھئے:مجموع فتاوی ابن تیمیہ 22/269]
(5)دعائے قنوت میں امام کے پیچھے مقتدی کا آمین کہنا ثابت ہے
(6)دعائے قنوت رکوع کے بعد ثابت ہے
(7)دعائے قنوت میں رفع الیدین ثابت ہے
حضرت انس بن مالک ۔رضی اللہ عنہما۔ فرماتے ہیں:(فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – وَجَدَ عَلَى شَيْءٍ قَطُّ وَجْدَهُ عَلَيْهِمْ – يعني القرَّاء – فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ)[مسند احمد حدیث نمبر/ امام نووی نے مجموع 3/500 میں اسے حسن قرار دیا ہے؛نیز ابن الملقن کی تحفۃ المحتاج 1/307 دیکھئے؛نیز علامہ البانی کی صفۃ صلاۃ النبیﷺ(اصل)3/957 ملاحظہ کیجئے ][ترجمہ:جتنی تکلیف اور جس قدر غم آپﷺ کو ان معلمین (قراء)کی شہادت پر ہوا کسی چیز پر نہیں ہوا ,میں نے آپﷺ کو فجر کی نماز میں دیکھا کہ ہاتھ اٹھاکر بدعا فرما رہے ہیں]
حضرت عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ کے بارے میں منقول ہے,ابو رافع کہتے ہیں:( صليت خلف عمر بن الخطاب رضي الله عنه فقنت بعد الركوع، ورفع يديه، وجهر بالدعاء”)[سنن البیہقی:2/212][میں نے حضرت عمر کے پیچھے نماز پڑھی,آپ نے دعائے قنوت رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر فرمائی اور زور سے دعا مانگی]
مسئلہ ہذا کی مزید تفصیل کے لئے درج ذیل لنک کی طرف مراجعت کیجئے
(https://alilmia.com/vb/forum/%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AC%D8%A7%D9%84%D8%B3-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%84%D9%85%D9%8A%D8%A9/%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%AC%D9%84%D8%B3-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%84%D9%85%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%A7%D9%85/11060)
(8)نفلی نمازوں میں قنوت نہیں کیوں کہ آپﷺ سے ایسا ثابت نہیں ہے
(9)نماز جمعہ میں قنوت کے بارے میں اختلاف ہے؛صحیح بات یہ ہے کہ آپﷺ سے ثابت نہیں ہے لہذا جمعہ کی نماز میں نہ کیا جائے؛علامہ ابن عبد البر فرماتے ہیں:( وليس عن أحد من الصحابة أنه قنت الجمعة)[الاستذکار:2/282][صحابہ میں سے کسی سے بھی جمعہ میں قنوت ثابت نہیں ہے]
(10)دعائے قنوت میں آپﷺ سے ثابت اور ماثور دعائیں ہی پڑھی جائیں؛ضرورت سے زیادہ طویل دعائیں غیر مشروع ہیں
(11)دعائے قنوت میں نام کی تعیین کے ساتھ بھی بد دعا کی جا سکتی ہے
(12)دعائے قنوت بآواز بلند کی جائے گی جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ۔رضی اللہ عنہ۔ کی حدیث گزر چکی ہے,امام نووی فرماتے ہیں:( وحديث قنوت النبي – صلى الله عليه وسلم – حين قُتل القراء رضي الله عنهم يقتضي أنه كان يجهر به في جميع الصلوات، هذا كلام الرافعي. والصحيح أو الصواب استحباب الجهر)[مجموع:3/482]
(13)دعائے قنوت کے بعد چہروں کو نہیں پونچھا جائے گا ؛امام بیہقی فرماتے ہیں:(فأما مسح اليدين بالوجه عند الفراغ من الدعاء فلست أحفظه عن أحد من السلف في دعاء القنوت، وإن كان يروى عن بعضهم في الدعاء خارج الصلاة، وقد روي فيه عن النبي – صلى الله عليه وسلم – حديث فيه ضعف. وهو مستعمل عند بعضهم خارج الصلاة، و أما في الصلاة فهو عمل لم يثبت بخبر صحيح ولا أثر ثابت، ولا قياس. فالأولى أن لا يفعله ويقتصر على ما فعله السلف رضي الله عنهم من رفع اليدين دون مسحهما بالوجه في الصلاة وبالله التوفيق)[سنن البیہقی:2/212,نیز دیکھئے مجموع فتاوی ابن تیمیہ:22/519]
انتہائی عجلت ِ تمام میں یہ چند باتیں تھیں جن کا تدکرہ ضروری سمجھا گیا ؛مسائل قنوت کی مزید معلومات کے لئے فضیلہ الشیخ عبد اللہ بن حمود الفریح کی کتاب [مسائل فی قنوت النوازل ]کی طرف مراجعت فرمائیں
دعائے قنوت کیوں ؟
أولاً :دعائے قنوت کا مقصد لوگوں کی اللہ سے علاقہ قائم کرنے؛رشتہ مضبوط کرنے اور اپنے سارے تعلقات اللہ سے قوی کرنا ہے؛قنوت نازلہ اصل میں اس بات کا احساس ہے اللہ ہی پریشانیوں کا دور کرنے والا ہے؛مصیبتیں رفع کرنے والا وہی ہے ؛دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو مصائب؛پریشانیاں اور رنج و الم دور کرنے والا ہے
ثانياً :قنوت اس لئے بھی کیا جاتا ہے کہ سارے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں؛کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سارے مرغ بسمل کی طرح تڑپ اٹھتے ہیں جیسا کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا: (( مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد الواحد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى)[ صحیح بخاری حدیث نمبر:6011 ][ترجمہ ٔ حدیث: ”تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ لطف و نرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے کہ جب اس کا کوئی ٹکڑا بھی تکلیف میں ہوتا ہے، تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے ایسا کہ نیند اڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔“]قنوت کا اہتمام بہ شدت ِ تمام یہ احساس دلاتا ہے کہ دعا ہی سہی ایک مسلمان لاکھوں کیلو میٹر دور رہ کر بھی دو قالب ایک جان ہے
ثالثاً :قنوت ِ نازلہ تمام مسلمانوں کو ایک ساتھ جمع کرنے ایک پلیٹ فارم پر متحدکرنے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد کرنے کا شعور و احساس ہے ؎
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں٭ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
نیز ؎
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن ٭منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو
کی سچی اور تلخ تصویر بھی سامنے آتی ہے
دعائے قنوت نازلہ در حقیقت اسی احساس ِ قوی کا نام ہے
رابعاً :دعائے قنوت در اصل دشمنان ِ دین کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کا نام ہے؛جب سارے لوگ دعائے قنوت میں مشغول ہوں گے؛سب کے ہاتھ ظالم کی بد دعا کے لیے اٹھیں گے؛یکبارگی آمین آمین کی صدائیں بلند ہوں گی تو بلاشبہ ان کے دلوں میں ایک عدیم النظیر ہیبت طاری ہوگی
خامساً :دعائے قنوت اس سنت نبوی کے احیاء کا بھی نام ہے جو آپﷺ وقت مصائب بد دعا کیا کرتے تھے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ رب کریم ہمیں اصلاح حال کی توفیق بخشے,جملہ اسلامیان ِ عالم کی حفاظت فرمائے؛ظالموں کو ان کے کیفر ِ کردار تک پہنچائے , ي يا عزياللهم عليك بالظالمين فإنهم لا يعجزونك ,ربنا من كاد لنا فكده ومن طغى علينا فخذه, ومن ظلمنا فاهلكه. اللهم أرنا فى الظالمين عجائب قدرتك, اللهم أصلح أحوال المسلمين في كل مكان يا رب العالمين,اللهم ارحم المستضعفين من المسلمين في كل مكان و كن لهم ظهيراً ونصيراً وحافظاً يا قوي يا عزيز.