بردرس کی دعوت: رحمت یا زحمت؟

✍️ فاروق عبد اللہ نراین پوری

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على رسول الله،  أشرف الأنبياء و سيد المرسلين ،محمد بن عبد الله  وعلى آله وصحبه ومن اهتدى بهداه. أما بعد

اوریجنل اور ڈوپلیکیٹ کا فرق انسانی فطرت میں شامل ہے۔ چھوٹا سے چھوٹا سامان خریدتے وقت بھی اس فرق کو  ہم مد نظر رکھتے ہیں۔ ہر میدان میں ہمیں تلاش ہوتی ہے ایسے ماہر  ومتخصص کی جو مطلوبہ کام  بخوبی جانتا ہو۔ اگر کسی نے ڈرائیونگ نہیں سیکھی ہے تو اس کی گاڑی میں بیٹھنا ہمیں گوارا نہیں گرچہ فری سروس ہو۔  اگر کوئی اچانک نائی بن جائے اور ہمیں معلوم ہو کہ اسے بال  بنانا نہیں آتا تو ہم اس کی خدمات لینے سے پہلے دس بار غور وفکر کرتے ہیں۔ شریعت کی رہنمائی حاصل کرنے کا معاملہ اس سے جدا نہیں ہے، بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ اہم اور سنگین معاملہ ہے، کیونکہ اس کا تعلق صرف دنیا سے نہیں، آخرت سے ہے۔ قرآن نے اسی فرق کو بیان کرتے ہوئے کہاہے: “هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ” [الزُّمَرِ: 9]

جس طرح بینا ونابینا، دھوپ اور سایہ برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح عالم وجاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ اس لئے صحیح اور ٹھوس دینی معلومات کے لئے بھی ہمیں اسی طرح احتیاط برتنے کی ضرورت ہے جس طرح دنیاوی معاملات میں ہم برتتے ہیں۔ یہی ہمیں حکم بھی دیا گیا ہے: {فاسألوا أَهْلَ الذكر إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ} [الأنبياء: 7]

(اگر تم نہیں جانتے تو علما سے پوچھ لو)، ہر کسی سے نہیں۔

جس طرح ہر میدان میں بعض اناڑی پائے جاتے ہیں اسی طرح شرعی مسائل کی رہنمائی کے میدان میں بھی ان کی کمی نہیں ہے، بلکہ اس میں ان کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہے۔ دور حاضر میں ایسے ہی لوگوں کو ”بردرس“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

بردرس کا اطلاق ایسے حضرات پر کیا جاتا ہے جنھوں نے بہ تدریج کسی استاد سے (چاہے مدرسے میں ہو یا غیر مدرسے میں) کتاب وسنت کا علم حاصل نہ کیا ہو۔ اور نہ معروف سلفی علما نے ان کے علم کی شہادت دی ہو۔ شریعت کو اس کے اصل مصادر سے سمجھنے کی جن کی اہلیت نہیں۔ کسی مسئلے کی تحقیق کے لئے کہا جائے تو اصل مصادر سے اسے حل کرنے کی استطاعت نہیں۔ کیونکہ یہ صلاحیت واہلیت علوم اسلامیہ مثلا صَرف، نحو، عربی زبان، عقیدہ، فقہ، اصول فقہ، حدیث، علوم حدیث، تفسیر، اصول تفسیر وغیرہ فنون کو پڑھے اور سمجھے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔

اس لئے مدرسوں سے سند یافتہ شخص بھی عدم صلاحیت کی بنا پر برادر اور متعالم ہو سکتا ہے، اور بغیر مدرسے میں داخلہ لئے علما کے  سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے بھی کوئی عالم دین بن سکتا ہے، بلکہ سلف صالحین میں یہی طریقہ رائج رہا ہے۔

ایسے نا اہل لوگوں کا حصولِ علم کے بجائے نشرِ علم کی طرف میلان گزشتہ چند سالوں سے کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے لوگ ہر زمانے میں موجود رہے ہیں اور سلف صالحین نے ان کی خوب نقاب کشائی کی ہے۔

یہ حضرات اپنے اس اقدام کے جواز میں بعض شرعی نصوص سے بھی استدلال کرتے ہیں، لیکن منہجیت کے فقدان کی وجہ سے اس میں بھی ٹھوکر کھاتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: “بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً“. [صحیح بخاری: حدیث نمبر3461]

حالانکہ یہ حدیث ان کی تائید نہیں، تردید پر دلالت کرتی ہے۔ یہاں اس کی دو بنیادی وجہیں بیان کی جا رہی ہیں:

پہلی وجہ: اس حدیث سے سلف صالحین نے وہ نہیں سمجھا ہے جو بردرس سمجھانا چاہتے ہیں۔ اس حدیث سے سلف صالحین نے قطعا یہ نہیں سمجھا ہے کہ کوئی عام آدمی جس نے کسی استاد سے کتاب وسنت کا علم حاصل نہیں کیا ہے محض کتابوں کے ذاتی مطالعہ سے شرعی مسائل پر دوسروں کی رہنمائی کرے،  اپنے آپ کو مرشد، داعی، مبلغ، عالم ومفتی کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے لگے۔ بلکہ ان کا تعامل اس فہم کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے زمانے میں بھی بہت سارے نا اہل ایسے تھے جو اپنی نا اہلی کے باوجود علم کی نشر واشاعت میں مشغول تھے جنھیں آج کی اصطلاح میں ہم ”بردرس“ کہہ سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا تعامل کیسا رہا جاننا ہو تو  ”صحیح مسلم“  کا مقدمہ اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی مایہ ناز کتاب ”الکفایہ فی معرفۃ اصول علم  الروایہ“ (ص161-162)، اور انھیں کی ”الفقیہ والمتفقہ“ (2/191-196)  اٹھائیں۔ انھوں نے سلف صالحین کا ان کے تئیں کیا موقف تھا واضح انداز میں بالتفصیل بیان کیا ہے۔

امام مسلم رحمہ اللہ ابو الزناد رحمہ اللہ -جو صغار تابعین میں سے ہیں- سے نقل کرتے ہیں: “أدركت بالمدينة مئة كلهم مأمون، ما يؤخذ عنهم الحديث، يقال: ليس من أهله“. [صحیح مسلم، مقدمہ: 1/15]

یعنی میں نے مدینہ میں ایسے سو لوگوں کو پایا جو –دین وامانت کے معاملے میں- بالکل مامون تھے، لیکن ان سے حدیث قبول نہیں کی جاتی تھی، کہا جاتا کہ یہ اس کے اہل نہیں ہیں۔

”الکفایہ“ (ص162) میں “لَا يُؤْخَذُ عَنْهُمُ الْعِلْمُ، كَانَ يُقَالُ: لَيْسَ هُمْ مِنْ أَهْلِهِ” کے الفاظ ہیں، یعنی ان سے یہ کہہ کر  علم حاصل نہیں کیا جاتا تھا کہ ”یہ اہل علم میں سے نہیں ہیں“۔

امام مالک رحمہ اللہ ایسے لوگوں سے علم حاصل نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انھوں نے یہ علم علما سے نہیں سیکھا تھا، بلکہ کتابوں سے اسے رٹ لیا تھا۔ [الکفایہ: ص162]

سلیمان بن موسی -جو تابعین میں سے ہیں- فرماتے ہیں: ”کتابوں سے علم حاصل کرنے والوں سے علم نہ لو“۔ [الکفایہ: ص162]

اور ثور بن یزید -جو کبار اتباع تابعین میں سے ہیں- فرماتے تھے: “لا يفتي الناس صحفي ولا يقرئهم مصحفي“۔ [لکفایہ: ص162]

(کتابوں سے علم حاصل کرنے والا لوگوں کو فتوے نہ دے، اور نہ مصحف سے قرآن سیکھنے والا لوگوں کو قرآن پڑھائے۔)

یہی بات ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔ [الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی: 2/193]

اور عبد الرحمن بن یزید بن جابر -جو تبع تابعین میں سے ہیں- فرماتے ہیں: «لا يؤخذ العلم إلا ممن شهد له بالطلب» [الكفايہ للخطیب البغدادی: ص: 88]

(صرف ایسے شخص سے علم حاصل کیا جائےگا جس کے متعلق طلبِ علم کی  شہادت دی گئی ہو۔)

اسی طرح کی بات مشہور تابعی عبد اللہ بن عون رحمہ اللہ نے  بھی کہی ہے:  “لَا نَكْتُبُ الْحَدِيثَ إِلَّا مِمَّنْ كَانَ عِنْدَنَا مَعْرُوفًا بِالطَّلَبِ“. [الكفايہ: ص161]

اور خارجہ بن زید بن ثابت رحمہ اللہ فرماتے تھے: “خُذُوا الْعِلْمَ عَمَّنِ الْعِلْمُ بَيْشَكُهُ” ۔[الکفایہ: ص161]

(ان سے علم حاصل کرو جن کا پیشہ علم ہو۔)

اور سعید بن عبد العزیز تنوخی -جو کبار اتباع تابعین میں سے ہیں- فرماتے ہیں: كان يقال: لا تأخذوا القرآن من مصحفي، ولا العلم من صحفي. [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 1/259]

یعنی ان کے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ قرآن کی تعلیم ایسے شخص سے مت حاصل کرو جس نے اسے مصحف سے اخذ کیا ہے، اور علم ایسے شخص سے نہ حاصل کرو جس نے اسے کتابوں سے حاصل کیا ہے۔

خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ”الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع“ (1/297-300) میں بہت سارے ایسے بردرس کی مثالیں پیش کی ہیں جنھوں نے قرآن کسی استاد سے نہیں بلکہ مصحف سے پڑھنا سیکھا تھا، پھر انھوں نے ایسی ایسی فحش غلطیاں کیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ مثلا: ایک نے سورہ نوح کی آیت (23) {وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا} کو  ﴿وَبِشْرًا﴾ پڑھا۔ جب انھیں کہا گیا کہ یہ  ”بشرًا“ نہیں ”نسرًا“ ہے تو جواب دیا: اوپر تو تین نقطے لگے ہوئے ہیں۔ کہا گیا کہ یہاں نقطوں کا ہونا غلط ہے، تو اس مسکین کا جواب تھا: میں اصل نسخے کی طرف رجوع کروں گا۔

اگر اس مسکین نے مصحف سے نہ سیکھ کر کسی استاد سے پڑھنا سیکھا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔

اسی طرح ایک بردر نے ﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا﴾ کو ﴿هُوِيًّا﴾ پڑھا ۔

ایک نے ﴿وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ﴾کو  ﴿الْخَوَارِج مُكَلِّبِينَ﴾ پڑھا۔  [دیکھیں: الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع للخطیب البغدادی: 1/298]

اس طرح کی مثالیں بے شمار ہیں۔ استاد کے بجائے مصحف سے قرآن سیکھنے والے بردرس کے احوال جاننے ہوں تو ابو احمد العسکری (متوفی 382ہجری) کی کتاب ”اخبار المصحفین“ کی طرف رجوع کریں۔

یہی حال آج کے بردرس کا ہے، انھوں نے کتابوں کو ہی اپنا استاد بنا لیا ہے۔کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے سے انھیں عار محسوس ہوتی ہے۔ اور آئے دن اس سے بھی فحش قسم کی مضحکہ خیز غلطیوں سے وہ اپنی رسوائی کے سامان فراہم کرتے رہتے ہیں۔

 

ان تمام نصوص سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ سلف صالحین نے اس حدیث کا وہ معنی بالکل نہیں سمجھا ہے جو بردرس سمجھانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کبھی بھی اس سے استدلال کرتے ہوئے کسی عام شخص کو کتاب وسنت کا علم حاصل کرنے سے پہلے دعوت وتبلیغ کی اجازت نہیں دی ہے، بلکہ اس کے برعکس اس طرح کی جرأت کرنے والوں سے لوگوں کو صریح لفظوں میں بچنے اور دور رہنے کی تلقین کی ہے۔

 

دوسری وجہ: اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”بلغوا عنی“ کہا ہے۔ یعنی داعی ایسی چیز کی تبلیغ کرے جو حقیقی معنوں میں “عن رسول اللہ” ہو۔ اور اسے جاننے کے لئے کہ میں جس چیز کی تبلیغ کر رہا ہوں وہ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے یا نہیں، اور اگر ثابت ہے تو اس کا وہی مفہوم  ہے یا کوئی دوسرا مفہوم ہے علوم اسلامیہ کی ضرورت  ہے۔ یہ علومِ آلہ ہیں کتاب وسنت کو سمجھنے کے لئے۔ جن کے پاس یہ آلہ ہی نہ ہو ان کے لیے یہ تمییز کرنا  ممکن ہی نہیں کہ وہ حقیقی معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت ہی کی طرف دعوت دے رہے ہیں یاکسی دوسری چیز کی طرف۔

خوارج ومعتزلہ جیسے گمراہ فرقے بھی نصوصِ کتاب وسنت سے اپنے باطل افکار کی دلیل پیش کرتے ہیں، لیکن منہج سلف کی روشنی میں علما ان کے بطلان کو واضح کرتے ہیں، اور استدلال میں کہاں انھوں نے انحراف کیا ہے بیان کرتے ہیں، اگر کسی کے پاس علما کے طریقۂِ استدلال کا علم ہی نہ ہو، جن قواعد کی روشنی میں وہ فِرَقِ ضالہ پر رد کرتے ہیں ان سے نا بلد ہو تو کیسے کتاب وسنت کی صحیح دعوت دوسروں کو دے سکتا ہے؟ یہ تو ایسی بدیہی چیز ہے جس میں اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔

 

اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہر داعی کو علوم اسلامیہ میں مہارت تامہ پیدا کرنے کے بعد بذات خود ہر ہر حدیث کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مقصد نہیں کہ ہر مسئلے کی خود سے تحقیق کریں تبھی وہ دعوتی کاز کر سکتے ہیں۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کے اندر  صحیح وغلط کی تمییز کی صلاحیت ہو۔ علمائے کرام علوم اسلامیہ سے آراستہ ہوتے ہیں جس سے وہ آسانی سے صحیح اور غلط کی تمییز کر سکتے ہیں، نیز وہ بذات خود تحقیق کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ اور اگر کسی دوسرے معتبر عالم دین کی تحقیق پڑھیں خود تحقیق نہ کریں پھر بھی پڑھتے ہوئے اس تحریر میں اگر کوئی منہجی غلطی ہو تو اسے پکڑ سکتے ہیں۔ لیکن ایک ایسا شخص جو ان علوم کو پڑھنا تو دور ان کے نام تک نہ سنا ہو، بلکہ جنھیں قرآن کریم تک صحیح سے پڑھنا نہ آتا ہو، چند بنگلہ، اردو اور انگریزی کتابیں جن کی کل پونجی ہو، کیا وہ صحیح و غلط کی تمییز کر سکتے ہیں؟

ایسے حضرات کسی تحریر کو  پڑھتے وقت اپنے عقل وقیاس سے فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، شرعی اصولوں سے نہیں، کیونکہ اس سے وہ محروم ہوتے ہیں۔

بلکہ اکثر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جس تحریر  یا تقریر سے انھوں نے  اپنا موقف تیار کیا ہے اسے صحیح طریقے سے سمجھا ہی نہیں، اس تحریر میں جو اصطلاحی باتیں تھیں وہ ان کے سر کے اوپر سے گزر گئی ہیں۔ خود میرا اس طرح کے کئی بردرس سے سابقہ پڑ چکا ہے۔ جب کہ علوم اسلامیہ سے آراستہ علمائے کرام کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔

اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں:

ایک برادر کی ایک کتاب نظر سے گزری، اس میں انھوں نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے مترجم کتب حدیث سے احادیث کو کاپی پیسٹ کیا ہے، چونکہ عربی عبارت سے وہ واقف نہیں تھے کہ اس میں کیا لکھا ہے اس لئے ترجمۃ الباب سے لے کر محدث کی پوری سند ومتن کے ساتھ روایت کے آخر میں محدث کا جو کلام ہے اسے بھی من وعن نقل کر دیا ہے۔ لیکن ترجمہ میں صرف متن کا ترجمہ ہی نقل کیا ہے۔ روایت پر جو کلام ہے اس کا ترجمہ نقل نہیں کیا ہے کیونکہ اسے سمجھنے کی صلاحیت ان کے پاس نہیں تھی۔ اگر محدث کے اس کلام کو سمجھنے کی ان کے پاس صلاحیت ہوتی تو قطعا وہ اس روایت کو اپنے موقف کی تائید میں نقل نہ کرتے ۔

میرا ان کے ساتھ مناقشہ ہوا، وہ اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے، اور انھیں یہ زعم تھا کہ میں نے شریعت کے اصل مصادر سے اپنی بات مدلل پیش کی ہے۔

میں نے ان سے کہا کہ آپ نے روایت کے آخر میں جو عربی عبارت نقل کی ہے اس میں خود اس محدث نے کیا کہا ہے؟ تو وہ بغلیں جھانکنے لگے، پھر گویا ہوئے کہ مجھے کیا پتہ کہ عربی عبارت میں کیا لکھا ہے، میں نے فلاں مترجم کتاب سے اس کا ترجمہ نقل کیا ہے۔ کیا  ترجمہ کرنے والا عالم نہیں ہے؟ مجھے ان پر اعتماد ہے کہ انہوں نے صحیح ترجمہ کیا ہوگا۔

میں نے کہا کہ میرے بھائی ان کے ترجمے میں عیب نہیں بلکہ آپ کے سمجھنے کا قصور ہے۔ اگر آپ اسے سمجھ جاتے تو قطعا نقل ہی نہ کرتے، اور جس طرح ترجمے میں وہ کلام نقل نہیں کیا ہے عربی عبارت میں بھی نقل نہ کرتے۔

اس واقعہ سے صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ علوم اسلامیہ سے آراستہ علمائے کرام کا کسی کی تحقیق پڑھنا اور بردرس کا کسی کی تحقیق پڑھنا دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔

ایک داعی کے لیے بذات خود ہر ہر حدیث کی تحقیق کرنا گرچہ ضروری نہ ہو، بذات خود کسی مسئلہ کی تمام ادلہ کو جمع کرنا اور ان کی تحقیق کرنا گرچہ ضروری نہ ہو، لیکن یہ ضرور ی ہے کہ اگر کوئی دعوت کا کام کرنا چاہتا ہے تو اس کے اندر کسی دوسرے کی تحقیق کو سمجھنے کی اہلیت ہو۔ اس میں تمام باتیں اس محقق  نے صحیح پیش کی ہیں یا ان سے کوئی چوک ہوئی ہے یہ تمییز کرنے کی صلاحیت کا ہونا اس کے اندر ضروری ہے۔ اگر یہ صلاحیت اس کے پاس نہیں ہے تو شرعی نقطہ نظر سے اسے اپنے آپ کو بطور داعی، مرشد، مبلغ، عالم ومفتی عوام کے سامنے پیش کرنے کی انھیں اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ رب العالمین نے ہر کسی پر اس فریضے کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے۔ لوگوں میں ایک خاص جماعت کو اللہ تعالی نے اس کام کا مکلف بنایا ہے۔ اس کا ارشاد ہے: ﴿وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ [سورہ آل عمران: 104]

یہ خاص لوگ کون ہیں اس کا بیان اس آیت میں آیا ہے: ﴿وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ﴾ [التوبة:122]

انذار کا فریضہ ان پر ہے جو تفقہ فی الدین کی زینت سے مزین ہیں۔ دعوتِ دین کا مکلف اللہ تعالی نے صرف انھیں بنایا ہے جنھوں نے کتاب وسنت کا علم حاصل کیا ہے، ہر ایک کو نہیں۔

ایک دوسری آیت میں اللہ رب العالمین نے اسے مزید واضح کرکے بیان کیا ہے: ﴿قُلْ هذِهِ سَبِيلِي أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي﴾ [يُوسُفَ: 108]

یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ دعوتِ دین کی بنیاد علم وبصیرت پر ہوگی جہالت وخواہشات نفس پر نہیں، کیونکہ شرعی مسائل کے متعلق لب کشائی کرنا اور دوسروں کو یہ بتانا کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ شریعت ہےکوئی معمولی کام نہیں، یہ بہت بڑی امانت ہے، بلکہ اس سے بڑی دنیا میں کوئی امانت نہیں۔ اگر کوئی بلا علم اپنے عقل وقیاس سے اللہ یا اس کے رسول کی طرف کسی چیز کی نسبت کرتا ہے تو یہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ﴿قُلْ إِنَّما حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَواحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطاناً وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

اس آیت میں گناہوں کو بتدریج بیان کیا گیا ہے، پہلے چھوٹے گناہوں سے ابتدا کی گئی ہے، پھر اس کے بعد جو اس سے بڑا گناہ ہے اسے بیان کیا گیا ہے، یہاں تک کہ شرک کا نمبر آتا ہے، اور اس کے بعد سب سے آخر میں ”بلا علم اللہ تعالی کے متعلق کچھ کہنے“ کو ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بلا علم شریعت کے متعلق کچھ کہنا کتنا بڑا جرم ہے۔ اس کی ہولناکی کا اندازہ ایک برادر کبھی کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے نزدیک یہ تو نہایت ہی معمولی چیز ہے۔ صحیح معنوں میں اس کی ہولناکی و سنگینی کا اندازہ صرف وہی کر سکتے ہیں جو کتاب وسنت کےعلم سے آراستہ ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾ [فاطر: 28].

دعوتِ بردرس کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہونے والوں کو یہ نصوص بار بار پڑھنے چاہئیں۔ پھر فیصلہ کرنا چاہئے کہ ان کی دعوت امت کے لیے رحمت ہے یا زحمت۔

افسوس کہ بعض علما بھی ان کے ظاہری ٹیپ ٹاپ اور چکاچوندھ سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ ان کے خلاف کچھ کہنا مناسب نہیں۔ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بردرس بہت اچھا کام کررہے ہیں، ان سے امت کا فائدہ بھی ہورہا ہے۔ اللہ المستعان وعلیہ التکلان۔

سلف صالحین کا منہج اس بارے میں کوئی مختلف فیہ یا ڈھکا چھپا منہج نہیں بلکہ دن کے اجالے کی طرح بالکل واضح اور روشن ہے جس کی ایک جھلک اوپر آپ کو مل چکی ہے۔

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “من أفتى الناس وليس بأهل للفتوى فهو آثم عاص، ومن أقرَّه من ولاة الأمور على ذلك فهو آثم أيضًا“. [أعلام الموقعين عن رب العالمين: 6/131]

یعنی جو فتوی دینے کی اہلیت نہیں رکھتےاس کے باوجود لوگوں کو فتوے دیتے ہیں وہ گنہگار اور نافرمان ہیں۔ اور اولیائے امور (حکمراں، ذمہ داران وغیرہ) میں سے جو انھیں برقرار رکھیں اور ان کی پشت پناہی وتائید کریں وہ بھی گنہگار ہیں۔

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے ”اعلام الموقعین“ (6/131) میں علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا ایک بہت ہی عمدہ قول نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: “ويلزم ولي الأمر منعهم كما فعل بنو أمية، وهؤلاء بمنزلة من يدلّ الركب وليس له علم بالطريق، وبمنزلة الأعمى الذي يرشد الناس إلى القبلة، وبمنزلة من لا معرفة له بالطبِّ، وهو يطب الناس، بل هو أسوأ حالًا من هؤلاء كلهم، وإذا تعيَّن على ولي الأمر منع من لم يحسن التطبب من مداواة المرضى، فكيف بمن لم يعرف الكتاب والسنة، ولم يتفقه في الدين؟”

ولی امر (یعنی حکمراں، ذمہ داران) پر لازم ہے کہ انھیں (یعنی جو بلا علم فتوی دیتے ہیں، جنھیں آج کی اصطلاح میں بردرس کہا جاتا ہے) روکیں جیسے کہ بنو امیہ نے کیا تھا، یہ ان لوگوں کی طرح ہیں جو قافلہ کو راستہ دکھاتے ہیں حالانکہ خود راستوں سے واقف نہیں ہوتے۔ اس اندھے کی طرح ہیں جو لوگوں کو قبلہ کی راہنمائی کرتا ہے۔ اس شخص کی طرح ہیں جسے ڈاکٹری نہیں آتی لیکن لوگوں کا علاج کرتا ہے۔ بلکہ یہ- بردرس- ان تمام لوگوں سے گئے گزرے ہیں۔ جب ولی امر پر یہ لازم ہے کہ جو ڈاکٹری نہیں جانتا اسے علاج معالجہ کی پریکٹس سے باز رکھے تو ان کے لئے کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ جو کتاب وسنت کا علم نہیں رکھتا، جس نے دین کی فقاہت حاصل نہیں کی اسے دعوتی میدان میں کام کرنے کی کھلی چھوٹ دے دے؟

علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا یہ قول آب زر سے لکھنے کے قابل اور ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔

کیا سلف صالحین کے اس واضح موقف کے بعد بھی کوئی بردرس کی دعوت کو امت کے لیے رحمت کہہ سکتا ہے؟

ایک غلط فہمی کا ازالہ:

بہت سارے لوگوں کے یہاں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ وہ ہر شخص پر دین کی دعوت واجب سمجھتے ہیں۔ اسے صرف اہل علم کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر فرد کی ذمہ داری تصور کرتے ہیں اور اس کے لیے بعض نصوصِ کتاب وسنت سے استدلال بھی کرتے ہیں۔ مثلا:

مُرُوا أولاكمِ بالصلاةِ وهم أبناءُ سبعِ سِنينَ، واضرِبوهم عليها وهم أبناءُ عَشرٍ“. [سنن ابی داود: حدیث نمبر: 495]

كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ …” الحدیث۔ [صحیح بخاری: حدیث نمبر 893]

مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ …” الحدیث۔ [صحیح مسلم: حدیث نمبر49] وغیرہ۔

ان نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ کیا صرف وہی باپ اپنی اولاد کو نماز کا حکم دےگا جو عالم ہو یا یہ ہر ایک باپ کی ذمہ داری ہے؟

کیا صرف وہی شخص اپنے ماتحتوں کا مسئول ہوگا جو عالم ہو یا ہر ایک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

اگر کسی کے سامنے کوئی زنا کرے، چوری کرے، والدین کی نافرمانی کرے اگر وہ عالم نہ ہو تو کیا اسے اس طرح کے برے کاموں سے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے یا صرف علما ہی یہ کام کریں گے دوسرے نہیں؟

اس طرح کے متعدد سوالات کے ذریعہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہر شخص دین کا داعی ہے، اور ہر ایک کو اپنے اپنے حساب سے دعوت کا کام کرنا ضروری ہے۔

بظاہر ان سوالات سے کسی کو بھی لگ سکتا ہے کہ بات تو صحیح ہی کہی جا رہی ہے، یہ ذمہ داریاں تو صرف علما کی نہیں ہر ایک کی ہیں، لہذا ہر شخص پر دین کی دعوت واجب ہے۔

حالانکہ یہ ایک غلط فہمی ہے جو شرعی مسائل کے مابین فَرقِ مراتب کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے در آئی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ دین کے تمام مسائل یکساں نہیں ہیں۔ اور نہ انھیں سیکھنے کا حکم ہر ایک کے لیے یکساں ہے۔ اللہ تعالی نے ہر ایک کو اپنے اپنے علم کے مطابق مکلف بنایا ہے۔ اور دینی مسائل کے سیکھنے کا بھی یہی حکم ہے۔ بعض مسائل ایسے ہیں جنھیں ”معلوم من الدین بالضرورۃ“ کہا جاتا ہے۔  ان کا سیکھنا اور جاننا ہر ایک مسلمان پر فرض ہے۔ مثلا وضو، نماز، روزہ وغیرہ کا طریقہ، ارکان ایمان، اصول ثلاثہ (اللہ، نبی اور دین کی معرفت)، والدین کی اطاعت واجب ہے، صدقات وخیرات کرنا، اور قرآن پڑھنا نیکی کا کام ہے۔ جھوٹ بولنا، شراب پینا، سود کھانا، زنا کرنا، کسی بے گناہ کا قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، وغیرہ۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ اس طرح  کے اجماعی مسائل بے شمار ہیں۔ اگر کسی کے سامنے اس طرح کا کوئی حرام کام چل رہا ہو اور وہاں پر کوئی عالم نہ ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس طرح کے منکر کو روکے۔

ایک باپ کے اوپر واجب ہے کہ اپنے گھر میں منکرات کو جگہ نہ دے۔ اس انکار کے لئے  اس کا عالم ہونا ضروری نہیں ہے۔ یا وہ یہ کہہ کر سبکدوش نہیں ہو سکتا کہ میں عالم نہیں ہوں اس لئے اپنے گھر میں ان منکرات سے کسی کو  نہیں روک سکتا۔

یقینا شریعت نے ہر ایک شخص پر چاہے وہ عالم ہو جاہل اس طرح کی بعض ذمہ داریاں عائد کی ہیں، لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ اس سے اپنے آپ کو شرعی مسائل پر لب کشائی کرنے کا اہل سمجھ لے، اور ایسے مسائل پر بولنے لگے جن کے جاننے کے لیے کتاب وسنت کا علم حاصل کرنا ضروری ہے، یا جو علما کے مابین مختلف فیہ مسائل ہیں۔

اپنے گھر میں، یا اپنے ماتحت افراد کے متعلق انھیں جو شرعی ذمہ داری دی گئی ہے وہ قطعا اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو داعی، مرشد، مبلغ، مصنف، محقق، فقیہ، محدث، عالم ومفتی کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے لگیں، منبر ومحراب کی زینت بننے لگیں، اور مختلف فیہ مسائل پر لوگوں کے سامنے اپنی رائے رکھنے لگیں۔ بلا علم علما کا بھیس اختیار کرنا، شرعی مسائل پر گیان بانٹنا، اور لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو عالم باور کرانا انتہائی قبیح جرم ہے۔

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ -رحمہ اللہ- کو فرماتے ہوئے سنا: جس طرح لوگوں میں سب سے بہتر انبیا ہیں، اسی طرح سب سے برے وہ لوگ ہیں جو ان کی مشابہت اختیار کرکے دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی انھی میں سے ہیں، حالانکہ وہ ان میں سے نہیں ہیں۔

اسی طرح انبیا کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر علما، شہدا، صدیقین اور مخلصین ہیں، اور سب سے برے وہ لوگ ہیں جو ان کی مشابہت اختیار کرکے دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی انھی میں سے ہیں، حالانکہ وہ ان میں سے نہیں ہیں“۔ انتہی کلام ابن القیم رحمہ اللہ۔ [الداء والدواء: ص 34]

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بات صد فیصد درست ہے۔ جب بردرس لوگوں کے سامنے عالم بن کر ظاہر ہوتے ہیں تو لوگ ان سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور شرعی مسائل کے متعلق سوال بھی کرتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس شریعت کا علم نہیں ہوتا اس لیے بلا علم ہی فتوے دیتے ہیں، نتیجۃً خود گمراہ ہوتے ہیں، دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے متعلق ہمیں متنبہ کیا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:

«إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فأفتوا بغير علم، فضلوا وأضلوا» [صحيح البخاري: حديث نمبر100]

(اللہ تعالی بندوں سے علم کو چھین کر نہیں اٹھا لےگا، بلکہ علما کو موت دے کر علم کو اٹھائےگا، یہاں تک کہ جب کسی عالم کو باقی نہیں رکھےگا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، پھر ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بلا علم جواب دیں گے، جس سے خود بھی گمراہ ہوں گے، اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔)

غور فرمائیں!! یہاں سائل ومسؤول دونوں جاہل ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دونوں جاہل ہیں تو ایک جاہل دوسرے جاہل سے اپنے دینی مسائل کا حل تلاشنے ہی کیوں جاتا ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ گرچہ جہالت میں دونوں مبتلا ہیں لیکن ایک نے علما کا بھیس اختیار کیا ہوا ہے، اپنی شبیہ لوگوں کے سامنے ایسی بنائی ہوئی ہے کہ لوگ ان سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور انہیں عالم ومفتی سمجھنے لگتے ہیں اور ان کی طرف دینی مسائل کے حل کے لئے رجوع کرنے لگتے ہیں۔

خلاصۂِ کلام یہ کہ عام لوگوں کو ایک محدود دائرے میں محدود اور خاص مسائل پر ماتحت لوگوں کی تربیت کا مکلف بنایا گیا ہے۔ عوامی سطح پر بطور داعی اور مفتی اپنے آپ کو پیش کرنے اجازت نہیں دی گئی ہے۔ ورنہ اس کا انجام  وہی ہوگا جو “فسُئِلُوا فأَفْتَوْا بغير علم، فضَلُّوا وأَضَلُّوا” والی حدیث میں بیان کیا  گیا ہے۔ یہ خود گمراہ ہوں گے، دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔

اللہ تعالی پہلے ہمیں علم حاصل کرنے، پھر اس پر عمل کرنے، اور اس کی نشر اشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *