آپ کے حصّے میں بھی تو کچھ کام ہے

بقلم:فضیلۃ الشیخ ندیم أختر السلفی

(داعی اسلامک دعوہ سینٹر,حوطہ سدیر)

ہر انسان کو اپنے حصّے کا کام  ضرور کرنا چاہئے ، غریبوں  اور محتاجوں کی مدد کے لئے زکاۃ کی شکل میں  اللہ نے ایک خوبصورت نظام بنایا ہے ، اگر قوم ِ مسلم صحیح طور پر اس نظام کو اپنالے، امانت داری کے ساتھ اس پر عمل کرنا شروع کردے تو انہیں  حکومتی خیرات کی ضرورت نہیں پڑے گی،  اور کیا ضروری ہے کہ ہر کام  سرکاری  فنڈ سے ہی ہو، کچھ اپنی محنت  بھی تو ہونی چاہئے،  کچھ اپنوں کی بھی تو قربانی ہونی چاہئے، یا ایسا تو نہیں  کہ  ہماری قوم کے مالدار خود ہی  غربت وافلاس کے شکار  ہوگئے ہیں ؟ غیر مسلموں کی طرح   اب تو  مسلمان بھی سرکاری خیرات کے انتظار میں رہتے ہیں، جیسے ہی  کوئی حادثہ   پیش آیا یا کوئی آسمانی آفت آئی لسٹ بنانے  کا کام  شروع ہوجاتاہے، اور پھر چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں کہ فلاں  اور فلاں کا نام کیوں نہیں آیا،  فلاں تو اس کا حقدار ہی نہیں۔

حکومت کے ذمے جو آپ کے حقوق ہیں  ان کا ضرور مطالبہ کریں  اور شدت کے ساتھ کریں  یہ آپ کا حق ہے ، لیکن قوم ِ مسلم کے مالداروں پر بھی تو حق ہے جو بغیر طلب کئے اس کے سماج کے  غریبوں  اورمحتاجوں تک پہنچنا چاہئے، لیکن ایسا اب بہت کم  ہونے لگا ہے ، زکاۃ کے چوروں کی لسٹ لمبی ہوتی جارہی ہے ، زکاۃ  جو کہ سماج کے مسلم  فقراء ، مساکین  اور محتاجو ں کا  حق ہے  اس سے  جی چُرانے والوں کی فہرست اب بڑھتی جارہی ہے ، زکاۃ کے نام پر کچھ رقم نکال کر یہاں وہاں  خرچ کرکے فرض کی ادائیگی کو سمجھنے والوں کی تعداد  میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔

زکاۃ چرانے والے اگر اس دنیا میں اللہ کی  پکڑ سے بچ بھی گئے تو قیامت کے دن ان کے ساتھ جو حشر ہونے والا ہے اس کے لئے انہیں تیار رہنا چاہئے،  زہریلے ناگ کی شکل میں اس کے گلے کا طوق بنادیا جائے گا جو  اسے بار بار ڈسے گا  اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہو ، میں تیرا جمع کیا خزانہ ہوں، یہ حشر  تو  قیامت کے دن ہوگا اور بعید نہیں کہ دنیا میں بھی مختلف مصائب اور آفات سے اسے گزرنا پڑے، ہماری کوئی بستی ایسی نہیں جہاں مالداروں کی  قابل شمار تعداد نہیں ،  اس کے باوجود اسی بستی کے فقراء  و مساکین  اور محتاجوں کو کیوں  در بدر بھٹکنا پڑتا ہے ؟

لوگ اس وقت حکومت میں مسلم حصّے داری کی بات کرتے ہیں ،  اور یہ صرف کھوکھلے نعرے ہیں کیونکہ  خود قوم ِمسلم   کی ایک بڑی تعداد ایک دوسرے کے  حقوق اور حصّے کو ادا کرنے سے قاصر رہی ہے ، زکاۃ  جو کہ قوم ِ مسلم کے ایک خاص طبقہ کا حق ہے کتنے مالداروں نے اس حق کو صحیح طریقے پر ان تک پہنچایا ہے؟ خود  قیادت اور حصّے داری  کے دعویداروں نے قوم ِ مسلم کے کتنے  سرکاری  اور شرعی حقوق(زکاۃ وصدقات) ان تک پہنچائے ہیں؟ اَسی فیصد سرکاری خیرات  تو خود سرکاری نوکر  ہی کھاجاتے ہیں  بیس فیصد میں قوم ِ مسلم کا کیا بھلا ہونے والا ہے  یہ ملت کے ہر فرد کو سوچنا چاہئے۔

 

مال ِ زکاۃ کی  ذخیرہ اندوزی کے لئے شریعت نے بیت المال کا تصوّر پیش کیا ہے  جسے  امانت داری  اور اخلاص کے ساتھ ہر بستی میں قائم ہونا چاہئے،  یہ کوئی ضروری نہیں کہ جب تک کہ اسلامک اسٹیٹ  نہ ہو بیت المال قائم نہیں کیا جاسکتا،  اس کے لئے  ہر بستی میں مسلمانوں کا وجود ہی کافی ہے ، اگر کسی بستی میں دس ہی مسلمان ہوں تو وہاں بھی بیت المال کا وجود ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کی  دینی اور دنیاوی ضرورتوں  کا اجتماعی طور پر حل پیش کیا جاسکے۔

کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ قوم ِ مسلم کا ہر مالدار اللہ سے ڈرتے ہوئے  صرف اپنے حصّے کا کام کرے ، تاکہ  قوم کے مجبور اور لاچار لوگوں کو  ادھر اُدھر بھٹکنے  اور ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ پڑے، ویسے بھی آپ کے مال میں اللہ کی طرف سے زکاۃ کی جو مقدار متعین ہے اس پر آپ کا کوئی حق ہی نہیں ، اس کے تو فقراء اور مساکین زیادہ حقدار ہیں، یہ قوم ِ مسلم  اور ان کے مالداروں کے لئے شرم کی بات ہے کہ بستی کا ضرورت مند کسی دوسری بستی میں جاکر ہاتھ پھیلائے یہ اس بستی کے لوگوں کی خود غرضی اور دین سے دوری  کی دلیل بھی  ہے، اس کی ضرورتوں کی تکمیل پہلے خود اسی بستی میں ہونا چاہئے، اگر ایسا ہوجائے تو یقین مانئے ہماری قوم سرکاری خیرات کے انتظار میں نہیں رہے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *