از قلم:محمد جرجیس کریمی
ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ
آج پوری دنیا ظلم و نا انصافی سے کراہ رہی ہے۔ حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ دوسروں پر عدوان اور مظالم عروج پرہیں، جرائم کی کثرت ہے۔ اسی کے ساتھ عدل و انصاف عنقا ہوتا جارہا ہے۔ ہر سطح پر ظلم و نا انصافی ہے اور عدل و انصاف کی حصول یابی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ ہر طرف کرب و اضطراب کا ماحول ہے۔ گھر، خاندان، معاشرہ اور ریاستیں کہیں بھی امن و سلامتی نہیں ہے ہر جگہ ظلم کا دور دورہ ہے۔ لوگوں کو روز مرہ معاملات میں عدل و انصاف کی ضرورت ہے۔ گھروں میں زوجین اور اولاد کے درمیان عدل و انصاف کی ضرورت ہے۔ والدین اور رشتہ داروں کو عدل و انصاف کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اور تنظیمی اداروں کو عدل و انصاف کی ضرورت ہے اور حکومتوں اور ریاستوں کو تو خیر عدل و انصاف کے بغیر ان کی گاڑی چند قدم بھی چلنے والی نہیں ہے۔ عدل و انصاف کی اس اہمیت و ضرورت کی وجہ سے اسلام نے حکم دیا کہ اگر تمہاری کسی قوم سے عداوت و دشمنی بھی پڑی ہوئی ہو تب بھی عدل و انصاف کے دامن کو نہ چھوڑو۔ ارشاد ہے:
وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائدہ: ۸۰)
کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو، عدل کرو یہ اللہ ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
قرآن مجید اور احادیث میں عدل و انصاف سے متعلق جو نصوص وارد ہوئے ہیں ان کا تجزیہ کیا جائے تو عدل، قسط، قسطاس اور مساوات کے الفاظ ملتے ہیں۔ سطور ذیل میں عدل و انصاف سے متعلق اسلامی تعلیمات کامطالعہ پیش کیا جاتا ہے جو مظالم اور استبداد کے خاتمے کا پائیدار اور مستقل ذریعہ ہے۔
عدل کے معنی : قرآن مجید میں عدل پانچ معنی میں مستعمل ہیں۔
۱- متناسب بنانا، جیسے آیت ذیل
یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ ، الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَلَکَ (الانفطار:۶-۷)
اے انسان، تجھے تیرے رب کریم کے با رے میں کس چیز نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے، جس نے تجھ کو پیدا کیا پھر تیرے اعضا کو درست کیا پھر تجھ کو متناسب بنایا۔
اللہ تعالیٰ نے ا نسان کو متناسب بنایا، اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کا ایک ہاتھ چھوٹا، ایک بڑا، ایک آنکھ آگے اور ایک پیچھے نہیں ہے بلکہ تمام اعضاء ظاہری اور باطنی کو متناسب اور معتدل بنایا گیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے انسانی جسم میں تناسب قائم کرکے اس کے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا ہے۔
۲- عدل کے معنی برابری کا معاملہ کرنے کے بھی آتے ہیں جیسے آیت ذیل میں ارشاد ہے:
وَلَن تَسْتَطِیْعُواْ أَن تَعْدِلُواْ بَیْْنَ النِّسَاء وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِیْلُواْ کُلَّ الْمَیْْلِ فَتَذَرُوہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ وَإِن تُصْلِحُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللّہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیْما(النساء: ۱۲۹)
اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہرگز برابری نہیں کرسکوگے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جائو اور دوسری کو (ایسی حالت میں) چھوڑ دو کہ گویا وہ ہوا میں لٹک رہی ہے اور اگر آپس میں موافقت کرلو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت بالا تعدد ازواج کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنے کے ضمن میں وارد ہے اورکہا گیا ہے کہ انسانی نفسیات و فطرت ظاہر پسندی کے تحت تمام ازواج کے درمیان بالکل یکساں معاملہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن عدل گستری کا تقاضا ہے کہ کسی ایک بیوی سے قلبی لگائو اور التفات خاطر سماجی و معاشرتی عدل و انصاف میں حارج نہ ہو اور کسی ایک طرف مکمل میلان ہو اور دوسرے کو معلق بنا کر نہ رکھ دیا جائے۔ کم از کم عدل کا یہ تقاضا ضرورپورا کیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے درمیان تقسیم میں تو سب کے ساتھ برابری فرماتے تھے اورپھر دعافرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میرے بس میں جو کچھ ہے اس میں میری طرف سے یہ برابری (مبنی بر انصاف) تقسیم ہے لیکن جو بات میرے قبضہ و اختیارمیں نہیں اس میں برابری نہ ہونے پر میری گرفت نہ کرنا۔ (مسند احمد25111 یہ حدیث سنن اربعہ میں بھی موجود ہے)
۳- عدل،ہم سر ٹھہرانے کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ ارشاد ہے:
الْحَمْدُ لِلّہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِرَبِّہِم یَعْدِلُونَ (الانعام: ۱)
تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان کو بنایا روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں پھر بھی وہ لوگ جنھوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کردیا دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھہرا رہے ہیں۔
اسی سورہ میں آیت ۱۵۱ میں بھی ’’ وھم برھم یعدلون‘‘ کا لفظ وارد ہے۔ بعض مفسرین نے مذکورہ دونوں آیات میں یعدلون کو عدول سے مشتق مان کر اس کے معنی اعراض کرنے اورانحراف کرنے کے بیان کیے ہیں۔ (دیکھیے تفسیر مظہری، قاضی ثناء اللہ پانی پتی)
۴- عدل کا ایک معنی معاوضہ یا بدلہ دینے کے بھی ہے۔ ارشاد ہے:
وَاتَّقُواْ یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْْئاً وَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَلاَ ہُمْ یُنصَرُونَ (البقرۃ:۴۸)
اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا اورنہ کسی کی سفارش منظور کی جائے گی اور نہ کسی سے کس طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا اورنہ ہی اس کی مدد کی جائے گی۔
قرآن مجید میں اس مفہوم کی اور تین مقامات پر آیات وارد ہیں۔
۵- عدل کا ایک معنی انصاف کرنے کا ہے۔ قرآن مجید میں دسیوں مقامات پر اس مفہوم میں آیات وارد ہوئی ہیں۔ ارشاد ہے:
وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ (النساء:۵۸)
اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔
قرآنی نصوص کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عدل و انصاف کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ فرد کی انفرادی زندگی سے لے کراجتماعی زندگی تک اور معاشرتی مسائل سے لے کر معاملات تک حتی کہ دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ ارشاد ہے:
وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی (المائدہ:۸)
اور کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو، یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔
عدل کے ہم معنی قسط کا لفظ بھی ہے۔ اس سے مراد انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ ارشاد ہے:
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید:۲۵)
ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں اورہدایات کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
فَاحْکُم بَیْْنَہُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن (المائدہ: ۴۲)
پس ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلے کرو۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
ان نصوص کا لغوی تتبع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عدل محسوس ہونے والا انصاف ہے اورقسط نظر آنے والا انصاف ہے۔ اس اعتبار سے عدل کا اطلاق آراء اور فیصلوں پر ہوتا ہے جبکہ قسط انصاف کے عملی مظاہر کے لیے بولا جاتا ہے۔ ایک حدیث سے اس فرق کی وضاحت ہوتی ہے۔
اذا حکموا عدلو اذا قسّموا اقسطوا (مسند احمد۴؍۳۹۶)
جب لوگ فیصلہ کریں عدل سے کام لیں اور جب تقسیم کریں تو قسط کا مظاہرہ کریں۔
۳- عدل کے مترادف ایک لفظ قسطاس بھی ہے جس کے معنی ترازو کے ہیں۔ ترازو انصاف کے تقاضے کو مکمل طور سے اس طرح پورا کرتا ہے کہ سامنے والے کو وہ دکھ جائے۔ ارشاد ہے:
وَأَوْفُوا الْکَیْْلَ إِذا کِلْتُمْ وَزِنُواْ بِالقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ذَلِکَ خَیْْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلا (بنی اسرائیل: ۳۵)
اور جب (کوئی چیز) ناپ کردو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور جب تول کر دو تو ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو، یہ بہت اچھی بات اور انجام کے اعتبار سے بہت بہتر ہے۔
۴- عدل کے ہم معنی ایک لفظ مساوات کا لفظ بھی بولا جاتا ہے مگر قرآن مجید میں یہ اس معنی میں کہیں مراد نہیں لیا گیا ہے۔ اس میں اس مادہ سے وارد تسویۃ، مساوات، استوائ، سوّی اور سوائ،تقریباً نوے مقامات پر وارد ہے۔ ارشاد ہے:
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی، الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوَّی (الاعلیٰ:۲)
اپنے رب کے نا م کی بڑائی بیان کرو جس نے پیدا کیا پھر ٹھیک کیا۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
فلما بلغ اشدہ واستویٰ (القصص: ۱۴) پھر جب (موسیٰ) اپنی جوانی کو پہنچا اور پورا ہوگیا۔
مذکورہ تمام الفاظ کے استعمالات پر گہرائی سے غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ عدل و قسط انصاف کے معنی میں مستعمل ہے جبکہ مساوات محض برابر کرنے یا برابری کا معاملہ کرنے کے معنی میں آیا ہے۔ یہ جملہ پہلوئوں سے عدل کے مترادف نہیں ہے۔ یہ تو عدل کی لفظی تحقیق کی تفصیل ہے۔علماء اسلام کے نزدیک عدل کا کیا مفہوم ہے اس کی وضاحت کی جاتی ہے۔ علامہ ابن ہمام عدل کی تعریف درج ذیل عبارت سے کرتے ہیں:
العدل بذل الحقوق الواجبۃ و تسویۃ المستحقین فی حقوقھم
(فتح القدیر، محمد علی الشوکانی،۱؍۴۸۰)
عدل حقوق واجبہ کے ادا کرنے اور مستحقین و حق دار کو ان کے حقوق میں برابری دینے کا نام ہے۔
علامہ الجرجانی نے عدل کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی ہے:
العدل الامر المتوسط بین طرفی الافراط والتفریط
(معجم التعریفات، علی بن محمد بن علی الجرجانی، ص ۵۸)
عدل کمی اور زیادتی کے درمیان درجے، مرتبے کا نام ہے
علامہ ملوحی نے عدل کی تعریف اس طرح کی ہے:
ھو ان تعطیٰ من نفسک الواجب و تاخذہ (نضرۃ النعیم فی مکار م الاخلاق رسول الکریم، ۲؍۸۰)
دوسروں کے حقوق کا اپنی طرف سے ادا کرنا اور دوسروں سے اپنے حقوق لینا عدل کہلاتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ بغیر افراط و تفریط کے وہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے، عدل کہلاتا ہے۔
عدل کی اقسام:
جس طرح انسانی زندگی کے مختلف پہلوہیں، انفرادی، اجتماعی، معاشی، خاندانی، سیاسی، قانونی وغیرہ اس طرح عدل کے بھی مختلف پہلو ہیں۔ اسلام نے عدل کے ان تمام اقسام کا احاطہ کیا ہے اور ان سے متعین قرآن و حدیث میں واضح ہدایات و تعلیمات دی ہیں۔ ذیل میں اس کی مختلف وضاحت کی جاتی ہے۔ پھر آگے اس کی تفصیل بیان کی جائے گی۔
انفرادی عدل:
انفرادی عدل خاص فرد یا شخص کی مطلوبہ صفت ہے، معاشرے میں رہنے والا ہر شخص د و حال سے خالی نہیں، یا اس پر کسی کا حق ہوتا ہے یا اس کا کسی پر حق ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا انفرادی عدل ہے۔ اسلام نے انفرادی عدل کی تلقین کرتے ہوئے ان عوامل سے اجتناب کی بھی تلقین کی ہے جو انفرادی عدل کے قیام میں مانع ہوتے ہیں جیسے حب ذات اور حب مال۔ یہ دونوں چیزیں انسان کے انفرادی رویے پر اثر انداز ہونے والے اہم عوامل ہیں۔ ان کے باعث وہ متوازن طرز زندگی سے ہٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہو کر ظلم و زیادتی کی طرف مائل ہوجاتا ہے جس کے نتائج اجتماعی صورتوںمیں بھی ظاہر ہوتے ہیں، اس لیے اسلام نے غرور، تکبر اور بخل سے اجتناب کی تاکید کی ہے۔
اجتماعی عدل:
انسان اپنی زندگی میں جلب منفعت اور دفع مضرت دونوں کا محتاج ہے۔ اسلامی احکام میں دونوں پہلوؤں کا احاطہ کیاگیا ہے اور انسان دونوں اعمال انجام دیتا ہے۔ مگر اجتماعی عدل کے ضمن میں اسلام نے دفع مضرت کے پہلوئوں کو زیادہ اجاگر کیا ہے۔ انسانی اجتماعیت میں ناانصافی کا ظہور،آپسی ٹکراؤ اور معاشی امتیازات کی بنا پر ہوتا ہے۔ معاشرہ کے افراد جب طبقاتی تقسیم کا شکار ہوجاتے ہیں تو معاشرہ پر تباہی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ اجتماعی عدل ختم ہوجاتاہے اور ظلم و جور کی جڑ یں گہری ہونے لگتی ہیں۔ لہٰذا اسلام سب سے پہلے ان معاشرتی امتیازات کا قلع قمع کرتا ہے اور معاشرتی مساوات کی تعلیم دیتا ہے تاکہ معاشرہ میں عدل پروان چڑھ سکے۔ اسلام قرآن و حدیث میں پیش کردہ وحدت الٰہ اور وحدت انسانیت کا حوالہ دیتا ہے تاکہ ظلم کی بیخ کنی ہوسکے۔ قرآن و حدیث میں نسل، جنس، رنگ، علاقہ اورزبان کی بنیاد پر کی گئی تفریقات و امتیازات کو یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔
معاشی عدل:
اجتماعی عدل کا ایک پہلو معاشی عدل کا ہے۔ اس کی حیات انسانی میں استحکام، ہم آہنگی، توازن کی برقراری میں خاص اہمیت ہے۔ سود، احتکار،اسراف، تبذیر، غصب، ا کل سحت، یہ سب وہ امور ہیں جو معاشی زندگی میں ظلم و استحصال کا دروازہ کھولتے ہیں۔ اسلام نے ان کو حرام قرار دے کر ظلم و استحصال کا سد باب کیا ہے۔
سیاسی و قانونی عدل:
اجتماعی زندگی میں بسا اوقات ایسے حالات بھی پیش آجاتے ہیں کہ حقوق و فرائض میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ حقوق پامال ہونے لگتے ہیں۔ فرد اور اجتماع کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور انسان، ا نفرادی اور اجتماعی سلوک میں ظلم و استبداد کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ سیاسی نظام غیر عادل حکمرانوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے جہاں افراد کے حقوق بری طرح پامال ہوتے ہیں۔ بلکہ ملک و ریاست کے امن و امان کی حالت دگر گوں ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں ایک سیاسی نظام ناگزیر ہوجاتا ہے جو عدل و قسط کے مطابق نظام حکومت چلائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس ضمن میں واضح ہدایات دی ہیں، ارشادہے:
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَأْسٌ شَدِیْدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ (الحدید:۴۰)
تحقیق کہ ہم نے رسولوں کو واضح نشانیاں دے کر مبعوث کیا اور ان کے ہمراہ ہم نے کتاب اور ترازوے عدل بھی نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور ہم نے لوہا بھی اتارا جس میں جنگ کا سامان اورلوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں۔
آیت میں قوت اور عدل کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے معنی ہوتے ہیں کہ قیام عدل میں قوت کی خاص اہمیت ہے۔ عادلانہ سیاسی نظام سرکشوں اور باغیوں کی تابعداری کے لیے قوت کا منصفانہ استعمال کرتا ہے۔
سیاسی عدل کے ضمن میں باہم اختلافات کے ازالے کا منصفانہ نسخہ بھی بتایا گیا ہے۔ ارشاد ہے:
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْْنَہُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتَّی تَفِیْء َ إِلَی أَمْرِ اللَّہِ فَإِن فَاء تْ فَأَصْلِحُوا بَیْْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الحجرات: ۹)
اگر مومنوں کے دو گروہ آپ میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرادو اور اس کے بعد بھی اگر ان میں سے ایک فریق دوسرے فریق پر سرکشی کرے تو ان میں میں سے انصاف سے صلح کرادو اور ان میں عدل کرو۔ بے شک اللہ عدل کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔
ادارتی امور میں عدل: ادارتی امور میں عدل حکومت کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مختلف محکمات میں اہل اشخاص کا تقررہو اور تقرر کرنے میں کسی طرح کی عداوت، نفرت یا محبت و قربت کا کوئی دخل نہ ہو، نہ خوف اور لالچ کا کوئی دخل ہو۔ ارشاد خداوندی کے بموجب ہر عہدہ و منصب ایک امانت ے اور امانت اس کے اہل کے حوالے کرنا واجب ہے۔ (نسائی:۵۸)
دشمنوں کے ساتھ عدل:
اسلام کے نظام عدل کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین و محاربین کے سا تھ بھی عدل کرتا ہے اوران پر ظلم و جور سے روکتا ہے۔ اسلام کے نزدیک دشمنوں کے ساتھ عدل یہ ہے کہ جب وہ برسر پیکار ہو تو ان سے جنگ کی جائے۔ اگر وہ صلح کے لیے آمادہ ہو تو صلح کیاجائے ۔ اگر دشمن سے زیادتی کا صدور ہو تو انتقام لینے میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ محارب قوم کے غیر متعلق افراد کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ اس طرح کے اور بھی قیمتی اصول اسلام نے بیان کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہر حال میں عدل و انصاف کے دامن کو تھامے رہتا ہے۔
خاندانی و گھریلو امور میں عدل:
انسان کی زندگی کے مختلف حیثیتیں ہیں۔ کئی بار گھرخاندان میں بھی ناچاقی اور اختلاف و نزاع کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ اس طرح کے تمام صورت حال میں اسلام نے عدل کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے:
وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ و حکماً من اھلھا ان یریدآ اصلٰحاًیوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیماً خبیراً(النساء:۳۵)
اور اگر تم کو میاں بیوی کے باہم نا اتفاقی کا اندیشہ ہو تو ایک منصف مرد کے کنبہ کا، ایک م نصف بیوی کے کنبے کامقرر کرو۔ اگر یہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اپنی طرف سے ان میں موافقت پیدا کردے گا۔
اس طرح اسلام نے مالی امور اور قولی معاملات، فعلی سرگرمیوں اور تمام سماجی مسائل میں عدل و انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ذیل میں اسلام کے نظام عدل کی اہمیت و خصوصیات کا ذکر کیا جاتا ہے جو دنیاوی نظام عدل و انصاف میں موجود نہیں ہیں:
اسلام میں عدل و انصاف کی اہمیت :
اسلام میں عدل و انصاف کی کیا اہمیت ہے یہ جاننے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اس نے رسالت و نبوت کے مختلف مقاصد میں ایک نمایاں مقصد عدل و انصاف کا قیام بتایا ہے۔اللہ رب العزت نے سلسلۂ نبوت اس لیے قائم کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید:۲۵)
ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں اورہدایات کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
مسلمانوں کا مقصد وجود بھی دنیا میں عدل و قسط کے قیام کو ٹھہرایا گیا ہے۔ارشاد ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء لِلّہِ وَلَوْ عَلَی أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ إِن یَکُنْ غَنِیّاً أَوْ فَقَیْراً فَاللّہُ أَوْلَی بِہِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْہَوَی أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراً ( النساء: ۱۳۵)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین ا ور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب اللہ تم سے زیادہ اس کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبرہے۔
اسلام میں عدل ایک بنیادی قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء کرام مبعوث فرمائے ، ان کا مقصد بعثت ہی تھا کہ وہ انسانیت کو عدل و قسط کی روش پر قائم رکھ سکیں جس کو قرآن مجید میں سواء السبیل اور صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ کیوں کہ انسان از خود اس راہ کو پانے پر ہرگز قادر نہیں ہے۔ سواء السبیل اورصراط مستقیم کی رہ نمائی وہی کرسکتا ہے جو انسان کا خالق ہے، انسانی قوتوں، صلاحیتوں، خواہشات، جذبات، رجحانات، جسم و نفس کے مطالبات اور روح و طبیعت کے تقاضوں اور انفرادی و اجتماعی ضرورتوں سے واقف ہے۔ اس وجہ سے قرآن میں نظام عدل کو میزان کہا گیا ہے۔ کیونکہ کائنات کا نظام توازن اعتدال اور میزان پر قائم ہے اس لیے انسان کو بھی اپنے معاشرے میں میزان قائم کرنا چاہیے، جس معاشرے میں عدل و میزان اورتوازن نہ ہو وہاں فساد اور ظلم کا ہونا لازمی بات ہے۔
اللہ تعالیٰ نہ صرف انسان کا خالق ہے اور اس کی حاجات و ضروریات کا علم رکھتا ہے بلکہ کائنات کا بھی خالق ہے۔ جو اس کو اپنی تدبیر اور عدل و قسط کے مطابق چلا رہا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور اقتدار عظیم کا تذ کرہ جگہ جگہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا تجزیہ کریں تو مختلف صفات کا علم ہوتا ہے۔ وہ عزیز، ملک، مقتدر، جبار، قہار ہے، اسی طرح وہ حکیم، رحیم، علیم، وہاب اور حمید بھی ہے۔ ان صفات کا مقصد یہ ہے کہ انسان جان لے کہ جو اللہ اس کائنات پر فرماںروائی کررہا ہے وہ ایک طرف زبردست ہے، کامل اقتدار رکھتا ہے، کائنات میں اس کے فیصلوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔ دوسری طرف وہ حکیم ہے۔ یعنی ہر فیصلہ علم و حکمت کے مطابق کرتا ہے۔ رحیم ہے یعنی اپنے اقتدار اور بادشاہت کو بے پناہ رحمت کے ساتھ چلاتا ہے۔ غفور ہے یعنی اپنے زیر دستوں کے ساتھ چشم پوشی اور عفو و درگذر سے کام لیتا ہے۔ وہاب ہے یعنی اپنی رعایا کے ساتھ بے ا نتہا فیاضی کا معاملہ کرتا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ اللہ رب العزت کی ان صفات کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اگر کہیں مکمل عدل مل سکتا ہے تو ذات الٰہ سے مل سکتا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ انسان کے کیا حقوق ہیں اور کیا فرائض ہیں۔ اور کس طرح ان حقوق و فرائض پر عمل یا اس کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔ اور پھر اس کی خلاف ورزی کا مداوا کس طرح ہوسکتا ہے۔ جس ہستی میں یہ خوبیاں ہوںگی کہ وہ عزیز، مقتدر، قہار و جبار ہونے کے ساتھ حکیم و علیم بھی ہو رحیم و غفور بھی ہو وہی ہستی انسانوں میں عدل و قسط قائم کرسکتی ہے۔ یا عدل و قسط قائم کرنے کے اصول وضع کرسکتی ہے۔ اس کی صراحت قرآن مجید میں واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔ ارشاد ہے:
شَہِدَ اللّہُ أَنَّہُ لاَ إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ وَالْمَلاَئِکَۃُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ قَآئِمَاً بِالْقِسْطِ لاَ إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ، إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْ وَمَن یَکْفُرْ بِآیَاتِ اللّہِ فَإِنَّ اللّہِ سَرِیْعُ الْحِسَاب (آل عمران:۱۸-۱۹)
اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہی شہادت فرشتوں اور سب اہل علم نے بھی دی ہے ۔ وہ انصاف پر قائم ہے۔ اس زبردست حکیم کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ کے نزدیک قابل قبول دین صرف اسلام ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے:
وَکَذَلِکَ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ رُوحاً مِّنْ أَمْرِنَا مَا کُنتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیْمَانُ وَلَکِن جَعَلْنَاہُ نُوراً نَّہْدِیْ بِہِ مَنْ نَّشَاء مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّکَ لَتَہْدِیْ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (الشوریٰ:۵۲)
اور اس طرح(اے محمدﷺ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اورایمان کیا ہوتا ہے۔ مگر اس روح کو ہم نے ا یک روشنی بنادیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں یقینا تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کررہے ہو۔
محولہ بالا پہلی آیت میں وارد قائما بالقسط کو انجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو نفس لوامہ (ضمیر) عطا کیا ہے جو زندگی کے ہر مرحلے میں انسان کو حق و باطل، صحیح و غلط اور جھوٹ و سچ کی تمیز سکھاتا ہے۔ مکافات عمل کا اصول جاری کیا۔ انبیاء، رسل، بھیجنے کے ساتھ ان کو شرائع عطا کیں۔ شریعتوں میں تحریف و ترمیم اور بدعت و فساد رونما ہوجانے اور نظام عدل و قسط بگڑ جانے کی صورت میں مصلحین و مجددین کو پیدا کیا۔ قوموں کو سیاسی عروج و زوال کو اخلاقی عروج و زوال کا پابند بنایا اور سب سے اہم بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کے صفت عدل و قسط کے کامل ظہور کے لیے یوم آخرت کا وعدہ کیا جو انسانوں کے لیے یوم جزا و سزا ہوگا جس کا فیصلہ عدل و قسط کی بنیاد پر لیا جائے گا۔
اس دنیا کا نظام امتحان اور آزمائش کے اصول پر مبنی ہے اور آخرت کے معاملات عدل و انصاف کے اصول پر طے ہوںگے ۔ اس دارالامتحان میں کسی کو بھی کوئی چیز حق المحنت کے طور پر نہیں دی گئی ہے بلکہ اللہ رب العزت نے اپنی حکمت کے تحت محض آزمائش کے لیے دی ہے۔ اسی لیے دینے میں تفاوت ہے۔ کسی کو کم دیا ہے کسی کو زیادہ عطا کیا ہے۔ اس تقسیم میں انسان کے صبر و شکر کا امتحان ہے۔ آخرت میں دنیا میں کیے گئے اعمال کے مطابق جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا اور تکمیل انصاف ہوگی جس کے اعمال ا چھے ہوں گے انھیں اچھا صلہ ملے گا اور جس کے اعمال برے ہوں گے انھیں بہرحال سزا ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کے صفت عدل و قسط کا یہی تقاضا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرے گا۔ ارشاد ہے:
قُل لِّمَن مَّا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ قُل لِلّہِ کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ الَّذِیْنَ خَسِرُواْ أَنفُسَہُمْ فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُون (الانعام: ۱۲)
اے نبیؐ ! آپ کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کسی کی ملک ہے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے، اس نے اپنے اوپر رحمت لازم کرلیا ہے، وہ تم سب کو قیامت کے دن جس میں کچھ بھی شک نہیں ہے ضرور جمع کرے گا، جن لوگوں نے اپنے نفس کو نقصان میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
اللہ رب العالمین کی متعددصفات ہیں لیکن ان میں سب سے بڑی اور نمایاں صفت عدل ہی ہے کیونکہ کائنات کی تخلیق سے تدبیر تک، انسان کی تخلیق سے وسائل زندگی کی فراہمی تک، انسان کے امتحان و آزمائش کے مختلف مراحل، بچپن سے جوانی، جوانی سے بڑھاپا، بڑھاپے سے موت، موت سے برزخ، برزخ سے قیامت، پھر حساب و کتاب، میدان حشر، بے شمار مرحلوں سے انسان کا گذرنا اور ان میں لاکھ قوانین واحکام سب عدل پر مبنی ہیں اور ہر لحظہ اور ہر مرحلے میں اللہ کی صفت عدل کا نظارہ ملتا ہے۔ اس لیے انسان کے لیے یہی بہتر رویہ بھی ہے کہ وہ عدل پر قائم ہوجائے۔ کیونکہ اللہ رب العالمین نے اس کائنات کو مکمل طور سے عدل کے نظام پر قائم کیا ہے اور اس نظام کی فطرت اور ترکیب تخلیق یہ چاہتی ہے کہ اس میں رہنے والے اپنے اپنے حدود و اختیار میں عدل پر قائم رہیں اور توازن نہ بگاڑیں کیوں کہ وہ عظیم الشان قوتیں جو اس کائنات کے کارگاہ میں کار فرما ہیں اور اس میں موجود لاتعداد مخلوقات اور اشیاء اگر ان میں اللہ رب العزت نے کمال درجہ عدل و توازن نہ رکھا ہوتا تو یہ کارگاہِ ہستی ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں چل سکتی۔ لہٰذا انسان کے لیے بھی سب سے درست اور مناسب ترین رویہ عدل ہے اور اس سے انحراف فساد کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالسَّمَاء رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ، أَلَّا تَطْغَوْا فِیْ الْمِیْزَانِ ، وَأَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ (الرحمن: ۷-۹)
آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔
بظاہر اس آیت میں ترازو سے ٹھیک ٹھیک تولنے کی تلقین کی گئی ہے مگر حقیقت میں اس میں نظام کائنات کے توازن کو بگاڑنے اور زمین میں فساد و فتنہ برپا کرنے سے روکا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفت ِ عد ل کے سا تھ اس کی ایک دوسری امتیازی صفت احد، واحد، وحید ہے جس کے معنی ایک اور یکتاکے ہیں۔ اللہ رب العزت اپنی ذات میں اکیلا، تنہا اور یکتا ہے۔ اپنی صفات میں بھی وہ صفت احدیت سے متصف ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ الوہیت بھی صرف اسی کے لیے ہے۔ اور یہی عدل ہے اور عدل کا تقاضا بھی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کے عقلی اور منطقی دلائل فراہم کیے ہیں کہ اگر اس کائنات میں اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی اور خدا ئی صفات سے متصف ہوتا تو کائنات میں ہر جگہ فساد رونما ہوجاتا۔ (الانبیاء:۲۲) اس طرح اگر خالق کائنات انسانوں کی خواہشات و آرزوئوں کے مطابق کائنات چلانے لگے تو بھی یہاں فساد برپا ہوجائے گا۔ (المومنون: ۷۱)
فی زمانہ پوری روئے زمین فتنہ و فساد کی لپیٹ میں ہے۔ بحر و بر، خشک و تر ہر جگہ خون خرابہ اور ظلم و استبداد کا دور دورہ ہے۔ اس کے بارے میں قرآن مجید کا تبصرہ ہے کہ یہ لوگوں کے کرتوت کا نتیجہ ہے اور یہ تقاضائے عدل ہے۔ ارشاد ہے:
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُم بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ، قُلْ سِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَانظُرُوا کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِن قَبْلُ کَانَ أَکْثَرُہُم مُّشْرِکِیْنَ (الروم: ۴۱-۴۲)
خشکی و تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے نتیجے میں تاکہ اللہ تعالیٰ مزہ چکھائے انسانوں کو ان کے اپنے اعمال کا۔ شاید یہ کہ وہ نصیحت پکڑیں اور رجوع کریں۔ اے نبیؐ ان سے کہہ دیجئے کہ زمین میں چل پھر کر دیکھوپہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوچکا ہے۔ ان میں اکثر مشرک ہی تھے۔
اب تک کی تفصیلات کاخلاصہ یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ نے صرف حق و عدل پر استوار کیا ہے۔ کائنات کی فطرت عدل کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے نہ کہ ظلم و عدوان کے سا تھ۔ دوسری بات یہ کہ یہ کائنات سنجیدہ نظام ہے جس کا ایک ایک ذرّہ گواہی دے رہا ہے کہ اسے کمال درجہ علم و حکمت کے ساتھ تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کائنات کی ہر شی ایک قانون کے تحت کار فرما ہے اور کائنات کی ہر ہر شی با مقصد ہے۔محض بے کار اور عبث نہیں ہے۔ انسان کو تمام وسائلِ زندگی اس کی آرزوئیں تمنائیں یا اس کا اجتماعی زندگی، خاندانی زندگی، اس کا تمدن، معیشت اور تمام علوم و فنون یہ سب اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کردہ ہیں اور اس کا ایک مقصد ہے۔ اس کی آزمائش کی جائے اور اس کو اس کے مطابق جزا و سزا دی جائے یہ بھی تقاضائے عدل ہے۔
اس کائنات میں اللہ رب العالمین نے کسی چیز کو ہمیشگی عطا نہیں کی۔ ہر چیز فانی ہے اور ہر وجود لا محالہ ختم ہوجائے گا۔ یہ اصول بھی عدل پر مبنی ہے۔
انسان کے دنیوی ز ندگی میں عدل کے الٰہی مظاہر :
دنیوی زندگی میں عدل و انصاف کی بنیاد یہ ہے کہ تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک جان سے پیدا کیا لہٰذا ہر ایک برابر حقوق رکھتا ہے۔ (النساء:۱-۷) اللہ کے نزدیک شرف و عزت اور مقام و مرتبہ محض تقویٰ کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ تمام انسانوں کے لیے شرف و عزت کا مقام رکھا گیا ہے۔ لوگوں کا مختلف طبقات میں تقسیم محض پہچان کے لیے ہے(الحجرات: ۱۳)۔ کسی طبقے کی مذہبی برتری بھی نا انصافی ہے (البقرہ:۱۹۹) اللہ تعالیٰ نے بتقاضائے حکمت انسانوں کے درمیان فرق مراتب رکھا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح زمین کے مختلف قطعات اپنے خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ حالانکہ ایک ہی پانی سے سیراب ہوتا ہے، سورج ایک ہے، جس کی روشنی پڑتی ہے، یعنی کوئی پھل عمدہ ہے کوئی بہترین ہے اور کوئی کم ترین ہے۔ رنگ اور ذائقہ میں بھی تفاوت ہے۔ (الرعد۴)
مہذب قوموں کا انجام دنیامیں اللہ تعالیٰ کے مبنی بر عدل قانون مکافات العمل کے نافذ ہونے کا ثبوت ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں درجنوں مقامات پر کیا گیاہے۔ (دیکھیے آل عمران ۱۳۷؛ الانعام ۶-۱۱؛ الاعراف ۴-۱۰؛ ۳۴-۷۸-۹۲؛ یوسف: ۱۰۹-۱۱۱؛ ہود ۷-۵۷-۶۰-وغیرہ) لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ اصول اختیار کیا کہ وہ کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ اس میںمتنبہ کرنے والے کو نہ بھیجے اور جب تک متنبہ کرنے والا رسول لوگوں کے درمیان ہوتا ہے مہلت کی مدت دراز ہوتی رہتی ہے۔ (الشعراء:۲۰۸-۲۰۹) اللہ کا یہ طریقہ بھی عدل پر مبنی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے کہ جو اس کے راستے پر چلے گا وہ دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات سے سرفراز ہوگا اور جو اللہ کے راستے سے انحراف کرے گا وہ خسران سے دوچار ہوگا۔ (البقرہ:۷-۲۵-۳۸-۳۹-۸۱-۸۲) آل عمران: ۴-۵۶-۵۷ -۸۵ وغیرہ) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی تمام نعمتیں عطا کی ہیں وہ انسان کو کسی تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ اس لیے عدل کا تقاضاہے کہ انسان بھی اللہ سے کیے گئے عہد کو پوراکرے۔ انسان جلد باز واقع ہوا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سزادینے میں جلدی بازی نہیں کرتا۔ (المائدہ:۷) بلکہ وہ آخری گنجائش تک مہلت دیتا ہے (یونس:۱۱) اللہ تعالیٰ کا بے مثال عدل ہے کہ انجام کار صرف متقین کے لیے بہترین ہے اور ظالموں کو انجام بد بالآخر پیش آکر رہے گا۔ (آل عمران: ۱۳۷-۱۳۸)
اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف نہیں بدلتی یعنی عروج و زوال قانون الٰہی کے تابع ہے۔ (الرعد:۱۱)
اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ قرآن حکیم اور میزان نازل فرمائی اور ترازو کی طرح ٹھیک ٹھیک تول کر صحیح اور غلط، حق اور باطل، عدل و ظلم اور راستی اور نا راستی کا فرق بالکل واضح کردیا۔ (الشوریٰ:۱۶-۱۸)
انسان کو اللہ تعالیٰ نے مشقت میں پیداکیا یعنی یہ دنیوی زندگی انسان کے لیے مزے کرنے اور چین کی بانسری بجانے کی جگہ نہیں ہے بلکہ محنت و مشقت کی جگہ ہے۔ کوئی بھی انسان ان حالات سے گزرے بغیر نہیں رہ سکتا۔ (البلد:۴)
اسلام عدل و کرم کو انسانی بنیادوں پر استوار کرتا ہے اور اسے مذہب میں منحصر نہیں کرتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے: تو زمین پر بسنے والوں پر رحم کرو تو جو آسمان پر ہے وہ تم پر رحم کرے گا( الترمذی: ابواب البر والصلۃ ۱۹۲۴) اللہ تعالیٰ ظالمو ں کے لیے ہلاکت دتباہی کے علاوہ اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا (نوح: ۲۸)
خلاصۂ کلام یہ کہ اس دنیا میں تخلیق انسان سے لے کر انسان کے اس عارضی دنیا میں قیام کے لیے ہر ہر پہلو میں خدائے عادل کا عدل کار فرما ہے۔ آپ کسی جگہ انگلی رکھ کر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے بجائے اگر یوں ہوتا تو عدل کے تقاضے زیادہ پورے ہوتے۔ افراد سے لے کر اقوام تک ہر کسی سے اللہ تعالیٰ ایک واحد اصول عدل کے تحت معاملہ کرتا ہے۔ اگر نوازنا ہے تو انسان کی کار کردگی کا صلہ ہوتا ہے اور اگر پکڑتا ہے تو بھی انسان کی کمائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ انسان کی فطرت، ضمیر، مظاہر قدرت، آسمانی کتب اور انبیاء و رسل کی تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو عدل و انصاف کے ساتھ پیدا کیا ہے اسی طرح انسان کو اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ جس کی طرف سابقہ سطور میں اشارہ کیا گیا اور آندہ سطور میں وضاحت کی جائے گی۔ ورنہ کائنات کا نظام بگڑ جائے گا اور پوری انسانیت درد و کرب میں مبتلا ہو کر زندگی گذارے گی اور آخرت کی تباہی تو پیش آنی ہی آنی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی، قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمَی وَقَدْ کُنتُ بَصِیْراً، قَالَ کَذَلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذَلِکَ الْیَوْمَ تُنسَی (طہٰ:۱۲۴-۱۲۶)
اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا میرے پروردگار تو نے مجھے ا ندھا کرکے کیوں اٹھایا میں تو دیکھتا بھالتا تھا، اللہ کہے گا ایسا ہی چاہیے تھا، تیرے پاس میری آیتیں (نشانیاں) آئیں تو تو نے ان کو بھلادیا اسی طرح آج ہم تم کو بھلا دیں گے۔
ذیل کی سطور میںا سلام کے نظام عدل و انصاف کی امتیازی خصوصیات کا ذکر کیا جاتا ہے اور پھر انفرادی اور اجتماعی عدل کی جھلکیاں پیش کی جائیں گی۔
اسلام کے نظام عدل و انصاف کی امتیازی خصوصیات:
دنیا کے تمام نظام عدل و انصاف، انسانوں کے وضع کردہ ہیں جووہ اپنے احوال وظروف کو پیش نظر رکھ کر تیار کرتے ہیںجبکہ اسلام کانظام عدل معاشرہ اور سوسائٹی کو اپنے خطوط اور اساس کے مطابق چلاتاہے۔ یعنی بالفاظ دیگر دنیا کے وضعی قوانین سوسائٹی کے تابع ہوتے ہیں جبکہ اسلام کا نظام عدل سوسائٹی کو اپنا تابع بنا کر چلتا ہے یعنی اسلام میں عدل و انصاف کو اولیت حاصل ہے اور دنیاوی نظام میں سوسائٹی کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔
(۲) دنیا کے قوانین عدل و انصاف چونکہ انسانی ذہنوں کے وضع کردہ ہیں لہٰذا ان میں ترمیم و اضافہ ہوتا رہتا ہے کیونکہ انسان خطا و نسیان سے مرکب ہے اور اس کے وضع کردہ قوانین میں ضعف، کم فہمی، نتائج سے عدم واقفیت، مستقبل سے لا علمی پائی جاتی ہے بنا بریں ان میں بار بار ترامیم کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نظام عدل و انصاف ایسے رب علیم و خبیر کی طرف سے عطا کردہ ہے جو ازل تا ابد کے سارے علم سے واقف ہے۔ لہٰذا اس میں تبدیلی و تغیر کی چنداں ضرورت نہیںہوتی اور روئے زمین کے تمام انسانوں کے لیے یکساں طور پر قابل نفاذ ہیں۔
(۳) اسلام کے نظام عدل و انصاف کی ایک ا ہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی قانون کے سامنے امیر، غریب، بادشاہ، فقیر، حکمراں اور پبلک کے درمیان کوئی تفریق و تمیز نہیں ہے۔ سب برابر ہیں۔ جرم کا اثبات، شہادت کا عمل اور نفاذ قانون میں کوئی امتیازی سلوک کسی کے ساتھ نہیں کیا جائے گا۔ آج دنیا بہت ترقی کرچکی ہے۔ قانون اور شروح قانون کی لاکھوں ہزاروں کتابیں تیار ہوچکی ہیں لیکن مغربی نظام عدل کی رو سے حکمراں،وزیر اعظم یا صدر مملکت کو ایک عام شہری، عدالت میں طلب نہیں کرسکتا۔ اور عام عدالتیں ان پر مقدمہ نہیں چلا سکتیں۔ اسلام کے نقطۂ نظر سے بادشاہ وقت بھی قانون کے سامنے جواب دہی سے مستثنیٰ نہیں ہے، اقوام متحدہ میں پانچ بڑی طاقتوں کو ویٹو پاور حاصل ہونا خود انسانیت کے درمیان تفریق و امتیازکے سب سے نمایاں مثال ہے جو ادارہ دنیامیں حقوق انسانی اور عدل و انصاف کا علم بردار ہونے کا دعویٰ لے کر اٹھا ہے اس کا حال یہ ہے۔
(۴) اسلام کے نظام عدل کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو صرف ظاہری طور پر قانون کی پابندی نہیں سکھاتا بلکہ وہ اندر سے اس کی تربیت کرتا ہے۔ان کے اندر سب سے پہلے تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کا خوف جاگزیں کرتا ہے پھر جرائم سے اس کے دل میں نفرت پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب ایک ماں اپنی بچی سے دودھ میں پانی ملانے کے لیے کہتی ہے تو بچی جواب دیتی ہے کہ اگرچہ حضرت عمرؓ نہیں دیکھ رہے ہیں مگر اللہ دیکھ رہا ہے۔ اس طرح کی تربیت کے نتیجے میں حضرت ماعزاسلمیؒ اور غامدیہ ؓ حضوراکرم ﷺ کی خدمت میں آکر اعتراف گناہ کرتے ہیں اور اپنے اوپر حد کے اجرا کا مطالبہ کرتے ہیں۔
(۵) اسلام کے نظام عدل و انصاف کے ضمن میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوم کی فوری اور مفت داد رسی کرے تا کہ غریب سے غریب بھی عدل و انصاف سے محروم نہ رہے۔ اسی طرح عدل و انصاف میں غیر معمولی تاخیر اور مقدموں میں بلا وجہ پچاسوں تاریخیں، وکلاء کی بھاری فیس اور اسٹامپ کے مصارف عدالتوں کے چکر یہ سارے مسائل سے اسلامی نظام عدل کو پاک رکھا گیا ہے۔ ہندوستان میں مختلف عدالتوں میں تین کروڑ سے زائد مقدمات زیر ا لتوا ہیں جن کو فیصل کرنے میں تین سو سال کی مدت درکار ہے۔ یہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے اکثر ممالک کا عدالتی نظام مقدمات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور ان میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس بات کی روشنی میں اسلام کے نظام عدل کو آسان اور مفت اور نظام اجتماعی کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور مناسب ترین کہا جاسکتا ہے۔
(۶) اسلام کے نظام عدل کی ایک خوبی اس کا نظام شہادت کا سخت ہونا ہے۔ دنیا کے نظام عدل میںہر ایرے غیرے نتھو خیرے شہادت کے اہل سمجھا جاتا ہے خواہ خود اس کا کردار کتنا ہی مکروہ اور گھنائونا کیوں نہ ہو۔ پس صرف شرط یہ ہے کہ وہ ہوش و حواس میں ہو اور گواہی دیتے وقت اپنی بات کو سمجھ رہا ہو لیکن اسلام نے اپنے نظام عدل کے لیے شہادت (گواہی) کا سخت معیار متعین کیا ہے جس میں سب سے اہم عادل ہونا ضروری ہے جس کے معنی یہ ہوا کہ گواہی پیش کرنے والا کبیرہ گناہ سے اجتناب اور صغیرہ پر اصرار نہ کرتا ہو اور اس کی نیکیاں برائیوں پر غالب ہوں۔ اسلام نے جھوٹی گواہی کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے۔
اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ عدل کی سب سے بہترین صورت جو انسان کے لیے آزادی اور وسعت کا داعی ہے اور اسلامی عدل سے بڑھ کر دنیا میں کوئی عدل نہیں اور ان مصلحتوں سے اوپر کوئی مصلحت نہیں جن کا لحاظ اسلام نے رکھا ہے۔ سیاست عادلہ اسلام کے اجزائے ترکیبی کا ایک بنیادی عنصر ہے جس کو اس سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا جو اسلام کی تعلیمات سے کما حقہ واقفیت حاصل کرلے تو پھر وہ کسی اور نظام عدل کی طرف نظر التفات کر ہی نہیں سکتا۔
۷- اسلام انفرادی حقوق اور انفرادی ذمہ داریوں ا ور اجتماعی حقوق اور اجتماعی ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ پہلے فرد کو تلقین کرتا ہے کہ وہ بے محابا اور بے لگام نفسانی خواہشات سے اپنے آپ کو آزاد کرائے اورپھر ضروریاتِ زندگی بہم پہنچانے کے لیے محنت اور سعی و کوشش کا بھی حکم دیتا ہے۔ یہ انفرادی ذمہ داری ہے کہ ہر فرد اپنے عمل کا ذمہ دار ہے اور کوئی دوسرا اس کا بار گناہ نہیں اٹھائے گا۔ نہ ایک شخص کے جرم کی سزا دوسرے کو دی جائے گی۔ اسلام فرد اورخاندان کے افراد کے درمیان اجتماعی عدل اور تکافل باہمی کا نظام بھی قائم کرتا ہے جس سے افراد خاندان باہمی کفالت کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں۔ مصالح عامہ ملحوظ رکھنے کی ذمہ داری ہر فرد کی ہے اور معاشرہ میں کوئی شخص اس سے بری اور آزاد نہیں۔ سماج کا ہر فرد نگراں بھی ہے اور زیر نگرانی بھی ہے اور اسی اصول کے تحت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ معاشرہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ کمزوروں اورمظلوموں کی حفاظت اور ان کے مصالح کا تحفظ کا التزام کریں۔ غرض کہ اسلامی نظام عدل کے تمام پہلو ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔
۸- اسلام کے اجتماعی عدل کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ محدود معنی میں کسی معاشی عدل کا نام نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر اور جامع الٰہی عدل ہے جو انسان کو اس کی زندگی کے تمام مظاہر اور ہر طرح کی سرگرمیاں اس کے دائرے میں داخل ہیں۔ وہ فکر، عقیدہ، عمل، ضمیر اور وجدان پر چھایا ہوا ہے اور مادی و معنوی اور روحانی تمام طرح کی اقدار کے ایک خوش گوار امتزاج کا نام ہے جو ایک صالح مشترکہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اجتماعی جد و جہد کرتے ہیں جس کے دائرے میں روحانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، ا خلاقی اور ا جتماعی و انفرادی دائرے آتے ہیں اور تمام دائروں کا ایک ہی مشترکہ نصب العین ہے کہ انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی فوز و فلاح سے ہم کنار ہوجائے۔
۹- اسلام کے نظام عدل کی ایک خوبی یہ ہے کہ اسلام باہمی ہمدردی اور تکافل اور مواخات کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلام میں مدات زکوٰۃ میں اولیت معاشی طور پر کمزور اور محتاجوں کو دی گئی ہے تاکہ معاشرہ میں معاشی عدل قائم ہو۔ زکوٰۃ ایک شرعی فریضہ ہے جس کی حد اور شرح مقرر ہے ۔ اسلام باہمی عدل و تکافل کو ا نسانی بنیادوں پر استوار کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس نے عدل کے ساتھ احسان کا حکم دیا ہے اور انفاق کا عام حکم ہے اور مال خرچ نہ کرنے کے جذبے کی مذمت کی گئی ہے۔ اسلام نے اللہ کی مخلوق سے احسان کو اپنے ساتھ احسان قرار دیا ہے۔ حالانکہ اللہ کی ذات بزرگ و برتر اس سے کہیںبلند ہے کہ اس کی مخلوق اس پر احسان کرے، نیکی اور احسان کے اس اچھوتے تصور کو ایک روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ روز قیامت اللہ ا پنے بندوں سے پوچھے گا کہ میں بیمارہوا مگر تو نے میری عیادت نہ کی، میں بھوکا تھا مگر تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ اس سوال سے بندہ عرض گذار ہوگا کہ اللہ تو رب العالمین ہے تو کیسے بیمار ہوسکتا ہے؟ تو کیسے بھوکا ہوسکتا ہے؟ اللہ کہے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، میرا فلاں بندہ بھوکا تھا، مگرتو نے اس کی عیادت نہیں کی یا اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ (مسلم کتاب البر والصلہ، مسند احمد، ۲؍۴۰۴)
۱۰- اسلام کے عدل اجتماعی کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ غیر فطری معاشی مساوات کا قائل نہیںہے۔مال و دولت کا کسب ایسی صلاحیتوں پر منحصر ہے جو سب کو برابر نہیں ملی ہیں۔ صلاحیتوں میں تفاوت ہے لہٰذا لوگوںکی معاشی سطح بھی متفاوت ہوگی البتہ اسلام یہ شرط عائد کرتا ہے کہ مواقع سب کو یکساں حاصل ہوں۔ کسی شخص کی راہ میں حسب و نسب اور اس کا رنگ اور جنس رکاوٹ نہ بنے۔ اسلام کے اس معاشی نظام کو اس مثال سے سمجھنا چاہیے کہ زندگی کی دوڑ میں سب کو زبردستی ایک جگہ سے دوڑ شروع نہیں کرایا گیا ہے اور نہ ہی دوڑ میں بھاگنے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیاگیا ہے بلکہ ہر شخص کو اس دوڑ میں اس کے پیدائشی حالات کے ساتھ آغاز کرواتا ہے۔ پھر جس میں صلاحیت ہو وہ آگے نکل جائے اس کو اس کاحق دیتا ہے۔ اسلام آگے نکلنے والوں کو یہ تعلیم ضرور دیتا ہے کہ زندگی کے دوڑ میں جو پیچھے رہ گیا اسے آگے بڑھنے میں مدد کیا جائے اور اسے مایوسی اور کس مپرسی کی حالت میں نہ چھوڑ دیا جائے۔ اسلامی خلافت راشدہ کے عہد زریں میں بوڑھوں، بیماروں، بیوائوں اور دودھ چھڑائے بچوں کے وظائف مقرر کیے گئے تھے اور یہ زکوٰۃ کے معروف مصارف کے علاوہ ایک سماجی تحفظ کے بطور تھا۔ خلفاء راشدین نے قحط اور بھوک میں بعض حدود کے نفاذ کو مؤخر کردیا تھا۔
عدل قائم کرنے کے مواقع:
عدل قائم کرنے کے مختلف مواقع ہیںاس کا پہلا موقع و محل آدمی کی خود اپنی ذات ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کے لیے وہ پسند کرے جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے، اس طرح وہ اپنے لیے حقوق کا اس قدر خواہاں ہو جس قدروہ دوسروں کے لیے چاہتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید اور احادیث شریف میں اس کی پوری وضاحت موجود ہے کہ عدل و انصاف قائم کرنا ہے تو پہلے اپنی ذات پر اور اقرباء و رشتہ داروں پر قائم کرو۔ ارشاد ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء لِلّہِ وَلَوْ عَلَی أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ إِن یَکُنْ غَنِیّاً أَوْ فَقَیْراً فَاللّہُ أَوْلَی بِہِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْہَوَی أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراً (النساء:۳۵)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو انصاف کے علم بردار خداکے واسطے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اگرچہ لگی لپٹی بات کی یا سچائی سے پہلو بچانا، تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
اس مضمون کو حدیث میں اس طرح بیان کیا گیاہے:
لا یؤمن عبد حتی یحب لجارہ او قال لاخیہ ما یحب لنفسہ (مسلم، کتاب الایمان، باب ثلاث من کن فیہ وجد حلاوۃالایمان)
قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جو اپنے پڑوسی کے لیے یا اپنے بھائی کے لیے وہی نہ پسند کرے جو اپنے نفس کے لیے پسند کرتا ہے۔
موجودہ دور میں دوہرے معیار پر عمل کرنا ایک عام سی بات ہے۔ فرد سے لے کر حکومت تک اس پر عمل پیرا ہے۔ فرد اپنے لیے ایک معیار رکھتا ہے اور دوسروں کے لیے الگ، اسی طرح حکومتیں دہرے معیار پر عمل کرتی ہیں جس کی وجہ نا جانے کتنے لوگوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور مظالم کی فضا بنتی ہے۔
اسلام کے نظام عدل کے دائرے میں افراد، خاندان، اولاد اورازواج آتے ہیں۔ اگر کسی شخص کے متعدد اولاد ہوں تو ان کے درمیان یکساں اور مبنی بر انصاف معاملہ کرنا واجب ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی متعدد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا ضروری ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِیْ الْیَتَامَی فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ ذَلِکَ أَدْنَی أَلاَّ تَعُولُواْ (النساء:۳)
اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو، یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے انصاف نہ کرسکوگے تو ایک عورت کافی ہے یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔
عورتوں کے حقوق کے ضمن میں وراثت میں ان کا حق نہ تسلیم کرنا اور اسے نہ دینا بھی ہے۔ آج ہر طرح کا معاشرہ عورتوں کے مالی حقوق پامال کرنے میں مصروف ہے۔ عورتوں کی وراثت دین دار طبقہ میں بھی ہڑپ کی جارہی ہے۔ جبکہ شریعت میں اس کی سخت تا کید آئی ہے۔ ایک حدیث میں اولاد کے درمیان انصاف کرنے کی تلقین اس طرح کی گئی ہے:
ان اﷲ یحب ان تعدلوا بین اولادکم حتی فی القبل (فیض القدیر شرح جامع الصغیر للمنادی نمبر شمار ۱۹۵)
اللہ تعالیٰ کو پسند ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو۔ یہاں تک کہ ان کو بوسہ لینے میں بھی عدل ملحوظ رکھو۔
عدل قائم کرنے کا دوسرا موقع و محل ریاست ہے اور حکومت اس کو قائم کرتی ہے۔ اس کے تین پہلو ہیں۔ قانونی عدل، اجتماعی عدل اور بین الاقوامی عدل۔ ذیل میں اس کی مختصر تشریح کی جاتی ہے۔
قانونی عدل کے معنی یہ ہیں کہ ملک کے تمام باشندوں کے لیے قانون برابر ہو۔ اس میں کوئی تفریق یا تمیز نہ ہو۔ رنگ و نسل، امارت و غربت اور علاقہ و مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہ کیا جائے بلکہ یکساں طور پر سب پر قانون کانفاذ ہو۔ اسلام کی یہی تعلیم ہے اور اسلامی قانون کا پہلا اصول یہی ہے۔ چنانچہ ا س سلسلے میں عہد نبوی ﷺکے ایک واقعہ کا حوالہ دینا کافی ہوگا۔ دراںحالیکہ اسلامی تاریخ میں اس کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔عہد نبوی ﷺؓ میں ایک مخزومیہ خاتون نے چوری کا ارتکاب کیا۔ اس کا مقدمہ عدالت نبوی میں آیا تو حضور ﷺ نے فیصلہ صا د ر فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔ یہ بات اہل قریش کو گراں گذررہی تھی۔ حضرت اسامہ بن زید کو سفارش کرنے کے لیے کہا گیا کہ حضور اکرمؐ سے سزا میں تخفیف کرادیں ، رسول اللہ ﷺ غضب ناک ہوگئے اور ارشاد فرمایاکہ کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو۔ بے شک ماقبل کی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں کا اعلیٰ چوری کرتا تو اسے سزا نہیں دی جاتی لیکن جب ان میں کا ادنیٰ چوری کرتا تو اسے سزا دی جاتی۔ قسم خدا کی اگر فاطمہ بنت محمدؐ (یعنی میری بیٹی) بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ (بخاری کتاب الحدود، باب کراہیۃ الشفاعۃ فی الحد اذا رفع الی سلطان)
عدل کی دوسری قسم اجتماعی عدل ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ معاشرہ میں مختلف افراد اور جماعتوں کے درمیان تفاوت کے باوجود مساوات قائم ہو اور شریف و رذیل، کمزور و برتر، ا چھوت،ا چھوٹ کی تفریق و تقسیم نہ کی جائے۔ بلکہ تمام سماجی و معاشرتی معاملات میں سب کو یکساں درجہ دیا جائے۔ سماجی عدل کے ضمن میں اسلام اسی کا داعی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اصول بیان کیا ہے کہ تفوق اور امتیازکی بنیاد صرف تقویٰ اور دین داری ہے باقی کوئی چیز نہیں ہے۔ ارشاد ہے:
ان اکرمکم عند اﷲ اتقاکم (الحجرات:۱۳)
تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا (متقی) ہے۔
اجتماعی عدل کا دوسراپہلو یہ ہے کہ ا جتماعی زندگی میں ہر شخص کو اس کی آزادی حاصل ہو کہ اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق کام کرسکے۔ تعلیم و تربیت اور تعمیر و ترقی کے دروازے ہر ایک کے لیے یکساں طور پر کھلے ہوں اور کوئی کسی کو مجبور کرکے نہ رکھے اور نہ اس کا کسی طور پر استحصال کرے۔ شریعت اسلامیہ اجتماعی زندگی میں اسی عدل و انصاف کو دیکھنا چاہتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ سلم نے ا رشاد فرمایا ’’ اس شخص کے خلاف اللہ کی طرف سے اعلان جنگ ہے جس نے کسی سے مزدوری کرائی اور اس کی مزدوری ادا نہ کی۔ (بخاری، کتاب الاجارۃ، باب اثم من منع اجر الاجیر)
عدل کا تیسرا پہلو بین الاقوامی عدل ہے۔ اسلام جس عدل و انصاف کی دعوت دیتا ہے اس کا دائرہ پوری دنیا کو محیط ہے۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلمین بھی حقوق و فرائض میں مسلمانوں کے برابر سمجھے جائیں گے یعنی جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہوں گے وہ انھیں بھی حاصل ہوں گے، اسی طرح جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر عائد ہوںگی، وہی ان پر بھی عائد ہوں گی۔ حدود و تعزیرات کے نفاذ میں غیر مسلموں کے ساتھ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا اور اس کو وہی سزا دی جائے گی جو مسلمانوں کو کسی جرم کے ارتکاب میں دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی مسلمان نے کسی ذمی کو قتل کردیا تو قصاص میں اس کو بھی قتل کیا جائے گا۔
بین الاقوامی تعلقات کی استواری میں اسلام مطلق طور پر غیر محارب سے الفت و محبت اور بین الاقوامی تعلقات کا حکم دیتا ہے۔ ارشاد ہے:
لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنہ: ۸)
اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کر جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے ور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے ولوں کو پسند کرتاہے۔
اسلامی ریاست کا ایک مقصد عدل و انصاف کا قیام ہے۔ قرآن و حدیث میں حکمرانوں کو عدل و انصاف کو لازم پکڑنے کی تاکید و تلقین مؤکد طریقے سے کی گئی ہے۔ ارشاد ہے:
إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہِ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْراً (النساء: ۵۸)
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، اللہ تمہیں خوب نصیحت کرتا ہے، اللہ سنتا اور دیکھتا ہے۔
ایک حدیث میں وارد ہے:
ان احب الناس الی اﷲ یوم القیامۃ وادناھم منہ مجلسا امام عادل وابغض الناس الی اللہ وادناھم منہ مجلسا امام جائر (جامع الترمذی، ابواب الاحکام من رسول اللہ، باب ما جاء فی الامام العادل)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے روز سب سے زیادہ محبوب اور اس سے قریب یاعدل و انصاف کرنے والا حکمراں ہوگا اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض اور اس سے دورظالم حکمراں ہوگا۔
صحیح بخاری کی مشہور ترین حدیث کے بہ موجب میدان حشر میں اللہ تعالیٰ جن سات افراد کو اپنے عرش کے سایے تلے جگہ دے گا ان میں ایک عدل پرور اور عدل گستر حاکم ا ور فرماں روا بھی ہے۔ ارشاد ہے:
سبعۃ یظلھم اللہ یوم لا ظل الا ظلہ الامام العادل (بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظرالصلوٰۃ)
سات طرح کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ قیامت میں سایہ فراہم کرائے گا جبکہ اس دن کوئی سایہ نہ ہوگا، ان میں ایک عدل وانصاف کرنے والا حکمراں ہے۔
خلفاء راشدین کے ہاں سب سے اہم اپنی دائرۂ خلافت میں عدل و انصاف قائم کرنا تھا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ کا وہ خطبہ معاشرہ کے ہر با اختیار شخص کے لیے مشعل راہ ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص میرے سامنے کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے کمزور حق دا ر کا حق واپس نہ دلادوں۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے کہ دریائے دجلہ کے کنارے کوئی بکری کا بچہ مر جائے تو میں اس کا جواب دہ ہوں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’اے حاکمو! تمہارے اوپر رعایا کے بہت سے حقو ق ہیں ان میں اولین حق عدل کے مطابق فیصلہ کرنا اور مساوات قائم کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو عادل کامبنی بر ا نصاف فیصلہ سب سے زیادہ محبوب ہے۔ (الاستذکار لجامع المذہب فقہاء الامصار لابن عبدالبر القرطبی۲۷؍۱۰۷)
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کو ان کے ایک گورنر نے ایک بار خط لکھا کہ ہمارا شہر مرمت کا محتاج ہے تو انھوںنے اس کا جواب دیا کہ اپنے شہر کی عدل کے ذریعہ حفاظت کرو اور اس کے راستوں کو ظلم سے بچاؤ۔ (سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی ۵؍۶۵)
عدل کے مقابلے میں ظلم ہے۔ اسلام نے عدل کی جس طرح اہمیت بیان کی ہے اس کی تعریف کی ہے اسے اختیار کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح ظلم کی مذمت کی اور اس سے اجتناب کی تاکید کی۔ ارشاد ہے:
واما القاسطون فکانوا لجھنَّم حَطَباً(الجن: ۱۵)
اور ظلم کرنے والے جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔
یہاں قاسطون سے مراد جائروں یعنی ظلم و ستم کرنے والے ہیں۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ فیصلہ کرنے میں قصداً نا انصافی کرنا کبیرہ گناہ ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی سخت وعید آئی ہے۔ (الاستذکار،۲۷؍۲۳۷)
عدل و انصاف کی راہ میں عموماً دو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں۔ عداوت اور قرابت یعنی انسان کبھی کسی قوم یا کسی فرد کی عداوت اور دشمنی کی وجہ سے نا انصافی کر بیٹھتا ہے یا اپنے کسی رشتہ دار کی وجہ سے ظلم و نا انصافی کرتا ہے۔ اس سے بھی کٹھن مرحلہ وہ ہوتا ہے جہاں عدل و انصاف کی زد میں خود اسی کی ذات آتی ہو۔ لیکن مذہب اسلام نے ان دیواروں کو گرادیا ہے۔ اور اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ عدل وانصاف کے ترازو اس قدر مضبوط اور برابر ہو کہ سخت ترین نفرت اور شدید ترین محبت بھی اس کے کسی پلڑے کو جھکا نہ سکے۔ اس بابت اللہ تعالیٰ کا حکم تو موجود ہی ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی اسوہ بھی چھوڑا ہے۔ آپؐ نے انتقام کے لیے خود اپنے آپ کو پیش فرمایا اور متعلق فرد کو زیادتی کے بعد بدلہ لینے کا اختیار دیا ہے۔
قانون عدل یہ ہے کہ عدالتوں کے ذریعہ لوگوں کو اپنے حقوق کی بازیابی میسر آئے اور عمرانی عدل یہ ہے کہ ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا جائے۔ خواہ سربراہِ حکومت کے ذریعے ہو یا عدالتی محکمہ کے ذریعہ یا کسی قاضی اور مفتی کے ذریعے۔ چنانچہ عمرانی عدل زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے اور اس کا دا ئرہ اتنا وسیع ہے کہ قانونی عدل کو بھی اپنے احاطہ میں لے لیتا ہے کیونکہ عدالتیں بھی معاشرہ اور سماج کا حصہ ہیں۔