فاروق عبد اللہ نراین پوری
(پی ایچ ڈی ریسرچر، شعبہ فقہ السنہ، کلیۃ الحدیث الشریف، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی امامت اور جلالت شان متفق علیہ ہے۔ فقہ میں ان کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول ہی کافی ہے: ”الناس عيال على أبي حنيفة في الفقه“۔ ( لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے محتاج ہیں۔) [تاریخ بغداد: 15/474]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “الإمامة في الفقه ودقائقه مسلمة إلى هذا الإمام، وهذا أمر لا شك فيه“. [سير اعلام النبلاء: 6/403]
(اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہ اور اس کی باریکیوں سے واقفیت کے معاملہ میں وہ مسلمہ امام ہیں۔)
ہم دوسرے ائمہ سلف کی طرح ان کا احترام سلامتِ منہج کی علامت سمجھتے ہیں۔ اور کتاب وسنت کو انھی سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھنا ضروری قرار دیتے ہیں۔ لیکن کسی ایک کی تقلید کو جائز نہیں سمجھتے، کیونکہ اسی میں ان کے منہج کا حقیقی اتباع ہے۔ خود انھوں نے ہمیں یہ راہ دکھلائی ہے۔
جہاں ائمہ سلف کا احترام ضروری ہے وہیں ان کی شان میں غلو کرنا، اور اس غلو میں تدلیس سے کام لینا نہایت ہی مذموم عمل ہے۔ در اصل انھیں اس کی ضرورت ہی نہیں کہ ہم ان کے لئے جھوٹی تعریف کے راستے ڈھونڈیں، اور ان کی شان میں جھوٹے قصیدے پڑھیں۔ ان کی شان اس سے کہیں اعلی وارفع ہے۔ جو لوگ بعض ائمہ کی جھوٹی محبت میں یہ راستہ اپناتے ہیں در اصل ان کا حال وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے: «المُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلاَبِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ»
(جو چیز حاصل نہ ہو اس پر فخر کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جو فریب کا جوڑا پہنتا ہے۔) [صحیح بخاری: 5219، وصحیح مسلم: 2129]
افسوس کہ بعض حضرات وقتًا فوقتًا ایسی اوچھی حرکت کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال چند مہینے پہلے دیکھنے کو ملی جب شیخ لطیف الرحمن بہرائچی قاسمی صاحب کی کتاب ”الموسوعۃ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ“ منظر عام پر آئی۔ اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے شیخ کے ہی ایک مرید محمد نعمان مکی نے قصیدہ خوانی شروع کر دی، اور پھر سوشل میڈیا میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق مبالغہ آمیزی کا ایک دور شروع ہو گیا۔
اس مرید نے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے یہ سبب تالیف ذکر کیا ہے کہ ”کچھ کم علم اور متعصب افراد نے امام صاحب پر ”قلیل الحدیث“ اور ”یتیم فی الحدیث“ وغیرہ ہونے کا الزام لگایا ہے، جو خالص حسد و عناد پر مبنی ہے۔“
در اصل یہ موسوعہ اسی مقصد سے مرتب کیا گیا ہے کہ امام صاحب پر لگے اس الزام سے ان کو بری کیا جائے۔ چنانچہ آگے اسی تعارفی تحریر میں فرماتے ہیں: ”آپ صرف محدث ہی نہیں بلکہ امامِ حدیث، حافظِ حدیث اور صاحبِ ”جرح و تعدیل“ ہونے کے ساتھ ساتھ، کثیر الحدیث ہونے میں بعد کے محدثین مثلاً امام بخاری و مسلم وغیرہ کے ہم پلہ ہیں؛ جس سے آپ کا علمِ حدیث میں بلند مقام ومرتبہ کا ہونا ظاہر ہے۔“
امام بخاری اور امام مسلم بلکہ اصحاب کتب ستہ اور دیگر اصحاب صِحاح کا مقام ومرتبہ بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ خود ان کی کتب اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
بلکہ خود صاحب موسوعہ شیخ بہرائچی کا یہ کلام یہ بیان کرنے کے لئے کافی ہے کہ علم حدیث میں ان مصنفین کا مقام ومرتبہ امام صاحب کے مقابلے کتنا بلند ہے۔ فرماتے ہیں: “بعض أصحاب الصحاح ذكروها في صحاحهم، وهي لا تزيد على واحد أو اثنين غير أن فيه إشعارًا بأن أحاديث الإمام أبي حنيفة غير متروكة في دواوين السنة المعروفة”. [لموسوعۃ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ: 1/33]
خود صاحبِ موسوعہ ان معروف کتب حدیث میں امام صاحب کی ایک دو حدیث مروی ہو جانے کو امام صاحب کے معتبر ہونے کی دلیل بنا رہے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ان محدثین کا علمِ حدیث میں کیا مقام ومرتبہ ہے۔
اس موسوعہ میں حد درجہ تدلیس کرنے (جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے) کے باوجود امام صاحب کی مرویات کی تعداد 10588 تک پہنچائی گئی ہے، جب کہ امام بخاری تین لاکھ حدیثوں کے حافظ تھے۔ (تاریخ بغداد: 2/346)
اور امام مسلم نے تین لاکھ احادیث سے منتخب کرکے اپنی صحیح کو لکھا تھا۔ (صیانۃ صحیح مسلم: ص67)
لہذا اگر ان کی بات مان بھی لی جائے پھر بھی امام صاحب کا امام بخاری اور امام مسلم کا کثرت روایت میں ہم پلہ ہونے کا دعوی کرنا مضحکہ خیز ہے۔
اب آئیں جائزہ لیتے ہیں کہ جس مقصد سے یہ موسوعہ مرتب کیا گیا ہے اس میں صاحب کتاب کس حد تک کامیاب ہیں۔ کیا حقیقت میں اس موسوعہ سے امام صاحب کے ”قلیل الحدیث“ ہونے کی نفی ہو جاتی ہے؟
کیا یہ موسوعہ امام صاحب کو ”کثیر الحدیث“ بلکہ امام بخاری وامام مسلم کا ہم پلہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے؟
شیخ کے خادم ومرید محمد نعمان مکی صاحب اس موسوعہ کے احادیث کی تعداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”پھر پندرہ سال کی مسلسل جدو جہد سے پورے ذخیرہ احادیث کو کھنگال کرکے ان کی ترتیب، تبویب اور تہذیب کرکے امام صاحب کی ١٠٦١٣ (دس ہزار چھ سو تیرہ) مرویات جمع کیں۔ اور ان پر تحقیقی کام کیا، اور الحمدللہ اب یہ انسایکلوپیڈیا، الموسوعة الحديثية لمرويات الإمام أبي حنيفة کے نام سے عربی میں ۲۰ جلدوں میں شائع ہوکر منظر عام پر آ گئی ہے جس میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مکمل دفاع، علم حدیث میں آپ کا عظیم مقام اور آپ کی مرویات پر ہوئے کام کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔“
اسی طرح اس موسوعہ کی قصیدہ خوانی کرنے والوں میں ایک معروف نام ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحب کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
”مولانا کا انتہائی اہم اور قابلِ قدر کارنامہ یہ انسائیکلوپیڈیا ہے ، جس کی اشاعت ‘ الموسوعۃ الحدیثیۃ لمرویات الامام ابی حنیفۃ’ کے نام سے بیس (20) جلدوں میں ہوئی ہے _ اس میں امام ابوحنیفہ ؒ کے مستدلات سے متعلق دس ہزار چھ سو تیرہ (10613) احادیث کو جمع کیا ہے _ ساتھ ہی احادیث کی تحقیق و تخریج کی ہے اور ان پر تعلیقات ثبت کی ہیں ۔ اس کتاب کی ترتیب میں فقہ اور حدیث کی دونوں ترتیبوں کا خیال رکھا گیا ہے ۔ ابتدائی تین جلدوں میں تمہیدی مباحث ہیں _ بارہ جلدوں میں احادیث کی جمع و تحقیق ہے _ تین جلدیں اعلام اور دو جلدیں فہارس پر ہیں _ یہ موسوعہ بیروت کے مشہور مکتبہ دارالکتب العلمیۃ سے شایع ہوا ہے ۔ یہ کتاب ان لوگوں کا مُسکت جواب ہے جو امام اعظم کے علم حدیث پر سوال اٹھاتے ہیں ۔ “
لگتا ہے دونوں صاحبان نے کتاب دیکھے بغیر ہی مذکورہ عدد لکھ دیا ہے۔ اگرکتاب دیکھنے کی زحمت گوارا کرتے تو قطعا یہ عدد نہ لکھتے۔ خود صاحب موسوعہ شیخ لطیف الرحمن بہرائچی اس موسوعہ کے مقدمہ (1/9) میں احادیث کی تعداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“قد بلغت بفضل الله تعالى المرويات المرفوعة والموقوفة والآثار (10588) عشرة آلاف وخمس مئة وثمانية وثمانين حديثًا بحذف المكرر”.
یعنی خود مصنف کے بقول تمام مرفوع، موقوف اور آثار کو ملا کر ان کی کل تعداد دس ہزار پانچ سو اٹھاسی پہنچتی ہے۔ حالانکہ اس عدد میں بھی انھوں نے انتہائی تدلیس سے کام لیا ہے جس کا بیان آگے آ رہا ہے، ان شاء اللہ۔
محترم قارئین! آپ غور کریں کہ امام صاحب کی مرویات کی تعداد کے متعلق اصل اشکال کیا ہے۔ کیا صحابہ وتابعین کے فتاوے نقل کرنے میں انھیں ”قلیل الحدیث“ کہا جاتا ہے؟ یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث روایت کرنے میں؟
قطعا جنھوں نے بھی انھیں قلیل الحدیث کہا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے متعلق کہا ہے، صحابہ وتابعین کے فتاوے کے متعلق نہیں۔
پھر صحابہ وتابعین کے فتاوے کو مستقل نمبر شمار کرنا تاکہ امام صاحب کی مرویات کی تعداد زیادہ سے زیادہ دکھائی جا سکے کیا یہ تدلیس نہیں؟
اس موسوعہ میں بے شمار مرویات ایسی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہیں ہی نہیں، صحابہ کرام یا تابعین عظام کے فتاوے ہیں۔ اور انھیں تسلسل نمبر میں شمار کیا گیا ہے۔
بلکہ اس سے بھی زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس میں خود امام صاحب کے بے شمار فتاوے ہیں جنھیں تسلسل نمبر میں ایک مستقل نمبر دیا گیا ہے۔
کیا آج تک کسی نے امام صاحب کے ذاتی فتاوے کی تعداد کی وجہ سے انھیں ”قلیل الحدیث“ کہا ہے؟
پھر ان کے ذاتی فتاوے کو شمار کرکے یہ ہمالیائی تعداد دکھا کر اسے ”الموسوعۃ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ“ نام دینے کا کیا معنی؟
اگر ان فتاوے کو نکال دیا جائے تو ان کی مرویات کی اصل تعداد کیا بچےگی صاحب موسوعہ اور ان کے مریدین ہم سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنا کہ ان کی احادیث کی تعداد ساڑھے دس ہزار سے زائد ہے کیا یہ سفید جھوٹ نہیں؟
کیا علمائے احناف دنیا کو اس قدر بُدّھو سمجھتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں اس طرح دھول جھونکنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟
یہ تو مرویات کی اقسام کی بات ہوئی۔ اب آتے ہیں اس سے بھی بڑی تدلیس کی طرف جو علمائے احناف اور ان کے مریدین نے کرنے کی کوشش کی ہے۔
کوئی بھی شخص اس تعداد کو سن کر یہی سوچےگا کہ امام صاحب کی احادیث کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔ انھوں نے دس ہزار سے زائد احادیث روایت کی ہیں۔ اور جب ان کے پاس اتنی زیادہ احادیث تھیں تو انھیں کسی صورت میں ”قلیل الحدیث“ کہنا مناسب نہیں۔
لیکن میرے بھائیو! حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بلکہ اس میں ایسی قبیح تدلیس سے کام لیا گیا ہے کہ شاید اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہ ملے۔
اس سے پہلے کہ اس تدلیس کا پردہ فاش کروں ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔
صحیح بخاری کی پہلی حدیث ہے: ”إنما الأعمال بالنيات“۔
اس حدیث کو امام یحیی بن سعید الانصاری نے اپنے استاد محمد بن ابراہیم التیمی سے، انھوں نے اپنے استاد علقمہ بن وقاص اللیثی سے، علقمہ نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
اگر آپ امام یحیی بن سعید الانصاری کی مرویات کو شمار کریں تو یہ ایک حدیث شمار کریں گے یا تین چار سو؟
شاید آپ تین چار سو کا عدد سن کر چونک گئے ہوں گے۔ بات ہے ہی چانکانے والی۔ لیکن چونکئے مت۔ یہ یقینا امام یحیی بن سعید الانصاری کی ایک ہی حدیث ہے، لیکن ان کے بے شمار شاگردوں نے ان سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ حافظ ذہبی نے ”سیر اعلام النبلاء“ (5/476-481) میں ایک دو کرکے ان کے تین سو چالیس شاگردوں کا نام گنایا ہے جنھوں نے ان سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ بلکہ حافظ ابو اسماعیل الانصاری الہروی فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو امام یحیی بن سعید الانصاری کے سات سو شاگردوں سے لکھا ہے۔ [دیکھیں: فتح الباری: 1/11-12]
اب اگر کوئی یہ کہے کہ میں آپ کو امام یحیی بن سعید الانصاری کی تین سو چالیس حدیثیں سناتا ہوں اور بار بار ان کے ایک ایک شاگرد کے طریق سے اسی حدیث کو بیان کرے اور کہے کہ یہ ان کی تین سو چالیس حدیثیں ہو گئیں تو آپ ان کے اس فعل کو کیا نام دیں گے؟
یہی کام شیخ لطیف الرحمن بہرائچی قاسمی صاحب نے اس موسوعہ میں کیا ہے۔ ایک ہی حدیث اگر امام صاحب کے دس شاگردوں نے ان سے روایت کیا ہے تو انھیں الگ الگ دس نمبر دیا ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ یہ امام صاحب کی دس الگ الگ حدیثیں ہیں۔ حالانکہ اس حدیث کو امام صاحب نے ایک ہی سند سے روایت کیا ہے۔ امام صاحب کے اوپر کی سند ہر جگہ ایک ہی ہے۔ امام صاحب کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد بس الگ الگ ہیں۔
کوئی یہ نہ کہے کہ روایت کرنے والے الگ الگ ہوں تو محدثین اسے الگ الگ حدیث شمار کرتے ہیں، ایک نہیں۔ وہ دوسری صورت ہے۔ اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاد ایک ہی حدیث میں الگ الگ ہوتے، اور مختلف اسانید سے ایک ہی حدیث کو روایت کرتے تو اسے ایک سے زائد بار شمار کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ ان کے استاد ایک ہی ہیں، الگ الگ نہیں۔ لہذا اسے ایک سے زائد شمار کرنے کا کوئی وجہ جواز نہیں۔
شیخ بہرائچی کی کتاب اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں ان کی کتاب سے بس دو مثالیں پیش کرتا ہوں:
پہلی مثال:
چھٹی جلد، صفحہ تین، حدیث نمبر 1716 میں ہے:
يوسف، عن أبيه، عن أبي حنيفة، عن عبد الملك بن عمير، عن قزعة، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا تسافر المرأة يومين إلا مع زوج، أو ذي محرم، قال: ونهى عن صلاتين: عن صلاة بعد الغداة حتى تطلع الشمس، وبعد العصر حتى تغيب الشمس، وعن صيام الأضحى والفطر، وقال: لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: مسجد الحرام، ومسجدي، ومسجد الأقصى».
اس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اوپر کی سند ملاحظہ فرمائیں، اس طرح ہے: ”عن عبد الملك بن عمير، عن قزعة، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم“۔
اگلے اٹھارہ صفحات تک اسی سند سے یہ حدیث مروی ہے۔ صرف امام صاحب کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد الگ ہیں۔ ان تمام احادیث میں بہرائچی صاحب نے الگ الگ نمبر بیٹھایا ہے۔ اس طرح ایک ہی حدیث پر انھوں نے پچاس سے زائد نمبرات ڈالے ہیں، جو کہ در حقیقت ایک ہی حدیث ہے، پچاس نہیں۔
اب دوسری مثال ملاحظہ فرمائیں:
اس موسوعہ کی نویں جلد، صفحہ 58، حدیث نمبر 4699 دیکھیں، اس میں ہے:
قال: حدثني أبي، قال: حدثني أبي، قال: وحدثني محمد بن أحمد بن حماد، قال: ثنا محمد بن شجاع الثلجي، قال: ثنا أبو أسامة، ثم قالا: ثنا أبو حنيفة، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أفضل الأعمال العج والثج، فأما العج: فالعجيج بالتلبية، وأما الثج: فنحر البدن».
اس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اوپر کی سند ملاحظہ فرمائیں، اس طرح ہے: ”عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم“۔
اگلے دس صفحات تک اسی سند سے یہ حدیث مروی ہے۔ صرف امام صاحب کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد الگ ہیں۔ بلکہ اکثر میں امام صاحب کے شاگرد ابو اسامہ ہیں۔ ان سے نیچے کی سند میں روات الگ الگ ہیں۔ ان تمام احادیث میں بہرائچی صاحب نے الگ الگ نمبر بیٹھایا ہے۔ اس طرح ایک ہی حدیث پر انھوں نے تیس سے زائد نمبرات ڈال دیے ہیں۔
اس طرح مختلف طرح کی تدلیسوں کے ذریعہ انھوں نے امام صاحب کی مرویات کی یہ تعداد پہنچائی ہے۔ اگرکوئی وقت نکال کر پورے موسوعہ کی ایک ایک حدیث کی جانچ پڑتال کرے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حقیقی تعداد کیا نکلےگی۔
آخری تنبیہ:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی اپنی کوئی ذاتی تصنیف نہیں تھی کہ ان مرویات کی ان کی طرف نسبت صد فیصد صحیح تسلیم کر لی جائے۔ بلکہ اس موسوعہ میں جن مصنفین کی مسانید سے احادیث کو جمع کیا گیا ہے ان کے اور امام صاحب کے مابین کئی ایک واسطے ہیں۔ اگر یہ واسطے محدثین کے اصول کے مطابق ثابت ہوں تو امام صاحب کی طرف ان کی نسبت صحیح ہوگی ورنہ انھیں امام صاحب کی مرویات میں شمار کرنا ہی محل نظر ہوگا۔
اوپر جو پہلی مثال ذکر کی گئی، «أفضل الأعمال العج والثج» والی، اسے نوح بن دراج اور حسن بن زیاد جیسے کذاب راویوں نے بھی امام صاحب سے روایت کیا ہے۔ [دیکھیں: موسوعہ میں حدیث نمبر: 4706، 4714، 4723، 4726، 4729]
نوح بن دراج کو امام ابن معین اور امام ابو داود نے کذاب کہا ہے۔ [میزان الاعتدال: 4/276 ، وتقریب التہذیب: ص567]
اور حسن بن زیاد کو ابن معین، ابو داود، ابو ثور، یعقوب بن سفیان اور عقیلی وغیرہ نے کذاب کہا ہے۔ [لسان المیزان: 3/48]
کیا ان کی مرویات کے بارے یہ کہنا جائز ہوگا کہ یہ امام صاحب نے روایت کیا ہے۔ جب ان سے روایت کرنے والا شخص کذاب ہے تو ان سے یہ روایتیں سرے سے ثابت ہی نہیں ہوتیں، لہذا ان کی مرویات میں انھیں شمار کرنا ہی صحیح نہیں۔
اس طرح تمام قسم کی تدلیسات کو نکال دیا جائے تو امام صاحب کی اصل مرویات کی صحیح تعداد کیا نکلےگی بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ اس موسوعہ میں مرویات کی جو تعداد (10588) بتائی گئی ہے اس میں حد درجہ تدلیس سے کام لیا گیا ہے۔ اس میں صحابہ کرام اور تابعین کے فتاوے کے ساتھ ساتھ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال کو بھی تسلسل نمبر میں شمار کر لیا گیا ہے۔ یہ تعداد مرفوع احادیث کی ہے ہی نہیں۔ اور ان کے اوپر کلام مرفوع احادیث کی روایت کے متعلق ہے۔ آثار یا ذاتی اقوال کے متعلق نہیں۔
دوسری تدلیس یہ کی گئی ہے کہ ایک ہی حدیث بسا اوقات چالیس پچاس بار شمار کی گئی ہے، یہ استدلال کرتے ہوئے کہ امام صاحب سے الگ الگ روات نے روایت کیا ہے۔ اگر یہ بات مان لی جائے تو یحیی بن سعید الانصاری کی حدیث ”إنما الأعمال بالنیات“ ایک نہیں تقریبا سات سو بار شمار کی جائےگی۔ بلکہ امام صاحب کو جن امام بخاری کے ہم پلہ ہونے کا دعوی کیا گیا ہے ان کی صحیح بخاری کی ہر حدیث کو نوے ہزار بار شمار کرنا پڑےگا، کیونکہ ان سے تقریبا نوے ہزار لوگوں نے اسے سنا ہے۔ [سیر اعلام النبلاء: 12/469]
اس طرح امام صاحب کی اصل مرویات کی تعداد بہت تھوڑی نکلےگی۔ اور ان میں بھی امام صاحب سے وہ ثابت ہیں یا نہیں جانچ پڑتال کرنی پڑےگی۔ اس طرح یہ تعداد گھٹ کر مزید کم ہو جائےگی۔
یہ امام صاحب کی کوئی تنقیص نہیں، بلکہ حقیقت کا اعتراف ہے بس۔ اس سے ان کی امامت اور جلالت شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ اس طرح کی تدلیسات سے ان کی شخصیت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ وہ اس سے کہیں اعلی وارفع ہیں کہ ان کی رفعت شان کے لئے جھوٹ اور تدلیس کا سہارا لیا جائے۔
اللہ تعالی ہمیں حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔