ازقلم ، محمد محب اللہ بن محمد سیف الدین المحمدی ، سپول ، بہار
یہ ناممکن ہے آۓ پاس اور پھر تر نہ ہوجائے
محبت کے اڑا کرتے ہیں فوارے محبت میں
الحمد للہ و کفی و الصلاۃ و السلام علی عبادہ الذین اصطفی أما بعد
آدمی جس فضاء اور ماحول میں رہتا ہے ، عموماً اس میں رنگ جاتا ہے ، چاہے انھیں اسکا شعور ہو یا نہ ہو ، یہ ایک بدیہی حقیقت ہے ، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ، صالح اور نیک ماحول میں رہتا ہے تو صالح بن جاتا ہے ، مؤمنین صدیقین وشہداء کا درجہ پاتا ہے ، برے اور گندے ماحول میں رہتا ہے تو اس کے سارے اعضاءِ جسم ، ذہن دل ودماغ اس گندگی اور سنڈاسیت سے مانوس ہوجاتے ہیں اور اپنا قرین فرعون،ہامان ، وسرکش شیطان کو بنا لیتا ہے ، مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ : کسی فرد یا قوم کے بننے اور بگڑنے کا اصل مدار اس کے ماحول اور سوسائٹی پر ہوتا ہے انسان نا چاہتے ہوئے بھی اس سے متاثر ہو جاتا ہے اور غیر شعوری طور پر اس کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اسلئے جب تک ماحول درست نہ ہو ،کوئی تعلیم وتربیت کام نہیں دیتی اسلئے قرآن پاک اور رسول اللہ ﷺنے معاشرے کو سدھارنے کے لئے ہر شخص پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے ، اچھا ماحول بڑی محنت سے بنتا ہے ، اور بڑی محنت سے باقی رہتا ہے برا ماحول آسانی سے بن جاتا ہے اور آسانی سے قائم رہتا ہے ، جب اچھے ماحول کی فکر نہ ہوگی تو برا ماحول خودبخود قائم ہوجائے گا انسان کتنا ہی بڑا عاقل ،عالم ،تجربہ کار ،دقیق النظر ،آزاد طبع ہو لیکن خاندانی روایات ،قومی خیالات ،معاصرین کی صحبت گرد وپیش کے حالات ایسی چیزیں ہیں کہ زیادہ تر انسان ان ہی چیزوں کے قالب میں ڈھلتا ہے ، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انسان کے تمام تر معتقدات وخیالات ان ہی اسباب کے لازمی نتائج ہیں ،عام طور پر لوگ کسی خاص طبقہ یا چند افراد اور بعض اوقات تنہا کسی فرد کو پوری سوسائٹی کی خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں نے یااس بدکردار نے پوری زندگی کو غلط رخ پر ڈال دیا تھا، یہ نظریہ صحیح نہیں ہے،ایک مچھلی تالاب کو گندہ کرسکتی ہے لیکن ایک شخص سوسائٹی کو بگاڑ نہیں سکتا ، واقعہ یہ ہے کہ اچھی سوسائٹی میں برے آدمی کا گذر نہیں ہوسکتا ، وہ گھٹ گھٹ کر مرجاۓ گا، جسطرح مچھلی کو پانی سے باہر کر دیا جائے تو وہ گھٹ گھٹ کر مرجاتی ہے اسی طرح جو سوسائٹی برائی برائی کی ہمت افزائی نہیں کرتی وہ اسے خوش آمدید کرنے کے لئے تیار نہیں اس میں برائی تڑپنے لگتی ہے ،اس کا دم گھٹنے لگتا ہے
(پیام انسانیت)
اگر آپ نیک صحبت وسنگت میں رہیں گے تو آپ بھی نیک بنیں گے اور بروں کی صحبت رہیں گے تو برا بنیں گے ، شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں ؎
پسر نوح بابداں بنشست ۔۔۔نبوت خاندانش گم کرد
سگ اصحاب کہف روزۓ چند ۔۔۔پئے نیکاں گرفت مردم شد
یعنی نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بروں کی صحبت اختیار کی،جسکی وجہ سے اپنے خاندان کی نبوت کو گنوا بیٹھا ،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ دستور رہا ہے کہ پیغمبروں کی نیک اولاد کو بھی نبوّت سے سرفراز فرماتے ہیں ،جبکہ اصحاب کہف کا کتا چند دن نیک لوگوں کی صحبت میں رہا جسکی وجہ سے وہ ان نیک لوگوں کے ساتھ ہی گنا جانے لگا ،
اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے اپنے ان اولیاء کے ساتھ اس جانور کا تذکرہ بھی قرآن مجید میں محفوظ کردیا”کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا، کچھ دوسرے کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا ، یہ سب بے تکی باتیں بناتے ہیں،کچھ اور کہتے ہیں کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا” (سورة الكهف ٢٢)
تفاسير میں آتا ہے کہ اصحاب کہف جب اپنے بت پرست اور ظالم بادشاہ ” دقیانوس “کے ظلم وستم سے تنگ آکر مشرکانہ ماحول چھوڑ کر مقام “ایکہ “کے قریب ” رقیم ” نامی وادی (جوآج کل اردن میں ہے) کے غار میں روپوشی کے لئے جانے لگے تو ایک کتا بھی ان کے ساتھ ہوگیا،انھوں نے ان کو بھگانے کی کوشش کی،اور ان کو ڈھیلے مارے کہ وہ ان کے پیچھے نہ آئے،تو اللہ تعالیٰ نے اس کتے کو قوت گویائی دی ، اس نے اس مقدس گروہ سے کہا ” اۓ اللہ کے بندوں ! تم جس شرک وبت پرستانہ ماحول سے تنگ آکر جارہے ہو ،میں بھی اس ظالم وبت پرست معاشرے سے تنگ آگیا ہوں ،لہذا تم جہاں جارہے ہو ،مجھے بھی وہیں لیتے جاؤ”(تفسیر طبری)
امام ابن کثیر فرماتے ہیں ” یہ ان اولیاء اللہ کی برکت تھی ،جس نے اس بے زبان کو بھی شامل کرلیا ،جسکی وجہ سے،جن جن کیفیتوں سے وہ گذرۓ (جیسے وغیرہ309) وہ جانور بھی انھیں کیفیتوں سے گذرا ،یہ نیکو کاروں کی صحبت کافائدہ ہے کہ اس جانور کی خبر،تذکرہ اور شان بھی ان اللہ والوں کے ساتھ آگئى (تفسیر ابن کثیر)
صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے “عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: (مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ كَحَامِلِ الْمِسْكِ وَنَافِخِ الْكِيرِ؛ فَحَامِلُ الْمِسْكِ إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ, وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ, وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً, وَنَافِخُ الْكِيرِ إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ, وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَة “صحيح البخاري برقم (5534) صحيح مسلم برقم (2628)
حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک اور بد ساتھی کی مثال ،مشک بیچنے والے اور بھٹّی دھونکنے والے جیسی ہے ،
قال ابن حجر رحمه الله “وفي الحديث النهى عن مجالسة من يتأذي بمجالسته في الدين والدنياء والترغيب في مجالسة من ينتفع بمجالسة فيهما (فتح الباري ٤/٣٢٤)
یعنی اس حدیث میں ممانعت ہے ان لوگوں کی مجلس میں شرکت کرنے سے جو آپ کے دین ودنیا کو نقصان پہنچاۓ اور وہ مجلس جس سے آپ کے دین ودنیا کا فائدہ ہو اس طرح کی مجلس میں شرکت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،
اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا”………. وفيه فضيلة مجالسة الصالحين وأهل الخير والمروءة ومكارم الأخلاق والورع والعلم والأدب ،والنهى عن مجالسة أهل الشر وأهل البدع ،ومن يغتاب الناس ، أو يكثر فجره وبطالته ونحو ذالك من الأنواع المذمومة (شرح النووى على صحيح مسلم ١٦/١٧٨) یعنی ، اس حدیث میں صالحین ،زاہدین خیر و بھلائی والے اور اچھے اخلاق کے حامل اور علم و ادب کے پیکر انسانوں کی مجلس میں بیٹھنے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے اور اسی طرح بدعتی ،شریر ،شوخ طبع ،متکبر چغلخور اور غیبت کرنے والے کی مجلسوں سے دور رہنے کو کہا گیا ہے،
معزز قارئین: اس حدیث اور دیگر نصوص شرعیہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحبت صالح سے انسان عظیم بنتا ہے اس کا دین اوردنیا دونوں فوز وفلاح سے شادکام ہوتا ہے ،برعکس بری صحبت اور گندۓ ماحول کے ، جو گندۓ ماحول ،گندی ذہن وفکر کے ساتھ رہتا ہے تو وہ بھی گندہ ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا”الرجل على دين خليله فلينظر من يخالل ” آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہٰذا کسی کو دوست بنانے سے قبل اس کی سیرت وکردار کو دیکھ لے ،انسان پر ماحول کا کتنا اثر ہوتا ہے آپ اس واقعہ سے اندازہ کیجئے،حضرت مجدّد الف ثانی سرہندی فرماتے ہیں کہ ایک چمڑا پکانے والے کا لڑکا چمڑے دار ماحول سے اتنا متاثر تھا کہ ایک بار وہ عطر کی دوکان سے گذرا تو عطر کی خوشبو کا متحمل نہ ہوسکا اور بے ہوش ہوکر گر پڑا ،جب باپ نے پرانے چمڑے کو سنگھایا تو ہوش آیا، لہذا ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ نیک صحبت ،بطانہ صالحہ کی جستجو کریں ،غلط کار اور بے دین دوستوں سے دور رہے جو دوست کسی گناہ پر جمع ہوں،اور خلاف شرع امور پر ایک دوسرے کی اعانت وہمت افزائی کرتے ہوں ، ان سب سے بچیں یہی لوگ قیامت کے دن اپنی اس غلط رفیقی ودوستی پر روؤئیں گے، جیساکہ رب تعالیٰ نے متعدد آیات قرآنیہ میں اس کا ذکر فرمایا ہے،
“وَيَوْمَ يَعَضُّ ٱلظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَٰلَيْتَنِى ٱتَّخَذْتُ مَعَ ٱلرَّسُولِ سَبِيلًا”(سورة الفرقان ٢٧)
“ٱلْأَخِلَّآءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا ٱلْمُتَّقِينَ“(سورة الزخرف ٦٧)
“وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ“(سورة الهود ١١٣)
“وَیَوۡمَ یَعَضُّ ٱلظَّالِمُ عَلَىٰ یَدَیۡهِ یَقُولُ یَـٰلَیۡتَنِی ٱتَّخَذۡتُ مَعَ ٱلرَّسُولِ سَبِیلࣰا ٢٧ یَـٰوَیۡلَتَىٰ لَیۡتَنِی لَمۡ أَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِیلࣰا ٢٨ لَّقَدۡ أَضَلَّنِی عَنِ ٱلذِّكۡرِ بَعۡدَ إِذۡ جَاۤءَنِیۗ وَكَانَ ٱلشَّیۡطَـٰنُ لِلۡإِنسَـٰنِ خَذُولا ٢٩﴾ [الفرقان ٢٧-٢٩]
محترم قارئین : بری صحبت کے بہت سارے مفاسد ومضرات ہیں، مثلاً انسان کے دین کوبرباد کرتا ہے ،اسکے عقیدہ کو بگاڑدیتا ہے،اسکے مال ودولت کو نقصان پہنچاتا ہے، اپنے گھر والوں کی عزت کا نیلام کرتا ہے،اپنی عمر کو برباد کرتا ہے،وغیرہ وغیرہ ، یاد خدا سے اعراض بری سنگت وصحبت ہی کانتیجہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا” وَمَن یَعۡشُ عَن ذِكۡرِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ نُقَیِّضۡ لَهُۥ شَیۡطَـٰنࣰا فَهُوَ لَهُۥ قَرِینࣱ ٣٦ وَإِنَّهُمۡ لَیَصُدُّونَهُمۡ عَنِ ٱلسَّبِیلِ وَیَحۡسَبُونَ أَنَّهُم مُّهۡتَدُونَ ٣٧﴾ [الزخرف ٣٦-٣٧] اور جو کوئی آنکھیں چراۓ رحمان کی یاد سے ہم اس پر مقرر کردیتے ہیں ایک شیطان، پھر وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے،
امام مالک بن دینار رحمہ اللہ نے فرمایا“إنك ان تنقل الحجارة مع الابرار خير من أن تأكل الخبيص مع الفجار ”
یعنی صالح ونیک لوگوں کے ساتھ پتھر اٹھا کریعنی مزدوری کرکے کھانا بہتر ہے اس سے کہ تم فاجر وفاسق وبدطینت لوگوں کے ساتھ خبیص (ایک قسم کا لذیذ کھانا جو کھجور اور گھی وغیرہ سے تیار کیا جاتا ہے) نامی کھانا کھاؤ،
نیک صحبت، صالح ماحول پر اسلام ہمیں کیسے ابھارتا ہے ذرا ہم ان احادیث پر غور کریں
“عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «تُنكَح المرأة لأربع: لمالها، ولحسَبِها، ولجمالها، ولدِينها، فاظفَرْ بذات الدين تربتْ يداك» (متفق عليه) یعنی انسان نکاح چار چیزیں دیکھ کر کرتا ہے ،مال ودولت ، جمال وخوبصورتی، حسب ونسب، اور دین ،فأظفر بذات الدين تربت يداك ، لیکن دیندار کو ترجیح دینے کا حکم دیا گیا ، اسلئے کہ اگر نیک عورت کی صحبت میں رہے گا تو اس کو دین ودنیا کے امور میں فائیدہ ہوگا،
دوسری حدیث ،ابن عباس-رضي الله تعالى عنهما- قال: قال النبي ﷺ لجبريل : ما يمنعك أن تزورنا أكثر مما تزورنا؟، فنزلت: وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ [مريم:64]أخرجه البخاري، باب وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا [مريم:64]، رقم: (4731).
الشاهد في هذا الحديث مما يتصل بهذا الباب أن النبي ﷺ قال لجبريل : ما يمنعك أن تزورنا أكثر مما تزرونا؟، فطلب زيارة أهل الفضل شيء مطلوب، والنبي ﷺ قد طلب ذلك من جبريل ، ونزلت هذه الآية: وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ المعنى: إلا بإذنه، ويحتمل وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ أي: ننزل بما يأمر به إلى النبي ﷺ، أي: بالحلال والحرام والأحكام، وما شابه ذلك، والمعنى الأول أقرب،
لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ أي: ما أمامنا وخلفنا من الأزمنة والأمكنة، فلا ننتقل من شيء إلى شيء إلا بأمره ومشيئته -تبارك وتعالى، فنحن عبيده واقفون عند حدوده، وما يأمر به، ولا ننزل من عند أنفسنا،
والمقصود أن المؤمن يحرص على أهل الفضل والخير أن يزوروه، وأن يعاشرهم وأن يخالطهم، وأن يكون هؤلاء هم أهل صحبته ومجالسته، ويدل على ذلك أيضاً الحديث الآخر وهو:
عن أبي سعيد الخدري : أن النبي ﷺ قال: لا تصاحب إلا مؤمناً، ولا يأكلْ طعامَك إلا تقيٌّ“أخرجه أبو داود، أول كتاب الأدب، باب من يُؤمر أن يجالس، رقم: (4832)، والترمذي، باب ما جاء في صحبة المؤمن، رقم (2395 )، وحسنه الألباني في صحيح الجامع، رقم: (7341).
.قوله: لا تصاحب، أي: لا تتخذه صاحباً؛ لأن الصاحب ساحب كما قيل، والإنسان يتأثر بمن يخالطه ولا محالة، ولو قال: أنا واثق من نفسي، وأنا أعرف أنني لا أتأثر، لا، لابد أن الإنسان يتأثر بالخلطاء شاء أم أبى، قال: ولا يأكلْ طعامَك إلا تقيٌّ، والمقصود بهذا ليس الطعام الذي يعطى على سبيل الصدقة أو دفع الحاجة فإن هذا مطلوب، والنبي ﷺ يقول: في كل كبد رطبة أجر”
أخرجه البخاري، كتاب المساقاة، باب فضل سقي الماء، رقم: (2363)، ومسلم، كتاب السلام، باب فضل ساقي البهائم المحترمة وإطعامها، رقم: (2244).
، فالإنسان يؤجر على ما يبذله للتقي وغير التقي، ولكن المقصود هنا لا يأكل طعامك أي: لا تعاشر وتدعُ، يعني طعام الدعوة، لا تدعُ، يعني: أن الإنسان إنما يدعو عادة من يقربهم ويدنيهم، ويحب أن يكون هؤلاء هم الذين يجالسونه، ويخالطهم على الطعام ونحو ذلك، فهو يقول: لا يكن هؤلاء من جلسائك وأهل خلطتك، والذين تجلس معهم على طعام واحد، وتكون معاشرتك معهم متحدة، لا، كن مع الأتقياء الأنقياء من الصالحين والأخيار،
(ان احادیث و تشریحات کا مختصر سا مفہوم یہ کہ اخیار وصلحاء واتقیا، کی صحبت اختیار کریں ، نیک وبزرگ انسانوں کے ہمنشیں بنیں ،فاسق فاجر بدعتی وغیرہ کی مجالست ومخالطت سے بچیں )
نیک سنگت صالح صحبت کے اثرات انسانی زندگی میں مترتب ہوتے ہیں ، انسان اگر علماء حق کی مجلس کاحصہ بنیں ،متقیوں اور پارساؤں کے رفاقت میں رہے تو اس کی زندگی میں بھی ایک انقلاب آۓ گا،پھول سے جڑے رہے تو خوشبو ملے گی ، اور کانٹوں سے جڑۓ رہے تو کانٹے چبھیں گے ،گندگیوں میں رہے تو آپ بھی گندۓ ہوں گے ، شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ” گلستاں” میں صحبت پذیری کا ایک البیلا قصہ درج فرمایا ہے،آپ فرماتے ہیں،
گلے خوشبوۓ در حمام روزۓ ۔رسید ازدست محبوبے بد ستم
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری ۔کہ از بوۓ دلآویز تو مستم
بگفتا من گلے ناچیز بودم ۔ولیکن مدتے باگل نشستم
جمال ہمنشیں در من اثر کرد ۔وگر نہ من ہماں خاکم کہ ہستم ،
ترجمہ مع تشریح : شیخ سعدی شیرازی کہتے ہیں کہ میں ایک روز غسل کے لئے کسی حمام میں آگیا ایک کرم فرما نے میری جانب خوشبودار مٹی کا ایک تودہ بڑھایا، اس کی بھینی بھینی خوشبو سے مست ہو کر میں نے عالم حیرت میں اس سے کہا کہ آخر تو کون سی خوشبو ہے؟ تو مشک ہےیا عنبر ؟ تو نے اپنی دلآویزی خوشبو سے مجھکو اپنا دیوانہ بنا ہے، اور مجھے مست مست کردیا ہے ،بقول شاعر ،
بسا ہے کہ میرے دل میں گلبدن اۓ درد ۔کہ بوگلاب کی آئی تیرے پسینے میں،
اس نے کہا ارۓ بھائی سعدی : اس خاکسارکی کیا حقیقت ہے میں تو ایک ناچیز مٹی تھی ، لیکن ہاں یہ بات ضرور ہے اور ہمیں احسان فراموش نہیں ہونا چاہئے کہ میں ایک مدت تک پھولوں کی صحبت میں رہی ، ان سے چپکی رہی ،بس یہی بات ہے اور کوئی بات نہیں۔ لہذا ہمنشیں کے جمال جہاں آرا نے مجھ میں اپنا اثر کیا ، ورنہ میں کسی قابل تھی ؟ میں تو وہی خاکسار۔۔۔۔
لہذا اگر کسی سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے تو یہ دیکھا جائے کہ ،دوست دیندار اور صحیح العقیدہ ،عامل مسلمان ہے یا نہیں؟
جنكى صحبت سے بچنا چاہیے،
سید امام جعفر صادق فرماتے ہیں، پانچ شخصوں کی دوستی سے انسان کو احتراز کرنا چاہیے،
1۔ جھوٹا شخص : اس لئے کہ وہ ہمیشہ تمہیں دھوکے میں مبتلا رکھے گا،وہ ایک سراب کی طرح ہے جو کہ حقیقت کو چھپاتا ہے،جو خلاف حقیقت ہے اسے دکھاتا ہے جو حقیقت ہے اسے چھپاتا ہے،
2۔ نادان شخص : وہ اپنی نادانی سے تمہیں فائدہ پہنچانے کے بجائے الٹا نقصان پہنچا دۓ گا ،جیساکہ اردو میں محاورے مشہور ہیں ،
نادان دوست بد ترین دشمن ہے،
نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے،
دانا دشمن نقصان پہنچانے سے پہلے انجام پر غور کرتا ہے ،لیکن نادان دوست فائدہ پہنچانے کی خواہش میں وہ نقصان پہنچاتا ہے کہ انسان ایک زمانے تک بلبلاتا رہتا ہے،
3 ۔ بخیل : اس لئے کہ وہ تمہیں وہ چیز نہیں دۓ گا جس کے تم سب سے زیادہ محتاج ہوگے ، اور عین وقت پر تمہیں دھوکہ دۓ گا،
4 ۔ بزدل : یہ شخص شدائد ومصائب میں تمہیں دشمن کے حوالے کر کے خود بہادری کے ساتھ بھاگ جاۓ گا،
5 ۔ فاسق وفاجر: وقت پڑنے پر یہ شخص تمہیں کوڑیوں کے دام بیچ دۓ گا، اگر یہ کام نہ بھی کرے تو تم اس کی صحبت کی وجہ سے فسق و فجور میں گرفتار ہو جاؤگے ۔ اس لئے کہ برۓ شخص کی عادتیں نیک آدمی میں نہایت تیزی کے ساتھ سرایت کر جاتی ہیں، جیسا کہ ایک عربی شاعر کہتا ہے،
عدوي الشقى الى السعيد سريعة ۔والجمر يوضع في الرماد فيخمد
ترجمه : بد بخت آدمی کی بیماری نیکوکار شخص میں بعجلت تمام منتقل ہو جاتی ہے،جیساکہ ایک چنگاری گھاس کے ایک بڑے ذخیرے کو چند لمحوں میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتی ہے،(بحوالہ ماہنامہ مصباح مئی 2009ء صفحہ نمبر 11)
خلاصۂ تحریر یہ کہ انسانی سیرت کی پاکیزگی ،اخلاق کی بلندی، اور کردار کی پختگی کا واحد مؤثر ذریعہ اچھی صحبت ہے، اسلام سے پہلے بھی جس دور کو ہم جاہلیت کے دور سے تعبیر کرتے ہیں یہ اصول متفق علیہ تھا،مشہور جاہلی شاعر طرفہ اپنے معلقہ میں کہتا ہے،
عن المرء لا تسئل وأبصر قرينه ۔۔فإن القربن بالمقارن مقتدي
اذا كنت في قوم فصاحب خيارهم ۔۔ولا تصحب الأردى فتردى مع الردى
( یعنی اگر تم کسی شخص کے متعلق تحقیق مقصود۔ ہوتواس شخص کی تحقیق نہ کرو بلکہ اس کے ہمنشینوں کو دیکھو، کیونکہ دوست اپنے ہمنشینوں کا متبع ہوتا ہے جیسے ہم نشین ہوں گے،ویسا ہی وہ شخص ہوگا ،جب تم کسی قوم میں ہو تو اس قوم کے اچھوں کی صحبت اختیار کرو ،ہ کارہ لوگوں کی صحبت میں نہ بیٹھو ،ورنہ تم ہلاک ہوجاؤ گے، ) ؎
جسکی ادا پہ ہو انسانیت کو ناز ۔۔۔مل جائے کاش ایسا بشر ڈھونڈتے ہیں ہم