تحریر:ابو زھیر محمد یوسف بٹ بزلوی۔
فاضل جامعہ ملک سعود ریاض سعودی عرب۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
الحمد لله رب العالمين والعافية للمتقين والصلاة والسلام على رسول الله وبعد!
اذان دینا جمہور اھل علم کے نزدیک فرض کفایہ ہے جیسے کہ أئمہ حنابلہ، ائمہ احناف میں سے امام محمد، ائمہ موالک کی رائے کے مطابق، اور بعض شوافع کا بھی یہی قول ہے۔
اسی رائے کو علامہ ابن عبد البر، اور علامہ ابن تیمیہ رحمھما اللہ وغیرہ نے اختیار کیا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ اذان واقامت دینا دونوں ہی فرض کفایہ ہے۔[الاختيارات الفقهية405/1].
امام داود رحمہ اللہ بھی فرض کفایہ کے قائل ہیں۔[فتح الباري444/3]۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر کسی نماز جماعت قائم کرنے والوں پر (چاہے سفر ہو حضر ) اذان دینا فرض کفایہ ہے اگر کوئی ایک آذان دے تو باقی لوگوں کی طرف سے کفایت کر جائے گا اس مسئلہ میں یہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔[مجموع فتاوى ابن باز308/6].
محدث عصر علامہ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرمائے ہیں کہ اذان دینا فرض کفایہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم لوگ اپنی قوم کی طرف لوٹ جاو تم ان میں نماز قائم کرو انہیں نماز سکھاؤ اور انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور نماز پڑھو جیسے کہ تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ، پس جب نماز کا وقت آن پڑے تم میں کا کوئی اذان دے اور تم میں کا کوئی بڑا امامت کرے۔[الثمر المستطاب116/1].
مذکورہ دلیل اور اھل علم کے مذکورہ اقوال سے ثابت ہوا کہ ہر نماز کے لئے اذان دینا فرض کفایہ ہے۔
مذکورہ دلائل نیز ان جیسی دیگر دلائل سے ہی اھل علم نے استدلال کیا ہے کہ ہر جماعت اور ہر مسجد کے لئے آذان دینا سنت ہے اسلئے ہر مسجد کے لئے مقرر موذن ہو جو وقت مقرر پر آذان دے سکے اور آذان اسی لیے دی جاتی ہے کہ مسجد میں جماعت کے لئے لوگوں کو بلایا جائے تاکہ وقت مقرر پر نماز باجماعت ادا کی جائے۔
دلیل:مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ تم اپنی قوم کی طرف لوٹ جاو انہی میں رہو انہیں شرعی علوم سکھاو اور نماز پڑھو اور جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے کوئی آذان دے اور کوئی بڑا نماز پڑھائے۔[بخاری 138/1 ، مسلم 134/2 ، نسائی 9/2 ، سنن الدارمی 796/2 ، مسند احمد324احمد364/24 ، إسناده صحيح على شرط الشيخين].
اس حدیث مبارک سے بعض اھل علم نے استدلال کیا ہے کہ ہر کسی مسجد جس میں پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کی جاتی ہو اس میں آذان دینا سنت اور عمل مشروع ہے۔
علامہ ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آذان واقامت دینا ہر کسی جماعت (چاھے سفر میں ہو یا حضر میں) پر واجب ہے اسلئے کہ نبی کریم ﷺ کا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو حکم دینا اور خود اس پر مداومت اختیار کرنا نیز اسی پر صحابۂ کرام کا مداومت کرنا ہی اسکی مشروع ہونے کی واضح دلیل ہے۔[حاشية الروض].
عہد نبوی میں بلال بن رباح اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنھما مسجد نبوی کے مؤذن تھے جبکہ مسجد قباء جوکہ مدینہ ہی میں کچھ ہی کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے حضرت سعد بن عائذ قرظ رضی اللہ عنہ آذان دیا کرتے تھے۔
اس سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ ایک ہی گاؤں یا شہر یا علاقہ میں ہر مسجد کے لئے الگ الگ مؤذن مقرر کیا جائے جو ہر نماز کی اقامت کے لیے وقت مقرر اور مشروع پر آذان دے سکے۔سکے۔[كتاب الخلاصة البهية في ترتيب أحداث السيرة النبوية الطبعة الثانية، 126/1 ، 1999، كتاب إمتاع الأسماع ،الطبعة الاولى ، بيروت: دار الكتب العلمية، 135/10].
صاحب کتاب موسوعہ فقہ اسلامی نے لکھا ہے کہ اس بارے میں سنت یہی ہے کہ ہر مسجد کے لیے ایک مؤذن ہو اور مستحب ہے کہ ایک مسجد کے دو مؤذن مقرر کئے جائیں۔[كتاب: موسوعة الفقه الإسلامي90].
جمہور اہل علم کے نزدیک ہر جماعت یا منفرد شخص کے لئے آذان دینا سنت ہے۔
اذان کا صرف مسجد کے ساتھ خاص ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔
دلیل حدیث مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ:
اگر کسی مسجد میں پہلے آذان اور جماعت ہوچکی ہو اور پہر دوسری جماعت نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں داخل ہوں تو بعض اھل علم اس چیز کے قائل ہیں کہ وہ لوگ دوبارہ آذان اور اقامت کھ کر جماعت قائم کرسکتے ہیں۔
ائمہ حنابلہ کی یہی رائے ہے کہ اگر وہ لوگ چاھیں تو وہ آذان اقامت تھوڑی سی آواز کے ساتھ دے سکتے ہیں، تاکہ بلند آواز سے آذان دینے کی صورت میں لوگوں کو دھوکہ نہ لگے۔[المغني79 ، 80].
ائمہ شوافع کے نزدیک بھی دوسری جماعت کے لئے آذان دینا سنت ہے انکی رائے بھی یہی ہے کہ آذان بلند آواز سے نہ دی جائے۔[المجموع93/3].
دلیل اثر انس بن مالک رضی اللہ عنہ:
انس رضی اللہ عنہ اس وقت مسجد میں داخل ہوئے جبکہ وہاں کے لوگوں نے جماعت ادا کردی تھی تو آپ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو آذان واقامت دینے کا حکم دیا پہر آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں جماعت پڑھائی۔[صحيح البخاري216/1، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں تعلیقا ذکر کیا ہے ، صحيح البخاري | كِتَاب الْأذَانِ فضل صلاة الْجمَاعة].
اس مسئلہ میں اہل علم نے راجح یہی قرار دیا ہے کہ اگر دوسری جماعت والے آواز بلند کئے بغیر ہی آذان دیں تو جواز ہے اور اذان واقامت دونوں ہی ذکر میں شامل ہے اور ذکر سے روکنے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔
وجہ استدلال:جب دوسری جماعت کے لئے بھی آذان کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے تو ہر مسجد کے لئے جہاں نماز جماعت قائم کی جاتی ہو وہاں آذان دینا من باب اولی مشروع ہے اور اھل علم نے ہر مسجد میں آذان دینے کو عمومی دلائل سے استدلال کرتے ہوئے سنت قرار دیا ہے۔
بعض لوگوں کی رائے ہے کہ جہاں کئی مساجد ہوں وہاں صرف جامع مسجد ہی میں آذان دینا کافی ہے انکی دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں مدینہ منورہ میں نو کے قریب مساجد تھیں مگر وہ لوگ بلال رضی اللہ عنہ ہی کی آذان سے اپنی اپنی مسجد میں جماعت ادا کرتے تھے۔. . . [سنن الدار قطني 85/2 ، مراسل ابي داود 19/1 ، عون المعبود 269/3 ، فتح الباري لابن رجب الحنبلي].
مگر یہ حدیث ضعیف ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔[سلسة الأحاديث الضعيفة والموضوعة 321/12].
لھذا اس حدیث سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام
ہر مسجد جہاں بھی باضابطہ جماعت قائم کی جاتی ہو وہاں لاوڈ سپیکر یالاوڈ سپیکر کے بغیر آذان دینا سنت اور جائز ہے بلکہ ہمارے بہت سے علاقوں میں نماز کے اوقات میں بھی کافی آپسی فرق ہوتا ہے مثلا کسی جگہ ظہر کی نماز ایک بجے اور دوسری جگہ سوا ایک تیسری جگہ ڈیڈھ دو بجے کا وقت ہوتا ہے ان تمام حالات کو بھی مد نظر رکھا جائے اسلئے ہر مسجد میں ہر نماز کے لئے وقت مقررہ پر آذان دی جائے تاکہ اس محلہ اور اس شہر و گاوں کے لوگ وقت مقررہ پر اپنی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرسکیں۔
اس معاملے یہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔
هذا ما بدا لي في هذه المسئلة فإن أصبت فهو من الله وإن أخطأت فمن نفسي.
والله تعالى اعلى وأعلم.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه اجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.