ایک  عام نجدی  اور اس کا ٹھوس عقیدہ

از قلم:شیخ ندیم أختر سلفی 

(داعی اسلامک دعوہ سینٹر,حوطہ سدیر)

اسلام کی طرف منسوب دنیا کے تمام ممالک میں سعودی عرب ایک نمایاں اور منفرد مقام رکھتا ہے، اسلام سے خاص لگاؤ کے نتیجے میں یہاں کے مدارس، معاہد اور یونیورسٹی  میں عقیدہ ٴ توحید کو بنیادی  مقام حاصل ہے، مدارس ومعاہد سے گزر کر یونیورسیٹی تک پہنچنے والے بچوں کے ذہن  وقلب پر عقیدہ توحید کا سایہ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے، اس کے علاوہ مساجد اور دعوتی سنٹرز میں  جو دینی پروگرام ہوتے ہیں عقیدہ توحید کی پختگی میں یہ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب  کا ایک عام انسان عقیدہ میں جتنا ٹھوس ہوتا ہے کہ( بلا مبالغہ) بڑے بڑے اسکالرز اور اصحاب ِ جُبہ ٴ ودستار  بھی اس مقام تک نہیں پہنچ پاتے، اس سلسلہ میں اہل ِ نجد کے درمیان ایک مقولہ بہت ہی متداول ہے کہ ” نجد کا رہنے والا  ایک عام شخص مصرکے عالم سے بہتر ہے”۔

کئی ایک چیزوں میں آپ سعودی عرب سے اختلاف رکھتے ہوں گے اور ہوسکتا ہے آ پ کو حق بھی ہو  اختلاف رکھنے کا، لیکن عقیدہ اور سنت کے معاملے میں دنیا کے کسی بھی  فرد  کو  اس سے اختلاف کا کوئی حق نہیں،  کیونکہ قرون ِ مفضلہ کے بعد عقیدے کی  صفائی  اور سچے اسلام کی آبیاری میں اس ملک اور خاص طو  ر پر  اہل نجد  نے جو قربانیاں پیش کی ہیں  اس کا کوئی ہمسر نہیں، یہ اپنے عقیدے اور اتباع ِ سنت میں آج بھی  بہت  پُختہ ہیں، نجد کا یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے توحید کی آواز بلند ہوئی ، شرک کے خلاف مورچے کھولے گئے، اسی لئے  سعودی عرب کے معاندین کوئی ایک قسم کے نہیں، سیاسی معاندین بھی ہیں اور دینی معاندین بھی۔

عقیدہٴ توحید کی بابت علماء اہل ِ نجد کے درمیان کئی قصوں میں  ایک قصّہ یہ  مشہور ہے کہ “نجد کے ایک عام  اور سادھارن آدمی سے بعض قبر پرستوں نے کہا کہ تم لوگ  اولیاء اللہ کو پکارنے، ان سے استغاثہ کرنے اور مدد مانگنے  سے روکتے ہو جب کہ اللہ  تو ان کے بارے میں کہتا ہے کہ “أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ“(آل عمران: 169)(کہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دئے جاتے ہیں)؟ تو نجد کے رہنے والے اس عام شخص نے جواب دیا  کہ ” اللہ نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ  رزق دئے جاتے ہیں، یہ نہیں کہا کہ وہ خود  روزی دیتے ہیں، جب وہ روزی نہیں دے سکتے  تو ہم انہیں کیوں پکاریں، ہم تو انہیں پکارتے ہیں جو انہیں بھی  رزق دیتا ہے اور ہمیں بھی”۔

دوستو! اس قدر سچی بات اور  اتنے آسان انداز میں وہی کہہ سکتا ہے  جس کی تربیت صحیح عقیدے پر ہوئی ہو، رازق حقیقی کو چھوڑ کر زندگی سے آزاد شخص  کو ولی یا نیک،  داتا گنج یا غریب نواز سمجھ کر اس کے سامنے ہاتھ  پھیلانے والے  ہمارے بھائیوں کے لئے   یہ غور کرنے کی بات ہے کہ جو اللہ  نُطفہ سے لے کر پورے نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں آپ کی پرورش کرسکتا ہے، آپ کے لئے خوراک فراہم کرسکتاہے  وہ آپ کو ماں کے پیٹ سے نکالنے کے بعد (معاذ اللہ)اتنا بے بس ہوجاتا ہے کہ اولیاء اورصالحین کے توسط کے بغیر نہ  آپ کو روزی دے سکتاہے اور نہ آپ کی کوئی مدد کرسکتا ہے؟؟

اللہ کے حق میں اس سے بڑی گستاخی اور کیا ہوسکتی ہے؟ اللہ کہتا ہے کہ رزق کی کنجی اس کے پاس ہے، اور یہ اولیا ء اور صالحین کے پجاری سمجھتے ہیں  کہ رزق ان اولیاء کے توسط سے انہیں  ملتا ہے!!!

جو  مچھلی کے پیٹ میں یونس (علیہ السلام) کوکھلا سکتا ہے، جو چیونٹی کے رزق کا انتظام کرسکتا ہے   وہ آپ کے رزق کا انتظام نہیں کرسکتا؟؟  پہلے اس کی قدر کرکے تو دیکھیں، پہلے اسے پہچانیں تو سہی۔

کتنی عجیب بات ہے کہ اللہ ہر جاندار کی روزی کا انتظام  تو خود  اللہ ہی کرسکتا ہے ، لیکن انسان کو کھلانے  اور اسے روزی دینے کے لئے اللہ کو  اولیاء کا سہارا لینا پڑتا ہے!!   اگر صحیح عقیدہ سیکھا ہوتا تو یہ بات ہرگز نہیں کہتے۔

یاد رکھو ! وہ جسے چاہتا  ہے روزی دیتا ہے  اور جسے چاہتا ہے محروم کردیتا ہے ،  وہ جب چاہتا ہے رزق کو بڑھاتا   ہے، اور جب چاہتا ہے اس میں تنگی پیدا کرتا ہے، اس کے خزانے پر کسی  بھی مخلوق کا  ادنی ٰبھی اختیار نہیں، نہ کسی فرشتے کا ، نہ کسی پیغمبر کا  اور نہ ہی کسی ولی  کا ، اس سے مانگنے کے لئے نہ کسی نبی  اور نہ کسی ولی کے وسیلے کی ضرورت ہے، وہ ڈائرکٹ سب کی سنتا ہے، سب کو دیتا ہے، سب کی مُراد پوری کرتا ہے، سب کی مدد کرتا ہے، کھلانے والا بھی وہی، پلانے والا بھی وہی، کس میں ہمت ہے کہ اس  کو اس کے ارادے سے روک لے، کس میں ہمت ہے کہ اس کے فیصلے کو ٹال دے۔

پس اے انسان!تجھے کس چیز نے اپنے رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھاہے؟؟

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *