از :عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
(مدیر برقی مجلہ :ارمغان ِ سلام(
الحمد لله الغني الكريم (فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ) ،نحمده حمداً يليق بجلاله وعظيم سلطانه؛ فما من خير إلا وهو مانحه، وما من ضر إلا وهو كاشفه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له (لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ) ، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله؛ كان يقوم وينام، ويصوم ويفطر، ويجوع ويشبع.. لا بَشَرَ أكرم منه في إطعام الطعام، وبذل المال.. وليس في الناس أصبر منه على الجوع واللأواء.. أخرجه الجوع من بيته، وعصب الحجر على بطنه، وهو الذي أنفق الأودية من الإبل والغنم، صلى الله وسلم وبارك عليه وعلى آله وأصحابه وأتباعه إلى يوم الدين، أما بعد
اس دنیا میں خوشی و غم ,خوش حالی و بد حالی ,سختی و آسانی ,یسر و عسر ,امیری و فقیری ,اور شکم سیری و فاقہ مستی انسانی زندگی کا لازمہ ہے,جس سے ہر انسان دو چار ہوتا ہے,اور اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
اپنے گرو نواح میں بسنے والے افراد کے احوال و ظروف کا جب ہم بنظر ِ غائر مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھوک ایک ایسی بلا کا نام ہے جو کبھی کبھی ایسے امور پر ابھاردیتی ہے جس کی شاید شریعت اجازت بھی نہیں دیتی ہے؛ایسے اعمال کرنے پر مجبور کردیتی ہے جس کی وجہ سے انسان بسا اوقات ندامت و خجالت بھی محسوس کرتا ہے,اور اسی لئے نبی ٔ کریمﷺ نے بھوک سے پناہ مانگا کرتے تھے ؛(اللَّهمَّ إني أعوذُ بك من الجوعِ، فإنَّهُ بئسَ الضجيعُ، وأعوذُ بك من الخيانةِ، فإنها بئستِ البطانةُ)(ابو داؤد حدیث نمبر:۱۵۴۷,نسائی حدیث نمبر:۵۴۶۸,ابن ماجہ نمبر:۳۳۵۴,صحیح الجامع نمبر:۱۲۸۳)(ترجمہ: اے اللہ! میں بھوک سے تیری پناہ چاہتا ہوں ،کیوں کہ وہ برا ساتھی ہے اور میں خیانت سے تیری پناہ چاہتا ہوں، کیوں کہ وہ پوشیدہ بری خصلت ہے)
انسان جب فقر و فاقہ کی زندگی گزارتا ہے تو وہ انتہائی مجبور ہوجاتا ہے ,اسی لئے تو( کاد الفقر أن یکون کفرا) تک کہہ دیا گیا ہے,حالانکہ علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف الجامع (۴۱۴۸)میں ضعیف قرار دیا ہے,تاہم یہ تو ثابت ہے کہ نبی ٔ کریمﷺ ہر نماز کے بعد فقر و فاقہ ,کفر اور عذاب ِ قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے,چنانچہ
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرًا مَا يَدْعُو بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى)(صحیح نسائی حدیث نمبر:۵۴۸۱)(ترجمہ: یا اللہ ! میں آگ کے فتنے اور آگ کے عذاب سےتیری پناہ مانگتا ہوں ، قبر کے فتنے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں ،نیز فتنہ فقر کے شر سے اور فتنہ غنی (دولت مندی ) کے شر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں)
حضرت نفیع بن حارث روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی ٔ کریمﷺ کو اس دعا کا خاص اہتمام کرتے ہوئے دیکھا ہے؛فرماتے ہیں (ان أبي يقولُ في دُبُرِ الصَّلاةِ: اللَّهمَّ إنِّي أعوذُ بكَ مِنَ الكفرِ، والفقرِ، وعذابِ القبرِ؛ فكنتُ أقولُهُنَّ، فقال أبي: أَيْ بُنَيَّ، عمَّنْ أخذْتَ هذا؟ قلتُ: عنكَ، قال: إنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كان يقولُهُنَّ في دُبُرِ الصَّلاةِ)(صحیح النسائی حدیث نمبر:۱۳۴۶)
یہی روایت کچھ ان الفاظ سے بھی مروی ہے,حضرت مسلم بن ابو بکرہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد محترم کے پاس آئے تو انہیں ان مذکورہ الفاظ سے دعا کرتے سنا ؛حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:( عن مسلم بن أبي بكرة أَنَّهُ مَرَّ بِوَالِدِهِ وَهُوَ يَدْعُو وَيَقُولُ: اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ، وَالْفَقْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَ: فَأَخَذْتُهُنَّ عَنْهُ، وَكُنْتُ أَدْعُو بِهِنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، قَالَ: فَمَرَّ بِي وَأَنَا أَدْعُو بِهِنَّ، فَقَالَ: يَا بُنَيَّ، أَنَّى عَقَلْتَ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ؟ قَالَ: يَا أَبَتَاهُ سَمِعْتُكَ تَدْعُو بِهِنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، فَأَخَذْتُهُنَّ عَنْكَ، قَالَ: فَالْزَمْهُنَّ يَا بُنَيَّ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَدْعُو بِهِنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ)(مشکل الآثار از طحاوی حدیث نمبر:۵۱۸۵,الدعوات الکبیر ازبیہقی حدیث نمبر:۲۹۴,ترمذی حدیث نمبر:۳۵۰۳,سنن کبری از نسائی حدیث نمبر:۷۸۹۳,اور اس حدیث کی سند بھی حسن ہے)
نیز حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:( تعوذوا بالله من الفقر، والقلة، والذلة، وان تظلم، او تظلم)(سنن نسائی حدیث نمبر:۵۴۶۶)(ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو فقر سے، قلت اور ذلت سے اور ظلم کرنے اور کیے جانے سے“)
یہ بھوک کبھی انسان کو مال کی ہوتی ہے,کبھی منال کی,کبھی کھانے پینے کی اور کبھی عہدوں کے حصول کی۔
کبھی انسان شہرت کا بھی بھوکا ہوتا ہے اور کبھی ناموری اور ریاکاری کا۔
یہ بھوک جس انسان کو لگتی ہے ؛اسے تخت و تاراج اور ہلاک و برباد کردیتی ہے ,پھر وہ کچھ نہیں دیکھتا ہے اور اپنا سب کچھ داؤں پر لگانے کی قسم کھالیتا ہے ۔
تاہم بھوک بہر حال بھوک ہے,چاہے وہ مال و منال کی ہو,پیٹ کی ہو,عہدوں اور مناصب کی ہو,یا کسی کے مال کو ناجائز طور پر پڑپنے کی بھوک ہو۔
قرآن میں اللہ تعالی نے فقر کا تذکرہ کوئی ۲۶ بار فرمایا ہے اور جوع(بھوک)کا ذکر کوئی ۵ بار آیا ہے,جن پانچ آیات میں بھوک کا تذکرہ ہے,ان میں (۱)سورہ ٔ البقرہ:۱۵۵,(۲)سورہ النحل آیت نمبر:۱۱۲,(۳)سورہ ٔ طہ آیت نمبر:۱۱۸,(۴)سورہ الغاشیہ آیت نمبر:۷(۵)سورہ ٔ قریش آیت نمبر:۴ شامل ہیں۔
جب ہم قرآن کریم کا بہ نظر ِ غائر مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ
(۱)کبھی بھوک اللہ تعالی اپنے بندوں پر بطور عذاب مسلط کرتا ہے,اللہ تعالی نے فرمایا:( (وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ) (النحل:۱۱۲)(ترجمہ : اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزه چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا)
حافظ صلاح الدین یوسف ۔رحمہ اللہ۔ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:( اکثر مفسرین نے اس قریہ (بستی) سے مراد مکہ لیا ہے۔ یعنی اس میں مکہ اور اہل مکہ کا حال بیان کیا گیا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب اللہ کے رسول نے ان کے لئے بد دعا فرمائی۔ «اللَّهُمْ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ» (بخاري نمبر 4821 ۔ مسلم نمبر2156) ”اے اللہ مضر (قبیلے) پر اپنی سخت گرفت فرما اور ان پر اس طرح قحط سالی مسلط کر دے، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں ہوئی“ چنانچہ اللہ تعالٰی نے مکے کے امن کو خوف سے اور خوشحالی کو بھوک سے بدل دیا۔ حتیٰ کہ ان کا یہ حال ہو گیا کہ ہڈیاں اور درختوں کے پتے کھا کر انہیں گزارہ کرنا پڑا۔ اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ غیر معین بستی ہے اور تمثیل کے طور پر یہ بات بیان کی گئی ہے۔ کہ کفران نعمت کرنے والے لوگوں کا یہ حال ہوگا، وہ جہاں بھی ہوں اور جب بھی ہوں۔ اس کے اس عموم سے جمہور مفسرین کو بھی انکار نہیں ہے، گو نزول کا سبب ان کے نزدیک خاص ہے۔ الْعِبْرَةُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لا بِخُصُوصِ السَّبَبِ)(تفسیر احسن البیان ص ۷۵۹)
(۲)کبھی اللہ تعالی اسے بطور ابتلاء و آزمائش مسلط فرماتا ہے, فرمایا:( (وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ وَنَقْصٍ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (الأعراف:۱۳۰)(ترجمہ: اور ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اور پھلوں کی کم پیداواری میں، تاکہ وه نصیحت قبول کریں),نیز فرمایا:( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ)(سورہ ٔ البقرہ:۱۵۷)(ترجمہ: اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے؛جنہیں، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں؛ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں)
نیز فرمایا:( يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ (46) قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوهُ فِي سُنْبُلِهِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تَأْكُلُونَ (47) ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ (48) ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ (49) .)(سورہ ٔ یوسف:۴۶۔۴۹)(ترجمہ: اے یوسف! اے بہت بڑے سچے یوسف! آپ ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلایئے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالکل سبز خوشے ہیں اور سات ہی دوسرے بالکل خشک ہیں، تاکہ میں واپس جاکر ان لوگوں سے کہوں کہ وه سب جان لیں؛یوسف نے جواب دیا کہ تم سات سال تک پے درپے لگاتار حسب عادت غلہ بویا کرنا، اور فصل کاٹ کر اسے بالیوں سمیت ہی رہنے دینا سوائے اپنے کھانے کی تھوڑی سی مقدار کے؛اس کے بعد سات سال نہایت سخت قحط آئیں گے وه اس غلے کو کھا جائیں گے، جو تم نے ان کے لئے ذخیره رکھ چھوڑا تھا(1) ، سوائے اس تھوڑے سے کے جو تم روک رکھتے ہو؛اس کے بعد جو سال آئے گا اس میں لوگوں پر خوب بارش برسائی جائے گی اور اس میں (شیرہٴ انگور بھی) خوب نچوڑیں گے)
اگر آپ نبی ٔ کریمﷺ؛آپ کے جاں نثاران کی بھوک اور شدت ِ فقر پر تامل فرمائیں گے تو عجیب قسم کے مناظر اور سین نظر آئیں گے ,چنانچہ تامل فرمائیے کہ شعب ابی طالب میں صحابہ ٔ کرام نے کس قدر بھوک اور شدت ِ فقر سے دو چار ہوئے ,چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:۔
(۱)ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں مصیبت زدہ ہوں، یہ سن کر آپ ﷺ اپنے گھر سے کھانا منگواتے ہیں مگر تمام ازواج مطہرات کے ہاں سے جواب آتا ہے وہ یہ کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ نہیں ہے، پھر آپ صحابہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، حضرت ابوطلحہ انصاری اس مہمان کو لے جاتے ہیں اور بچوں کے لئے تیار کھانا بچوں کو بہلاسلاکر اپنے مہمان کو کھلاتے اور ایثار کا ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔ ایک اسلامی موٴرخ نے اس واقعہ کا نقشہ اپنے ساحرانہ اسلوب میں اس طرح کھینچا ہے۔ ”مغرب کی نماز ہوچکی ہے، کچھ نمازی رخصت ہوگئے ہیں، رسول اللہ ﷺ ابھی مسجد میں تشریف فرما ہیں کہ ایک شخص بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوتا ہے، پراگندہ مُو، خستہ حال، چہرے پر زندگی کی سختیوں کے نقوش، عرض کرتا ہے یا رسول اللہ میں مفلس اور مصیبت زدہ ہوں وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہے مگر شاید زبان ساتھ نہیں دیتی، مسجد میں پھیلی ہوئی خاموشی گمبھیر ہوجاتی ہے، نبی ﷺ چند لمحے اس کے سراپا کا جائزہ لیتے ہیں، پھر ایک شخص سے فرماتے ہیں: ”ہمارے ہاں جاؤں اور اس مہمان کے لئے کھانا لے آؤ“۔ وہ خالی ہاتھ واپس آجاتا ہے اور زوجہٴ محترمہ کا پیغام دیتا ہے: ”اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا، میرے پاس اس وقت پانی کے سوا کچھ نہیں۔“ مسافر پیغام سن کر دم بخود رہ جاتا ہے، وہ جس بابرکت ہستی کے پاس اپنے افلاس کا رونا لے کر آتا ہے خود ان کے گھر کا یہ حال ہے! حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیغام سن کر دوسری زوجہٴ مطہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتے ہیں، مگر وہاں سے بھی یہی جواب ملتا ہے، ایک ایک کرکے سب ازواجِ مطہرات سے پوچھواتے ہیں، لیکن سب کاجواب یہی ہے: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہمارے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں۔
نووارد کی حالت دیدنی ہے وہ افلاس اور فاقہ کشی سے بھاگ کر اس پاک ہستی کے دامن میں پناہ لینے آیا تھا جو تنگ دستوں اور محتاجوں کا ملجا و ماویٰ ہے، تاج دارِ دوعالم ہے، جس کے اشارے پر دنیا بھر کے خزانے قدموں پر ڈھیر ہوسکتے ہیں، ایسی عظیم اور مقدس ہستی کے ہاں بھی بس اللہ کا نام ہے! اسے اپنے گھر کا خیال آجاتا ہے، وہاں اتنی احتیاج تو نہ تھی، جب اس نے گھر چھوڑا تھا اس وقت بھی اس کے ہاں تین دن کی خوراک موجود تھی، پھر ایک بکری بھی اس کے پاس تھی جس کا دودھ زیادہ نہ سہی، بچے کے لیے تو کافی ہورہتا تھا، وہ تو اس خیال سے حاضرہوا تھا کہ حضور کے آگے دامن احتیاج پھیلائے گا، وہ جن کا جودوکرم ہواسے بھی زیادہ بے پایاں ہے انکے فیضِ کرم سے کٹھن زندگی آسان ہوجائے گی، لیکن یہاں تو عالم ہی اور ہے، اسے اپنے وجود پر شرم آنے لگتی ہے اور ندامت کے قطروں سے اس کی پیشانی بھیگ جاتی ہے، اچانک اسے آقائے دوسرا کی آواز سنائی دیتی ہے، ﷺ فرمارہے ہیں: ”آج کی رات اس شخص کی میزبانی کون کرے گا؟“ ابوطلحہ انصاریرضی اللہ عنہ اٹھ کر عرض کرتے ہیں: ”اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرا گھر حاضر ہے“ پھر اس شخص کو ساتھ لے کر گھر آتے ہیں بیوی امّ سلیم سے پوچھتے ہیں ”کھانے کو کچھ ہے؟ رسول اللہ ﷺ کے ایک مہمان ساتھ آئے ہیں“ نیک بخت کہتی ہیں ”میرے پاس تو بچوں کے کھانے کے سوا کچھ بھی نہیں“ ابو طلحہرضی اللہ عنہ کہتے ہیں ”بچوں کو سلادو اور کھانا دسترخوان پر چن کر چراغ گل کردو ہم مہمان کے ساتھ بیٹھے یونہی دکھاوے کو منھ چلاتے رہیں گے اور وہ پیٹ بھرکر کھالے گا۔“( دیکھئے:بخاری حدیث نمبر:۳۷۹۸)
(۲)خلیفہ ٔ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک دن خدمت نبوی میں حاضر ہوئے تو آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ایک چٹائی پر آپ لیٹے ہوئے ہیں اور اس کے اورآپ ﷺ کے جسم مبارک کے درمیان کوئی بستر نہیں ہے، اور چٹائی کی بُناوٹ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر گہرے نشانات ڈال دئیے ہیں، اور سرہانے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال کوٹ کے بھری ہوئی ہے، یہ حالت دیکھ کر حضرت عمر کی آنکھیں بھر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب پوچھا، حضرت عمر نے جواب دیا ﴿ يا نبيَّ اللَّهِ، ومالي لا أبْكي؟ وَهذا الحصيرُ قد أثَّرَ في جنبِكَ، وَهذِهِ خزانتُكَ لا أرى فيها إلَّا ما أرى، وذلِكَ كسرى، وقيصَرُ في الثِّمارِ والأنْهارِ، وأنتَ نبيُّ اللَّهِ وصفوتُهُ ﴾ اے اللہ کے رسول! میں کیوں نہ روؤں، یہ چٹائی آپ کے پہلوئے مبارک پر گہرے نشان ڈال رہی ہے، اُدھر قیصرو کسریٰ دنیا کے ناز و نعم میں پل رہےہیں، آپ تو اللہ کے نبی اور برگزیدہ ہیں، اس پر آپ ﷺ نے جواب دیا ﴿يا بنَ الخطَّابِ أما ترضَى أن تكونَ لنا الآخرةُ ولهم الدُّنيا﴾ خطاب کے بیٹے!کیا تمہیں اس بات پر خوشی نہیں ہے کہ ہمارے لئے آخرت (کی عیش مستیاں )ہیں اور ان کے لئے دنیا (کی عیش کوشیاں اور خر مستیاں )(دیکھئے:مسلم حدیث نمبر:۱۴۷۹)
(۳)ایک بار ایک صحابی نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ ﴿واللہ انی لأحبک﴾ اللہ کی قسم! مجھے آپ سے گہری محبت ہے اور یہی بات تین بار دہرائی اس پر آپ ﷺ نے فرمایا ﴿ان کنت تحبنی فأعد للفقر تجفافًا فان الفقر أسرع الی من یحبنی من السیل الی منتہاہ﴾ اگر مجھ سے سچی محبت ہے تو فقر وفاقہ سے دوچار ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ، مجھ سے محبت کرنے والے کی طرف فقر سیلاب کی رفتار سے زیادہ تیزی سے آتا ہے(ترمذی حدیث نمبر:۲۳۵۰,علامہ البانی نے اسے پہلے ضعیف قرار دیا تھا,پھر اسے صحیح قرار دیا ,سلسلہ صحیحہ حدیث نمبر:۲۸۲۷)۔
(۴)ایک واقعہ اور ملاحظہ فرمائیے 🙁 خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم – أو ليلة – فإذا هو بأبي بكر وعمر، فقال : ( مَا أَخْرَجَكُمَا مِنْ بُيُوتِكُمَا هَذِهِ السَّاعَةَ ) ؟ قالا: أخرجنا الجوع من بيوتنا والذي بعثك بالحق قال: ( وَأَنَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَخْرَجَنِي الَّذِي أَخْرَجَكُمَا، قُومُوا ) فقاموا معه، فأتى رجلا من الأنصار فإذا هو ليس في بيته، فلما رأته المرأة، قالت: مرحبا وأهلا، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أَينَ فُلان؟» قالت: ذهب يستعذب لنا من الماء، إذ جاء الأنصاري، فنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحبيه، ثم قال: الحمد لله ما أحد اليوم أكرم أضيافا مني، قال: فانطلق، فجاءهم بعذق فيه بسر وتمر ورطب، فقال: كلوا من هذه، وأخذ المدية، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:( إِيَّاكَ، وَالْحَلُوبَ ) فذبح لهم، فأكلوا من الشاة ومن ذلك العذق وشربوا، فلما أن شبعوا ورووا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر، وعمر:( وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هَذَا النَّعِيمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمُ الْجُوعُ، ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوا حَتَّى أَصَابَكُمْ هَذَا النَّعِيمُ)(مسلم نمبر:۲۰۳۸)(ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک رات باہر نکلے، آپ ﷺ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔ پوچھا: ”تم کیوں نکلے اس وقت۔“ انہوں نے کہا: بھوک کے مارے نکلے یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں بھی اسی وجہ سے نکلا، چلو“ پھر وہ آپ ﷺ کے ساتھ چلے۔ آپﷺایک انصاری کے دروازے پر آئے، وہ اپنے گھر میں نہیں تھا، اس کی عورت نے آپ ﷺ کو دیکھا وہ کہنے لگی: آئیے آپ اچھے آئے اپنے لوگوں میں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”فلاں شخص (اس کے خاوند کو فرمایا) کہاں گیا ہے۔؟“ وہ بولی ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہے۔ , اتنے میں وہ مرد انصاری آ گیا، اس نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا تو کہا: شکر ہے اللہ کا آج کے دن کسی کے پاس ایسے عزت والے مہمان نہیں ہیں، جیسے میرے پاس ہیں۔ پھر گیا اور کھجور کا ایک خوشہ لے کر آیا جس میں گدر، سوکھی اور تازہ کھجوریں تھیں اور کہنے لگا: اس میں سے کھائیے، پھر اس نے چھری لی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”دودھ والی بکری مت ذبح کرنا۔“ اس نے ایک بکری ذبح کی اور سب نے اس کا گوشت کھایا,کھجور بھی کھائی اور پانی بھی پیا، جب کھا پی کر شکم سیر ہوگئے تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سے سوال ہو گا اس نعمت کا قیامت کے دن، تم اپنے گھروں سے نکلے بھوک کے مارے پھر نہیں لوٹے یہاں تک کہ تم کو یہ نعمت ملی)
اسی لئے دین ِ اسلام نے بھوکوں کو کھانا کھلانے,فقیروں کے فقر و فاقہ کے دور کرنے اور بذل و انفاق کے لئے بڑی ترغیب دی ہے,جس کے مختلف طریقے بتائے
(۱)مال داروں کے مال میں فقیروں کے لئے زکاۃ واجب قرار دیا , نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا 🙁 بُني الإسلامُ على خمسٍ، شهادةِ أن لا إله إلا اللهُ، وإقامِ الصلاةِ، وإيتاءِ الزكاةِ، والحجِّ، وصيامِ رمضانَ)(بخاری حدیث نمبر:۸,مسلم حدیث نمبر:۱۶)(ترجمہ: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : یہ گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور (بیت اللہ کا) حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔‘‘)نیز ذرا غور کیجئے کہ سن ۹ھجری میں رسول ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل۔رضی اللہ عنہ۔ کو یمن کا داعی اور مبلغ بنا کر روانہ فرمایاتھا۔ اور ہدایت دی تھی کہ تمہارا واسطہ یمن میں اہل کتاب سے ہوگا۔ اہل ِ یمن کو پہلے توحید کی دعوت دینا، کیوں کہ توحید سب سے اہم اور ضروری ہے,اور اس کے بغیر دیگر اعمال کی کوئی حیثیت نہیں ہے,لہذا اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ جب وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر زکوۃ فرض کی ہے۔ جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے غریبوں کو دی جائے گی,حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:( إنَّكَ تأتي قومًا أَهْلَ كتابٍ، فإذا جئتَهُم فادعُهُم إلى أن يشهَدوا أن لا إلَهَ إلّا اللَّهُ، وأنَّ محمَّدًا رسولُ اللَّهِ، فإن هُم أطاعوكَ بذلِكَ، فأخبرهم أنَّ اللَّهَ عزَّ وجلَّ فَرضَ عليهم خمسَ صلَواتٍ في يومٍ وليلةٍ، فإن هُم – يعني – أطاعوكَ بذلِكَ، فأخبرهم أنَّ اللَّهَ عزَّ وجلَّ فرَضَ علَيهِم صدقةً تؤخذُ مِن أغنيائِهِم فتردُّ على فُقرائِهِم، فإن هم أطاعوكَ بذلِكَ، فاتَّقِ دَعوةَ المظلومِ)(بخاری حدیث نمبر:۱۴۹۶,مسلم حدیث نمبر:۱۹)(ترجمہ: تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب (یہودی اور نصرانی ) میں سے ہیں۔ اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں اس کی دعوت دو کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اگر اس میں وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے روزانہ ان پر پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، جب یہ بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ کو بھی فرض کیا ہے، جو ان کے مالدار لوگوں سے لی جائے گی اور انہیں کے غریبوں میں تقسیم کر دی جائے گی۔ جب یہ بھی مان جائیں تو (پھر زکوٰۃ وصول کرتے وقت) ان کا سب سے عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی آہ سے ہر وقت ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے)
معلوم ہوا کہ زکاۃ اسلامی معاشرہ کو فقر وافلاس، فاقہ و تنگ دستی ,لاچاری اور بے بسی ,بے کسی وبد حالی، ناداری ومحرومی اور دست سوال پھیلانے سے پاک کرتی اوران ناداروں وبے کسوں کے دلوں سے بغض وعناد، نفرت وحسداور کینہ وکدورت سے دور کرکے اسے صاف کرتی ہے، انہیں طبقاتی کشمکش اور علاقائی تعصب سے نکال کر اخوت ایمانی کے پر فضا مقام پر لاکھڑا کرتی ہے,نیز جس مال کی زکاۃ نکالی جاتی ہے ،زکاۃ اس مال کو اللہ کے اور بندوں کے حقوق سے پاک کردیتی اور صاحب مال کے لئے اسے حلال وطیب اور عمدہ بنا دیتی ہے، ارشاد نبوی ہے:اللہ نے زکاۃ اسی لئے فرض کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعہ تیرے بقیہ مال کو پاک کرکے عمدہ بنادے۔
دینِ اسلام کا جمال وکمال یہ ہے کہ یہ ایسے ارکان واحکام پر مشتمل ہے جن کا تعلق ایک طرف خالق ِکائنات اور دوسری جانب مخلوق کےساتھ استوار کیا گیا ہے۔ دین فرد کی انفرادیت کا تحفظ کرتے ہوئے اجتماعی زندگی کوہر حال میں قائم رکھنے کاحکم دیتاہے,جس کا ایک مظہر زکاۃ کی ادائیگی ہے
بھلا بتائیے کہ اگر اسلامی معاشرے میں اس طرح کی ذہنیت پروان چڑھنے لگ جائے تو کوئی بھی بندہ بھوک اور فقر وفاقہ سے مرے گا؟نہیں اور ہرگز نہیں
(۱)کبھی اللہ تعالی نے مسکینوں ,یتیموں اور بے بسوں پر خرچ کرنے کو عظیم ثواب بلکہ کئی گنا ثواب کا باعث قرار دیا ,اللہ تعالی کا ارشاد ِ گرامی ہے:( إِنَّ ٱلْمُصَّدِّقِينَ وَٱلْمُصَّدِّقَٰتِ وَأَقْرَضُواْ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَٰعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ)(سورہ ٔ الحدید :۱۸)(ترجمہ: بیشک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ بڑھایا جائے گا اور ان کے لیے پسندیده اجر و ثواب ہے) یعنی ایک کے بدلے میں کم از کم دس گنا اور اس سے زیادہ سات سو گناہ بلکہ اس سے بھی زیادہ تک۔ یہ زیادتی اخلاص نیت، حاجت وضرورت اور مکان وزمان کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔ جیسے پہلے گزرا کہ جن لوگوں نے فتح مکہ سےقبل خرچ کیا، وہ اجر وثواب میں ان سے زیادہ ہوں گے، جنہوں نے اس کے بعد خرچ کیا۔
نیز فرمایا:( مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ)(سورہ البقرہ:۲۶۴)(ترجمہ: جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے(1) اور اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے), یہ انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے۔ اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات وصدقات نافلہ کی ہوگی اور دیگر نیکیاں «الحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا»، ”ایک نیکی کا اجر دس گنا“، کی ذیل میں آئیں گی۔ (جیسا کہ فتح القدیر وغیرہ میں مذکور ہے) گویا نفقات وصدقات کا عام اجر وثواب، دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت وفضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان واسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا، فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کئے جاسکتے(تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف)
نیز اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:( (فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ (11) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ (12) فَكُّ رَقَبَةٍ (13) أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ (14) يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ (15) أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ (16) ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (17) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ (البلد 18))(سورہ ٔ البلد:۱۱۔۱۸)(ترجمہ: سو اس سے نہ ہو سکا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا،اور کیا سمجھا کہ گھاٹی ہے کیا؟،کسی گردن (غلام ،لونڈی) کو آزاد کرنا،یا بھوک والے دن کھانا کھلانا،کسی رشتہ دار یتیم کو،یا خاکسار مسکین کو،پھر ان لوگوں میں سے ہو جاتا جو ایمان لاتے(1) اور ایک دوسرے کو صبر کی اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں،یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے (خوش بختی والے))
علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں:( وَقَوْلُهُ: (أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ ) قال ابن عباس: ذي مجاعة. وكذا قال عكرمة، ومجاهد، والضحاك، وقتادة، وغير واحد. والسغب: هو الجوع … قال ابن عباس: (ذَا مَتْرَبَةٍ) هو المطروح في الطريق الذي لا بيت له، ولا شيء يقيه من التراب (تفسیر ابن کثیر :۸؍۴۰۸)(یعنی :اللہ تعالی کا فرمان: (أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ )کے بارے میں حضرت ابن عباس۔رضی اللہ عنہما۔فرماتے ہیں:یعنی بھوک والے,یہی بات عکرمہ ,مجاہد,ضحاک ,قتادہ جیسے دیگر مفسرین نے کہی ہے,اور سغب کا مطلب بھوک ہوتا ہے؛حضرت ابن عباس ۔رضی اللہ عنہما۔فرماتے ہیں:(ذا متربۃ)جو راستے میں پڑا ہوا ہو,اور اس کا کوئی گھر نہ ہو,اور نہ ایسی کوئی چیز ہو,جو اسے مٹی سے حفاظت کر سکے)
(۲) اللہ تعالی نے راہ ِ الہی میں خرچ کرنے کی بڑی فضیلت و عظمت بیان فرمائی ہے؛
نیز حضرت جابر فرماتے ہیں:( كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَدْرِ النَّهَارِ، قَالَ : فَجَاءَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ، مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ، عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ، بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: ( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ) (النساء: 1) إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، (إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا) وَالْآيَةَ الَّتِي فِي الْحَشْرِ: (اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ) [الحشر: 18] «تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ، مِنْ دِرْهَمِهِ، مِنْ ثَوْبِهِ، مِنْ صَاعِ بُرِّهِ، مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ – حَتَّى قَالَ – وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ» قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا، بَلْ قَدْ عَجَزَتْ، قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ، حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ، حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ، كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ»)(مسلم نمبر:۱۰۱۷)(ترجمہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے دن کے شروع میں، سو کچھ لوگ آئے ننگے پیر ننگے بدن، گلے میں چمڑے کی عبائیں پہنی ہوئیں، اپنی تلواریں لٹکائی ہوئی اکثر بلکہ سب ان میں قبیلہ مضر کے لوگ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بدل گیا ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے، پھر باہر آئے (یعنی پریشان ہو گئے۔ سبحان اللہ! کیا شفقت تھی اور کیسی ہمدردی تھی) اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اذان کہو اور تکبیر کہی اور نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا اور یہ آیت پڑھی «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ» ”اے لوگو! ڈرو اللہ سے جس نے تم کو بنایا ایک جان سے“ (یہ اس لیے پڑھی کہ معلوم ہو کہ سارے بنی آدم آپس میں بھائی بھائی ہیں) «َإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا» تک پھر سورہ حشر کی آیت پڑھی «اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ» ”اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے اور غور کرو کہ تم نے اپنی جانوں کے لیے کیا بھیج رکھا ہے جو کل کام آئے۔“ (پھر تو صدقات کا بازار گرم ہوا) اور کسی نے اشرفی دی اور کسی نے درہم، کسی نے ایک صاع گیہوں، کسی نے ایک صاع کھجور دینا شروع کیے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایک ٹکڑا بھی کھجور کا ہو۔“ (جب بھی لاؤ) پھر انصار میں سے ایک شخص توڑا لایا کہ اس کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا، پھر تو لوگوں نے تار باندھ دیا یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر دیکھے کھانے اور کپڑے کے اور یہاں تک (صدقات جمع ہوئے) کہ رسول اللہ ﷺکے چہرہ مبارک کو میں دیکھتا تھا کہ چمکنے لگا تھا گویا کہ سونے کا ہو گیا تھا، جیسے کندن، پھر فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے کہ ”جس نے اسلام میں آ کر نیک بات (یعنی کتاب و سنت کی بات) جاری کی اس کے لئے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ عمل کریں (اس کی دیکھا دیکھی) ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ ثواب گھٹے اور جس نے اسلام میں آ کر بری چال ڈالی (یعنی جس سے کتاب و سنت نے روکا ہے) اس کے اوپر اس کے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بار کچھ گھٹے۔“)
اللہ اکبر! یہ جذبہ ٔ ایمانی تھا صحابہ ٔ کرام میں,کہ نبی ٔ کریمﷺ کا اشارہ پاتے ہی بذل و عطا اور انفاق و دہش کے لئے دوڑ پڑتے تھے
اگر آج بھی یہ جذبہ ٔ دروں پیدا ہوجائے تو کوئی بھی بھوکا رات بھر بھوکا نہ سوئے,اور نہ آسمان کے نیچے ننگا سوئے
(۳)کبھی بھوکوں کوکھانا کھلانے کی بڑی فضیلت بیان فرمائی,اور تاکید فرمایا,چنانچہ فرمایا:((أَطْعِمُوا الجَائِعَ، وَعُودُوا المَرِيضَ، وَفُكُّوا العَانِيَ)(بخاری حدیث نمبر:۵۳۷۳)(ترجمہ: بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور مریض کی عیادت یعنی مزاج پرسی کرو اور قیدی کو چھڑاؤ۔)؛شیح محمد عثیمین فرماتے ہیں:( فإذا وجدنا إنسانا جائعا وجب علينا جميعا أن نطعمه وإطعامه فرض كفاية إذا قام به من يكفي سقط عن الباقين فإن لم يقم به أحد تعين على من علم بحاله أن يطعمه وكذلك أيضا كسوة العاري وهو فرض كفاية ” (شرح ریاض الصالحین ۴؍۴۶۹)(لہذا اگر کوئی بھوکا انسان ہمیں مل جائے تو ہم تمام پر ضروری ہے کہ ہم اسے کھانا کھلائے,اور یہ کھانا کھلانا فرض کفایہ ہے,اگر کوئی شخص اسے ادا کردے,تو باقی لوگوں سے یہ فرضیت ساقط ہوجائے گی ,اور اگر کوئی یہ فریضہ انجام نہ دے تو جس نے جانا اس پر واجب ہوجاتا ہے کہ اسے کھانا کھلائے,اسی طرح ننگا کو کپڑا پہنانا ,اور یہ بھی فرض ِ کفایہ ہے )
نیز فرمایا:( (يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الجَنَّةَ بِسَلَامٍ ))(ترمذی حدیث نمبر:۲۴۸۵,مستدرک حاکم حدیث نمبر:۴۳۰۶,ابن ماجہ حدیث نمبر:۲۶۴۸,صحیح الجامع حدیث نمبر:۷۸۶۵,السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر:۵۶۹)(ترجمہ: اے لوگو!سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتے داریاں ملاؤ، رات کو نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ رب کریم ہمیں نیک اعمال کی توفیق بخشے آمین