تاریخ اہل حدیث جنوبی سنتھال پرگنہ
(دمکا، گریڈیہ،دیوگھر)
مولانامحمدخالد فیضی
چھاتا پتھر،دیوگھر
==================================================
اس علاقے کی تاریخ سلفیت کے سلسلے میں میں بہت زیادہ پریشان تھا، کچھ دنوں سے اطمنان ہوا ہے، ١٨٢٠ء کے بعد شہیدین کا جتھاادھر آیا، دلال پور اس کا مستقر رہا، تاریخ میں اس کا بہت زبردست نام ہے، جنگ آزادی میں اور دوسری چیزوں میں اس کا نام ہے ، وہاں کے لوگ کا لاپانی گئے، قید کیے گئے، سزا پائی ، وہاں ان کے ساتھ بہت کچھ ہوا، مجاہدین کا یہ تیسرا مستقر تھا ، وہاں کا جو سسٹم تھا وہ توبعد کی بات ہے اس وقت جب یہ لوگ ہمارے علاقے میں آئے، ہمارے علاقے سے تین آدمی گئے تھے،جیو ضمیر سبحانی۔
میں نے کہا کہ جیو ضمیر سبحانی کے بعد کون ہے، یہ ١۱۸۵۰٨٥٠ ء کے آس پاس کی بات ہے یہ لوگ مجاہدین کے قافلے کے ساتھ کچھار آسام تک گئے پھر لوٹ کر سرحد سے علاقے میں آگئے اور علاقے میں دعوت کا کام کیا ، بہت اچھی بات ہے لیکن پھر ان کے بعد کن لوگوں نے کام کیا کیوں کہ جیوکے بعد نندومہا شے میرے گلے سے اترتے نہیں ہیں، حالاں کہ میں نے اس کا پرچار بہت کیا کہ جیو کے بعد نندو ہوئے لیکن نندو حقیقت میں نہیں ہیں، یہ تو ١٩٠٠ء کے کچھ سالوں بعد آئے ہیں۔ انیسویں صدی کے معاملے میں یہ کہیں نہیں ہیں ۔ آخر یہ بیچ کا آدمی کون ہے جوکڑی ٹوٹ رہی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ یہ مولانا عبد الرحیم امبھاوی ہیں جو بیر بھوم بنگال کے تھے اور مولانا سید نذیر حسین رحمہ اللہ کے شاگرد تھے وہیں پر انہوں نے علم حاصل کیا، ذہنی تربیت ہوئی، انہیں کے یہاں ساری باتیں سیکھیں، میں یہاں ایک بات شامل کرنا چاہتا ہوں لیکن ہمت نہیں ہورہی وہ یہ کہ یہاں سے کچھ لوگ رنگ روٹ بن کر گئے تھے ان کے ساتھ مولانا بھی تھے تو مجھے لگتا ہے کہ مولانا عبدالرحیم امواوی صاحب رنگ روٹ بن کر گئے تھے، رنگ روٹ کا ایک مستقر جامعہ نذیریہ تھا، یہاں محدث دہلوی کے یہاں قیام و طعام ہواکرتا تھا، ہفتہ دو ہفتہ ان کی ذہنی تربیت ہوتی تھی ۔ مولانا امبھاوی صاحب بھی اس گروہ کے ساتھ مجاہد بننے گیے تھے لیکن جب وہاں گیے تو میاں نذیر حسین کی صحبت میں رہ کر مزاج بدلا اور تعلیم کو ترجیح دی، تعلیم حاصل کرکے بیر بھوم واپس آئے، مولانا متول گھرانے کے تھے، ان کی بڑی بیٹی کی شادی مولانا محمد جوناگڑھی سے، دوسری بیٹی کی شادی مولانا عبد الرحمان یامولانا عباداللہ سے اور تیسری بیٹی کی شادی مولانا شمس الحق سے ہوئی ، یہ تینوں بڑے فائق اور ذی علم تھے، مولانا اتنے مالدار تھے کہ اپنے خرچ پر پوکھریا میں مدرسہ کھولا اور چلاتے رہے، کہاجائے تو پوکھریا سب سے پہلا سلفی گاؤں ہے وہاں پر مدرسہ کھولا، مسجد بنوائی، مکتب قائم کیا، اس پورے علاقے میں مولانا کا دورہ ہوا، جہاں جہاں گئے وہاں وہاں مسجد قائم کی اور کایا پلٹ کیا، ٹوپاٹانڑ کے حافظ صاحب جو پہلے حنفی تھے نندو مہاشے سے ان کا مناظرہ ہوا، بات چیت ہوئی وہ ان سے جیت نہیں پائے تو مولانا عبدالرحیم امبھاوی کو بلایا، ٹوپاٹانڑ میں بات چیت ہوئی پھر مدھوپور میں ہوئی، اس موقع پر چمپاپور، ٹوپاٹانڑ ، بوروٹانڑ اور مدھوپور وغیرہ تمام جگہوں میں ان کا دورہ ہوا۔
مولانا عابد حسین صاحب تو خاموش ہوگئے تھے، کیوں کہ ان کے دل میں بہت نرم گوشہ تھا، اگر وہ چاہتے تو علاقے میں ایک بھی حنفی باقی نہ رہتے ان کا وہ دبدبہ اور رسوخ تھا کہ انگریزوں تک ان کی بات چلتی تھی، عبدالرحیم صاحب نے ۱۹۱۲١٣۔١٩۱۹۱۳١٢ء میں چمپاپور میں مسجد قائم کی، ان کے شاگردوں نے نرائن پور میں مسجد قائم کی، نندو مہاشے ان کے خاص شاگرد اور تربیت یافتہ تھے۔نندو مہاشے کے پاس جو سختی ہے بغیر کسی سخت گیر کے نہیں ہوسکتی، اتنے سخت تھے کہ وہ خلیل کی طرح بتوں سے ٹکرا جاتے تھے،اس کے لیے وہ کچھ بھی برداشت کرلیتے تھے،بامشقت قید و بند بھی برداشت کی، قیاس ہے کہ 1912-1913-1914 ء میں نرائن پور مسجد انہوں نے قائم کی۔یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان میں الجمعہ فی القریٰ پر بحث چل رہی تھی، حنفیوں کا موقف تھا کہ دیہات میں جمعہ نہیں ہے جب کہ اہل حدیث کا موقف تھا کہ جمعہ شہر اور دیہات سب کے لیے ہے۔جن مولویوں کے پاس تعمق تھا انہوں نے جہاں تہاں زبردستی دیہاتوں میں مسجدیں بنوائیں تاکہ ثابت کرسکیں کہ دیہات میں بھی جمعہ ہے۔ چمپاپور کے بعد ٹوپاٹانڑ میں اس کے بعد مدھوپور میں ان کا دورہ ہوتا رہااور تبلیغ فرماتے رہے، لوگوں کو سلفیت سے روشناس کراتے رہے لوگ اس سے جڑتے گئے الحمد للہ اس کے بعد نندو مہاشے نے جو کچھ کیا ان کی روش پر کیا، ان کی شان سے کیا اور جس طرح وہ چاہتے تھے اسی طرح کیا نندومہاشے کے بعد جو لوگ آئے وہ پیر پرست زیادہ تھے۔کہنا نہیں چاہیے لیکن اس میں مداہنت نہیں ہوسکتی ہے۔مولانا عابد حسین چاہتے تو ایک اشارے میں پورے علاقے میں سلفیت پھیل جاتی ۔ حکیم عبدالغفار صاحب سوال کرنے والے سے تفہیم کرتے کہ کس مسلک کے ہیں حنفی ہوتے تو اس کو مسلک کے مطابق جواب دیتے غرض جس مسلک کے ہوتے اسی مسلک کے مطابق جواب دیتے تھے ، اصل مسئلہ قرآن و سنت کانہیں بتاتے تھے، ان دونوں کا علاقہ میں کافی اثر و رسوخ تھا اگر یہ دونوں چاہتے تو علاقہ کچھ اور ہوتا، مگر ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا، لہذا نندو مہاشے مولانا عبد الرحیم امبھاوی کے بعد آئے اور ان کے شاگردوں میں پوکھریا کے مولانا محمد عباس صاحب مولانا مفتی جرجیس سلفی صاحب کے بھائی، مولانا عبد العلیم صاحب کے والد صاحب مولانا عبد العزیز صاحب ، مولانا عبد الخالق صاحب کے والد گرامی نذیر صاحب تھے۔ کٹھڈابر کے شفیع اللہ صاحب اور ایک دوسرے صاحب ان کے شاگرد تھے ، ان کا مستقر وہیں تھا وہیں جاکے کام کیا۔ نندومہاشے نے بائیس گاؤں میں جاکر توحید کا پرچم بلند کیا۔ تعزیہ گاہ اور امام باڑہ ختم کیا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ سارے گاؤں کی گھر واپسی ہوگئی، میں نے اس پر غوروخوض کیا کہ ایسا کیوں ہوا، ایسا اس لیے ہوا کہ اہل حدیثوں کا ان سے رابطہ ختم ہوگیا یا کم ہوگیا۔ جامعہ محمدیہ کے اسباب زوال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہاں کے اساتذہ کاجن بستیوں سے تعلق تھا بعد میں رابطہ کم ہوگیا، صرف چندہ وصول کرنے عید، بقرعید اور اگھن مہینہ میں جاتے تھے، باقی کبھی نہیں جاتے تھے، مدرسہ چلانے کے لیے دکھ سکھ میں ساتھ دینا ضروری ہے، برتو وغیرہ کے لیے تو بہت گئے مگر مزاج پرسی اور تیمارداری کے لیے نہیں گئے، اس لیے جامعہ کا یہ حشر ہوا اور اگر اس پر غوروخوض نہیں کیا گیا تو اس طرح اور ہوگا، عوام کو نہ جوڑنا اور رابطہ کا فقدان اسباب زوال میں سے ہے۔
نندومہاشے کے بعد انہوں نے وصیت کی کہ خسرو صاحب میرے بعد یہاں کے امام ہوں گے وہ پوری حیات جامع مسجد نرائن پور کے امام رہے، اس وقت پورا علاقہ جامع مسجد کے کنٹرول میں رہتا تھا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت سیاسی فیصلے جامع مسجد میں ہوتے تھے اور لیے جاتے تھے، فرقان انصاری صاحب(سابق ایم۔ ایل ۔اے و ایم ۔پی) پہلی بار وہاں آئے تو وہاں کے لوگوں نے کہاکہ گھیرا بندی( باؤنڈری) کے لیے چندہ دیجئے، یہ ١۱۹۷۸٩٧٨ ء کا زمانہ ہے۔ اس وقت انہوں نے کہا کہ چندہ دینے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں ، میں کما کر پیسہ دوں گا اور وہی پیسہ دوں گا جس پر میرا یقین ہوگا کہ حلال اور پاکیزہ ہے۔ جب یہ بات میں نے ان سے سنی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ بہت پختہ آدمی معلوم ہوتا ہے ۔ اس وقت سے میں ان کا گرویدہ ہوگیا اور ان کے آگے پیچھے چلتا رہا یہاں تک کہ مولانا الیاس مدنی نے کہا کہ خالدصاحب کے لیے فرقان میاں خدا اور رسول ہیں، ان کو کنگ اور پیغمبر بنادیا اور کہا کہ فرقان صاحب ڈابھاکیند میں اس کے لیے سب کچھ کررہے ہیں،الغرض دونوں کی طرح کی باتیں کیں۔ میں نے کہا کہ اس طرح کی کوئی بات نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ سب کہاجائے، فرقان صاحب کیا ہیں کیانہیں ہیں وہ ان کے قریب آکر دیکھیں ان کے یہاں بدعملی ضرور ہے، وہ نماز اور روزہ وغیرہ نہیں کرتے وہ ٹھیک ہے لیکن اس طرح کی بات میں نے اچھے اچھے مولویوں سے نہیں سنی، تو نندومہاشے نے خسرو میاں کو جو جیروا کے تھے امامت دی۔ یہیں سے پورا علاقہ کنٹرول ہوتا تھا، دینی و سیاسی رہنمائی ہوتی تھی، سماجی باتیں حل ہوتی تھیں، لیکن جب حنفی اور اہل حدیث کامعاملہ ہوا تو اس کا یہ مقام ختم ہوگیا۔
جب خسرومیاں قریب المرگ ہوئے تو انہوں نے مولانا یاسین عادل ریاضی صاحب کو سب کے سامنے کھڑا کرکے کہا کہ یہ ہمارے خلف ہیں ۔ میرے بعد ان کی پیروی کیجئے، یہاں آکر معاملہ بگڑگیا، مولانا یاسین صاحب روشن خیال تھے، صلح کل کی پالیسی ان کی تھی کچھ باتیں ان کی اچھی بھی تھیں، پہلے جب آئے تو تحریک سلف کے لیے انہوں نے کافی کام کیا، قاری ایوب صاحب کو انہوں نے جواب دیا، جگہ جگہ مورچے سنبھالے، یہ سب ٹھیک ہے لیکن بعد میں جو کچھ ہوا بہت خراب ہوا، سبب چاہے معاشی حالت اور غربت ہو یا ان کا علم۔ ان کو پھکبندی میں رہنے کا موقع ملا، وہاں کے صدرمدرس رہے۔ میں بھی اس زمانے میں آتاجاتا تھا ، دوچار مرتبہ گیا لیکن یہ کبھی رہتے نہیں تھے، ہمیشہ پورے ہندوستان میں ان کا دورہ ہوتا تھا، ابن بطوطہ کی طرح سفر کرتے تھے۔ اگر وہ جم کر وہاں رہتے یا جم کر نرائن پور آتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔ جب یہ پھکبندی میں نہیں ہوتے تو اسد اللہ صاحب جو کم پڑھا لکھا حنفی المسلک تھا نماز و جمعہ پڑھاتے تھے اور یہیں سے حنفیت کی شمولیت ہوئی، یہاں پر ہمارے ایک استاذ قربان صاحب جو رہنے والے مدکھپور کے تھے اور مسلکا اہل حدیث تھے بھی رہتے تھے، مدکھپور اور کیندواٹانڑ میں اکثریت اہل حدیثوں کی تھی لیکن جیسے جیسے رابطہ کمزور ہوتا گیا لوگ پلٹتے گئے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”وذکر فان الذکر تنفع المومنین” یہ ایک سلسلہ ہے جو چلتا رہنا چاہئے تب نصیحت تازہ رہے گی ورنہ بعد میں بھول جائیں گے۔
مولانا یا سین صاحب پھکبندی سے نکال دیئے گئے اور انہوں نے خود بھی چھوڑ دیا۔ ان کے بعدمیں مفتی جرجیس صاحب آگئے، اس کے بعد ہم لوگ بھی آئے ، ہم لوگ آئے تو جامع مسجد میں کوئی بھی خطبہ دیتا ،نماز قاری ایوب صاحب مظاہری پنڈریا پڑھاتے تھے، وہ گریڈیہ میں رہتے تھے اور ہر جمعہ باقاعدہ نماز پڑھانے کے لیے آجاتے تھے یہ پلاننگ نہیں تو اور کیا ہے ،کیسے ان کو فرصت مل جاتی تھی اور کیسے وہ ہر جمعہ کو پہنچ جاتے تھے۔جب ہم لوگ فارغ ہو کرآئے تو ناظم صاحب کے پاس گئے، جمعرات کا دن تھا، میٹنگ کے بعد ناظم صاحب نے کہا کہ ادھر یہ بات مشہور ہے کہ جس نے نرائن پور کے میدان میں خطبہ دیا وہ مولوی تسلیم کیا جائے گا نہیں تو پڑھائی بے کار ہے تم کو خطبہ دینا ہے بہت قابل بنتے ہو اپنے گاؤں میں،میں نے کہا اتنی چھوٹی بات ہے خطبہ ہی دینا ہے ، چلئے خطبہ دوں گا، ہم لوگ وہاں گئے یہ تقریبا ۱۹۷۸ ء کی بات ہے لوگوں سے کہا گیا کہ ایک نئے مولوی صاحب خطبہ دیں گے، میں نے خطبہ دیا ، نماز کے لیے کھڑا ہوا تو ایک آدمی نے کہا کہ قاری صاحب آئے ہوئے ہیں وہ نماز پڑھائیں گے، میں نے کہا یہ کیسے ہوگا، خطبہ میں دوں اور نماز کوئی اور پڑھائے، خیر نماز میں نے پڑھائی، اس سلسلے میں بعد میں بات آئی ہوگی ، نماز کے بعد انہوں نے پوچھا کون صاحب ہیں، کہاں گیامحمد خالد فیضی ہیں، انہوں نے کہا اچھا یہی خالد ہیں، اس کا مطلب پہلے سے جانتے تھے، کہا ٹھیک ہے۔ اس کے بعد معاملہ جامع مسجد کی تعمیر کا آیا، جناب محمد قاسم صاحب مخلص اور جناب نیاز علی صاحب منگیا مارنی نے ان کو بلاکر زمین دی اور کہا کہ ہم لوگ بھائی ہیں، اہل حدیث حنفی سب مل کر رہیں گے، کوئی بات نہیں ہے مسجد کی تعمیر ہوگی، سب ساتھ رہیں گے، کمیٹی بنے گی تو دونوں کی شمولیت ہوگی اور یہی ہوا بھی، کمیٹی بنی اور حنفیوں کو بھی رکھا گیا، ایک طرف سے صدر تو دوسری طرف سے خزانچی، ادھر سے ایک ممبر تو ادھر سے ایک ممبر، اس طرح سے ان لوگوں کو بغیر کسی جدو جہد کے آسانی سے جگہ مل گئی، اس بیچ مولانا مفتی محمد جرجیس سلفی صاحب نے رابطہ عالم اسلامی سے تعلق قائم کیا، رابطہ نے مسجد کی تعمیر کے لیے سوا لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ کے قریب مدد کی جو اس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑی رقم تھی، مفتی جرجیس سلفی صاحب پیسہ وصول کرنے کے لیے حاجی لقمان صاحب کو ساتھ لے کر دہلی گئے، وہ پیسہ وصول کرکے واپس آئے،تعمیر کے لیے بیٹھک ہوئی، تعمیری کام کے دیکھ بھال کے لیے دھوما کے ایک شخص اسلام صاحب کو ذمہ بنایا گیا۔انہوں نے دوتین مہینے کام کرایا اس کے بعد کہنا شروع کیا کہ ہمارے بال بچے ہیں جن کے گذر بسر کے لیے کچھ چاہیے ۔ لوگوں نے چھ سو کے آس پاس ان کے لیے ماہوار مقرر کیا، یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیا مسجد کی تعمیر میں ہمارا حصہ نہیں ہے ، کیا ہم نے خدمت نہیں کی، ہم کہتے ہیں بیشک کی، لیکن معاوضہ بھی لیا، اور معاوضہ لینے والے کو مالکانہ حق حاصل نہیں ہوتا، سلفیت یہاں تک آنے تک کی یہ ساری باتیں ہیں۔
موجودہ وقت میں جامعہ محمدیہ کی تاریخ جاننا بہت ضروری ہے، مولانا عبد الرشید شایقی نے علاقے میں ایک مرکزی جماعتی مدرسے کے قیام کی تحریک کی پیشوائی کی اس سلسلے میں مختلف گاوں میں کئی میٹنگیں ہوئی مگر ١٨ /اکتوبر ۱۹۷۷ ء کو سمرگڈھامیں جوجنرل میٹنگ ہوئی وہ فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ جماعت کے اہم اور چیدہ چیدہ لوگوں نے شرکت کی۔ تفصیلی میٹنگ تو نہیں تھی لیکن ڈھائی تین گھنٹے کی اس میں میٹنگ میں جامعہ کی ضرورت و اہمیت پر بحث ہوئی اور لوگوں نے اپنے اپنے خیالات پیش کیے، اس میں جناب جسیم الدین صاحب نے دو ایکڑ زمین پھلجھریا( ڈابھاکیند) میں وقف کرنے کا اعلان کیا اسی بنیاد پر مدرسے کے قیام کے سلسلے میں ڈابھاکیند پھلجھریا اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا اور جامعہ کی اس میٹنگ میں ایک کمیٹی تشکیل پائی۔ جس کے عہدہ داران اور ممبران درج ذیل تھے۔
صدر جناب الحاج عبد العزیز صاحب سمر گڈھا
نائب صدر جناب جسیم الدین صاحب ڈابھاکیند
نائب صدر جناب مکھیا محمد قاسم صاحب ٹوپاٹانڑ
ناظم اعلی جناب مولانا عبد الرشید شائقی صاحب بدھی ڈیہ
نائب ناظم جناب مولانامحمد جرجیس سلفی صاحب پوکھریا
خزانچی جناب محمد رفیق صاحب ڈابھاکیند
محاسب اول جناب ماسٹر محمد صدیق صاحب چھاتا پتھر
محاسب دوم جناب مولانا محمد ادریس صاحب کروا
محاسب سوم جناب مولانا عبد الخالق صاحب پوکھریا
ممبران
جناب مولانامحمد قاسم مخلص صاحب سمرگڈھا
جناب مولانا محمد قاسم صاحب ستلا
جناب حاجی امجد صاحب جام جوری
جناب محمد اسرائیل صاحب بدھی ڈیہ
جناب عبد اللطیف صاحب پرنا نگر
جناب محمد بشیرالدین صاحب جدوڈیہ
جناب مولوی محمد نوشاد صاحب جیروا
جناب مولوی عنایت اللہ صاحب جگواڈیہ
اس میٹنگ میں مندرجہ بالا عہدران و ممبران کے انتخاب کے علاوہ درج ذیل قرارداد اتفاق رائے سے پاس کی گئیں
١۔ ایک دینی مرکزی مدرسہ جماعت اہل حدیث اتفاق رائے سے قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔
٢۔ دینی مرکزی مدرسہ کے قیام کے لیے موضع پھلجھریا، ڈابھاکیند اتفاق رائے سے طے پایا۔
اس موقع پر میں نے بھی اپنی زندگی کا پہلا مقالہ مدرسے کی ضرورت واہمیت پر لکھاتھا اور وہاں سنایا تھا۔ لوگوں نے میری باتیں نوٹ کیں۔ اس کا ملا جلا اثر ہوا، مولانا قاسم صاحب مخلص نے میرے مقالہ ختم ہونے پر میری پیٹھ تھپتھپائی اور حوصلہ افزائی کی۔ میں نے کہا تھا کہ اگر اس کے ذمہ داران نےدینی و دنیاوی علم کی تقسیم کی تو میں اس تحریک کے ساتھ نہیں ہوں۔ مجھے ایسا دارالعلوم چاہئے جوتمام علوم کا احاطہ کرے۔ دینی و دنیاوی علوم کی تقسیم سیاسی لوگوں نے کررکھی ہے اور قرآن و حدیث کو مدرسہ و مسجد سے منسلک قرار دیاہے تاکہ مسلمان اس میں الجھے رہیں اور دینا کی طرف نہ دیکھیں ۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمارا علاقہ بھی اسی ڈگر پر چل پڑاہے اورلوگ چاہتے ہیں کہ اسی طرح ادارے چلے۔ لوگوں نے حوصلہ افزائی کی کہ آپ نے بڑی اہم بات پیش کی کہ دارالعلوم اور مرکزی ادارہ قائم کیا جائے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اس وقت دارالعلوم کی بڑی ضرورت تھی، لوگوں نے اس سے اتفاق کیا کہ مدرسہ کو قرآن و حدیث کی تعلیم تک محدود نہ رکھا جائے۔ یہ تو مسلمانوں کا آبائی حق ہے، ان کا علم حاصل کرنا ضروری ہے ،آپ کچھ بھی پڑھائیں لیکن دینیات کا ناطہ رہے۔ اس سے کسی بھی حال میں صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا ١۸/ اکتوبر ١٩۷۷ء کو اتفاق ہوگیا تھا کہ ایک مرکزی دارالعلوم قائم ہو۔ ان حالات میں پورے علاقہ میں لوگ مدرسہ کے لیے مخلص ہوگئے اور رائے پاس کی گئی کہ صدقہ و خیرات و زکاة کے ذریعہ تعاون کیا جائے اور الحمدللہ لوگوں نے بھر پور تعاون کیا۔ اس موقع پر ہم لوگ چندہ کے لیے جاتے تھے ، پورے علاقہ میں نظام بنا ہوا تھا کہ ڈابھاکیند کے لیے اتنا دیا جائے اور لوگ دینے لگے، ککریا ٹانڑ(خیرآباد) کے عبد السبحان صاحب پوچھتے تھے کہ مولوی صاحب اتنا من دھان ہوا ہے اتنے میں کتنا مجھے دینا ہوگا۔ ان کو بتا یا جاتا اور وہ تقریبا نو من دھان دیتے تھے، اس طرح لوگوں کی طرف سے زبردست تعاون ملا۔ لکھن پور کےحاجی عبدالرشید جو مدرسہ کے اساسی ممبر تھے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور محلصین کے ساتھ علاقہ کا دورہ بھی کرتے تھے۔ علاقہ کے محصلین ہونے کی وجہ سے کسی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اس کے باوجود لوگوں کے اندر اتنا جذبہ تھا کہ وہ وصول کرنے والوں کا ساتھ دیتے تھے۔ کچھ لوگ اس کے برخلاف گاؤں میں آگے آگے چلتے تھے کہ ڈابھاکیند کو چندہ نہ دیا جائے۔ اس کے لیے دن بھر چکر لگاتے ۔ لیکن بعد میں وہ آدمی جامعہ کا حامی بنا، ہمدرد بنا اور اللہ نے اس سے کام لیا۔ بٹ بریا کے مستقیم صاحب بھی جامعہ کے لیے مخلص تھے، انہوں نے جامعہ کی تعمیر و ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ چمپاپور کے میرے عزیز اور دوست حاجی محمد یونس دکاندار نے بھی جامعہ کی کھل کر مدد کی۔ عام و خاص ہر چندہ میں حصہ لیتے تھے۔ اپنی دکان میں ایک ڈبہ رکھ رکھا تھا اور گراہکوں سے جامعہ کے لیے تعاون کی اپیل کرتے تھے۔ معاونین کی فہرست لمبی ہے ، نام شمار کرنا طول طلب ہے، یہاں صرف چند لوگوں کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ ہرلا، بٹ بریا اور چھاتا پتھر والے صف اولین کے معاونین تھے، یہاں جامعہ کی تعمیر و ترقی میں بڑا اہم کردار اداکیا ہے ۔
مولانا عنایت اللہ صاحب پہلے سے مدرسہ چلاتے تھے، ایک صاحب نے غلط تاریخ بیان کی ہے کہ جامعہ بہت پہلے سے چل رہا تھا،مولانا یسین عادل ریاضی صاحب اس کے ذمہ دار تھے اور وہی سب کچھ کرتے تھے۔ انہوں نے جو مدرسہ کی عمارت بنائی تھی جس کا نام مدرسة البلاغ ہے اسی عمارت میں جامعہ چل رہا تھا۔
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
جوبات کی خدا کی قسم لاجواب کی
مولاناکا مدرسہ مرحوم ہوئے تقریبا آٹھ برس ہوگئے تھے۔ وہاں صرف دیوار تھی جس کو نشان کے لیے چھورڈی گئی تھی، اس موقع پر ڈابھاکیند کے پردھان محمدیوسف صاحب نے زمین وقف کی۔ وہ لوگ وقف پر قائم رہے۔ آج کی طرح نہیں کہ مدرسہ نہیں ہے تو وقف کرنے کے بعد لوٹا لے۔ آج لوگ وقف کرنے کے بعد لوٹا لیتے ہیں لیکن انہوں نے فی سبیل اللہ چھوڑدیا۔ اس وقت ہم لوگوں کو نشانات اور ٹوٹی ہوئی دیواریں نظر آئیں۔ ہم نے وہیں سے کام شرو ع کیا جہاں سے رکا تھا۔ جگواڈیہ کے مولانا عنایت اللہ صاحب کی نگرانی میں کام شروع ہوا ، نوجوانوں نے دیوار کھڑی کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جگواڈیہ کی مسجد سے شتہیر لائی گئی۔ بڑی بھاری بھرکم لکڑیاں ہوتی تھی، ایک طرف مولانا عنایت اللہ صاحب اور دوسری جانب چار پانچ نوجوان ہوتے تھے اور لکڑی اٹھاکر اس کی جگہ پر رکھتے تھے۔ مولانا کا تعمیر میں اہم کردار رہا۔ انہوں نے یہ سب للہ فی اللہ کیا۔ کبھی بھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا، تعمیر تکمیل ہونے تک لگے رہے۔ تعمیر کے موقع پر بانس کا چندہ ہوا ۔ یاد آرہا ہے کہ چھاتا پتھر میں ایک گاڑی بانس چندہ ہوا تھا جہاں سے دو بجے رات ڈابھا کیند پہنچایا گیا۔اور دوسرے گاوں سے بھی چندہ ہوا اس کے بعد بلڈنگ کی تعمیر شروع ہوئی۔ ہرلا میں ہود اشرف کے دادا نے تین ساکھو کے درخت چوکٹھ اور کھڑکی بنانے کے لیے دیا تھا۔ بٹ بریا کے لوگوں نے بھی سکھوا کے درخت دیے تھے جنہیں آج لوگ مال غنیمت کی طرح اٹھا اٹھا کر لے جارہے ہیں۔ مستقیم صاحب نے اللہ کے لیے تختہ دیا تھا۔ تعمیر کے موقع پر زبردست چندہ ہوا۔ اینٹ بننے کے موقع پر ایک روز ایسا ہوا کہ سارے پیسے ختم ہوگئے، مزدوروں کو دینے تک کے لیے پیسے نہیں تھے ۔ ہم لوگ سرجوڑ کر بیٹھے۔ گرمی کا موسم تھا، اسی وقت ایک گاری آکر رکی، گاڑی والے نے سوال وجواب کے بعد ایک ہزار روپے کا چندہ دیا۔ وہ جلدی میں تھے اس لیے تشریف نہیں رکھی، انہوں نے رسید میں اپنا نام لکھوانا گوارا نہیں کیا اور بندۂ خدا کے نام سے رسید کاٹی گئی۔ اس وقت ”یرزق اللہ من حیث لایحتسب” اور” وھو حسبہ ”کا نظارہ ہمیں نظر آیا۔
اس وقت کوئی راستہ نہیں تھا کہ کیسے انتظام کیا جائے لیکن اللہ نے انتظام کرادیا۔ پیسہ مل گیا تو بہت آسانی سے سارے کام انجام پاگئے۔ اینٹ کا بھٹھا لگانے میں گاؤں کے لوگوں اور بچوں نے بہت ساتھ دیا۔ کوئی ناشکرا ہی ان کے خدمات کا انکار کرسکتا ہے۔ خصوصا عبد الکریم صاحب کی جذباتی لگاؤ قابل ذکر ہے ،وہ سالانہ جلسوں کے دوران انتظام وانصرام میں کافی نمایاں کردار ادا کرتے تھے ۔
مگر ایک بات واضح کرنا اورضروری ہے کہ مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں ڈابھا کیند کے بعض نام نہاد ہم دردان نے کبھی تعاون نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیشہ مختلف پہلو سے رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی بلکہ مجھے بعض ذریعہ سے یہ معلوم ہوا کہ ناظم مرحوم مولانا شفاء اللہ فیضی صاحب سے مختلف حیلے اور بہانے سے پیسے بھی وصول کرتے تھے۔
ٹوپاٹانڑ سے ہمیشہ چپقلش رہنے کے باوجود تعمیر کے موقع پر اور طلبہ کے لیے وہاں سے چندہ وصول ہوا اور مخالفین نے بھی تعاون کیا۔ اس موقع پر صرف چہیتوں کا تذکرہ مناسب نہیں بلکہ ان کا ذکر بھی ضروری ہے جنہوں نے کسی چاہنے والے کے بغیر صرف اللہ کے لیے تعاون کیا۔ جگواڈیہ، لال چنڈیہ اور جیروا وغیرہ کے لوگوں اور نوجوانوں نے تعمیر میں حصہ لیا۔ تعمیر و ترقی میں کسی خاص شخص کا نام نہیں لیا جاسکتا۔ غیروں نے بھی مددکی۔ چھاتا پتھر کے مولانا خورشید صاحب جامعہ محمدیہ اور پھکبندی بھی جایا کرتے تھے، ان کو جامعہ سے انسیت تھی۔ مولانا شمس الدین صاحب نے ان سے کہا کہ آپ جامعہ کو چندہ دیتے ہیں اور جامعہ کی بات کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ مومن صاحب آپ اس کو جامعہ مت کہئے وہ تو جان محمدیہ ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
راجا بھیٹھا کا ایک شخص مسلم صاحب تھے جو جامعہ کا اسی طرح ہمدر د تھا جیسے جناب اظہار صاحب جامعہ فیض عام کے لیے تھا، اظہار صاحب بہت جلالی آدمی تھے، ایک مرتبہ انہوں نے اپنے بھائی کو مارنے کے لیے گن نکال لیا تھا اس لیے کہ اس نے بچہ کو خوش کرنے کے لیے مدرسہ کو نقصان پہنچایا، وہ شوٹ کرنا چاہتے تھے لیکن ناظم صاحب نے سمجھایا تو ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا، انہوں نے ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ ” آدھی روٹی کھائیں گے پھر بھی جامعہ کو چلائیں گے”۔ یہ نعرہ 2001ء میں حکومت کی طرف سے آیا تھا جب کہ جامعہ میں ١٩٧٨ ء میں گونجا، اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہم لوگ کتنے آگے تھے۔
اس زمانے میں جب جلسہ ہوتا تھا تو ہمارا ایک موضوع ہوتا تھا”کاروان محمدی قدم بقدم منزل کی طرف گامزن” یہ سب لوگوں نے مثل بنا لیا تھا،لوگ جگہ جگہ گنگناتے تھے، جامعہ سلفیہ میں جب جامعہ کا اشتہار لگتا تھا تو جامعہ کے اساتذہ دیکھنے کے لیے جمع ہوتے تھے کہ کیا لکھا ہے، اس میں اس طرح القاب دئے جاتے تھے کہ وہ لوگ کہتے تھے کہ بریلویت کو پیچھے چھوڑ دیا ، اس طرح سے جامعہ محمدیہ نے پورے ہندوستان کو جوڑا، مولانا عبدالسلام اسلم کانپوری اور مولانا محمد سلیمان کلکتوی کا بیان ہے کہ جامعہ کی مجلس میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی ہے کہ آنا ضروری ہو لیکن خط اس طرح لکھے جاتے ہیں کہ آئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ ایک مرتبہ مولانا اسلم کانپوری صاحب جان کو خطرہ میں ڈال کر آئے تھے ۔ ان سب سے جامعہ کی کامیابی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جامعہ ترقی کرکے اپنے عروج کو پہنچا۔ (اس کے بعد کی تاریخ آپ بخوبی جانتے ہیں)
اب تو میٹنگیں ہوتی ہیں۔ نہ سلفیت ہے نہ سلفیت کے چاہنے والے، نہ اس کے لیے کوشش کرنے والے، اب سارا کھیل مفاد کا ہے، ابھی آپ جامعہ کے بارے میں بتارہے تھے کہ ایسا ہے ویسا ہے اب تو کوئی اس طرح کا آدمی نہیں ہے۔ ہم لوگوں نے پچاس ، سو روپے میں اتنا کام کیا میں جب سرکاری ملازمت میں گیا تھا اس سے پہلے یہ تھا کہ جو چندہ کرے وہ اپنی تنخواہ لے اور باقی جمع کردے، یہ ایک سسٹم تھا اس میں میں بھی شامل تھا۔ اتنے فیصد آپ کمیشن لے لیجئے یہ آپ کی تنخواہ ہے ، یہ سفر خرچ ہے وغیرہ میں تو اللہ کی شان کبھی چندہ نہیں کرپایا، ان چیزوں سے میں محروم ہی رہا، مرحوم ناظم صاحب مجھے پانچ دس ، بیس روپے دیا کرتے تھے اور مہینے میں ایک مرتبہ کہتے تھے کہ مولانا اتنا ہوگیاتنخواہ رجسٹر پر دستخط کردیجئے۔
جامعہ کے مختلف ادوار میں جو ممبران منتخب کیے گئے ان کا بھی اس کی تعمیر و ترقی میں خصوصی کردار رہا ہے ،خصوصا صدر جامعہ عبد الرزاق صاحب کی بہت نمایا ں خدمات رہی ہیں انہوں نے اور محمد انور صاحب نے متعدد بار جامعہ کی کشتی کو مالی بھنور سے نکالا ہے ۔
ناظم صاحب کے بارے میں ایک ہی بات کہوں گا جو مولانا سلیمان صاحب نے تعزیتی جلسے میں کہا تھا کہ ناظم صاحب دیکھنے میں بہت نحیف ، ناتواں، کمزور، اور شرمیلے تھے، سب کچھ تھے، لیکن ان کے اندر انتظام و انصرام کی بڑی صلاحیت تھی، انہوں نے کہا ناظم صاحب وہ تھے جو ٹھنڈا اور گرم کو صاف کردیتے تھے، ٹھنڈے اور گرم سے کام لینا ناظم صاحب جانتے تھے۔ دوسرا تبصرہ عبداللہ مدنی صاحب کا ہے کہ ناظم صاحب کے ساتھ میں بہت رہا، ہر جگہ ساتھ رہا، لیکن میں جان نہیں پایا کہ یہ آدمی اتنا گہرا ہے ۔ بہر حال ہم لوگوں کا جو خواب تھا کہ علاقے میں ایک جامعہ بنائیں گے سب چکنا چور ہوگیا۔ فی الوقت علاقے میں ذاتی اور نجی اداروں کی بہارا ئی ہوئی ہے اللہ سے دعا ہے کہ دوبارہ جماعتی پلیٹ فارم پر علاقے کو یکجا ہو نے کی تو فیق دے امین ]
ایک سال پہلے ریکارڈ کرائی گئی گفتگو۔مولانا محترم کی خواہش پر اسے شیئر کیا جا رہا ہے۔
محمد جر جیس کریمی
2 responses to “تاریخ اہل حدیث جنوبی سنتھال پرگنہ”
ماشاءاللہ!!
بہت عمدہ!!
لیکن اس میں املا کی بہت ساری غلطیاں رہ گئی ہیں!!
اس قدر قیمتی معلومات سے پر تحریر بالکل صاف اور نقائص سے پاک ہونی چاہئے تھی۔
امید کرتے ہیں آئندہ سے اس کا خیال رکھا جائے گا!
والسلام علیکم
مثلا :
کچھ بتلا دیں
تاکہ ان کا خیال رکھا جا سکے