پہلا اصول: نیک بیوی اور نیک شوہر کا انتخاب کرنا:
ازقلم: ابوصالح دل محمد سلفی
بلاشبہ تربیت اولاد اہم ترین دینی فریضہ ہے۔جو والدین کی بھرپور توجہ اور جد وجہد کا متقاضی ہے۔والدین کی توجہِ خاص اور ذاتی دل چسپی کے بغیر اولاد کی صحیح تربیت نہیں ہوسکتی ہے۔ اولاد کی صحیح تربیت اسی صورت میں ممکن ہے جب والدین خود دینی تربیت سے مزین اور نیک و دیندار ہوں۔کیوں کہ بچوں کا بچپن والدین کے سایہ عاطفت میں ہی گذرتاہے جہاں سے بچوں کی ذہن سازی اور کردار سازی کا آغاز ہوتا ہے ۔ بچے فکرونظر ، اخلاق وعادات ، خصائل واوصاف اور زبان وتہذیب سب سے پہلے اپنے والدین سے ہی سیکھتے اور اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ بچوں کے اخلاق و کردار، چال چلن اور ذہن و فکر میں والدین کی چھاپ لازمی طور پر رہتی ہے۔
معلوم ہواکہ تربیتِ اولاد اور اولاد کے بننے و بگڑنے میں والدین کا کردار بہت ہی اہم اور بنیادی ہوتاہے۔اس کا اندازہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ما مِنْ موْلودٍ إلّا يولَدُ على الفِطْرَةِ، فأبواهُ يهوِّدانِهِ أوْ يُنَصِّرانِهِ، أوْ يُمَجِّسانِهِ ” ہر بچہ دینِ فطرت (دینِ اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔(بخاري: 4775 ومسلم: 2658)
لہذ اولاد کی صحیح تربیت کے لئے والدین کاصحیح العقیدہ،نیک وصالح اور دیندارہونا انتہائ ضروری ہے.کیوں کہ والدین اگر نیک ودین دار ہوں گے تو اولاد بھی نیک ودین دار ہوں گی۔اور اگر والدین بے دین و بد عمل ہوں گے تو اولاد بھی بے دین و بد عمل ہوں گی۔چنانچہ غور و فکر کرنے سے یہ حقیقت بآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ و السلام کی صالحیت و دین داری ، اطاعت وفرما برداری اور حکم الہی کی تعمیل میں جذبہ وفاداری کاراز ان کے والدین(ابراہیم و ہاجرہ علیہما الصلوٰۃ والسلام) کا نیک و صالح اور جذبہ ایمان سے سرشارہوناہے۔
یہی وجہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے اولاد کے لئے نیک و صالح اور دیندار والدین مہیا کرنے کے لئے زوجین میں سے ہر ایک کو نیک و دین دار جوڑا اختیار وانتخاب کرنے کا حکم دیا ہے۔لہذا مرد کو چاہئے کہ اپنے لئے نیک بیوی کاانتخاب کرے اور عورت کو چاہئے کہ اپنے لئے نیک شوہر کو ترجیح دے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو نیک بیوی کے انتخاب کرنے کا حکم دیتے ہوئےارشاد فرمایا:” تُنْكَحُ المَرْأَةُ لأرْبَعٍ: لِمالِها، ولِحَسَبِها، وجَمالِها، ولِدِينِها، فاظْفَرْ بذت الدین تربت يَداك” عورت سے نکاح چار اسباب کی بنیاد پر کیا جاتاہے:اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب و نسب اور خاندان کی وجہ سے، اس کے حسن وجمال اور خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کی دین داری کی وجہ سے ۔پس تم دین دار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کرو، اگر ایسا نہیں کروگے تو تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔(بخاری:5090 ، مسلم:1466)
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” تَخَيَّروا لِنُطَفِكُم ” تم لوگ اپنے نطفے(اولاد کی حسن تربیت ) کے لئے بہتر(نیک بیوی) کا انتخاب کرو۔(صحیح الجامع الصغیر:2918)
اسی طرح عورتوں کے اولیاء و سرپرستوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی و بہن اور زیر ولایت لڑکیوں کے نکاح کے لئے نیک و دین دار مردوں کو ترجیح دیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” إذا خطب إليكم من ترضوْن دينَه وخُلقَه فزوِّجوه، إلّا تفعلوا تكنْ فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ ” جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص پیغامِ نکاح بھیجے جس کے دین و اخلاق کو پسند کرتے ہو تو تم اس سے(اپنی لڑکیوں کا) نکاح کردو۔اور اگر تم ایسا نہیں کروگے تو دنیا میں فتنہ و عظیم فساد برپا ہو جائے گا۔(رواہ الترمذی عن أبى هريرة وحسنه الألباني فى الإرواء:1868)
خواتینِ اسلام کو بھی چاہئے کہ وہ خود بھی شوہر کے انتخاب میں بہت زیادہ احتیاط کریں اور نیک ودین دار مرد کا انتخاب کریں۔چنانچہ حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا جب بیوہ ہوگئیں اور حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان کو پیغام نکاح بھیجا(ابوطلحہ ابھی کافر تھے) تو حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے ان کو جواب دیتے ہوئےکہا: “واللهِ ما مِثلُك يا أبا طلحةَ يُرَدُّ، ولكنك رجلٌ كافرٌ، وأنا امرأةٌ مسلمةٌ، ولا يحلُّ لي أن أتزوجَك، فإن تُسْلِمْ فذاك مهري، وما أسألُك غيرَه. فأسلمَ فكان ذلك مهرَها” اے ابوطلحہ! اللہ کی قسم آپ جیسی شخصیت کا پیغام نکاح رد نہیں کیا جاسکتا۔لیکن (افسوس کہ میں آپ کے پیغامِ نکاح کو رد کرنے پر مجبور ہوں) کیوں کہ آپ کافر ہیں اور میں ایک مسلمان عورت ہوں۔میرے لئے آپ سے شادی کرنا حلال نہیں ہے۔ہاں اگر آپ مسلمان ہوجائیں(توآپ سے میرے لئے شادی کرنا جائز ہوجائے گا۔اور میں آپ کا پیغامِ نکاح قبول کر لوں گی) اور آپ کا قبولِ اسلام ہی میرے لئے حق مہر ہوگا۔اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کروں گی ۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے(اور ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ان سے شادی کرلی) اور ان کا حق مہر قبول اسلام ہی تھا۔(صحيح النسائي:3341)
الغرض تربیتِ اولاد کا پہلا اہم اصول نیک بیوی اور نیک شوہر کا انتخاب کرنا ہے۔