{تربیتِ اولاد کے دس اہم اصول}
دوسرا اصول: نیک اولاد کی دعاکرنا:
ازقلم: ابوصالح دل محمد سلفی
بلا شبہ اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کے لئے جس طرح والدین کاخود دینی تربیت سے مزین ہونا اور نیک و دین دار ہونا ضروری ہے اُسی طرح اولاد کا بھی نیک وصالح ہونا ازحد ضروری ہے۔اس لئے کہ صالحیت کے بغیر بچوں میں دینی تعلیم و تربیت اور وعظ و نصیحت مؤثر و مفید اورکارگرنہیں ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو بچے نیک وصالح اور پاک و صاف ذہن کےہوتے ہیں وہ حسنِ تربیت اور وعظ و نصیحت کو قبول کرتے ہیں اور ایسے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت میں والدین کو کامیابی بھی ملتی ہے۔اورجو بچے نیک و صالح اور اچھے ذہن کے نہیں ہوتے ہیں وہ حسنِ تربیت اور وعظ و نصیحت کو نہ تو قبول کر تے ہیں اور نہ ہی ایسے بچوں کی دینی تربیت میں والدین کو خاطرخواہ کامیابی مل پاتی ہے۔
اس کی واضح مثال اورٹھوس دلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزندِ ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کنعان ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب صالح اور نیک بخت لڑکا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں عطا فرمایا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی بھرپور دینی تربیت کی اور تربیت میں ان کو پوری کامیابی ملی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی اپنے والدین (ابراہیم و ہاجرہ علیہما الصلوٰۃ والسلام)کی دینی تعلیم وتربیت اور وعظ و نصیحت کو قبول فرمایا اور خود کو دینی سانچے میں ڈھالا اور اپنے آپ کو دینی وایمانی اور روحانی اعتبار سےاتنا مضبوط کر لیاکہ ابھی وہ بلوغت کے قریب تقریبا بارہ تیرہ سال کی عمر ہی کے تھے کہ اللہ کی راہ میں جب ان کو قربان(ذبح) کرنے کی وحی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئی تو حکم الٰہی کی تعمیل میں انہوں نے بلا چوں وچرا سرِ تسلیم خم کردیا اور ذبح ہونے کے لئے خوشی بہ خوشی تیار ہوگئے پھر بیت اللہ کی تعمیر میں بھی اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھرپور ساتھ دیا۔اور اللہ تعالیٰ کے ایک ایسے پاک باز بندے بنے کہ اللہ تعالی نے ان کو قرآن میں ایک انتہائی نیک، وعدہ کا سچا اور صبرکرنے والا نبی قرار دیا۔
لیکن حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا کنعان چوں کہ نیک وصالح اور دین دارنہیں تھا۔اس لئے حضرت نوح علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر کی دینی تعلیم و تربیت کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے اپنے والد کے وعظ ونصیحت کو قبول کیا۔جس کانتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اپنے والد کی نا فرمانی کی، حکم الٰہی کی مخالفت کی، دعوتِ توحید کوٹھکرایا اور غرور و تکبر سے کام لیا نتیجۃً عتاب الہی کا شکار ہوکر کفر وشرک کی حالت میں طوفانِ نوح میں ہلاک وبرباد ہو گیا۔
معلوم ہواکہ تربیتِ اولاد میں اولاد کا صالح اور نیک ہونا بہت ضروری ہے۔اولاد اگر صالح نہ ہوں تو والدین کو تربیتِ اولاد میں کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام و صلحائے عظام اللہ تعالی سے نیک وصالح اور پاک باز اولاد کی دعائیں کیاکرتے تھے۔لہذا زوجین کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے نیک اولاد کی دعائیں کرتے رہیں۔تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں نیک اولاد عطا کرے اور وہ ان کی صحیح ڈھنگ سے تربیت کر سکیں میں۔
اسی طرح شوہر و بیوی کو چاہئے کہ ہم بستری سے پہلے یہ دعا پڑھنے کا اہتمام کرے: “اللَّهُمَّ جَنِّبْنا الشَّيْطانَ، وَجَنِّبِ الشَّيْطانَ ما رَزَقْتَنا” اے اللہ! ہمیں شیطان سے محفوظ ومون رکھ اور اس اولاد کو بھی شیطان سے محفوظ ومامون رکھ جو تو ہمیں عطا فرمائے گا۔(صحیح ابوداؤد:2130)
الغرض تربیتِ اولاد کا دوسرا اہم اصول نیک وصالح اولاد کی دعا کرنا ہے۔ ذیل میں نیک اولاد طلب کرنے کی چند قرآنی دعائیں ذکر کی جارہی ہیں۔
(1) ” رَبِّ هَبۡ لِی مِن لَّدُنكَ ذُرِّیَّة طَیِّبَةًۖ إِنَّكَ سَمِیعُ ٱلدُّعَاۤءِ ”
اے میرے پرور دگار! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اور نیک وصالح اولاد عطا فرما۔بے شک تو دعا کا سننے والاہے۔(آل عمران:37)
(2) “ رَبِّ هَبۡ لِی مِنَ ٱلصَّـٰلِحِینَ ”
اے میرے پرور دگار! مجھے صالح اور نیک بخت اولاد عطافرما-(الصافات:100)
ابوصالح دل محمد سلفی
جامعہ سلفیہ بنارس
9431350537