تحریر:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
(مدیر ِ مجلہ)
تری پورہ آسام سے متصل ایک صوبہ ہے,جو ہندوستان کے شمال میں واقع ہے,جہاں آٹھ اضلاع ہیں,جس کا کل رقبہ(۱۰۴۹۲)کیلو میٹر ہے اور جس کی ۲۰۱۲ء کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی (۳۶۵۸)ملین ہے,جہاں پر بی جے پی کی حکومت قائم ہے,اور عالی جناب بپ لیپ کمار دیپ وزیر اعلی کے عہدہ فائز ہیں,جو کسی زمانے میں بنگلہ دیش سے آئے تھے(یعنی وہ بنگلہ دیشی ہندو ہیں),وہاں پر ۱۳ ایسی فسطائی تنظمیں کام کر رہی ہیں جو ہندو مسلم کا ہمیشہ بیج بوتی ہیں,نفرت کا سبق عام کرتی ہیں اور ہندو مسلم کھیل کھیلتی رہتی ہیں۔
ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ پڑوسی ملک میں بعض شدت پسند مسلمانوں نے درگا پوجا کے موقعے پر غیر مناسب حرکتیں کیں,برادران ِ وطن پر تشدد کیا اور شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ان مسلمانوں کے خلاف کاروائی کی,مندر مندر جاکر وہاں کے ہندؤوں کو دلاسہ دلایا,اور ۴ ہزار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی,ہندستانی مسلمانوں نے بالخصوص اس واقعہ کی پر زور مذمت کی,بھر پور تردید کی,اور ایسے واقعات کو اسلام منافی قرار دیا
مگر سیاسی روٹی سینکنے والے سینکنے کی کوشش کرتے ہیں اور کوئی موقعہ ہاتھ سے دینا نہیں چاہتے ,بنگلہ دیش کے واقعے کے بعد ہندوستان کے شمالی صوبہ تری پورہ میں ہندو پریشد کے توسط سے نفرت کی آگ لگائی گئی,۲۱ اکتوبر سے آج تک(جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں) مسلسل وہاں مسلمانوں پر تشدد کیا جا رہا رہے,دہشت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے؛مسلمانوں کے خلاف نعرہ بازیاں کی جا رہی ہیں؛مسلم بستیوں میں راتوں کو ہندو انتہا پسند گھوم گھوم کر دھمکیاں دے رہے ہیں؛نبی ٔ کریمﷺکی شان میں گستاخیاں کی جا رہی ہیں,آپﷺ کی ذات مبارکہ کو سب و شتم کیا جا رہا ہے؛اب تک ۱۲ سے زائد مسجدیں توڑی جا چکی ہیں,تین مسجدیں نذر آتش کی جا چکی ہیں,مسلمانوں کے گھروں کو چن چن کر مسمار کیا جا رہا ہے,دکانیں جلائی جا رہی ہیں,قرآنِ کریم کی بے حرمتی کی جا رہی ہے,مسلم خواتین کو زدو کوب کیا جا رہا ہے,مسلم گھروں میں بھگوا جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں,اور یہ سب حکومت کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے, یہ ننگا ناچ ان کی ناک کے نیچے انجام دیا جا رہا ہے ؛کیا ہم مان لیں کہ صوبائی حکومت کو اس کا پتہ نہیں ہے,کیا ہم باور کر لیں کہ مرکزی حکومت اس عظیم واقعہ سے یکسر نا بلد ہے؛ہرگز نہیں ,قطعا نہیں ,بالکل نہیں
صوبائی حکومت کو بھی اس کی خبر ہے,مرکزی حکومت بھی دیکھ رہی ہے,سن رہی ہے,اورجان رہی ہے,مگر ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی ,میڈیا خاموش ہے,نیشنل میڈیا کی طرف سے اس واقعہ کو کوریج نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس کو اہمیت دیا جا رہا ہے,کیوں کہ یہ معاملہ خالص مسلمانوں سے جڑا ہوا ہے,ایک آدھ چینل اگر الگ کر دئے جائیں تو تمام میڈیا ہاؤس کو اس واقعہ سے کوئی مطلب نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے اسے کوئی اہمیت دینے کی کوشش کی
سیاسی لیڈران نے بھی چپی سادھ رکھنے کی قسم کھا رکھی ہے,چاہے وہ مسلم لیڈران ہوں یا اپنے آپ کو سیکولر کہلانے والے دیگر نیتا حضرات ۔
ہاتھرس اور لکھیم پور معاملے میں راتوں کو جاگ جاگ کر پہنچنے کی کوشش کرنے والے؛وہاں پہنچ کر ان کے حالات جاننے کی قسم کھانے والے سیاسی لیڈران (چاہے وہ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی ہوں,یا اکھلیش یادو اور شیو پال یادو ہوں؛یا کوئی اور ) مسلمانوں کے اس تشدد والے معاملے میں چپ چاپ تماشائی بنے ہوئے ہیں(ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ راہل گاندھی نے ایک ٹویٹ میں اس کی شدید لفظوں میں مذمت کی ہے,جو یقینا قابل ستائش ہے ,کیوں کہ ہزاروں کی تعداد میں پائے جانے والے لیڈران میں سے ایک نے تو کم سے کم اپنی زبان کھولی ہے؛مگر کیا یہ کافی ہے؟تری پوری کے مسلمانوں کے زخم پر مرہم رکھنے کی ایک کوشش تو ضرور کہی جا سکتی ہے ,مگر کافی نہیں کہا جا سکتا ہے),اکھلیش یادو کہاں ہیں جو اپنے آپ کو مسلمانوں کے خیر خواہ باور کراتے ہوئے نہیں تھکتے,سماج وادی پارٹی کے جناب ابو عاصم اعظمی صاحب کی زبان کیوں خاموش ہے؟سمجھ سے پرے ہے
مسلمان مسلمان چلانے والے حضرت اسد الدین اویسی بھی کان آنکھ بند کرکے نہ جانے کس بل میں جا گھسے ہیں,کوئی نہیں جانتا ,تری پورہ کے بغل میں بسنے والے اور اہل حدیثوں کو دہشت گرد کہنے والے حضرت مولانا بدر الدین اجمل قاسمی نے بھی اپنی زبان پر تالے جڑ لئے ہیں,اور آج تک ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکے
دوسری طرف ہماری مسلم تنظمیں ہیں جنہوں نے یکسر خاموشی اختیار کر رکھی ہے,ایک آدھ نے مذمتی بیان جاری کر اپنا حق ادا کردیا اور بس ۔
تری پورہ مسلسل جل رہا ہے,خاک و خون میں تڑپ رہا ہے,وہاں کے مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہیں,اپنے مکانات کو چھوڑ چھاڑ کر کہیں دوسری جگہ پناہ لینے پر مجبور ہیں؛مگر جائیں تو کہاں جائیں؟اور کس طرف جائیں,سمجھ سے بالا تر ہے,ان کے سامنے گھپ اندھیرا ہے,مکمل تاریکی ہے؛اور ہماری طرف سے مکمل سرد مہری,سکوت اور خاموشی (افسوس صد افسوس)
سمجھ میں نہیں آتا کہ میڈیا ہاؤس کیوں خاموش ہے؟ہماری مرکزی حکومت کیوں مہر بلب ہے؟
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مرکزی حکومت اس معاملے میں مداخلت کرتی,تشدد کرنے والے,مسجدوں کو جلانے والے,قرآن ِ کریم کے اوراق پھاڑنے والے,نبی ٔ کریمﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنے والے,آپﷺ کو بھدی بھدی گالیاں دینے والے کے خلاف کاروائیاں کی جاتیں؛ایف آئی آر درج ہوتیں,انہیں جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلا جاتا اور ان کو کیفر ِ کردار تک پہنچایا جاتا ,تاکہ انہیں اور ان جیسے نفرت کی آگ لگانے والوں کو سبق ملتا ,مگر افسوس صد افسوس تا ہنوز ایسا کچھ نہیں ہوا ہے,اگر کچھ کاروائیاں بھی ہوئی ہیں تو وہ نامعلوم افراد کے خلاف۔ فالی اللہ المشتکی
ایسی صورت حال میں ضروری ہے کہ میڈیا اپنا کردار ادا کرے؛مرکزی حکومت سے میں پر خلوص گزارش کروں گا کہ تری پوری معاملہ میں مداخلت کرے اور وہاں ہورہے مسلمانوں پر مظالم فوری طور پر بند کروائے,اور اپنا مرکزی رول نبھائے,سیاسی لیڈران وہاں پہنچ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں,وہاں جانے پر کوئی روک تھام ہوگی اور نہ کوئی ممانعت اور پولیس مزاحمت,یہ مانا کہ آپ کچھ نہیں کرسکتے,مگر وہاں پہنچ سکتے ہیں,یہ بھی مانا کہ آپ کی وہاں حکومت نہیں ہے ,مگر وہاں پہنچ کر مسلمانوں کے آنسو پونچھ سکتے ہیں,ان کے زخم پر مرہم رکھ سکتے ہیں؛ان کے غم کو ہلکا کر سکتے ہیں؛دوسری طرف جملہ اسلامیان ِ عالم کچھ نہیں کر سکتے تو کم سے کم حرکت میں آسکتے ہیں,اپنے رب کی بارگاہ ان کی مدد کے لئے فریاد کر سکتے ہیں, شکایتیں درج کر سکتے ہیں,گلے شکوے کر سکتے ہیں؛وہاں کےمظلومین کے لئے دعائیں تو ضرور کر سکتے ہیں,دست ِ مدد دراز کر سکتے ہیں,قنوت ِ نازلہ کا اہتمام بھی ہوسکتا ہے,اپنے رب رحیم کے حضور گڑگڑایا جا سکتا ہے,ظالموں کی تباہی کی دعا ئیں مانگی جا سکتی ہیں,چند بوند آنسو اپنے رب کے حضور ٹپکائے جا سکتے ہیں اور آغا کاشمیری کی زبان میں ؎
اے دعا ہاں عرض کر عرش الٰہی تھام کے٭اے خدا، اب پھیر دے رخ گردش ایام کے
صلح تھی جن سے اب وہ برسر پیکار ہیں٭وقت اور تقدیر دونوں درپئے آزار ہیں
ڈھونڈتے ہیں اب مداوا سوزش غم کے لئے٭کر رہے ہیں زخم دل، فریاد مرہم کے لئے
رحم کر نہ اپنے آئین کرم کو بھول جا٭ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا
خلق کے راندے ہوئے، دنیا کے ٹھکرائے ہوئے٭آئے ہیں اب تیرے در پہ ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں،بد کار ہیں،ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں٭کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں
حق پرستوں کی اگر کی تو نے دلجوئی نہیں٭طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں
اس لئے میں تمام اسلامیان ِ ہند سے بالخصوص اور اسلامیان ِ عالم سے بالعموم گزارش کروں گا کہ تری پورہ کے مسلمانوں کے لئے خصوصی دعائیں کریں,اللہ کے حضور گڑاگڑائیں,روئیں,ان کی مدد کے لئے مناجات فرمائیں؛ان کی مدد کے لئے آگے آئیں,یقین رکھیں کہ آپ کی دعائیں رائیگاں بالکل نہیں جائیں گی,آپ کی مناجات رنگ لائے گی اور ضرور لائے گی,رب ِ کریم اپنے بندوں کی سنے گا اور ضرور سنے گا,ان کی پکار ان سنی نہیں ہوگی؛صدق دلی سے پکار کر تو دیکھیں ,نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا(ثلاثٌ لا تُرَدُّ دعوتُهُم الصَّائمُ حتَّى يُفطرَ والإمامُ العادلُ ودعْوةُ المظلومِ تُحمَلُ علَى الغَمامِ و تُفتَحُ لها أبوابُ السَّماءِ و يقولُ اللهُ تباركَ وتعالى وعزَّتي وجلالي لأنصرَنَّكَ ولَو بعدَ حينٍ)(ترمذی حدیث نمبر:۳۵۹۸,ابن ماجہ حدیث نمبر:۱۷۵۲,مسند أحمد حدیث نمبر:۸۰۳۰,من حدیث ابی ہریرہ۔رضی اللہ عنہ۔و سندہ حسن)(ترجمہ:تین دعائیں کبھی رد نہیں ہوتیں,روزہ دار کی دعا یہاں کہ روزہ افطار کرلے,انصاف پسند حاکم کی دعا,اور مظلوم کی دعا بادلوں سے اوپر اٹھا لی جاتی ہے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے:میری عزت و جلال کی قسم ! میں تمہاری مدد ضرور کروں گا گوکہ کچھ دیر بعد ہی سہی) اور اسی کو آغا حشر کشمیری نے کہا تھا ؎
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے ٭٭بادلو !ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
نیز نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا: «اتَّقُوا دَعَوَاتِ المظلومِ؛ فإنَّها تصعد إلى السماء كأنَّها شَرارٌ» (مستدرک حاکم حدیث نمبر:۸۱,مسند دیلمی حدیث نمبر:۳۰۷,صحیح الترغیب حدیث نمبر:۲۲۲۸,صحیح الجامع:۱۱۸ عن عبد اللہ بن عمر ۔رضی اللہ عنہما۔))ترجمہ:( مظلوم کی بد دعا سے بچو، یہ آگ کی چنگاریوں کی مانند آسمان کی طرف اٹھتی ہے)
اس لئے اگر تری پورہ کے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کرسکتے تو دعائیں ضرور کریں,ائمہ حضرات قنوت ِ نازلہ کا اہتمام کریں اور خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں
رہے نام اللہ کا