تعلیم ِ نسواں : ایک مطالعہ

 از قلم:ــــ عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

(مدیر مجلہ)
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین ۔أما بعد

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
اسلام تعلیم پر انتہائی شد و مد کے ساتھ زور دیتا ہے,ابھارتا ہے,ترغیب دیتا ہے,اور اس کے حصول کی تاکید فرماتا ہے,مسلمان ہی وہ قوم ہے,جس کی ابتدا اقرأ سے ہوتی ہے,اللہ کا ارشاد ہے (اقرأ باسم رَبِّكَ الذي خَلَقَ . خَلَقَ الإنسان مِنْ عَلَقٍ),؎
مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے
حضرات گرامیان ِ قدر :اسلام کبھی بھی عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے سے منع نہیں کرتا ہے بلکہ وہ تو روز اول ہی سے تعلیم کا علم اٹھائے ہوئے اس کا پھریرے بلند کئے ہوئےہے ،اس کا نعرہ ہی اقراء ہے،اس کا مژدہ ہی(( یرفع اللہ الذین آمنوامنکم والذین أوتو العلم درجات)) ہے,اس کی شروعات ہی (پڑھو)سے ہوئی ہے,(اقرأ باسم رَبِّكَ الذي خَلَقَ . خَلَقَ الإنسان مِنْ عَلَقٍ)
اسلام میں تعلیمِ نسواں کا مقصد ایسی تعلیم ہے جو نسوانی زندگی اور نسوانی مقاصدِ حیات سے ہم آہنگ ہو اور جو عورت کو ایک باکردار وہمدرد ماں، صالح و نیک بیٹی، وفاشعار بہن اور فرمابردار بیوی بنائے۔قرآن کریم نے اسی کو کچھ اسطرح بیان کیا ہے:فالصٰلحٰت قٰنتٰت حٰفظٰت للغيب بما حفظ الله (سورة النساء) ’’جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں، مردوں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔
ایک حدیث میں رسول ﷺ نے فرمایا(كلُّكم راعٍ وكلُّكم مسؤولٌ عن رعيتِهِ فالأميرُ الذي على الناسِ راعٍ عليهم وهو مسؤولٌ عنهم والرجلُ راعٍ على أهلِ بيتِهِ وهو مسؤولٌ عنهم والمرأةُ راعيةٌ على بيتِ بعلها وولدِهِ وهي مسؤولةٌ عنهم وعبدُ الرجلِ راعٍ على بيتِ سيدِهِ وهو مسؤولٌ عنهُ ألا فكلُّكم راعٍ وكلُّكم مسؤولٌ عن رعيتِهِ)(بخاری:۲۵۵۴,مسلم:۱۸۲۹) ’’ سنو تم میں سے ہر شخص نگراں ہے۔ اس سے( روز قیامت ) اپنی اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ایک مرد اپنے گھر والوں کا نگراں ہے۔ اس سے اسکی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگراں ہے، اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے ،وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔ سنو! تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا ’’
اسی مقصد کی بنیاد پر اسلام نے عورتوں کو تعلیم و تربیت میں مردوں کے برابر قرار دیا اور ان کے لیے تعلیم لازمی قرار دے کہ وہ بھی شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں،البتہ پردہ اور مرد و زن کے اختلاط کے قوانین بھی ان کو بتا دئے کہ معاشرے میں بگاڑ اور بے راہ روی پیدا نہ ہو ۔اسی وجہ سے آپ نے خواتین کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرمائی۔
چنانچہ آپ ﷺ نے ہفتے میں ایک دن صرف خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے مخصوص کیا تھا۔اس دن خواتین آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں، اور آپ سے مختلف قسم کے سوالات اور روزمرہ مسائل کا حل پوچھتیں,بلکہ انہوں نے تو نبی ٔ کریمﷺ نے مطالبہ کیا جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ۔رضی اللہ عنہ کا بیان ہے,فرماتے ہیں (جاءَتِ امْرَأَةٌ إلى رَسولِ اللَّهِ ﷺ فَقالَتْ : يا رَسولَ اللَّهِ، ذَهَبَ الرِّجالُ بحَديثِكَ ، فاجْعَلْ لَنا مِن نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فيه تُعَلِّمُنا ممّا عَلَّمَكَ اللَّهُ ، فَقالَ : اجْتَمِعْنَ في يَومِ كَذا وكَذا في مَكانِ كَذا وكَذا ، فاجْتَمَعْنَ ، فأتاهُنَّ رَسولُ اللَّهِ ﷺ، فَعَلَّمَهُنَّ ممّا عَلَّمَهُ اللَّهُ ، ثُمَّ قالَ : ما مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ بيْنَ يَدَيْها مِن ولَدِها ثَلاثَةً ، إلّا كانَ لَها حِجابًا مِنَ النّارِ، فَقالتِ امْرَأَةٌ منهنَّ : يا رَسولَ اللَّهِ ، أوِ اثْنَيْنِ ؟ قالَ : فأعادَتْها مَرَّتَيْنِ ، ثُمَّ قالَ : واثْنَيْنِ واثْنَيْنِ واثْنَيْنِ)(بخاری رقم:۷۳۱۰)(ترجمہ:)اس کے علاوہ آپ نے امہات المومنین کو بھی حکم دے رکھا تھا کہ وہ خواتین کو دینی مسائل سے آگاہ کیا کریں,امام بخاری نے ایک باب قائم فرمایا ہے (باب هل يجعل للنساء يوم على حدة في العلم)حافظ ابن حجر۔رحمہ اللہ۔ اس باب کے تحت رقم طراز ہیں(و وقع في رواية سهل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة بنحو هذه القصة فقال : ( موعدكن بيت فلانة فأتاهن فحدثهن )فتح الباري ۱؍۱۹۵)
ابتدائی دور اسلام میں پانچ خواتین ایسی تھیں,لکھنا پڑھنا جانتی تھیں جیسا کہ علامہ بلاذری نے انساب الأشراف میں ذکر فرمایا ہے,: ام کلثوم رضي الله عنها.عائشہ بنت سعد رضي الله عنها،مریم بنت مقداد رضي الله عنها، شفاء بنت عبداللہ رضي الله عنها،اور ام المومنین حضرت عائشہ رضي الله عنها،حضرت شفاء رضي الله عنها،حضرت حفصه رضي الله عنهاکو کتابت سکھاتی تھیں تو آپ نے فرمایا کہ انہیں خوش خطی بھی سکھاؤ۔ نبی کریم ﷺ کی ان توجیہات کا نتیجہ تھا کہ تمام اسلامی علوم و فنون مثلا ًتفسیر حدیث فقہ و فتاویٰ، خطابت ،شاعری اور طب و جراحت میں بے شمار صحابیات نے کمال حاصل کیا (بلاذری :انساب الاشراف),پھر یہ دائرہ بڑھتا چلا گیا اور خواتین کی جم غفیر خواندہ ہی نہیں بلکہ معلمات,فقیہات, مفسرات,محدثات,مربیات وغیرہ بن کر پورے عالم کو روشن کرنے لگیں۔
ذرا غور فرمائیں ,اماں عائشہ ۔رضی اللہ عنہا۔تو ان مکثرات صحابیات میں شمار ہوتی ہیں,جن سے صحابہ ٔ کرام دینی مسائل سیکھنے کے لئے رجوع فرماتے تھے,اورمسائل سیکھتے تھے,(الإصابہ فی تمیز الصحابۃ:۴؍۳۶۰)حتی کہ آں رضی اللہ عنہا کو اس دور کے سب سے بڑی فقیہ کے طور پر مانا اور تسلیم کیا جاتا تھا,امام ابن القیم نے اس دور کے مفتیان میں آپ کا شمار فرمایا ہے(دیکھئے:أعلام الموقعین عن رب العالمین :۱؍۱۲)جناب ہشام بن عروہ فرماتے ہیں (ما رأيت أحدا من الناس أعلم بالقرآن ولا بفريضة ولا بحلال ولا حرام ولا شعر ولا بحديث العرب ولا النسب من عائشة)(تذکرۃ الحفاظ ذہبی :۱؍۲۸,صفۃ الصفوۃ ابن الجوزی:۲؍۳۲)
جناب عطا بن رباح فرماتے ہیں(كانت عائشة أفقه الناس، وأعلم الناس، وأحسنَ الناس رأيًا في العامة)(مستدرک حاکم۴؍۱۵,مؤطا امام مالک:۱؍۹۲,تاریخ الإسلام ذہبی:۴؍۳۴۷,)
امام ذہبی نے حضرت عائشہ ۔رضی اللہ عنہا۔کے بارے میں کس قدر جچی تلی بات بیان فرمائی ہے,اور کتنی عظیم بات بیان کی ہے,فرماتے ہیں(“أفقه نساء الأمة على الإطلاق”)(سیر أعلام النبلاء:۲؍۱۳۵)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:( “ومات النبيُّ صلى الله عليه وسلم ولها نحوُ ثمانيةَ عشَر عامًا، وقد حفِظَت عنه شيئًا كثيرًا، وعاشت بعده قريبًا من خمسين سنة، فأكثرَ الناسُ الأخذَ عنها، ونقَلوا عنها من الأحكام والآداب شيئًا كثيرًا حتى قيل: إنَّ ربع الأحكام الشرعيَّة منقولةٌ عنها رضي الله عنها“)(فتح الباری:۷؍۱۰۷)
امام سیوطی نے ابو حزم سے نقل فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ فتاوے جن چھ صحابہ ٔ کرام (عمرو,علی,ابن مسعود,ابن عمر,ابن عباس,زید بن ثابت اور عائشہ ۔رضی اللہ عن الجمیع)سے منقول ہیں ان میں ایک اماں عائشہ بھی ہیں(دیکھئے:تدریب الراوی ص؍۲۳),آں رضی اللہ عنہا سے (۲۲۱۰)احادیث مروی ہیں,جبکہ ام سلمہ سے(۳۷۸)احادیث,حضرت حفصہ سے(۶۰)احادیث,ام حبیبہ سے(۶۵)احادیث,میمونہ بنت الحارث سے(۷۶)حدیثیں,زینب بنت جحش سے(۱۱)جویریہ بنت حارث سے(۷)حدیثیں,صفیہ بنت حیی سے(۱۰)حدیثیں,اور حضرت فاطمہ بنت محمدﷺسے (۱۸)حدیثیں مروی ہیں(اللہ تمام سے راضی ہو)(دیکھئے:ذہبی کی ۔۔۔۔,ابن سعد کی طبقات ۔۔۔۔)
جن صحابیات سے بہ کثرت احادیث مروی ہیں,ان میں اسماء بنت ابو بکر(زیر بن عوام کی زوجہ,اور عبد اللہ بن زبیر کی والدہ ماجدہ,ام عمارہ(نسیبہ بنت کعب) ,ام حصین الأحمسیہ,سراء بنت نبہان الغنویہ, جیسی خواتین صحابیات کانام لیا جا سکتا ہے(دیکھئے:طبقات ابن سعد۸؍۱۹۶,۳۰۳,۲۳۶)
حضرت خنساء(تماضر بنت عمرو الشرید السلمیہ)نہ صرف ایک بیباک شاعرہ تھیں بلکہ ایک منجھی ہوئی اور شعلہ شرر خطیب بھی تھیں,آں رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی شاعر پیدا ہوا اور نہ ہی دیکھا گیا (دیکھئے:الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب۴؍۳۸۶)
حضرات گرامی:۔ جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ زمانۂ نبوت میں حضرات صحابیات مختلف علوم وفنون میں مہارت رکھتی تھیں اورآپﷺ نے ان کی تعلیم کے لئے ہفتہ میں ایک دن مقرر فرمایا تھا ،وہ حصول تعلیم میں کبھی بھی مردوں سے پیچھے نہیں رہیں اور نہ رکھی گئیں,آپﷺنے صاف فرما دیا(إنما النِّساءُ شقائقُ الرِّجالِ)(السلسلۃ الصحیحۃ:۵ ۲۱۹,ابو داؤد رقم:۲۳۶) بلکہ تعلیم میں ایسی دسترس حاصل کی کہ تاریخ ان پر نازاں ہے،وہ فقیہہ بھی تھیں,داعیات بھی تھیں,مفسرات بھی تھیں,ان میں سے کچھ محدِّثات بھی ہوئی اور بعض تاریخ نگار بھی بن کر نکلیں,فاطمہ زہراء(رضی اللہ عنہا) سے لے کر جملہ امہات المؤمنین(رضی اللہ عنہن) کو دیکھ جائیے,ساری کی ساری آپ کو عالمات,معلمات,اور داعیات نظر آئیں گی,جماعتِ صحابیات رضی اللہ عنہن میں بلند پایہ اہل علم خواتین کے ذکرِجمیل سے آج تاریخ اسلام کا ورق ورق درخشاں وتاباں ہے؛ چنانچہ یہ امر محقق ہے کہ امہات المومنین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فقہ وحدیث و تفسیر میں رتبہٴ بلند رکھنے کے ساتھ ساتھ تحقیق ودرایت کے میدان کی بھی شہہ سوار تھیں، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہا جو آپ ﷺکی پروردہ تھیں، ان کے بارے میں تاریخ کا بیان ہے کہ: ”کَانَتْ أَفْقَہَ نَسَاءِ أھْلِ زَمَانِھَا“(الاستیعاب: ۲؍۷۵۶)
حضرت ام الدردادء الکبری (خیرہ بنت حدرد الأسلمی)رضی اللہ عنہا اعلیٰ درجے کی فقیہہ اور عالمہ صحابیہ تھیں۔(تہذیب التہذیب ۱۱؍۴۰۹,نیز دیکھئے:الإصابہ:۴؍۲۹۵,أسد الغابہ:۶؍۱۰۰,الإستیعاب :۴؍۲۹۷)
حضرت سمرہ بنت نہیک اسدیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں لکھا ہے کہ: ”وہ زبردست عالمہ تھیں، عمر دراز پائیں، بازاروں میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرتی تھیں اور لوگوں کو ان کی بے راہ روی پر کوڑوں سے مارتی تھیں۔“(الاستیعاب ابن عبدالبر: ۴؍۴۱۹,)جناب یحیی بن ابو سلیم فرماتے ہیں(رأيت سمراء بنت نَهيك -وكانت قد أدركت النبى صلى الله عليه وسلم- عليها درع غليظ، وخمار غليظ، بيدها سوط؛ تؤدّب الناس، وتأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر)(المعجم الکبیر ۲۴؍۳۱۱,رقم:۷۸۵,اس کی سند جیدہے)علامہ البانی اس تعلق سے فرماتے ہیں:( هذه وقائع صحيحة تدل دلالة قاطعة على ما كان عليه نساء السلف من الكمال والسماحة والتربية الصحيحة حتى استطعن أن يقمن بما يجب عليهن من التعاون على الخير)(الرد المفحم ۲۱۲),یہی وجہ ہے کہ آپ جب تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں گے تو آپ کو ملے گا کہ صحابیات نے بھی بہ کثرت روایات کی ہیں(ان سے حدیثیں مروی ہیں),چنانچہ اسماء بنت ابو بکر صدیق سے ۵۸,اسماء بنت عمیس سے (۶۰)حدیثیں,ام عطیہ سے (۴۰)حدیثیں,فاختہ بنت ابو طالب(ام ہانی)سے (۴۶)حدیثیں,فاطمہ بنت قیس سے(۳۴)حدیثیں,ام الفضل(لبابہ)کبری سے (۳۰)حدیثیں,اور شفاء بنت عبد اللہ قرشی سے(۱۲)حدیثیں مروی ہیں(رضی اللہ عن الجمیع)
حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں(لا أعلم في النساء من اتهمت ولا تركت)(لسان المیزان ابن حجر:۱ ۹),اسی طرح امام ذہبی نے بھی فرمایا ہے(ما علمت من النساء من اتهمت ولا تركوها)(میزان الاعتدال ۴؍۶۰۴)
کتب ستہ میں خواتین کی روایات کی تعداد تقریبا (۲۷۶۴)ہے,جن میں سے (۲۵۳۹)روایات صحابیات سے منقول ہیں,جبکہ اماں عائشہ ۔رضی اللہ عنہا۔سے(۲۰۸۱)روایات منقول ہیں,اور (۲۲۵)روایات دیگر عام غیرصحابیات سے منقول ہیں۔
مجموعی طور پر اگر دیکھیں تو (۱۱۵)خواتین صحابیات سے دواوین سنت میں مروی ہیں,صحیح بخاری میں (۳۱)صحابیات سے, صحیح مسلم میں(۳۶)صحابیات سے,ابو داؤد میں (۷۵)صحابیات سے,ترمذی میں(۴۶)صحابیات سے,نسائی میں(۶۵)اور ابن ماجہ میں(۶۰)صحابیات سے احادیث مروی ہیں(رضوان اللہ علی الجمیع)
عہد نبوی کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دی گئی۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کردیا تھا:علّموا نساؤكم سورة النور( شعب الإیمان ازبیہقی نمبر:۲۴۲۸,سلسلہ ضعیفہ رقم:۳۸۷۹,سندا یہ ضعیف ہے,مگر بطور استیناس ذکر کیا جا سکتا ہے,کیوں کہ حقیقت میں اس سورت بیشمار مسائل اور احکام موجود ہیں) ترجمہ:’’اپنی خواتین کو سورۃ النور سکھاؤ کہ اس میں خانگی ومعاشرتی زندگی کے متعلق بے شمار مسائل اور احکام موجود ہیں‘‘۔
آٹھویں صدی میں رابعہ عدویہ,فاطمہ بطیحیہ,سمیہ بنت خیاط ,عمرۃ بنت عبد الرحمن ۔رضی اللہ عنہا۔اور فاطمہ بنت منذر ایسی خواتین تھیں,جنہوں نے اسلام اور اہل اسلام کی خوب خوب خدمت کی,
پھر یہ زریں سلسلہ دورِ صحابیات و تابعیات تک ہی محدود نہیں رہا؛ بلکہ تابعیات اور بعد کی خواتین کے زمانوں میں بھی ہمیں اس طبقے میں بڑی بڑی عالمہ، زاہدہ اور امت کی محسنہ وباکمال خواتین ملتی ہیں؛ چنانچہ مشہور تابعی، حدیث اور فن تعبیر الرؤیا کے مستند امام حضرت محمد بن سیرین۔رحمہ اللہ۔ کی بہن حفصہ رحمہا اللہ نے صرف بارہ سال کی عمر میں قرآنِ کریم کو معنی ومفہوم کے ساتھ حفظ کرلیا تھا,انتہائی شب ِ زندہ دار,تہجد گزار,عبادت شعار,اور عفت و حشمت وقار خاتون تھیں,وقت کے بڑے بڑے نوجوان آں رحمہا اللہ کے پاس آکر فتوی پوچھا کرتے تھے؛( تہذیب التہذیب:۱۱؍ ۴۰۹,صفۃ الصفوۃ ابن الجوزی:۲ ۲۴۲,سیر أعلام النبلاء:۴؍۵۰۷,) یہ فن تجوید وقراء ت میں مقامِ امامت کو پہنچی ہوئی تھیں؛ چنانچہ حضرت ابن سیرین۔رحمہ اللہ۔ کو جب تجوید کے کسی مسئلے میں شبہ ہوتا، تو شاگردوں کو اپنی بہن سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے۔(صفة الصفوہ ابن الجوزی: ۴؍۱۶)
نفیسہ۔رحمہا اللہ۔ جو حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب کی صاحبزادی اور حضرت اسحاق بن جعفر۔رحمہ اللہ۔کی اہلیہ تھیں، انھیں تفسیر وحدیث کے علاوہ دیگر علوم میں بھی درک حاصل تھا، ان کے علم سے خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بھی معتد بہ تعداد نے سیرابی حاصل کی، ان کا لقب ”نفیسة العلم والمعرفہ“ پڑگیا تھا، حضرت امام شافعی جیسے رفیع القدر اہل علم دینی مسائل پر ان سے تبادلہٴ خیال کرتے تھے۔(,سیر أعلام النبلاء:۱۰؍۱۰۶,نیز دیکھئے:تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، طالب الہاشمی ص:۱۲۲-۱۲۳۔)
حافظ ابن حجر نے اپنی مایہ ٔ ناز کتاب الإصابہ فی تمیز الصحابہ میں (۱۵۴۳) خواتین اور اپنی دوسری مایہ ٔ ناز کتاب تقریب التہذیب میں (۸۲۴)ایسی خواتین کا تذکرہ فرمایا ہے جو فقہ و حدیث اور ادب میں اونچا مقام رکھتی تھیں,اسی طرح امام نووی نے تہذیب الأسماء و اللغات میں,خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں,امام سخاوی نے الضوء اللامع لأہل القرن التاسع میں اور عمر رضا کحالہ نے معجم أعلام النساء میں (۱۰۷۰) خواتین نے تذکرہ فرمایا ہےجونہ صرف محدثات تھیں بلکہ مفسرات تھیں,فقیہات تھیں,بلکہ ادیبات و شاعرات بھی تھیں
اسی طرح حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب (المعجم المؤسس للمعجم المفہرس )میں بہت ساری ایسی خواتین کا تذکرہ فرمایا ہے,جن سے آپ نے کسب ِ فیض فرمایا تھا,اسی طرح امام ذہبی نے اپنی بے مثال کتاب معجم شیوخ الذہبی میں بیشمار خواتین کا نام درج فرمایا ہے,ان میں سے بعض کے بارے میں تو آں امام فرماتے ہیں(توفیت شیختنا),اسی طرح شیخ الإسلام ابن تیمیہ ۔رحمہ اللہ۔نے بھی کئی خواتین عالمات سے اخذ و استفادہ فرمایا تھا۔
علامہ حافظ سیوطی نے تو کئی عالمات و فاضلات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے,جن میں ام ہانی بنت الحسین الہورینی,شامل ہیں,اسی طرح ہاج بنت محمد,ام الفضل المقدسیہ,نشوان بنت عبد اللہ,کمالیہ بنت ابی بکر,امۃ الخالق بنت العقبی,فاطمہ بنت علی الفسطاطیہ,امۃ العزیز بنت محمد,اور خدیجہ بن حسن بن الملقن جیسی محدثات شامل ہیں(دیکھئے:مطالع النور السنی از عبد اللہ عبدی الرومی ص ۱۱۲)
مسلم بن ابراہیم فراہیدی نے (جو بہت بڑے محدث گزرے ہیں)اپنے زمانے کی (۷۰)محدثات سے حدیثیں روایت کی ہیں(دیکھئے:سیر أعلام النبلاء ۸؍۳۹۷,عمدۃ القاری ۱؍۲۵۹,)
نویں صدی میں فاطمہ بنت محمد الفہری القرشی نے ۲۴۵ ہجری میں جامع القرویین (مراکش ) کی بنیاد رکھ کر ایک شاندار تاریخ رقم فرمائی,اب یہ جامع مسجد, ایک شاندار اور پرشکوہ جامعہ بن چکی ہے,دسویں صدی میں (امۃ الوحید )نہ صرف فقیہہ تھیں بلکہ محدثہ بھی تھیں,اور مفسرہ بھی,فخر النساء اور ام عیسی بنت ابراہیم حربی بھی فقہ و فتاوی میں انتہائی اونچا مقام رکھتی تھیں۔
ٹھیک اسی طرح اگر آپ تاریخ کا بنظر ِ غائر مطالعہ کریں گے تو آپ کو کوئی بھی صدی خواتین عالمات و فاضلات سے تہی دامن نہیں ملے گی ,بلکہ ہر صدی میں ایسی روشن تاریخیں رقم کرتی ہوئی خواتین مل جائیں گی ,جن پر ہماری اسلامی تاریخ بجا طور پر فخر کر سکتی ہے,چنانچہ بارہویں اور تیرہویں صدی میں فاطمہ سمرقندی ,زینب بنت عمر الکندی,اور زینب بنت کمال نے دین اسلام کی خدمت کی,چودہویں صدی میں ست الوزراء تنوخیہ,ست القضاۃ نابلسیہ مسند حدیث پر فائز رہ کر حدیث اور علوم حدیث کی خدمات انجام دیتی رہیں,سترہویں صدی میں زیب النساء اور زینت النساء جیسی خواتین نے شعر و ادب ,اور قرآن و حدیث کی خدمت کی,اٹھارہویں میں فاطمہ الفضیلیۃ جو شیخہ فضیلیۃ کے نام سے مشہور تھیں,فقہ و حدیث کی خوب خوب خدمت انجام دیں,انیسویں صدی میں اسماء بنت عثمان بن فودی اور شاہ جہاں بیگم سے کون ناواقف ہے,بیسوی صدی میں عائشہ بنت عبد الرحمن عرف بنت الشاطی ایک مشہور خاتون گزری ہیں,مریم جمیلہ کو کون نہیں جانتا ,اور دور ِ حاضر میں محترمہ فرحت ہاشمی ,آصفہ قریشی,رفعت حسن,اور یاسمین مجاہد کی خدماتِ دین سے کون ناواقف ہوگا,
الغرض کوئی بھی ایسا دور نہیں گزرا جس میں خواتین تعلیم و تربیت میں پیچھے رہی ہوں,اور اسلام کی ترویج و اشاعت میں کوئی دقیقہ بھی فروگزاشت کیا ہو
افسوس کہ قرآن وسنت کی اتنی تاکید کے باوجود بھی آج ہم میں سے کچھ لوگ لڑکیوں کی تعلیم کی طرف سے غافل ہی نہیں یکسر غافل ہیں۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی بچیوں سے نوکری نہیں کرانی ہے یا اپنی بیویوں کی کمائی نہیں کھانی ہے ، لہٰذا ان کو تھوڑی بہت تعلیم دلانا کافی ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک عورت کو تعلیم دلانا پورے خاندان کو تعلیم دلانا ہے,پورا خاندان ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کو خواندہ بنانے کے مترادف ہے,کیونکہ ماں کی گود ہی بچے کی اولین درسگاہ ہوتی ہے۔ اگر وہ تعلیم یافتہ ہوگی تب ہی اپنے کی صحیح تربیت کر سکیں گی ,کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
الأم مدرسة إذا أعددتها * أعددت شعبا طيب الأعراق
من لي بتربية النساء فإنها * في الشرق علة ذلك الإخفاق!!
مگر دور ِ حاضر میں مخلوط تعلیمی نظام نے جس قدر نقصان پہنچایا ہے,انتہائی افسوس ناک بلکہ تشویش ناک صورت حال ہے,جو دراصل مغرب کی دین ہے جس نے نفع کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے ،مخلوط تعلیم درحقیقت یہ ایسا حسین اور پر فریب نعرہ ہے جس کے ذریعہ عورتوں کو مردوں سے قریب لا کھڑا کر دیا گیا ہے،اس کا اصل مقصد عورتوں کو بے حیائی کے راہ پر ڈالنا اور تعلیمی آزادی کے نام پر انہیں قریب کرتے ہوئے ان سے تلذذ حاصل کرنا اور مزہ لوٹناتھا ،بیسوی صدی کے عظیم مفکر شاعر اسلام علامہ اقبال مرحوم جو خود عصری تعلیم گاہ کے پر داختہ تھے اور مغربی نظام تعلیم کا انتہائی قریب سے جائزہ لیا تھا ،انہیں عور توں کے حوالے سے مغرب کے پر فریب نعروں پر ،جن کی صدائے بازگشت اس وقت مشرق میں بھی سنی جانے لگی تھی ،جس نے انہیں کافی بے چین ومضطرب کر دیا تھا ،ان کی نظر میں ان نعروں کا اصل مقصد یہ تھا کہ مشرقی خاتون کو بھی یورپی عورتوں کی طرح بے حیائی وعصمت باختگی پر مجبور کر دیا جائے اور مسلم قوم بھی مجموعی طور پر عریانیت کی بھینٹ چڑھ جائے ،چنانچہ مخلوط تعلیم کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے علامہ نے اپنے انتہائی نفرت اور اس سے بے زارگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے تھا کہ ؎
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ اُمومت ٭ہےحضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس عِلم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن٭کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دِیں سے اگر مَدرسۂ زن٭ہے عشق و محبّت کے لیے عِلم و ہُنر موت
مذکورہ حقائق سے یہ بات تو الم نشرح ہوجاتی ہے کہ اسلام جس طرح صنفِ لطیف کو دیگر حقوق بخشنے میں بالکل عادلانہ؛ بلکہ فیاضانہ مزاج رکھتا ہے، ویسے ہی اس کے تعلیمی حقوق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے؛ بلکہ عملی سطح پر انھیں عطا کرنے کا بھی حد سے زیادہ اہتمام کرتا ہے۔
لیکن جہاں تک بات ہے خواتین کے موجودہ نظامِ تعلیم کی جسے (co-education) سے یاد کیا جاتاہے، جو مغرب سے درآمد (Import) کردہ ہے اور جو دراصل مغرب کی فکر گستاخ کا عکاس، خاتونِ مشرق کو لیلائے مغرب کی طرح ہوس پیشہ نگاہوں کی لذت اندوزی کا سامان بنانے کی ہمہ گیر اور گھناؤنی سازش اور اس کی چادرِ عصمت وعفت کو تار تار کرنے کی شیطانی چال ہے، اس کی مذہب اسلام تو کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا، نیز عقل دانا بھی اس سے پناہ مانگتی ہوئی نظر آتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *