از قلم: مامون رشید بن ہارون رشید سلفی
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله الأمين.
أما بعد:
فقد قال جل شأنه: {وإن تعدوا نعمة الله لا تحصوها} [سورة النحل (18)]، وقال تعالى: {وأما بنعمة ربك فحدث} [سورة الضحى (11)].
عالی وقار صدرمجلس، لائق صد شکر واجب الاحترام اراکین، و منتظمین جمعیت، مشائخ کرام اور میرے نئے پرانے بھائیو!
یہ میرے لئے انتہائی مسرت اور شادمانی کی بات ہے کہ آج “جمعیت أبنائے جامعہ سلفیہ” کے اس پر رونق استقبالیہ پروگرام میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تشریف فرما نئے سلفی اخوان کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے “تاثراتی کلمات” پیش کرنے کا بار گراں مجھ جیسے نحیف و نزار کے دوش ناتواں پر ڈالا گیا؛ جسے میں نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے بطیب خاطر قبول کیا، اور اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے باوجود آپ سب کے سامنے انجمن آرائی کے لئے حاضر خدمت ہوا، کچھ کہنے سے قبل میں اللہ سے توفیق کا طلبگار ہوں، اور آپ حضرات سے بھی کسی قسم کی دانستہ یا نا دانستہ خطا پر عفو درگزر کا خواستگار ہوں۔
معزز حاضرین!
سب سے پہلے میں آپ کو یہ یاد دلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم جس گہوارہ علم و فن سے کسبِ فیض کر کے اس منزل بامراد تک پہنچے ہیں؛ وہ کوئی عام اور معمولی دانش کدہ نہیں ہے، بلکہ وہ سلفیت کا مرکز، اہل حدیثیت کا حصن حصین، حکمت و بصیرت کا سرچشمہ، علوم کتاب و سنت کا منبع وماوی، اور اسلاف کرام کے دیرینہ خوابوں کی سچی تعبیر ہے؛ جسے تقسیم ہند کے بعد دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے انہدام سے وجود پذیر تعلیمی خلا کو پُر کرنے کے لئے تاسیس کردہ سلفیان ہند کا اولین جامعہ ہونے کا شرف حاصل ہے، جہاں کے در و بام پر شیخ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری، شیخ شمس الحق سلفی، شیخ ربیع ہادی المدخلی اور شیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہم اللہ جیسے کبار علمائے امت کے لمس جاودانی اور نقش آفرینی کے نشانات کندہ ہیں، اور جہاں کے فارغین کی فہرست طویلہ میں مدرس حرم دکتور وصی اللہ عباس، محقق شہیر عزیر شمس، دکتور عبد الرحمان بن عبد الجبار الفریوائی ؛ فضیلۃ الشیخ صلاح الدین مقبول أحمد السلفی المدنی,دکتور عبد الباری فتح اللہ المدنی حفظہم اللہ، فقیہ حاذق ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی رحمہ اللہ، دکتور رضاء اللہ إدریس مبارکپوری، دکتور عبد العلیم بن عبد العظیم السلفی المدنی، اور دکتور صغير احمد السلفی المدنی ؛دکتور محفوظ الرحمن بن زین اللہ السلفی المدنی,اور فضیلۃ الشیخ علی حسین السلفی رحمہم اللہ وغیرہم جیسے عظیم نام شامل ہیں جن سے ایک کائنات مستفید ہوئی اور ہوتی آرہی ہے، چند دنوں قبل حافظ محمد الیاس سلفی-رحمه الله- کی وفات کی خبر ملی آپ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ آپ امام ابن باز۔رحمہ اللہ۔ کی مسجد کے امام تھے؛ جن کی اقتدا میں امام العصر ابن باز رحمہ اللّٰہ نماز پڑھا کرتے تھے، خوشی کی انتہا نہ رہی جب معلوم ہوا کہ آپ بھی جامعہ سلفیہ کے فارغین میں سے تھے۔۔۔!
یہی نہیں بلکہ ذرا نظر تحقیق دوڑا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ابھی ہندوستان میں اکثر اہل حدیث مدارس کی تعمیر وتاسیس اور تعلیمی نظام کو استوار کرنے میں کہیں نہ کہیں فارغین جامعہ سلفیہ کا دست وبازو ضرور شامل ہے۔۔۔!
اور اس میں سر فہرست شیخ عبد المتين سلفی رحمہ اللہ، شیخ محفوظ الرحمن سلفی رحمہ اللہ، دکتور عبد الباری فتح اللہ مدنی، دکتور عبد الرحمن فریوائی، شیخ ابو القاسم مدنی، شیخ محمد ابو القاسم فاروقی، ڈاکٹر اقبال بسکوہری، شیخ ارشد فہیم مدنی، اور شیخ عبد الحکیم عبد المعبود مدنی حفظہم اللہ وغیرہم ہیں.
لہذا ہم سلفی اخوان کو اس بات پر فخر ہونا چاہئے، اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ ہم جامعہ سلفیہ کے خوشہ چیں ہیں، ہمارا انتساب اس جامعہ سے ہے؛ جس کے تعلق سے تمام انصاف پسندوں کی متفقہ رائے ہے کہ ہند و بیرون ہند میں سلفیت، اہل حدیثیت اور منہج سلف کو عام کرنے میں جامعہ سلفیہ بنارس کا ایک کلیدی کردار رہا ہے، ولله الحمد والمنة.
اور حق یہ ہے کہ جامعہ سلفیہ کا علمی و فکری ماحول ہی اس قدر جاں فزا اور روح پرور ہے کہ وہاں کا بچہ بچہ سلفیت کا شیدائی بنے بنا رہ نہیں سکتا، جامعہ کی لائبریری، طریقہائے تعلیم وتعلم، اساتذہ سے اخذ و استفادہ کے مواقع، اور دیگر سہولیات حد درجہ منظم و مرتب ہیں.
فضا ابن فیضی نے کیا ہی خوب حقیقت بیانی کی ہے:
اسی کے خوشہ چیں ہیں ہم ہماراجامعہ ہے یہ
بلاغت ومعانی وبیاں کا گل کدہ ہے یہ
عرب کے طرزِفکرسے عجم کا رابطہ ہے یہ
اسی کے لمس جاوداں سے روحِ ارتقاء ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کےطیورِخوشنواہیں ہم
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ جامعہ کو مزید ترقیوں سے نوازے، اور فارغین کو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین.
معزز حاضرین!
یقینا تمام طالبان علوم نبوت کی شدید ترین دلی خواہش رہتی ہے کہ انہیں سعودی جامعات بالخصوص جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں خوشہ چینی، فیض یابی اور زلہ ربائی کا موقع ملے، یہاں کے کثیر الفوائد تعلیمی نظام اور مرجع الخلائق مشائخ عظام سے استفادہ کے مواقع فراہم ہوں، قدوسیوں کی سرزمین میں سانس لینے کی سعادت نصیب ہو، اور ما بین عیر وثور کے فیوض و برکات سے جیب وداماں بھرنے کی توفیق ملے، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے یہ مرتبہ بلند عطا فرماتا ہے۔۔۔ الحمد للّٰہ ہم ان خوش نصیبوں میں سے ہیں کہ جنھیں اللہ نے اس عظیم جامعہ میں طلب علم کے لئے منتخب فرمایا، اور اس شرف و منزلت کا مستحق قرار دیا ہے۔
جامعہ میں داخلہ کی خوشی کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس کو یہ نعمت حاصل ہوئی ہے اور یہ کس قدر سعادت اور خوش نصیبی ہے اس کا حال اس سے جانئے جسے لاکھ دعاؤں اور ہزار کوششوں کے باوجود یہ موقع نہ ملا ہو۔
لہذا یہ حقیقت ہے کہ ان احساسات و جذبات کو نہ تو کوئی قلم کماحقہٗ قید تحریر میں لاسکتا ہے، اور نہ ہی کوئی زبان الفاظ کے قالب میں ڈھال سکتی ہے، پھر بھی جب یہ خبر سماعتوں سے ٹکرائی کہ عنقریب ہم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہونے والے ہیں تو ہم مچل اٹھے، جسم کا ذرہ ذرہ فرحت و انبساط سے لبریز ہو گیا، آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے، دل شکر الہی سے شرسار ہو کر سجدہ ریز ہو گیا، قفس عنصری دربار کبریائی میں تعظیم بجا لانے کے سر بزانو ہو کر گر پڑا، سرمستی وبیخودی کا ایک عجب ہی عالم تھا، محویت فرح وسرور میں ایسا لگ رہا تھا مانو گرد و پیش کا ماحول ہی بدل گیا ہو، اور ساری کائنات جھوم جھوم کر ہمیں بداہیاں دے رہی ہو، اور کہہ رہی ہو کہ ایے مدینۃ الرسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مسافر تیرا سفر مبارک، تیرا مقصد مبارک، اور تیری منزل بھی مبارک، پس تو میری مبارکباد قبول کر، ابو امی بھائی بہن سب وارے نیارے جا رہے تھے اللہ اللہ خوشیوں کی تو جیسے برسات ہو چلی ہو۔۔۔!
ہم خوش کیوں نا ہوتے، اور کیوں نہ اسے باعث مسرت اور خوش قسمتی سمجھتے کہ ہم شہر رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں قیام کرنے والے تھے، مہبط وحی ہمارا آشیانہ بننے والا تھا، مہمان سرائے مصطفی کے ہم مہمان بننے جارہے تھے، پناہ گاہ ایمان میں ہم اپنا نشیمن تعمیر کرنے والے تھے، ہم اس وادی رحمت کی طرف رخت سفر باندھنے والے تھے؛ جس کے بارے میں بچہ بچہ یہ کہتا اور جھومتا نظر آتا ہے کہ:
دکھا دے یا الہی وہ مدینہ کیسی بستی ہے
جہاں رات دن مولا تیری رحمت برستی ہے
ہم اس مقدس سرزمین کی طرف جانے والے تھے؛ جہاں نہ دجال کا گزر ہو سکتا ہے اور نہ ہی طاعون کو داخلہ مل سکتا ہے جس کے بارے میں رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: “من استطاع أن يموت بالمدينه فليمت بها فإني أشفع لمن يموت بها” [جامع الترمذي (ح: 3917)، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے].
مزید فرمایا “المدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، لا يدعها أحد رغبة عنها إلا أبدل الله فيها من هو خير منه، ولا يثبت أحد على لأوائها وجهدها إلا كنت له شفيعاً او شهيداً يوم القيامة” [صحيح مسلم (ح:1363)].
ہم خوش کیوں نہ ہوتے کہ ہم اس جامعہ سے جڑنے جارہے تھے جس سے حافظ محمد گوندلوی، امام البانی، امام ابن باز، حماد انصاری رحمہم اللہ اور عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ جیسے کبار علمائے کرام منسلک تھے، اور جہاں کے فارغین میں امام وادعی، علامہ احسان الٰہی ظہیر عبد الحمید رحمانی رحمہم اللہ، اور شیخ سلیمان الرحیلی جیسے اکابرین ملت شامل ہیں۔
چنانچہ ہم ان احساسات و جذبات کو اپنے دامن میں سمیٹے مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے، ایک طرف احباب و اقارب سے فرقت کا غم نڈھال کر رہا تھا تو دوسری طرف شہر یار کے دیدار کا شوق بیتاب کر رہا تھا، ایک طرف طویل مدت کے لیے اپنوں سے جدائی کا خوف قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا تو دوسری طرف وصال بلد مصطفی کی خوشی روح کو بالیدگی عطا کر رہی تھی، کیف وسرور اور رنجوری وافتادی کا وہ عالم تھا کہ کہتا نہ بنے، منور رانا کے انداز میں کہیں تو ہماری کیفیت کچھ اس طرح تھی:
وہ بہنوں کی الفت اور محبت کے پھول
ہم اپنے آنگن میں بلکتی ماں چھوڑ آئے ہیں
باپ کی شفقت اور بھائی کا پیار
ہم اپنے پیچھے تڑپتا ایک کنبہ چھوڑ آئے ہیں
بھائی چھوڑ آئے ہیں بہنا چھوڑ آئے ہیں
ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں
بہرحال اسی طرح خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیات سے دوچار ہوتے ہوئے ہم مدینہ طیبہ پہنچ گئے۔۔۔
جامعہ پہنچنے کے بعد بہت سارے کرم فرماؤں نے گاہے گاہے مختلف مواقع پر ہمارا تعاون کیا؛ جن میں دکتور فاروق عبد اللہ نارائن پوری، دکتور ضیاء الحق تیمی، دکتور صفی الرحمٰن اور شیخ محمد یعقوب تیمی سر فہرست ہیں، اللہ ان تمام بزرگان کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔
میرے بھائیو!
جامعہ میں داخلہ ہمارے لئے رب ذوالجلال والاکرام کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش بہا تحفہ اور عظیم نعمت ہے، ہمارے بہت سارے بھائی ایسے بھی ہیں جو ہم سے کئی گنا قابل ہیں، زہد و تقویٰ میں ہم سے آگے ہیں لیکن کسی کو سرے سے موقع نہیں ملا، کسی کی ترشیح تو ہوئی پر داخلہ نہیں ہوا، اور کسی کا داخلہ بھی ہو گیا لیکن کسی اور وجہ سے وہ آ نہ سکے، اور ہزاروں ہیں جو ابھی بھی دل میں آرزوئیں لئے رب سے امید لگائے بیٹھے ہیں…؛ لہذا ہمیں اپنے مقاصد سے غافل نہیں ہونا ہے، اور نہ ہی لہو و لعب میں مشغول ہو کر وقت گزاری کر کے اللہ کی نعمت کی ناقدری کرنی ہے؛ کیونکہ نعمتوں کے تعلق سے اللہ کا اصول ہے : {لئن شكرتم لأزيدنكم ولئن كفرتم إن عذابي لشديد} [سورة إبراهيم (8)]، بعض سلف کا کہنا ہے کہ: “النعمة وحشية فقيدوها بالشكر“، اور حسن بصری رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: “إن الله ليمتع بالنعمه ما شاء فإن لم يشكر عليها قلبها عذابا“.
معزز حاضرین!
جامعہ میں ہمارے لئے بہت سارے مواقع ہیں، متخصص اساتذہ ہیں، معیاری انتظامات ہیں، روزانہ مسجد نبوی جاکر کے سلفی مشائخ سے استفادہ کرنے کے وسائل ہیں، عظیم الشان لائبریری ہے؛ جن سے ہم بے شمار فوائد سے بہر مند ہو سکتے ہیں۔
ہمیں خاص طور پر یاد رکھنا چاہیے کہ “جمعیت ابنائے جامعہ سلفیہ” ہماری اپنی جمعیت ہے، اس کے اراکین ہمارے اپنے بھائی ہیں، ہم ایک ماں کی مختلف اولادیں ہیں، ہم ایک ہی مصور کی دست کاری کے متعدد تراشے ہیں، ہمارا منہج مسلک اور سوچ وفکر سب ایک ہے، جمعیت کے اراکین میں بہت ساری قابل اور ماہر شخصیت ہیں؛ لہٰذا ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے بڑوں سے حتی الامکان جڑے رہیں اور علمی طور پر ان سے استفادہ کرتے رہیں۔
آخر میں بڑے ہی خلوص کے ساتھ میں تمام نئے طلاب کی نیابت کرتے ہوئے جمعیت کے سرپرست اعلی دکتور عبد المعید سلفی حفظہ اللہ، صدر جمعیت دکتور ارشد سلفی حفظہ اللہ، ناظم جمعیت عبید اللہ الباقی اسلم، نائب ناظم شیخ عبد اللہ ثاقب سلفی صاحبان سمیت تمام اراکین و منتظمین جمعیت کی خدمت میں گلدستہائے تشکر و امتنان پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کیلئے اس قدر شاندار پروگرام منعقد کیا، اور انتہائی ادب کے ساتھ گزارش کرتا ہوں کہ جمعیت کو مزید متحرک مستحکم اور فعال بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں؛ جس سے ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے ان بھائیوں کے تعاون کی راہ بھی ہموار ہو جو ہم سے کسی نہ کسی طور پر امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ تمام کی کاوشوں کو قبول فرمائے، اور ہمیں کہنے سننے سے زیادہ اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔