✍️ : عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
الْحَمْدُ لِلَّهِ الْعَلِيمِ الْحَكِيمِ؛ شَرَعَ الشَّرَائِعَ لِمَصَالِحِ الْعِبَادِ، وَفَصَّلَ لَهُمُ الْحَلَالَ وَالْحَرَامَ، وَنَهَاهُمْ عَنِ الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ، نَحْمَدُهُ عَلَى مَا هَدَانَا وَاجْتَبَانَا، وَنَشْكُرُهُ عَلَى مَا أَعْطَانَا وَأَوْلَانَا، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ؛ خَلَقَ الْخَلْقَ وَدَبَّرَهُمْ، وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَصْلُحُ لَهُمْ وَيُصْلِحُهُمْ؛ ﴿ أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴾،وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ؛ لَا خَيْرَ إِلَّا دَلَّ الْأُمَّةَ عَلَيْهِ، وَلَا شَرَّ إِلَّا حَذَّرَهَا مِنْهُ، تَرَكَهَا عَلَى بَيْضَاءِ لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا، لَا يَزِيغُ عَنْهَا إِلَّا هَالِكٌ، فصَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ وَبَارَكَ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَأَتْبَاعِهُ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ,,,
آتجھ کو بتاؤں میں تقدیر ِ امم کیا ہے ٭شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
صوبہ ٔجھارکھنڈ کے سنتھال پرگنہ کے مرکزی مقام پر ایک عظیم فیصلہ کیا گیا تھا,یہ فیصلہ خطہ کے علمائے ذی شان,سرکردہ شخصیات عالی مقام ,اور مقتدر ہستیان ِ کرام نے باہمی مشاورت,آپسی مفاہمت,خدمت ِ اسلام کے جذبہ ٔ فراواں سے سرشار ہوکر,سلفیت و اہل حدیثیت کے فروغ,ترویج و اشاعت اور اس کے نشر و توسیع کے لئے کیاتھا ۔
کیوں کہ خطہ میں ضروری تھا ایک ایسے ادارے کی جو دعوت و تبلیغ,تعلیم و تدریس,تربیت و تزکیہ اور تطہیر و صفائی کا فریضہ انجام دے,گاؤں گاؤں وعظ و نصیحت ,پند و موعظت کے گیت گائے جائیں,توحید و سنت کی ترانے سنائے جائیں,شرک و بدعات کی بیخ کنی کی جائے,بندوں کو اللہ کے قریب کرنے کے لئے سعی ٔ پیہم کی جائے,اللہ کی بندگی پر بندوں کو ابھارا جائے,اور تحریک شہیدین کی نشأۃ ثانیہ کا فریضہ انجام دیا جائے ,پورے خطہ میں ایک ہی شخصیت تھی جو کسی مدرسے سے باقاعدہ فارغ التحصیل ہوکر تشریف لائی تھی اور وہ تھی استاذ الأساتذہ ,شیخ الشیوخ,مناظر ِ اسلام حضرت مولانا عبد الرشید شائقی ۔حفظہ اللہ و رعاہ۔کی شخصیت ,لوگوں کی بے راہ روی,سلفی گھرانوں کے دیوبندی مدارس سے انسلاک,جیسے امور مولانا کو بے کل و بے تاب کر رہے تھے,آپ یہ سب دیکھ کر بے تاب و بے قرار ہو رہے تھے,پھر کیا تھا,آپ نے کمر ہمت باندھی,جمع ِ عزائم فرمایا,اور اپنے ہم نواؤں کے ساتھ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۷۷ء کو ایک مرکزی ادارہ بنام جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کی داغ بیل ڈال دی اور انتہائی بے سر و سامانی کے عالم میں متوکلا علی اللہ مرکزی ادارہ کی تاسیس فرمائی,جو دیکھتے ہی دیکھتے تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا,لوگ جڑتے گئے,کارواں بنتا گیا,طالبان ِ علوم ِ نبوت کا اژدحام ہوگیا,قابل و لائق ترین اساتذہ کی تقرریاں ہوئیں,اور قرار واقعی مرکزی ادارہ بن گیا ,جس کا شہرہ چار دانگ ِ عام میں پھیل گیا اور خطہ کا بچہ بچہ,فرد فرد,بوڑھا بوڑھا ڈابھاکیند کے مدرسے سے روشناس ہوگیا ۔یقینا یہ بانیان و ذمہ داران ِ جامعہ اور اساتذۂ جامعہ کے خلوص,للہیت,محنت,لگن,تگ و دو,جہد ِ مسلسل ,سعی ٔ پیہم اور مستقل کاوشوں کا نتیجہ و ثمرہ تھا ۔
جامعہ کی تاریخ پر بہت سے علماء نے بہت کچھ لکھا,اور لکھا جاتا رہے گا,راقم آثم اپنی اس تحریر میں ان چند امور کی طرف نشاں دہی کی کوشش کرے گا,جن کی وجہ سے جامعہ کو شہرت ِ دوام حاصل ہوا ,فأقول و باللہ التوفیق
(۱)اخلاص و للہیت
یہ بات طے شدہ ,اور مسلمہ حقیقت کہ جب بندہ کوئی بھی عمل خلوص ِ دل کے ساتھ کرتا ہے,تو رب کریم اس کی محنت کو قطعی ضائع نہیں کرتا ؛(إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا)(سورہ الکہف:۳۰)جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کی تعمیر و ترقی میں اسی اخلاص و للہیت کا زبردست دخل تھا,جامعہ کی داغ بیل ڈالنے والوں میں اخلاص و للہیت کوٹ کوٹ بھری ہوئی تھی,بنیاد ڈالی تو اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے,طالبانِ علوم کی خدمت کے لئے ,دعوت و تبلیغ کے جذبہ ٔ فراواں سے سرشار ہوکر,تعلیم و تربیت کی توسیع و تعمیم کے لئے ,اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا,مال کی قربانی پیش کی,وقت کی قربانی دی,فکر کی قربانی دینے سے کوئی دریغ نہیں کیا,سوچ و بچار کی قربانی بھی پیش کرنے میں پیش پیش رہے ,اور جامعہ کے سینچنے,تعمیر ترقی کی راہ پر لگانے,اسے آگے بڑھانے,اور اپنے مشن کو پانے کے فراق میں سب کچھ گنوادیا,لمبی لمبی تنخواہوں کے لئے پیشکش کی گئی,انہوں نے ٹھکرا دیا؛بہترین اور قابل صد رشک عہدوں کے لئے بلایا گیا,انہوں نے جوتے کی نوک پر رکھ دیا,اور جامعہ کی ترقی کا بھوت سوار کرکے علاقے میں ہی رہ گئے,اگر وہ چاہتے,اور ان پیشکشوں کو قبول کرتے,تو ان میں سے آج کوئی لاکھ پتی ہوتا کوئی کروڑ پتی,کوئی بڑے منصب کا مالک ہوتا کوئی اونچے عہدہ میں براجمان ,مگر وہ صرف اور صرف جامعہ کے لئے وقف ہوگئے؛انہیں نہ عہدوں کی بھوک تھی نہ مناصب کے حصول کی حرص و لالچ , اور نہ ہی جاہ و سلطنت کے لئے توڑ پھوڑ اور سانٹھ گانٹھ جانتے تھے,انہیں اگر بھوک تھی تو قوم و ملت کو صحیح ڈگر پر لانے,درست سمت متعین کرنے,طالبان ِ علوم نبوت کو کتاب و سنت کی تعلیمات سے مسلح کرنے اور علاقے کو روشن کرنے کی ,اس کے علاوہ انہیں کچھ بھی نہیں چاہئے تھا ,استاذ العلماء حضرت مولانا عبد الرشید صاحب شائقی ۔حفظہ اللہ۔باتفاق رائے جامعہ کے اولین ناظم منتخب ہوئے ,ایک سال کے بعد آپ نے خود ہی اپنی معذوری کی وجہ سے اپنے عہدہ سے استعفی پیش فرما دیا ,اور باتفاق رائے فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا شفاء اللہ فیضی ۔رحمہ اللہ۔ منتخب ہوئے (مگر بعد میں انہی بعض مخلصین کے ساتھ کیا,سب نے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا,اور دل سے رویا)
(۲)عوام سے قربت ,لوگوں سے محبت,اور خطہ کے ہر فرد سے رابطہ
یہ کوئی آٹھ دس برس پہلے کی بات ہے,میں ضلع دیوگھر کے نرائن پور میں ایک صاحب کے یہاں مہمان تھا,رات وہیں رکنا پڑا,اور وہاں کے کئی لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا,ان میں سے بعض لوگوں نے جامعہ محمدیہ کا تذکار ِ جمیل چھیڑ دیا,اور عہد ِ زریں کو یاد کرکے ایک صاحب کہنے لگے:ہم لوگ جامعہ کے لئے اپنے عقیقہ وغیرہ کے پیسے سال بھر تک کسی کے انتظار میں رکھے رہتے کہ جامعہ کا کوئی نمائندہ آئے گا؛اور اسے ہی جامعہ کی ترقی کے لئے دیا کرتے تھے۔
جامعہ کے ناظم اور علاقہ کی ہر دلعزیز شخصیت حضرت مولانا شفاء اللہ فیضی مڑلی پہاڑی میں بیٹھ کر ماہانہ ایک ڈیڑھ لاکھ کا چندہ اکٹھا کر لیا کرتے تھے,اور لوگ آآکر جامعہ کو چندے دیا کرتے تھے,ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ ناظم مرحوم مڑلی پہاڑی موڑ میں دو ڈھائی لاکھ چندہ اکھٹھا کر لیا کرتے تھے,اور ایسا نہیں تھا کہ آپ لوگوں کے پاس جاتے تھے,بلکہ لوگ آپ کے پاس آآکر دیا کرتے تھے,کبھی تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ لوگ دینے کے لئے لائن لگاتے تھے(یہ بات مجھے ایک معتمد دوست نے بتائی)
مڑلی پہاڑ کے بازو میں ہر چہار شنبہ ایک بازار لگتا تھا,ناظم مرحوم اس بازار سے کبھی غائب نہیں رہتے تھے,ہاں اگر علاقے میں نہ ہوتے تو یہ دوسری بات ہوتی,لوگ ساز و سامان خریدنے جاتے اور ناظم صاحب ۔رحمہ اللہ۔جامعہ کی ترقی کے لئے جاتے,سبحان اللہ,اللہ اکبر!!
استاذ گرامی حضرت مولانا عبد الستار اثری مرحوم اور استاد گرامی حضرت مولانا و قاری محمد یونس اثری ۔حفظہ اللہ۔تو جیب سے چندے نکالنے کا ہنر جانتے تھے,اور کیا مرد کیا عورت سب سے چندے وصول کرتے,اور اس سلسلہ میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے,اور چندہ دینے والا بھی خوشی محسوس کرتا کہ میری رقم جائز جگہ پہنچ رہی ہے,طلبہ پڑھیں گے,لکھیں گے اور آگے بڑھیں گے,ابنائے جامعہ سے اس قدر رشتہ مضبوط تھا کہ باہر میں دعوتی خدمات انجام دینے والا جب گھر واپس ہوتا اور جامعہ کی زیارت,اساتذہ سے ملاقات اور مادر علمی کو دیکھنے جاتا تو وہاں تعاون لینے دینے کا منظر انتہائی قابل صد رشک ہوتا ؎
کس طرح امانتؔ نہ رہوں غم سے میں دلگیر ٭آنکھوں میں پھرا کرتی ہے استاد کی صورت
جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کے دور رس ناظم مرحوم نے اپنے تمام ممبران سے رابطے رکھے ,سینر و جونئیر تمام ممبران سے رابطے ہمیشہ استوار رکھے ,اور ان ممبران کی بھی ہمیشہ جامعہ سے والہانہ لگاؤ رہا,وہ ہمیشہ جامعہ آتے؛تبادلہ ٔ خیال فرماتے ,مالی تعاون پیش فرماتے,اورلوگوں کو بھی اس کے لئے ابھارتے تھے
اساتذۂ جامعہ بھی اسی نہج پر کام کرتے ,دور مت جائیے استاد گرامی حضرت مولانا عبد الستار اثری مرحوم اور حضرت مولانا و قاری محمد یونس اثری ۔حفظہ اللہ۔روزانہ سائیکل چلا کر جامعہ پہنچتے ,راستے میں لوگوں سے ملاقاتیں کرتے,علاقے میں منعقد بازار میں جاتے اور لوگوں سے جامعہ کے لئے بھی رابطے کرتے
(۳)جامعہ کے ذمہ داران کا قریہ قریہ جانا ۔
جامعہ کی ترقی کا ایک راز یہ بھی تھا کہ جامعہ کے ذمہ داران ,بالخصوص ناظم جامعہ علاقے کے گاؤں گاؤں,قریہ قریہ پہنچ کر,لوگوں سے رابطے کرتے,وہاں جاکر جامعہ کی مالی مشکلات کا تذکرہ کرتے,لوگوں سے تعاون کے لئے اپیلیں کرتے,گاؤں کے سرکردہ لوگوں سے ملتے,اور جامعہ کے احوال و کوائف سے باخبر کرتے,جامعہ کے لئے وہ صرف چندے ہی نہیں مانگا کرتے تھے,بلکہ جامعہ کے لئے طلبہ بھی مانگتے,آپ ہمارے یہاں اپنے بچوں کو بھیجئے,جامعہ آپ کا ہے,آپ کے بچوں کے مستقبل کو سنوارنا ہماری ذمہ داری ہے,آج کے کھوکھلے نعروں (آپ ہمیں بچے دیجئے,ہم انہیں مستقبل دیں گے)کی طرح ان کا نعرہ نہیں تھا,بلکہ انہوں نے یہ سارے کار اخلاص و للہیت سے انجام دیا ,قریہ قریہ پہنچ کر لوگوں سے رابطے کئے,اور تعلقات استوار کئے, مشورے بھی طلب کرتے,رائیں بھی لیتے,تجاویز بھی مانگتے ۔
ناظم مرحوم کبھی خود جاتے اور کبھی دوسرے کو بھیجتے ,اپنی بستی ماتھاسیر میں بارہا ناظم مرحوم ,قاری جمال الدین مظاہری مرحوم کو لوگوں سے ملتے ملاتے,تعاون کے لئے رسیدیں کاٹتے ,اور تعاون حاصل کرتے دیکھا گیا ہے(یہی رویہ تمام بستیوں کے ساتھ ہوتا ,اور ہر جگہ پہنچتے)(اب ذرا اندازہ کر لیں کہ لوگ کہاں کہاں اور کون کون پہنچتے ہیں؟)
(۴)علاقے سے باہر رہنے والے حضرات سے رابطے
جامعہ کی ترقی کا راز یہ بھی تھا کہ ارباب ِ جامعہ نے باہر رہنے والے,باہر کام کرنے والے بیرونِ خطہ بسنے والے لوگوں سے ہمیشہ رابطے کئے,جامعہ سے تعلقات کی استواری کے لئے جتن کئے , انہیں سالانہ میٹنگوں میں خصوصی دعوتیں بھیجیں,انہیں جامعہ آکر زیارت کرنے کی دعوتیں دیں,بلکہ ہمیشہ جامعہ آنے کی دعوت دی,کمی بیشی کی طرف اشارہ کرنے کی گزارشیں کیں؛اور ہر ممکن اصلاح کی کوششیں فرمائیں,جامعہ کی شہرت اس لئے بھی سابقہ ادوار میں دندناتی پھرتی تھی,اور یہ محبت دو طرفہ تھی,باہر میں اجنبیت کی زندگی گزارنے والے بھی جامعہ کے لئے اپنی جانیں چھڑکتے تھے,اپنے مال و منال کی قربانی پیش کرنے میں شمہ برابر دریغ نہیں کرتے ,حتی کہ باہر لکڑی چیرنے کا کام کرنے والے بھی اپنے پیسے کی کمائی سے جامعہ کو شادکام کرتے,جامعہ میں منعقد ہونے والی میٹنگوں کا انتظار کرتے اور شرکت کی بھر پور کوششیں کرتے,اور ارباب ِ جامعہ بھی انہیں شرکت کی خصوصی دعوت پیش کرتے,اب تو صورت حال یکسر مختلف ہے,گروپ میں دعوت نامہ ڈال دیا جاتا ہے,ؤپ شریک ہوں,نہ ہوں یہ آپ کی مرضی اور خوشی پر موقوف ہے
(۵)زمین سے جڑ کر کام کرنا
اپنے دور ِ طالب علمی میں یہ بار بار دیکھا گیا کہ ناظم جامعہ کہیں دور یا قریب سفر سے واپس ہوتے تو سب سے پہلے جامعہ آتے,کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ ۱۲ بجے؛۲:۳۰ رات ناظم مرحوم جامعہ پہنچتے,جائزہ لیتے ,اور پھر اپنے گھر جاتے,حالانکہ ان کے بال بچے تھے,صاحب اولاد تھے,آں رحمہ اللہ کا گھر جامعہ سے قریب ہی جدو ڈیہہ میں تھا,ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ پہلے اپنے گھر جالیتے,بال بچوں سے مل لیتے,وہاں کے احوال و ظروف سے باخبر ہوتے,پھر جامعہ آتے,لیکن کبھی ایسا نہیں کیا,بلکہ ہمیشہ پہلے جامعہ آتے ,جائزہ لے کر ہی گھر جاتے,یہ ایک بار نہیں بلکہ بار بار مشاہدہ کیا گیا ہے,اور جس نے بھی جامعہ میں خوشہ چینی کی ہے,بحوبی جانتے ہیں اور انہوں نے اپنے سر کی آنکھوں سے ان سب امور کا مشاہدہ کیا ہے,فللہ درہ ؎
وفاداری پہ دے دی جان غداری نہیں آئی ٭ہمارے خون میں اب تک یہ بیماری نہیں آئی
یہ بھی واضح ہے کہ جامعہ کے جتنے ذمہ داران تھے,سب زمین سے جڑے تھے,علاقے میں رہتے تھے,کوئی مسئلہ پیش آتا تو فورا ِ حاضر ِ جامعہ ہوتے,اور سر جوڑ کر حل کر لیا کرتے تھے؛کبھی ذمہ داران ِ جامعہ ان کے یہاں پہنچ جایا کرتے ,اور تبادلہ ٔ خیال ہوا کرتا ,اب اگر اس وقت کوئی رہے توران ,کوئی رہے ایران,اور جاپان ,تو ترقی کی بات کیسے سوچی جا سکتی ہے ؟(شخصی اداروں کی بات دیگر ہے),جامعہ کی ترقی کا اگر کوئی خواہاں ہے تو اسے زمین سے جڑنا ہوگا,اپنا سب کچھ قربان کرنا ہوگا؛مال و دلت کی قربانی ,وقت کی قربانی,افکار کی قربانی ۔
(۶)موافق و مخالف کو ایک ساتھ لے کر چلنا
ذمہ داران ِ جامعہ ہمیشہ ہر شخص سے ملتے اور انتہائی خندہ پیشانی سے ملتے ؎
بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں٭محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے
اسی لئے سب کو ساتھ لے کر چلتے,سب کو جامعہ آنے,زیارت کرنے,اور اپنی رائیں پیش کرنے کی دعوتیں دیتے؛نتیجہ یہ ہوتا کہ جامعہ کا کٹر دشمن بھی نقد دل ہار بیٹھنے پر مجبور ہوتا,اور پھر ایسا نقد دل ہار بیٹھتا کہ زندگی بھر جامعہ کی موافقت کی قسم کھا لیتا ,جامعہ کی ترقی کا راز یہ بھی تھا
(۷)خوشی و غم میں شریک ہونا
ارباب ِ جامعہ صرف برتو اور منگنی,شادی اور شادیانے میں پورے علاقے کے ساتھ نہیں ہوتے,بلکہ کسی بھی گاؤں میں کوئی مشکل درپیش ہوتی,اس کے حل کے لئے جامعہ کا کوئی نہ کوئی نمائندہ ضرور پہنچتا,اور اس کے حل کے لئے کوشش کرتا,اور جب تک مسئلہ حل نہیں ہوجاتا,انہیں چین نہیں آتا, نکاح و زواج کا مسئلہ ہو یا طلاق و خلع کا ,عائلی مسائل ہوں یا معاشرتی ,دینی مسئلہ ہو یا سیاسی مسئلہ,سب میں جامعہ اور جامعہ والے بھر پور کردار ادا کرتے, اپنے طالب علمی کے زمانے میں بارہا دیکھا گیا کہ لوگ مختلف قسم قضایا مسائل لے کر جامعہ آتے,ناظم مرحوم کو حل کرنے کی گزارشیں کرتے,اور جب تک کوئی مثبت جواب نہیں مل جاتا ,وہ جامعہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتا,اور ناظم مرحوم تھے کہ اپنے ناخن تدبیر سے مسائل لا ینحل کو بھی حل فرما دیتے (یہ کوئی مبالغہ نہیں حقیقت پر مبنی امور ہیں)
(۸)حوصلہ افزائی اور ہمت بخشی
یوں تو جامعہ کے ذمہ داران تمامی طلبہ کے سرپرستان سے برابر تعلق رکھتے,انہیں حوصلے دیتے ,اور ہمت افزائی کرتے,جامعہ میں تو ہمت افزائی کرتے ہی تھے,جو طلبہ پڑھنے میں اچھے ہوتے,ان کے گارجین سے خصوصی رابطے رکھتے,انہیں جامعہ باربار آنے کی دعوت دیتے اور حوصلہ دیتے کہ اپنے بیٹے کی تعلیم منقطع نہیں کر وانی,آپ کا لڑکا آگے چل کر ایسا اور ویسا ہو سکتا ہے,وغیرہ وغیرہ (اپنی مثال دو ں گا تو لوگ کہیں دوسری طرف بات لے جائیں گے؛مگر بارہا ایسا دیکھنے اور سننے کو ملا,والد مرحوم اور بڑے بھائی سے آں رحمہ اللہ کا خصوصی لگاؤ تھا,آں رحمہ اللہ حوصلہ افزائی فرماتے,ہمت دیتے اور حوصلہ نہ ہارنے کی تلقین کرتے) بہر حال ارباب ِ جامعہ حوصلہ افزائی فرماتے,اور خوب خوب فرماتے
(۹)غریبوں سے تعلقات
آج کے اس دور ریل پیل میں لوگ عام طور پر امراء و اصحاب ثروت سے تعلقات رکھتے,ناظم مرحوم غریبوں سے بھی تعلقات رکھتے,ان کے گھر جاتے,ٹوٹی چارپائی پر بیٹھ کر چائے نوشی فرماتے اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے
(۱۰)چشیدہ کار اور ماہر اساتذہ کی بحالی
کسی بھی ادارے کی جان اساتذہ ہوا کرتے ہیں,ذمہ داران جامعہ محمدیہ کی حساس نگاہیں ہمیشہ تجربہ کار,ماہر,ہر فن مولا,لائق و فائق اساتذہ کی تلاش میں رہتے اور اس مہم میں وہ ہمیشہ کامیاب رہے,چنانچہ جامعہ کی ترقی کا راز ان چشیدہ کار اساتذہ کا حسن انتخاب بھی تھا,بیک وقت مدنی فضلاء کی ایک بڑی ٹیم کو یکجا کرلینا ,سلفی و فیضی علماء کی خدمات حاحصل کرلینا کسی چیتے کی نگاہ رکھنے والے کا کام ہوسکتا ہے,ذرا اندازہ کیجئے کہ کیسے کیسے جتن کرنے پڑے ہوں گے کہ ایک ساتھ فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا و مفتی محمد جرجیس سلفی, فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبد العلیم سلفی مدنی,ادیب اریب فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبد اللہ مدنی , سلطان القلم ,ادیب جھارکھنڈ فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا محمد خالد فیضی , فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا مسعود عالم فیضی,فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبد الستار اثری ۔رحمہ اللہ۔, فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا و قاری محمد یونس اثری , , فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا و قاری جمال الدین مظاہری ۔رحمہ اللہ۔, فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبد الخالق جامعی۔رحمہ اللہ۔, فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا لعل محمد اثری وغیرہم جیسے اساطین علم و فن کا انتخاب کیسا انتخاب رہا ہوگا ؟
یہ چند باتیں انتہائی عجلت میں نوک قلم پر آگئی ہیں,جو حب جامعہ میں ڈوب کر لکھ دی گئی ہیں,اللہ کرے جامعہ ترقی و تطویر کے اعلی مدارج و منازل طے کرے,اور اسے تعلیم و تربیت میں مقام ِ اوج ِ ثریا حاصل ہو
آمین یا رب العالمین
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد