عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
(مدیر مجلہ ارمغان ِ سلام)
کورونا جیسی مہلک وبا نے پوری دنیائے اقتصاد کو ایسی مار ماری ہے کہ انسان ہر مار کو بھول کر ایک ہی مار یاد رکھ پاتا ہے,اور وہ ہے,اللہ کی مار
نظر نہ آنے والی اس مار نے انسان اور پاور فل ممالک کو ایسے بے بس کردیا ہے کہ مانو اس کے سامنے سب اپنے آپ کو ہیچ اور لاچار سمجھنے کو مجبور ہوگئے,اور رب کی جباریت و قہاریت کا مکمل یقین ہوگیا۔
اور یقین نہ کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہ بچا تھا
۲۰۱۹ء کے مارچ میں یہ وبا کیا آئی,قیامت ِ صغری کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا,جو جہاں تھا,وہیں رہ گیا,زندگی تھم گئی,مدارس بند ہوگئے,کالج مقفل کردئے گئے,یونی ورسیٹیوں کے کام کاج تھم گئے,مسجدیں ویران ہوگئیں,مندروں میں تالے لگ گئے,مزدوروں کی ان گنت اور بیشمار موتیں ہوئیں,غریب و لاچار لوگ بھوک و پیاس سے مرے,لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں,اور پورے عالم میں جس طرح اقتصاد کی صورت حال تہس نہس ہوئی,بیان سے باہر اور امید سے کہیں بالاتر ہے,کبھی کسی کے حاشیہ ٔ خیال میں بھی نہیں آیا ہوگا کہ ایسا بھی کبھی ہوسکتا ہے,مگر چشم ِ فلک نے ایسا بھی دیکھا اور خوب خوب دیکھا ۔
15 اکتوبر ۲۰۲۱ء کو بفضلہ تعالی سعودی عرب نے ایک ایسا حکم نامہ جاری فرمایا,جس سے اطمینان کا سانس لیا,لوگوں نے اللہ کا خاص شکر ادا کیا,جس دن یہ اعلان کیا گیا کہ ۱۷ اکتوبر سے اللہ کی توفیق سے حرمین شریفین میں سماجی فاصلہ کو ختم کردیا جائے گا,اور بغیر کسی فاصلہ کے لوگ نماز ادا کر سکیں گے,اور عمرہ کر سکیں گے,زائرین و معتمرین نے مسرت و خرسندی کا اظہار فرمایا,مقامی جگہوں پر ماسک لگانے کی پابندی اٹھائی گئی,اور تقریبا زندگی اپنی طبعی حالت میں لوٹ آئی,یہ بہت بڑی خوشخبری تھی,جس کا تحفہ حکمران ِ مملکت نے ارض توحید پر بسنے والے لوگوں کو دیا ,اور تمام لوگوں نے اللہ کے حضور سجدہ ٔ تشکر و امتنان بجالایا۔
جس دن ائمہ ٔ ِ حرمین شریفین نے کورونا کے بعد پہلی بار (اعتدلوا)اور (سدوا الخلل)کی آواز بلند فرمائی,وفورِ مسرت کا جو عالم تھا,دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا
ادھر دوسری طرف متحدہ عرب امارات نے اور پھر کویت بھی ساری پابندیاں ختم کردیں,اور لوگ عام زندگی بسر کرنے لگے ,فالحمد للہ علی ذلک ۔
ہندوستان جو ہمارا ملک ِ عزیز بھی ہے اور مادر ِ وطن بھی,اس نے بھی بہت ساری پابندیاں ختم کردی ہیں,مدارس کھل گئے ہیں,یونی ورسیٹی چالو ہوگئی ہیں,عام زندگی اپنے معمول پر لوٹ آئی ہے,جو در بدری تھی,ختم ہوگئی ہے,لوگ اپنے کاموں کے لئے دیگر صوبہ جات روانہ ہوچکے ہیں,اور اپنے اپنے مشاغل میں مصروف ِ کار ہوچکے ہیں,فالحمد للہ علی ذلک حمدا حمد ا, و الشکر لہ شکرا شکرا
۱۷ اکتوبر کی صبح تھی,صبح کے اجالے کے بعد جب موبائل نے ایک لمبی سانس کے بعد سانس لیا,تو ایک انتہائی افسوس ناک,خطر ناک,تشویش ناک,اور المناک خبر نے بدن میں ارتعاش پیدا کردیا,دماغ ماؤف سے ہوگئے,آنکھیں خیرہ ہوگئیں,نظروں کے سامنے اندھیرا چھا گیا,اور مبہوت ہوکر رہ گیا ۔
وہ خبر کیا تھی,بجلی کا کڑکا تھا,ایک شاک,اور المناک شاک,کہ اپنے قریب کے دو مسلم گاؤں کے بیچ گھمسان کی لڑائی چھڑ گئی ,اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سرپھٹول ہوا,درجن بھر لوگ زخمی ہوئے,کوئی یہاں گرا,کوئی وہاں گرا,اور ہسپتال تک پہنچنے کی نوبت آگئی,راقم نے اب تک کوئی ۴۷ بہاریں دیکھ لی ہیں,مگر اس قدر شدید جھڑپ اور خطرناک صورت حال کا مشاہدہ اب تک نہیں کیا تھا,مگر جو صورت حال اب بنی ہے,انتہائی خطرناک اور تشویش ناک ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسی صورت حال کیوں پیدا ہوئی,شیطان کو ایک دوسرے کو ورغلانے کا موقعہ کیوں ہاتھ آیا,یہ مواقع کس نے اور کیسے پیدا کئے گئے؟
فریقین میں یقینا کچھ لوگ ایسے ہیں جو علاقہ میں صلح و آشتی کے پیامبر مانے جاتے رہے ہیں,لوگ انہیں اپنے نزاعی معاملات میں فیصل مانتے رہے ہیں,اب اگر وہی آپس میں لڑیں گے,بھڑیں گے,اور امن و آشتی کو درہم برہم کرنے کی کوشش کریں گے,تو دوسرے اپنے معاملات لے کر کہاں جائیں گے؟کس کے پاس جائیں گے؟اور جب یہی حضرات فیصل بن کر نمودار ہوں گے تو کیا لوگ ان کی باتوں پر کان دھریں گے؟یقینا جواب نفی میں ہوگا
ہمیں اس امر پر بھی غور کرنا ہوگا کہ آخر ایسے حالات پیدا کرنے کے ذمہ دار کون ہیں؟اس طرح کے حالات کیسے پیدا ہوتے ہیں؟کیوں پیدا ہوتے ہیں؟
نیز اس امر پر بھی تامل کرنے کی ضرورت ہے کہ علاقے میں موجود دیگر صنادید کہاں ہیں؟وہ اپنا اہم کردار کیوں نباہ رہے ہیں؟کیا ان کا سکوت انہیں سکون پہنچا رہا ہے؟کیا ان کا ضمیر ان کے اس سکوت پر ملامت نہیں کرتا؟
یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ کیا چنگاری بجھ گئی؟یا اس بات کا احتمال موجود ہے کہ دوبارہ یہ چنگاری کبھی کبھی شعلہ زن ہوکر پھر کسی دوسرے غیر متوقع حادثہ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے؟
یہ اور اس قسم کے کئی سوالات ہیں جو ایک منصف کے ذہن و دماغ میں بار بار ابھر کر آتے ہیں
ہم جس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں,ہمیشہ پسماندہ,پچھڑا,اور کوردہ رہا ہے ااور ہر اعتبار سے رہا ہے ,مگر کورونا کے بعد جس طرح سے علمی اضمحلال اور تعلیمی کوردگی نظر آرہی ہے,وہ خون کے آنسو رلا دینے والی صورت حال ہے
اپنے بچے کھیل کود,گلی ڈنڈا ,کرکٹ ,فٹ بال میچ ,موبائل اور گوگل سے جس طرح سے مربوط اور منسلک ہوتے نظر آرہے ہیں,انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے,اس پر قابو پانا محال تو نہیں,البتہ مشکل ضرور نظر آتا ہے ۔
ارباب حل و عقد,علماء و مفکرین ,دعاۃ و مبلغین ,قلم کاران و مقررین کو اس باب میں انتہائی سنجیدگی سے غور و تامل کی ضرورت ہے,اور بہت جلد اس کے لئے لائحہ ٔ عمل کی سخت ضرورت ہے,کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ہم نیند سے بیدار ہوں تو بہت دیر ہو چکی ہو
اس لئے میں تمام معززین سے گزارش گزار ہوں کہ اس طرف توجہ مبذول فرمائیں اور قوم و ملت کے لئے کچھ کر گزرنے کا عزم کریں؛لائحہ ٔ عمل تیار کریں,سر جوڑ کر اگر نہیں تو تنہا تنہا ضرور سوچیں ؛کچھ کریں ,کچھ کریں,اور اللہ کے لئے کچھ کریں
رہے نام اللہ کا