از قلم:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
(داعی اسلامک دعوہ سینٹر،میسان۔طائف)
15 اگست آزادی کا دن ہے ، اسی تاریخ کو ہمارے بزرگوں نے اپنے تن من دھن اور جان کی بازی لگا کر اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا تھا، تب ہم اس شان و شوکت کے ساتھ عظیم الشان جشن آزادی منا رہے ہیں۔
آج سے تقریبا دو سو سال پہلے ہمارے ملک عزیز ہندوستان پر بڑی چال بازی،عیاری اور مکاری سے سات سمندر پار سے آئے ہوئے انگریز قابض ہو گئے تھے، ہم ہندوستانیوں پر انگریز ظلم و ستم کیا کرتے تھے ، ہم اپنے ہی ملک اور اپنی ہی زمین میں ان کے غلام تھے، ہم غلامی کی زنجیر وں میں اس قدر جکڑے ہوئے تھے کہ ان سے نکلنا آسان نہیں تھا، لیکن جب ہندوستان کے رہنے والے تمام ہندو، مسلمان اور سکھ عیسائی نے مل کر جدوجہد کی,من کے کالے اور تن کے گوروں سے لڑائی لڑی تو غلامی کی اس زنجیر کو توڑنے میں کامیاب ہوگئے اور آخرکار ہمارا یہ ملک 15 اگست 1947 کو انگریزوں کے ظلم و ستم اور ان کی غلامی سے آزاد ہو گیا اور اب ہم سب ہندوستانی آزاد ملک کے شہری ہیں ہیں ۔ چونکہ ہمارا ملک ہندوستان 15اگست 1947ء کو آزاد ہوا اس لیے ہر سال 15اگست کو پورے ملک میں آزادی کا جشن بڑے آب و تاب کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
اس ملک کو آزاد کرانے میں ہندو مسلم اور سکھ عیسائی تمام لوگوں نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اور اگر ہم یہ کہیں کہ اس ملک کی آزادی میں مسلمانوں نے سب سے بڑی قربانیاں دی ہیں تو غلط نہیں ہوگا ،تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پانچ لاکھ سے زائد اہل حدیثوں کی جانیں گئیں,انہیں تختہ ٔ دار پر لٹکایا گیا,انہوں نے آزادی کے خاطر دار روسن اور قید و بند کی صعوبتوں کو گلے سے لگایا, لیکن افسوس صد افسوس! آپ ہندوستان کے جس کونے میں چلے جائیں، جس اسکول، کالج اور یونیورسٹی کا دورہ کرلیں، جہاں پر بھی آزادی کا پروگرام منعقد ہوتا ہے، وہاں گاندھی، نہرو، بھگت سنگھ اور جھانسی کی رانی جیسے سینکڑوں غیر مسلم مجاہدین آزادی کا ذکر تو ہوتا ہے؛ مگر لاکھوں کی تعداد میں آزادی کی خاطر جان دینے والے مسلم مجاہدین آزادی کو یکسر بھلا دیا جاتا ہے ، نہ تو ان کا نام لیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے قمر جلالوی نے کہا تھا ؎
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی ٭
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی ٭
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن٭
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں٭
حالانکہ آزادی کی اس حسین لڑائی میں جہاں نہرو و گاندھی تھی,وہیں اہل اسلام بھی آزادی کے متوالے تھے اور انہوں نے بھی سولی کی پھانسی کو شوق سے چوم لیا جن میں :۔
مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی ، مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی، مولانا سید احمد شہید ، مولانا اسماعیل شہید،شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین دہلوی , حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوھی ،مولانا ولایت علی عظیم آبادی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا عبد اللہ صادق پوری، مفتی صدر الدین، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا محمود حسن دیوبندی ، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا ابوالکلام آزاد, مفتی کفایت اللہ دہلوی ،مولانا عبید اللہ سندھی۔ رحمھم اللہ تعالیٰ ۔جیسے ہزاروں جیالے آزادی کے قافلے میں شامل تھے بلکہ پیش پیش تھے ؎
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے ٭اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی
حضراتِ گرامی !
15 اگست کو ہم(ہندو مسلمان)سبھی جشنِ آزادی مناتے ہیں اور خوب مناتے ہیں اور منانا بھی چاہئے ۔
اب جبکہ 15 اگست گزر گیا ہے,بڑی سنجیدگی کے ساتھ چند امور کی طرف آپ سب کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں
(1)وطن سے محبت ایک فطری امر ہے,اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے,جس کے کئی دلائل کتاب و سنت میں ملتی ہیں,نبی ٔ اکرمﷺ مکے میں پیدا ہوئے,پلے بڑھے,نشو ونما پائی,جوان ہوئے اور یہیں آپﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا,لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا کہ آپ ﷺ کو اپنے ہی زادِ بوم کوچھوڑدینے پر مجبور ہونا پرا,آپﷺ کو اپنی جنم بھومی(زادِ بوم)سے اتنی محبت تھی کہ آپﷺ نے مکے کے ایک ٹیلے پر چڑھ کر فرمایا: مکہ! اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ تو روئے زمین میں سب سے بہتر زمین ہے, اور ہاں اگر تیرے باشندے مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کرتے تو ہم تجھ سے نہ نکلتے(ترمذی:3925)-
لہذا ہمیں اپنے وطن سے محبت ہونی چاہئے اور خوب ہونی چاہئے,کیوں کہ ہم نے بڑی کاوشوں اور کوششوں سے اس وطن کی آزادی پائی ہے
(2)ملکِ عزیز سے محبت کے نتیجے میں ہمیں جشن منانے کا بھی حق ہے,خوشی کے اظہار کا بھی موقع ہے ؛اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے تمام مدارس و جامعات,معاہد و مکاتب,اسکول و کالج اور یونیورسٹیوں میں انتہائی جوش و خروش اور تزک و احتشام سے 15 اگست کا جشن منایا جاتا ہے مگر :۔
(3)اس خوشی کے موقعے پر گزشتہ چند سالوں سے عجیب و غریب قسم کے نمونے دیکھنے کو مل رہے ہیں,مثلا:
(الف)اس جشن کے موقعے پر بعض ذمہ دارانِ مدارس و جامعات کو دیکھا گیا کہ وہ سر جھکائے کھڑے ہیں ,کیا یہ شرعا درست ہے ؟
(ب)بعض مدارس میں جشن اس کیفیت سے بھی منایا جاتا ہے کہ کئی کیلو میٹر دور تک سے طلبا کو جھنڈے لیے دوڑایا جاتا ہے ,بعض جگہوں پر تو سڑکوں پر یہ مظاہرہ کروایا جاتا ہے,میری سجھ سے بالا تر ہے کہ آخر جشن کا یہ طریقہ کب سے ایجاد کر لیا گیا اور آخر اس کی ضرورت کیوں پڑی؟اور کیا اس کی ضرورت ہے ؟
حد تو اس وقت ہوجاتی ہے جب لڑکیوں کو بھی سڑکوں پر اتار دیا جاتا ہے اور سڑک پر گزرنے والے اس کا مشاہدہ کرتے ہیں ؟کیا جشن کا یہ طریقہ صحیح ہے؟کیا طالبات کا سڑکوں پر (با پردہ ہی سہی)اتارا جانا عقلا و شرعا درست ہے؟
(ج)یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بعض بنات کے مدرسوں کو لڑکیوں سے رقص و سرود اور ناچ گانے؛حتی کہ فحش ڈانس بھی کروائے گئے ہیں,ذرا سنجیدگی سے بتائیں کیا ان لڑکیوں کے ماں باپ نے اسی لیے مدرسوں میں ڈالا تھا تاکہ وہ آپ کے مدرسے سے رقص و سرود کی تعلیم لے کر نکلیں ؟کیا ان کے گارجین حضرات نے اس لیے بنات کے مدرسے میں داخلہ کروایا تھا تاکہ وہ ان کے جگر گوشے گانے بجانے کی تربیت سے روشناس ہوں ؟(اللہ کے لیے ہوش کے ناخن لیں اور جوش ِ جنوں میں کیا کیا بکیں اور نہ انجام دیں)
(د)بعض جگہوں میں تو یہاں تک دیکھا گیا کہ بھجن گائیکی ، مسجد میں میوزک، گنگا جمنا کی پوجا، بھاگوت کو سجدے جیسے امور انجام دیے گئے؟کیا یہ شرعا درست ہے؟جشن کے نام پر,لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کیا ہم اس حد تک نیچے اتر سکتے ہیں؟
(ھ)بعض جگہوں میں تو دیکھا اور مشاہدہ کیا گیا کہ لوگ کپڑے پھاڑ پھاڑ کر جشن مناتے ہیں,کیا یہ صحیح ہے ؟
(و)بعض لوگوں نے موٹر سائکلوں پر بیٹھ کر اور اسٹیرنگ چھوڑ کر جشن منایا؟کیا یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف نہیں ہے؟کیا یہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈھکیلنا نہیں ہے ؟
15 اگست 2024ء گزر گیا,تاہم اس میں ادا کیے گئے اعمال و کردار تاریخ میں ثبت ہوگئے,ان خیرا فخیر و إن شرا فشر؛
تاہم یہ چند سطور اصلاح کی غرض سے ذکر کر دی گئی ہیں اگر یہ ان میں خیر و فلاح اور بہتری و بھلائی کا کوئی بھی گوشہ اور عنصر مضمر ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط اور بے اس ہے تو وہ میری طرف سے اور شیطان کے کچوکے کا نتیجہ ہے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ اس سے مکمل طور پر بری ہیں