عبد السلام بن صلاح الدین فیضی مدنی
(داعی و مترجم:اسلامک دعوہ سینٹر‘میسان طائف‘سعودی عرب)
الحمد لله رب العالمين و الصلاة و السلام على أشرف الأنبياء و المرسلين و من تبعهم بإحسانٍ إلى يوم الدين أما بعد
اللہ تعالی کی حکمت و مصلحت ہے کہ اس نے بعض چیزوں کو بعض پر‘بعض دنوں کو بعض ایام پر‘ اسی طرح بعض مخلوقات کو ایک دوسرے پر فضیلت دے کھی ہے ‘اللہ تعالی نے فرمایا وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ (القصص:۶۸ )ترجمہ:اور آپ کا رب جسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ‘ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں ‘اللہ ہی کے لئے پاکی ہے ‘وہ بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں
چنانچہ غور فرمائیں کہ اس نے تمام مخلوقات میں سے نبیوں کو چن لیا ‘نبیوں میں سے پانچ ایسے نبی منتخب فرمائے جو اولو العزم قرار دئے گئے ‘اور ان میں سے جناب احمد مجتبی ‘محمد مصطفی ﷺکو آخری نبی کے طور پر منتخب فرمایا‘پھر آپ کے اصحاب منتخب فرمائے ‘ان میں سے دس کو ایک ہی مجلس میں جنت کی بشارت دی‘پھر ان میں سے چار ایسے اجلہ صحابہ منتخب کئے گئے جن کو خلافت کے لئے چنا گیا
اسی طرح اللہ تعالی نے سال ‘مہینے ا ور ایام اور راتیں پیدا فرمائیں‘ مہینوں میں ماہِ رمضان کو فضیلت کے لئے منتخب فرمایا ‘ایام میں سے جمعہ کو سید الأیام قرار دیا ‘اور راتوں میں شبِ قدر کو بے تحاشہ فضیلت عطا فرمایا۔
آئیے اس مختصر تحریر میں جمعہ اور اس کے فضائل ‘آداب اور اس دن انجام دئے جانے والے چند اعمال کا تذکرہ کرتے ہیں ‘اس امید کہ ساتھ کہ اللہ تعالی ہمیں ان باتوں پر عمل کی توفیق ارزانی کرے
أولا:جمعہ کے فضائل
(۱)اللہ تعالی نے جمعہ کی قسم کھائی‘جمعہ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جمعہ کی قسم کھائی ہے ‘فرمایا :‘‘ وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ ‘‘ (البروج:۳)قسم ہے حاضر ہونے والے کی ‘اور حاضر کئے گئے کی‘گوکہ اس سلسلہ میں علماءِ تفسیر کے یہاں شدید اختلاف ہے کہ اس سے مراد کیا ‘تاہم علامہ شوکانی نے راجح قرار دیا ہے کہ شاہد سے مراد جمعہ ہے اور مشہود سے مراد عرفہ کا دن (دیکھئے:احسن البیان ص ۱۷۰۳‘یہی بات حافظ ابن کثیر ‘قرطبی اور طبری نے بھی کہی ہے)
ملاحظہ فرمائیں کہ اللہ تعالی نے جمعہ کے دن کی قسم کھائی ہے‘اور اللہ تعالی عظیم ہے اور عظیم چیز ہی کی قسم کھاتا ہے
(۲)امتِ محمدیہ پر اللہ کی خاص مہربانی یہ ہے کہ اس نے جمعہ کے دن کو اس کے لئے منتخب فرمایا ہے ‘نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا: “أَضَلَّ اللهُ عَنِ الْجُمُعَةِ مَنْ كَانَ قَبْلَنَا، فَكَانَ لِلْيَهُودِ يَوْمُ السَّبْتِ، وَكَانَ لِلنَّصَارَى يَوْمُ الأَحَدِ، فَجَاءَ اللهُ بِنَا، فَهَدَانَا اللهُ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَجَعَلَ الْجُمُعَةَ وَالسَّبْتَ وَالأَحَدَ، وَكَذَلِكَ هُمْ تَبَعٌ لَنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، نَحْنُ الآخِرُونَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، وَالأَوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، المَقْضِيُّ لهُمْ قَبْلَ الْخَلاَئِقِ(مسلم رقم:۸۵۶‘یہ روایت قدرے اختلاف کے ساتھ بخاری (۸۷۶)میں بھی موجود ہے)(ترجمہ: “اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے والوں کو جمعہ سے بھٹکا دیا، یہود کے لیے ہفتہ (سنیچر)کا دن مقرر ہوا، اور نصرانیوں کے لیے اتوار کا، پھر اللہ تعالیٰ ہمیں لایا تو اس نے ہمیں جمعہ کے دن سے نوازا، تو اب (پہلے) جمعہ ہے، پھر ہفتہ (سنیچر) پھر اتوار، اس طرح یہ لوگ قیامت تک ہمارے تابع ہوں گے، ہم دنیا میں بعد میں آئے ہیں مگر قیامت کے دن پہلے ہوں گے‘جن کے لئے تمام مخلوقات سے پہلے فیصلے ہوں گے)
(۳)جمعہ ‘دنوں میں سب سے بہترین دن ہے ‘نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:,, “خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا“,, (مسلم رقم:۸۵۴)(ترجمہ”بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اور اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا)نیز فرمایا:,, “لا تطْلُعُ الشَّمْسُ ولا تَغْرُبُ على يومٍ أفضلَ من يَوْم الجُمعة، وما من دابَّة إلا وهي تَفْزَعُ يومَ الجُمُعةِ إلا هَذيْنِ الثَّقَلَيْنِ الجنَّ والإنْسَ ,,(صحیح ابن حبان رقم:۲۷۵۹‘ابن خزیمہ رقم:۱۷۲۷‘ابن قیم نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ‘دیکھئے: زاد المعاد ۱ ۳۹۹)
(۴)اللہ تعالی نے اسے تمام مسلمانوں کے لئے عید کا دن قرار دیا ہے‘نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا: ,, “إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ، جَعَلَهُ اللهُ لِلْمُسْلِمِينَ، فَمَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ,, (ابن ماجہ رقم:۱۰۹۸‘علامہ البانی نے اسے صحیح ابن ماجہ ۹۰۱ میں صحیح قرار دیا ہے )
(۵)اس دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے جس میں ہر دعا قبول ہوتی ہے ‘جیسا کہ نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا:,, “إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ لَسَاعَةً لاَ يُوَافِقُهَا مُسْلِمٌ قَائِمٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللهَ خَيْرًا إِلاَّ أَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَقَالَ بِيَدِهِ يُقَلِّلُهَا، يُزَهِّدُهَا” ,, (بخاری رقم:۵۲۹۴‘مسلم رقم:۸۵۲)(ترجمہ: اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جس مسلمان بندے کو وہ میسر آ جائے اور وہ کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا ہو ، تو وہ اللہ سے جس چیز سوال کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرمادیتا ہے” اور آپ صلى الله عليہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس گھڑی کے مختصر ہونے کا ارشاد فرمایا )
یہ وقت کونسا ہے ‘اس بارے میں اختلاف ہے مگر راجح اور صحیح بات یہی ہے کہ یہ وقت جمعہ کے عصر سے لے کر غروبِ آفتاب تک ممتد ہوتا ہے‘جیسا کہ ایک حدیث میں یوں آتا ہے ,, “يَوْمُ الْجُمُعَةِ اثْنَتَا عَشْرَةَ سَاعَةً، لاَ يُوجَدُ فِيهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللهَ شَيْئًا إِلاَّ آتَاهُ إِيَّاهُ، فَالْتَمِسُوهَا آخِرَ سَاعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ“,, (نسائی رقم:۱۳۷۴‘البانی نے اسے (۱۳۰۱)میں صحیح قرار دیا ہے)ترجمہ: “جمعہ کا دن بارہ ساعتوں (گھڑیوں) پر مشتمل ہے، اس کی ایک ساعت ایسی ہے کہ اس میں جو بھی مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتے ہوئے پایا جاتا ہے، تو اسے وہ دیتا ہے، تو تم اسے آخری گھڑی میں عصر کے بعد تلاش کرو”
(۶)جمعہ کا دن گناہوں کی معافی کا دن ہے ‘نبیٔ کریمﷺنے فرمایا: ,, “الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ، إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ“,, (مسلم رقم:۲۳۳)ترجمہ: پانچ نمازیں ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اورایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے درمیان میں کیے جانے والے گناہوں کاکفارہ بن جاتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ تم کبیرہ گناہوں سے بچو)
(۷)جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور سب سے عظیم ہے ‘نبی ٔ کریم ﷺ نے فرمایا:إن يوم الجمعة سيد الأيام و أعظمها عند الله (صحیح ابن ماجہ رقم:۸۹۵)ترجمہ:بیشک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور سب سے عظیم ہے
(۸)جمعہ کے دن فجر کی نماز کی انتہائی فضیلت وارد ہوئی ہے ‘بلکہ اسے سب نمازوں میں افضل قرارا دیا گیا ہے ‘نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:,, أفضل الصلوات عند الله صلاة الصبح يوم الجمعة في جماعة ‘‘(صحیح الجامع ۱۱۱۹)اللہ کے یہاں تمام نمازوں میں جمعہ کے دن کی صبح کی با جماعت نماز ہے
(۹)جو شخص جمعہ کے دن یا رات انتقال کرجاتا ہے اللہ تعالی اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے ‘نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ(ترمذی رقم:۱۰۷۴‘البانی نے احکام الجنائز ۴۹۔۵۰ میں اسے صحیح قرار دیا ہے )ترجمہ:جس مسلمان کی بھی جمعہ کے دن یا رات موت ہوتی ہے ‘اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ فرمادیتا ہے)
(۱۰)جمعہ کے دن کو یوم المزید کہا گیا ہے ‘نبیٔ کریمﷺ کے اوپر جمعہ کو پیش کیا گیا ہے ‘چنانچہ حضرت جبریل ۔علیہ السلام ۔تشریف لائے آپ کی ہتھیلی میں ایک ایسی چیز تھی جو سفید شیشے کی طرح تھی جس کے بیچ میں ایک کالا نکتہ تھا ‘آپﷺ نے حضرت جبریل سے اس کے متعلق پوچھا تو جبریل نے فرمایا:,, هذه الجمعة يعرضها عليك ربك لتكون لك عيدا ولقومك من بعدك ، ولكم فيها خير ، تكون أنت الأول ويكون اليهود والنصارى من بعدك ، وفيها ساعة لا يدعو أحد ربه بخير هو له قسم إلا أعطاه ، أو يتعوذ من شر إلا دفع عنه ما هو أعظم منه ، ونحن ندعوه في الآخرة يوم المزيد ‘‘(طبرانی اوسط رقم :۲۰۴۸‘البانی نے صحیح الترغیب (۶۹۴)میں اسے صحیح کہا ہے
جمعہ کے سنن و آداب اور اس میں کئے جانے والے اعمال
(۱)جمعہ کی نمازِ فجر میں نبیٔ کریمﷺسورہ ٔ الم السجدہ اور دوسری رکعت میں سورہ الدہر پڑھا کرتے تھے جیسا کہ نبیٔ کریمﷺ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ‘‘ آپﷺ جمعہ کی صبح کی نماز کی پہلی رکعت میں سورہ ٔ الم السجدہ اور دوسری رکعت میں سورۂ ھل أتی علی الإنسان حین من الدہر۔۔۔۔ پڑھا کرتے تھے,,(بخاری رقم:۸۵۱‘مسلم رقم:۸۸۰)
(۲)جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن بہ کثرت درود پڑھنا ‘نبی کریم ﷺ نے فرمایا :,, “مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمُ الْجمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ عليه السلام، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلاَةِ، فَإِنَّ صَلاَتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَليَّ”. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلاَتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ؟! أَيْ يَقُولُونَ: قَدْ بَلِيتَ. قَالَ: “إِنَّ اللهَ – عز وجل – قَدْ حَرَّمَ عَلَى الأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الأَنْبِيَاءِ عليهم السلام ,,(نسائی رقم:۱۳۷۴:البانی نے اسے ۱۳۰۱ میں صحیح کہا ہے) (ترجمہ: “تمہارے دنوں میں سب سے افضل (بہترین) جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اور اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن بیہوشی طاری ہو گی، لہٰذا تم مجھ پر زیادہ سے زیادہ صلاۃ (درود و رحمت) بھیجو کیونکہ تمہاری صلاۃ (درود و رحمت) مجھ پر پیش کیے جائیں گے” لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری صلاۃ (درود و رحمت) آپ پر کس طرح پیش کی جائیں گی حالانکہ آپ ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے، کہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے، آپ نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے جسم کو کھائے ) وضاحت: تمہارے درود مجھ پر پیش کیے جائیں گے، سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ براہ راست کسی کا درود نہیں سنتے نہ قریب سے نہ بعید سے، قریب سے سننے کی ایک روایت مشہور ہے لیکن وہ صحیح نہیں، صحیح یہی ہے کہ آپ خود کسی کا درود نہیں سنتے فرشتے ہی آپ کا درود پہنچاتے ہیں نیز فرمایا : ,, “أَكْثِرُوا الصَّلاَةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلاَةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا” ‘‘(بیہقی رقم:۵۷۹۰‘سلسلہ صحیحہ میں البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘دیکھئے:۱۴۰۷)
(۳)غسل کرنا ‘نہانا دھونا اور صاف کپڑے پہننا ‘نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا:,,: الْغُسْلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ، وَأَنْ يَسْتَنَّ، وَأَنْ يَمَسَّ طِيبًا إِنْ وَجَدَ‘‘(بخاری رقم:۸۸۰‘مسلم رقم:۸۴۶)(ترجمہ: ہر بالغ پر جمعہ کے دن نہانا ضروری ہے اور یہ کہ وہ مسواک کرے اور یہ کہ اگر میسر ہو تو خوشبو لگائے)
(۴)خوشبو اور مسواک کا استعمال ‘جمعہ کے مسنون اعمال اور آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ جمعہ کے دن خوشبو کا استعمال کرے‘مسواک کرے ‘صاف صفائی کا اہتمام کرنا چاہئے‘نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا : مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاسْتَاكَ وَمَسَّ مِنْ طِيبٍ إِنْ كَانَ عِنْدَهُ، وَلَبِسَ مِنْ أَحْسَنِ ثِيَابِهِ ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى يَأْتِيَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ يَتَخَطَّ رِقَابَ النَّاسِ حَتَّى رَكَعَ مَا شَاءَ أَنْ يَرْكَعَ، ثُمَّ أَنْصَتَ إِذَا خَرَجَ الإِمَامُ فَلَمْ يَتَكَلَّمْ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ صَلاَتِهِ، كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الَّتِي قَبْلَهَا ‘‘(مسند احمد رقم:۱۱۷۶۸‘مسند أحمد کے محققین نے اس کی سند کو حسن کہا ہے )
(۵)سورہ ٔ الکہف کی تلاوت:جیسا کہ نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا: ,, مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الْجُمُعَتَيْنِ ‘‘(مستدرک حاکم رقم:۳۴۴۴‘البانی نے الجامع الصغیر (۶۴۷۰)میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے)(ترجمہ: جو سورة الکہف کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا تو آنئدہ جمعہ تک اس کے لئے ایک خاص نور کی روشنی رہے گی )‘نیز نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا: ,,من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق ‘‘(شعب الإیمان بیہقی رقم:۲۲۲۰‘البانی نے اسے صحیح الجامع(۶۴۷۱)میں صحیح قرار دیا ہے )ترجمہ: جس نے جمعہ کے دن سورۂ الکہف کی تلاوت کی‘تو اس کے اور بیت العتیق (مسجد حرام )کے درمیان روشنی کردی جاتی ہے
(۶)جمعہ کے لئے پہلے نکلنا ‘پہلے پہر پیدل چل کر جانا اور مسجد حاضر ہونا ‘بھی جمعہ کے آداب میں سے ایک مسنون عمل ہے ‘اور یہ انتہائی عظیم سنت ہے جس سے اکثر لوگ غافل ہیں اور سستی کرتے ہیں ‘حالانکہ نبیٔ کریمﷺ نے اس کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے‘اور بہت اجر کا وعدہ فرمایا گیا ہے ‘فرمایا:مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ وَغَدَا وَابْتَكَرَ وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ وَلَمْ يَلْغُ، كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا (ابو داؤد رقم :۳۴۵‘۳۴۴‘عبد الحق الأشبیلی رقم:۳۱۳‘صحیح ابن حبان رقم:۲۷۸۱‘علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘صحیح ابو داؤد(۳۴۵) (ترجمہ: جو غسل کرائے غسل کرے، سویرے سویرے (مسجد) جائے، شروع خطبہ سے موجود رہے، اور امام سے قریب بیٹھے، اور کوئی لغو کام نہ کرے، تو اس کو اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب ملے گا)نیز فرمایا : ,, مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ” ‘‘(بخاری رقم:۸۸۱مسلم رقم:۸۵۰)ترجمہ: جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت کے مانند (خوب اہتمام سے) غسل کیا، پھر وہ(جمعہ میں شریک ہونے کے لیے) پہلی ساعت (گھڑی) میں مسجد گیا، تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں پیش کیا، اور جو شخص اس کے بعد والی گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک گائے پیش کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک مینڈھا پیش کیا، اور جو چوتھی گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک مرغی پیش کی، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک انڈا پیش کیا، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکل آتا ہے تو فرشتے مسجد کے اندر آ جاتے ہیں، اور خطبہ سننے لگتے ہیں”
(۷)جمعہ کے دن اچھا اور بہترین لباس زیب تن کرنا ‘کیوں کہ نبیٔ کریمﷺ کا یہی معمول تھا
یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کو جمعہ کی نماز چھوڑنے سے قطعی پرہیز کرے ‘کیوں کہ جو شخص مسلسل جمعہ کی نماز چھوڑتا رہتا ہے ‘اللہ اس کے دل میں مہر لگادیتا ہے اور وہ غافلوں میں شمار کیا جاتا ہے ‘فرمایا :,, لَيَنْتهيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعهُم الجُمُعات أَوْ لَيَخْتمَن اللهُ على قُلُوبِهِم ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنَ الغَافِلِينَ ‘‘ (مسلم رقم:۸۶۵)ترجمہ : انہوں نے رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم کو اپنے منبر کے تختوں پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ “لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا ، پھر وہ یقینا غافل لوگوں میں سے ہو جائیں گے )