از قلم:مولانا نعمت اللہ عمری
(امام و خطیب جامع مسجد جھوم پورہ,اڈیشا)
گزشتہ مؤرخہ ٣٠/دسمبر ٢٠٢١ءبروز جمعرات بوقت صبح، حضرت العلام جناب مولانا عبد الشکور صاحب اثری رحمہ اللہ کا اندوہناک سانحہ ارتحال پیش آیا اور فی الواقع اس حادثہ جانکاہ کی خبر از ملک عزیز تا بیرونِ ممالک بیشتر علمی، دعوتی، اصلاحی، تدریسی اور جماعتی و عوامی حلقوں میں انتہائی رنج وغم اور حسرت و افسوس کے ساتھ پڑھی گئی اور جس نے بھی سنا نشان افسوس بن کر رہ گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون، اللھم اغفر لہ و ارحمہ و ادخلہ الجنہ، آمین یا رب العالمین!
مولانا موصوف کے تعلق سے چند باتیں نذر قارئین کرتا ہوں :
(١)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مولانا محترم اہلحدیثان ہند کے بےباک خطیب، نامور عالم دین اور ملک بھر کے کونے کونے میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں اور عظیم الشان اجتماعات اور اجلاسہائے عام کے درخشندہ اور مثالی مقرر کے ساتھ ساتھ قدیم ترین جماعتی درس گاہ جامعہ اثریہ دار الحدیث مؤ ناتھ بھنجن یوپی کے شیخ الجامعہ اور شیخ الحدیث کے رتبہ بلند پر فائز معروف و کامیاب استاذ اور مربی تھے،چنانچہ موصوف کے انتقال، تجہیز وتکفین، سپرد لحد اور دعائے مغفرت کے بعد بہت سے علماء، ارباب قلم، تلامذہ، متعارفین اور عقیدت مندوں نے اپنی اپنی تحریروں اور اظہارِ خیالات سے خراج عقیدت و تحسین پیش کیا اور ان کی ہمہ جہت خدمات کی سراہنا کرتے ہوئے دعائیں دیں، مثلاً (ا) مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند کے امیر محترم عزت مآب شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی مدنی حفظہ اللہ نے موصوف علیہ الرحمہ کے انتقال پر ملال کو دینی اور علمی دنیا کا ایک عظیم خسارہ قرار دیا (ب) شیخ عبد الحکیم عبد المعبود مدنی حفظہ اللہ نے مرحوم کے تعلق سے مؤرخانہ طرز کے مواد و معلومات سے روشناس کرایا (ج) شیخ عبد السلام بن صلاح الدین مدنی حفظہ اللہ نے رنج وغم اور درد و الم میں ڈوبی ہوئی تحریر سے قارئین کو مستفید فرمایا (د) اسی طرح برادرم جناب ابو شاکر عین الحق فیضی اور عزیز القدر جناب شمیم اختر ثناء اللہ سلفی صاحبان نے عمدہ نکات و معلومات سے حق شاگردی ادا کیا، جزاھم اللہ احسن الجزاء۔
(٢) ناچیز کو مولانا موصوف سے پڑھنے کا تو اتفاق نہیں ہوا ہے، البتہ جس سال مادر علمی جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند سے اعلی تعلیم کے لئے ہم چار ساتھی (راقم سطور اور عم زاد بھائی جناب نور محمد مرحوم از بابو ڈیہ، اور ممیرا بھائی جناب مولوی محمد عمر صاحب مفتاحی از دیگھاری اور جناب محمد امتیاز صاحب چمپاپوری ثم حیدرآبادی)مؤ گئے تھے،اتفاق سے میرا اور برادرم جناب محمد عمر صاحب کا داخلہ جامعہ فیض عام میں ہوا، اور جناب نور محمد مرحوم اور جناب محمد امتیاز صاحبان کا جامعہ اثریہ میں ہوا، ایک ہی مادری درس گاہ کے چار ہم سبق ساتھیوں کا دو ادارے میں داخلہ اور برابر کی دو دو تقسیم ہو جانے کی وجہ سے ہم چاروں ساتھیوں کی جامعہ فیض عام تا جامعہ اثریہ، اورجامعہ اثریہ تا جامعہ فیض عام بلا ناغہ روزانہ آمد ورفت لگی رہتی تھی اور جامعہ اثریہ کے طلبہ میں مولانا کا جو رعب و دبدبہ سوار تھا، جو مربیانہ نگرانی اور عقابی نگاہ تھی اور جو گرج دار جلالی صدائیں اور سبق آموز سزائیں تھیں، وہ سب سن سن کر مارے خوف سے ہم لوگ بھی، ان کی نگاہ سے بچ بچا کر آنے جانے ہی میں عافیت محسوس کرتے تھے، واضح رہے کہ اس عہد گزشتہ میں جامعہ فیض عام میں ہم علاقائی طلبہ کے رہبر جناب مولانا محمد سعید صاحب فیضی حفظہ اللہ از شہرپور اور جامعہ اثریہ میں جناب مولانا عین الحق صاحب اثری حفظہ اللہ از چنگائڈیہ تھے اور دونوں صاحبین بالکل اپنے بھائیوں کی طرح رہنمائی اور نگرانی کرتے تھے، اللہ تعالیٰ دونوں کی حیات و خدمات میں خوب خوب برکتوں کی فراوانی فرمائے آمین۔
بہر حال ہم لوگوں کے داخلے کا پہلا سال، مولانا عبد الشکور صاحب اثری رحمہ اللہ کی بعد از فراغت، تدریس کا جامعہ اثریہ میں پانچواں یا چھٹا سال تھا اور تدریس سے زیادہ تقریر اور پابندی سے بالاقساط خطبہ ہائے جمعہ کی شہرت اور مقبولیت، شہر مئو کی علمی، دعوتی اور تعلیمی بساط پر عام ہو چکی تھی، باغیچہ والی مسجد کا تذکرہ زبان زد خاص و عام تھا اور خطبہ جمعہ سننے کے لئے جوق در جوق وہاں طلبہ جاتے تھے اور سننے والے طلبہ کئی دنوں تک موصوف کی گفتگو، انداز خطاب و تکلم، ڈائیلاگ اور نکات آفرینی کا چرچا کرتے تھے۔
(٣) اتفاق سے جامعہ اسلامیہ فیض عام میں تین سالہ تعلیم کے بعد میں جامعہ دارالسلام عمر آباد چلا گیا اور وہاں کی پانچ سالہ منتہی تعلیم اور آندھراپردیش میں تین سالہ خدمت و ملازمت کے بعد جب بحیثیت مدرس جامعہ مصباح العلوم السلفیہ جھوم پورہ پہنچا تو پھر ایک طویل عرصے کے بعد صوبہ اڑیسہ اور جھارکھنڈ کی جماعتی آبادیوں اور بستیوں ( جیسے جینت گڈھ، جگناتھ پور، مولا نگر، چمپوا، ارسلہ اور جھوم پورہ، کیونجھر وغیرہ ) کے عظیم الشان اجتماعات اور جلسوں میں، نہ صرف ان کے بیانات اور تقریریں سننے کے سنہرے مواقع ملے، بلکہ مذکورہ بالا مقامات کے اکثر جلسوں میں ناچیز کو نظامت کی ذمہ داریوں اور اس کے پس پردہ از آغاز اجلاس تا اختتام اجلاس رات رات بھر جاگتے رہنے کی کٹھنائیوں سے بھی گزرنا پڑتا تھا، مولانا موصوف دور دراز کے ان جلسوں میں دو دو اور ڈھائی ڈھائی گھنٹوں تک مسلسل تقریریں کرتے تھے، میری کوشش ہوتی تھی کہ دعوت خطاب اور نظامت کی کارروائی سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر کے لئے کہیں آرام کر لوں، لیکن مولانا صاحب چند منٹوں کی تمہید و تقریر کے بعد ناظم اجلاس کو اسٹیج پر بلا کر اور دوران خطاب عام کبھی کبھی کوئی مسئلہ یا حوالہ یا سوال بھی پوچھ کر اونگھ تک کا بھی خاتمہ فرما دیتے تھے۔
جلسوں کی نظامت کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رہے کہ علاقے کی معروف جماعتی اور علمی بستی ماتھاسیر کے عظیم الشان اجلاس عام (منعقدہ سن ٢٠٠٣ء) میں بھی بعض وجوہ کی بنا پر منتظمین اجلاس نے ناچیز کو بحیثیت ناظم اجلاس مامور کیا تھا، استاد محترم جناب مولانا و قاری محمد یونس صاحب اثری حفظہ اللہ، حالیہ امیر محترم صوبائی جمعیت اہلحدیث جھارکھنڈ کی صدارت تھی اور فضیلۃ الشیخ محمد اشفاق صاحب مدنی حفظہ اللہ (دربھنگہ، بہار) فضیلۃ الشیخ مولانا عبد الشکور صاحب اثری رحمہ اللہ اور علاقے کی مؤقر و بےباک ہستی اور نمونہ سلف فضیلۃ الشیخ مولانا عبد العلیم صاحب مدنی حفظہ اللہ وغیرہم مشتہر و مدعو تھے اور یاد گار بیانات اور کامیابی کے ساتھ اجلاس ہمکنار ہوا تھا،
اس اجلاس کی نظامت کی کارروائی ناچیز کے لئے دو باتوں کی وجہ سے مزید یاد رہنے والی ہو گئی تھی: اول یہ کہ اجلاس کی شروعات ہی میں دو فریقی ذہنوں نے غیر مشتہر ناموں کو دے دے کر تھوڑی سی بد مزگی اور الجھن جیسی تلخی پیدا کر دی، پھر جلد ہی یہ طوفان تھم گیا، اور دوم یہ کہ شیخ اشفاق صاحب مدنی حفظہ اللہ کے خطاب میں باب عقیدہ میں ایک ایک جملہ پر اعتراض اور تعلیق کی نوبت آ گئی، جسے شیخ نے دو بارہ اسٹیج پر تشریف لا کر وضاحت و تشریح کی، اور ایک عرصہ کے بعد صوبہ اڑیسہ سے احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں زیر تعلیم طلبہ نے بتایا کہ، کتاب التوحید میں جب وہ جملہ اور مسئلہ زیر درس آیا تو شیخ موصوف نے فرمایا کہ: آپ طلبہ اس مسئلے کو اچھی طرح سمجھ لو، کیونکہ جب میں جھارکھنڈ کے ایک اجلاس میں اس پر خطاب کر رہا تھا تو وہاں پر ناظم اجلاس نے اس پر تعلیق اور اعتراض جتایا تھا۔
بہر حال ماتھاسیر کا یہ اجلاس عام بھی ناچیز کی نظامت میں ہوا تھا اور مولانا مرحوم کے ذکرِ خیر میں برقی مجلہ ارمغانِ سلام نے بھی اس اجلاس کا تذکرہ اور روداد قلم بند کیا ہے، غفر اللہ لی و لھم!!!
(٤)نیز چند سال قبل کی بات ہے، علاقے میں ایک زمانہ پہلے پنجاب سے اسلام قبول کر کے تشریف لائے ہوئے جناب محمد ابراہیم صاحب (سابقہ نام راکیش سنگھ سیٹھی) مرحوم جب بیمار بیمار رہنے لگے اور گھٹنوں کے درد کے شکار ہو گئے، تو میں نے ان کو اڑیسہ بلایا، وہاں سے تعاون ہوا، پھر ایک مکتوب مولانا اثری صاحب رحمہ اللہ کے نام لکھ کر ابراہیم صاحب کو مئو بھیجا، مولانا نے بھر پور پزیرائی کی، جمعہ یا کسی نماز کے بعد خط کا اعلان پڑھ کر مصلیان کو سنایا اور خاطرخواہ تعاون فرما کر مئو کے ماہر مسلم حکیم برائے حجامہ کی رہنمائی کی اور وہاں کے علاج و معالجہ سے مریض موصوف بہت مطمئن اور خوش ہوئے اور مولانا صاحب کی پزیرائی اور حسن سلوک کا بار بار تذکرہ کرتے رہے، اب دونوں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے، جزاھم اللہ احسن الجزاء وغفر لھم جمیعا۔
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا موصوف کی جمیع خدمات و حسنات اور نیکیوں کو قبول فرمائے، جنت الفردوس کا مکین بنائے اور ہم سب کو ان کی پرخلوص حیات و کاوشات سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین والسلام
فقط نعمت اللہ عمری از بابو بابو ڈیہ۔