از قلم:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
داعی و مبلغ اسلامک دعوہ سینٹر؛میسان طائف (سعودی عرب)
مدیر مسؤل برقی مجلہ :ارمغان ِ سلام
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین و بعد
اس وقت ہمارا معاشرہ جن جکڑ بندیوں میں جکڑا ہوا ہے؛جن معاصی و سیئات سے جوجھ رہا ہے؛ان میں ایک اہم اور انتہائی خطرناک مرض ,,جہیز ,,ہے؛جس سے ہمارا پورا معاشرہ جوجھ رہا ہے؛جس کی آگ میں سارے لوگ جھلس کر رہ گئے ہیں؛کیا امیر کیا غریب ؛کیا چھوٹا کیا بڑا ؛کیا مرد کیا عورت سب اس تپش سے پریشا ن ہیں؛اور بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خدشات بھی پلنے لگے ہیں کہ کیا جہیز حرام ہے یا حلال ؟جائز ہے یا ناجائز ؛لہذا مناسب خیال کیا کہ یہ سطور اس حوالہ سے حوالہ ٔ قرطاس کر دئے جائیں؛ان شاء اللہ مسئلہ کی نوعیت سمجھنے میں کافی حد تک معاون ثابت ہوں گے ۔
جہیز اور تلک بہر صورت ہندوانہ رسم و رواج ہے؛اس میں کئی چیزیں خلاف شرع پائی جاتی ہیں
(۱)جب تک جہیز نہیں جب تک شادی کی بات مکمل نہیں ہو پاتی ہے؛حد تو یہ ہے کہ بیع و شرا کی طرح کمی بیشی ہوتی ہے,اور کم کروانے کی کوشش کی جاتی ہے
(۲)جہیز کی حرمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ کوئی بھی آدمی بہ رضا و رغبت نہیں دیتا ؛اور اگر کوئی برضا و رغبت نہ دے؛تو یہ زبردستی ہی ہوئی ؛ جو بلا شبہ حرام ہے؛نبی کریمﷺ نے فرمایا:( لا يَحِلُّ مالُ امرِيءٍ مُسلمٍ إلَّا بِطِيبِ نفسٍ مِنهُ)(صحیح الجامع :حدیث نمبر:۷۶۶۲)(ترجمہ:کسی بھی مسلمان کا مال کھانا اس کے بغیر رضامندی کے جائز نہیں ہے)
(۳)جہیز کی حرمت کے لئے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ یہ ظلما بیٹی کے باپ سے اینٹھا جاتا ہے؛ اور ظلم تو بلا شبہ حرام ہے ؛حدیث قدسی میں ہے (عَنِ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ فِيما رَوَى عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، أنَّهُ قالَ: يا عِبَادِي، إنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ علَى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ بيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فلا تَظَالَمُوا، يا عِبَادِي، كُلُّكُمْ ضَالٌّ إلَّا مَن هَدَيْتُهُ، فَاسْتَهْدُونِي أَهْدِكُمْ، يا عِبَادِي، كُلُّكُمْ جَائِعٌ إلَّا مَن أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِي أُطْعِمْكُمْ، يا عِبَادِي، كُلُّكُمْ عَارٍ إلَّا مَن كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِي أَكْسُكُمْ، يا عِبَادِي، إنَّكُمْ تُخْطِئُونَ باللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا، فَاسْتَغْفِرُونِي أَغْفِرْ لَكُمْ، يا عِبَادِي، إنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّي فَتَضُرُّونِي، وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِي فَتَنْفَعُونِي، يا عِبَادِي، لو أنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وإنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا علَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنكُمْ؛ ما زَادَ ذلكَ في مُلْكِي شيئًا، يا عِبَادِي، لوْ أنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وإنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا علَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ؛ ما نَقَصَ ذلكَ مِن مُلْكِي شيئًا، يا عِبَادِي، لو أنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وإنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، قَامُوا في صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي، فأعْطَيْتُ كُلَّ إنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ؛ ما نَقَصَ ذلكَ ممَّا عِندِي إلَّا كما يَنْقُصُ المِخْيَطُ إذَا أُدْخِلَ البَحْرَ، يا عِبَادِي، إنَّما هي أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ، ثُمَّ أُوَفِّيكُمْ إيَّاهَا، فمَن وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ، وَمَن وَجَدَ غيرَ ذلكَ فلا يَلُومَنَّ إلَّا نَفْسَهُ. وفي روايةٍ: إنِّي حَرَّمْتُ علَى نَفْسِي الظُّلْمَ وعلَى عِبَادِي، فلا تَظَالَمُوا.)(مسلم حدیث نمبر:۲۵۷۷) (ترجمہ: رسول اللہ ﷺنے اپنے رب عزوجل سے روایت کی کہ اس نے فرمایا “
ائے میرے بندو !
میں نے ظلم کو اپنے لیے حرام ٹھرایا یے اور تمھارے درمیان بھی اس کو حرام قراردیا ہے ،پس تم باہم ظلم نہ کرو۔
ائے میرے بندو !
تم سب گمراہ ہو مگر جس کو میں ہدایت دے دوں(وہ ہدایت یافتہ ہے )پس تم مجھ سے مانگو میں تمہیں ہدایت ضرور دوں گا۔
ائے میرے بندو !
تم سب بھوکے یو ،ہاں جس کو میں کھانا کھلا دوں(وہ بھوکا نہیں) تم مجھ سے کھانا طلب کرو،میں تمہیں ضرور کھانا دوں گا-
ائے میرے بندو !
تم سب عریاں (ننگے)ہو، ہاں ! مگرجسے میں لباس پہنا دوں(وہ عریاں نہیں) پس تم مجھ سے لباس طلب کرومیں تمہیں ضرور لباس پہناؤں گا۔
ائے میرے بندو !
تم دن رات خطایئں کرتے ہو اور(میری شان یہ ہے کہ ) میں سب خطاؤں کو معاف کرنے والا ہوں۔ پس تم مجھ سے بخشش مانگو،میں تم سب کو بخش دوں گا۔
ائے میرے بندو !
اگر تم مجھے ضرر پہنچانا چاہو تو کسی صورت بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ ائے میرے بندو ! اگر تم مجھے نفع پہنچانا چاہو ،تو ہر گزنفع نہیں پہنچا سکتے۔
ائے میرے بندو !
اگر تمھارے اوّل و آخر تمام انسان اور جن سب مل کر ایک سب سے بڑے متقی اور پرہیزگار بن جائیں تو اس بات سے میری بادشاہت میں کچھ بھی تو اضافہ نہیں ہو گا۔
ائے میرے بندو !
اگر تمھارے اوّل و آخر انسان اور جن سب مل کر ایک سب سے بَرے شخص کی مانند ہو جایئں تو اس سے میری بادشاہت میں کچھ بھی کمی نہیں ہو گی۔
ائے میرے بندو !
اگر تمھارے اوّل و آخر انسان اورجن سارے کے سارے مل کر ایک میدان میں اکٹھے ہو جایئں اور مجھ سے اپنی اپنی حاجات کا سوال کریں اور میں ہر ایک کی حاجت روائی کروں تو اس سے میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں آ سکتی جتنی ایک سوئی کو سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں کمی آ جاتی ہے۔
ائے میرے بندو !
یہ تمہارے اعمال ہی تو ہیں جن کو میں شمار کرتا رہتا ہوں ،پھر تمہیں ان کا پوراپورا اجرعطا کروں گا۔ پس جو آدمی بھلائی کو پائے اسے چاہیے کہ اللہ کی حمد بیان کرے اورجو بھلائی کے علاوہ کسی دوسری چیز کو پائے تو وہ صرف اپنے نفس کو ملامت کرے)
کیا اس کے باوجود بھی ہم اسے حلال کہہ سکتے ہیں ؟کیا اس کی حرمت میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے ؟
مجھے بتایا جائے کہ کیا ہم سسکتی انسانیت کو اس ظلم سے بچا سکیں گے؟
مجھے یہ بھی بتایا جائے کہ کیا ہم غریب و محتاج والدین کا سہارا بنیں گے ؟
اس بات کا جواب بھی تلاش کیا جانا چاہئے کہ ہم اپنے مال کو ایسے لٹیروں کو دیتے رہیں گے؟
کیا اس کے جواز کو فراہم کرنے والے اس کے اس جرم میں شریک نہیں گردانے جائیں گے ؟
(۳)جہیز کی حرمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جہیز لینے والا کس بنیاد پر لڑکی کے باپ سے جہیز لیتا ہے ؟کوئی وجہ ؟
کیا اس کا یہ موروثی حق ہے؟کیا اس نے بیٹی کے باپ کو رکھنے دیا ہے؟قرض دیا ہے؟
حد تو یہ ہے کہ کبھی کبھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس سے کم میں نقصان ہو جائے گا
اس سے کم میں کوئی فائدہ نہیں ہے
کبھی تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے بیٹے کی تعلیم میں اتنا لگایا ؛اتنا خرچ کیا ؟لہذا اس سے کم میں (ایک مخصوص رقم کی تعیین کے بعد)بالکل رشتہ طے نہیں ہوگا
(۴)جہیز کی حرمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عام طور پر اگر کوئی لڑکی جہیز نہیں لاتی ہے تو اس کو حد سے زیادہ ستایا جاتا ہے؛طعنے دئے جاتے ہیں؛ زدو کوب کیا جاتا ہے؛مارا پیٹا جاتا ہے؛کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جہیز نہ لانے کی صورت میں تیل پٹرول چھڑک کر مار ڈالا جاتا ہے وغیرہ
کتنی لڑکیاں ساس کے ظلم و تشدد کا شکار ہو گئیں,؛کتنی لڑکیوں نے جہیز نہ لانے کی صورت میں ہونے والے ظلم و ستم کے زیر اثر اپنےآپ کو موت کے گھاٹ اتار لیا
مجھے کوئی بتائے کہ اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؛معاشرہ؟معاشرہ میں موجود علماء و دعاۃ اور مصلحین یا کوئی اور ؟
(۵)جہیز کی حرمت کی ایک دلیل یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ نبی ٔ کریمﷺ؛صحابہ ٔ کرام ؛تابعین وغیرہ کے ادوار میں بغیر لین دین کے ہی شادی ہوا کرتی تھی؛جس کا وجود اب ناپید اور عنقا ہے
قرون مفضلہ مشہود لہا بالخیر میں شادیاں بغیر لین دین اور بغیر تلک جہیز کے ہوا کرتی تھیں؛چند نمونے آپ بھی ملاحظہ فرما لیں؛پھر اس پر میرا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں
(۱)صحابی ٔ رسولﷺحضرت جلیبیب ۔رضی اللہ عنہ۔کی شادی
حضرت جلیبیب ۔رضی اللہ عنہ۔ایک غیر خوبصورت انسان تھے,؛مال و دولت سے تہی دامن؛شکل و صورت بالکل نہیں؛حسن و جمال ندارد
اس حدیث کا صرف ترجمہ ملاحظہ فرما لیجئے : جلیبیب ایک انصاری صحابی تھے جو مالدار تھے،نہ خوبصورت، کسی بڑے قبیلہ سے تعلق تھا نہ ہی کسی منصب پر فائز تھے، مگر ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اللہ کے رسول سے اور اللہ کے رسول ان سے محبت کرتے تھے۔
قارئین کرام!قائد ہو تو ایسا کہ جو اپنے عام ساتھیوں کی بھی ضروریات کا خیال رکھتا ہو۔ ایک دن اللہ کے رسول نے اپنے اس ساتھی کی طرف شفقت بھری نظروں سے دیکھا اور مسکراتے ہوئے فرمایا:
’’جلیبیب تم شادی نہیں کروگے؟‘‘
سیدنا جلیبیب ؓجواب میں عرض کرتے ہیں:
’’ اللہ کے رسول! مجھ جیسے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی کون کرے گا۔‘‘
اب ذرا اللہ کے رسول کے اخلاق کریمہ کو ملاحظہ کریں کہ آپ اپنے اس فقیر صحابی کوکس قدر اہمیت دے رہے ہیں اور اپنی بات کو دہرا رہے ہیں: ’’جلیبیب! شادی نہیں کروگے؟‘‘
وہ پھر جواباً عرض کرتے ہیں:
’’اللہ کے رسول! بھلا میرے ساتھ شادی کون کریگا۔میرے پاس نہ مال ودولت ، نہ حسن وجمال نہ جاہ ومنصب ہے۔‘‘
مگر رسالت مآب کی نظر اس کے دنیاوی معیار پر نہیں بلکہ اس کی دینداری اور للہیت پر ہے۔آپ تیسری مرتبہ پھر وہی الفاظ دہرارہے ہیں: ’’ جلیبیب! تم شادی نہیں کروگے؟ ‘‘
وہ جواب میں پھر اپنا وہی عذر پیش کر تے ہیں:
’’اللہ کے رسول! مجھ سے شادی کون کرے گا؟،میرے پاس ما ل ودولت نہیں، میرا خاندان کوئی معروف اور بڑا خاندان نہیں۔ میں خوبصورت بھی نہیں ہوں ،نہ ہی میرے پاس کوئی منصب ہے۔ تب اللہ کے رسول اپنے ساتھی کی مایوسی کو خوشی میں تبدیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جلیبیب!فکر نہ کرو، تمہاری شادی میں خود کروں گا۔ ‘‘
سیدناجلیبیبؓ نے کہا:
’’مجھ بے مایہ سے تعلق قائم کر کے کون خوش ہوگا، اللہ کے رسول!؟ ‘‘
آپ نے اُن سے فرمایا:
’’نہیں جلیبیب!تم اللہ کے نزدیک بے قیمت نہیں ہو، تمہاری وہاں بڑی قدر ومنزلت ہے۔ ‘‘
اسی دوران ایک دن آپ نے فرمایا:
’’ جلیبیب!فلاں انصاری کے گھر جاؤ اور اس سے کہو کہ اللہ کے رسول تمہیں سلام کہہ رہے ہیں اور فرماتے ہیں: اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔‘‘سیدنا جلیبیبؓ خوشی خوشی اس انصاری کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ دروازہ پر دستک دی، گھر والے اندر سے پوچھتے ہیں کون؟ جواب دیا: جلیبیب۔ گھر والے کہتے ہیں: کون جلیبیب؟ ہم تو تمہیں نہیں جانتے۔گھر کے مالک انصاری صحابی باہر نکلے اور پوچھا: کیا چاہتے ہو، کہاں سے اور کس مقصد سے آئے ہو؟ جلیبیب جواباً عرض کرتے ہیں: اللہ کے رسول نے آپ لوگوں کو سلام بھیجا ہے۔انصاری صحابی حیرت سے کہتے ہیں:
’’ اللہ کے رسول نے مجھے سلام بھیجا ہے، ارے یہ تو میرے لیے بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ ‘‘
خوشی سے سرشار ہوکر انہوں نے گھر والوں کو بتایا۔ پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پھرسیدنا جلیبیب ؓنے کہا:
’’اللہ کے رسول نے تمہیں سلام کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔‘‘
صاحب خانہ نے یہ بات سنی تو سناٹے میں آگئے۔ یہ شخص میرا داماد بنے گا؟ انہوں نے سوچا: نہ مال ودولت نہ خوبصورتی، نہ بڑا خاندان ۔ کہنے لگے : ذرا ٹھہرو !میں اپنے گھر والوں سے مشورہ کرلوں۔ رسول اللہ کے یہ انصاری صحابی گھر کے اندر گئے، اہلیہ کو بلایا اور رسول اللہ کا پیغام سنایا کہ آپ فرماتے ہیں کہ اپنی بیٹی کی شادی جلیبیب سے کردو۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ ساتھ والے کمرے میں پردے کے پیچھے ان کی بیٹی بھی ماں باپ کی گفتگو سن رہی تھی۔ماں گویا ہوئی: جلیبیب کے ساتھ شادی کیسے کردوں۔ اپنی بیٹی ایک ایسے شخص کے سپرد کردوں جو خوبصورت بھی نہیں ، مالدار بھی نہیں اور بڑا خاندان بھی نہیں۔ ہم نے تو فلاں فلاں خاندانوں کی طرف سے آنے والے رشتوں کو مسترد کر دیا تھا۔ میاں بیوی آپس میں گفتگو کررہے تھے۔بیٹی بھی پردے کے پیچھے کھڑی یہ سب ماجرا دیکھ اور سن رہی تھی۔ جب سیدنا جلیبیبؓ نا امید ہو کر واپس جانے لگے تو لڑکی نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جھکی ہوئی نگاہوں سے والدین سے مخاطب ہوکر آہستہ سے کہنا شروع کیا:
ا َٔتُرِیدُونَ أَنْ تَرُدُّوا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ أَمْرَہُ ۔
’’کیا آپ لوگ اللہ کے رسول کا حکم ٹالنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟‘‘
قار ئین کرام! اس بچی کی سوچ فکر اور محبتِ رسول کو ہزار مرتبہ داد دیجیے، کہنے لگی:
ادْفَعُونِي إِلٰی رَسُولِ اللَّہِ ۔
’’مجھے رسول اللہ کے سپرد کردیں، جہاں چاہیں وہ اپنی مرضی سے میری شادی کردیں۔‘‘
فَإِنَّہٗ لَنْ یُضَیِّعَنِي ۔
’’ وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کریں گے۔‘‘
والدین نے بھی سر جھکادیا۔ تھوڑی دیر پہلے تک ان کے ذہن میں نہ تھا کہ وہ اس رشتہ کو قبول نہ کرنے کی صورت میں اللہ کے رسول کے حکم کو نظر اندازکرنیوالے بن جائیں گے۔وہ اپنی بیٹی کی عقل ودانش اور اس کے خوبصورت فیصلے پر راضی ہوگئے۔ مطمئن اور خوش باش سیدنا جلیبیب پیغام پہنچا کر واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہی اُس ذہین وفطین اور سمجھدار بچی کے والد اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا:
’’اللہ کے رسول !آپ کا پیغام ملا۔ آپ کا حکم، آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر، میں راضی ہوں۔ میری بیٹی بھی اور میرے گھر والے سبھی آپکے فیصلے سے راضی اور خوش ہیں۔ رحیم ورؤف نبی کو بھی اس بچی کے جذبات اورسمع وطاعت پر مبنی جواب کا علم ہوچکا تھا: اللہ کے رسول نے اسے ایک عظیم تحفہ عطا فرمایا۔ اپنے مبارک ہاتھوں کو بارگاہ الہٰی میں اٹھالیا اور دعا فرمائی :
اللّٰہُمَّ صُبَّ الْخَیْرَ عَلَیْہِمَا الْخَیْرَ صَبًّا وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَہُمَا کَدًّا ۔
’’اے اللہ !ان دونوں پر خیر وبرکت اور بھلائی کے دروازے کھول دے اور ان کی زندگی کو مشقت اورپریشانی سے دو رکھ۔)(مسند أحمد حدیث نمبر:۱۲۴۱۶؛مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر:۱۰۳۳۳)
(۲) یہ واقعہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے؛یہ واقعہ بخاری و مسلم میں مرقوم ہے؛اور کئی دروس و اسباق لئے ہم سے کئی مطالبات کرتے اور ہماری ضمیر کے تاروں کو چھیڑتا ہے ؛واقعہ مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :
جاءَتِ امْرَأَةٌ إلى النَّبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقالَتْ: جِئْتُ أهَبُ نَفْسِي، فَقامَتْ طَوِيلًا، فَنَظَرَ وصَوَّبَ، فَلَمَّا طالَ مُقامُها، فقالَ رَجُلٌ: زَوِّجْنِيها إنْ لَمْ يَكُنْ لكَ بها حاجَةٌ، قالَ: عِنْدَكَ شَيءٌ تُصْدِقُها؟ قالَ: لا، قالَ: انْظُرْ. فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ فقالَ: واللَّهِ إنْ وجَدْتُ شيئًا، قالَ: اذْهَبْ فالْتَمِسْ ولو خاتَمًا مِن حَدِيدٍ. فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ قالَ: لا واللَّهِ ولا خاتَمًا مِن حَدِيدٍ. وعليه إزارٌ، ما عليه رِداءٌ، فقالَ: أُصْدِقُها إزارِي، فقالَ النَّبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: إزارُكَ إنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ منه شَيءٌ، وإنْ لَبِسْتَهُ لَمْ يَكُنْ عليها منه شَيءٌ. فَتَنَحَّى الرَّجُلُ فَجَلَسَ، فَرَآهُ النَّبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مُوَلِّيًا، فأمَرَ به فَدُعِيَ، فقالَ: ما معكَ مِنَ القُرْآنِ؟ قالَ: سُورَةُ كَذا وكَذا، لِسُوَرٍ عَدَّدَها، قالَ: قدْ مَلَّكْتُكَها بما معكَ مِنَ القُرْآنِ.)(بخاری حدیث نمبر:۵۸۷۱؛مسلم حدیث نمبر:۱۴۲۵)(ترجمہ: ایک عورت نبی کریم ﷺکی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو آپ کے لیے وقف کرنے حاضر ہوئی ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر آپ نے نظر کو نیچی کر لیا اور پھر اپنا سر جھکا لیا۔ جب اس عورت نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺنے ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس کے بعد آپ ﷺکے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ کو ان سے نکاح کی ضرورت نہیں ہے تو ان سے میرا نکاح کر دیجیے۔ آپ ﷺنے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس (مہر کے لیے) کوئی چیز ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! نبی کریم ﷺنے ان سے فرمایا کہ اپنے گھر جاؤ اور دیکھو ممکن ہے تمہیں کوئی چیز مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آ گئے اور عرض کیا: اللہ کی قسم! میں نے کچھ نہیں پایا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوہے کی ایک انگوٹھی بھی مل جائے تو لے آؤ۔ وہ گئے اور واپس آ گئے اور عرض کیا: اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! میرے پاس لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں البتہ میرے پاس ایک تہمد ہے۔ انہیں (خاتون کو) اس میں سے آدھا دے دیجیے۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس تہمد کا کیا کرے گی۔ اگر تم اسے پہنو گے تو ان کے لیے اس میں سے کچھ نہیں بچے گا اور اگر وہ پہن لے تو تمہارے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ اس کے بعد وہ صحابی بیٹھ گئے۔ کافی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب وہ کھڑے ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ وہ واپس جا رہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں بلوایا جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہیں قرآن مجید کتنا یاد ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ انہوں نے گن کر بتائیں۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا تم انہیں بغیر دیکھے پڑھ سکتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر جاؤ۔ میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا۔ ان سورتوں کے بدلے جو تمہیں یاد ہیں)
اندازہ کیجئے کہ عہد رسول ﷺمیں شادیاں کتنی سادگی کے ساتھ انجام پژیر ہوا کرتی تھی؛چٹ لگن پٹ بیاہ اسی کو کہتے ہیں ؛نہ کوئی کارڈ ؛نہ کوئی منگنی ؛نہ ریتی رواج؛نہ رسم نہ مہندی نہ سگائی ؛نہ لین دین؛نہ تلک جہیز؛نہ مطالبہ نہ ڈیمانڈ؛نہ فرمائش نہ گزارش ؛نہ بارات نہ چھینکائی
دوسری طرف ہم نے کتنی مہنگی کردی ہے شادی ۔۔۔
(۳)حضرت عاصم بن عمر کی شادی کا واقعہ اور دروس و عبرت
یہ واقعہ ہمیں کئی اہم امور کی طرف توجہ دلاتا ہے؛کئی امور پر سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے ؛کئی نقاط پر ہماری نگاہیں مرکوز کر دیتا ہے ؛واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
ایک رات حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے اور ان کی خبرگیری میں مصروف تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو تھکاوٹ محسوس ہوئی تو کسی گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سنا کہ ایک عورت اپنی بیٹی سے کہہ رہی ہے کہ بیٹی! جاؤ اٹھو اور دودھ میں پانی ملا دو۔ بیٹی نے کہا اماں! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ امیرالمومنین حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیا ہے۔ اس کی ماں نے کہا اے بیٹی! جاؤ بھی، بھی، جاؤ بھی، بھی، دودھ میں پانی ملا دو، عمر رضی اللہ عنہ تو ہمیں نہیں دیکھ رہا ہے۔ اس لڑکی نے جواب دیا کہ اماں! اگر عمر رضی اللہ عنہ ہمیں نہیں دیکھ رہا
تو عمر رضی اللہ عنہ کا رب تو ہمیں دیکھ رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس نیک لڑکی کی بات بہت پسند آئی، اپنے غلام ’’اسلم‘‘ کو جو اس وقت ان کے ہراہ تھے فرمایا اے اسلم! اس دروازہ کی شناخت رکھنا اور یہ جگہ بھی یاد رکھنا۔ پھر وہ دونوں آگے چل دیئے۔ جب صبح ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اسلم! وہاں جاؤ اور معلوم کرو کہ وہ کہنے والی لڑکی کون ہے اور اس نے کس عورت کو جواب دیا اور کیا ان کے ہاں کوئی مرد ہے؟ اسلم معلومات لے کر واپس آیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس نے بتایا کہ وہ لڑکی کنواری، غیر شادی شدہ ہے اور وہ اس کی ماں ہے اور ان کے ہاں کوئی مرد نہیں ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بچوں کو بلایا اور ان کو حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ پھرفرمایا کیا تم میں سے کسی کو عورت کی حاجت ہے تو میں اس کی شادی کر دوں؟ اور اگر تمہارے باپ میں عورتوں کے پاس جانے کی طاقت ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی اس لڑکی سے نکاح کرنے میں مجھ پر سبقت نہ لے جاتا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری تو بیوی ہے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری بھی بیوی ہے۔ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابا جان! میری بیوی نہیں ہے آپ میری شادی کر دیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس لڑکی کو پیغام نکاح بھیجا اور (اپنے بیٹے) عاصم سے اس کی شادی کر دی۔ عاصم کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کی والدہ بنیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز بن مروان کے سب سے زیادہ عادل حکمران اور پانچویں خلیفہ راشد تھے(تاریخ دمشق از ابن عساکر :۷۰؍۲۵۳)
(۶)جہیز کی حرمت پر تقریبا علماء کا اتفاق ہے؛اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مسئلہ معلوم بھی ہے اور مشہور بھی
(۷)جہیز بہر حال ہندوانہ رسم ہے؛اس کی وجہ سے بھی اس پر حرمت کا حکم لگے گا
رسم جہیزخالص غیر اسلامی ،ہندوانہ کلچر کا حصہ ہے،جسے مسلمانوں نے صدیوں قبل اتحاد واتفاق،یکجہتی ویگانگت کی فضا قائم کرنے کے لیے اپنا لیا تھا ۔چوں کہ ہندودھر م میں میراث کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہے اس لیے لڑکیاں وراثت کی حقدار نہیں بن سکتی، تو ان کی شادی بیاہ کے موقع پر ان کےوالدین یا سرپرست اس کی تلافی کے لیےحسب استطاعت سامان جہیزدیتے تھےا ور دیتےہیں،جسے “کنیادان”سے موسوم کیا جاتاہے۔المیہ یہ ہے کہ اب تو مسلمانوں نے جہیز کی بجا آوری میں ہنود کی خوب تابعداری اور فرماں برداری کی کہ اپنی لڑکیوں کو حق وراثت سے محروم کردیا اور اس کے بدلے لعنت جہیز کو گلے لگا لیا۔حالانکہ قرآن میں لڑکیوں کی حق وراثت صراحتًا بیان کیے گئے ہیں،اور اس کی مخالفت اللہ کی حدود کی مخالفت ہے؛جیسا کہ باری تعالی کا ارشاد ہے :( وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُۥ يُدْخِلْهُ نَارًا خَٰلِدًا فِيهَا وَلَهُۥ عَذَابٌ مُّهِينٌ)(سورۃ النساء :۱۴)(ترجمہ : اور جواللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو اللہ تعالی دوزخ(جہنم ) میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا)
سورہ ٔ النساء کی آیت نمبر(۷)سے لے کر آیت نمبر:(۱۴)تک کا بہ نظر ِ غائر مطالعہ کر لیجئے بہت سارے اشکالات دور ہوں گے؛بہت سارے عقدے کھلیں گے؛بہت ساری حقیقتیں منکشف ہوں گی اور ذہن و دماغ کے دریچے وا ہوں گے ؛ان شاء اللہ
(۸)ہاں اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو بطیب ِ خاطر دیتا ہے تو اس کا مسئلہ الگ ہے؛اور اسے جہیز سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہئے
یہ چند باتیں تھیں جو انتہائی عجلت میں بغرض ِ اصلاح ذکر کر دی گئی ہیں ؛امید ہے کہ اہل علم اس جانب توجہ مبذول فرمائیں گے
اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ہمارے اوپر خاص کرم فرمائے؛ہمارے حال پر رحم فرمائے؛اصلاح حال کی توفیق بخشے,ہمارے گناہوں سے صرف ِ نظر فرمائے؛اور طاعات و عبادات کی زیادہ سے زیادہ توفیق ارزانی کرے؛آمین یا رب العالمین