عبد السلام بن صلاح الدین فیضی مدنی
الحمد للہ رب العالمین،ولی الصالحین،والعاقبۃ للمتقین و لا عدوان إلاعلی الظالمین ،و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد
حقیر فقیر سراپا تقصیر حافظ صلاح الدین یوسف کی تصنیفی خدمات ایک تعارفی وتجزیاتی مطالعہ کے موضوع پر کچھ خامہ فرسائی و تسطیر و تحریرکے لئے دفتر و قلم لئے بیٹھا ہے‘سمجھ سے بالا تر ہے کہ کیا لکھا جائے؟گلشن کے کس پھول کو چنا جائے ؟اور کس پھول سے درِ خور اعتناء نہ کیا جائے؟موضوع انتہائی طویل و عریض ہے اور دقت طلب بھی‘عنوان عظیم بھی ہے اور خطیربھی ‘ اور خاکسار ,,من آنم کہ من دانم‘‘کی مکمل تصویر ہے۔
سوچتا ہوں کہ اس علمی قامہ کبیرہ کا اور اس کی تألیفات کا حق کیسے ‘کیوں کر اور کس طرح ادا ہو ؟مگر قلمی و علمی کاوش ہے ‘اور حافظ صاحب۔علیہ الرحمہ ۔ سے محبت و عقیدت کا حسین تقاضا بھی ‘ اور انگلی کٹاکر شہیدوں میں نام لکھوانے کی شدید خواہش بھی ‘اس لئے کوشش کی گئی ہے کہ انتہائی اختصار کیساتھ موضوع پر گفتگو کی جائے ‘تحریر کا آغاز درج ذیل دو اشعار سے کیا جاتا ہے
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
تاریخ کربلائےسخن !دیکھنا کہ میں خونِ جگر سے لکھ کے ورق چھوڑ جاؤں گا
حافظ صلاح الدین یوسف ۔ رحمہ اللہ ۔ کا نام نامی اسم گرامی جب زبان پر آتا ہے تو فورا ذہن کے اسکرین پر آپ کی عظیم شخصیت کا سراپا گردش کرنے لگتا ہے ۔
• وہ شخصیت جس نے پورے عالم کو اپنے علم و عمل کا لوہا منوالیا
• وہ شخصیت جس نے ہر میدان میں امتِ مسلمہ کی علمی قیادت ‘دینی سیادت ا ور اسلامی رہنمائی کا فریضہ تا حینِ حیات انجام دیا
• وہ کہ جس علمی انجمن نے اٹھتے بیٹھتے ‘سوتے جاگتے توحید و سنت کی خدمت کی اور کتاب و سنت کے جام و سبو سے سب کو شاد کام کیا
• وہ شخصیت کہ جس کی زندگی کا لمحہ لمحہ ‘ساعت ساعت اورلحظہ لحظہ دفاعِ نفوسِ قدسیہ میں گزرا
• وہ شخصیت جس کے سنوارنے سجانے میں خصوصی طور پرعلامہ عطاء اللہ بھوجیانی ۔رحمہ اللہ۔جیسی علمی و سلفی شخصیت کا بڑا ہاتھ اور اہم کردار تھا ‘خصوصی طور پرآں رحمہ اللہ پر آپ کی دستِ شفقت تھی ‘جس نے آپ کو خوب خوب نکھارا ‘آپ کی زبان و قلم میں شیرینی و چاشنی اسی چشمہ ٔ شیریں سے آئی ‘اور کوثر و سلسسبیل بن کرپورے عالم میں چھاگئی
• وہ کہ جو بلاشبہ عالمِ اسلام کا درِ نایاب ‘ہندوستان جنت نشان کا لعلِ بدخشان ‘علم و حکمت اورتفسیر و فقہ کا کوہِ ہمالہ ‘حدیث و سنت اور احسان و عزیمت حسین و جمیل سنگم ‘تحقیق و تدقیق کا جبلِ شامخ ‘عظیم اور کامیاب مولف و مصنف‘آسمان ِ علم و فن کا درخشندہ و تابندہ ستارا ‘خطابت و صحافت کے بے تاج بادشاہ ‘انتہائی باکمال‘صاحب طرز انشا پرداز ‘جماعتِ اہل حدیث کے قد آور عالمِ دین اور فقیہِ عظیم کی حیثیت سے پورے عالم میں جانے پہچانے گئے
خاکسار نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ جن شخصیات سے میں کافی متاثر ہوا ہوں ‘ان میں حافظ صلاح الدین یوسف ۔رحمہ اللہ ۔ سب سے اولین فہرست میں آتے ہیں
بلا ریب حافظ صاحب ایک کہنہ مشق مصنف اور تجربہ کار مؤلف بھی تھے اور بے باک اور نڈر صحافی بھی ‘آپ کی نظر دقیق بھی تھی اور خشیتِ ربانی سے لیس و سرشار بھی ‘اللہ نے آپ کو قلبِ سلیم اور فکر مستقیم سے نوازا تھا‘سلفیت کا درد ‘صحیح اسلام کی نشر و اشاعت کی تڑپ ‘منہجِ سلیم کی ترویج و تشہیر کی کسک آپ کی گھٹی میں پڑی تھی ‘سلفیت کے خلاف کوئی بھی آواز سن کر آپ کی رگِ حمیت پھڑک اٹھتی تھی ‘سلفیت (جو اسلام کا دوسرا نام ہے)پر حملہ ہو‘کسی طور آپ کو قطعی ناقابلِ برداشت تھا‘آپ کا قلم اس کے لئے ہمیشہ تیار رہتا تھا‘اسلام اور اہل اسلام پر وار کرنے والوں کے لئے آپ شمشیر براں تھے ‘صحابۂ کرام کی طرف سے دفاع تو آپ کی زندگی کا انمول حصہ تھا اور آپ کی زندگی کا اصل مطمحِ نظر ‘جس سے کبھی آپ ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار ہوئے اور نہ ہٹے‘آپ نے اپنے اسلامی تجربوں ‘علمی لیاقتوں اور فقہی صلاحیتوں سے دانۂ خاک گیتی پر بسنے والے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی ہدایت کا سامان فراہم فرمایا‘اگر ان اوصافِ گراں مایہ کا مجموعہ ٔ مرکب دیکھنا ہو تو آپ ‘آں رحمہ اللہ کی کتابوں کو دیکھئے۔
آپ نے جس فن میں قلم اٹھایا ‘اس کا حق ادا فرمادیا ‘جس موضوع پر خامہ فرسائی کی‘اس فن کے شہسوار بن کر نکلے اور پورے عالم میں چھا گئے اورلوگوں میں متعارف بھی ہوئے اور یہی نہیں بلکہ دینی‘اسلامی اور علمی حلقوں میں آپ کی جملہ تصانیف شاہکار کی حیثیت سے نہ صرف تسلیم کی گئی بلکہ تحسین و آفرین کا عظیم روشن قلعہ بن گئی ۔
جب توحید پر حملہ ہوا ‘اور شرک و بدعت سے توحید کا شیش محل چکناچور کرنے کی کوشش کی گئی تو آپ نے اپنی مایہ ٔ ناز(توحید اور شرک کی حقیقت :قرآن و حدیث کی روشنی ) کے ذریعہ مینارۂ توحید قائم فرمایا اورقلعہ ٔ توحید میں نقب زنی کرنے والوں کی اچھی خبر لی ‘ان کے پر کترے ‘اور کتاب و سنت کے مرصع دلائل و براہین سے توحید کی حقیقت اور شرک کی شناعت و قباحت کی خوب خوب وضاحت فرمائی ‘اور توحید و شرک کی تبیین کی اور دلائل کا انبار لگادیا ۔
جب قبر پرستی عام ہوئی ‘شرک کے اڈے بننے شروع ہوئے ‘مزارات میں بدعات و خرافات کا ازدحام دیکھا ‘اللہ کے حقوق کو غصب کرتے ہوئے نام نہاد علماءِ سوء بے لگام ہوئے‘یعنی شرک و بدعت کا بازار گرم دیکھا ‘اور علمائے بدعت نے اس کی ہم نوائی میں قلم کے تیر و تفنگ چلائے تو آپ کی(قبر پرستی: ایک حقیقت پسندانہ جائزہ)منصہ ٔ شہود پر آئی ‘اورشرک کی قباحت و شناعت کو علمی دلائل سے عالمانہ وقار کے ساتھ پیش فرمایا۔
بلاشبہ رب کریم نے آپ کی شخصیت کو قرآن کی خدمت کے لئے منتخب فرمالیا تھا ‘چنانچہ جب تفسیر ِ قرآن کے نام پر قرآنی تفسیر کا جنازہ نکالا گیا ‘اس میں گھوٹالے کئے گئے ‘علمی غبن ہوا ‘اس کے عقدی و نظریاتی مسائل پر تحقیق و تنقیح کے نام پر ڈاکے ڈالے گئے اور تفسیر کی آڑ میں منہجِ سلیم اور نظریۂ ٔ مستقیم سے انحراف کیا گیا تو آپ نے تفسیر کی پیاسی دنیا کے لئے کئی قسم کے آب ِ زلال پیش فرمائے ‘چنانچہ (لفظ بہ لفظ رواں اردو ترجمہ)مولانا محمد عبد الجبار کے تعاون و اشتراک سے انجام دیا‘جس میں اردو زبان میں سادہ ترجمہ واضح مفہوم انتہائی دل نشیں انداز میں پیش فرمایا گیا ہے ‘ اورتفسیرِ احسن البیان کی حسن کاری اور جمال آرائی سے جہانِ رنگ و بو کی جہاں بانی کا انتظام کیا گیا ۔
تفسیر احسن البیان سے دنیا میں کونسا شخص ناواقف ہوگا ‘یہ تفسیر مجمع الملک فہد مدینہ منورہ سے شائع ہوئی ‘ اور لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں پورے عالم میں تقسیم کا عمل انجام پایا ‘دنیا کا کوئی ایسا ملک اور ملک کا کوئی ایسا مسلمان نہیں ہوگا جس کے پاس اس تفسیر کا کوئی نسخہ موجود نہ ہو ؎
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
اور چار دانگِ عالم میں اس احسن البیان کے حسن و جمال کے تذکرے ہونے لگے ‘ اس کے حسن و جمال کے جلوے بکھیرے گئے ‘اس کے رخِ زیبا کو ہر صاحبِ رخِ انور نے محسوس کیا اور اس کے ترجمے مختلف زندہ زبانوں میں کئے گئے تاکہ اس کا فائدہ عام ہوسکے اور اسلامیانِ عالم اس سے بھر پور مستفید ہو سکیں ۔
ہوا یوں کہ جب تفسیر کی آڑ میں اہل بدعت و ضلالت نے اپنے نظریاتِ کج اور تضلیلی افکار پیش کرنے کی کوشش کی ‘تفسیر کےرخِ زیبا کو داغ دار کرنے کی نا مسعود مساعی کی گئی ‘قرآن کریم کے حقیقی معانی و مفاہیم سے انحراف کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے اوراس کے لئے نامسعود قسمت آزمائی کی گئی تو حافظ صاحب ۔علیہ الرحمہ۔کی محبتِ قرآنی اور عقیدتِ ربانی بھڑک اٹھی ‘آپ کی غیرتِ ایمانی اور حمیتِ قرآنی جوش مارنے لگی ‘آپ کا تفسیری قلم بے باک ہوا ‘پاکستان سے آکر مملکتِ توحید( سعودی عرب) میں بیٹھ گئے اور ایک مختصر مگر جامع تفسیر وجود میں آئی ‘جس میں آپ نے تفسیری ضعیف اور اسرائیلی روایات سےگریز کرتے ہوئے صحیح احادیث کا التزام کیا ‘اسلامی عقائد کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دیا ‘اس تفسیر میں آپ امام شوکانی کی فتح القدیراورحافظ ابن کثیر کی تفسیرِ ابن کثیر(تفسیر القرآن العظیم)علامہ ابن جریر کی تفسیر طبری (جامع البیان فی تفسیر القرآن ) کا عکسِ جمیل ملاحظہ کرسکتے ہیں ‘آپ ۔رحمہ اللہ۔ ان تفاسیرسے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ پر قرآنی آیات کی روشنی میں جچا تلا تبصرہ پیش کرتے ہیں ‘جو اس تفسیر کی بہت بڑی خوبی ہے‘دوسری تفاسیر میں آپ کو یہ خوبی نظر نہیں آئے گی ‘اس تفسیر میں حافظ صاحب نے انتہائی اہتمام کے ساتھ یہ التزام بھی فرمایا ہے کہ اسلامی عقائد ‘سلفی منہج ِ سلیم اور صحیح افکار و نظریات کو پیش کیا جائے ‘ساتھ ہی آپ نے دیگر فرقہ ہائے ضالہ کے افکار و نظریات اور ان کے عقائد و خرافات کی بیخ کنی بھی انتہائی مختصر انداز میں فرمائی ہے ‘تفسیر مختصر تو ہے مگر مخل نہیں ہے ‘اسے آپ بہ قامت کہتر بہ قیمت بہتر کا بہترین مصداق قرار دے سکتے ہیں‘اس مختصر تفسیر میں حافظ صاحب۔رحمہ اللہ۔ نے دریا در کوزہ کا بہترین عمل انجام دیا ہے ‘مولانا رفیق احمد رئیس احمد سلفی نے آں رحمہ اللہ کی تفسیری خدمات پر ایک نفیس مقالہ لکھا ہے ‘جو دی فری لانسر اور دیگر مقامات پر نشر ہوا ‘اسے آپ (https://thefreelancer.co.in/?p=7246)پر پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں ‘ سلفی صاحب کا مقالہ انتہائی معلوماتی اور وقیع ہے ‘اللہ شیخ محترم کو جزائے خیر سے نوازے ‘آمین ۔
جب حدیث اور سنت پر حملہ کیا گیا ‘اس کی قدسیت و عظمت پر نقب زنی کی گئی ‘جب حدیث پر بعض ناہنجاروں نے وار کیا اور قرآن و حدیث کی روشن تعلیمات کے انکار ورفض کی سعیٔ منحوس کی گئی تو آپ کا قلم اس کے رد کے لئے تڑپ اٹھا‘آپ جواب کے لئے بے تاب ہوگئے اور منکرینِ حدیث کا یوں دنداں شکن جواب دیا کہ ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑا پھر آپ کو (عظمتِ حدیث ) ‘(اہل حدیث کا منہج )اور(اہل حدیث اور تقلید)جیسی کتب تحریر فرماکر حدیث کی اہمیت ‘اس کی انسانی اور اسلامی زندگی میں عظمت اور اس کے تقاضوں کو بہترین اور جاذب ِ نظر انداز میں سمجھانے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے‘آپ نے ایسااسلوبِ شیریں اختیار فرمایا ہے کہ پڑھنے والا پڑھتا رہ جاتا ہے اور جب تک کتاب ختم نہیں ہوجاتی ہے ‘اس کے رکھنے کے لئے طبیعت آمادہ نہیں ہوتی ہے‘کہنے کو تو یہ کتابیں نہیں بلکہ کتابچے ہیں ‘مگران میں حافظ صاحب ۔رحمہ اللہ ۔نے دلائل کی بھر مار‘براہین کا انبار ‘اور اقوالِ سلف اور آثار کا طومار لگاکر کتاب بنادیا دیا ہے ‘جس سے قاری حرف حرف ایک عجیب قسم کی چاشنی و شیرینی محسوس کرتا ہے‘اورکامل لذتِ دماغ اوروفورِ شوقِ مزاج کے امتزاج کے ساتھ آخر تک پڑھتا چلاجاتا ہے ‘اور ذہن میں کوئی بار محسوس نہیں کرتا
اسی پر بس نہیں بلکہ بلکہ حدیث اور اہالیان حدیث کی خدمات‘ ان کی کاوشیں‘ان کی مساعی جمیلہ اور ان کی جہدِ مسلسل کو جب تارِ عنکبوت ثابت کرنے کی ناروا کوشش کی گئی‘جب مسلکِ حق اور اس کے متبعین پر دشنام طرازی کی گئی ‘ان کے جائزحق کو غصب کرنے کی سعیٔ منحوس کی گئی‘ان پر الزام تراشی اور تہمت بازی کے تیر و تفنگ چلائے گئے‘انہیں مختلف نازیبا القاب سے ملقب کیا گیا تو آپ کی غیرتِ سلفیت جاگ اٹھی اور آپ نے (اہل حدیث اور مسلکِ اہل حدیث پر بعض اعتراضات کا تنقیدی جائزہ )تحریر فرماکر دفاع کا فریضہ انجام دیا ‘آپ نے ان میں حقیقی آئینہ دکھایا اور قرار واقعی تنقیدی (مگر تعمیری)جائزہ لیا اور ان کا ناطقہ بند کیا ‘ان کی حقیقت کو واضح کیا گیا ‘ان کی بدباطنی کو بہ احسن طریق طشت از بام کیا گیا اور دلائل و براہین سے یہ ثابت فرمایا کہ جماعتِ اہل حدیث قدیم ہے اور اس کی خدمات بھی قدیم ہیں اور عظیم بھی‘اور اس کا وجود اس وقت سے ہے جب سے اسلام کا وجود ہے ‘علامہ لکھتے ہیں : (پس جماعت اہل حدیث کو ایک صدی قبل کی پیداوار قرار دینا پرلے درجہ کی جہالت ہے یا انتہا درجے کی بددیانتی اور حزبی تعصب (دیکھئے: کتابِ مذکور ص ۲۷)
علامہ ۔رحمہ اللہ۔ کی خاص خوبی یہ ہے کہ دفاع میں کبھی آں رحمہ اللہ۔ نے انصاف کے دامن کو چھوٹنے نہیں دیا ہے ‘کسی موقعے پر تعدی سے کام نہیں لیا اور نہ ہی کسی پر نکیر فرماتے ہوئے قلم کو بے قابو ہونے دیا ہے ‘ورنہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ تردید و تغلیط میں قلم آپے سے باہر ہوجاتا ہے ‘اور بہیترے لوگ لکھتے ہوئے بے لگام ہوجاتے ہیں‘بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تردید میں انسان سوقیانہ اسلوب بھی اختیار کرنے سے نہیں چوکتا ہے‘مگر حافظ صاحب ۔علیہ الرحمہ ۔ ان نامسعود اوصاف سے بہت دور اور پاک ہیں ۔
جب بھی معاشرے پر کوئی آفت آئی ہے‘حافظ صاحب ۔رحمہ اللہ۔ اس کے خلاف شعلہ ٔ جوالہ بن کر اٹھ کھڑے ہوئے ‘بھڑکے‘شمیشرِ قلم سونت لی‘اور کسی کی قطعی کوئی پرواہ نہیں کی‘کسی ملامت گر کی ملامت سے لا تعلق ہوکر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے حسین جذبہ ٔ صادق سے سر بکف نظر آئے ‘اگر ضرورت پڑی تو حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی‘اورجب جب ضرورت محسوس ہوئی‘حافظ صاحب نے اپنی قوتِ ایمانی اور طاقتِ اسلامی کا خوب خوب مظاہرہ فرمایا اور اس کاثبوت بہم پہنچایا ‘جب خواتین کے تحفظ کے نام پر (تحفظ حقوق نسواں )بل پاکستان کی اسمبلی میں پاس ہوا ‘اور وہاں کے مجتہدین نے اسلام کے بعض نام لیواؤں کی دہائی دے کر اس بل کی حمایت کی دعوت دی ‘تو حافظ صاحب ۔رحمہ اللہ۔ مرغ بسمل کی طرح تڑپ گئے اور مغرب کی حیا باختہ تہذیب کو اسلام کے نام پر مسلط کرنے کی بھر پور مذمت کی‘جن نام نہاد اسلامی پیشواؤں نے اس کی حمایت و تائید کی تھی ‘ان کی بھی گوشمالی کی اور (حقوقّ نسواں و حقوقِ مرداں ) کتاب لکھ کر ان اسلام کے جدید مجتہدین کی خدمت میں ہدیۂ کتاب پیش کی ‘اور اسلام جیسے عدل و انصاف پر مبنی احکام و تعلیمات سے انہیں روشناس کرایا ‘ساتھ میں انہیں اس بات کی بھی دعوت دی کہ اسلام کسی غلام احمد پرویز اور جاوید غامدی کے خالہ اماں کا گھر نہیں ہے ‘بلکہ یہ کتاب و سنت سے مرصع تعلیمات سے مملو و مشحون ایک ربانی دین اور الہی شریعت ہے‘جس میں عقلی گھوڑے نہیں دوڑائے جا سکتے ‘اور یہ حضرات جو اسلام باور کرانا چاہتے ہیں وہ مغرب کی فکری کارگاہوں میں ڈھلا ہوا ہے‘جس سے حقیقی اسلام کوسوں دور ہے‘حافظ صاحب نے یہاں بھی دامن ِ انصاف سے منہ نہیں موڑا ‘بلکہ عدل و انصاف کو گلے کا ہار اور پیشانی کا جھومر بنایا ‘الفاظ کی میناکاری نہیں کی ‘بلکہ کتاب و سنت سے مبرہن دلائل و براہین سے مسئلۂ خواتین و مرداں پیش فرمایا‘جب حلالے کی نحوست عام ہوئی ‘معاشرہ میں قلق و ہیجان کی صورت اور اضطرابی کیفیت پیدا ہوئی تو آپ کا قلم بھی بیتاب ہوا اور (ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل ) پیش فرمایااور حلالے کی نحوست سے عامۃ الناس کو بچایا ‘حکومت کو مشورے بھی دئے‘اور اپنا اسلامی‘اخلاقی اور عملی فریضہ بھی ادا فرمایا ‘چاک چاک گریباں کی رفوگری اور زخموں سے چور چور عورتوں کی داد رسی کی اور بیک جنبشِ لب سے اجڑتے خاندان کو تباہی کے بھنور سے نکالنے میں کلیدی کردار ادا کیا‘علمائے موافقین و مخالفین کے فتاوے جمع فرمائے ‘اور اس معاشرتی مسئلہ کی سنگینی کو محسوس فرمایا اور اس درد و کرب کو زبانِ محسوس دینے کی سعیٔ بلیغ فرمائی ‘ٹوٹے ہوئے دلوں کو حوصلہ دے کر عظیم معاشرے کی بنیاد ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا ‘اور ظلمات بعضہا فوق بعض سے خواص و عوام کو نکالا ‘علماء سوء کو تقلیدی جکڑ بندیوں سے نکل کر شتر مرغ کی طرح آنکھیں نہ بند کرنے کا مشورہ بھی دیا ‘اللہ کا شکر ہے کہ حافظ صاحب ۔رحمہ اللہ ۔ کی فقہی بصیرت اور علمی بصارت سے بہت سے کورچشموں نے آنکھیں کھولیں ‘آپ کے دئے گئے دلائل و براہین سے استفادہ کیا اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے سے خود بھی محفوظ رہے اور امت کو بھی بچایا ‘فللہ الحمد و المنۃ
جب مودودی صاحب کی زبان بے لگام ہوئی ‘صحابۂ کرام پر دشنام طرازی و الزام تراشی کے تیر و تفنگ چلائے گئے ‘ خاص کر حضراتِ علی و معاویہ ۔رضی اللہ عن صحابۃ رسول اللہﷺ اجمعین ۔ کی شان میں گستاخیاں کی گئیں‘ انہیں سب و شتم ‘لعن طعن اور ان کے حق میں اول فول بکنے کی کوشش کی گئی ‘تو آپ کا بیباک قلم بے تاب ہوا ‘آپ کاجوش ایمانی اور جذبۂ اسلامی موجزن ہوا اور ((خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت ))کے ذریعہ آں موصوف کے ہفوات کا بھر پور علمی تعاقب بھی فرمایا ‘اور ادبی جواب بھی دیا‘اور اینٹ کا جواب پتھر سے دے کر موصوف کے دانت کھٹے کئے ‘اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کا یوں دفاع کیا گیا کہ انہیں چھٹی کا دودھ یاد دلایا ‘آپ اس وقت کوئی ۲۰۔۲۱ سال کی دہلیز پر قدم رکھ رہے ہوں گے (یعنی آپ جوانی کی جولانی ‘شباب کی روانی اور آپ کا قلم عنفوانِ شباب کے طوفانی دور اور سیلانی مرحلے میں سرمست تھا)اور عموما یہ عمر بھٹکنے‘بگڑنے‘بہکنے اور ٹامک ٹوئیاں کھانے کی ہوتی ہے ‘انسان کہاں بہکتا ہے؟‘کس طرف رواں ہوجاتا ہے؟کس جانب اس کا دھارا مڑ جاتا ہے؟کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے ‘تردید میں لکھنے والا شخص زمزم و کوثر(!!!) سے دھلی ایسی زبان اور تسنیم و سلسبیل(!!!) سے نکلے ایسے لہجے استعمال کرتا ہے کہ سردی کے دنوں میں بھی ایک منصف کی پیشانی سے پسینہ ٹپکنے لگتا ہے‘(ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے)لیکن جب صحابہ ٔ کرام کی محبت و عقیدت میں ڈوبا ہوا آپ کا کاغذ و قلم دفاعِ صحابہ کے سمندرِ خوبرو میں تیرنے لگا ‘پھر اس کتاب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ۔رحمہ اللہ ۔ کی ابن المطہر الحلی پر لکھی گئی نایاب کتاب (منہاج السنہ النبویہ )کا عکس نظر آیا ‘شیخ الاسلام ابن تیمیہ جیسا تعاقب آپ کی تحریروں میں لوگوں نے محسوس کیا ‘وہی سلفی تڑپ ‘وہی منہجِ سلیم ‘تردید و تغلیط کی وہی روشِ رخِ آبدار اور حافظ صاحب ۔رحمہ اللہ۔ نے وہ علمی شان اور قلمی آن و بان بکھیرا ‘ علمی امانت کے ایسے حسین اور نرالے تقاضے پورے فرمائے کہ چشمِ فلک نے ایسے انمول نمونے اور انمٹ نقوش بہت کم دیکھے‘سنت اور دفاعِ سنت کے ایسے جوہرہائے آب دار اور گوہر ِ ہائے نامدار پیش کئے کہ دیکھنے پڑھنے والا عش عش کئے بغیر نہ رہ سکا ‘خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت کا مطالعہ کرنے والا اسے جا بہ بجا محسوس کر سکتا ہے ‘آپ کے قلم پر کنٹرول ‘زبان پر دسترس ‘لفظوں کی بندش ‘الفاظ پر گرفت ‘عقیدے پر مؤاخذہ ‘صحابہ کی محبت پر تڑپ اچھی طرح سمجھ سکتا ہے ‘سلفیت سے سرشار قلم جب دفاعِ قدسیت کی طرف رواں دواں ہوتا ہے ‘جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے باوجود جوانی کے مظاہر و عناصر سے گریزاں سلفی اثر اور سلفی چھاپ چھوڑتے ہوئے اخلاقی حدود و قیود کی پاس داری کرتے ہوئے جس طرز نگارش سے ایک ہرزہ سرائی کی بد زبانی پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ‘وہ حافظ صاحب ہی کا خاصہ ہے جو عالمِ اسلام کے لئے عموما اور سلفیانِ عالم کے لئے خصوصا نعمتِ غیر مترقبہ ہے
انکارِ حدیث کا طوفانِ بدتمیزی جب برسرِ عام بپا کیا جاتا ہے ‘سنت و حدیث کی آڑ میں جب کج روی اور ضلالت و گمراہی عام کی کرنے کی سعیٔ منحوس کی جاتی ہے تو کیا غامدی ‘کیا فراہی اور اصلاحی ‘سب کی گوشمالی کی‘ان کے بھونڈے دلائل کے بخیے ادھیڑے اور ان کے مزعومہ ثبوتوں کے پرخچے اڑائے اور پرزے پرزے کئے ‘اور ایسا اسلوبِ جذاب اور طرزِ خلاب اختیار کیا کہ اپنے تو اپنے غیر بھی ستائش پر مجبور ہوئے‘اور اس پر داد دئے بغیر نہیں رہ سکے‘چنانچہ آپ فکرِ فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات کا مطالعہ کیجئے ‘(مولانا امین احسن اصلاحی اپنے حدیثی و تفسیری نظریات کی روشنی میں) کو از اول تا آخر پڑھ جائیے آپ کو علامہ صلاح الدین یوسف ۔رحمہ اللہ۔ کی حدیث دانی ‘قرآن فہمی اور اسلامی عقائد و نظریات پر دسترس و عبور کا کامل احساس ہوجائے گا ‘آپ بہت سارے علامہ کی علامہ خائی کے دعوے بھول جائیں گے ‘اور علامہ کے قرار واقعی علامہ ہونے کے ثناخوان بننے پر اپنے آپ کو مجبور پائیں گے ‘یقینا آں رحمہ اللہ اسلامی عقائد و نظریات اور حدیث و سنت کے عظیم شناور‘اس کے اصول و ضوابط کی معرفت و شناخت کے درک میں ماہِ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ آپ مکمل طور پر اس کے سانچے میں پلے ڈھلے تھے اور اس کا خوب خوب حق بھی ادا فرمایا ‘آپ کو آں رحمہ اللہ کی جملہ تحریروں میں علمی گہرائی و گیرائی ‘پختگی ‘متانت و سنجیدگی اور عالمانہ بصیرت ‘محدثانہ شان ‘دانشمندانہ آن بان اور شکیبانہ وقار نظر آئے گا
حقوق و فرائض کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ‘ایک مسلمان اسی وقت کامل و مکمل مسلمان ہوسکتا ہے ‘جب اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے فرائض کی معرفت حاصل کریں گے اور دوسروں کے واجب الأداء حقوق و واجبات سے عہدہ برآ ہوں گے ‘معاشرے کا جب مزاج بگڑتا ہے‘اس میں جب کجی آتی ہے ‘تو اہل علم ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ‘حافظ صاحب رحمہ اللہ بھی حقوق واجبات فہمی کے لئے کمرِ ہمت کس کر میدانِ عمل میں آئے اور کئی کتابیں تالیف فرمائیں جیسے (۱)حقوق اللہ (۲)حقوق العباد(۳)حقوق الوالدین(۴)حقوق الزوجین۔میاں بیوی کے حقوق۔(۵)حقوق الأولاد
یہ پانچوں موضوعات ایسے اہم‘ضروری اور ہمہ گیر ہیں کہ ہر شخص کو ان سے آشنا و آگاہ ہونے کی ضرورت ہے ‘حافظ صاحب نے ان موضوعات پر انتہائی جگر سوزی کے ساتھ مواد جمع فرمائے ‘کتاب و سنت سے نصوص اکٹھا کئے اور امت مسلمہ کی رہنمائی کا سامان فرمایا اور بقول کسے ؎
اب جس کے دل میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دِل جلا کے سرِ بام رکھ دیا
حافظ صاحب نے جب یہ محسوس کیا کہ دنیا سے امن و آشتی ‘سکون و اطمینان ‘چین و راحت اور الفت و عقیدت چھن رہی ہے ‘غارت اور ختم ہورہی ہے ‘آپ نے جب محسوس فرمایا کہ معاشرتی اقدار و روایات زوال پژیر ہو رہی ہیں‘اخوت و بھائی چارگی‘مساوات و ہمدردی ختم ہورہی ہے ‘اوراولادیں نافرمان ہورہی ہیں تو آپ نے حقوق سیریز شروع کی اور کتاب و سنت کی روشنی میں بندوں کو بارگاہ صمدیت میں سر ٹیکنے‘اخوت و مساوات قائم کرنے ‘اطمینان و سکون کے ساتھ دلوں کو جوڑنے ‘میاں بیوی ‘بھائی بہن اور ماں باپ کے رشتوں میں مضبوطی استوار کرنے پر مجبور کیا ‘اور ایسے اسلوبِ شیریں سے شادکام فرمایا کہ پڑھنے والا نقد دل ہار بیٹھے‘پڑھنے اور مطالعہ کرنے میں تو یہ کتابچے انتہائی مختصر ہیں مگر انداز نگارش سلیس ‘زود فہم ‘بامحاورہ اور متانت و سنجیدگی لئے ہوئے ہیں
الغرض حافظ صاحب ۔رحمہ اللہ ۔ نے معاشرے کی جملہ اقسام و انواع کے امراض کا علاج فرمایا‘جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ آپ کی نگاہ ہمہ گیر تھی اور آپ کا قلم عالم گیر ‘آپ کا علم انتہائی وسیع تھا اور آپ کی فہم و فقہ انتہائی باذوق اور بابصیرت‘اس لئے آں رحمہ اللہ نے زندگی کا کوئی بھی شعبہ تشنہ نہیں چھوڑا ۔
آئیے ذیل میں آپ کی تالیفات اور ان کی چند خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہیں ‘آپ کی تالیفات کو ہم درج ذیل خانہ ہائے علم و فن میں تقسیم کر سکتے ہیں
أولا: تفسیری خدمات
(۱)تفسیر احسن البیان (۱۹۰۷ صفحات)جیسا کہ یہ بات ہم ذکر کر آئے ہیں کہ حافظ صاحب نے یہ تفسیر (احسن البیان)در حقیقت ایک فرمائش پر لکھی جب اہل بدعات و اہواء نے اپنی مسموم تفسیرسے پوری اسلامی فضا میں زہر گھولنے کی کوشش کی ‘پھر مملکتِ سعودی عرب میں تشریف لاکر آپ نے ایک مختصر تفسیر لکھی جو اس کا نعم البدل ہو‘یہ تفسیر (احسن البیان)مجمع الملک فہد سے طبع ہوکر تشنگانِ تفسیر و سلفی مناہج کی تشنگی بجھا رہی ہے ‘لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں تقسیم ہوئی اور اس تفسیر پر مجمع سے طباعت پر پابندی لگی ‘اہل بدعات و خرافات نے اس تفسیر کے حسن و جمال پر بھی کیچڑ پھینکنے کی مذموم جسارت کی ‘اس کے خلاف زہر اگلے ‘اوراس میں خامیاں نکالنے کی نامسعود کوششیں صرف کی گئی ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز چراغ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی
لیکن ان کی ایک نہ چلی ‘فالحمد للہ علی ذلک ‘حق کا بول بالا ہوکر رہا ‘اور انہیں منہ کی کھانی پڑی ؎
اسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام یہی ہے رازِ تب و تابِ ملتِ عربی
اور اس کے تقریبا تمام زندہ زبانوں میں ترجمے ہوئے ‘اور مفت تقسیم کئے گئے ‘اور خلق کی ایک جمِّ غفیر نے فائدہ اٹھایا
(۲)تفسیر سورۂ فاتحہ (۹۹ صفحات)آپ نے تفسیر احسن البیان لکھی ‘ایک انتہائی مختصر ہے جو وقت کی شدید ضرورت بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی‘پھر آپ کے حبِ قرآن نے آپ کو کچوکے لگائے اور انتہائی شرح و بسط کے ساتھ سلفی طرز پرایک جامع اور مبسوط تفسیر لکھنے کا ارادہ فرمایا ‘اور سورہ ٔ فاتحہ سے اس کی شروعات فرمائی ‘گوناگوں مصروفیات اورانتہائی مشغولیات نے کافی دنوں تک یہ سلسلہ روکے رکھا ‘پھر آپ نے ابتدا کی ‘اور شنید ہے کہ ۱۶ پارے تک آپ مبسوط تفسیر لکھ چکے تھے ‘یہاں تک کہ اللہ نے اپنے پاس بلالیا اور آپ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے اور یوں آپ کا یہ حسین خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا ‘ہوسکتا ہے اللہ کا کوئی بندہ اس کی تکمیل کرے(لعل اللہ یحدث بعد ذالک أمرا)
(۳)لفظ بہ لفظ رواں اردو ترجمہ(ترجمۃ القرآن لفظی بکسوں میں)
(۴)ترجمہ و تفسیر تیسواں پارہ (۱۸۶ صفحات ) (یہ درحقیقت احسن البیان سے کشید ہے)
ثانیا:عقائد و نظریات پر علامہ کی تصنیفی خدمات
(۴)یا اللہ مدد(توحید اور شرک کی حقیقت)(۱۲۲ صفحات) یہ کتاب توحید اور شرک کی حقیقت مع مغالطات و شبہات کے نام سے بھی مطبوع ہے)
(۵)قبر پرستی :ایک حقیقت پسندانہ جائزہ (۱۸۲ صفحات) مولانائے محترم ۔رحمہ اللہ۔ کی یہ کتاب درحقیقت آپ کے وہ چند مضامین کا مجموعہ ہائے مبارک ہے جو آپ نے مختلف مناسبات پر قبر پرستی کے رد میں تحریر فرمائے تھے جو مجلہ (الاعتصام) میں شائع ہوئے‘لوگوں نے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا‘آپ نے ان مضامین میں ان مزعومہ دلائل کابھر پور علمی جائزہ لیا ہے جو شرکِ صریح(جیسے:یا شیخ عبد القادر شیئا للہ ‘یا رسول اللہ أغثنا ‘یا علی مدد ) کے جواز میں علمائے بریلوی یا ان کے ہم نوا اہل قلم پیش کرتے رہے ہیں ‘یہ کتاب تقریبا ۱۸۲ صفحات پر محیط ہے اور ان تمام ادلہ باطلہ کا جائزہ لیتی ہے جو شرکِ صریح کی حمایت و موافقت میں پیش کی جاتی ہیں‘نیز قبر پرستی ‘شرک کی قباحت و شناعت اور ان جیسے امور پر قرآنی آیات ‘نبوی صحیح و صریح احادیث ‘آثار اور اقوال علمائے اسلام سے جا بہ جا استدلال کیا گیا ہے ‘قبر پرستی کے دینی و اخروی نقصانات سے بھی باخبر کرنے کی سعیٔ بلیغ فرمائی ہے ‘فجزاہ اللہ خیرا‘ و رحمہ رحمۃ الأبرار
(۶)توحید اور شرک کی حقیقت مع مغالطات و شبہات:اس کتاب میں علامہ نے توحید کی شرعی حیثیت واضح فرمائی ہے‘اور بہت سارے مزعومہ دلائل ‘اور ان سے پیدا ہونے والے شبہات و مغالطات کا علمی جائزہ لیا ہے
(۷)رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا (۱۱۵ صفحات)(یہ کتاب آپ کے چند مضامین کا مجموعہ ہے‘جو ہفت روزہ ,,الإعتصام ‘‘ میں شائع ہوئے‘اور اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۳۹۹ھ میں ماہِ محرم اور موجودہ مسلمان کے نام سے شائع ہوا‘جسے قبولِ عام حاصل ہوا ‘اور خوب پژیرائی ہوئی‘تاہم ایک موضوع تشنہ رہ گیا تھا (واقعۂ کربلا کا پس منظر اور اسباب )‘جس کی شدید ضرورت بھی تھی اور حالات کا تقاضا بھی ‘لہذااب اس کتاب میں شامل کرکے رسوماتِ محرم اور سانحہ ٔ کربلاکے نام سے شائع و متداول ہے)
(۸)مروجہ قرآن خوانی اور ایصال ثواب:ہمارے بر صغیر ہند پاک میں مرنے کے بعد قرآن خوانی کی جو بدعت شباب پر ہے ‘علامہ نے اس پر بھر پور روشنی ڈالی ہے ‘اور کتاب و سنت سے اس کی بدعیت کو ثابت فرمایا ہے
(۹)عید میلاد النبی کی شرعی حیثیت:ماہِ ربیع الأول میں عشقِ رسولﷺ میں ڈوب کر بھانت بھانت کی بدعتیں ایجاد کرنے والے کی قلعی کھولنے والی یہ کتاب آپ ۔رحمہ اللہ ۔ کے حبِ نبیﷺ کی بین دلیل ہے اور بدعات سے کڑھنے کا واضح ثبوت
(۱۰)خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت (۵۸۴ صفحات) تفسیر احسن البیان کے حسن بیان کے بعد (حالانکہ زمانی ترتیب کے اعتبار سے یہ بعد میں وجود پژیر ہوئی )یہی وہ علمی دھماکہ اور منہجی بم ہے جس نے حافظ صلاح الدین یوسف کو صلاح الدین یوسف بنایا ‘یہ اللہ کا فضل ہوا کہ اس نوخیز غنچہ نے اس علمی قامت کا ایسا تیا پانچہ کیا کہ رہتی دنیا تک آپ کو دوام نصیب ہوا ‘کیا عوام کیا خواص سب نے مودودیت کی حقیقت سے آشنائی حاصل کی ‘سب کو جماعتِ اسلامی کے گمراہ کن افکار باطلہ کا علم ہوا ‘اور آپ نے ان کا اس انداز جداگانہ سے اس طرح پردہ فاش کیا کہ مدعیانِ علم و فن مبہوت ہوکر رہ گئے‘ورنہ تو مولانا مودودی کی (خلافت و ملوکیت )نے اسلامیانِ عالم کو رفض و تشیع کے ڈگر پر لاکھڑا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور صحابہ کے قصرِ رفیع پر نقب زنی کا فریضہ انجام دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا ‘کتاب بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ‘متذکرہ بالا سطور میں کچھ تبصرہ گزر چکا ہے
(۱۱)واقعۂ معرا ج اور اس کے مشاہدات (۱۲۴ صفحات) واقعہ ٔ اسراء و معراج نبیٔ ﷺ کے معجزات میں سے ایک عظیم معجزہ ہے ‘جو آپﷺ کو تسکین ِ خاطر کے لئے عطا فرمایا گیا تھا ‘اور آپ ﷺ کو جسم و روح کے ساتھ مسجدِ حرام سے ساتویں آسمان تک کا سفر کرایا گیا ‘اس واقعہ کے تعلق سے عجیب عجیب روایات بیان کی جاتی ہیں‘اس کے مشاہدات پر بے سر و پا احادیث کا سہارا لے کر نام نہاد مؤلفین اپنی تألیفات میں اور خطباء اپنے خطابات و تقاریر میں عجیب عجیب سماں باندھنے ‘عوام کو رِجھانے اور انہیں مرعوب کرنے کی کوششیں کرتے ہیں ‘دوسری طرف کچھ ایسے ہیں جو اس واقعے کو سرے سے ماننے کے لئے ہی تیار نہیں ‘حافظ صاحب ۔علیہ الرحمہ۔ نے ان دونوں نقطہ ہائے نظر کی تردید فرمائی ہے اور صحیح روایات یکجا فرمائی ہیں ’اور امت کو درست رخ متعین کرنے میں معاونت کی ہے
ثالثا:مناہج و افکار پر خامہ فرسائی
(۱۲)اہل حدیث کا منہج اور احناف سے اختلاف کی حقیقت و نوعیت (۲۹۳ صفحات)اہل حدیث ہی وہ جماعت ہے جس کے یہاں کسی بھی تقلیدی وابستگی کے بغیر عقیدہ و منہج اور کردار و عمل میں بلا واسطہ کتاب و سنت کی حکمرانی قائم ہے ‘ورنہ دیگت کسی بھی فرقہ و مسلک کو آپ دیکھ لیں ‘کہیں نہ کہیں وہ کسی شخصیت ‘مکان ‘زمان یا فکر سے مربوط ہوتا ہے ‘اور سلفِ امت کے متعین کردہ فکر و منہج سے انحراف کرتا دِکھائی دیتا ہے ‘حافظ صاحب نے اس کتاب میں مسلکِ اہل حدیث کے امتیازی اوصاف اور نمایاں خوبیوں کو واضح فرمایا ‘اور مخالفین کے جملہ اتہامات افتراءات کی نقاب کشائی کی ‘کتاب چند ذی علم اور مقتدر اصحاب ِ علم و فن کے مقالات و مضامین کا مجموعہ ٔ مرکب ہے
(۱۳) تحریکِ جہاد جماعتِ اہل حدیث اور علمائے احناف(صفحات ۱۲۶)دیوبندی علماء کے اہل قلم کے افتراءات و اتہامات کا بھر پور جائزہ لینے والی یہ کتاب ۱۲۶ صفحات پر مشتمل ہے اور بہت سارے دیوبندی ۔بزعمِ خویش ۔قلم کاران کے دنداں شکن جواب دیا ہے ‘جو اپنے اکابرین کو سیاست کا رستم و سہراب ثابت کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ‘اور اس کے لئے وہ تاریخ نگاری کی بجائے تاریخ سازی تک کر ڈالتے ہیں ‘حد تو یہ کہ علمائے صادق پور کو مسلکِ حنفیت سے مربوط کرنے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تاکہ تحریکِ جہاد کا سارا کریڈٹ ان کے حصے میں از خود آجائے ‘حالانکہ یہ دعوی بھی یکسر خلافِ واقعہ ہے‘اہل حدیثانِ ہند کو انگریزوں کا ایجنٹ اور وفادار قرار دینے میں برادرانِ احناف نے جو بو قلموں گل کھلائے ہیں ‘اس کی داستان عجیب بھی ہے اور انصاف و معدلت گستری کے خلاف بھی ‘انہی جیسے تلخ حقائق کی نقاب کشائی اس کتاب میں کی گئی ہے
(۱۴)فتنۂ غامدیت ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (۳۷۲ صفحات) ٹی وی چینلوں کے دانشورجناب جاوید احمد غامدی صاحب (بی اے آنرز، فلسفہ) کے نظریات دین اسلام کے مسلمہ، متفقہ اور اجماعی عقائد و اَعمال سے کس قدر مختلف ہیں اور اُن کی راہ اُمت ِمسلمہ اور علماے اسلام سے کتنی الگ اور جداگانہ ہے، اسے اچھی طرح سمجھنے کے لئے یہ کتاب انتہائی اہم ہے جو انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے‘جس میں ان کے عقائد و نظریات کے دبیز پردوں سے نقاب کشائی کی گئی ہے اور ایک تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے‘جس کے مطالعے سے آپ خود یہ فیصلہ فرما سکتے ہیں کہ علمائے اسلام اور غامدی صاحب میں سے کون حق پر ہوسکتا ہے اور ان کے نظریات و افکار اسلام کے رخِ انور سے کس طرح متصادم ہیں؟ علامہ صلاح الدین یوسف ۔رحمہ اللہ ۔ کی یہ ایک منہجی تألیف ہے جو آپ نے انتہائی جگر کاوی کے ساتھ ترتیب دی ہے‘اس پر علامہ عبد اللہ ناصر صاحب رحمانی کا مقدمہ بھی ہے ‘جس نے کتاب کی اہمیت و معنویت کو دو چند کردیا ہے اور فراہی ‘غامدی ‘اصلاحی وغیرہ کے گمراہ کن اثرات و نتائج سے بحث کرتی ہے ۔
(۱۵)فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات ۔ اس کتاب میں منکرین ِ حدیث کے سرغنہ اوربرصغیر پاک وہند میں فتنہ انکارِ حدیث کو پروان چڑھانے اور اس کی نشونما میں بھرپور کردار اداکرنے والے جناب مولانا حمید الدین فراہی کے باطل نظریات کا دقیق علمی جائزہ اور بھرپور مدلّل ردپیش کیا گیا ہے۔
علامہ صلاح الدین یوسف ۔رحمہ اللہ ۔ کی یہ بھی ایک منہجی تألیف ہے جو آپ نے انتہائی جگر کاوی کے ساتھ ترتیب دی ہے‘اس پر علامہ عبد اللہ ناصر صاحب رحمانی کا مقدمہ بھی ہے ‘جس نے کتاب کی اہمیت و معنویت کو دو چند کردیا ہے‘کتاب فراہی ‘غامدی ‘اصلاحی وغیرہ کے گمراہ کن اثرات و نتائج سے بحث کرتی ہے اور بے تحاشہ شیرینی لئے ہوئے لب و لہجہ کے ساتھ قاری کے ذہن و مزاج پر قبضہ جماتی ہے
(۱۶)مولانا امین احسن اصلاحی اپنے حدیثی وتفسیری نظریات کی روشنی میں
اس کتاب میں منکرین ِ حدیث کے سرغنہ اوربرصغیر پاک وہند میں فتنہ انکارِ حدیث کو پروان چڑھانے اور اس کی نشونما میں بھرپور کردار اداکرنے والے مولانا امین احسن اصلاحی کے باطل نظریات جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب’’ تدبرِ قرآن‘‘ اور’’ تدبر ِحدیث ‘‘میں کیا ہے ان کا دقیق علمی جائزہ اور بھرپور مدلّل ردپیش کیا گیا ہے۔
(۱۷)اسلامی خلفاء و ملوک اور تاریخ اسلام کے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ (۸۲ صفحات) عنوانِ کتاب موضوعِ کتاب کا پتہ دیتا ہے
(۱۸)اہل حدیث اور تقلید(۸۲ صفحات)عنوانِ کتاب موضوعِ کتاب کا پتہ دیتا ہے
(۱۹)عظمت حدیث اور اس کے تقاضے(۹۹ صفحات)(یہ کتاب چند مضامین کا مجموعہ ہے‘جس میں مختلف قسم کے لوگوں۔منکرین حدیث اہل تقلید‘بعض اہل حدیث اور تمام مسلمان ۔ سے خطاب کیا گیا ہے )
رابعا:عبادات ‘ فضائل و مسائل کے باب میں علامہ کی تصنیفات
اسلام میں عبادات کا ایک الگ مقام و مرتبہ ہے‘اس کی اپنی مستقل حیثیت مسلمہ ہے‘اور اس کا انتہائی اونچا مقام ہے ‘اس لئے علامہ نے یہ شعبہ بھی تشنہ نہیں رہنے دیا ‘اور اس باب میں بھی کثیر المنافع کتابیں تألیف فرمائیں ‘ملاحظہ فرمائیں:۔
(۱۹)نماز محمدی اور مسنون دعائیں (۶۷ صفحات )(اس کتاب میں نماز کے مسائل انتہائی اختصار ِ شدید کے ساتھ بیان کردئے ہیں ‘روز مرہ کی دعاؤں کا تذکرہ بھی ہے)
(۲۰)نماز کے بعض اہم مسائل (۲۴ صفحات) (اس کتاب میں چار مسئلوں(موزوں اور جرابوں پر مسح‘کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم ‘سجدۂ سہو کا بیان اور جماعت میں شریک ہونے کا بیان )کا تدکرہ ہے ‘اول الذکر خود حافظ صاحب کا تیار کردہ ہے‘جبکہ ثانی الذکر شیخ فہد بن عبد الرحمن الشویب کی کتاب ہے‘ثالث الذکر اور رابع الذکر کتاب شیخ عبد الرحمن عزیز کی ہے‘کتاب مختصر ہونے کے باوجود انتہائی مفید ‘محقق اور نفع بخش ہے ‘اور سیر حاصل بحث کی گئی ہے )
(۲۱) نماز مسنون اور روزِ مرہ کی دعائیں (۱۶۳ صفحات)(اس کتاب میں حافظ صاحب نے اس کے مشمولات کو انتہائی اختصار مگر جامعیت کے ساتھ با حوالہ و مدلل انداز میں سارے مسائل ذکر فرمائے ہیں ‘جس میں نماز پنجگانہ کے علاوہ دیگر نمازوں کی تفصیل اور ان کے ضروری احکام و مسائل با دلائل ‘اور دعاؤں کا تذکرہ انتہائی شستہ اور سلیقگی کے ساتھ فرمایا ہے)
(۲۲)زکاۃ ، عشر اور صدقۃ الفطر کے مسائل (۱۸۳ صفحات) (یہ کتاب اسم با مسمی ہے‘اور متعلقہ مباحث سے انتہائی مدلل انداز میں گفتگو کرتی ہے ‘جس میں بہت سارے ایسے پہلو سامنے لائے گئے ہیں جو علمائے اسلام کے لئے بھی قابلِ غور ہیں اور اربابِ حل و عقد کے لئے تدبر و تفکر کے بہت سارے سامان موجود ہیں ‘اگر ان امور پر عمل کر لیا جائے تو بہت سارے معاشی اور معاشرتی مسائل حل ہوسکتے ہیں)
(۲۳)احکام و مسائل عید الاضحی: اس کتاب میں حافظ صاحب نے عید الأضحی اور اس کے مشمولات کو انتہائی اختصار مگر جامعیت کے ساتھ با حوالہ و مدلل انداز میں سارے مسائل ذکر فرمائے ہیں
(۲۴)مسئلہ رویت ہلال اور بارہ اسلامی مہینے(۴۰۲ صفحات )اس کتاب میں انتہائی مدلل انداز میں اسلامی بارہ مہینوں کے متعلق امور (فضائل و مسائل ‘ بعض ان مہینوں میں انجام دے جانے والی بدعات کا تذکرہ ‘بدعات کی ہلاکت خیزیاں اور ان کے نقصانات وغیرہ جیسے امور)کا تذکرہ کیا گیا ہے ‘رویتِ ہلال کے مسئلے کو بھی بہت ہی مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔
(۲۵)کیا مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق ہے ؟(۶۷ صفحات )(یہ حافظ صاحب کے دو مضامین کا مجموعہ ہے ‘جس میں انتہائی شرح و بسط کے ساتھ موضوع کی توضیح و تبیین کا حق ادا کیا گیا ہے‘ہمارے بعض حنفی بھائی انتہائی طمطراق سے مرد اور خواتین کی نماز میں فرق باور کرانے کی مذموم جسارت کرتے ہیں ‘بھونڈی دلیلیں بھی پیش فرمانے میں کوئی لیت و لعل نہیں کرتے ہیں‘اس کتاب میں ان دلائل کا گریباں بھی چاک کیا گیا ہے )
(۲۶) نماز جنازہ : یہ کتابچہ اسم با مسمی ہے ‘اور موضوعِ کتاب عنوانِ کتاب سے واضح ہے
(۲۷)آداب نماز اور خشوع و خضوع کی اہمیت (۳۷ صفحات) یہ کتابچہ اسم با مسمی ہے ‘اور موضوعِ کتاب عنوانِ کتاب سے واضح ہے
(۲۸)حصن المسلم کا اردو ترجمہ (ڈاکٹر سعید بن وھف القحطانی کی دعاؤں پر مشتمل کتاب ,,حصن المسلم‘‘ کا اردو ترجمہ ہے )
(۲۹)رمضان المبارک: فضائل و فوائد و ثمرات‘ احکام و مسائل اور کرنے والے کام: ۹۱ صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ متعلقہ موضوع کے لئے معلومات کا خزینہ اور مسائل کا گنجینہ ہے ‘اور مدلل و سیر حاصل بحث کرتا ہے
خامسا:اسلامی معاشرت ‘دینی آداب ‘اخلاقیات و سلوکیات ‘حقوق و فرائض و واجبات اور خواتینِ اسلام کے حقوق کی پاس داری پر علامہ صلاح الدین یوسف کی خامہ فرسائی
(۲۸)حقوق و فرائض( ۲۵۵ صفحات)
(۲۹)حقوق اللہ (۴۷ صفحات)
(۲۹)حقوق العباد (۷۵ صفحات)
(۲۹)حقوق الوالدين (۲۷ صفحات)
(۳۰)حقوق الاولاد (۷۱ صفحات)
(۳۱)حقوق الزوجين(۴۳ صفحات)
حقوق و فرائض سے بحث کرنے والی کتابیں ہیں جو عظیم ہیں اور انتہائی اہم بھی اور حقوق سیریز پر مدلل اور مفصل بیان بھی
(۳۲)عورتوں کے امتیازی مسائل (۴۲۶ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں عورتوں سے متعلق تمامی مسائل و احکام ‘ان سے متعلق جور و ستم ‘اسلام کا خواتین پر احسانات و انعامات ‘ان کی ذمہ داریاں ‘حقوق اور ساحرانِ مغرب کی عشوہ طرازیوں اور دلدادگان مغرب کی فتنہ سامانیوں کی بھر پورقلعی کھولی گئی ہے )
(۳۳)اسلامی آدابِ معاشرت (۲۵۶ صفحات ) مسلمانوں کو جھنجھوڑنے ‘انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کرنے ‘قرآن کریم کے ابدی نور سے منور کرنے اور سیرتِ رسولﷺ کی دائمی قندیل روشن کرنے کے لئے یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے اور زمانے اور زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں چھوڑا گیا ہے ‘جس میں مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ انجام نہ دیا گیا ہو‘دیگر ابواب میں فضائل قرآن ‘حسنِ معاشرت‘اخلاقِ حسنہ ‘صفات المؤمنین ‘فضائل اعمال ‘برے اعمال سے اجتناب و احتراز اور نیکی و بدی میں امتیاز کی تعلیم کے ساتھ ساتھ حسنِ عمل کی بھی تعلیم دی گئی ہے ‘حقیقت میں یہ کتاب صحیح احادیث کی روشنی میں اسلامی معاشرت کے لئے ایک جامع دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ‘احادیث کے انتخاب میں علومِ حدیث کے پختہ ذوق اور صحت و استناد کا بھر پور لحاظ رکھاگیا ہے
(۳۴)لباس اور پردہ (۱۵۸)عنوانِ کتاب موضوعِ کتاب کا پتہ دیتا ہے
(۳۵)عورت کی سربراہی کا مسئلہ ‘شبہات و مغالطات کا جائزہ (۱۲۸ صفحات) کتاب کئی مضامین کا مجموعہ ہے‘ اور کئی افراد کا جواب بھی‘عورتوں کے بارے میں قرآن و حدیث کے مسلمہ اصول کو پامال کرنے کی کوشش کے جواب میں یہ تحریریں انتہائی اہم ہیں ‘معاشرے میں ایک عورت کی سربراہی کے مسئلہ کو جس انداز سے پیش کیا گیا ہے ‘اور بعض لوگ جس انداز سے اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے ‘حافظ صاحب نے اس کتاب میں اسی قسم کے زہر کا تریاق مہیا کرنے کی سعی فرمائی ہے ‘جو شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں ‘ان کے ازالہ کے کوشش کی ہے ‘یہ کتاب کئی معتبر فضلاء کے مضامین کا مجموعہ ہے ‘جن میں پروفیسر اسلم اور نعیم الحق نعیم کے اسمائے گرامی بطور خاص شامل ہیں ‘اور یہ سارے مضامین ہفت روزہ (الاعتصام ) میں شائع ہو چکے ہیں ‘اور ۱۹۸۸ ء کے پاکستانی انتخاب میں پیدا ہونے والے بعض اہم مغالطات اور شبہات کی روشنی میں لکھے گئے ہیں ‘اور کتاب و سنت کی روشنی میں موضوع بھر پور اور مدلل بحث کی گئی ہے
(۳۶)ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل (۲۴۱ صفحات) گھریلو زندگی کس طرح خوشگوار رکھا جائے ؟معاشرتی زندگی کو امن و امان کا گہوارہ کیسے بنایا جائے ؟ زوجین کے مہذب اور متمدن طریقے کیسے ہوں؟اس کی تلقین و ترغیب کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے ‘جس سے مجال ِ انکار نہیں ‘اس کتاب میں حافظ صاحب نے کتب و سنت کے علاوہ قدیم و جدید علمائے اسلام کی تحقیق کے حوالوں سے اپنے موقف کی تائید و توثیق میں مسلکی اختلاف اور ہر طرح کے تعصب و تنگ نظری سے گریز فرمایا ہے ‘اور طلاق کے متعلق دیگر مکاتبِ فکر کی رائیں بھی پیش کی ہیں ‘اور انتہائی سنجیدگی کیساتھ غور و فکر کی دعوت دی ہے ‘مروجہ حلالے کی قباحتوں ‘اور اس کے مضر اثرات و خطرات ِ بد سے بھی پردہ اٹھایا ہے ‘اور علمائے احناف سے انتہائی دل سوزی کے ساتھ اپیل بھی کی ہے کہ وہ فقہی جمود سے باہر نکلیں اور توسّع کا مظاہرہ کریں اور صحیح موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں ‘کتاب دلائل و براہین سے مملو و مشحون ہے ‘اور کوئی بھی بات بلا دلیل ذکر نہیں کی گئی ہے ۔
(۳۷)مسنون نکاح اور شادی بیاہ کی رسومات (۱۰۹ صفحات )پر مشتمل یہ کتاب در حقیقت حافظ صاحب کے چند اہم ‘بیش قیمت مضامین اور اہم سوالات کامجموعہ مبارکہ ہے ‘اس میں سکےکے دو رخ بیان کئے ہیں ‘ایک پہلو تو یہ ہے جس میں عام طور پر مسلمان پھنسا ہوا ہے ‘جیسے بارات‘منگنی ‘نیز تمام جاہلانہ رسوم و رواج اور دوسرا پہلو جس کا اسلام ہم سے مطالبہ کرتا ہے ‘سے خوب سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور بلا شبہ یہی دین و دنیا کی سعادت و فلاح اور ظفر و نجاح کا ذریعہ ہے
(۳۸)بارات اور جہیز کا تصور ۔مفاسد اور حل (۵۰ صفحات)کتاب میں بارات‘منگنی ‘جیسے امور پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے‘اس طرح کے امور سے پیدا ہونے والے مفاسد و مضرات کا تذکرہ ہے ‘ اور بلا شبہ یہی دین و دنیا کی سعادت و فلاح اور ظفر و نجاح کا ذریعہ ہے کہ انسان دینی و دنیوی مفاسد ‘مضرات ’خطرات اور اثراتِ بد سے بچتا رہے ۔
(۳۹)مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں (۹۱ صفحات) اس کتاب میں ولایت وغیرہ کے مسائل سے بحث کی گئی ہے‘کورٹ میرج‘لو میرج کے عدم جواز پر فتاوی اور نقولات سے ثابت کیا گیا ہے کہ لو میرج معاشرے کے لئے کس قدر زہرِ ہلاہل ہے‘اور اس کے رواج سے اخلاقی قدریں کس طرح دھڑام ہوتی ہیں
(۴۰)حدِ رجم کی شرعی حیثیت عنوانِ کتاب موضوعِ کتاب کا پتہ دیتا ہے
(۴۱)کھانے پینے کے آداب عنوانِ کتاب موضوعِ کتاب کا پتہ دیتا ہے
(۴۲)سونے جاگنے کے آداب عنوانِ کتاب موضوعِ کتاب کا پتہ دیتا ہے
(۴۳)سلام کے آداب عنوانِ کتاب موضوعِ کتاب کا پتہ دیتا ہے
(۴۴)خواتین کے امتیازی مسائل و قوانین ۔حکمتیں اور فوائد (۳۱۵صفحات)یہ کتاب آں رحمہ اللہ کے مختلف موضوعات کا مجموعہ ہے ‘جو مختلف ضروری اور اہم مواقع پر تحریر کئے گئے تھے ‘اس کتاب میں انتہائی عرق ریزی کیساتھ:اسلام میں عورت کامقام ‘پردے کے احکام و آداب ‘عورت اور تعلیم ‘عورت اور سیاست ‘عورت اور اس کی سربراہی ‘عورت اور مسئلہ ولایت نکاح‘تعددِ ازدواج اور اس کی حکمتیں‘مرد کا حق طلاق اور اس کی حکمتیں‘مسئلہ طلاقِ ثلاثہ ‘عورت کا حق خلع اور اس کے مسائل‘عورت اور مسئلہ ٔ شہادت‘عورت اور قتل ِ خطأ کی دیت‘عورت اور مسئلہ وراثت اور عورت اور مرد کی نماز میں فرق جیسے ۱۵ ؍ قسم کے وہ امتیازی مسائل بیان کئے گئے جو مرد و خواتین کے درمیان مابہ الإمتیاز ہیں‘جن میں شرعیِ مطہرہ نے دونوں صنفوں کے درمیان فرق کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے ‘ان مابہ الامتیاز مسائل میں یہ فرق کیوں رکھا گیا ہے؟کیا حکمتیں ہیں‘اس کے کیا فوائد ہیں ؟یہی اس کتاب کا موضوع ہے
(۴۵)ایام مخصوصہ میں عورت کا قرآن پڑھنا: عنوانِ کتاب موضوعِ کتاب کا پتہ دے رہاہے
(۴۶)مسئلہ طلاقِ ثلاثہ اور احناف یہ ایک مختصر مگر جامع رسالہ ہے جو موضوع کی انتہائی سنجیدگی کے ساتھ واضح کرتا ہے ‘اور احناف برادری کو دعوتِ فکر بھی دیتا ہے
(۴۷)حقوقِ مرداں حقوقِ نسواں اسلام کی روشن تعلیمات کے آئینے میں (۳۵۹ صفحات) یہ کتاب در حقیقت علامہ موصوف کی ان مایہ ٔ ناز کتابوں میں سے ایک ہے ‘جس میں آں رحمہ اللہ نے انتہائی جگر کاوی کے ساتھ مواد ‘نصوص ‘اور آیات و احادیث کی روشنی میں عورتوں اور مردوں کے حقوق بیان فرمائے ہیں ‘ان کے خد و خال متعین فرمائے ہیں ‘پاکستان میں اب حقوق ِ نسواں کے تعلق سے بل پیش کیا گیا جس میں عورتوں کو دی گئی اسلام کی رحمتیں ‘برکتیں اور نعمتیں چھِنتی نظر آئیں‘خواتین کے حشمت و وقار پر ضرب ِکاری اور پورے معاشرے کو قعرِ مذلت کی طرف ڈھکیلنے کی ناروا کوشش کی گئی تو حافظ صاحب کا سیال قلم حرکت میں آگیا اور اس بل کے جملہ مالہ و ما علیہ کو انتہائی پختہ دلائل کے ساتھ آشکارا فرمایا ‘علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی کے مقدمہ نے کتاب کی معنویت میں بے تحاشہ اضافہ فرمایا ہے
(۴۸)نفاذ شریعت کیوں اور کیسے (۳۵ صفحات)اس کتاب میں قیامِ پاکستان کے مقصد کو واضح کیا گیا ہے ‘جس میں پاکستان میں نفاذِ شریعت کیوں اور کیسے ضروری ہے جیسے دو شقوں کو بیان کیا گیا ہے
(۴۹)اجتہاد اور تعبیرِ شریعت کے اختیار کا مسئلہ ‘پارلیامنٹ اس کی اہل ہے یا باصلاحیت علماءِ اسلام
علامہ کی شروح و تراجم کے متعلق خدمات و انجازات
(۵۰)منحۃ الباری ترجمہ الأدب المفرد للبخاری:یہ کتاب امام بخاری کی مایہ ٔناز کتاب (الأدب المفرد) کا اردو ترجمہ ہے
(۵۱)شرح ریاض الصالحین :امام نووی کی کتاب (ریاض الصالحین )عوام و خواص میں انتہائی مقبول و متداول ہے جسے علامہ موصوف نے ساتویں صدی میں تألیف فرمائی تھی ‘اس کت متعدد شرحیں اردو اور عربی میں لکھی گئیں ہیں‘یہ کتاب بہترین جامع تبلیغی نصاب بھی اور نفوسِ صالحہ کی تربیت کے لئے ایک بہترین گلستان بھی ہے ‘حافظ صاحب نے بھی (دلیل الطالبین ترجمہ و فوائد ریاض الصالحین)کے نام سے اردو دنیا کو روشناس کرایا اور کئی خوبیوں سے مزین فرمایا ‘جس میں صرف ترجمہ ہی نہیں بلکہ بہترین اور عظیم فوائد بھی مدون فرمائے ‘ہر حدیث کی تخریج فرمائی ‘اور کتاب میں موجود ضعیف روایات پر حکم (ضعیف) بھی لگایا اور کتاب کے آخر میں احادیث اور آثار کا اشاریہ بھی موجود ہے ‘جو سابقہ تمام تراجم اور حواشی میں ممتاز کرتا ہے ‘کتاب دو جلدوں کو محیط ہے ‘پہلی جلد ۷۴۲ صفحات اور دوسری جلد ۷۶۱ صفحات پر محیط ہے
(۵۲)تنقیح الرواۃ فی تخریج أحادیث المشکاۃ (اس کا تذکرہ شیخ عبد الحکیم عبد المعبود مدنی نےآپ کی تألیفات کے ضمن میں اپنے ایک مقالہ میں فرمایا ہے ‘مجھے اس کا سراغ نہیں مل سکا‘در اصل یہ کتاب مولانا سید احمد حسن دہلوی اور مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی کی ہے‘البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ علامہ عطاء اللہ بھوجیانی ۔رحمہ اللہ ۔کے زیرِ نگرانی اس کتاب پر کام ہوا ہے ‘اور آپ کے کئی شاگردوں نے تحقیقی اور علمی کام سر انجام دیا ہے ‘جن میں قاری نعیم الحق نعیم ۔جو ایک پختہ عالمِ دین‘محنتی اور تجربہ کار انشاء پرداز تھے ‘ہفت روزہ الاعتصام کے مدیر بھی رہ چکےہیں۔سرِ فہرست ہیں‘غالب امکان یہ ہے کہ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب بھی اس ٹیم میں شامل ہوں ‘ یا اپنے طور سے علامہ بھوجیانی نے آں رحمہ اللہ سے بھی کام لیا ہو اور اس طرح آں رحمہ اللہ نے بھی علامہ بھوجیانی کے زیر نگرانی کام کیا ہو ‘واللہ اعلم)
(۵۳)نمیمۃ الصبی فی ترجمۃ الأربعین من أحادیث النبی سید صدیق حسن بھوپالی کی کتاب کی تسہیل و تنقیح(اس کا تذکرہ شیخ عبد الحکیم عبد المعبود مدنی نے اپنے ایک مقالہ میں فرمایا ہے ‘مجھے اس کا بھی سراغ نہیں مل سکا‘تاہم یہ بات معروف ہے کہ یہ علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی کی ہے جو اردو زبان میں ہے‘غالب امکان ہے کہ شیخ صلاح الدین یوسف نے علامہ بھوپالی کی کتاب کی تسہیل اور تنقیح کا کام کیا ہو ‘واللہ اعلم )
آپ کی تألیفات کے خصائص و امتیازات
متذکرہ بالا تفصیلات سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہ ہوگا کہ اللہ تعالی نے شیخ ۔رحمہ اللہ۔ سے گوناگوں میدان ہائے عظیمہ مختلفہ ‘منفرد مجالات ہائے کثیرہ ‘جملہ ہائے شعبۂ حیات (عقائد و نظریات ‘افکار و خیالات‘عبادات و مسائل ‘احکام و معاملات ‘اخلاقیات و سلوکیات ‘مناہج و مدارک ‘حقائق و واقعات ‘شواہد و حوادثات)کے تمامی امور میں بیشمار کام لئے ہیں ‘اور علامہ ۔رحمہ اللہ۔ نے مکمل ذمہ داری کے ساتھ اس میں اپنی حصہ داری پیش فرمائی اور خدمات انجام دی ہیں‘زندگی کا کوئی ایسا گوشہ اور شعبہ نہیں چھوڑا جسے آپ کے قلم نے مس نہ کیا ہو ‘اب آئیے آپ کی تالیفات کے خصائص و امتیازات پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں
(۱)آپ کی تالیفات و تصنیفات کی ایک عظیم خوبی اور قابل ِ صدرشک پہلو یہ ہے کہ آپ نے زندگی کے تمام شعبوں سے بحث فرمائی ہے
(۲)آپ کی تالیفات کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت طشت از بام ہوجاتی ہے کہ آپ کی عربی زبان پر زبردست گرفت تھی‘گوکہ آپ نے بزبانِ عربی کوئی کتاب تالیف نہ فرمائی ‘لیکن آپ کی تالیفات پڑھنے ‘بغور ان کا مطالعہ کرنے اور ان پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ عربی زبا ن کے پیچ و خم سے کس قدر بہرہ ور تھے ‘عربی نصوص ‘قرآنی آیات ‘احادیث شریفہ کے جملے اور فقرے ‘عربی اشعار و قصائد اور اقوال و آثار پر آپ کی دقیق نگاہ تھی ‘اور آپ نے ان سے اپنی تالیفات میں بھر پور استفادہ فرمایا
(۳)قرآن کریم کی آیات ِ کریمات پر آپ کی انتہائی مضبوط گرفت تھی‘تفسیر احسن البیان ‘ترجمہ ٔ سورۂ فاتحہ اور لفظ بہ لفظ ترجمہ اس کی بین دلیل ہے ‘آپ ان کتب کوپڑھئے تو ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ عظیم مفسر تھے‘احسن البیان میں تو آپ نے تقریبا تمام اہم تفاسیر کا خلاصہ اور نچوڑ پیش فرمایا ہے‘ضعیف اور اسرائیلی روایات سے چھانٹ چھانٹ کر بیش قیمت ہیرے نکالنا‘صحیح اور درست روایات کا انتخاب ‘منہجِ سلیم کا چناؤ و اختیار ‘دلکش انداز اور شیریں زبان کا استعمال ‘حالاتِ حاضرہ سے موازنہ اور مقارنہ‘فرق ضالہ ‘اصحاب بدعات و خرافات پر رد و قدح ‘فکری کجی کی بہ احسن طریقہ تصویب و تصحیح آپ کی تفسیر کی اہم خوبیاں ہیں
(۴)آپ کی تحاریر پڑھئے تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ آپ نے اپنی نگارش میں مناسب الفاظ کا انتخاب ‘عربی و اردو اشعار سے برجستہ اور برمحل استدلال اور بجا استعمال ‘عبارت کی دلکشی‘جاذبیت ‘مٹھاس اور شیرینی ‘جچا تلا تبصرہ ‘محکم انداز ‘بے خوف و بے لاگ تبصرہ جیسے امور کو بخوبی نبھایا
(۵)تردید و تغلیط میں مخالف کے موقف کا گہری نظر ‘گیرائی کے ساتھ مخالف کے رائے زنی‘پھر اس پر جچے تلے الفاظ (الفاظ کی میناکاری سے دور و بعید تر)‘محکم تبصرہ ‘سوقیانہ الفا ظ و جملہ ہائے فاسدہ سے مکمل اجتناب ‘جبکہ ایسے موقعے پر تردید کنندہ کا قلم پھسلتا نظر آتا ہے
(۶)آپ کی تألیفات قدیم صالح اور جدید نافع کا بہترین مرقع تھی ‘آپ نے اپنی تحریروں میں سہل عبارت ‘دلکش انداز ‘شیریں اسلوب‘میٹھی تعبیر ‘واضح المعانی طرزِ بیاں کے قائل تھے ‘اور فاعل و عامل بھی ‘اور آپ نے اپنی تمام تر تألیفات میں اسے برتا اور خوب خوب برتا ‘ایک قاری کی صورت حال یہ ہوجاتی ہے کہ آپ کی تألیفات جب پڑھنا شروع کرتا ہے‘جب تک اسے مکمل نہیں پڑھ لیتا ہے‘اسے چین و سکون نہیں ملتا ‘پھر یہ بھی نہیں کہ ایک بار پڑھنے سے اسے سکون مل جائے ‘بلکہ بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے
(۷)آپ کی تألیفات کا بغور مطالعہ کرنے والا بخوبی جانتا اور مانتا ہے کہ آپ اپنی تألیفات میں صحیح احادیث کا انتخاب کرنے میں منفرد لب و لہجے کے مالک تھے ‘ضعیف احادیث کا تو کوئی گزر ہی نہیں ‘بلکہ تمام منقولات کی تخریج‘تحقیق اور انتہائی تدقیق و تنقیح سے اپنی تألیفات کومزین ‘حوالے اور تخریج کا مکمل اہتمام و التزام فرمایا ہے
(۸)حافظ صلاح الدین یوسف ۔رحمہ اللہ۔ یقینا ایک سلفی اور پکے‘علم و عمل سے لیس ‘اور پختہ اہل حدیث عالم دین تھے‘اس لئے آپ کے قلم سے جا بہ جا سلفیت کی شان مترشح ہونا ‘اوراہل حدیثیت کے ممتاز ‘منفرد اور یگانہ ٔ روزگار ہونا ایک بدیہی امر تھا ‘اس لئے جو کچھ بھی آپ نے لکھا ‘پختہ لکھا ‘سلفیت کے قلم سے کشید کر لکھا ‘آپ کی تألیفات میں الفاظ بھی سلفیؔ ہوا کرتے تھے اور جملے بھی اہل حدیث ‘عبارتیں بھی اثریؔ ہوتی تھی اور اسلوبِ نگارش بھی منہجِ سلیم سے لیس ‘ان تمام الفاظ و جملہ جات ہمیشہ جچے تلے ہوا کرتے تھے ‘اور فکری کجی اور منہجی اسقام و امراض سے پاک و منزہ ‘اس لئے آپ دیکھیں گے کہ (مثلا)لفظ خدا کے استعمال سے ہمیشہ آپ گریزاں رہے ‘حتی کہ تفسیر احسن البیان میں مولانا جوناگڑھی نے جہاں جہاں لفظ (خدا) استعمال فرمایا تھا ‘آپ نے ان مقامات میں لفظ (اللہ) کردیا کیوں کہ آپ اللہ کے لئے لفظ خدا کا استعمال روا نہیں سمجھتے تھے اور یہی حق ہے
(۹) آپ کی تألیفات سے بخوبی یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ آپ ایک فقیہ ِ فقید المثال تھے اس لئے آپ نے ہمیشہ اپنی مؤلفات میں خوبیٔ استدلال اور حسن استنباط کا پہلو غالب رکھا ‘اور اسے کبھی ضائع نہیں ہونے دیا (تردیدو تغلیط کا فریضہ انجام دیا تب بھی اور مستقل کوئی تحریر لکھی تب بھی)اصول و فروع کا کامل احصاء و شمارآپ کی نمایاں شان تھی ‘متعلقہ نصوص سے جودتِ استدلال و حسن ِ استنباط آپ کا فن تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ جامعیت و ایجاز سےسرِ مو انحراف نہ کرنا آپ کا طرہ ٔ امتیاز‘نیز دقتِ نظر اور آپ کی ژرف نگاہی سے آپ کی کتابوں کی معنویت دَہ چند ہوجاتی ہے
(۱۰) آپ ۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ۔وفاقی شرعی عدالت کے مشیر تھے ‘اسلامی اصول و ضوابط سے بھی بخوبی آشنا تھے اور ملکی قوانین و نظامہائے مختلفہ سے بہرہ مند ‘اس لئے آپ حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا بھی جانتے تھے اور آپ کولکھنا بھی آتا تھا ‘آپ نے معاشرتی مسائل پر لکھا اور کھل کر لکھا ‘اسلامی اصولوں سے متعارض قوانین سے ٹکراکر لکھا ‘جب جب اسلامی رخِ روشن کو داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی ‘جب جب اسلامی اقدار کا تیا پانچہ کرنے کی سعیٔ منحوس کی گئی ‘تو آپ ان ساحرانِ مغرب کے شکار لوگوں کے سامنے سینہ سپر ہوئے اور بے خوف‘جری اور نڈر ہوکر ان کی مخالفت میں مقالے لکھے ‘کتابیں تألیف فرمائیں ‘اور رسالہ جات سے ان عشوہ طرازیوں پر انگشت نمائی فرمائی‘لکھا اور خوب خوب لکھااور اس قدر لکھا کہ اچھے اچھوں کے دانت کٹھے کردئے اور اسلامی ضوابط و نظام ہائے دین کے سامنےگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ‘آپ کی تألیف لطیف (نفاذِ شریعت)‘(حقوقِ نسواں حقوقِ مرداں)، آپ کی کتاب مستطاب (عورتوں کے امتیازی مسائل و قوانین ) اور (عورت کی سربراہی کا مسئلہ ) جیسی کتابیں اس کی بہترین مثالیں ہیں
(۱۱)آپ بلاشبہ ژرف نگاہ‘دقیق النظر اور بالغ نگاہ پکے سلفی عالمِ دین تھے ‘جب بھی منہجی کج روی دیکھی ‘تو آپ کا قلم تڑپ اٹھا ‘اور اس کی خبر لینے میں کوئی تاخیر نہیں کی ‘مگر اسلوبِ حسن سے سرِ مو انحراف بھی نہیں کیا ‘ادب و سلیقہ مندی کا ہمیشہ پاس و لحاظ رکھا‘مخالفت کی‘مگر عزت و احترام کے ساتھ ‘تردید فرمائی مگر توقیر و تبجیل کے ساتھ ‘مخالفین کا منہ توڑ جواب دیا ‘مگر شیرینی و مٹھاس کا دامن کبھی نہیں چھوڑا ‘باطل و الحاد کی سرکوبی اور بدعات و خرافات کی بیخ کنی کے لئے ہمیشہ نبرد آزما رہے مگر اپنے قلم کو کبھی بہکنے نہیں دیا ‘انتہائی تعجب ہوتا ہے اور رشک بھی‘جو عمر بہکنے کی تھی (جب آپ نے خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت لکھی اس وقت آپ کی عمر کوئی بیس بائیس سال رہی ہوگی ‘مگر)آپ کا قلم نہیں بہکا ‘نہیں پھسلا ‘آپ نے کبھی سوقیانہ زبان کا استعمال نہیں فرمایا ‘آپ کے قلم میں ہمیشہ شائستگی ‘شستگی ‘سلاست ‘روانی ‘شگفتگی ‘وضاحت ‘نیک خوئی ‘پاک طینتی غالب رہی ‘اور انشاء و تحریر کے سارے اوصاف بہ درجہ ٔ اتم موجود ہوتے ہیں‘ آپ کی تحریروں میں سلیقہ مندی ‘خیر سگالی ‘نصح و خیر خواہی اور دینی حمیت و غیرت کا اظہار ملے گا اور ان اوصاف سے انس و محبت بھی ‘آپ ہمیشہ کج فہموں کی فکری ترک تازیوں میں دجل و فریب کی کارستانیوں اور فکر و فن کی خامیوں اور خرابیوں کو بھانپ لیا کرتے تھے ‘اور اس کے رد و دفاع میں کمر بستہ رہا کرتے تھے ‘مگر نقد و تبصرہ کرتے ہوئے کبھی بھی آپ پندارِ علم کا شکار نہیں ہوئے ‘بلکہ اپنی باتیں رکھیں ‘مگر گزارشات کی شکل میں ‘کتاب و سنت کی تعلیمات کے رخِ خوبرو سے روشناس کرایا اور نصوصِ کتاب و سنت (وحیین شریفین) سے مبہوت کیا ‘یہی وجہ ہے کہ آپ غیروں میں بھی اتنا ہی مقبول و محبوب تھے جتنا اپنے دیارِ محبت میں ‘اورملکوں کی حد بندیاں‘سرحدوں کی قید زاریاں‘مسالک و مشارب کی جکڑ بندیاں اور عشقِ بتاں کی لا چاریاں کبھی آپ کی مقبولیت و محبوبیت میں حاجز نہیں ہوسکیں‘شرعی مصادر کے رخِ روشن دار کو داغ دار اور اس کے گیسوئے تاب دار کو جب بھی تارتارکرنے کی کوشش کی گئی آپ کا شمشیرِ قلم بے نیام ہوا اور ان نام نہاد مجتہدین کی خوب خوب خبر لی ‘ان کی گوشمالی فرمائی اور ان کے ‘‘اجتہاد و استنباط‘‘ کی قلعی کھولی ہے
(۱۲)خاکسار کی متذکرہ بالا تقسیم پر آپ انتہائی سنجیدگی سے غور و تامل فرمائیں تو آپ بخوبی اندازہ فرماسکیں گے کہ حافظ صاحب ۔علیہ شآبیب الرحمۃ و الرضوان ۔کا قلم زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات کو احاطہ کئے ہوا تھا ‘حافظ صاحب نے زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں چھوڑا جس پر نہ لکھا ہو ‘زندگی کے تمام شعبہ ہائے مختلفہ کے تمام حصوں پر لکھا اور انتہائی بے باکانہ لکھا ‘اور کتاب و سنت کے دلائل و براہین سے مرصع و مزین تحریر فرمایا ‘اور بقول علامہ اقبال ؎
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
الفاظ وہ نہیں جو منہ سے ادا ہوں بلکہ الفاظ وہ ہوتے ہیں جو دِل میں اترجائیں‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: بے شک بعض الفاظ سحر طاری کردیتے ہیں (بخاری رقم :5767)
انسان کے منہ سے ادا کیے گیے کچھ الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اَمَر ہوجاتے ہیں اور رہتی دنیا تک یاد رکھے جاتے ہیں. یہ فقط الفاظ نہیں ہوتے بلکہ ان میں ایک طاقت ہوتی ہے، سچائی کی طاقت، جذبے، ہمت اور ولولے کی طاقت، جو سننے والے کو عمل کرنے پر اکساتی رہتی ہے.
انہیں الفاظ سے مسافرانِ عزم و ہمت اور راہیانِ استقلال و عزیمت اپنی راہوں کی روشنی بھی حاصل کرلیتےہیں۔
الفاظ کا ذخیرہ ہر انسان کے پاس ہوتا ہے لیکن ان کا بہترین استعمال اسے عقل و دانش کی بلندیوں پر پہنچادیتا ہے۔
حافظ صاحب ۔علیہ الرحمۃ ۔ الفاظ کی بندش اور ترکیب ہائے نفیس کے انتخاب کے بے تاج بادشاہ تھے‘اور امین بھی ‘آپ نے جو بھی لکھا ‘دل کی اتھاہ گہرائیوں سے درد و غم ‘محبت و الفت میں ڈوبے قلم سے‘ کوثر و تسنیم سے دھلی زبان میں اور کسی خاص فکر و منہج کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوکر تحریر فرمایا ‘اور ذہن و دماغ سے پہلے دلوں سے گزارش کی ‘پھر یوں ہوتا ہے کہ وہ قاری کے دل و دماغ میں ٹھیک اسی طرح اترتی چلی جاتی ہے جس طرح شبنم زمین پر اترتی چلی جاتی ہے۔
اللہ تعالی سے اس کے اسمائے حسنی اور صفاتِ علیا کا واسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ وہ حافظ صاحب کی جملہ خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے ‘آپ کے میزانِ حسنات میں رکھے ‘آپ کے بلندیٔ درجات اور کفرانِ سیئات کا باعث بنائے‘آپ کی چھوٹی بڑی لغزشوں سے صرفِ نظر کرے‘آپ کو جنت کا مکین بنائے ‘اور انبیاء‘صدیقین ‘شہداء اور صالحین کے زمرے میں شامل فرمائے ‘آمین
؎ ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد