حجاب کا فیصلہ!!!

از قلم :عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

الحمد للہ و کفی و الصلاۃ و السلام علی عبادہ الذین اصطفی أما بعد

آج ہر مسلمان چیخ رہا ہے,چلا رہا ہے,اس کا غصہ آسمان  کو چھو رہا ہے,لاوا پھوٹا جاتا ہے,ہر طرف شکوے کرتا پھر رہا ہے ؛شکایتیں کر رہا ہے,کف ِ افسوس مل رہا ہے اور غم و غصے کا خوب خوب اظہار کر رہا ہے

اور اسے یہ حق  حاصل بھی ہے اور بلاشبہ خوب خوب حاصل ہے مگر کبھی اس تلخ حقیقت پر غور کیا کہ آخر ایسے فیصلے کیوں صادر ہوتے ہیں؟عدالتیں ایسے فیصلے دینے پر کیوں مجبور ہوتی ہیں ؟؎

اپنے خلاف فیصلہ لکھا خود آپ نے ٭ہاتھ بھی مل رہے ہیں آپ,آپ بہت عجیب ہیں

مجھے اس امر کے ماننے میں کوئی جھجک  نہیں ہے کہ اگر ایسے دلائل دے جانے لگے جیسی بے تکی باتیں کرناٹک ہائی کورٹ کی طرف سے کہی گئی ہیں تو کچھ دنوں بعد  یہ دور بھی آئے گا جب کہا جائے گا کہ  داڑھی اسلام کاضروری حصہ  نہیں ہے، نماز، روزہ، زکوۃ، حج ٹوپی کرتا، جیسے امور کچھ بھی اسلام کے لازمی حصے  نہیں ہے، اب مذہب کے فیصلے لوگوں کے اعمال و کردار  دیکھ کر ہوا کریں گے۔ کہا گیا قرآن میں حجاب کا حکم Mandatory نہیں ہے، اس کے چھوڑنے پر کوئی سزا نہیں سنائی گئی ہے، جو بھی سورت میں حکم دیا گیا وہ بس Directory ہے۔ اسی بنیاد پر فیصلے سنانے ہوں پھر تو صرف حجاب کیا پورا مسلم لاء ہی خطرے میں پڑ جائے گا اور بیک قلم ختم کیا جا سکتا ہے ۔

مجھے اس حقیقت کے اعتراف میں بھی  کوئی باک نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت شعائر ِ اسلام کی پابند نہیں ہے,مردوں کو دیکھئے ؛ وہ داڑھی نہیں رکھتے ,لمبی لمبی مونچھیں رکھتے ہیں,نمازوں سے غفلت تو ایک دوسرا مسئلہ ہے,خواتین کے حالات پر نظر ڈالئے؛۹۰ فیصد خواتین پردہ نہیں کرتیں,چہرہ نہیں ڈھانکتیں,اپنے بال کھلے رکھنا اور کھلے بال بازاروں کی زینت بننا اپنا ذاتی حق سمجھتی ہیں؛حد تو یہ ہے کہ بعض یہ نعرہ لگاتی نہیں تھکتی ہیں کہ (میرا جسم میری مرضی),اپنی نمائش کرانا اپنا فرض منصبی سمجھتی ہیں,ٹی وی مباحثوں  میں شریک ہوکر پردہ کے خلاف چیختی چلاتی نظر آتی ہیں,حد تو یہ ہے کہ جو خواتین پردہ کے حق میں بول رہی ہیں,وہ بھی  اپنا چہرہ کھول کر گھومتی نظر آتی ہیں

میں یہ نہیں کہنا چاہتا ہوں کہ ان اسباب کی بنیاد پر عدالت کا یہ فیصلہ درست اور صحیح ہے,نہیں اور قطعی نہیں ,بالکل نہیں ,ہاں اتنا ضرور  ہے کہ ہم بھی اس فیصلے کہ ذمہ دار ہیں
کیوں کہ جب ہم شعائر ِ اسلام کے مطابق عمل نہیں کرتے تو آخر اغیار میں کیا پیغام جائے گا؟اسلام کے متعلق وہ کیا موقف اور رائے رکھیں گے ؟

ظاہر سی بات ہے وہ تو یہی سمجھیں گے نا کہ جب مسلمانوں کی اکثریت یہ سب اعمال نہیں کرتی تو یہ اسلام کا حصلہ نہیں ہے

آج جب یہ فیصلہ آیا کہ (حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے)تو اس کے پیچھے تو عوامل و محرکات ضرور کار فرما رہے ہوں گے

کتابوں میں کیا کچھ لکھا ہے؟کیا دلائل ہیں؟انتہائی شدت و قوت کے ساتھ پردہ اور حجاب کے وجوب پر دلائل موجود ہیں اور اس زور صرف کیا گیا ہے یا نہیں ؟یہ الگ مسئلہ ہے ؛لیکن حقیقی صورت حال یہ ہے کہ چند معدودے کو چھوڑ کر کتنی خواتین حجاب کا اہتمام کرتی ہیں؛ذرا ایک نظر اس پر بھی ڈالنے کی ضرورت ہے

اور کیوں حجاب کا اہتمام نہیں کرتی ہیں,اس پر بھی تامل فرمانے کی حاجت ہے

مجھے اس حقیقت کے اعتراف میں بھی  کوئی جھجک نہیں کہ اس طرح کے مسائل و مشکلات ہم نے خود پیدا کئے,حجاب کا اسلام کا حصہ ہونے یا نہ ہونے کا پیغام ہم نے اپنی عملی زندگی میں بارہا دیا اور ہماری مسلم خواتین نے دیا ؛اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ عدالت نے صحیح اور جائز فیصلہ سنایا ؛بلاشبہ عدالت کا یہ فیصلہ اسلام مخالف فیصلہ ہے,جذبات پر مبنی فیصلہ ہے,اس فیصلے سے مسلم کمیونٹی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔

جی ہاں !ہماری مسلم خواتین اگر حجاب کا مکمل اہتمام کرتیں,جب بھی اپنے گھر سے نکلتیں تو با پردہ نکلتیں,نقاب و برقعہ اور گھونگھٹ و آڑ کے ساتھ نکلتیں بلکہ  بلا ضرورت گھر سے نہ نکلتیں تو کیا مجال کہ ایسے حالات پیدا ہوتے اور ہم کو قرآن و حدیث سے اس کے دلائل دینے پڑتے ,اس کے لئے مقدمے لڑنے پڑتے ,کورٹ کچہری کے چکر لگانے کی ضرورت ہوتی

آج ہم اس مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں اپنے شعائر کو ثابت کرنے کے لئے دلائل دینے پڑتے ہیں,مقدمے کی ضرورت ہوتی ہے,عدالتوں کے سامنے گریہ و زاری کرنا پڑتا ہے,سماعتیں ہوتی ہیں,انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر فیصلہ وہی ہوتا ہے جس کے بارے میں کسی کہنے والے نے کبھی کہا تھا ؎

ہم نے سوچا تھا کہ منصف سے کریں گے فریاد٭وہ بھی کمبخت تیرا چاہنے والا نکلا

عدالتوں سے کس قسم کے فیصلے صادر ہوتے ہیں ,ہم دیکھ چکے ہیں,اس کا خمیازہ ہم بھگت چکے ہیں,بلکہ بھگت رہے ہیں,بابری مسجد ہمارے ہاتھ سے چلی گئی ,جبکہ تمام تر شواہد و ثبوت ہمارے حق میں تھے,مگر اعتقاد اور آستھا کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو ٹھینگا دکھا دیا گیا ؎

میرا قاتل ہی میرا منصف ہے٭کیا مِرے حق میں فیصلہ دے گا

عجیب مسئلہ یہ ہے کہ اب لوگ طے کریں گے کہ ہم کیا کھائیں گے ؟کیا پئیں گے ؟کیا پہنیں گے  اور کیا اوڑھیں گے ؟

افسوس ہے ایسی سوچ پر اور حیف ہے ایسے لوگوں پر

ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ,گنگا جمنی تہذیب اس کی خوبصورتی اور جمال ہے؛یہاں ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی اجازت اس کا دستور فراہم کرتا ہے  اور اسے ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتا ہے

ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھیں,شعائر ِ اسلام کے مطابق عمل کریں ؛اپنے عمل سے ہم ثابت کریں کہ ہم کتاب و سنت کے حامل ہیں اور اسلام کی تعلیمات اس طرح ہیں ؛ساتھ ہی حکمت عملی کے ساتھ کسی مسئلہ کو حل کریں ؛عدالتوں میں جانا ,وہاں فیصلے تلاش کرنا اور وہاں انصاف کی امید رکھنا عبث ہے,عدالت ہمارا آخری حل ہونا چاہئے ۔اس سے پہلے ہمیں جملہ دیگر وسائل اختیار کرنا چاہئے

اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ رب کریم ہماری حفاظت فرمائے,ہمارے شعائر کی صیانت کرے اور ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق بخشے آمین یا رب العالمین

رہے نام اللہ کا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *