خوشی اور غم کے  آنسو

                                     از :عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

حامدا و مصلّیا و مسلّما و بعد

ان دنوں (بلکہ مسلسل تین دنوں سے)دو واقعات ایسے رو نما ہوئے,جن سے پورا عالم اسلام بے تحاشا متاثر ہوا؛ایک واقعہ تو ایسا ہے جس نے خون کے آنسو رلا کر رکھ دیا,پورا عالم ِ اسلام بے قرار و مضطرب ہوگیا؛اور سراپا بے کل و بے تاب نظر آیا ,وہ واقعہ ریان مغربی کا ہے,ریان پانچ سال کا ایک لڑکا ہے؛جس نے تین  دنوں سے پورے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا رکھا ہے,ٹویٹر پر تو ٹرینڈ چلا ,اور آج بتاریخ ۶ فروری ۲۰۲۲ء (بروز اتوار)اس دار ِفانی کو خیر آباد کہتے ہوئے راہی ٔ ملک ِ عدم ہوگیا ,آئیے واقعہ کی پوری تفصیل جناب حسن ماہر کی زبانی ملاحظہ کریں ,موصوف لکھتے ہیں :,, ریان المغربی” کا انتقال ہو گیا، لیکن مراکش کے لوگ من حيث القوم زندہ و جاوید ہو گئے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ پچھلے منگل کے دن مراکش ( جو کہ بحر اوقیانوس اور بحیرہ روم سے متصل شمالی افریقہ میں واقع ایک اسلامی ملک ہے) کے ایک علاقہ شفشاون جو کہ مراکش کے شمال مغرب میں واقع ایک پہاڑی علاقہ ہے، اس میں “ریان” نامی پانچ سالہ بچہ گھر سے باہر نکل کر کہیں جا رہا تھا، کہ اچانک ایک نہایت تاریک، تنگ اور گہرے کنوے میں جا گرا، جس کو ڈھونڈنے اس کے گھر والے آس پاس میں بھٹک رہے تھے، کہ اچانک ان کو کہیں سے رونے اور تکلیف میں کراہنے کی آواز آئی وہ کنویں کے پاس پہنچے، اور ان کو یقینی اندازہ ہوا کہ ریان اس کنویں میں ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر پورے ملک میں، جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلقہ افراد، ڈاکٹرز، انجینئرز، ریسکیو ٹیمیں، رضاکار ٹیمیں اپنے اپنے اسباب سمیت پہنچ گئیں، لوگوں کا ایک جم غفیر مسلسل وہاں آخری لمحہ تک موجود رہا، کوریج کے سلسلے میں ملک کے مشہور و معروف ٹی وی چینلز اور بین الاقوامی چینلز کے نمائندے مسلسل لائیو کوریج اپنے رسمی صفحات پر دکھاتے رہیں، مقامی عورتیں، خدمت گار ٹیموں کیلئے اپنے مدد آپ کی تحت کھانے کا بندوبست کرتی رہیں، ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ اپنی اپنی خدمات پیش کرنے پہنچ گئے، جن میں ایک نوجوان رضاکار اس بات پر امادہ ہوا، کہ اسکو رسی سے باندھ کر کنویں میں اتارا جائے، اور وہ ریان کو نکالنے کی ہر ممکن سعی کرے گا البتہ 19 گز نیچے جانے کے بعد اندازہ ہوا، کہ کنواں تقریبا 20 سے 30 سینٹی میٹر چوڑا ہے، جس میں نیچے اترنا اور ریان کو بحفاظت نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، دوسرا ایک یتیم لڑکا جو کہ فقط اس لئے آیا تھا، کہ ریان کو زندہ نکال کر “ریان” کی ماں کا وہ احساس اور ممتا دیکھنا چاہتا ہے، جس سے وہ خود محروم ہے، ریسکیو ٹیمیں وقتا فوقتا رسی کے ذریعے کیمرے کو نیچے تک لیجا کر “ریان” کی زندگی کی خبر لیتے رہے، ریان اندازتا 32 گز سے 40 گز کے درمیاں ایک افقی جگہ پر پھنس چکا تھا جسکو نکالنے کیلئے ہر ممکن حربہ آزمایا گیا، پانی کی بوتل، اکسیجن اور کچھ خوراکی اشیاء اتاری گئ، اور کیمرے کے ذریعے تسلی کی گئ، کہ ریان فی الحال زندہ ہے، وقت گزرتا گیا، لوگوں کی آرزوئیں، دعائیں اور فریادیں بڑھتی گئیں، آس پاس میں کھڑے لوگ مسلسل آہ و بکا ذکر و اذکار کرتے رہے، ریان کے ماں باپ سمیت پوری دنیا پر امید تھی کہ “ریان” کو زندہ نکالا جائے گا، لیکن قدرت کو شائد کچھ اور ہی منظور تھا، ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب تقريبا رات ساڑھے 9:30 بجے نعرہ تکبیر اور لوگوں کے ولولوں اور جذبات کے ذریعے پتہ چلا کر ریان کو نکالا گیا ہے، تب تک کسی کو کچھ بھی اندازہ نہیں تھا، باہر تمام آلات اور اسباب سے لیس ایمبولینس میں ریان کو منتقل کیا گیا اور کچھ ہی دور فاصلے پر کھڑے ہیلی کاپٹر اس بات کیلئے تیار کھڑا تھا، کہ ریان کو نکالتے ہی علاج کیلئے کسی معروف اور بہترین ہسپتال فورا منتقل کیا جاسکے، لیکن ڈاکٹرز کی ٹیم نے اعلان کیا کہ ریان کا انتقال ہوا ہے، لوگوں کا مجمع ابھی منتشر بھی نہیں ہوا تھا کہ ہر دل رنجیدہ ہر آنکھ پر نم اور اشکبار ہوا،ریان کے وفات کی خبر نے ہر شخص کو جھنجوڑ کے رکھ دیا، عرب دنیا بطور خاص اور باقی دنیا بطور عام، شاید ہی کوئی ہو جو اس واقعہ سے لا علم ہو، ایک درس ایک تاثر جو اس واقعہ نے چھوڑا، وہ یہ کہ ملسلسل پانچ دن تک لوگوں کا جم غفیر وہی کھڑے بھوک و پیاس نیند اور آرام سے بے خبر ریان کی بحفاظت نکالنے کیلئے دعائیں کرتے رہے، اور انہوں نے ریان کے غم کو اپنا غم مانا، مسلم دنیا شرق و غرب عرب و عجم اس سانحہ پر ایک ہو گئے،ریان تو رب کے جنت کا مہمان بن گیا، لیکن جاتے جاتے سب کو ایک درس دے گیا، کہ مومنوں کا مثال آپس میں ایک جسد واحد کی مانند ہے، جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہوگا، تو باقی پورا جسم بے چین و بے قرار ہوگا,,

عزیز ریان المغربی تو اس دنیا سے چلے گئے مگر ہمیں پند و موعظت کے ہزاروں دروس سکھا گئے؛ہزاروس سبق دے گئے؛کاش ہم کچھ سمجھ پاتے ؛اور عمل کی کوشش کر پاتے

دوسرا واقعہ جس نے پورے ہندوستانی مسلمان کو بالخصوص اور  بالعموم پورے عالم اسلام  کے ضمیر و قلب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا,اور مارے خوشی آنسو چھلک پڑے,  وہ واقعہ ہندوستانی ریاست کرناٹک کی طالبات کا ہے, وہاں کے ایک کالج کی انتظامیہ کی طرف  سے کالج میں اعلان کیا گیا کہ مسلم طالبات کالج  کی حدود میں تو حجاب کر سکتی ہیں لیکن کلاس کے دوران نہیں؛طالبات مسلسل بیس دنوں سے کالج کے باہر ہیں,انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں ہے

طالبات کا کہنا ہےکہ ہم نے تو سرکاری کالج میں اس لیے داخلہ لیا تھا کہ ہم پرائیویٹ کالج کی فیس نہیں دے سکتے۔ جب دوسرے لوگ اپنی مذہبی رسومات پر عمل کر سکتے ہیں تو ہم پر ہی پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے؟

یہ بہت اہم سوال ہےجو ان کی طرف سے کیا جا رہا ہے ,جن کا جواب تا ہنوز تشنہ ہے,اور ان پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جانا چاہئے؛دوسری طرف مسلم قائدین کی خموشی قابل افسوس  بلکہ صد افسوس ہے,مسلم امہ تماشائی بنی  بے حس و حرکت ان کی طرف دیکھ رہی ہے,مسلم قائدین پتہ نہیں کہاں ہیں؟ان کا تا ہنوز کچھ پتہ نہیں ہے؛البتہ بعض علماء و دعاۃ نے جس بیدر مغزی اور شعوری ِ دین کا مظاہرہ فرمایا ہے,وہ انتہائی خوش آئند امر ہے,مگر وہ طالبات ہیں کہ سراپا احتجاج ہیں اور اپنے حقوق کی لڑائی کے لئے کمر ِ ہمت کس کر میدان ِ عمل میں آچکی ہیں۔

واضح رہے کہ ریاست کرناٹک کے شہر اڈوپی کے گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج کی انتظامیہ نے 31 دسمبر کو حجاب پہن کر کلاس رومز میں آنے پر اصرار کرنے والی چھ مسلمان طالبات کو کلاس رومز میں داخلے سے روک دیا تھا۔

مسلم خواتین کے نام پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے سیاسی لیڈران,زعمائے ملت اور حکمران چپی سادھے ہوئے ہیں,جنہیں طلاق ثلاثہ کے بل لاتے وقت تو مسلم خواتین یاد تھیں,اور ان کا مسیحا بنے پھرتے تھے,مسیحائی چیخ و پکار پورا عالم سن رہا تھا ,مگر حجاب جو خالص شرعی اور اسلامی مسئلہ ہے اور مسلم خواتین کا عظیم حق ہے,اس مسئلہ پر انہوں نے اپنے زبان پر تالے جڑ لئے ہیں اور  ان کی زبانیں گنگ ہوگئی  ہیں۔

حجاب کرنے والی مسلمان خواتین پر حکومتی کالج کی جانب سے پابندی کا تنازع اب ہائی کورٹ پہنچ چکا ہے,مسلم خواتین نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان کو حجاب کے ساتھ کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔

دوسری جانب مذکورہ کالج کی ڈویلپمنٹ کمیٹی کے نائب صدر یش پال سوورنا کے مطابق: کالج میں اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی لگ بھگ 150 طالبات زیرِ تعلیم ہیں جن میں سے کسی نے اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی اور کالج کے قواعد و ضوابط اور ڈریس کوڈ کا احترام کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ طالبات کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی) کی رکن ہیں اور اس معاملے کو متنازع کر رہی ہیں۔ حالاں کہ کالج کے اپنے قوانین اور ضابطے ہیں۔

اُن کے بقول کالج کا ایک جیسا یونیفارم مساوات کا عکاس ہوتا ہے، لہذٰا اس حوالے سے کسی کو کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی۔

یش پال سوورنا کا کہنا تھا اگر ان طالبات کا حجاب پہن کر آنے کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا تو کل کو وہ کالج میں باجماعت نماز کرانے کا مطالبہ کر دیں گی۔

اب جناب یش پال سورونا سے سوال یہ ہے کہ کیا حجاب مسلم خواتین کا اپنا حق نہیں ہے؟کیا اس سے قواعد و ضوابط خلل انداز ہوتے ہیں؟آخر مسلم خواتین پر ہی پابندی کیوں ؟یہ بھی سوال ہے کہ اگر با جماعت نماز ادا کر لیا تو کونسی قیامت قائم ہوجائے گی ؟اور کالج کا کونسا قانون ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجائے گا

جب کہ ریاست کرناٹک میں گیارہویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ کو یونیفارم پہننا لازم نہیں تو پھر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ان پر باحجاب داخل ہونے پر پابندی لگائی جائے؟ آخر انہیں حجاب سے کیوں روکا جا رہا ہے؟ اوراس پر قدغن لگانے کی آخر وجہ کیا ہے؟اگر یہ مسلم دشمنی نہیں تو پھر اور کیا ہے؟

واضح ہونا چاہئے کہ حجاب ایک شرعی حکم ہے,اور باپردہ رہنا اسلام کی منجملہ تعلیمات میں سے ہے,قرآن ِ کریم اور احادیث نبویہ میں بیشتر دلائل موجود ہیں ,جن کی پابندی ہر مسلم خاتون کے لئے لازمی اور ضروری ہے۔

ہمیں اپنی ان بہنوں پر فخر ہے کہ انہوں نے شرعی تقاضوں کے مد نظر علم احتجاج بلند کیا اور اس کالے قانون کے خلاف جم کر جبال راسیات کی طرح  کھڑی ہیں اور صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں,حقیقی بات تو یہ ہے کہ ہم جب ان بہنوں کو سراپا احتجاج دیکھتے ہیں تو فرطِ مسرت سے آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں,دل سے دعائیں نکلتی ہیں؛ہم کچھ نہیں کر سکتے مگر اتنا تو ضرو ر کہہ سکتے ہیں ؎

لہو میں بھیگے تمام موسم٭گواہی دیں گے کہ تم کھڑی تھی

حق کے رستے کا ہر مسافر٭گواہی دے گا کہ تم کھڑی تھی

 ہم اپنی ان با حیا اور عفت مآب بہنوں کی ہمت و جرات کو لّاکھوں سلام پیش کرتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ رب کریم ان کے قدموں کوِ جمائے رکھے ؛آمین یا رب العالمین ۔

ساتھ ہی حکومت ِ وقت سے گزارش اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حجاب مسلم خواتین کا اپنا حق ہے,اس پر کسی طرح کی پابندی لگانا عقل و نقل کے سراسر خلاف ہے ,اور اس سے اقلیتوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔

امید  ہےکہ مذکورہ باتوں پر توجہ مبذول کی جائے گی اور مسلم خواتین کو نہ صرف کرناٹک و گوا میں بلکہ ہر صوبے میں آزادی کے ساتھ اپنے شعائر کی ادائیگی کی اجازت ہوگی اور انہیں تنگ نہ کیا جائے گا ۔ان شاء اللہ۔

رہے نام اللہ کا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *