دنیا میں رائج افکار و نظریات ظلم و استحصال کے خاتمے میں نا کام کیوں ہوئے؟

از قلم:مولانا محمد جرجیس کریمی :

الحمد لله الذي علَّمَ بالقلم، علَّم الإنسانَ ما لم يعلَم، والصَّلاة والسَّلام على النبيِّ الأكرَم، نبيِّنا ومعلِّمنا محمد – صلَّى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلَّم.

موجودہ دور انسانی تاریخ کا ایسا عجیب و غریب دور ہے جس میں انسان نے ایک منصوبے کے تحت خالق کائنات کو دنیا کے سارے معاملات سے بے دخل کر دیا ہے اور اس نے اپنے فکر و عمل کی سر بفلک عمارت کی بنیاد الحاد یعنی انکار خدا پر رکھی ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ علوم و فنون کی ترقی اور سرمایہ دارانہ نظام انسانی زندگی کے تمام ذہنی، اخلاقی، سماجی اور معاشی مسائل حل کر دیں گے؛ مگر اس فکر پر مشتمل تہذیب نے گذشتہ دو سو سالوں سے انسانیت کو جو نتائج دیئے ہیں وہ نہایت ہی تلخ اور کسیلے ہیں۔

سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ انسانی زندگی کا منتہائے مقصود کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کے جملہ افکار و نظریات اور اعمال کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کی ز ندگی شاندار، دکھوں سے مبرا اور مصائب و مشکلات سے پاک ہو۔ کسی تہذیب و تمدن کی کامیابی کو پرکھنے کی کسوٹییہ نہیںہے کہ اس کے نظریات کتنے عمدہ ہیں بلکہ اصل کسوٹی یہ ہے کہ  وہ انسانیت کو صبر و سکون کی نعمت عطا کر دے اور اس کو غموں کی تاریکیوں اور مصائب و مشکلات کے اندھیروں سے نکال کر اس کو امن و سکون اور چین و اطمینان عطا کر سکے۔ جو تہذیب انسانیت کو امن و سکون اور چین و اطمینان عطا نہ کر سکے وہ کبھی کامیاب تہذیب نہیں کہلا سکتی۔ اب اس بات کی روشنی میں گذشتہ دو سو سال سے دنیا میں رائج نظامہائے زندگی سرمایہ داری، اشتراکیت، جمہوریت اور فاشزم کا جائزہ لیا جائے تو ان کے تلخ ثمرات اور کسیلے نتائج اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی انھی میں سے مذکورہ طبقات پر ظلم و استحصال کی کہانی بھی ہے، جو الگ الگ دائرے اور ممالک میں نوع بنوع طریقے سے شب و روز دہرائی جاتی ہے۔ ذیل میں ان نظریات کی بنیادی فکر، عناصرِ ترکیبی اور تلخ نتائج پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی ہے۔

مغربی تہذیب کے اساسی ترکیبی عناصر:

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مغربی تہذیب کوئی نئی تہذیب نہیں ہے بلکہ یہ صدیوں بلکہ ہزاروں سالوں پر محیط تہذیب ہے جس کا نسبی تعلق یونانی اور رومی تہذیب سے ملتا ہے، ان دونوں تہذیبوں نے اپنے ترکے میں جو اجتماعی فلسفہ، سیاسی نظام اور عملی سرمایہ چھوڑا ہے وہی اس کے حصے میں آیا ہے اور اس کی تجدید ڈارون، کانٹ ہیکل، کارل مارکس، مالتھس وغیرھم جیسے بے شمار مفکرین اور نظریہ سازوں نے عہد بعہد اپنے فکر و نظر سے کی ہے۔جس کا اساسی پتھر الحاد، مادیت پرستی، لبرل ازم، سرمایہ دارانہ جمہوریت، فاشزم اور اشتمالیت و اشتراکیت ہے۔ بادی النظر میں اور سطح میں آنکھوں سے سرمایہ داری، فاشزم اور اشتراکیت کے درمیان فرق نظر آتا ہو مگر حقیقت میں اس کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے یہ سب بڑے ازم کے مختلف پرتو ہیں ان کے درمیان جو فرق ہے وہ محض تفصیلات میں ہے اصل کے اعتبار سے سب ایک ہی ہیں، ان کے مزاج اور عناصر ترکیبی عقلی و اخلاقی اٹھان ان سب کا ایک ہے۔ مثلاً سرمایہ داری اس معاشی نظام کو کہا جاتا ہے جس کا منتہائے مقصود مادی منافع کا حصول ہے۔ اشتراکیت اس سے اگلا قدم ہے جس میں چھوٹے چھوٹے سرمایہ داروں کو ختم کرکے پورے کے پورے معاشی اور سماجی نظام کو ایک بڑے سرمایہ دار یعنی ریاست کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔فاشزم سرمایہ داری اور اشتراکیت کے بیچ ایک تیسرا نظام ہے جو قومیت کے عنوان سے فرد واحد کو مطلق العنان ڈکٹیٹر بنا دیا جاتا ہے۔

یوروپ میں کلیسا کے ظلم و استبداد کے خاتمے کے لیے بہت سی تحریکات چلیں، انھی میں لبرل ازم یعنی آزاد خیالی کی تحریک تھی۔ لوگ اس کے ذریعے کلیسا کی بندشوں سے آزاد ہونا چاہتے تھے ، اس اعتبار سے بہت اچھی تحریک تھی اس کی وجہ سے لوگوں میں احسا س و شعور پیدا ہوا، انھیں غور و فکر کرنا سکھایا ان کو بتایا کہ وہ کن کن مظالم کے شکار ہیں۔ مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا اس آزاد خیالی نے ذہنی انارکی کی صورت اختیار کر لی اور اب یہ روشن خیالی کے معنی میں بولاجاتا ہے کہ انسان ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ خواہ وہ مذہب کی عائد کردہ ہوں یا سماج کی۔ ظاہر ہے کہ اس کے بھیانک نتائج بر آمد ہوئے اور تمام سماجی و مذہبی اقدار و اصولوں کا تانا بانا بکھر گیا۔

روشن خیالی کے ساتھ مغرب میں مادہ پرستی کی وبا بھی پھوٹی۔ اس کے معنییہ ہیں کہ دنیا میں مادہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں حتی کہ انسانی وجود کی بھی مادی توجیہ کی گئی یعنی کہا گیا کہ انسان بھی در اصل چند کیمیاوی عناصر کا مجموعہ ہے اور اس کی تمام خواہشات و جذبات کی تکمیل و تسکین مادی ذرائع سے ہو سکتی ہے۔مادہ پرستی کے سیلاب نے مذہب کے باقی ماندہ اقدار او راخلاقی اصولوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا دیااور انسانی وجود کا بنیادی مقصد حصول زر اور جلبِ منفعت بن گیا۔ اسی فلسفہ زندگی نے نیکی اور بدی کی بنیادوں کو ہلا ڈالا۔ اب نیکی وہ ہے جس میں مادی فائدہ حاصل ہو اور بدی وہ ہے جس میں مادی نقصان ہو ، عہد حاضر کی سب سے بڑی مصیبتیہی ہے کہ انسان کے پیشِ نظر کوئی اصول نہیں بلکہ فوری نفع ہے اس لیے وہ ظلم و جور کے ہاتھوں میں بک چکا ہے۔ سیاسی، معاشی اور سماجی تمام میدانوں میں مصلحت پرستی اور نفع اندوزی اساسی قدر بن چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ نفع اور مصلحت ہر فرد اور قوم کی جداگانہ ہوتی ہے۔چناں چہ ماضی قریب نے تمام یوروپین ا قوام کو آپس میں جنگِ عظیم اول و دوم کی شکل میں برسرِ پیکار دیکھا اور کروڑ ہا کروڑ انسانی جانوں کا ضیاع سے بھی مغربی اقوام آپس میں مشترکہ مفاد پر متحد نہ ہو سکیں، مادہ پرستی کی وبا صرف یوروپ اور امریکہ تک محدود نہیں رہی بلکہ پوری دنیا کے تمام ممالک پر چھا گئی چاہے وہ جس مذہب اور نظریے کے زیر اثر ہوں، یہی وجہ ہے کہ ظلم و عدوان کا منظر نامہ پوری دنیا کا یکساں ہے۔

عصرِ حاضر کی ایک مصیبت جمہور کی حاکمیت بھی ہے یعنی قوم کے عوام اپنی اور اپنی رائے میں ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہیں وہ جس چیز کو چاہیں کثرت آراء سے اپنے لیے حلال یا حرام ٹھہرا سکتے ہیں، مذہب اور اخلاق کا کوئی ضابطہ ان کے فیصلے کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا ۔ چوںکہ کسی ریاست کی اصل قوت کا انحصار وہاں کے عوام پر ہوتا ہے اس لیے اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا کہ حاکمیت بھی انھیں کی ہونی چاہیے ۔ اس فلسفہ حکومت نے حاکم اور محکوم کی دوئی کو مٹا دیا ہے اب عوام ہی حاکم بھی ہیں اور محکوم بھی۔ بظاہر اس طرز حکومت سے عوام کو بادشاہوں کے ظلم و ستم سے نجات ملی اور اب انھیںیہ اختیار حاصل ہوا کہ وہ اپنی ترقی اور بھلائی کے لیے ہر طرح کے فیصلے خود کر سکیں۔ مگر اس طرز حکومت سے بھی انسانیت کی مصیبتوں میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فلسفہ حکومت کی اصل اساس یہ ہے کہ عوام کی مرضی ہی اصل حکم ہے ۔ سوال یہ ہے کہ عوام کی مرضی کیسے معلوم کی جاتی ہے؟ ہر شخص کی رائے اور سوچ دوسرے سے مختلف و متضاد ہوتی ہے ، اتنی متضاد آراء میں سے کسی ایک رائے کو تلاش کرنا جو سب کے لیے قابل قبول ہو کیسے ممکن ہے؟ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اکثریت کی رائے کا سہارالیاگیا؛ مگر اس میں بھی دقتیں تھیں کہ اکثریت کی رائے صحیح صحیح معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہوگا؟دراں حالیکہ ہر شخص اپنی رائے بلا کسی دباؤ یا لالچ کے ظاہر کر دے یہ کیسے ممکن ہے؟ خاص طور سے ایسے ملک میں جس کی آبادی سو کروڑ سے زائد ہو اور اس میں مختلف زبانوں، تہذیبوں اور ثقافتوں کا پس منظر رکھنے والی اقوام بھی ہوں، اس دقت کو حل کرنے کے لیے نمائندگی کا طریقہ اختیار کیا گیایعنی چند لوگ پوری قوم کی نمائندگی کریں گے مگر اس میں بھی دقتیں تھیں۔ نمائندگی کے لیے مختلف پارٹیاں تشکیل پائیں ، الیکشنکا بکھیڑا کھڑا ہوا پھر اس میں کابینہ اور وزارتیں بنیں۔ خود مختلف سیاسی جماعتوں کا مختلف سیاسی نظریات کے ترجمان کی حیثیت سے جنم لینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سماج میںمختلف مفادات پائے جاتے ہیں اور کسی ایسے سماج کا تصور ہی نا ممکن ہے جس میں سارے افراد کے مفادات ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوں۔ خلاصہ کلام یہ کہ جمہورکی حاکمیت بھی در اصل آمریت ہی کی ایک شکل ہے اس میں فرد کی آمریت کے بجائے حکمراں پارٹی اور مخصوص الگ گروہ کی آمریت چلتی ہے۔اس کی مثال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت خود ہندوستان ہے۔ ایک سو تیس کروڑ نفوس پر مشتمل عوام کی نمائندگی پانچ سو تینتالیس افراد کرتے ہیں اور ان میں دو سو تہتر افراد کی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہو جاتی ہے تو عملاً دو سو تہتر لوگ ہی ملک میں حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں اور من مرضی فیصلے کرتے ہیں اور قانون بناتے ہیں۔

نظریہ کے اعتبار سے جمہوریت میں سب کی شرکت ہوتی ہے مگر عملاً حکومت الیکشن جیتنے والی پارٹی کی خواہشات کے مطابق کی جاتی ہے اور اس طرح نہ صرف الیکشن ہارنے والی پارٹی کو حاکمیت سے محروم کر دیا جاتا ہے بلکہ اپنے تمام مخالفین ووٹروں کو حکومت کے تمام فائدے سے دور رکھنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے ۔ جمہوری حکومت میں ووٹ بینک ایک معروف اصطلاح ہے جس کا استعمال ذات برادری سے لے کر مذہب تک کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اپنے ہمنوا لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کیے جائیں اور مخالفین کو جس قدر ممکن ہو نقصان پہنچایا جائے۔ ملک کے معاشی ذرائع پر اسی حکمراں پارٹی کا قبضہ ہوتا ہے پریس، عدالتیں، پولس اور مسلح افواج اسی بر سرِ اقتدار پارٹی کی محافظ بن کر سامنے آتے ہیں ، نظام تعلیم، سماجی ڈھانچہ سب بر سر اقتدار طبقے کی چاکری کرتا ہو ا نظر آتا ہے، ایسی صورت حال میںملک کے مظلوم طبقات ظلم کے خلاف آواز بلند کر کے کوئی خوش کن تبدیلی لانا چاہیں تو وہ سارے راستے بند پاتے ہیں۔ ملک کے قانون میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ پریس، میڈیا اور ذرائع ابلاغ حکومت کے اشاروں پر کام کرتے ہیں حتی کہ عدالتیں بھی عدل و انصاف کے دامن کو چھوڑ کر حکمراں طبقے کی خوشامد اور چاپلوسی کرتی ہیں۔ جمہوری مملکت میں ظلم و جبر کو ختم کرنے کے لیے غیر آئینی اور غیر دستوری طریقے اختیار کرنے کی ایک تو گنجائش نہیں ہوتی اور اگر کوئی طبقہ مظالم سے مجبور ہو کر ایسا کوئی اقدام کر بیٹھے تو نام نہاد جمہوریت بد ترین ملوکیت سے زیادہ خونخوار بن جاتی ہے۔

موجودہ دور میں حکومت کے مختلف اداروں اور شعبوں کی مشینری اتنی پیچیدہ ہے کہ ایک عام آدمی کے اندر اسے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اس کے لیے ہر فن میں مہارت کی ضرورت ہوتی ہے یہ مہارت اعلی تعلیم کے حاصل کرنے اور وسیع تجربے کے بعد ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر عصر حاضر میں تعلیمی مصارف اس قدر گراں بار ہیں کہ صاحب ثروت کے سوا کوئی دوسرا اسے اٹھا نہیں سکتا اس لیے غریب اعلی تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ سرمایہ دار اور حکمراں طبقے کا راز بھی عوام الناس کی جہالت میں چھپا ہوا ہے، اگر پس ماندہ اور مظلوم و مقہور طبقات کے اذہان و قلوب میں فکر و احساس کی لہریں پیدا ہونے لگیں تو یہ بر سر اقتدار طبقہ کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے ان کی ہمیشہیہ کوشش ہوتی ہے کہ یہ جہالت کے گہرے گڈھے میں پڑے رہیں؛ چناں چہ عوام الناس ہی اصلی ووٹرس ہوتے ہیں جو امیروں کو ایوان حکومت تک رسائیدلاتے ہیں اور عوام الناس کبھی خوف کے سایے میں اظہار رائے کرتے ہیں کبھی لالچ میں آ کر بلا سوچے سمجھے حکومت کی کرسیاں ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر وہی حکمراں طبقہ عوام الناس کا استحصال کرتا ہے عام لوگوں کو  مختلف سبز باغ دکھا کر آرزوؤں اور تمناؤں کے جنگل میں پھنسا دیتے ہیں جہاں سے وہ نہ کبھی نکل پاتے ہیں اور نہ کوئی بڑا سے بڑا سیاسی حادثہ ان کی آنکھیں کھول پاتا ہے اور اس طرح عوام پس ماندہ کی پس ماندہ اور مظلوم کے مظلوم رہ جاتے ہیں۔

مظلوم طبقات کے ظلم و استحصال کے خاتمے کے لیے کوئی طبقہ آواز بلند کر سکتا تھا تو وہ ذرائع ابلاغ کا کلید بردار طبقہ تھا، اس کے پاس چاہے وہ پرنٹ میڈیا کے مالک ہوں یا الیکٹرانک میڈیا کے آقا آسانی سے مظلوموں کی داد رسی کی آواز کو ایوان حکومت تک پہنچا سکتے ہیں مگر چوں کہ اخبار کا اجراء اور اس کو چلانا یا مختلف چینل کو جاری رکھنا بھاری سرمایہ کے بغیر ممکن نہیں لہذا ذرائع ابلاغ کے مالکان بھییا تو سرمایہ دار ہوتے ہیںیا سرمایہ داروں اور حکمران طبقے کی جبھہ سائی پر مجبور ہوتے ہیں اور پھر پریسیا پرنٹ میڈیا کے مختلف چینلوں کا مقصد مظلوموں کی داد رسی نہیں بلکہ پیسے کماناہوتا ہے اور وہ اپنے مخصوص مفادات کی نگرانی کرتے ہیں ۔ اس کے لیے ہر قسم کے ذلیل طریقے اور حربے استعمال کیے جاتے ہیں جس کا نتیجہیہ ہے کہ جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جانے والا میڈیایا پریس عوام کی ترجمان ہونے کے بجائے ایک جھوٹ اگلنے والا چشمہ بن جاتی ہے ، ہر خبر کو حکمران طبقے کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیا جاتا ہے اور محض یہ ستون چند افراد کے مفادات کی نگراں بن کر رہ جاتا ہے اور حقیقت جھوٹ اور کذب کے بے شمار حجابات میں مستور ہو جاتی ہے اس کے علاوہ حکمراں طبقہ پریس اور ذرائع ابلاغ کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے طرح طرح کے قوانین بھی بناتے رہتے ہیں اور خبروں پر سنسر لگا دیا جاتا ہے اور اخلاقی اور قومی مفاد کا بہانہ بنا کر اس کی آواز کو بآسانی دبا دیا جاتا ہے۔

کسی بھی سماج اور معاشرے کے دبلے کچلے طبقات و افراد کے انصاف پانے کی آخری جگہ عدالت ہوتی ہے۔ مگر موجودہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں عدالتوں کے ججز اور منصفین انھی راستوں سے عدالت کی کرسی تک پہنچتے ہیں جہاں صرف سرمایہ دار کی چلتی ہے اور اسی سرمایہ داروں کے فیضان نظر کی بدولت وہ کرسی عدالت پر براجمان ہوتے ہیں ظاہر ہے ایسی صورت میں انصاف کرتے وقت اپنے آقاؤں کے مفادات کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ ججوں کے فیصلوں پر صرف  ان کی پشت پناہی کرنے والے آقا ہی اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ خود ججوں کے اندر موجو د لالچ اور حرص ان کو عدل و انصاف کے صراط مستقیم سے ہٹا دیتے ہیں۔ اب ایسا معاشرہ جہاں مادی طمطراق اور جاہ و حشم، فوری نفع اور فوائد ہر فرد بشر کا مقصد زندگی ہو وہاں جج اس سے الگ کیسے رہ سکتا ہے، کئی مغربی مفکرین نے عدالتوں کی بد دیانتی پر تنقید کی ہے۔ وسکونٹ برائس اپنی مشہور کتاب جدید جمہوریت(مارڈن جمہوریت) میں لکھتے ہیں: ’’بد اخلاقی کے سارے مظاہر میں سے عدلیہ کی بد دیانتی سب سے زیادہ نفرت انگیز ہے۔ کیوں کہ یہی وہ سب سے آسان طریقہ ہے جس کی مدد سے امیر غریب کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، فرانسیسیوں کو اپنی عدالت پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔ امریکہ میں ایسے جج موجود ہیں جن کے انتخاب میںیا تو سیاست دان کا دخل ہے یا بڑے بڑے صنعتیاداروں کا، بعض شہروں میں وکلا بھی عدالتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ججوں کی رائے کے بدلنے کے طریقوں میں بھی اچھی خاصی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اب رشوت ستانی کے ایسے عمدہ طریقے نکل آئے ہیںجس پر کسی کو کوئی شک نہیں ہوتا۔ لوگ اب ججوں کے سامنے سونے اور چاندی کے ٹھیر نہیں لگاتے بلکہ ان کو صرف اتنی اطلاع دینا کافی ہے کہ اگر وہ بعض مقدمات کا فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق کر دے تو فلاں فلاں کمپنی میں انھیں بغیر سرمایہ لگائے اتنے حصوں کا مالک بنا دیا جائے گا۔ اگر ہزار ججوں میں سے ایک آدھ اپنے ضمیر کی آواز سے مجبور ہو کر عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عزم کر لے تو قانون کے بندھن ان کا ہاتھ روک لیتے ہیں۔ کیوں کہ ملک کے قوانین ہمیشہ اہل سیاست و صاحب ثروت اور سرمایہ داروں کے مفادات کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ ججوں کے ہاتھ میںیہ اختیار نہیں ہوتے کہ وہ خود قوانین بنائیںاور ان کے مطابق فیصلے سنائیں۔وہ ہر روز اپنی آنکھوں کے سامنے ظلم ہوتا دیکھتے ہیںمگر وہ اف تک بھی نہیں کر سکتے، وہ با اختیار ہونے کے باوجود بے اختیار ہوے ہیں اور پھر اقتدار و حکومت کی منڈی میں عدل و انصاف ایسی کوئی سستی چیز نہیں ہے کہ کوئی اسے خرید لے۔ اسے وہی خرید سکتا ہے جس کے پاس روپوں اور ڈالروں کے ڈھیر ہوں مزید یہ کہ عدالت کی ڈگر اتنی آزمائشوں سے بھر ہوئی ہے کہ اس کے پنگھٹ تک پہنچنے میں اچھے اچھوں کی ہمت جواب دے جاتی ہے ۔ ایسے لوگ جو دو وقت کی دال روٹی بھی ٹھیک سے فراہم نہیں کر سکتے ، عدل و انصاف کی بات سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں، چناں چہ وہ بڑے بڑے اور سخت سے سخت ظلم و ستم برداشت کر لیتے ہیں بلکہ وہ صدیوں تک ان مظالم کو جھیلتے رہتے ہیں؛ مگر اس کے باوجود وہ اپنے اندرون میں قوت نہیں پاتے کہ عدالت کے دروازے پر دستک دیں اور انصاف کی گہار لگائیں۔ یہ جمہوریت کے زیر سایہ چلنے والے ممالک کی ایک اجمالی صورت حال ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *