دینی مدارس کی حفاظت  وکفالت   ہر فرد کی ذمہ داری ہے

از قلم:شیخ ندیم أختر سلفی مدنی 

(فاضل جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ ,داعی اسلامک دعوہ سینٹر,حوطہ سدیر(

ابتداءِ نبوت سے لے کر اب تک دین کا علم سیکھنے کے لئے کسی نہ کسی صورت میں علمی مرکز کا وجود رہا ہے جہاں جاکر لوگ تاریک دلوں کو روشن کرنے ،  اپنے دلوں کو پاکیزہ بنانے اور کردار سازی کا ہنر سیکھتے ہیں، دور حاضر کے علمی، دینی اور روحانی مراکز وہی جامعات اور مدارس ہیں جہاں انسانوں کو سنوارا اور مہذّب بنایا جاتا ہے، جہاں انسانوں کو اس کا مقصد وجود یاد دلایا جاتا ہے، اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ کیوں عدم سے وجود میں لایا گیا، اور اسے اس دنیا میں کیا کرنا ہے۔

اس اعتبار سے دینی مدارس کے بقا اور حفاظت وکفالت  کی ذمہ داری سماج کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے کیونکہ یہ دین کا معاملہ ہے جو ہر فرد سے جڑا ہوا ہے، آپ کا کسی بھی پیشہ سے تعلق ہو، سماج میں آپ  کسی بھی حیثیت کے مالک ہوں ، آپ کے بچے مدرسوں میں نہ بھی پڑھتے ہوں پھر بھی مدرسوں کو زندہ رکھنا  اور اس کی کفالت کرنا آپ کی  دینیذمہ داری ہے، کسی بھی صورت میں آپ اپنے آپ کو مدرسوں سے الگ نہیں کرسکتے، آپ کے مال میں مدرسوں کا حق ہے جسے ہر صورت میں بغیر مانگے ہوئے اور بغیر حقیر جانے ہوئے آپ کو دینا اور ان تک پہنچانا ہے، کیونکہیہ مدارس اگر ڈوب گئے تو آپ بھی نہیںبچپائیں گے، اگر ان مدارس کے سچے مخلصین کو حقارت سے دیکھا گیا، انہیں نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی، ان کے خلاف چلائی جانے والی کسی بھی مُہِم میں اگر حصہ لیا گیا تو ذلت و حقارت کا آپ کو سامنا کرنا ہوگا،  آپ کی نسل مٹادی جائے گی ، آپ کے لئے دعا کرنے والا کوئی نہیں رہے گا، تو سماج کے ہر فرد کا کوئی نہ کوئی سِرا  ان مدرسوں سے ضرور ملتا ہے۔

مدارس دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ    جو جامعہ اور یونیورسٹی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، جہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد  قابل اعتبار ڈگری کے ساتھ بچے فارغ ہوتے ہیں،  اپنے کارناموں کی وجہ سے یہ جامعات  چونکہ مشہور ہوتے ہیں  اس لئے   عوامی تعاون کے ساتھ ساتھ ان میں سے بہت سے جامعات اور بڑے مدارس  کے پاس مستقل آمدنی کا ذریعہ بھی ہوتا ہے اس لئے ان کا سفر جاری رہتا ہے، انہیں مالی دقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

دوسری قسم کے مدارس اور مکاتب  وہ  ہوتے ہیں  جو  چھوٹے بچوں کو ابتدائی تعلیم دینے کے لئے ہر گاؤں میں قائم کئے جاتے ہیں، ان میں حفظ ِ قرآن کا بھی  مستقل ایک شعبہ ہوتا ہے، ان مدارس و مکاتب کی اہمیت اور اپنی سطح پر ان کی خدمات  کا  کسی طور پر  بھی انکار نہیں کیا جاسکتا، گاؤں  اور قصبے کے ان مدارس ومکاتب کے پاس  آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں ہوتا اس لئے  وہ   مکمل عوامی چندے پر منحصر ہوتے ہیں، گاؤں کے ان مدارس کو اگر گاؤں اور محلے   کا ہی سپورٹ نہ ملے  تو سوچا جاسکتا ہے کہ یہاں کے بچے اور اساتذہ کا کیا حشر ہونے والا ہے،  ایک تو یہاں کے ٹیچروں کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں اوپر سے گاؤں اور محلے والوں کا غلط رویّہ اور ان کی تنگ نظری۔

یہ کتنے  افسوس کی بات ہے کہ آپ بڑے مدارس  اور  دوسرے گاؤں کے مدرسوں کو   چندہ دیتے ہیں لیکن    اپنے محلے اور گاؤں کے   مدرسہ کو بھول جاتے ہیں ، آپ کو اپنی  اور اپنے بچوں کی ہر ضرورت کی فکر ہوتی ہے لیکن گاؤں کے  مدرسوں  کے بچوں کی فکر نہیں ،  ان میں پڑھانےوالوں کی فکر نہیں؟ آپ کے پڑوس میں چلنے والا مدرسہ پھوس کا ہو    اور آپ عالیشان بنگلوں میں رہتے ہیں کیا  دین سے محبت کا یہی انداز  ہوتا ہے؟

آپ کے مال میں غریبوں کا ، یتمیوں کا  ، سائل اور  محروم کا  بھی حق ہے  اگر آپ نے صحیح طور پر اسے نہیں ادا کیا  تو آپ سے یہ پیسہ چھین کر اللہ اسے دے گا جو ان مدارس پر خرچ کرتے ہیں  اور وہاں پڑھنے والے بچوں اور اساتذہ کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں،  اور گاؤں کے مدرسوں میں پڑھنے والے عموماً یہی غریب  اور محروم  تو ہوتے ہیں،  اور پھر  یہی بچے کل ہوکر آپ کی دینی رہنمائی بھی کرنے والے ہیں، پھر ان کے حقوق سے اتنی غفلت کیوں؟آپ کی تجارت، آپ کی کھیتی  اور آپ کی آمدنی کاایک خاص حصّہ ان مدارس کے لئے وقف کیوں نہیں ہوتا؟ اگر اللہ نے آپ کو نوازا ہے تو اسی نے  اس میں سے خرچ کرنے کا بھی حکم دیا ہے،  اپنی بستی   اور محلے کے ان  مدارس و مکاتب میں پڑھنے  اور  پڑھانے والوں کو    آپ حقیر  اور کمزور سمجھنے کے ہرگز   غلطی نہ کریں،  چٹائی پر بیٹھ کر قرآن  پڑھنے  اور پڑھانے والوں کا موازنہ اپنے پیسوں کے دم پر اسکول اور کالج میں پڑھنے والے اپنے بچوں  سے نہ کریں، یاد رکھیں بخیلوں اور کنجوسوں کے پاس اللہ کی نعمت زیادہ دیر نہیں ٹکتی  ۔

یہ ہمارے سماج کے لئے  شرم اور عار کی بات ہے کہ شادی بیاہ میں خرچ کرنے کے لئے ہمارے پاس لاکھوں روپے ہوتے ہیں، لیکن دینی مدارس کے لئے ہم چند سو کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اسکول اور کالج میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے آپ لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں، لیکن مدارس کے بچوں اور وہاں کے  اساتذہ کرام کی آپ کو ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی پھر  بھی فخر اور شوق سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں! کیا آپ کو احسا س نہیں کہ آپ کی طرح ان کے پاس بھی بچے ہیں ، ان کی بھی  اپنی ضروریا ت ہیں ، آپ مُٹھی بند کرلیں گے تو ان کی ضرورتیں کہاں سے پوری ہوں گی؟

یاد رکھئے! کسی بھی سماج میں خیر کا وجود اللہ کی توفیق اور اعانت کے بعد انہیں مدارس کی مرہون منت ہے، سماج کے ہر فرد پر ان کا احسان ہے اور رہے گا، مدارس کی ذمہ داریوں سے الگ کرنا اپنے آپ کو دین سے الگ کرنا ہے، اور جو دین سے الگ ہوگیا اس کی کیا عزت اور اس کا کیا مقام؟ اس لئے مدارس کو اور ان میں پڑھنے اور پڑھانے والوں کو کبھی حقیر نہ سمجھا جائے، انہیں بے سہارا نہ چھوڑا جائے،  نہ سماج کے کسی فرد کی طرف سے اور نہ خود انتظامیہ کی طرف سے۔

انتظامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ مدرسہ کے اساتذہ کرام کو ان کے جائز حقوق سے محروم نہ کرے، ان کے علم اور صلاحیت کی قدر کرے، حالات کے حساب سے انہیں مناسب تنخواہ دے، ان کا استحصال نہ کرے، مخلصین کو پہچانے، صرف جی حضوری کرنے والوں کو اپنے قریب نہ رکھے، مطلب پرستوں اور خیانت کرنے والوں کو پہچانے، آمدنی اور خرچ کی پوری نگرانی کرے کیونکہیہ قوم کی امانت ہے جس میں خیانت کسی بھی شخص کی طرف سے حرام ہے۔

اللہ ان مدارس کی، ان میں پڑھنے اور پڑھانے والے اور ان کی کفالت کرنے والے  سچے اور مخلصین کی حفاظت فرمائے… آمین

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *