تحریر: جمال زواری احمد
تلخیص و ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی
جب ماہ رمضان کی فتوحات کا تذکرہ ہوتا ہے تو ذہن فورا میدان جنگ کی ان فتوحات کی طرف جاتا ہے جو مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف اس ماہ رمضان میں حاصل ہوئیں مثلا جنگ بدر، فتح مکہ، عین جالوت وغیرہ۔ یہ وہ ایمانی جنگیں تھیں جن میں اللہ تعالی نے اہل ایمان کو زبردست فتح و کامرانی سے سرفراز فرمایا۔ ذہن کا اس طرف جانا صحیح بھی ہے۔ تاہم ایک مومن کے لئے رمضان کی فتوحات اور کامیابیوں کا دائرہ صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ آغاز رسالت سے لے کر دشمنان اسلام کے خلاف جو بھی فتوحات حاصل ہوئیں یا ہو رہی ہیں وہ سب اسی ماہ رمضان کی ایمانی فضا اور مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی تربیت کا نتیجہ ہیں۔
ماہ رمضان کے روزے ایک عظیم تربیت گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس میں بندہ مومن مختلف کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرتا ہے اور یہی کامیابیاں دوسری عظیم کامیابیوں کا زینہ ثابت ہوتی ہیں۔
ماہ رمضان میں ایک مسلمان کو جن کامیابیوں اور فتوحات کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے وہ چند درج ذیل ہیں:
👈ریا و نمود پر غلبہ: رمضان بلاشبہ اخلاص و للہیت کا مہینہ ہے۔ اس میں ریا و نمود پر غلبہ پانے اور اخلاص و للہیت کو پروان چڑھانے کے تمام اسباب وسائل میسر ہیں۔ چنانچہ یہ اسی اخلاص ہی کا نتیجہ ہے کہ روزے دار اپنے رب کے حکم کی بجا آوری میں پورے دن کھانے پینے اور دیگر مادی و معنوی خواہشات سے خود کو روکے رکھتا ہے۔
عن أبي هريرة -رضي الله عنه-، عن النبي -صلى الله عليه وسلم-، قال: ((يقول الله عز وجل: الصوم لي وأنا أجزي به، يدع شهوته وأكله وشربه من أجلي)). ) رواه البخاري (7492) ومسلم (1151)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ بندہ میری خاطر اپنی شہوت اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔
اس کامیابی کا حصول ہی دوسری کامیابیوں کے حصول کا زینہ اور بنیاد ہے۔ اگر بندہ ہمیشہ اللہ کو حاضر و ناظر رکھے یعنی اللہ کو نا پسند آنے والے ہر قول و عمل اور اخلاق و کردار سے اجتناب کرے تو گویا اس ماہ رمضان کا ایک مقصد اور ایک کامیابی اسے حاصل ہوگئی۔ اب اس کامیابی پر اسے پورے سال ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔
👈شیطان پر غلبہ: انسان کو گمراہ کرنے کے لیے خواہشات نفس ہی شیطان کا بڑا حربہ ہے۔ کھانے پینے سے یہ خواہشات مزید بڑھتی ہیں۔ روزہ رکھنے سے خون کی رگیں تنگ ہو جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں شیطان کا راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور شیطانی وسوسے سرد پڑ جاتے ہیں۔ (مدارج السالكين (1/ 456) وروضة المحبين (ص: 219)
عن صفية بنت حيي، قالت: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: ((إن الشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم)). رواه البخاري (3281) ومسلم (2175)
ترجمہ: صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کی روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ خون کھانے پینے سے بنتا ہے۔ جب انسان کھاتا پیتا ہے تو اس سے خون کی رگیں یعنی شیطان کے راستے کشادہ ہو جاتے ہیں۔ اور جب روزہ رکھتا ہے تو وہ راستے تنگ ہو جاتے ہیں پھر دل برائی سے اجتناب اور نیکیوں کی طرف آمادہ ہوتے ہیں۔ (مجموع الفتاوى (25/ 246)
ماہ رمضان میں شیطان کو قید کر کے روزے دار کے لیے اللہ تعالی نے مزید آسانی مہیا فرمائی ہے تاکہ وہ شیطان پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ ماہ رمضان شیطان کو بآسانی مات دینے کا بہترین موقع ہے۔ اگر آپ اس ماہ میں شیطان کے ساتھ معرکے میں ناکام و نامراد ثابت ہوگئے تو گویا دوسرے مہینوں میں آپ اور بھی زیادہ ناکامی سے دو چار ہوں گے۔
عن أبي هريرة -رضي الله عنه-، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: ((إذا دخل شهر رمضان فتحت أبواب السماء، وغلقت أبواب جهنم، وسلسلت الشياطين)). رواه البخاري (1899) ومسلم (1079)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ماہ رمضان میں اللہ تعالٰی امت محمدیہ کے ساتھ یہ فضل و احسان فرماتا ہے کہ وہ شیطان اور سرکش جن کو قید کر دیتا ہے تاکہ دیگر مہینوں کی طرح اس مہینے میں گناہ و معاصی کے راستے ہموار نہ کرسکے۔ اسی لیے اس مہینے میں مسلمانوں سے گناہ کم سرزد ہوتے ہیں۔ (لطائف المعارف لابن رجب (ص: 181)
👈خواہشات نفس پر غلبہ: انسان کے اندر مختلف شہوتیں ہوتی ہیں: بھوک کی شہوت، شرمگاہ اور نگاہ کی شہوت، زبان، کان، دل اور نفس کی شہوت وغیرہ۔ رمضان دراصل انہیں شہوتوں پر قابو پانے کی ایک عملی مشق اور تربیت کا مہینہ ہے۔ چنانچہ روزہ دار ان شہوتوں کی قید و بند سے آزاد ہو جاتا ہے اور گناہوں کے دلدل تک لے جانے والے اسباب و وسائل پر قابو پا لیتا ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو نفس کو بری خواہشات سے دور رکھتا ہے۔ اسے جانوروں کی مشابہت سے نکال کر برگزیدہ فرشتوں جیسی صفات سے آراستہ اور مزین کرتا ہے۔ اس لئے کہ نفس اور اس کی خواہشات کو اگر بے لگام چھوڑ دیا جائے تو انسان جانوروں کی صفوں میں نظر آئے گا۔ مفتاح دار السعادة (2/ 3)
👈خواہشات نفس کے ساتھ جنگ میں کامیاب ہو جانا مومن کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر اسے اس جنگ میں شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اسے مات دینے میں ناکام و نامراد ثابت ہوا تو یہ شکست اسے دوسرے معرکوں میں بھی ناکامی سے دوچار کرے گی۔ نیز یہ خواہشات توفیق الٰہی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں اور آخرت کی کامیابی جو کی ایک مومن کا سرمایہ حیات ہے اس کی راہ میں حائل دیوار ہیں۔
ہمارے اسلاف کرام کو اپنے دشمنوں پر غلبہ اسی وقت حاصل ہوا جب وہ شہوتوں کے معرکے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر جب وہ خواہشات کے سامنے ڈھیر ہوگئے تو انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا اور ان کی قوت و طاقت بکھر کر رہ گئی۔ اندلس کا ہمارے ہاتھوں سے چھن جانا اس کی سب سے بہترین دلیل ہے۔
روزہ وہ عبادت ہے جو شہوتوں پر قابو پانے میں معاون اور مددگار ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث ہے عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه-، قال: قال لنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: ((يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم، فإنه له وجاء)). رواه البخاري (1905) ومسلم (1400)
ترجمہ: اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کی استطاعت رکھتا ہے اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ شادی نگاہیں نیچی رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے میں بڑی معاون ہوتی ہے۔ اور جو شادی کی استطاعت نہ رکھے تو اسے روزہ رکھنا چاہیے کیونکہ روزہ شہوتوں کو قابو میں رکھتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ روزہ نکاح کی خواہشات کو دباتا ہے۔ یہاں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ روزہ گرمی کی شدت کو بڑھاتا ہے جس سے شہوت مزید بڑھتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا شروع میں ہوتا ہے لیکن جب روزہ رکھنے کی عادت ہو جاتی تو یہ شہوت سرد پڑ جاتی ہے۔ واللہ اعلم (فتح الباري لابن حجر (4/ 119)
👈حرص و ہوس اور کنجوسی پرغلبہ: بخیلی اور کنجوسی کے مرض سے نجات اور نفس کو حرص و ہوس کی آلائشوں سے پاک و صاف کرنا بھی روزے کا ایک مقصد ہے۔ کنجوسی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی مہلک اور خطرناک بیماریوں میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
عن جابر بن عبد الله، أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، قال: ((اتقوا الشح، فإن الشح أهلك من كان قبلكم، حملهم على أن سفكوا دماءهم واستحلوا محارمهم)). رواه مسلم (2578)
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: کنجوسی سے بچو اس لئے کہ کنجوسی نے پہلے لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا یہاں تک کہ وہ خون بہانے اور حرمتوں کو پامال کرنے پر اتر آئے۔
وعن عبد الله بن عمرو، قال: خطب رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فقال: ((إياكم والشح، فإنما هلك من كان قبلكم بالشح، أمرهم بالبخل فبخلوا، وأمرهم بالقطيعة فقطعوا، وأمرهم بالفجور ففجروا)). رواه أبو داود (1698) وصححه الألباني في صحيح الجامع (1/ 521)
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: بخیلی سے بچو تم سے پہلے لوگ بخیلی کے سبب تباہ و برباد ہوگئے حرص و طمع نے انہیں بخیلی پر آمادہ کیا تو وہ بخیلی کرنے لگے۔ رشتہ ناطہ توڑنے کا حکم دیا تو انہوں نے رشتہ ناطہ توڑ لیا۔ فسق و فجور پر آمادہ کیا تو وہ فسق و فجور میں پڑگئے۔
حرص و طمع سے نجات روزے کا اہم مقصد ہے۔ اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی اور فیاض تھے اور رمضان میں جب حضرت جبرئیل سے ملاقات ہوتی تو اور بھی زیادہ سخاوت و فیاضی فرماتے۔ ( البخاري (6) ومسلم (2308) من حديث ابن عباس)
اس لیے بندہ مومن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ بخیلی و کنجوسی جیسی ہر مذموم خصلت و عادت کے خلاف اعلان جنگ کرنا چاہیے۔ دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی اس معرکے کو سر کرنے کے بعد ہی نصیب ہو گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: { وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِأَنْفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} [التغابن: 16]
ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے لئے بہتر ہے اورجو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے ۔
ماہ رمضان ایک تربیت گاہ ہے جس میں بندہ سخاوت و فیاضی کی تربیت پاتا ہے۔ اس کے اندر دوسروں کی محرومی اور بے چارگی کا گہرا احساس پیدا ہوتا ہے۔
بعض سلف صالحین سے جب پوچھا گیا کہ روزہ کیوں فرض کیا گیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: تاکہ مالدار بھی بھوک کا مزہ چکھ لے پھر کسی بھوکے کو نہ بھولے۔ (لطائف المعارف لابن رجب (ص: 168)
👈زبان اور اس کی کی تباہ کاریوں پر غلبہ: جب ہم ان احادیث مبارکہ کو پڑھتے اور سنتے ہیں ((من لم يدع قول الزور والعمل به، فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه)). رواه البخاري (1903)
کہ جو جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اسی طرح یہ حدیث ((إذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث ولا يصخب، فإن سابه أحد أو قاتله، فليقل إني امرؤ صائم)). رواه البخاري (1904) ومسلم (1151)
جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو فسق و فجور اور شور شرابا نہ کرے۔ اور اگر اس سے کوئی گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا کرنے کی کوشش کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار آدمی ہوں۔
اس وقت ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ماہ رمضان میں زبان کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جانا کتنی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جو شخص روزہ رہ کر اپنی زبان پر قابو نہ پا سکے پھر وہ شیطان اور اپنی خواہشات نفس کے ساتھ جنگ میں کیونکر کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بندہ بروز قیامت پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئے گا مگر کیا دیکھے گا کہ اس کی زبان نے اس کی تمام نیکیوں کو برباد کر دیا ہے۔ اسی طرح ایک بندہ پہاڑوں کے برابر گناہ لے کر آئے گا مگر دیکھے گا کہ اس کی زبان نے بکثرت ذکر الہی کرنے کی بدولت اس کے تمام گناہوں کو مٹا دیا ہے۔ (الداء والدواء (ص: 161)
وعن عقبة بن عامر -رضي الله عنه-، قال: قلت: يا رسول الله ما النجاة؟ قال: ((أملك عليك لسانك، وليسعك بيتك، وابك على خطيئتك)). ( رواه أحمد (4/ 158) و الترمذي (2406) وصححه الألباني في صحيح الجامع (1/ 295)
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: نجات کا راستہ کیا ہے؟ فرمانے لگے: اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور اپنے گناہوں پر آنسو بہاؤ۔
زبان اور اس کی آفتوں پر کنٹرول حاصل کرنا ایک اہم معیار اور پیمانہ ہے جس کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ روزے دار کو رمضان کی اس تربیت گاہ میں کس حد تک توفیق اور کامیابی نصیب ہوئی ہے، اور کس قدر رمضان کی بے شمار برکتوں اور انعامات سے بہرہ ور ہوا ہے۔
👈کسل مندی، منفی ذہنیت اور لا ابالی پن پر غلبہ: ماہ رمضان مومن کے لیے ہر قسم کے سنجیدہ اور مثبت پہلو تلاش کرنے کا بہترین موقع ہے۔ چنانچہ اس ماہ میں عبادت کا اجر و ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ اطاعت و نیکی کے دروازے چوپٹ کھول دیئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی شیطان کو قید کرکے نیکیوں کی ترغیب دلاتا ہے۔ مختلف قسم کے انعام و اکرام سے نوازتا ہے جیسے رحمت ومغفرت، جہنم سے آزادی، افطار اور رب سے ملاقات کی دو خوشیاں، روزے دار کے منہ کی بو مشک کی خوشبو وغیرہ.
روزہ قوت و نشاط، مثبت شعور اور احساس ذمہ داری کی روح کو پروان چڑھاتا ہے۔ چنانچہ بندہ اس سے منفی ذہنیت، غفلت و لاپرواہی، بے حسی اور ذمہ داری میں کوتاہی پر قابو پانے کا ہنر سیکھتا ہے۔ رمضان کے فضائل و برکات کے نتیجے میں وہ اہم انقلاب رونما ہوتے ہیں کہ انسان غیر معمولی عبادت گزاروں کی صفوں میں شامل ہو جاتا ہے۔
سستی و کاہلی سے بکثرت اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کرتا تھا : ((اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن، والعجز والكسل)). رواه البخاري (2893) ومسلم (2722)
”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں رنج و غم، عاجزی، اور سستی و کاہلی سے۔”
👈امراض قلب سے نجات: چونکہ دل انسان کا وہ قیمتی سرمایہ ہے جو بروز قیامت انسان کو فائدہ پہنچائے گا اور عذاب الہی سے بچائے گا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ۔ { يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ } [الشعراء: 88، 89]
ترجمہ: جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی لیکن فائدہ والا وہی ہوگا جو اللہ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے گا۔
نیز چونکہ سیاہ و تاریک دل جو بغض و حسد، نفرت وکراہیت، کبر و غرور جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہو تو وہ اللہ کی رحمت، اس کی توفیق اور اس کی خاص نصرت و معیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ تو ایسے دلوں کے لیے رمضان کا مہینہ ان آلائشوں سے نجات پانے کا بہترین موقع ہے۔ اس لئے کہ صفائی و ستھرائی سارے اسباب و وسائل مہیا ہیں۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ظاہری اور باطنی دونوں اعضاء و جوارح کی حفاظت میں روزے کی بڑی عجیب تاثیر ہے۔ روزہ دل اور دیگر اعضاء و جوارح کی صحت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ روزہ تقوی کے حصول میں بڑا معاون و مددگار ہوتا ہے۔ (زاد المعاد (2/ 28)
👈برے اخلاق سے نجات: یہی نہیں بلکہ رمضان اخلاق حسنہ کی تعلیم گاہ ہے۔ اس میں روزہ دار ہر طرح کے عمدہ اخلاق سیکھتا اور اس کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بسا اوقات اسے لوگوں کی طرف سے بعض نازیبا سلوک اور تصرفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت اسے اپنے عمدہ اخلاق کو آزمانے کا موقع ملتا ہے۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ((الصيام جنة فإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث ولا يصخب، فإن سابه أحد أو قاتله، فليقل إني امرؤ صائم)). رواه البخاري (1904) ومسلم (1151) من حديث أبي هريرة -رضي الله عنه-
جابر بن عبد اللہ نے روزے داروں کو بڑی عمدہ نصیحت کی ہے: جب تم روزہ ہو تو جھوٹ اور حرام سے تمہارے کان آنکھ زبان کا بھی روزہ ہونا چاہیے۔ پڑوسی کو تکلیف نہیں دینا چاہیے۔ تمہارے اوپر سکینت و وقار طاری ہونا چاہیے۔ تمہارا روزہ اور غیر روزہ کا دن ایک جیسا نہیں ہونا چاہیے۔ (لطائف المعارف لابن رجب (ص: 155)
برے اخلاق اور برے عادات و اطوار سے نجات حاصل کرنا ماہ رمضان کا ایک اہم ترین مقصد ہے جسے ایک مومن کو اپنی بڑی ترجیحات میں شامل رکھنا چاہیے۔
👈بری صحبت سے نجات: ماہ رمضان یعنی ہدایت و مغفرت کا مہینہ سایہ فگن ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ جو برے ساتھی پورے سال عبادت و اطاعت کی راہ میں حائل تھے اور ہر قسم کی برائی و بے حیائی میں ملوث ہونے کا سبب بنے تھے۔ اب ان سب سے نجات حاصل کر کے اپنے رب کی طرف دوڑیں اور مضبوط قلعے کی پناہ حاصل کریں۔ یہ ایک سنہری موقع ہے۔ فضا بھی خوشگوار ہے۔ دل بھی آمادہ ہیں اور اللہ کی طرف سے منادی اعلان کر رہا ہے: ( يا باغي الخير أقبل ) اے بھلائی کے چاہنے والے! آگے آ۔
لہذا اس منادی کی پکار پر لبیک کہیں اور اپنے برے ساتھیوں کی صحبت سے کنارہ کشی اختیار کریں۔
اللہ کا یہ فرمان ہمیشہ یاد رکھیں { الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ } [الزخرف: 67]،
ترجمہ: اس دن ( گہرے ) دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے ۔
اور یہ فرمان بھی: { وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا (27) يَا وَيْلَتَا لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا (28) لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولًا } [الفرقان: 27 – 29]
ترجمہ: اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ ( ﷺ ) کی راہ اختیار کی ہوتی۔ ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو ( وقت پر ) دغا دینے والا ہے ۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو ماہ رمضان کے مقاصد اور اس کی فتوحات حاصل کرنے میں کامیاب بنائے اور ہماری عبادات کو شرف قبولیت بخشے۔