از قلم:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
(داعی جمعیۃ الدعوۃ و الإرشاد و توعیۃ الجالیات ۔میسان ۔طائف؛سعودی عرب)
الحمد للہ رب العالمین ‘و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین و بعد
عیسوی سال (۲۰۲۲ء) کے آخری ایام ہیں ‘یہ سال اپنی بساط سمیٹنے کو تیار ہے‘لوگوں میں مبارکبادیوں کا سلسلہ دراز ہے ‘خوشیاں منائی جا رہی ہیں ‘مسرت و انبساط کا ماحول ہے ‘لوگ آپسی محبت و عقیدت کا تبادلہ کر رہے ہیں ‘کچھ لوگ سال ۲۰۲۲ء کو الوداع کہہ رہے ہیں ‘تو کچھ لوگ سال ۲۰۲۳ء کا استقبال کر رہے ہیں ۔
دیکھنا اب محفلیں سجیں گی ‘ڈمرے بجیں گے ‘گانے گائے جائیں گے ‘فلمیں دیکھی جائیں گی ‘قحبہ خانوں میں بھیڑ ہوگی ‘شراب و کباب کی خوب خوب مستی ہوگی ‘رنگ رلیاں منائی جائیں گی؛نیو ائیر نائٹ کی محفلیں جمیں گی؛ہپی نیو ییر کے نعرے و صدائیں لگیں گی آتش بازیاں کی جائیں گی؛ناچ گانے ہوں گے ؛اختلاط مرد و زن ہوگا؛رقص و سرود ہوگا ؛31دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب بے حیائی اور فحاشی کی تمام حدوں سے گزرا جائے گا ، نیز مذہبی و اخلاقی پابندیوں کو پاؤں تلے روندا جائے گا ؛بلکہ حد تو یہ ہوگی کہ حیوانیت کا مظاہرہ کیا جائے گا جسے فی زمانہ نیو ایئر سیلی بریشن(New Year Celebration) سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس میں متعدد گناہوں کے ساتھ کفار کی تقلید اور نعمتِ خداوندی کی ناقدری کی جائے گی ؛وا لعیاذ باللہ ۔
اس مناسبت سے چند باتیں پیش کی جاتی ہیں ‘شاید ہماری اصلاح کا کوئی سامان مل جائے
(۱)سال کا آنا جانا اللہ کی قدرت کاملہ کا ایک مظہر ہے ‘اور اللہ کا یہ طریقہ ٔ کار رہا ہے ‘کہ زمانہ میں الٹ پھیر کرتا رہتا ہے ‘اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :إن في خلق السموات و الأرض لآيات لأولي الألباب(آل عمرن:190) ترجمہ:آسمانوں و زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقینا عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں)
رب کائنات کے رات و دن کے اس الٹ پھیر سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے
(۲)سال کے اختتام پر تمام کمپنیاں اپنے آمد و خرچ کا حساب و کتاب کرتی ہیں ‘لہذا ہمیں بھی حساب و کتاب کرنا چاہئے ‘حساب و کتاب کس چیز کا؟
حساب و کتاب اپنے اعمال کا
حساب و کتاب اپنے افعال کا ؛اقوال کا
حساب و کتاب اپنے کردار کا ؛گفتار کا
حساب و کتاب اپنے عادات و گفتار کا؛اطوار کا
حساب و کتاب اپنے انجام دئے ہوئے تمام اچھے اور برے افعال کا
حساب و کتاب اپنے نفس کا
حساب و کتاب اپنی تقصیر ِ عمل کا
کیجئے اور خوب کیجئے
اسی لئے حضرت عمر۔رضی اللہ عنہ۔ فرمایاکرتے تھے :حاسِبوا أنفسَكم قبل أن تُحاسَبوا، وتزيَّنوا للعَرْض الأكبر، وإنما يَخِفُّ الحسابُ يوم القيامة على مَن حاسَب نفسَه في الدُّنيا،،(محاسبۃ النفس از ابن الدنیا :ص ۲۲‘کتاب الزہد از امام احمد ص ۱۲۰‘حلیۃ الأولیاء از ابو نعیم اصفہانی ۱ ۵۲‘علامہ البانی نے اسے سلسلہ ضعیفہ(۱۲۰۱)میں ضعیف قرار دیا ہے‘البتہ معنی کے اعتبار سے بہت صحیح ہے )
لہذا ہمیں اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہئے ‘اور گزشتہ سے پیوستہ اعمال میں موازنہ و مقارنہ کرنا چاہئے
(۳)ہمیں ایسے موقعہ پر یہ بھی جاننا چاہئے کہ زندگی چند روزہ ہے ‘یہاں ہماری زندگی کی مدت بہت مختصر ہے ‘ہم ہمیشہ رہنے کے لئے یہاں نہیں آئے ہیں ‘ بلکہ ہم یہاں چند روزہ زندگی گزار کر اس کائنات کو خیرآباد کہہ جائیں گے ؛یہاں سے ہم کیا ؛آپ کیا؛امیر کیا غریب کیا؛مرد کیا عورت کیا؛سب کو جانا ہے؛اللہ تعالی کا ارشاد انتہائی عام ہے؛فرمایا گیا:( كُلُّ نَفْسٍۢ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِ ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ)(سورہ ٔ العنکبوت:۵۷)(ترجمہ:ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے,پھر تم سب ہماری طرف پلٹ کر آؤگے )
روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ کتنے ہی مردے ہم اپنے ہاتھوں سے دفناتے ہیں؛تجہیز و تکفین کا عمل انجام دیتے ہیں؛کچھ اموات تو ایسی ہوتی ہیں؛جنہیں ہم اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتے ہوئے مرتے دیکھتے ہیں ؛کیا ہمارے لئے یہ وقت نہیں آیا کہ ہم عبرت حاصل کریں؛سبق سیکھیں؛اور آخرت کی تیاری کریں؛وہاں کی تیاری جہاں سب کو جانا ہے؛جہاں ہم سے پہلے لوگ گئے؛تیاری وہاں کی,جہاں سے کوئی بھی واپس نہیں آتا ؛اور ہم لوگ بھی اپنی موت کے بعد وہیں جائیں گے؛کیا وقت نہیں آیا کہ ہم دنیا کی بے ثباتی سے درس لیں کہ دنیا چند روزہ زندگی ہے؛یہ عبرت کی جگہ ہے؛درس کا مقام ہے؛سیکھنے کے لئے یہی جگہ کافی ہے ؛یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے؛دار الابتلاء ہے؛یہاں آزمائش کے لئے بھیجے گئے ہیں؛آخرت کی تیاری کے لئے ہم وجود میں لائے گئے ہیں؛یہاں کا ہر ہر پل ہمارا قیمتی ہونا چاہئے؛ہمیں اسے با غنیمت سمجھنا چاہئے ؎
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے؛تماشا نہیں ہے
(۴)ہماری عمر کا خلاصہ ہماری صبح و شام ہے,جیساکہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
صبح ہوتی ہے ‘شام ہوتی ہے عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
لہذا اسی صبح و شام کی حقیقت مان کر ہمیں اپنی زندگی گزارنی چاہئے
نبی کریمﷺ نے فرمایا:( ,,اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ،،)(قصر الأمل از:ابن ابی الدنیا :۱۱۱‘مستدرک حاکم برقم:۷۸۴۶‘۷۹۴۱شعب الإیمان از بیہقی برقم:۱۰۲۴۸‘صحیح الترغیب برقم:۳۳۵۵)(ترجمہ:پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے)
(۵) جب ایک سال آتا ہے اور ایک سال جاتاہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہماری عمرکا ایک سال کم ہوگیا ؎
ایک اور اینٹ گر گئی دیوار ِ حیات سے نادان کہہ رہا ہے نیا سال مبارک
اور انہیں اسباب کی بنیاد پر ہایک بہت قدیم شاعر فیض احمد فیض نے بہت پہلے کہا تھا ؎
اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟ ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہي تاروں بھري رات وہی آج ہم کو نظر آتي ہے ہر ايک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زميں ايک ہندسے کا بدلنا کوئي جدت تو نہيں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرينے تيرے کسے معلوم نہيں بارہ مہينے تيرے
جنوري، فروري اور مارچ ميں پڑے گي سردي اور اپريل، مئي اور جون ميں ہو گي گرمي
تيرا مَن دہر ميں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا اپنی ميعاد بَسر کر کے چلا جائے گا
تو نيا ہے تو دکھا صبح نئي، شام نئیورنہ اِن آنکھوں نے ديکھے ہيں نئے سال کئی
بے سبب لوگ ديتے ہيں کيوں مبارک باديںغالبا بھول گئے وقت کی کڑوي ياديں
تيری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کیفيض نے لکھی ہے يہ نظم نرالے ڈھب کی
(۶)نئے سال (چاہے وہ ہجری سال ہو یا عیسوی )کی مبارکبادی پیش کرنا شریعت کے روح کے خلاف ہے ‘نہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہےہ نہ صحابہ ٔ کرام کا ‘نہ بزرگان ِ دین کا ‘اور نہ ہی ائمہ ٔ متبوعین کا ۔
لہذا اس مناسبت سے خوشیاں منا نا ‘جشن منانا ‘اور مبارکباد پیش کرنا ہے ‘نہ صرف ایک حرام کام ہے ‘بلکہ بدعت بھی ہے ‘جس کی کوئی نظیر سابقہ ازمان میں نہیں ملتی ہے ۔
چند لمحے کے لئے اگر ہم سال عیسوی کی ابتدا پر سنجیدگی سے غور کر لیں تو اس کی بدعیت اور منکر ہونا طشت از بام ہوجائے گا ؛فرہنگِ آصفیہ‘ میں لفظ,,عیسوی‘, کے تحت مرقوم ہے کہ ’وہ سنہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے زمانے سے شروع ہوا، مگر انگریزی تاریخ کے موافق اُن کے انتقال سے یہ سنہ شروع ہوا‘۔ نیز قاموس الکتاب کے مصنف پادری ایف ایس خیر اللہ لکھتے ہیں :عام خیال یہ ہے کہ عیسیٰ 1ء میں پیدا ہوئے۔ علماے انجیل کے مطابق انگریزی حرف A.D سے(جو Anno domina کا مخفف ہے) مراد ہے ’ہمارے خداوند کا سال‘ لیکن جب لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ عیسیٰ اس سے چار یا پانچ سال پہلے پیدا ہوئے تو انھیں تعجب ہوتا ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ عیسوی کیلنڈر چھٹی صدی میں مرتب کیا گیا۔ راہب ڈیوانیسیس اکسی گوس نے 526ء میں حساب لگا کر سنہ عیسوی کا اعلان کیا، لیکن بد قسمتی سے اس کے حساب میں چار سال کی غلطی رہ گئی۔ اس نے مسیح کی پیدائش رومی کیلنڈر کے سال 754ء میں رکھی، لیکن ہیرو دیس اعظم‘ جس نے بیت اللحم کے معصوم بچوں کا قتلِ عام کیا تھا، رومی سال 760 میں فوت ہوا تھا‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کی پیدائش رومی 750 سے کم از کم چند ماہ پہلے ہوئی ہو گی، غالباً وہ رومی سن 749 کے شروع میں پیدا ہوئے یعنی 5 ق م کے آخر میں۔ جب اس غلطی کا پتہ چلا تو یہ ناممکن تھا کہ بے شمار چھپی ہوئی کتابوں میں اس کو درست کیا جائے، سو سنہ عیسوی کو یوں ہی رہنے دیا گیا۔
مشاہیر کی تاریخ میں اس قدر اختلاف سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک ولادت و وفات وغیرہ کی تاریخوں کی کوئی قابلِ ذکر اہمیت نہیں ‘ ورنہ وہ خود اپنی زندگی میں اس کا اہتمام فرماتے، وہیں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے سچّے متبعین نے بھی کبھی ان غیر اہم امور کو اپنی توجہ کا مرکز نہیں بنایا، اس لیے بعد میں آنے والوں کی جانب سے اس طرح کی چیزیں ایجاد کرنا محض رسوم وبدعات کے زمرے میں ہی رکھا جا سکتا ہے
عیسوی سال کا جشن منانے کی ابتدا کب عمل میں آئی؟
جب ہم اس حقیقت پر غور کرتے ہیں کہ اس کے جشن منانے کا آغاز کب سے ہوا تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز یکم جنوری ۱۶۰۰ءکو اسکاٹ لینڈ میں منایا گیا ؛اور یہی وجہ ہے کہ عیسائی اسی سے اپنے سال کی ابتدا کرنا اہم سمجھتے ہیں؛جبکہ حقیقت اور صحیح بات یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کی تاریخ ِ صحیح یکم جنوری ہے ہی نہیں؛کیوں کہ مشہور یہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ۲۵ دسمبر کو پیدا ہوئے ؛حالانکہ اس کا بھی تاریخی حقائق سے دور دور کا واسطہ و علاقہ نہیں ہے (دیکھئے:النصرانیۃ و الإسلام از محمد عزت طہطاوی؛ص؍۲۴۱۔۲۴۴)
معلوم ہوا کہ اس مناسبت سے جشن منانا ؛مبارک باد پیش کرنا ؛ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینا؛مسلمانوں کا شیوہ و عمل کبھی نہیں رہا ہے؛علامہ ابن القیم ۔رحمہ اللہ۔فرماتے ہیں: (وأما التهنئة بشعائر الكفر المختصة به فحرام بالاتفاق، مثل أن يهنئهم بأعيادهم وصومهم، فيقول: عيد مبارك عليك، أو تهنأ بهذا العيد ونحوه، فهذا إن سلم قائله من الكفر فهو من المحرمات، وهو بمنزلة أن يهنئه بسجوده للصليب، بل ذلك أعظم إثماً عند الله، وأشد مقتاً من التهنئة بشرب الخمر وقتل النفس وارتكاب الفرج الحرام ونحوه. وكثير ممَن لا قدر للدين عنده يقع في ذلك، ولا يدري قبح ما فعل، فمن هنأ عبداً بمعصية أو بدعة أو كفر فقد تعرض لمقت اللّه وسخطه ” أحكام أهل الذمة 1/441)(ترجمہ: “کفریہ شعائر پر تہنیت دینا حرام ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے، مثال کے طور پر انکے تہواروں اور روزوں کے بارے میں مبارکباد دیتے ہوئے کہنا: “آپکو عید مبارک ہو” یا کہنا “اس عید پر آپ خوش رہیں” وغیرہ، اس طرح کی مبارکباددینے سے کہنے والا کفر سے تو بچ جاتا ہے لیکن یہ کام حرام ضرور ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جیسے صلیب کو سجدہ کرنے پر اُسے مبارکباد دی جائے، بلکہ یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی ، قتل اور زنا وغیرہ سے بھی بڑا گناہ ہے، بہت سے ایسے لوگ جن کے ہاں دین کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ان کے ہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنا برا کام کر رہا ہے، چنانچہ جس شخص نے بھی کسی کو گناہ، بدعت، یا کفریہ کام پر مبارکباد دی وہ یقینا اللہ کی ناراضگی مول لے رہا ہے”)مملکت ِ سعودی عرب کے سابق مفتی ٔ اعظم سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ۔رحمہ اللہ۔ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں: (لا يجوز للمسلم ولا للمسلمة مشاركة النصارى أو اليهود أو غيرهم من الكفرة في أعيادهم بل يجب ترك ذلك؛ لأن (من تشبه بقوم فهو منهم) والرسول ﷺ حذرنا من مشابهتهم والتخلق بأخلاقهم.
فعلى المؤمن وعلى المؤمنة الحذر من ذلك وألا يساعد في إقامة هذه الأعياد بأي شيء؛ لأنها أعياد مخالفة لشرع الله، ويقيمها أعداء الله فلا يجوز الاشتراك فيها ولا التعاون مع أهلها ولا مساعدتهم بأي شيء، لا بالشاي ولا بالقهوة ولا بأي شيء من الأمور كالأواني ونحوها.
وأيضاً يقول الله سبحانه: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ [المائدة:2] فالمشاركة مع الكفرة في أعيادهم نوع من التعاون على الإثم والعدوان، فالواجب على كل مسلم وعلى كل مسلمة ترك ذلك، ولا ينبغي للعاقل أن يغتر بالناس في أفعالهم، الواجب أن ينظر في الشرع الإسلامي وما جاء به، وأن يمتثل أمر الله ورسوله عليه الصلاة والسلام وأن لا ينظر إلى أمور الناس فإن أكثر الخلق لا يبالي بما شرع الله، كما قال الله في كتابه العظيم: وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ[الأنعام:116] قال سبحانه: وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ [يوسف:103] فالعوائد المخالفة للشرع لا يجوز الأخذ بها وإن فعلها الناس.
والمؤمن يزن أفعاله وأقواله ويزن أفعال الناس وأقوال الناس بالكتاب والسنة، بكتاب الله وسنة رسوله عليه الصلاة والسلام، فما وافقهما أو أحدهما فهو المقبول وإن تركه الناس، وما خالفهما أو أحدهما فهو المردود وإن فعله الناس، رزق الله الجميع التوفيق والهداية)(دیکھئے:مجلۃ البحوث الإسلامیۃ العدد الخامس عشر؛ص؍۲۸۵ )(خلاصہ ٔترجمہ:کسی مسلمان مرد یا مسلمان خاتون کے لئے قطعی یہ جائز نہیں ہے کہ یہودی یا نصرانی یا کسی بھی کافر کے جشنوں میں شرکت کرے؛بلکہ اس کا ترک کرنا ضروری ہے؛کیوں کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی؛وہ اسی میں سے ہے؛رسول ِ گرامی ﷺ نے بڑی سختی سے کسی دیگر قوم کی مشابہت کے اختیار کرنے سے روکا ہے ؛لہذا ایک مسلمان مرد یا عورت پر ضروری ہے کہ اس سے بچے؛اور اس طرح کے مناسبات میں ہرگز ہرگز نہ شرکت نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)۔
اسی طرح عرب علماء کی معتد بہ شخصیات نے اس کی حرمت کا فتوی صادر فرمایا ہے؛جن میں فقیہ ِ دوراں فضیلۃ الشیخ علامہ محمد بن صالح العثیمین ؛فضیلۃ الشیخ علامہ عبد اللہ بن جبرین ۔رحمہم اللہ۔ قابل ذکر ہیں ۔: )
(۷)یہ کیسی مستی ہے کہ ہماری زندگی کا ایک حصہ کم ہوگیا ‘ہماری دیوار ِ حیات کی ایک اینٹ گر گئی ‘ ہماری زیست کا ایک سال کم ہوگیا ہے ‘اور ہم خوشیاں منا رہے ہیں ‘پارکوں میں کلبوں وغیرہ میں رنگ رلیاں منا رہے ہیں ‘موج مستی میں پاگل ہوئے جارہے ہیں‘لذت کام و دہن سے ہم مست و سرشار ہیں ‘پکنک پر نکل رہے ہیں ‘ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کر رہے ہیں ‘روشنیوں سے شہروں کو سجائے ہوئے ہیں‘اور شہر بقعہ ٔ نور بنا ہوا ہے ‘پٹاخے پھوڑے جا رہے ہیں؛۳۱ دسمبر کی رات ۱۲ بجتے ہی مبارک باد کا عجیب سماں باندھا جا رہا ہے؛کیک کاٹا جا رہا ہے؛کیا یہی ترقی ہے؛‘ ؎
اس کو تو دنیا میں میں ترقی نہ کہوں گا ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ کبھی زندگی کی حقیقت پر بھی غور کرلیا کریں‘موت کو یاد کرلیا کریں ‘قبر کی تنگی بھی یاد کرلیا کریں‘حشر و نشر کی ہولناکیاں بھی ذہن نشین کرلیا کریں‘جنت و جہنم بھی ذہن کے اسکرین پر کچھ دیر کے لئے ہی سہی لے آیا کریں
(۸) اگر کچھ کرنا ہی ہے تو ہونا یہ تھا کہ ہم خون کے آنسو روتے ‘اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ‘قرآن کی تلاوت ہوتی ‘رب کو راضی کرنے کی کوشش کی جاتی ‘ ماضی میں کئے اعمالِ بد پر اشکِ ندامت بہائے جاتے ‘توبہ بجالایا جاتا ‘رب کے حضور رویا گڑ گڑایا جاتا ‘معافیاں مانگی جاتیں ‘استغفار کیا جاتا ‘اللہ کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ‘(حالانکہ یہ سال کے ۱۲ ماہ ؛مہینے کے تیس دن؛اور دن کے چوبیس گھنٹے ہونا چاہئے اور خوب خوب ہونا چاہئے؛حضرت عبد اللہ نے مسعود ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمایا تھا :‘‘ ما ندمت على شيء ندمي على يوم غربت شمسه، نقص فيه أجلي، ولم يزد فيه عملي,,(قیمۃ الزمن عند العلماء ص؍ ۷۲) یہ اور اس قسم کے آثار ہمیں بتلاتے ہیں کہ ہمیں وقت‘زمانہ ‘اور سالوں کی قدر کرنی چاہئے ‘بہت پہلے کسی نے کہا تھا (الوقت کالسیف ,ان لم تقطعہ قطعک) وقت دھاری دار تلوار کی طرح ہے ‘اگر تم اسے نہ کاٹوگے تو وہ تمہیں کاٹ ڈالے گا ‘اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم وقت کی قدر کریں ‘اس سے سبق لیں ‘اس کے جانے پر افسوس کا اظہار نہ کریں ‘بلکہ مستقبل کے لئے لائحہ ٔ عمل تیار کریں‘اور اعمال ِ صالحہ کی انجام دہی میں لگ جائیں
(۹)اگر کچھ کرنا ہی ہوتا تو یہ ہوتا کہ ماضی کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے ‘حال کی اصلاح کے لئے کمر بستہ ہوا جائے ‘اور مستقبل کے لئے ٹھوس لائحہ ٔ عمل تیار کیا جائے ۔
الغرض گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہواچاہتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہہ رہا ہے، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔ سچ کہا ہے کسی شاعرنے :
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی
غم نہ کرو اور عمل کئے جاؤ
مسلمان وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ اللہ پر بھروسہ کرتا ہے ‘اوراسباب اختیار کرتے ہوئے اسی کے بھروسہ زندگی گزارتا ہے ‘کبھی مایوس نہیں ہوتا‘ یقینا ہند کے اہل اسلام پر اس سے بھی خطرناک دور آئے ہیں ‘مگر صبر و ضبط کا دامن کبھی نہیں چھوڑا ‘اور رب کائنات نے ہمیشہ اہل اسلام کی یاوری فرمائی ‘مدد کی ‘اور اسی ذات واحد نے ہی صرف سہارا دیا ‘آج بھی مسلمانوں کو گھبرانے ‘پریشان ہونے ‘قلق و اضطراب میں مبتلا ہونے ‘اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ‘بس اتنا کام کرنا ہے کہ :
۔اللہ کی طرف پلٹیں
۔اپنے گناہوں سے توبہ تائب ہو کر اللہ سے لو لگائیں
۔اپنے حقیقی مؤمن ہونے کا بین ثبوت پیش کریں
۔ اور اللہ سے دعائیں کریں؛اور خوب خوب کریں؛اور یقین رکھیں کہ ہمارے رب پر کوئی چیز مشکل نہیں؛و ما ذلک علی اللہ بعزیز ؛إن اللہ علی کل شیء قدیر پر ہمارا ایمان و ایقان ہونا چاہئے۔
ہمارا رب وہی ہے جس نے فرمایا ہے :
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ(آل عمران :۱۳۹)(ترجمہ:تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو‘تم ہی غالب رہوگے اگر تم ایمان دار ہو
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ(محمد:۷) (ترجمہ:اے ایمان والو!اگر تم اللہ کے دین کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا
وغیرہ جیسی آیات ہمارے حوصلے ضرور مضبوط کرتی ہیں ‘اور ہم پر امید ہیں کہ اللہ ہماری ایک نہ اک دن ضرور مدد فرمائے گا ‘ان شاء اللہ
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو ‘اور ایمان و عمل پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے