ترتیب: عبد المعید نوشاد سلفی
پی ایچ ڈی اسکالر، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
…………………………….
کسے مجال کہ موت کا انکار کر سکے؛ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے کسی کو بھی مفر نہیں۔ جب پیارے نبی ﷺ کو موت آکر رہی؛تو پھر دوسرے کی کیا بات! موت نبی اکرم ﷺ نے اپنے لیے پسند فرماکر، اپنے منبر سے اپنی موت کا یوں اشارہ دیا: (إنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بيْنَ أنْ يُؤْتِيَهُ مِن زَهْرَةِ الدُّنْيا ما شاءَ، وبيْنَ ما عِنْدَهُ، فاخْتارَ ما عِنْدَهُ. فَبَكى أبو بَكْرٍ وقالَ: فَدَيْناكَ بآبائِنا وأُمَّهاتِنا۔۔۔۔)․(بخاری حدیث نمبر:۳۹۰۴) (ترجمہ:اللہ تعالی نے ایک بندے کو اس کے درمیان اختیار دیا ہے کہ اللہ تعالی ان کو دنیا کی رونق دیں، جتنی وہ چاہے اوران (نعمتوں )کے درمیان جو اللہ تعالی کے پاس ہے؛لہٰذا اس بندے نے ان (نعمتوں)کو اختیار کیا جو اللہ تعالی کے پاس۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ- (سمجھ گئے کہ نبی – ﷺ نے اپنے لیے موت کو پسند کیا؛لہٰذا ) رونے لگے اور فرمایا:آپ پر ہم اپنے ماں باپ قربان کرتے ہیں)
قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے: ”کُلّ نَفْس ذَائِقَة الْمَوْت“ (سورہ آل عمران، آیت:۱۸۵) ترجمہ:(تم میں) ہرجان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے؛ چناں چہ سب کے سب انبیاء ورسل، صحابہ وتابعین اوراولیاء وصلحا کو اس جہان سے کوچ کرنا پڑا۔ ہم سب کو بھی ایک دن جانا ہوگا۔ حضرت شیخ صاحب رحمہ اللہ ۲۳ جولائی ۲۰۲۰ء مطابق ۲ ذو الحجہ ۱۴۴۱ ھ بعد نماز ظہر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ,اور اپنے پیچھے ہزاروں سوگواروں کو روتا بلکتا چھوڑ کر اس دار ِ فانی کو الوداع کہہ دیا ۔ اللہ تعالی شیخ محترم۔رحمہ اللہ۔ کو جنّت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے،اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین!
إنالعين تدمع والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضی ربنا، وإنا بفراقك يا أبانا لمحزونون ؎
آئے عشاق، گئےوعدہٴفردا لے کر٭ اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبالے کر
ذیل میں آپ کی زندگی کے اہم گوشے اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ؎
موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
نام ونسب :
علی حسين بن علی جان بن شفاعت عالم بن پوجن.
والدہ کا نام : جین بانو بی بی.
تاریخ پیدائش : موصوف کی پیدائش 23/ 1/ 1952م مطابق 20/ رجب المرجب/ 1371ھ کو آبائی گاؤں:بڑا سرشاہ، پوسٹ: بیجا محل، لیٹی پاڑہ، ضلع پاکوڑ، صوبہ جھارکھنڈ میں ہوہی تھی، البتہ ان کی اسناد و دیگر کاغذات میں تاریخ پیدائش یکم فروری 1955م درج ہے.
خاندانی وعلاقائی پس منظر :
شیخ محترم رحمہ اللہ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے؛ جو صاحب ثروت ہونے کے ساتھ دنیوی جاہ وحشم کے مالک تھا.
موصوف کے والد محترم پیشہ کے اعتبار سے بُنکر (کپڑے کی بُنائی کرنے والے) تھے، ساتھ ہی علاقے میں ایک بڑے کسان کی حیثیت رکھتے تھے.
البتہ علاقے میں دین سے دوری اور اسلامی احکامات سے قدر بے توجہی کی وجہ سے تعلیم و تربیت کا کوئی معقول انتظام نہ تھا، اور یہی وجہ ہے کہ بدعات و خرافات نے اصل دین کی جگہ لے رکھا تھا، مذکورہ علاقے کے حالات کے بارے میں شیخ عبد الرحیم عباس فیضی/حفظہ اللہ (جو سلفی صاحب رحمہ اللہ کے قریبی رشتہ دار ہیں) فرماتے ہیں: “(10/ محرم کے موقع پر) میں خود ڈھول بجایا کرتا تھا…”.
کئی دہائیوں کے قبل مولانا مصلح الدین اعظمی، مولانا عبد الحنان دلالپوری، مولانا شمس الضحی مرشد آبادی، حاجی رئیس ہرنپوری، اور حاجی امام الدین ہرنپوری وغیرہم کی خاص توجہ اور مخلصانہ کاوشوں سے بڑ سرشاہ میں ایک مکتب قیام عمل میں آیا، رفتہ رفتہ لوگ علم سے جڑتے گئے، اور اللہ کے فضل و کرم سے چند طلبہ نے ہندوستان کے مختلف اداروں سے فراغت حاصل کی؛ انہوں نے دعوت و ارشاد اور اصلاح معاشرہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس کی وجہ سے مذکورہ گاؤں سمیت علاقے میں دینی و تعلیمی رجحان کو فروغ ملا.
مذکورہ علاقے میں جب معاشرہ مختلف قسم کی بدعتوں کی مسموم ہواؤں سے جھلس رہا تھا تب شیخ محترم رحمہ اللہ کی پیدائش ہوئی، اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی علم کی روشنی سے خود کو منور کرنے کی توفیق بخشی، چنانچہ موصوف علیہ الرحمہ نے خود کو منہج سلف کے مطابق علم زیور سے آراستہ کیا، اور قافلہ دعوت و ارشاد میں پیش پیش رہے…بحمد اللہ آج ان ہی علماء کرام کی سلفی دعوت کے اثرات معاشرے نمایاں ہیں.
شیخ محترم رحمہ اللہ کے ایک ہم عمر جید عالم دین شیخ نظام الدین سلفی رحمہ اللہ اسی قریہ “بڑا سرشاہ” سے تعلق رکھتے تھے، جو اس وقت مناظر بہار و بنگال سے مشہور تھے، ان دنوں “مناظرہ با سکندری” ایک بڑا مناظرہ زیر بحث تھا، دونوں ساتھیوں نے اس مناظرے میں اپنے علمی جوہر دکھائے، مگر شیخ محترم رحمہ اللہ کا پلہ بھاری تھا – رحمہما اللہ رحمة واسعة –
اس گاؤں کی زرخیز مٹی سے علماء کرام کی بڑی ٹیم نے جنم لی، شیخ علی حسین سلفی اور شیخ نظام الدین سلفی رحمہما اللہ کے علاوہ سب بقید حیات ہیں,ان خوش نصیبوں کے اسمائے گرامی کچھ اس طرح ہیں:۔
1- شیخ نظام الدین سلفی/ رحمہ اللہ
2- شیخ علی حسین سلفی/ رحمہ اللہ
3- شیخ خلیل الرحمن صاحب/ حفظہ اللہ
4- شیخ عبد اللطيف سلفی/ حفظہ اللہ
5- شیخ عبد الرحیم فیضی / حفظہ اللہ
6- شیخ محمد شمیم صاحب/ حفظہ اللہ
7- شیخ عین الباری فیضی/ حفظہ اللہ
8- شیخ عبد الشہید اصلاحی / حفظہ اللہ
9- شیخ ابو طاہر فیضی / حفظہ اللہ
10- شیخ نصیر الدین صاحب/ حفظہ اللہ
11- شیخ عبد الرشید صاحب /حفظہ اللہ
12- شیخ تمیز الدین صاحب/ حفظہ اللہ.
شیخ علی حسین سلفی رحمہ اللہ ابھی طفل مکتب ہی تھے کہ بچپن میں ان کی شادی “پھول پہاڑی” (شیخ محترم رحمہ کے گاؤں سے قریب ایک چھوٹی سی بستی) کے محمد سلیمان صاحب کی بہن سے کرا دی گئی؛ مگر کسی بیماری کی وجہ سے وہ بچپن ہی میں وہ انتقال کر گئیں – إنا لله وإنا إليه راجعون -.
جب شیخ محترم رحمہ اللہ کی عمر قریب آٹھ سال کی ہوئی تو والدہ ماجدہ کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے، مزید برآں کہ محض چند مہینوں کے بعد ہی موصوف کے والد ماجد علی جان صاحب کی دونوں آنکھوں کی بینائی چلی گئی؛ کام کاج سے بھی معذور ہو گئے؛ جس کی وجہ بتدریج مالی حالت ابتر ہوتی گئی، نتیجتاً سلفی صاحب علیہ الرحمہ اپنے والد محترم کی دیکھ ریکھ کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات کی خبر گیری میں مصروف ہو گئے….غربت و افلاس، اور تنگ دستی نے ایسی دستک دی کہ شیخ محترم رحمہ اللہ باپ کا سہارا بن کر گاؤں گاؤں ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو گئے.
اسی دوران سلفی صاحب علیہ الرحمہ کے والد صاحب ایک جملہ بار بار دہرایا کرتے تھے ” نبی، اور ماں باپ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، اور میرا بیٹا ایک دن صاحب بنے گا “؛ آج بھی گاؤں کے بعض بزرگ حضرات اس کی شہادت دیتے ہیں.
جب شیخ محترم رحمہ اللہ نے بارہ سال کی دہلیز پر قدم رکھا تو باپ کے سایے سے بھی محروم ہوگئے، انتقال کے وقت پدر بزرگ کی عمر تقریباً 57 سال تھی؛ اس کے بعد موصوف ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں؛ ہر طرف تاریکیاں نظر آرہی تھیں، مایوسی دامن گیر ہونے لگی کہ اب آخری سہارے سے بھی وہ محروم چکے تھے، رحم وکرم کی نگاہ سے دیکھنے والا اب کوئی نہ رہا، ایسے میں اپنے ماموں (اصغر علی صاحب جو بقید حیات ہیں) کے یہاں پناہ گزیں ہوئے…
موصوف کی زندگی کا یہ حصہ بڑا ہی تکلیف دہ رہا ہے؛ چونکہ آبائی پیشہ کپڑا بُننے کا تھا، جس پر وہ خاصی مہارت بھی رکھتے تھے، یہ سن کر ماموں بہت خوش ہوئے، شیخ محترم کو مستقل طور پر اسی کام پر لگا دیا، جبراً ان سے یہ کام کروانے لگے، پریشانی کا عالم یہ تھا کہ جب تک صبح سویرے کچھ بُنائی کا کام نہ کر لیتے ناشتہ نہیں ملتا تھا، اسی طرح دو پہر اور شام کے کھانے کا معاملہ تھا (اس وقت کے ایسی بہت سی باتیں ہیں جنہیں حوالہ قرطاس کرنا مشکل ہے).
خاکسار (عبد المعید نوشاد عالم سلفی؛ شیخ محترم رحمہ اللہ کے داماد) کے سامنے بارہا اپنے بچپن، گزرے ہوئے مشکل اوقات، اور ان پریشانیوں کے لمحات کا ذکر کچھ اس طرح فرماتے کہ سنا ہی نہیں جاتا، ایسے میں شیخ محترم علیہ الرحمہ سے یہی گزارش کرتا کہ : “بس کریں، جو ہونا تھا وہ گیا، اب اللہ رب العالمین نے آپ کو بڑی عزت سے نوازا ہے”.
شیخ سلفی رحمہ اللہ کے ساڑھو جناب مولانا خلیل الرحمٰن صاحب کی پیدائش اسی گاؤں (بڑا سرشا) میں ہوئی تھی، اس وقت وہ کسی مدرسے میں زیر تعلیم تھے، ایک دن انہوں نے شیخ محترم رحمہ اللہ کے سامنے مشورہ پیش کیا کہ میں تمہارا داخلہ مدرسے میں کرا دیتا ہوں؛ جہاں کھانا وغیرہ سب مفت ملے گا…ان کا یہ قیمتی مشورہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا سے کم نہ تھا…لیکن اس بندہ وفا شعار نے جواباً اتنا ہی کہا کہ: یہ تو ٹھیک ہے، بلکہ یہ میری دلی خواہش بھی ہے، مگر اس کے لئے ماموں جان سے اجازت درکار ہے، اگر ان سے منظوری ملتی ہے تو ٹھیک ورنہ میرے پاس مدرسہ تک پہونچے کا بندوبست بھی نہیں ہے، چنانچہ جب ان سے اس سلسلے میں التماس کیا گیا تو جواب حسب توقع نفی ہی میں ملا، اب رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی…
مولانا خلیل الرحمٰن صاحب نے یہ کہتے ہوئے موصوف کی حوصلہ افزائی کی کہ: جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا، تم میرے ساتھ مدرسہ چلو، اور اس طرح سے ماموں کے گھر سے نکال کر چپکے چپکے مدرسہ تک وہ دونوں پہنچ گئے.
ابتدائی تعلیم :
شیخ علی حسین سلفی رحمہ اللہ نے نو (9) سال کی عمر میں اپنے آبائی گاؤں (بڑا سرشاہ) کے مکتب سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا، ان کے استاذ اول جناب مولانا نور حسین صاحب (ڈانگا پاڑہ) کے تھے.
گاؤں کے مکتب میں چند ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد مولانا خلیل الرحمن صاحب کی رفاقت میں مدرسہ راج گاؤں ( بیر بُھوم، صوبہ مغربی بنگال) پہنچے، اس وقت ان کی عمر کوئی تیرہ سال تھی، یہیں سے موصوف باقاعدہ اپنی تعلیم کا آغاز کیا، یہاں جن کی صحبت میں رہ کر علمی تشنگی بجھانے کا موقع ملا ان میں مولانا خلیل الرحمٰن صاحب، مولانا نظام الدین سلفی صاحب، جناب نصیرالدین صاحب، جناب عبد الغفور صاحب، جناب علی محمد صاحب، اور جناب ابو الحسن صاحب ہیں.
ان دنوں مدرسہ راج گاؤں کی باگ ڈور جناب حاجی مباد علی صاحب اور مولانا فرحان صاحب کے ہاتھوں میں تھی، اس مدرسہ سے جن اساتذہ کرام سے موصوف نے شرف تلمذ حاصل کیا تھا ان میں سے چند یہ ہیں:
1- مولانا فرحان صاحب.
2- مولانا عبد المنان صاحب.
3- مولانا علاء الدین صاحب نجمی.
شیخ محترم رحمہ اللہ اسی مدرسہ میں تین سالوں تک زیر تعلیم رہے.
پھر اپنے گاؤں سے کوئی سولہ کیلو مٹر کے فاصلے پر واقع مدرسہ دار العلوم (دیوتلہ پاکوڑ) میں بغرض اعلی تعلیم داخل ہوئے، یہاں جن اساتذہ کرام سے استفادہ کیا ان میں چند کے نام کچھ اس طرح ہیں:
1- مولانا عبد الرحمن رحمانی صاحب.
2- مولانا نذیر حسین ریاضی صاحب.
موصوف نے یہاں شرح جامی، شرح کافیہ، اور مشکاة المصابيح وغیرہ کا درس حاصل کیا.
اس دوران شیخ محترم رحمہ اللہ نے رمضان المبارک کی چھٹی کے بعد مدرسہ نور پور (مغربی بنگال) کا قصد کیا، وہاں مولانا اسرائیل صاحب موہن پوری کے زانوئے تلمذ تہ کیا، پھر مدرسہ دار العلوم واپس آگئے، یہاں کے اساتذہ کرام سے بڑی محبت اور اپنائیت ملی، مولانا عبد الرحمن رحمانی صاحب، مولانا نذیر حسین ریاضی صاحب نے گاؤں والوں کے سامنے شیخ محترم رحمہ اللہ کی ذہانت وفطانت کو ذکر کیا، انہیں اس بات پر ترغیب دلائی کہ علی حسین بڑا ہی خلیق و ذہین طالب ہے، اگر اسے مزید تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل جائے تو ایک دن بڑا اچھا عالم بنے گا، اور قوم وملت کے لئے مفید ثابت ہوگا، مگر افسوس کہ اس کے پیچھے ایسا کوئی نہیں جو اس کے تعلیمی اخراجات برداشت کرے، خاص طور پر مولانا عبد الرحمن رحمانی صاحب نے انتہائی تاکید کے ساتھ کہا کہ اگر آپ لوگ اس کا مالی تعاون کرنے کو تیار ہیں تو میں اسے اعلی تعلیم کے لئے دہلی روانہ کر دوں گا، گاؤں والے شیخ محترم رحمہ اللہ کے احوال و کوائف جانتے تھے اس لئے سب نے بیک زبان ہو کر کہا کہ: اسے اعلی تعلیم کے روانہ کریں، اس کے سارے اخراجات ہمارے ذمے ہوں گے، اور اس طرح سےشیخ محترم کے لئے اللہ تعالیٰ نے اعلی تعلیم کا ذریعہ میسر کر دیا.
” دیو تلہ گاؤں ” کے جس نیک بخت انسان کے گھر میں موصوف تینوں وقت کا کھانا کھایا کرتے تھے؛ ان کا اسم گرامی ” نوح عالم ” تھا، شیخ محترم علیہ الرحمہ کو اپنے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتے تھے، گھر کے سارے افراد کا تعامل بڑا ہی مخلصانہ تھا، ان سے اس قدر محبت، شفقت، اور پیار ملا کہ تعطیل کے ایام میں اپنے گاؤں میں کم اور زیادہ اسی گاؤں میں وقت گزارتے تھے، یہاں تک کہ بسا اوقات دہلی سے بھی سیدھا آپ اسی گاؤں میں تشریف لاتے، اور بعد میں جب بھی بنارس سے آپ کا گھر جانا ہوا تو دیوتلہ ضرور جاتے، اور بطور خاص مولانا عبد الرحمن رحمانی سے ملاقات کرتے، اور ان سے دعائیں لیتے.
اعلی تعلیم کے لئے دہلی کا سفر : شیخ علی حسین سلفی رحمہ اللہ اپنے استاذ محترم مولانا عبد الرحمن رحمانی کی پر خلوص محنت وکوشش، اور “دیوتلہ” گاؤں والوں کے تعاون سے اپنے ساتھی مولانا نظام الدین سلفی کے ہمراہ سن 1972م میں اعلی تعلیم کے لئے دہلی کے لئے رخت سفر باندھا، دہلی(13) نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکزی ادراہ ” مدرسہ کاشف العلوم ” میں داخلہ لیا، اور یہاں چار سالوں تک زیر تعلیم رہے، شیخ محترم رحمہ اللہ نے یہاں سے کتب ستہ، شرح معانی الآثار، مؤطا امام مالک، مؤطا امام احمد، اور اسی طرح تفسیر، فقہ، اصول فقہ، نحو، صرف، منطق، اور فلسفہ وغیرہ جیسی کتابیں پڑھیں.
اس ادارے سے سن 1974م میں عالمیت کی سند حاصل کی جبکہ سن 1976م میں فضیلت کی سند حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، اور اس طریق پر موصوف کا دیرینہ خواب مکمل ہوا.
“مدرسہ کاشف العلوم” دہلی میں جن اساتذہ کرام سے استفادہ کرنے کا موقع ملا ان میں چند کے نام یہ ہیں:
1- مولانا عبید اللہ بلیاوی صاحب.
2- مولانا اظہار الحق کاندھلوی صاحب.
3- مولانا محمد الیاس بارہ بنکوی صاحب.
4_ مولانا شبیر احمد نحوی صاحب.
یہاں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جس خلوص و محبت کے ساتھ گاؤں والے اور خاص طور پر مولانا عبد الرحمن رحمانی صاحب نے شیخ محترم رحمہ اللہ کو اعلی تعلیم کی غرض سے دہلی روانہ کیا تھا، اسی بے لوث جذبہ کے ساتھ ان کا بھر پور خیال رکھا، ایک معمول کے مطابق گاؤں والے چندہ کر کے مدرسہ کے ایک ذمہ دار ماسٹر جلال الدین صاحب (جو بر وقت سخت علیل ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں شفاء کامل عطا فرمائے) حفظہ اللہ شیخ محترم رحمہ اللہ کے نام منی آرڈر کا کام انجام دیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ ان تمام محسنین کو جزائے خیر عطا فرمائے، آمین.
[مذکورہ معلومات فراہم کرنے میں سر فہرست تعاون رہا ہے:
1- شیخ عبد الرحیم عباس فیضی کا، جو شیخ محترم رحمہ اللہ کے قریبی رشتہ دار اور متعدد کتابوں کے مؤلف ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: صلاة النبي(صلى الله عليہ وسلم)، مختصر احکام میت، جامع دعائیں.
2- مولانا خلیل الرحمٰن صاحب؛ جو شیخ محترم رحمہ اللہ کے ساڑھو، اور ان کی تعلیمی سفر کے محرک اول ہیں].
مدرسہ کاشف العلوم سے جامعہ سلفیہ بنارس تک کا سفر :
“مدرسہ کاشف العلوم” دہلی کی طالب علمی زندگی میں شیخ محترم رحمہ اللہ چند سلفی علماء کرام سے ملتے رہتے تھے، انہوں نے آپ کو جامعہ سلفیہ بنارس جانے کا مشورہ دیا، اس وقت موصوف فضیلت کے مرحلے میں زیر تعلیم تھے، چنانچہ “مدرسہ کاشف العلوم” سے فراغت حاصل کر تے ہی سلفیان ہند کے مرکزی ادارہ ” جامعہ سلفیہ، بنارس ” کا قصد کیا، یہاں عالم ثانی میں داخلہ ملا، چنانچہ مرحلہ عالمیت کے بقیہ دو سال، اس کے بعد مرحلہ فضلیت کے دو سال بحسن وخوبی مکمل کیا، اپنی جماعت میں موصوف کا شمار ہمیشہ اچھے طلبہ میں ہوا کرتا تھا، درسی کتابوں کے ساتھ خارجی مطالعہ بکثرت کیا کرتے تھے، اساتذہ کرام بھی ان کے ساتھ بڑی شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے، سلفیت کے اس عظیم ادراہ سے سن 1981م میں سند فضلیت سے سرفراز ہوئے.
جامعہ سلفیہ بنارس میں جن اساتذہ کرام سے شیخ محترم رحمہ اللہ نے استفادہ کیا، ان کے اسماء گرامی، اور ان سے پڑھی ہوئی کتابوں کے نام اس طرح سے ہیں:
1- مولانا ادریس آزاد صاحب /رحمہ اللہ (ہدایہ، اور سراجی)
2- مولانا عبد الوحید صاحب رحمانی/ رحمہ اللہ (صحیح مسلم/1، مختارات، المعلقات السبع، اور تاریخ الأدب العربی)
3- مولانا عابد حسین صاحب رحمانی/ رحمہ اللہ (تفسیر بیضاوی، اور صحیح مسلم/2)
4- مولانا عبد المعید صاحب بنارسی/رحمہ اللہ (شرح الهداية، الرشيدیة (فن مناظرہ)، اور أمين الکافی)
5- مولانا شمس الحق صاحب سلفی/رحمہ اللہ (صحیح بخاری/2، مؤطا امام مالک، اور بداية المجتہد)
6- مولانا صفی الرحمن صاحب مبارکپوری/ رحمہ اللہ(صحيح بخاری/1، اور حجة الله البالغة)
7- مولانا رئیس الأحرار صاحب ندوی/ رحمہ اللہ (جامع الترمذی، حصول المأمول بشرح ثلاثة الأصول، اور مقدمہ ابن خلدون)
8- مولانا عبد السلام صاحب مدنی/ رحمہ اللہ (سنن النسائی، شرح العقيدة الواسطية، الكشاف، اور الباحث الحثيث)
9- مولانا انیس الرحمن صاحب اعظمی/ حفظہ اللہ (فتح القدير، شرح العقيدة الطحاوية، بداية المجتهد/1)
10- ماسٹر محمد اکبر صاحب ۔(انگلش)
اولاد و احفاد :
اللہ تعالٰی نے شیخ محترم رحمہ اللہ کو کل نو (9) اولاد سے نوازا تھا، سات بیٹیاں، اور دو بیٹے، جن میں دوسرے نمبر کی بیٹی جن کا نام حسینہ تھا؛ بچپن ہی میں ان کا انتقال ہو گیا تھا، موصوف نے اپنی ساری اولاد کو دینی و عصری تعلیم دلانے بھر پور کوششیں کی ہیں، اللہ کے فضل و کرم سے آج سب کے سب کے تعلیم یافتہ ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں شیخ محترم کے لئے صدقہ جاریہ بنائے، اور اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے، آمین.
سلفی صاحب علیہ الرحمہ کی اولاد کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
بیٹیاں:
1 – جمیلہ خاتون
ابتدائی و دینی تعلیم: جامعہ رحمانیہ مدنپورہ و امہات المومنین گرلس کالج بنارس.
ہائی اسکول و انٹر میڈیٹ: رامیشوری گرلس اسکول.
بی اے: اگریسین کنیا پی جی کالج بنارس.
ایم اے: اندرا گاندھی اوپن یو نیورسٹی نئی دہلی.
شادی شدہ.
2 – نبيلہ خاتون۔
ابتدائی تعلیم : جامعہ رحمانیہ بنارس، ثانويہ، عالمیت، فضیلت۔
ہائی اسکول، انٹر میڈیٹ: کلیہ فاطمة الزهراء مئو ناتھ بھنجن سے
بی اے اردو: مولانا آزاد یونیورسٹی حیدرآباد سے۔
شادی شدہ۔
3 – فضيلہ خاتون:
ابتدائ تعلیم: جامعہ رحمانیہ بنارس سے۔ ثانویہ، عالمیت فضیلت.
ہائ اسکول – انٹر مینڈیٹ: کلیہ فاطمة الزھراء منو ناتھ بھنجن سے.
بی اے اردو: مولانا آزاد یونیورسٹی حیدرآباد سے۔
شادی شدہ ۔
4 – جلیلہ خاتون:
ابتدائی تعلیم، ثانویہ، عالمیت، و فضیلت: جامعہ رحمانیہ بنارس سے.
ہائ اسکول – انٹر میڈیٹ: کلیہ فاطمةالزهراء مئو ناتھ بھنجن سے.
بی اے: اردو مولانا آزاد یونیورسٹی حیدرآباد سے۔
شادی شدہ ۔
5 – حلیمہ خاتون:
ابتدائی و دینی تعلیم: جامعہ رحمانیہ مدنپورہ بنارس
ہائی اسکول: جامعہ رحمانیہ بنارس
انٹر میڈیٹ: وسنت کنیا مہا ودھیالیہ بنارس
بی اے: بنارس ہندو یونیورسٹی بنارس
ایم اے: بنارس ہندو یونیورسٹی بنارس
شادی شدہ
6 – علیمہ خاتون:
ابتدائی تعلیم جامعہ رحمانیہ بنارس.
دینی تعلیم: ثانویہ و ہائی اسکول: کلیۃ فاطمۃ الزھرا مئو ناتھ بھنجن.
انٹر میڈیٹ : گرونانک گرلس اسکول.
بی اے: بنارس ہندو یو نیورسٹی.
(شادی شدہ)
بیٹے :
1- حافظ عبدالحلیم سلفی :
ابتدائی تعلیم: جامعہ رحمانیہ مدن پورہ، بنارس.
دینی تعلیم: حفظ قرآن و مولوی جامعہ سلفیہ بنارس.
عصری تعلیم: انٹر میڈیٹ بھاگیشوری انٹر کالج، بی سی اے نودیہ انسٹیوٹ آف ٹکنالوجی
پیشہ: تجارت.
2- عبدالعلیم :
ابتدائی دینی تعلیم: جامعہ رحمانیہ و جامعہ سلفیہ بنارس.
عصری تعلیم: ہائی اسکول جئے نارائن انٹر کالج بنارس، انٹر میڈیٹ ہرش چندرا انٹر میڈیٹ اسکول.
بی کام آنرس: مہاتما گاندھی کاشی ودھیا پیٹھ بنارس.
ماسٹر آف اوکیشن ان ریٹیل لوجسٹک مینج منٹ: بنارس ہندو یونیورسٹی
پیشہ: تجارت.
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ استاذ محترم کے حسنات کو قبول فرمائے، اور ان کی بشری لغزشوں کو معاف فرما کر اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے، آمین.
وصلی الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.