✒️ از قلم: محمد فهد الله بن محمد سعود عالم بنگلور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین کرام: دورِ حاضر بڑا ہی پُرفتن دور ہے۔روز بروز نت نئے فتنے رونما ہو رہے ہیں۔جس طرح آئے دن ہمارے ملک عزیز میں مسلمانوں و توحید پرستوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جارہے ہیں اور تو اور مدارس کو بند کرنے یا طلاب مدارس کو دہشت گرد قرار دینے کیلئے خُفیہ سازشیں و ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں۔ایسے ناخوشگوار حالات آئے دن اخبار و جرائد کی ہیڈنگز میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ان نازک حالات کے رونما ہونے میں مسلمانوں کی کئی کوتاہیوں و خامیاں رہی ہیں۔
اللہ کا فرمان ہے “ وَمَاۤ أَصَـٰبَكُم مِّن مُّصِیبَةࣲ فَبِمَا كَسَبَتۡ أَیۡدِیكُمۡ” اور جو کچھ بھی مصیبتیں تم پر آتی ہیں وہ تمہاری ہاتھوں کا کرتوت ہوتا ہے۔(سورة الشورى:٣٠) ان ہی کوتاہیوں و خامیوں میں سے ایک اہم خامی یہ ہیکہ خود مسلمان حضرات نے اسلامی تعلیمات كو فراموش کر رکھا ہے اور مغربی تہزیب کے دلدادہ ہوگئے ہیں۔ کہنا مقصود یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی کئی جماعتوں نے اپنے بچوں کو دینی علم سے محروم کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔چند سرپرست حضرات،گھر کے بڑے افراد (Guardians) اپنی اولاد کو توحید کے چراغ سے چراغاں نہیں کرانا چاہتے ہیں۔ایسے حضرات اپنے بچوں کی ذہن سازی کچھ اس طرح سے کرتے ہیکہ اُن کا فرزند دین سے دور اور دنیا سے قریب تر ہوتا جاتا ہے۔اور یہی بچہ بڑا ہوکر اپنے والدین کو خود ان ہی کے گھر سے نکال کر (Old Age Home) تک چھوڑ چلا آتا ہے!!
ابھی وہ بچہ كلمئہ شہادت سیکھا بھی نہیں ہوتا ہے کہ ان کے بڑے مغربی تہزیب کی محبت اس کے سینوں میں پیوست کردیتے ہیں،گویا روزِ مرہ کی زندگی کو مغربی تہزیب کا شیڈول بنا دیا جاتا ہے اور یہی والدین و سرپرست ایسی ناکارہ حرکت پر خود ہی کو معاشرے کا اعلیٰ شخصیت سمجھ بیٹھتے ہیں۔
قارئین گرامی: آج ہمارے مسلمان بھائی خود اپنے رویوں سے علمِ دین کو فراموش کر رہے ہیں۔ان حضرات کا یہ المیہ ہیکہ طلباء مدارس تو بس غرباء و فقراء ہوتے ہیں گر کبھی کھانے میں انہیں گوشت بھی مل جائے گویا ان کے لئے شاہی کھانا کھانے کے مماثل ہوگا۔بعض لوگ تو أستغفر الله مدارس کے طلباء کو حقیرانہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور کبھی موقع ملنے پر سبھی عوام الناس کے سامنے علانیہ طور سے طالبِ علم کی عزت و وقار پر کیچڑ اچھالنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔لیکن انہیں کیا معلوم ” يرفع الله امنوا منكم والذين أوتوا العلم درجات (سورة المجادلة:۱۱)۔ ایسے کئی ساتھیوں کو ہم نے دیکھا ہیکہ وہ چند سال مدرسہ میں زیرِ تعلیم ہوتے ہیں اور تھوڑی ہی مدت کے بعد اپنے مادر علمی سے دور ہوکر کالجز (College’s) کی طرف اپنا رخ کرلیتے ہے۔اصل ان کے رخ بدلنے میں ان کے سرپرست کا بھی بہت بڑا رول ہوتا ہے۔وہ اپنے بچوں کو ذہنی طور پر ٹارچر (Torcher) کرتے ہیں کہ”دینی علم سے معاش نصیب نہیں ہوتی”۔نسأل الله السلامة…. واللہ بڑا ہی تعجب ہوتا ہے کہ کیا یہ صحیح معنوں میں مسلمان شخص کی زبان ہے؟کئی تو ایسے بھی ہیں جو مدارس میں پڑھنے والے کو غلط طرح سے ان کا ذہن “کمانے” کے تعلق سے برین واش (Brain Wash) کرتے ہیں۔اللہ کی پناہ ہیں!!
💧 آج کے اس پر فتن ماحول میں ایسے کئی طلباء ہوتے ہیں جو اپنے مستقبل کو لیکر دینی علم سے محروم ہوجاتے ہیں۔زمانہ کی برق رفتاری کے ساتھ ساتھ والدین اپنے بچوں کو “مال” کے ذریعہ سے زیادہ جوڑ کر مستقبل کا دباؤ ڈالتے ہیں۔مجھے یہ کہنا بالکل مقصود نہیں ہے کہ والدین اپنے بچوں کو معاش کی تنبیہہ نہ کریں بلکہ ان کا تو یہ لازمی تقاضا ہیں۔ظاہر سی بات ہے اُن کی فکرمندی کرنا اُن کے روشن مستقبل بنانے کی تدبیر ہوتی ہے۔لیکن اصلا علم سے ہی دور کردینا تو یہ ناگوارا بات ہوگی اور یہی دباؤ رفتہ رفتہ بڑا بن جاتا ہے اور ان طلباء کو مدرسہ چھوڑنے پر مجبور کردیتا ہے۔
کسی شاعر کا کہنا ہے کہ:
رہ رہ کہ مجھے اب یہ خیال آنے لگا ہے
صدیوں کے اصولوں کو زوال آنے لگا ہے۔
🕯️محترم قارئین: آپ یہ بات ہمہ وقت یاد رکھیے کہ جب سے رب دوجہاں نے اس کائنات کی تخلیق فرمائی ہے۔ تبھی سے توحید کا بول بالا رہا ہے اور کفر و شرک پر جمے رہنے والوں کی تردید و تنقید کی گئی ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے مولانا ثنا اللہ امرتسری رحمہ اللہ تک بشمول دیگر تمام علماء ربانیین نے دین اسلام کی خاطر جو کچھ بھی خدمات انجام دی ہیں۔ وہ قابلِ تعریف اور ہمارے لئے نمونہ و أسوہ ہے۔اللہ تعالٰی نے انسانوں کی خلقت تو فرمائی لیکن اس انسانی گروہ میں شریعت کا علم رکھنے والوں کو فوقیت دی۔انہیں کئی اعلیٰ ترین فضائل و مناقب سے مالا مال فرمایا۔ان ہی مختص چنندہ بندوں کو رب العالمین نے علمِ دین کی فقاہت و بصیرت سے نوازا اور وہ اس حدیث کے مصداق بھی بن گئے۔پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:من يرد الله به خيرا يفقه فى الدين (متفق عليه) اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے تو انہیں دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔اور اللہ نے اپنے کلام پاک میں علم والے اور لا علم شخص کے درمیان کی تفریق کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایا:
قُلۡ هَلۡ یَسۡتَوِی ٱلَّذِینَ یَعۡلَمُونَ وَٱلَّذِینَ لَا یَعۡلَمُونَ (سورة الزمر:٩) اۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہہ دیجئے کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں کیا؟؟
📝 بھائیو: ہمیں یہ معلوم ہوا کہ علم بڑی ہی عظیم المرتبت نعمت ہے اس کا حصول اللہ کے خاص بندوں کو نصیب ہوتا ہے۔تو اگر حالات میں یہی تسلسل باقی رہا،وہی بگاڑ و فساد ہمہ تن چلتا رہا،طُلابِ مدارس کے احساسات کو دبا دیا گیا تو یاد رکھے! آگے آنے والی نسل آپ کو ہی مستقبل کے فسادات کا ذمےدار گردانے گی۔مدارس کے طلباء کو آپ فقیر و لاچار کہتے ہیں!! ہاں بھلے ہی ان کے پاس روپیہ پیسہ کی تھوڑی کمی ہوگی کیونکہ انہیں آخرت کی فکرمندی ہمیشہ لاحق رہتی ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کا شعر ہے:
إن لله عبادا فطنا
تركوا الدنيا و خافوا الفتنا
یہ مدارس میں پڑھنے والے تھوڑی ہی دنیا داروں کی طرح اپنے ایمان کو لمحہ بھر میں بیچ دیتے ہیں بلکہ یہ مدارس کے طلباء تو انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔کیونکہ ان کے اندر حصول علم کی تڑپ،اس پر عمل کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا رہتا ہے اور شریعت اسلامیہ کی تبلیغ کی خاطر وہ ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔اور یہی برگزیدہ بندے اپنی تمام زندگی کے گوشوں کو اسلام کیلئے وقف کردیتے ہیں۔امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وإن العلماء ورثة الأنبياء وإن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ورثوا العلم فمن أخذه أخذ بحظ وافر (سنن أبى داؤد:كتاب العلم)بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے پورا پورا حصہ حاصل کر لیا“۔
علامہ ابن العثيمين رحمہ اللہ اپنی کتاب”کتاب العلم”میں لکھتے ہیکہ “وهم فى الأرض كالنجوم فى السماء“-کہ وہ علماء زمین میں اس طرح ہیں جس طرح آسمانوں میں ستارے ہوتے ہیں۔” سبحان الله العظيم
قارئین: دنیا پرست تو مال کی بڑھوتری کیلئے اپنی زندگی گوا بیٹھتے ہیں۔ انہیں کیا پتہ کہ یہ مال تو فانی ہے لیکِن علم تو ہمیشہ باقی رہنے والی شیء ہے۔جو ایک عالم کیلئے اس کی وفات کے بعد بھی تاقیامت ثواب آخرت بن کر رہ جاتی ہے۔ہمیں وہ حدیث یاد رہنی چاہیئے کہ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں اعمال خیر کا ذکر فرمایا۔جو ایک انسان کی وفات کے بعد بھی اس کیلئے ذخیرہ آخرت بن جاتے ہیں۔ان میں سے ایک”علم ينتفغ به” کہ ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں۔(صحيح مسلم:كتاب الوصية)
حضرات:- خلاصئہ تحریر بس صرف اتنا ہے کہ حصول علم کی راہ میں نکلنے والوں کیلئے دین اسلام میں بڑی ہی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔عوام الناس و دیگر سرپرست و ذمہ داران گھر کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ کریں،قال الله و قال الرسول کی صدا لگانے والوں کا احترام کریں۔ان کی موجودگی کی اہمیت کو سمجھیں کیونکہ ایک عالم کی موت گویا دنیا کی موت ہے (موت العالم موت العالم)۔
آپ غور کریں! عصر حاضر میں آئے روز کئی نامور و مشہور علماء اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔رحمهم الله
تو اگر آپ ان طلاب مدارس کی عزت کرتے ہیں گویا آپ دین اسلام و اسلامی تعلیمات کی عزت کرتے ہیں،اگر آپ مدارس میں پڑھنے والوں سے محبت رکھتے ہیں گویا آپ شریعتِ اسلامیہ سے محبت کرتے ہیں۔کیونکہ یہی طلباء کل بڑے ہوکر ہمارے قوم کی باگ ڈور سنبھالیں گے،یہی طلباء آگے جاکر قوم کی رہنمائی و حمایت کریں گے۔اگر آپ نے ان کی لاج نہ رکھی،انہیں فراموش کیا تو اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہیں “وَإِن تَتَوَلَّوۡا۟ یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَكُمۡ ثُمَّ لَا یَكُونُوۤا۟ أَمۡثَـٰلَكُم﴾ [محمد ٣٨]۔اور اگر تم مو پھیر لیتے ہوں (روگردانی کرتے ہو) تو وہ تمہارے سوا اور لوگوں کو لائے گا جو پھر تم جیسے نہ ہوں گے۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
– اللہ تعالٰی سے دعا گو ہو کہ رب العزت لوگوں کے اندر شریعتِ اسلامیہ و حاملین شریعت کی محبت و عقیدت ڈالے۔ آمين
———,———