محمد جرجیس کریمی
ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ
۱- مزدوروں پر ظلم و استبداد
دنیا میں قدیم زمانے سے لے کر تاحال جو طبقہ سب سے زیادہ ظلم و بربریت، قہروغضب، حقوق کی پامالی اور استحصال کا شکار ہورہا ہے وہ ہے مزدور طبقہ ، آکسفورڈ ڈکشنری (Oxford Dictionary) کے مطابق مزدور یا محنت کش لوگ (Labour class, Working class)وہ ہیں جو تنخواہوں کے لیے دستی کام یا صنعتوں میں کام کرتے ہیں۔ ایک تعریف یہ کی گئی ہے کہ مزدور سے مراد وہ شخص ہے جو کسی صنعتی یا کاروباری ادارے میں ملازم ہو اور خواہ فنی کام یا غیر فنی کام پر متعین ہو۔۱؎
مزدور طبقہ معاشرہ کی ریڈھ کی ہڈی ہے، اس کے خون کی آنچ میں معاشرہ کا چولہا جلتا ہے ۔ اس کے پسینے کے گارے سے عمارت کھڑی ہوتی ہے۔اس کے جھڑتے اور سفید بالوں سے سماج کو لباس میسر ہوتا ہے۔ لیکن اس معمار قوم طبقہ کی اکثریت بے لباس یا پھٹے پرانے لباس میں بھوکے پیاسے کھلے آسمان میں سوتی ہے۔ روز اول سے ہی اس طبقہ کے حقوق سلب کیے گئے۔ ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ دنیا کا سب سے مظلوم طبقہ مزدور ہے۔ ہمارے پاس قدیم زمانے کے مزدوروں سے متعلق کوئی ٹھوس حوالہ یا باوثوق ذریعہ نہیں ہے جس سے ان کے احوال کا صحیح اندازہ لگایا جاسکے اور معاشرہ میں ان کی حیثیت جانی جاسکے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہرزمانے کے سماج و معاشرے میں کچھ سرمایہ دار اور کچھ مزدور ہوا کرتے تھے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کے ذریعہ مزدوروں کا استحصال ہوتا رہا، گرچہ زمانے اور احوال کے لحاظ سے طریقۂ استحصال اور اس کی سختی میں تفاوت ہوتا رہاہے۔
قرآن کریم میں متعدد قوموں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اجمالاً قوموں کے بارسوخ اور سرکش اشخاص کا ذکر ہوا ہے۔ بادشاہوں اور امراء کابھی حوالہ دیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم (جو ایک مزدور اور غلام طبقہ تھی) فرعون کے ظلم وستم اور استحصال کا تفصیل سے تذکرہ کیا گیاہے۔ (دیکھیں سوربقرہ ۴۹، ۵۰۔ سورہ ابراہیم ۶۔ سورہ القصص ۴)
یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے بھی مملکت میں آپ کی شمولیت سے پہلے اور بعد کے مزدور طبقے کے احوال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن واحادیث میں مزدوروں کے حقوق سے متعلق تفصیلی بحث موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی صراحت سے ان کے حقوق اور معاشرہ میں ان کی حیثیت بیان کی ہے اور پابندی کے ساتھ ان پر کاربند رہنے کی تلقین کی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے وعید سنائی ہے جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مزدوروں کا حال ناگفتہ بہ تھا۔ ان پر ہرظلم وستم کیا جاتا تھا۔ ان کے حقوق سلب کیے جاتے تھے ۔ مزدوروں کے تئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکیدی تعلیمات و ہدایات کی بدولت ان کے متبعین کے مابین مزدوروں کے حالات کافی بہتر ہوئے۔ ان کو حقوق ملے، ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جانے لگااور شرعی وسماجی طورپر معاشرے میں ان کی حیثیت مقرر ہوئی۔ اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں سے متاثر ہونے والی حکومتوں ، ریاستوں اور معاشرے میں بھی دیگر میدانوں ومعاملات کی طرح مزدوروں کے احوال بھی کچھ بہتر ہوئے۔
جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیادنیا عروج کی سیڑھیاں چڑھتی گئی، مادیت کا غلبہ بڑھتا گیا اس قدر مزدوروں کے حالات بدسے بدتر ہوتے گئے۔حالات کی تبدیلی کے ساتھ استحصال کا طریقۂ کار بھی بدلتا رہا ہے۔
گذشتہ چند صدیاں مزدوروں کے لیے بدترین رہیں ، جو قربانیوں سے بھرادور ہوا ہے۔ یہ دور جہاں مزدوروں کے خلاف ظلم وستم اور استحصال کی انتہاء کے لیے جانا جاتا ہے ، وہیں مزدوروں کی بیداری، حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد اور آزادی کے لیے انتھک کوششوں اور قربانیوں کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ انہیں نہ صرف لالچ دے کر ، سراب دکھا کر ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیابلکہ انہیں غلامی کی زنجیر میں جکڑا گیا۔ ظلم وستم کی انتہاء کی گئی ، استحصال کے حدود پھانددیے گئے ۔ استحصال کی انتہاء کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کے اندر حاکموں اور جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کا جذبہ پروان چڑھنے لگا۔ سینوں میں جل رہی آگ شعلہ بن کر دہکنے لگی۔ یہ جوش وجذبہ اس قدر دل میں گھر کرلیا کہ اپنے حقوق کی حصولیابی کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے آمادہ ہوگیے۔ مزدوروں نے ظلم واستحصال کے خلاف اور اپنی آزادی کے لیے کئی احتجاجات کیے۔ درج ذیل سطور میں چند احتجاجات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
مزدوروں کے چار بڑے احتجاجات:
مزدوروں نے اپنی حالت زار میں بہتری لانے، اپنے حقوق کی حصولیابی کے لیے کئی اقدامات کیے، کئی یونین متحرک ہوئیں لیکن اکثر ناکام ہوئیں۔ کچھ احتجاجات میں انہیں کامیابی ملی ۔ بعد کے ادوار میں اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اگلے صفحات میں ان میں سے چار احتجاجات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
مارکیٹ بغاوت 1886:
یہ احتجاج مزدوروں کااپنے حقوق اور عدل انصاف کے حصول کے لیے شروع کی گئی ایک تاریخی تحریک ہے۔ یہ ایک ظالم و جابر حاکمیت اور تشدد و استحصال کے خلاف بغاوت تھی۔ اس کا پس منظریہ ہے کہ یونین امریکن فیڈریشن آف لیبر کے مطالبے پر ایک نئے قانون کے تحت وفاقی دفاتر کے ملازمین اور مزدوروں کو روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرنے کا حق دیا گیا تھا مگر صنعتوں، فیکٹریوں، کارخانوں اور دیگر نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اور مزدوراس حق سے محروم رکھے گیے تھے۔ ان سے روزانہ چودہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا ۔ اسی حق کے مطالبہ کے لیے یکم مئی 1886ء کو ملک بھر سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ مزدور وملازمین مرکزی شہر شکاگو میں جمع ہوئے۔ یہ احتجاج چار مئی تک چلا۔ چوتھے دن بیس ہزار مزدوروں نے مارکیٹ میں علم احتجاج بلند کیا ،جس کے نتیجے میں مالکان اور مزدوروں کے درمیان کشیدگی اور تنائو انتہاء کو پہنچ گیا۔ اس بیچ سیموئیل فیلڈرین کی تقریر کے دوران ایک نامعلوم شخص نے پولیس اہلکار پر بم پھینک دیا جس کے نتیجے میں موقع پر ایک اہلکار ہلاک اور پانچ افراد زخمی ہوئے۔ اس واقعہ سے ہرجگہ افراتفری پھیل گئی انتظامیہ نے مالکان سے مطالبات منوانے کے بجائے مالکان کی طرف داری لیتے ہوئے مزدوروں پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ نتیجتاً 38 کارکنان مارے گئے، سیکڑوں زخمی ہوئے۔ بعد میں عدالتوں میں مقدمات چلے اور یونین کے کئی رہ نمائوں کو پھانسی دی گئی۔ اس موقع پر ہلاک ہونے والے رہنمائوں نے کہا تھا ۔ ــ’’تم ہمیں جسمانی طورپر ختم کرسکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دبا سکتے۔ ‘‘
مزدوروں کی تاریخ میں یہ سب سے کامیاب احتجاج تھا، اس نے ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔ آزادی کے لیے لڑنے اور جدوجہد کرنے کا حوصلہ ملا۔ یونینز کو قدم جمانے میں مدد ملی۔ آج پوری دنیا شکاگوکے ان جاںنثاروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یکم مئی کو یوم مزدور کے طور پر مناتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ یوم مزدور منانے والی حکومتوں ، ریاستوں، اداروں اور لوگوں کا رویہ مزدوروں کے ساتھ کیسا ہے۔ کیا یوم مزدور منانے والے مزدوروں کو ان کا حق دے رہے ہیںیہ سوال اب بھی موجود ہے۔
روس میں انقلابی مظاہرے:
1905ء میں روس کے متوسط طبقے کے بادشاہ طاس نیکلوس دوئم کے خلاف کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے علم احتجاج بلند کیا۔ ان کا مطالبہ تھاکہ ان کی حالت زار بہترکی جائے، انہیں حقوق و مراعات حاصل ہوں۔ اس موقع پر کسانوں کی کئی تحریکیں وجود میں آئیں۔ ان تحریکوں میں تشدد آگیا۔ 22جنوری کو ان کا پرامن احتجاجی مظاہرہ بادشاہ کے سفید محل سے گزر رہاتھا کہ شاہی محافظوں نے مظاہرین کو روکا، جس کے نتیجے میں افراتفری مچی اور ہزاروں افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔تاریخ میں اس مظاہرہ کو ’’خونی سنڈے‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس ہنگامے کے بعد مزدوروں نے سوویت کونسلز تشکیل دیں۔ کونسلز نے بادشاہ سے کئی مطالبات کیے۔ حالت میں بہتری لانے کی پیشکش کے ساتھ ، زمین کے حقوق یومیہ دورانیہ آٹھ گھنٹے کرنے، آزادی رائے اور سیاسی حقوق جیسے دیگر کئی مطالبات شامل تھے۔ احتجاجوں اور مظاہروں کے نتیجے میں طاس نے کچھ سیاسی حقوق دئے، پارلیمان کے قیام کی اجازت دی۔ مگر دوسال بعد اسے تحلیل کردیا گیا۔ ان مظاہروں نے آئندہ آنے والے انقلاب کی بنیاد ڈال دی۔
برازیلی مزدوروں کا احتجاج:
1970ء میں لاطینی امریکہ کے صنعت کاروں اور مزدوروں نے اجرت میں اضافہ کے لیے متعدد مظاہرے کیے۔ برازیل میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملکی پیمانے پر مزدوروں نے خود کو منظم کیا۔ ایک تحریک کی شکل دی اور فوجی حکومت کو چیلنج کیا۔ 1979ء میں برازیل میں صنعتی گڑھ سائوپالو میں دھاتیں صاف کرنے والے ایک لاکھ ستر ہزار مزدوروں نے مظاہرہ کرکے شہر کو مفلوج کردیا۔ اس مظاہرے میں فوجی دستے اور مظاہرین کے مابین متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ بالآخر فوجی حکومت نے سہ ماہی بنیاد پر اجرتوں میں نظرثانی کا مطالبہ مان لیا۔ یونین کی قیادت لولاداسلو کے ہاتھ میں تھی۔ اس موقع پر اس نے ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ یہ پارٹی آج برازیل میں مرکزی سیاسی پارٹی ہے۔ انہیں مظاہروں کا نتیجہ تھا کہ اس یونین اور پارٹی کی مقبولیت ہوئی اور بعد کے ادوار میں اقتدار میں آئی۔
پولینڈ کے مزدوروں کا احتجاج:
یہ احتجاج پولینڈ کے شہر گدانسک میں ہوا۔ 14اگست 1980ء کو 17سترہ ہزار کارکنوں اور مزدروں نے خوراک اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاجاً لینن شب یارڈ پر قبضہ کرلیا۔ کارکنان کے رہنما یسخ واینسا تھا جو بعد میں قبضہ کرنے والے کارکنان سے جاملا۔ اس موقع پر ملک کے متعدد فیکٹریوں کے مزدور اور کارکنان نے اظہار یکجہتی کے طورپر مظاہرہ میں شامل ہوئے۔ کئی دنوں بعد پولینڈ کی کمیونسٹ حکومت اور یونین کے رہنما یسخ و اینسا کے درمیان مذاکرات ہوے۔ مذاکرہ میں مزدوروں کو اپنی خود مختار یونین قائم کرنے، اپنے انتظامیہ خود چلانے اور مظاہرہ کا حق دیاگیا۔ اس کے ساتھ مزدوروں کے اور دیگر بڑے مطالبات دیے جانے کا سمجھوتہ ہوا۔ ۲؎
یہ چار بڑے مظاہرے ہیں جن کے ذریعہ معاشرہ کے ایک طبقہ میں خود مختاری اور آزادی کا احساس جاگا۔ ان کے حالات پہلے سے کچھ بہتر ہوے ۔ اس کے علاوہ ہردور میں چھوٹے بڑے متعدد مظاہرے ہوتے رہے۔ تنظیمیں، ادارے اور یونینز قائم ہوتے رہے، جن میں سے کچھ ناکام ہوے اور کچھ مزدوروں کے حالت زار کے پیچھے مطمح نظر کچھ اور تھا ۔
مزدور طبقہ (Working Class)کی یکجہتی کا تصور فرانس اور امریکہ کے سیاسی انقلاب اور انگلستان کے صنعتی انقلاب کے بعد زیادہ مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہوا، مزدوروں کا یونین کے اعتبار سے 1836ء نہایت اہم سال ہے ۔ کیوں کہ اس سال بین الاقوامی مزدور تحریک (International Labour Movement)کا آغاز ہوا۔۳؎
مزدوروں کی موجودہ صورت حال:
پوری دنیا میں پے درپے متعدد ممالک ومقامات پر احتجاجات و مظاہرے اور متعدد یونینز اور تحریکوں کی کوششوں سے مزدور کے حالات کچھ بہتر ہوئے۔ ظلم واستحصال میں کمی آئی۔ انہیں ان کے حقوق ملے۔ بیسویں صدی کے وسط تک مزدور طبقہ قابل اطمنان پوزیشن میں تھا۔ لیکن اس کے بعد وقت کا پہیہ گھوما۔ زمانہ قدیم جاہلیت سے نئی جاہلیت میں قدم رکھنے لگا اس کے ساتھ ہی مزدور طبقہ کے ساتھ نئے طریقوں اور نئے انداز سے تاریخ دہرائی جانے لگی۔ ظلم و استحصال اپنا پنجہ پھیلانے لگا۔ مزدور طبقہ حقوق سے محروم کیا جانے لگا۔
آئندہ صفحات میں موجودہ دنیا میں مزدوروں کی اعداد وشمار اور صورتِ حال پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اعدادوشمار:
مزدوروں کی اعدادوشمار کی بات کی جائے تو World bankکے مطابق 2019ء میں مزدورافراد (Labour Force)کی تعداد 3.489 Millionتھی۔۴؎
مزدور طبقہ کے امور سے متعلق عالمی تنظیم اور (ILo) Intermational Labour Organization کے 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں مزدوروں کا تناسب 60.7فیصد ہے۔ ان کی کل تعدادتین ارب اڑتیس کروڑ بیس لاکھ ہے، جن میں مردوں کا تناسب 74.2فیصد ہے۔ ، خواتین کا تناسب 47.2فیصد ہے۔ پسماندہ ممالک (Low income Countries)میں مزدوروں کی شرح 70.4 فیصد ہے ۔کم ترقی پزیر ممالک Lower Middle income Countries میں ان کی شرح 55.3ہے۔ زیادہ ترقی پزیر ممالک (Upper middle income Countries)ملکوں میں مزور طبقہ کا تناسب 64.2فیصد ہے۔ ترقی یافتہ ممالک (High income Countries)مزدوروں کی شرح 60.7فیصد ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اس اعدادو شمار میں بچے شامل نہیں ہیں جن کی عمر 15سال سے کم ہے۔
مزدوروں کی ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو دوسرے ممالک میں ملازمت کرتے ہیں۔ ILOکی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق 164ملین مزدور دوسرے ملکوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ ۴؎ ملازمت کے لیے مزدور سب سے زیادہ یورپ کا رخ کرتے ہیں ، یورپ میں 32فیصد ، 23فیصد شمالی امریکہ ۔ 13.9فیصد عرب ممالک ۔ 13.3فیصد ایشیائ۔ 7.9فیصد افریقہ۔7.1(SE ASIA and pacific) اور 2.7فیصد لاطینی امریکہ میں دوسرے ملکوں کے مزدور ملازمت کرتے ہیں۔۵؎
وطن عزیز ان سرفہرست ممالک میں سے ہے جہاں سب سے زیادہ مزدور رہتے ہیں۔ ہندوستان 521,900,000مزدور وں کے ساتھ فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ جب کہ پہلے سرفہرست چین ہے جہاں مزدور کی تعداد 806,700,000ہے۔ تیسرے نمبر پر یورپین یونین ہے۔ جہاں 238,900,000 ملازمت کرتے ہیں۔ (gtlps://en.m.wikipedia.org)ہندوستان میں مزدوروں کی شرح 23.4فیصد ہے۔ اس شمار میں پندرہ سال سے کم عمر کی بچیاں شامل نہیں ہیں۔
مزدور دنیا کا سب سے مظلوم طبقہ بندھوا مزدور کا ہے۔ کہنے کے لیے تو دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ہرانسان آزاد ہے لیکن آج بھی ایک بڑی آبادی کارخانوں، فیکٹریوں، کانوں، اینٹ بھٹہ اور دیگر ملازمت کے مقامات پر غلامی یا نیم غلامی کی زندگی جی رہے ہیں جسے بندھوا مزدوری (Bonded Labour)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں آٹھ ملین سے زیادہ افراد بندھوا مزدوری (Bonded Labour)کے شکار ہیں۔ بندھوا مزدوروں کی بڑی تعداد ایشیاء میں رہتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 84سے 88فیصد بندھوا مزدور جنوبی ایشیاء میں پائے جاتے ہیں۔
وطن عزیز ہندوستان بندھوا مزدوری کا گڑھ ہے۔ انڈیا منسٹری کے مطابق 300,000تین لاکھ سے زیادہ مزدور بندھوا مزدوری اور جدید غلامی (Modern Slavery)کے شکار ہیں۔ تامل ناڈو ، کرناٹک اور اڈیشہ وغیرہ بندھوا مزدوری کے مراکز ہیں۔۶؎
موجودہ دور میں مزدوروں کی ایک غیر قانونی اور مذموم شکل بچہ مزدور (Child Labour)یا بچوں سے مزدوری کرانا ہے۔ قانونی طورپر ممنوع ہونے کے باوجود پوری دنیا میں بچوں سے مختلف طریقے سے مزدوری کرائی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً218ملین بچے پانچ سے سترہ سال کی عمر کے کہیں نہ کہیں ملازمت کرتے ہیں۔ تقریباً 152ملین بچہ مزدوری (Child Labour)کے شکار ہیں۔ ان میں سے 73ملین بچے پرخطر پیشہ سے وابستہ ہیں۔ بچہ مزدوروں کی سب سے بڑی تعداد افریقہ میں پائی جاتی ہے۔ وہاں 72.1ملین بچے بچہ مزدوری کے شکار ہیں، جب کہ ایشیاء میں 62.1ملین، امریکہ میں 10.7ملین ، عرب ممالک میں 1.2ملین اور یوروپ و سینٹرل ایشیاء میں 5.5ملین بچہ مزدور ہیں۔
بچہ مزدوروں کی آدھی تعداد یعنی تقریباً 76ملین بچوں کی عمر 5سے 11سال کے مابین ہوتی ہے۔ 42ملین بچوں کی عمر 12سے 14، جب کہ 37ملین بچوں کی عمر 15سے 17سال کے درمیان ہوتی ہے۔
160ملین بچہ مزدوروں میں سے 88ملین بچے جب کہ 64ملین بچیاں ہوتی ہیں۔۷؎
ہمارا ملک ہندوستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں بڑی تعداد میں بچوں سے مزدوری کرائی جاتی ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ ہندوستان میں بچہ مزدوری کو فروغ دیا جاتا ہے تو شاید بے جانہ ہو، افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت اس پر قدغن لگانے کے بجائے کسی نہ کسی طرح اس کو فروغ دے رہی ہے۔ حکومت بچہ مزدوروں کی اعداد وشمار کو عوام کے سامنے لانا نہیں چاہتی۔ 2011ء کی آخری رپورٹ کے مطابق 5سے 18سال کے 33 ملین جب کہ 5سے14سال کے 10.13ملین بچے ہندوستان میں بچہ مزدوری (Child Labou)کے شکار ہیں۔
ہندوستان میں درج ذیل پانچ ریاستوں میں کثیر تعداد میں بچوں سے مزدوری کرائی جاتی ہے۔ اترپردیش 8,96,301مہاراشٹر 4,96,916، بہار 4,51,590، اندھراپردیش 440851اور مدھیہ پردیش میں 2,86,310بچے مزدور ہیں ۔۸؎
موجودہ دور میں مزدوروں کے استحصال کی چند صورتیں:
موجودہ دنیا کا دعوی ہے کہ وہ تہذیب و ثقافت کے اعلیٰ مقام پر براجمان ہے ۔ آج کا معاشرہ سب سے زیادہ مہذب ہے، جس میں انسان آزاد ہے۔ اسے بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ اس کے ایسے اصول وقوانین اور Constitutionsہیں جو نہ صرف انسان کو آزادی اور انسانی حقوق دیتا ہے بلکہ ان کے تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ ہر شخص کو آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، لیکن کیا یہ دنیا ایسے ہی ہے جس کا وہ دعویٰ کرتی ہے؟ کیا ہر شخص آزاد ہے ؟ کیا ہر ایک کے حقوق محفوظ ہیں؟ کیا ہر کوئی آزادانہ زندگی جی رہاہے؟ پوری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ زمینی حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ یہ سب کا دعویٰ ہے، اصول وقوانین اور Constitutionکتاب دستور کی زینت ہیں۔ مجھے یہاں اس کی ہمہ جہت پہلوئوں سے کوئی بحث نہیں۔ مقصودصرف اس مہذب سماج کے ایک بڑے طبقے (مزدور طبقہ) سے متعلق صورت حال کا جائزہ لینا ہے کہ یہ تہذیبی و ثقافتی دنیا ایک کثیر آبادی پر کس طرح ظلم وستم ڈھارہی ہے اور ان کا استحصال کررہی ہے۔ درج ذیل سطور میں پوری دنیا میں مزدور طبقے کے ساتھ کئی جانے والی کچھ عام (Common)زیادتیوں اور استحصال کی صورتوں کو بیان کیا جارہا ہے۔
جبری مشقت : جبری مشقت جسے Forced Labourکہا جاتا ہے ۔ International Labour Organization نے جبری مشقت اور Forced Labourکی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے۔
All work or Service which is exacted from any person the threat of a penalty and for which the person has not offered himself or herself voluntarily.۹؎
’’جبری مشقت میں ہر وہ کام اور عمل داخل ہے جو کسی شخص سے جرمانے کے طورپر پرخطر طریقے سے لیا جاتا ہے اور جس کو کرنے کے لیے وہ شخص یا عورت راضی نہ ہو‘‘۔
دنیا میں کروڑوں مزدور جبری مشقت کے شکار ہیں ، ان سے ان کی مرضی کے خلاف ایسے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس میں نہ صرف زخمی ہونے کا امکان رہتا ہے بلکہ جان گنوانے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ دنیا میں لاکھوں فیکٹریاں ، سیکٹریں کانیں اور کارخانے ہیں جہاں روزانہ سیکڑوں مزدور پرخطر کام کرکے اپنی جان گنوادیتے ہیں۔ ILOکی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 24.9ملین افراد جبری مشقت کے شکار ہیں۔ جبری مشقت نیم غلامی کی ایک شکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے (Modern Slavery)جدید غلامی کہاجاتا ہے۔
زیادہ وقت کام لینا:
موجودہ دور میں مزدوروں کے استحصال کی ایک شکل طے شدہ وقت سے زیادہ وقت کام لینا ہے، فیکٹری ہویا کارخانہ، سیکٹر ہو یاکان، دیہاڑی مزدورہوں یا دفتر اور آفس میں کام کرنے والے ملازمین ہرجگہ مزدوروں سے پوری دنیا میں طے شدہ وقت سے زیادہ جبراً کام لینے کا رجحان پایا جاتاہے۔ انکار کرنے والوں کو ملازمت سے ہاتھ دھونے یا اجرت نہ ملنے کی شکل میں بدلہ ملتا ہے۔ پوری دنیا میں عالمی اور ملکی سطح پر اوقاتِ کار متعین ہیں۔ اس کی پاسداری تقریباً نہ کے برابر ہے۔کچھ تو مالکان کی مجبوریاں ہوتی ہیںاورکچھ ملازمین اور مزدوروں کی۔ قانونی اعتبار سے اضافی اجرت کے بدلے زیادہ کام کیا جاسکتا ہے۔ بعض مالکان اجرت دینے کا اہتمام کرتے ہیں جوکہ ایک مستحسن عمل ہے۔ مالکان کی ایک بڑی تعداد ہے جو اپنے ماتحت مزدوروں اور ملازمین سے بغیر کسی اجرت کے گھنٹہ دو گھنٹہ اضافی وقت جبراً لیتی ہے۔ مزدور بھی اپنی مجبوریوں کے پیش نظر بادل نخواستہ حکم کی بجاآوری پر مجبور ہوتے ہیں ۔ یہ موجودہ دور میں مزدور طبقہ پر ظلم و زیادتی اور استحصال کی ایک بھیانک شکل ہے۔ اس پر حکومت کو قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔
اجرت دینے میں ٹال مٹول کرنا:
موجودہ حالات میں مزدوروں پر ظلم وستم اور ان کے استحصال کی ایک صورت اجرت دینے میں ٹال مٹول کرنا ہے۔ موجودہ دنیا میں یہ عام رجحان ہوچلاہے۔ ایک مزدور بڑی محنت ومشقت کے ساتھ مزدوری کرتا ہے۔ اپنا پسینہ بہاتا ہے۔ اپنی خواہشات کو تج دیتا ہے۔ بسااوقات بیماری اور ضروریات کے وقت بھی چھٹی لینے سے گریز کرتا ہے۔ تاکہ اسے اور اس کے بال بچوں کو دو وقت کی روٹی نصیب ہو اور زندگی کی گاڑی آگے بڑھ سکے۔ مگر جب محنت کی مزدوری لینے کے لیے مالک کے پاس جاتا ہے تو وہ ٹال مٹول کرنے لگتا ہے یااس کی مزدوری کاٹ لی جاتی ہے۔ دنیا میں روزانہ کروڑوں مزدوروں کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ فیکٹری ، کان ، کارخانہ ، سیکٹر اور بھٹہ مزدور مالکان ان کی مزدوری کاٹ لیتے ہیں یا ٹال مٹول کرتے ہیں۔
تشدد:
مزدور پر زیادتی اور استحصال کی ایک شکل ان پر تشدد برتنا ہے۔ مزدوروں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا، مارپیٹ کرنا، متشددانہ رویہ اختیار کرنا ایک عام بات ہوگئی ہے۔ آئے دن سوشل میڈیا اور اخبارات میں اس طرح کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ متشددانہ رویہ کے شکار زیادہ تر گھروں میں کام کرنے والی خواتین ملازمین، بھٹوں ، کارخانوں کے مزدور اور دیہاڑی مزدور ہوتے ہیں۔ مزدوروں کی نہ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش کی جاتی ہے بلکہ بسا اوقات ایسا بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے کہ مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ مزدوروں پر ظلم و زیادتی اور تشدد کے واقعات دل دہلادینے والے ہیں۔ جہاں شمالی مشرقی ہندوستان کی اغواکردہ لکشمی کی آب بیتی انہیں کی زبانی بیان کی جاتی ہے ۔ وہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیاں بیان کرتی ہیں کہ ــ’’مجھے آرام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوجاتی ، یا ان کے مرضی کے خلاف کوئی کام کردیتی تھی تو وہ مجھے مارتے پیٹتے تھے۔ اگر میں تھک کر کچھ دیر کے لیے بیٹھ جاتی تھی تو مجھ پر چیختے تھے۔ مجھے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی، مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ میں دہلی میں ہوں، میرے مالک نے مجھے بتایا تھا کہ میں جنوبی ہندوستان کے شہر مدراس میں ہوں ، اس درمیان لکشمی سے جنسی زیادتی بھی کی گئی تھی۔ یہ ایک لکشمی کی کہانی نہیں ہے۔ دنیا میں خاص کر ملک عزیز ہندوستان میں کروڑوں لکشمی ، فاطمہ، راہل اور عبداللہ اس طرح کے ظلم وزیادتی کے شکار ہیں۔ جو چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی پرسانِ حال ہے جو اسے آزادی دلائے۔ حکومت کی طرف سے کسی مدد کی امید رکھنا کسی سراب سے زیادہ نہیں ہے۔
بلاشبہ بعض مزدور بے ایمان اور کام چور ہوتے ہیں۔ بوقت ضرورت مزدور کی ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور تھوڑی بہت سرزنش کرنا مالک کا حق ہے۔ لیکن ان پر بے جا تشدد کرنا، بہیمانہ رویہ اختیار کرنا ظلم وزیادتی ہے۔ جو کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے۔
جنسی استحصال:
مزدور طبقہ کے استحصال کی ایک صورت بداخلاقی، جنسی زیادتی وجسمانی ہراسگی ہے۔ موجودہ دنیا میں تمام شعبہائے زندگی میں جنسی زیادتی اور ہراسگی معمول بن گئی ہے۔ اس تعلق سے حکومتوں اور قوموں کے احساسات مردہ ہوچکے ہیں ۔ پوری دنیا بے حسی کی شکار ہوگئی ہے۔ دیگر زیادتیوں کی طرح اس زیادتی کا بھی سب سے زیادہ شکار مزدور طبقہ ہوتاہے۔ چوں کہ مزدور طبقہ معاشرہ کا دباکچلا طبقہ ہوتا ہے۔ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے اس لیے انہیں لالچ دے کر اور بڑے بڑے خواب دکھا کر ان کا استحصال کرنا آسان ہوتا ہے۔ دنیا میں لاکھوں مزدور روزانہ کسی نہ کسی طرح جنسی زیادتی اور بداخلاقی کے شکار ہوتے ہیں۔ اس کے سب سے زیادہ شکار گھروں میں کام کرنے والے اور فیکٹریوں و کارخانوں کے مزدور ہوتے ہیں۔ انہیں جھوٹے سپنے دکھاکر یا دھمکیاں دے کر جنسی یرغمال بنایا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ جنسی زیادتی کی شکار صرف خواتین ہی نہیں ہوتی ہیں بلکہ بچے اور نوجوان مرد بھی اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ خوشحال گھرانوں کی نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کی طرف سے اپنے ماتحت مزدوروں کا استحصال کیے جانے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔ یہ بات بھی ہے کہ متعدد وجوہات کی بناپر مزدوروں پر ہونے والی جنسی زیادتیاں پس پردہ رہ جاتی ہیں۔ انہیں عوام کے سامنے نہیں لائی جاتی ہیں۔
مزدوروں کا اغوا:
موجودہ حالات میں مزدوروں پر ظلم وزیادتی اور استحصال کی ایک شکل مزدور کا اغوا کرنا ہے۔ مزدوروں کا اغوا دنیا بھر میں پھیلا ہوا ایک سنگین جرم ہے۔ یہ جرم بطور خاص پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اغوا مختلف طریقے سے اور متعدد مقاصد کے تحت ہوتا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کو اغوا کرکے مزدور بنانا، مزدوروں کا جنسی اسمگلنگ کرنا، مزدوروں کے ذریعہ گھنائونے جرائم کی انجام دہی کے لیے ان کا اغوا کرنا وغیرہ۔موجودہ حالات میں مزدور کے اغوا کی ایک صورت یہ ہے انہیں بڑے بڑے خواب دکھاکر دوسرے ممالک بھیج دئے جاتے ہیں جہاں ان سے ان کے معیار کے برخلاف یا گھنائونے کام لیے جاتے ہیں ۔ اس درمیان ان سے سارے کاغذات وغیرہ ضبط کرلیے جاتے ہیں۔ انہیں سالوں گھر واپسی کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ اجازت مل بھی جاتی ہے تووہ اس قابل نہیں ہوتا ہے کہ سفر کے اخراجات برداشت کرسکیں۔ ان کا نہ صرف جسمانی اغوا کیا جاتا ہے بلکہ مالی طورپر بھی ان کے ساتھ دھوکہ دہی کی جاتی ہے۔ اس کے زیادہ تر شکار برصغیر کے نوجوان ہوتے ہیں۔ حالات کی مجبوری یا مالدار بننے کی خواہش میں اکثر نوجوان اس کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔
اغوا کے شکار زیادہ تر دیہات کے مزدور وں کے بچے اور خاص کر لڑکیاں ہوتی ہیں۔ کیوں کہ شہروں میں مزدوروں کی مانگ زیادہ ہوتی ہے۔ بڑی بڑی قیمتوں میں ان کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ دوسری طرف دیہات کے بچوں کا اغوا کرنا آسان ہوتا ہے۔ ایک ہندو محقق کیلاش ستیارتھی کہتے ہیں:
’’ایسے میں سب سے سستے اور کمزور مزدور بچے ہیں۔ خاص طور سے لـڑکیاں، ایسے میں سستے مزدور کی مانگ بھارت کے دور دراز گائوں سے بڑے شہروں کی طرف بچوں کی اسمگلنگ کوبڑھاوا دے رہی ہے‘‘۔ ۱۰؎
مزدور بچوں کا اغوا کبھی کبھی خود والدین کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔حالات کی مجبوری یا مال و دولت کی حرص وطمع میں گرفتار ہوکر والدین خود اپنے ہاتھوں اپنے لخت جگر اور نورنظر کو اسمگلروں اور اغواکاروں کے حوالے کردیتے ہیں۔
مزدوروں کا اغوا یقینا موجودہ حالات کا ایک سنگین جرم ہے۔ یہ گرچہ قانونی طورپر ممنوع ہے لیکن اغوا کاروں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہاہے۔ حکومتیں بھی اس جرم کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھاتی نہیں نظر آرہی ہیں۔ بلکہ بسااوقات اغواکاروں کو حکومت کا دست تعاون حاصل ہوتا ہے۔
استحصال کے پیچھے کون؟:
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مزدوروں کے استحصال کی جڑکون ہے، اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ۔ اس کا جواب ملنا بہت مشکل نہیں ہے کہ اس کی جڑمادیت اور مال ودولت کی حرص و طمع ہے۔ جس پر عصرحاضر میں سرمایہ داروں کی حکومت ہے۔قوم وسماج کے جس طبقے کے ہاتھوں مادیت اور مال و دولت پر غلبہ رہاہے۔ اس نے اپنے ماتحت کمزور اور مزدور پر ظلم وزیادتی ، تشدد اور استحصال کیا ہے۔ چاہے وہ زمانۂ قدیم کی شاہانہ حکومت ہو یاماضی قریب کا جاگیردارانہ نظام یا عصر حاضر کی جمہوری ریاستیں۔ یقینا ماضی قریب میں جاگیرداروں نے کسانوں، مزدوروں اور کمزور طبقہ پر ظلم وستم کی انتہا کردی جس کے ردعمل میں انقلابات رونماہوئے۔ آج وہی تاریخ سرمایہ دار دہرارہے ہیں۔ بلکہ حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ سرمایہ داری نام ہی ہے ایسے معاشی نظام کا جس میں ہرطرح کی معاشی سرگرمی کی بنیاد دوسروں کے استحصال اور محورمنافع اور ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد معاشی مسابقت کے جذبے پر ہوتی ہے۔
سرمایہ دار طبقہ مادیت پرستی کا اس قدر شکار ہوتا ہے کہ وہ مال و دولت میں مسابقت لے جانے اور دنیا پر اپنا غلبہ قائم کرنے کے لیے کسی بھی حدتک جاسکتا ہے۔ اس کے سرپر غالبیت اور حاکمیت کا اس قدر جنون ہوتا ہے کہ وہ جنون اسے ظلم و زیادتی اور استحصال کی ساری حدیں پھلانگنے پر مجبور کردیتا ہے۔ یہ طبقہ نہ صرف کمزور اور مزدور کو بلکہ پوری دنیا کو اپنا غلام بنانے کی کوشش میں لگارہتا ہے۔ حکومتیں اس کے اشارے پر ناچتی ہیں۔ ان کے ہر فیصلے میں اس کے مفاد کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ وہ قوموں پر اپنے من پسند حکمراں مسلط کرتا ہے۔ اس کے کارندے اور ہرکارے کمزوروں اور مزدوروں کے ظلم و استحصال کے لیے اور سرمایہ دار طبقہ کے مفاد کے لیے عالمی سطح سے لے کر ملکی ، شہری اور علاقائی سطح پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ سرمایہ دار پوری دنیا میں اپنا جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ـ
’’درحقیقت غربت، افلاس، استحصال اور سرمایہ داری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ دنیا میں سرمایہ داری عام ہومگر غربت، افلاس اور استحصال میں اضافہ نہ ہو۔ سرمایہ داری قائم ہی ظلم و بربریت پر ہوتی ہے۔ یہی اس کی تاریخ ہے۔ ۱۱؎
سید سعادت اللہ حسینی اپنی کتاب ’’سرمایہ دارانہ استعمار اور مالی استحصال‘‘ میں سرمایہ داروں اور ان کے مقاصد پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’سرمایہ دارانہ استعمار کا اصل مقصد دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنا اور دولت کی طاقت سے دنیا کو غلام بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے استعمار مختلف طریقے اختیار کرتا ہے۔ سیاسی محاذ پر وہ ملکوں اور قوموں پر اپنے پٹھو حکمراں مسلط کرتا ہے، ان کے ذریعہ اپنی پالیسیاں وہاں کے عوام پر تھوپتا ہے۔ مقامی معیشتوں کو تباہ کرکے بڑی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کے لیے راہیں ہموار کرتاہے۔ قدرتی وسائل کو لوٹتاہے ۔ قبائل اور مقامی آبادیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرتا ہے، جو قومیں استعمار کی اس راہ میں مزاحم ہوتی ہیں ان پر فوجی کارروائی کرتاہے اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر انہیں تباہ و تاراج کرتاہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ استعمار کا اصل مقصد وسائل اور دولت پر قبضہ ہوتا ہے ۔ سیاسی سماجی، تہذیبی طریقے اس اصل کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں‘‘۔۱۲؎
مزدوروں اور کمزوروں کے ظلم وستم اور استحصال سے نجات دلانے اور حالات میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ داروں پر شکنجہ کساجائے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں سدھار کیا جائے کیوں کہ اس کے بغیر کسی بہتری کی امید کرنا سراب کے مترادف ہے۔
حواشی و مراجع:
۱- جامع اردو انسائیکلو پیڈیا، ۳؍۵۴۵
۲- چار بڑی ہڑتالیںجنہوں نے دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔ اردو BBC News۔ 2مئی 2017ء
۳- جامع اردو انسائیکلو پیڈیا 546/3
۴- World bank httsp.llwww.world bank.org
۵- https: // www.anigrationdata portal.org.
۶- htps://www.en.wikepedia.org
۷- https: //www. ilo.org.2019
۸- www.moneyconctrol.com- www.ilo.org
۹- https://www.rlo.org
۱۰- https://ur.m.wikipedia.org
۱۱- جدیددور کو قرونِ اولیٰ سے بہتر سمجھنے والی ذہنیت کی درماندگی، الحاد جدید کا علمی محاکمہ: زاہد مغل 12-5-2011
۱۲- سرمایہ دارانہ استعمار اور مالی استحصال، سید سعادت اللہ حسینی،شعبہ تنظیم جماعت اسلامی، ہند، مطبوعہ ۲۰۰۹ء، ص: 31