فضیلۃ الشیخ محمد طیب مدنی
بانی رئیس جامعہ رحمانیہ مدھوپور
ہمارے علاقے، اضلاع ثلاثہ( گریڈیہ، جامتاڑا، دیوگھر ) کے ایک تعلیمی ادارے کا کوئی شعبہ بند ہونے پر سوشل میڈیا اور عوام میں جو مسلسل تبصرے ہوئے اسی سے متاثر ہوکر یہ مختصر مضمون قلم بند کیا گیا ہے
مورخہ 13 جنوری 2022م کو میں نے ایک مضمون بعنوان : جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کا قیام اور علاقے میں اسکے دعوتی اثرات ؛ کسی صاحب کا تحریر کردہ ایک مضمون سامنے آنے کی وجہ سے لکھا تھا ، اس مضمون میں علمائے اہلحدیث جنوبی سنتھال پرگنہ و گریڈیہ؛ و ہمدردان جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند اور ابنائے قدیم جامعہ محمدیہ کو قرآن مجید کی چند آیات اور ایک حدیث پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی تھی جو یہاں بھی مکرر پیش خدمت ہے؛
ارشاد باری تعالٰی ہے (ولا تکونوا کالتی نقضت غزلھا من بعد قوۃ ) تم لوگ اس عورت کی طرح نہ ہوجاو جس نے اپنا سوت مضبوط کاٹنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا (النحل : 92)
نیز ارشاد ہے ( یخربون بیوتھم بایدیھم وایدی المومنین فاعتبروا یا اولی الابصار ) وہ (یہودی) اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں( برباد کروا رہے تھے ) پس اے آنکھوں والے تم لوگ عبرت حاصل کرو (الحشر : 2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:(اوصیکم بتقوی اللہ و السمع و الطاعۃ و ان کان عبدا حبشیا ) میں تم کو تقوی و سمع و طاعت کی نصیحت کرتا ہوں اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ( سنن ابوداؤد : 4607 ، سنن الترمذی: 2676) نیز اتفاق و اتحاد ہی وہ راہ ہے جس سے کامیابی ممکن ہے ، ارشاد الہی ہے (واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ) تم تمام،اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ، گروہوں میں مت بٹو ( آل عمران: 103)
ایک وقت تھا کہ علاقے میں مسلک سلف کے ادارے بہت کم ہونے کی وجہ سے (وجوہ دیگر بھی ہوسکتے ہیں ) اضلاع ثلاثہ(دیوگھر ، گریڈیہ، جامتاڑا) کے اہلحدیث طلبہ حنفی مدارس میں تعلیم حاصل کرکے فراغت کے بعد حنفی بن جاتے تھے ، جس کی وجہ سے اہلحدیث گاؤں میں حنفیت پھیل رہی تھی ، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے علمائے کرام خصوصا مولانا عبدالرشید شائقی / رحمہ اللہ اور انکے رفقاء نے ایک مرکزی ادارہ قائم کرنے کی تحریک شروع کی ، چنانچہ مورخہ 18 اکتوبر 1977م کو جامعہ محمدیہ کے نام سے ڈابھاکیند میں ایک مرکزی ادارہ کا قیام عمل میں آیا، اس علاقے یعنی اضلاع ثلاثہ میں اسی زمانے میں فتنۂ انکار حدیث شباب پر تھا ، اس فتنہ کو قلع قمع کرنے کے لئے مورخہ 13 فروری 1987م کو جامعہ رحمانیہ مدھوپور کا قیام بھی عمل میں آیا۔
جبکہ اسی زمانے میں چند سال قبل و بعد ہندوستان کے مختلف خطوں میں کئی اہم ادارے قائم ہوئے جن میں چند درج ذیل ہیں؛
1۔ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں، مہاراشٹر،
2۔ جامعہ اسلامیہ سنابل نئی دہلی ،
3۔ جامعۃ الامام البخاری کشن گنج، بہار،
4۔ جامعہ رحمانیہ کاندیلوی ممبئی ،
5۔ جامعۃ الامام ابن تیمیہ، چمپارن، بہار
5۔ جامعہ اسلامیہ دریاآباد، یوپی،
6۔ جامعۃ الصفا ڈومریا گنج، یوپی،
8۔ جامعہ مصباح العلوم السلفیہ،جھوم پورہ ، اڑیسہ،
9۔ جامعہ اسلامیہ ممبرا، ممبئی
10۔ جامعہ ابو ہریرہ الاسلامیہ، لال گوپال گنج ، الہ آباد۔ یوپی،
اضلاع ثلاثہ کے تقریبا تمام اہلحدیث بستیوں نے جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کا دامے ، درمے ، قدمے، سخنے تعاون کیا، جامعہ کو سب نے مرکز تسلیم کیا اور جامعہ کی آواز پر سب نے لبیک کہا ، جامعہ نے بھی ترقی کے منازل طے کئے ، عالمیت تک کی تعلیم ہونے لگی ۔
اسی طرح جامعہ رحمانیہ مدھوپور میں عربی چہارم تک تعلیم ہورہی تھی ، جامعہ رحمانیہ ، جامعہ سلفیہ بنارس کا برانچ بھی بن گیا ، جامعہ رحمانیہ کے طلبہ نے جامعہ سلفیہ بنارس کے اصول کے مطابق امتحان بھی دیا ، راقم الحروف ( محمد طیب مدنی ) کو الحاق المدارس جامعہ سلفیہ بنارس کا ممبر منتخب کیا گیا ۔
جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ، علاقے میں اہلحدیث علماء و حفاظ کی فوج تیار ہوگئی انہوں نے اپنا مورچہ بھی سنبھال لیا ، مسلک سلف کے متوالوں میں مضبوطی و استقامت آئی ، مخالف مسالک کے حوصلے پست ہوئے ۔ اسی طرح جامعہ رحمانیہ مدھوپور اور علمائے کرام کی کوششوں سے فتنۂ انکار حدیث کا زور ختم ہونا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ فتنۂ انکار حدیث مدھوپور و مضافات سے ختم ہوا۔۔۔ فللہ الحمد و الشکر ۔۔۔
مولانا عبدالحمید رحمانی مدنی رحمہ اللہ؛ جنگ آزادی اور علمائے اہلحدیث: کے موضوع پر گفتگو کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ہمارے اسلاف کے کارنامے یہ ہیں اور ہم رنگ و روغن کھاتے ہیں اور ہم جذباتی ہوجاتے ہیں ۔ آپ کا یہ بیان ریکارڈ میں موجود ہے ۔
جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند قائم ہوئے کچھ عرصہ گزرا تھا ، اس وقت جامعہ کے اکثر بانیان و موسسین بھی باحیات تھے کہ چند افراد نے جامعہ کی انتظامیہ پر تنقید کرنا شروع کردیا ۔ بعض اس تنقید سے بہت لطف اندوز ہورہے تھے ۔ ۔ ۔ کل تک جو جامعہ کے معاون و بہی خواہ تھے کسی ناچاقی کی وجہ سے وہ جامعہ پر تنقید کرنے والوں کے معاون ہوگئے ۔ ۔ ۔ نتیجہ : دیکھتے ہی دیکھتے جامعہ زوال پذیر ہوگیا اور جامعہ کی مرکزیت متاثر ہوگئی ۔
جامعہ رحمانیہ مدھوپور جس جگہ قائم ہے اسکی زمین مولانا قاری عبدالمنان اثری شنکرنگری رحمہ اللہ نے خریدی ، راقم الحروف نے اس زمین کی خارج و داخل کی سرکاری کارروائی انجام دی اور پھر مورخہ 13 فروری 1987م کو اس سرزمین پر جامعہ رحمانیہ قائم کیا۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک حافظ صاحب کو اس ادارہ کا ناظم اعلی بنایا گیا تو انہوں نے اپنی واہ واہی میں اسی زمین پر ایک راستہ دیکر ادارہ کی تقریبا چھ سات کٹھہ زمین کا نقصان کردیا اور پھر انہوں نے ہی جامعہ رحمانیہ کے تمام طلبہ کو ممبئی سے قریب ایک ادارے میں بھیج کر جامعہ رحمانیہ کو بند کردیا۔
جناب حاجی محمد حسین انصاری صاحب (سابق وزیر حکومت جھارکھنڈ ) اللہ تعالٰی انکی بشری لغزشوں کو درگزر فرمائے، انکی قبر کو کشادہ و منور کرے اور جنت الفردوس کا مکین بنائے ( آمین ) نے خاکسار سے کہا کہ لوگ جامعہ رحمانیہ کو محمد طیب مدنی کے نام سے جانتے ہیں اگر رحمانیہ بند ہے تو اس سے نہ صرف علاقے کے طلبہ کا نقصان ہورہا ہے بلکہ آپ کی جماعت کی بھی بدنامی ہورہی ہے ، آپ کھڑے ہوجائیں اور تعلیم شروع کردیں ، میں آپ کے ساتھ ہوں، اس طرح جامعہ رحمانیہ میں دوبارہ تعلیم جاری ہوئی اور اب بھی جاری وساری ہے ۔ وللہ الحمد و الشکر ۔
لمحہ فکریہ بلکہ مقام کرب و افسوس یہ ہے کہ مذکورہ بالا 10 ادارے آج کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔
جس کی وجوہ تو بہترے ہوسکتے ہیں لیکن ان میں خاص وجوہ ہمارے علاقے کے اداروں اور اشخاص و افراد کے حوالے سے یہ ہے جو میرے تجربے و مشاہدے میں ہے کہ اداروں کے ساتھ ہمارا تعلق و تعاون مضبوط نہیں ، آخر ہمارے ذاتی معاملات اداروں کی راہ میں کیوں اٹک جاتے ہیں ، ہمارے اندر دور اندیشی اور دل و دماغ میں وسعت ، ہمارا ظرف کشادہ اور ہمارا حوصلہ بلند کیوں نہیں ہے ؟؟؟
بحمدللہ میں متمول گھرانے میں پیدا ہوا ، غلہ خریدنے کی ضرورت نہیں پڑی اور نہ گھر پیسے دینے کی ضرورت ہوئی ، جب تک ابتعاث کا معاملہ رہا علاقے کے دیگر مبعوثین سے میری تنخواہ بہتر رہی ، بحمد اللہ آج بھی میرا تعاقد ہے ۔
مولانا قاری عبدالمنان اثری شنکرنگری رحمہ اللہ کو ڈاکٹر سریش چند رائے کی کلینک کی چھت پر قیام کی جگہ ملی جو مٹ کوٹھا تھا اور غیر مسلم محلہ تھا ۔ بقول مولانا محمد زکریا فیضی پرتابگڈھی شہر مدھوپور میں پانچ افراد اہلحدیث تھے ۔ ایسی جگہ میں جامعہ رحمانیہ کا قیام اور بفضلہ سبحانہ و تعالٰی کامیابی دنیا کے سامنے ہے لیکن خاکسار کے ساتھ علاقے کے جماعتی احباب ، اخوان و اعیان کا تعاون ، تأثر اور عزت و وقار کیا ہے ۔ اسی طرح جو اپنے خون و پسینہ ایک کرکے تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں انکی آبیاری کرتے ہیں علاقے کے علماء و عوام کا رویہ انکے ساتھ کیسا ہوتا ہے ؟
ہمارے علاقے میں جب کوئی اہم معاملہ رونما ہوتا ہے اس وقت افسوس کیا جاتا ہے یا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ اپنی ذہنیت و ظرف کے مطابق۔
اضلاع ثلاثہ میں اس وقت پڑھے لکھے افراد کی کمی نہیں ہے ، کیا اس علاقے میں مثبت و تعمیری ذہن کے افراد کی کمی ہے ؟ کیا حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے کی ان میں صلاحیت نہیں ہے ؟
وہ افراد جو مفاد پرست ، تخریبی ذہن و دل و دماغ کے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو جاننے اور پہچاننے کی ضرورت نہیں ہے ؟
ہم تمام جماعتی احباب و اخوان کو اور بطور خاص علمائے کرام اور جو ادارے والے ہیں انہیں اس خصلت کے حامل افراد کو پہچاننے اور اپنے لائحہ عمل میں نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
علاقے میں خوشحالی اور ترقی کے لئے تعلیمی اداروں کا وجود ، بقا ، تحفظ اور استحکام کا ہونا ضروری ہے اسکی کیا صورت ہے اور کامیابی کس طرح ممکن ہے اس پر بھی نظر ثانی کرنے ، غور و فکر کرنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔
وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم ۔