غالب کی بو قلمونیت اور تفہیم ِغالب

پروفیسرانورپاشا               

سابق چیئر پرسن،ہندوستانی زبانوں کا مرکز,جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔67

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

تفہیمِ غالب کا معمہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ غالب کے جتنے ناقدین و شارحین اتنے غالب۔ اور ناقدین و شارحین پر ہی کیا موقوف ہے۔ حق تو یہ ہے کہ کلام غالب کے جتنے قارئین و سامعین اتنے غالب۔ غالب جیسے شاعر ِ صدر نگ کے شعری و تخلیقی جہان کے فکری و معنوی ابعاد کی تفہیم و تشریح کا صد جہاتی ہونا عین فطری ہے۔ یہ غالب کی تخلیقی بساط کا کمال ہے کہ غالب فہمی کا دفتر امتدادِ زمانہ کے ساتھ بجائے تنگ ہو نے یا سمٹنے کے روز افزوں تازگی اور وسعت سے ہمکنار ہوتا گیا اور خود غالب کی یہ پیشن گوئی:

شہرتِ شعرم بگیتی بعد من خواہد شدن

یا پھر یہ:

ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج

میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں

صد فی صد درست ثابت ہوئی۔آج غالب کے مداحوں، غالب کے ناقدین اور شارحین کا جیسا ہجوم ہے اور جس طرح اس ہجوم میں ہرطبقے، درجے اور ظرف کے اشخاص و افراد شامل ہیں یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ایسا مرتبہ اور اعزاز و مقبولیت غالب کے سوا شاید ہی کسی دوسرے شاعر کو میسر ہوا۔

غالب کی شخصیت ہو یا شاعری دونوں ہی کسی طُرفہ تماشا سے کم نہیں۔ تنوع اور طرفگی غالب کی شخصیت اور شاعری دونوں ہی کا طُرۂ امتیاز ہے اور اس تنوع اور طُرفگی کے سبب گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں غالب فہمی کے زاویئے میں نِت نئی جہات کا اضافہ ہوتا آیاہے۔یہ غالب کی شخصیت اور شاعری کی طرفگی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہرغالب شناس نے اپنا ایک الگ بُت غالب تراش لیا ہے اور غالب کی فراخدلی کہ ہر ظرف کے ناقدو قاری کی زنبیل میں سمانے کو تیار۔ اِس صلائے عام کے ساتھ:

بِک جاتے ہیں ہم آپ متاعِ سخن کے ساتھ

لیکن عِیار طبعِ خریدار دیکھ کر

یعنی جتنا جس کا ظرف و عِیار اُتنا اس کے حصے کا غالب۔ خود غالب نے بھی تو اپنی ذات سے الگ ایک بُت ِ غالب تراش لیا تھااور اپنی ذات اور اُس تراشیدہ بُت کے درمیان ایک دوئی حائل کرلی تھی۔یعنی خود ہی تماشااور خود ہی تماشا ئی۔ اِسی دوئی نے غالب کو کرب و نشاط اور حرماں نصیبی و حسرتِ تعمیرکے درمیان زندگی کرنے کا حوصلہ عطا کیاتھا۔ غالب کی شخصیت اور شاعری اِسی دوئی کے باہمی مکالمے سے عبارت ہے۔ غالب خود ایک خط میں لکھتے ہیں:

”یہاں خدا سے بھی توقع باقی نہیں، مخلوق کا کیا ذکر؟ کچھ بَن نہیں آتی۔ اپنا آپ تماشائی بن گیا ہوں۔رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں۔ یعنی میں نے اپنے کو اپنا غیر تصور کیا ہے۔ جو دُکھ مجھے پہنچا ہے کہتا ہوں کہ لو، غالب کے ایک اور جوتی لگی۔بہت اِتراتا تھا کہ میں بڑاشاعر اور فارسی داں ہوں، آج دُور دُور تک میرا جواب نہیں۔ لے اب تو قرض داروں کو جواب دے۔ سچ تو یوں ہے کہ غالب کیا مرا۔بڑا مُلحد مرا۔ بڑا کافر مرا۔ہم نے از راہِ تعظیم جیسا بادشاہوں کو بعد اُن کے ”جنت آرام گاہ“ و ”عرش نشمین“ خطاب دیتے ہیں، چونکہ یہ اپنے کو شاہِ قلمروِ سخن جانتا تھا، سَقر، مقر اور ہاویہ زاویہ، خطاب تجویز کر رکھا ہے۔ آئیے!  نجم الدولہ بہادر، ایک قرض دار کا گریبان ہاتھ میں، ایک قرض دار بھوگ سُنا رہا ہے۔ میں اُن سے پوچھ رہاہوں۔ اجی!  حضرت نواب صاحب کیسے، اوغلان صاحب!  آپ سلجوقی اور اَفرا سیابی ہیں۔ یہ کیا بے حرمتی ہورہی ہے۔ کچھ تو اُکسو، کچھ تو بولو۔ بولے کیا بے حیا، بے غیرت، کوٹھی سے شراب، گندھی سی گلاب، بزازے سے کپڑا،  میوہ فروش سے آم، صراف سے دام قرض لیے جاتا ہے، یہ بھی تو سونچا ہوتاکہاں سے دوں گا۔“

مکتوب الیہ مرزا قربان علی بیگ خاں، غالب کے خطوط، مرتبہ خلیق انجم، جلد دوم ص:820(1985ء(،غالب انسٹی ٹیوٹ، ایوان ِ غالب مارگ، نئی دہلی)(

غالب کا عہد عبوری عہد تھا۔ جہاں دو متضاد و متخالف اقدارو نظام باہم دست و گریباں تھے۔ اور اُس تضاد و تصادم کے بطن سے ایک ایسے مستقبل کا خاکہ تیار ہورہا تھا جو بھلے ہی غالب کی حسرتِ ناکام اور شکست خوردہ آرزوؤں کی تکمیل کا نشاط انگیز خاکہء مستقبل نہ تھا، لیکن رجائی چشمِ بینا رکھنے والے غالب بھلا اس سے گریزاں بھی کیونکر ہوسکتے تھے۔ بقول غالب:

مرد آں کہ در ہجومِ تمنا شود ہلاک

چوں تشنہ کہ بَرلبِ دریا شود ہلاک

غالب کی شخصیت اور شاعری کو  تہہ داراورطرح داربنانے میں اُس عبوری دور کے آشوب کا بھی نمایاں کر دار رہا ہے۔اور اُس عبوری اور پُرآشوب دور کے اُفق پر غالب کی شخصیت اور شاعری کا بطورِ قوس قُزح ایک Prismatic Imageکا نظارہ پیدا کرنا غالب کے قارئین و ناقدین کو قدرے واہمے میں مبتلا کرنے کا سبب بھی رہا ہے۔

لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکہ

ہر روز دکھاتا ہوں میں ایک داغ نہاں اور

غالب فہمی کی راہ میں جوسب سے دلچسپ مرحلہ ہے وہ ہے Prismatic Imageسے بھرپور غالب کی شخصیت اور اُن کی شاعری۔ غالب کی Prismatic Imageہر ہر قدم پر اپنے قارئین اور ناقدین کوPuzzledکرتی ہے  یعنی واہمے میں مبتلا کرتی ہے۔کیونکہ اُن کا قاری یا ناقد جب غالب کی ایک Imageکو اپنی گرفت میں لینے کی منزل پر پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ غالب ہنوز دور است، کیونکہ اس کی گرفت میں غالب کی جواِمیج ہوتی ہے وہ تو یک رخی اور اِکہری یعنی نامکمل Image۔اور”صدجلوہ رو برو ہے جو مژگاں اُٹھائیے“کی مانند غالب بصد جلوہ کہیں دور کھڑا نظر آتا ہے اور اِن رنگوں میں تضاد و تخالف بھی ایسا کہ ہر رنگ ایک الگ اور مختلف ذوق نظارہ کا تقاضا کرتا ہے۔ زعم آگہی و بصیرت ایسی کہ دنیا  ”بازیچہئ اطفال“نظر آتی ہے”اورنگ سلیماں“ اور”اعجاز مسیحا“کی بھی کوئی وقعت نہیں۔ اَنا ایسی کہ کعبے سے اُلٹے پھر آئیں اگر استقبال کو کعبے کا در نہ کھلے:

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم

الٹے پھرآئیں گے جو درِ کعبہ وا نہ ہوا

حسرتِ تعمیر ایسی کہ عرش کی بلندی بھی ہیچ:

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

عرش سے ادھر ہوتا کاش کہ مکان اپنا

رندی ایسی کہ دریائے مئے کے بالمقابل ”خمیازۂ ساحل“ ہونے کا دعویٰ:

بہ قدر ظرف ہے ساقی خمارِ تشنہ کامی بھی

جوتو دریا ئے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

میر مہدی مجروح کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

”میر مہدی! صبح کا وقت ہے، جاڑا خوب پڑ رہا ہے، انگیٹھی سامنے رکھی ہوئی ہے۔ دو حرف لکھتاہوں، ہاتھ تاپتا جاتاہوں، آگ میں گرمی سہی، مگر وہ آتش سیال کہاں کہ جب دو جرعے پیئے فوراً رگ و پَے میں دوڑ گئی۔ دِل تواناہوگیا۔ نفسِ ناطقہ کو تو اجد بہم پہنچا۔ ساقیء کوثر کا بندہ اور تشنہ لب، ہائے غضب! ہائے غضب!

جانفزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا

سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہوگئیں“

لیکن غالب کے پاس شراب نوشی کا معقول اور قائل کردینے والا جواز بھی موجود ہے کہ وہ نواب زادہ جو اب خستہ حال شاعر غالب ہے جو مہاجنوں کے رحم و کرم پر زندہ ہے۔ پینشن کے اجرا سے مایوس، خانگی زندگی کی تنگی سے بے زار، یکے بعددیگرے اولاد، عزیزو اقارب کی اموات سے صدمہ جاں سوز،زندگی کی خواہشوں اور حسرتوں کا مزار، اور سب سے بڑا غم کہ ایک پر شکوہ نظام اور تہذیب کے خاتمے کاشاہد اپنے عمر توبھلا اپنے غم کو غلط کرے تو کیسے؟اسی لیے اپنی شراب نوشی کا جو از بھی فراہم کرتاہوں:

مئے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو

یک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے

اور پھر مشاہدہ ئ حق کی گفتگو میں بادہ و ساغر کے استعارے کی لازمیت کی دلیل سے اپنے لیے عافیت کا سامان فراہم کرنے کی کوشش بھی:

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

اور اتنا ہی نہیں بادہ خواری کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے اپنی پارسائی اور بزرگی کا دعویٰ بھی پیش کرنے میں دریغ نہیں:

یہ مسائل تصوف، یہ تیرا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

یا پھر یہ شعر:

دیکھئو غالب سے گر الجھا کوئی

ہے ولی پوشیدہ اور کافر کُھل

یا یہ شعر:

دل ہر قطرہ ہے سازِ انا البحر

ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا

دوسری جانب احساسِ ندامت و خود احتسابی ایسی کہ کعبہ جانے کے خیال سے بھی گریزاں:

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

اور بقول خود:

”جب مروں تو میرے دوست میرا منہ کالا کریں اور رسی سے باندھ کر شہر کی تمام گلی کوچوں اور بازاروں میں تشہیر کریں۔“

خاندانی اعلیٰ نسبی پر نازاں ایسے کہ دماغ ساتوین آسمان پر رہا۔ عمر بھر امیرانہ آرزوؤں اور تمناؤں کے اسیر رہے اور ناکام حسرتوں کی فصلیں اُگاتے رہے۔ اور اس پر لُطف یہ کہ خدا سے ناکام حسرتوں کی داد کے لیے فریاد رس بھی رہے:

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

دنیا میں اپنے ورود کی تاویل یوں بیان کرتے ہیں:

”عالم دو ہیں۔ ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب وگل، قاعدۂ عام ہے کہ آب و گل کے مجرم عالم ارواح میں سزا پاتے ہیں۔ لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہگار کو دنیا میں بھیح کر سزادیتے ہیں۔ چنانچہ آٹھویں رجب۲۱۔۲۱ھ میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔“

اپنی ہستی کی حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، نہ ہوتا کچھ تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

مٹتی ہوئی پرشکوہ تہذیب کے مثبت اقدار کے دلدارہ اور مداح ایسے کہ اُس کی تباہی پر خون کے آنسو بہا تے نظر آتے ہیں۔ لیکن اپنے معاصرین کے برعکس نئی تہذیب کی برکتوں سے آگاہ اور اس کے معترف بھی۔ تہذیبی کشمکش کے اس عبوری دور میں غالب مستقبل کی تاویل بیان کرتے ہوئے اپنے موقف کا اظہار یوں کرتے ہیں:

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کُفر

کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے

دنیا داری ایسی کہ زندگی کو اس کی تمام نعمتوں کے ساتھ جینے اور اس کا بھر پور لُطف اُٹھانے کے شدید متمنی دنیا وی خواہشوں اور حسرتوں کے دام میں ہر پل اسیر:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

لیکن دوسرے ہی لمحے ہستی کے فریب سے آگہی کا یہ عالم کہ دنیا”حلقہئ دام خیال“ نظر آتی ہے ا اور”دامِ خیال“ کے فریب سے  انتباہ کرتے نظر آتے ہیں:

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

عالم تمام حلقہء دام خیال ہے

محبوب کی بے اعتنائی سے نالاں ایسے کہ عشق و وفا کو لایعنی قرار دیتے ہوئے ہرجائی ہو جانے کی یہ دھمکی:

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

مگر دوسری جانب وفاداری کو اصلِ ایمان قرار دیتے ہوئے یہ کہنا:

وفاداری بشر ط استواریاصل ایماں ہے

مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

رشک ایسا کہ محبوب کے تنِ نازک کا حلقہئ زنار میں آنابھی گوارا نہیں:

مرجاؤں کیوں نہ رشک سے جب وہ تنِ نازک

آغوشِ خم حلقہئ زُنار میں آوے

محبوب کے گھر کا نام و پتہ بتانے میں بھی عار:

چھوڑ ا نہ رشک نے کہ تیرے گھر کا نام لوں

ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں

حتی ٰ کہ محبوب کے نقاب میں اُبھرا ہوا تار بھی اندیشے میں مبتلا کر دیتا ہے:

اُبھرا ہوا نقاب میں ان کے ہے ایک تار

مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو

معشوق کی بے رُخی سے بد دل ایسے کہ سبک سر ہونے سے یکسر انکار اور اپنی وضع میں سے کسی قسم کی مفاہمت کو تیار نہیں وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیون چھوڑیں سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو۔ مگر معشوق کی توجہ کی جانے میں ایسی انکساری و عاجزی کہ اس کا ہرجائی پن بھی گورا کرنے میں عام نہیں:

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھکو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

خاندانی جاہ و حشمت پرا یسے نازاں کہ کسی کو خاطر میں لانا گوارانہیں:

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالب کی اُبرو کیا ہے

مگر تنگ دستی کے آزار سے ایسے سکشت خوردہ کہ خود کو ننگا اور نوکر تک کے کہنے سے گریز نہیں:

آپ کا نوکر اور کھاؤں اُدھار

آپ کا بندہ اور پھروں ننگا

میدانِ عشق کے ایسے سورما کے مجنوں اور فرہاد بھی اُن کے آگے پانی بھریں:

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد

سرگشتہئ خمار رسوم و قیود تھا

عشق و مزدوری عشرت گہہ خسرو کیا خوب

ہم کو تسلیم نِکو نامیئ فرہاد نہیں

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد

سنگ اُٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

دعویئ معرفت ایسا کہ طُور ہو یا موسیٰ ہوں یا خضر یا منصور حلاج، غالب اُن کوآئینہ دکھانے پر مصر:

گرنی تھی ہم پہ برق تجلی، نہ طورپر

دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس ِ خلق اے خضر!

نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے

قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن

ہم کو تقلید تنک ظرفی منصور نہیں

اپنے فارسی کلام کی برتری پر اظہار افتخار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

فارسی بیں تابہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ

بگر زد از مجموعہ اردو کہ بے رنگ من است

لیکن پھر اس شعر کا کیا کریں جب وہ کہتے ہیں:

جو یہ کہے کہ ریختہ کیو ں کر ہو رشکِ فارس

گفتہ ئ غالب ایک بار پڑھ کے اُسے کہ یوں

خدا سے شاکی ایسے کہ یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں:

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں کے کہ خدا رکھتے تھے

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی

بندگی میں میرا بھلا نہ ہوا

لیکن ایمان و وحدانیت کی تاویل و توضیح کرتے ہوئے یہ بھی کہنا:

ہم موحد ہیں ہمارا کیس ہے ترک رسوم

ملتیں جب مٹ گئیں اجزا ئے ایماں ہوگئیں

خدا کی بے لوث بندگی و طاعت کے ایسے قائل کہ یہ مشور ہ دیتے نظرآتے ہیں:

طاعت میں تار ہے نہ مئے و انگبیں کی لاگ

دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہت کو

یا پھر یہ شعر:

کیوں نہ دوزخ کو بھی خبت میں ملادیں یارب

سیر کے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی

تشکیک کے ایسے شکار کہ یہ کہنے میں بھی گریز نہیں:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش کرنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

یا یہ کہنا:

ایسی جنت کا کیا کرے کوئی

جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں

ایسی سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں جن میں غالب کی فکر اور شخصیت کے متنوع اور متضاد رُوپ موجود ہیں، جو غالب کی شخصیت اور شاعری دونوں کو Prismatic Imageعطا کرتے ہیں۔ غالب کی اس Prismatic Imageمیں غالب کی عظمت پوشیدہ ہے اور یہی Imageاُنھیں آج بھی ایک نئے اور بدلتے دور کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے غالب اور غالب کی شاعری کو معنویت عطا کرتی ہے۔ انیسویں صدی جو کہ صرف ماہ و سال کی گنتیوں سے عبارت صدی نہیں تھی بلکہ تخریب و تعمیر کے باہم شدید تضاد سے عبارت صدی تھی۔ اس صدی کے بطن سے غالب کی شخصیت اور شاعری کی وہ شعائیں پھوٹیں جن شعاؤں نے غالب کی شخصیت اور فکر کو Prismatic صفت سے ہمکنار کیا۔

اگر ہم تاریخ کی کتابوں سے صرف نظر بھی کر لیں تب بھی صرف دیوانِ غالب اور خطوط غالب کے مطالعے سے ہم اس صدی کی روح میں اتر سکتے ہیں۔ وہ صدی جس کا ہیولا کرب، شکست خوردگی اور حسرت تعمیر سے تیار ہوا تھا۔ غالب نے اُس کرب، شکست خوردگی اور حسرت تعمیر کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اُتار لیا تھا۔ مگر اس طرح کہ ماضی کا تقدس بھی بر قرار رہے اور اُس ماضی کی راکھ میں دبی چنگاری سے مستقبل کی تعمیر کی گنجائشیں بھی باقی رہیں:

گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغرو مینا میرے آگے

کی حسرت رکھنے والے غالب کی تشنہ نگاہیں 1889ء میں بھلے مُند گئی ہوں اور جام و مینا بھی لُڑھک گئے ہوں، مگر لبِ ساقی پہ آج بھی اس صلے کی تکرار اور اس کی گونج موجود ہے:

کون ہوتا ہے حریفِ مئے مردا فکن ِ عشق

ہے مکرر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد

 

٭                           ٭                           ٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *