محمد جرجیس کریمی
ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ
انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں نوع انسانی پر ہوئے ظلم و ستم کو اگر ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو ’’غلامی‘‘ کا لفظ لکھ دینا کافی ہوگا۔ انسانوں نے انسانوں کو غلام بنا کر ان پر مظالم کی ایسی ایسی داستان رقم کی ہیں کہ جس سے روحِ انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ سطور ذیل میں غلامی کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالی جاتی ہے تاکہ واضح ہوکہ موجودہ دور میں اس کی کون کون سی شکلیں موجود ہیں۔
غلامی کیا ہے؟
غلامی کیا ہے اور کسے کہا جاتا ہے، اس ضمن میں متعدد تعریفات کی گئی ہیں۔
(۱) کسی شخص کو دوسرے کی ملکیت میں مال وجائیدادکی طرح دے دینا غلامی کہلاتا ہے۔
(۲) ایک شخص کی دوسرے پر قبضے کی ایسی حالت کہ جس میں قابض کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوجائیں جو اسے اپنے مال و جائیداد پر حاصل ہوتے ہیں۔
مجموعی طورپر غلامی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں کسی آدمی کی زندگی کی لگام دوسرے کے ہاتھ میں ہو اور اس دوسرے شخص کے اشاروں سے غلام کے افعال و اعمال انجام پاتے ہوں۔
بنیادی طورپر غلامی کی دو قسمیں ہیں(۱) جسمانی غلامی (۲) اور ذہنی غلامی ۔ جب ایک آدمی مختلف ذرائع سے کسی دوسرے فرد پر جسمانی اور دیگر اعتبار سے مکمل قبضہ حاصل کرلے تو اس کو جسمانی غلامی کہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر جنگ میں قیدی بناکر یا اغوا کرکے یا دوسرے سے خرید کر اپنے اختیار میں لینے کی صورتیں دنیا میں رائج رہی ہیں۔
غلامی کی دوسری شکل ذہنی غلامی ہے، جب کوئی فرد یا قوم دوسرے افراد اور قوم کو نفسیاتی اور ذہنی طورپر اپنے کنٹرول میں لے لے اوراپنا تابع بنالے تو اس کو ذہنی غلامی کہتے ہیں۔
غلامی کی بنیادی وجوہات : انسانی تاریخ میں غلامی کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طورپر غلامی کی تین وجوہات ہوتی ہیں۔
۱۔ غربت: غربت غلامی کی اہم وجہ ہے ۔ انسانی زندگی کی بقا کے لیے کچھ ضروریات بنیادی اور لازمی ہوتی ہیں۔ جن کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی۔ انسانی تاریخ کا یہ بڑا المیہ رہا ہے کہ ہمیشہ سے ایک بڑا طبقہ گذرانِ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رہا ہے ۔ یہ طبقہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ معاشروں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ امراء غریبوں کی فراہمی ضروریات کے لیے یاتو ان کو اپنے یہاں گروی رکھ لیتے ہیں یاان کو سود پر قرض دیتے ہیں اور عدم ادائیگی کی صورت میں انہیں غلام بنالیتے ہیں ۔آج یہ کام عالمی مالیاتی ادارے انجام دے رے ہیں۔ دنیا کے تمام غریب ممالک بڑی طاقتوں کے زیر اثر عالمی اداروں کے مقروض ہیں جن کی وجہ سے وہ ممالک اپنی مرضی کے فیصلے ان پر تھوپتے ہیں اور ان کو سیاسی اور معاشی غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں۔
۲۔ جنگ : غلامی کی ایک بڑی وجہ جنگ بھی ہے ۔ انسانی تاریخ میں طاقتور اقوام کا کمزور اور بے بس اقوام وطبقہ کے خلاف جنگی کاروائی اور ظلم وتشدد کا سلسلہ بہت قدیم ہے، جنگوں اور تشدد کے نتیجے میں بہت سارے گھر اجڑ جاتے ہیں ، عورتیں بیوہ ، بچے یتیم، مائیں اولاد سے محروم ہوجاتی ہیں، خاندان کے خاندان تباہ ہوجاتے ہیں، ایسی صورت میں ان کی گذربسر اور رہن سہن کامسئلہ درپیش ہوتا ہے اور دیگر سیاسی اور سماجی مسائل ہوتے ہیں، بعض فاتح تو جذبہ رحم اور بعض اس ڈرسے کہ مغلوب قوم آزاد کردی جائے تو کہیں دوبارہ قوت اکھٹا کرحملہ نہ کردے ، اپنا غلام بنالیتے ہیں۔ غلام بنانے کی صورت تو کبھی پوری قوم کی شکل میں ہوتی اور کبھی فرداً فرداً غلام بنائے جاتے ہیں۔
جہالت: غلامی کا تیسرا سبب جہالت ہے ۔ یہ نفسیاتی غلامی کی اہم وجہ ہے ۔ ہمیشہ سے یہ رواج رہا ہے کہ تعلیم یافتہ اور طالع آزما افراد واقوام ناخواندہ اور جاہل افراد اور اقوام کو پروپیگنڈے اوربرین واشنگ کے ذریعہ استحصال کرتے ہیں، پہلے تو ذہنی ونفسیاتی طور پر اپنا غلام بناتے ہیں جو آگے چل کر جسمانی غلامی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
جنگ میں قیدی بناکر یا اغواکرکے غلام بنانے کے علاوہ غلام بنانے کا ایک چوتھا طریقہ بھی ہے۔ اس کے لیے کسی حملے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ خون خرابے کی ۔ اس میں افراد واقوام کے ذہنوں پر قبضہ کرنا ہوتا ہے ۔ یہ طریقہ سست رفتار ہوتا ہے لیکن اس کے نتائج دیرپا ہوتے ہیں ۔ کسی قوم کو غلام بنانے کے لیے کچھ بنیادی حیلے کیے جاتے ہیں ان کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ جیسے حقیقت کے علم سے دور رکھنا ، ان کی نسلوں کو بگاڑنا، سیاسی نظریات سے بھٹکانا ، حب الوطنی ختم کرنا ، ان کے درمیان پھوٹ ڈال کر آپسی خانہ جنگی میں مبتلا کرنا اوران کی معیشت پر حاوی ہونا۔
غلامی کا آغاز: غلامی کا آغاز کب ہوا؟ اس سلسلے میں کوئی حتمی اور قطعی بات نہیں کہی جاسکتی۔ معلوم تاریخ سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم زمانے سے غلامی کا سلسلہ رہاہے ۔ قدیم زمانے میں طاقتور طبقہ کمزور طبقے سے زبردستی کام کرواتا تھا، اور اپنے ظلم وتشدد کا شکار بناتا تھا۔ قدیم زمانے میں طبقاتی نظام اور انسانی عدم مساوات کا نظریہ پایا جاتا تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غلامی کی بھی کوئی شکل رہی ہوگی۔ قرآن کریم میں سیدنا یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کی غلامی کا تذکرہ موجود ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سے قبل بھی غلامی کا رواج موجود تھا۔
تاریخ غلامی کی اسی قدامت اور مضبوطی کی وجہ سے کسی بھی آسمانی مذہب نے یکبارگی اسے ختم کرنے کی تعلیم نہیں دی، بلکہ اسے تسلیم کرتے ہوئے اس کی اصلاح کی اور غلاموں کے حقوق متعین کیے۔ درج ذیل سطور میں چند ملکوں میں غلامی کی تاریخ پراختصار سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
غلامی قدیم یونان میں:
قدیم یونان میں گرچہ جمہوری نظام قائم تھا لیکن یہاں غلامی سماج و معاشرہ میں ایک ادارہ کی صورت میں موجود تھی بلکہ اس کی جڑ یں بہت پائدار تھیں، مؤرخین کی تشریحات کے مطابق یونانی معاشرہ تین طبقوں پر مشتمل تھا۔ (۱) یونان کے وہ شہری جو آزاد پیدا ہوئے تھے ، ان کو تمام تر حقوق حاصل تھے۔ (۲) وہ لوگ جو دوسرے ملک سے آکر بسے تھے ۔ جنہیں سیاست میں حصہ داری کا حق حاصل نہیں تھا۔ (۳) غلاموں کا طبقہ۔
اس عہد میں غلام پانچ طریقے سے بنائے جاتے تھے۔
(۱) جو پشتہا پشت سے غلام چلے آرہے تھے۔
(۲) وہ بچے جنہیں ان کے والدین غربت و افلاس اور مجبوری کی وجہ سے فروخت کردیا کرتے تھے ۔
(۳) وہ عورتیں اور بچے جو جنگوں وغیرہ میں قید کرلیے جاتے تھے۔
(۴) اغوا کردہ افراد
(۵) غلامی کی تجارت میں خریدے جانے والے آزاد۔
اس دور میں ایک صورت یہ بھی تھی کہ کاشت کار افراد جاگیرداروں سے قرض لیا کرتے تھے ، جب قرض ادا نہیں کرپاتے تو انہیں غلام بنالیا جاتاتھا۔ قدیم یونان میں کثیر تعداد میں غلام موجود تھے ، آقائوں کے پاس غلاموں کا ہجوم ہوتا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ ایک وقت میں شہر ایتھنز میں اکیس ہزار شہریوں کے مقابلے میں چار لاکھ ساٹھ ہزارغلام موجود تھے۔ آقائوں کی خوشنودی و رضامندی کے لیے غلاموں کو بڑے سخت ادوار سے گذرنا پڑتاتھا۔ آقاؤں کی طرف سے غلاموں پر نہایت ہی سخت برتاؤ کیا جاتا تھا۔ کسی شہر میں زیادہ سخت برتاؤ کیا جاتا تھا تو کسی شہر میں تھوڑی نرمی ہوتی تھی ۔ یونانی معاشرہ میں غلاموں کو کچھ حقوق بھی حاصل تھے۔ آزادی کی کچھ صورتیں بھی موجود تھیں۔ جیسے آقا اپنی زندگی میں اسے آزاد کردے، یا آقااور غلام کے درمیان معاہدہ ہو اور غلام طے شدہ خدمت یا رقم ادا کردے تو وہ آزاد ہو جاتا تھا۔
اس طرح ڈریکوکے آئین اور سولون کے قوانین سے غلاموں کے حالات میں کچھ بہتری آئی، انہیں ریاست کی ملکیت قرار دیا گیا۔ کچھ بنیادی حقوق فراہم کیے گئے۔ انہیں شادی کی اجازت دی گئی، لیکن کوئی خاندانی حیثیت نہ دی گئی، غلام کو اس کے آل و اولاد سے منسلک رکھنے اور الگ کرنے کا اختیار آقاکے ہاتھ میں ہوتا تھا۔
غلاموں کے تعلق سے یونانی دانشوروں اور فلاسفروں کی بات کی جائے تو ان کی نظر میں غلامی فطرت کا قانون ہے۔ ارسطو کے نظریہ کے مطابق غلامی قانونِ فطرت ہے۔ غلام محکومی کے لیے پیدا ہی ہوتے ہیں ۔ سماج ومعاشرہ میں بعض کا حاکم اور بعض کا محکوم ہونا ضروری ہی نہیں بلکہ فائدہ مند ہے۔ غلامی سے متعلق افلاطون کے خیالات ارسطو سے کچھ مختلف ہونے کے باوجود اس حد تک متفق ہیں کہ غلامی فطری اور انسانوں کے لیے ضروری ہے۔ بیشتر یونانی فلاسفروں کے نزدیک غلام، بچوں اور عورتوں کی طرح ناقص العقل اور قوت ارادی سے محروم ہوتے ہیں۔
روم میں غلامی کی تاریخ:
روم ماضی کی ایک عظیم سلطنت رہی ہے۔ یہ حکومت 200قبل مسیح سے شروع ہوکر تقریباً 1500عیسوی تک رہی ۔ غلامی کے تئیں اس حکومت کا رویہ باقی ہم عصر مملکتوں سے مختلف رہا بلکہ یہ کہاجائے کہ غلاموں کے ساتھ شدت وسختی کی مثال دوسری ہم عصر سلطنتوں میں نہیںملتی۔
پروفیسر کیتھ بریڈلے اپنے آرٹیکل ’’قدیم روم میں غلاموں کی مزاحمت”Resisting Slavery in Ancient Rome”میں اس دور کی غلامی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’روم اور اٹلی میں 200قبل مسیح سے لے کر 200عیسوی تک کی چار صدیوں میں آبادی کا چوتھائی حصہ غلاموں پر مشتمل تھا۔ اس دوران کروڑوں مرد وخواتین اور بچے کسی بھی قسم کے حقوق کے بغیر رہتے رہے ہیں گویا کہ قانونی اور معاشرتی طور پر وہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے ، وہ انسان تک نہیں سمجھے جاتے تھے۔‘‘
(Resisting slavery of Rome by Keith Bradley P. by Cambridge University Press 2011)
بریڈلے کی بیان کردہ معلومات کے مطابق کسی غلام کا نام ہی نہ ہوا کرتاتھا۔ انہیں کوئی چیز اپنی ملکیت میں رکھنے ، شادی کرنے یا قانونی خاندان رکھنے کی کوئی اجازت نہ ہوا کرتی تھی۔ غلاموں کا وجود یاتو محض کام کرنے والے کارکنوں کی حیثیت سے تھا یا پھر یہ اپنے آقائوں کی دولت کے اظہار کے لیے اسٹیٹس کے طور پر رکھے جاتے تھے ، اگرچہ کچھ غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک اختیار کیا جاتا تھا لیکن ان کے قانونی اختیارات بہت کم تھے، غلاموں کو جسمانی سزائیں دینا اور ان کا استحصال کرنا عام تھا۔
الغرض رومی قوانین کے مطابق آقا کو اپنے غلاموں پر ہر طرح کے اختیارات حاصل تھے یہاں تک کہ اس کی موت و حیات کا مالک تصور کیا جاتا تھا۔ غلاموں کی جائداد ہوتی تھی نہ ملکیت۔ اس کی گواہی تسلیم کی جاتی تھی ، نہ کسی حکومتی عہدہ پر فائز ہونے کی اجازت ہوتی۔ غلاموں کی خاندانی زندگی آقاؤں کی مرضی پر منحصر ہوتی، آقاؤں کے جرائم و کرتوت کی سزا غلاموں کو برداشت کرنا پڑتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ رومی غلام اپنے آقاؤں کے لیے سامان عیش وعشرت اور ہوس کو پورا کرنے کے لیے ایک ذریعہ تھے۔ جو انی بھر بڑی محنت ومشقت اور جانفشانی کے ساتھ کھیتوں وغیرہ میں کام کیا کرتے تھے اور رات میں بھیڑ بکریوں کی طرح بدبودار، غلیظ اور تنگ باڑوں میں ڈال دیے جاتے تھے، بدقسمتی یہ تھی کہ ایسی حالت میں بھی پیروں پر زنجیریں اور بیڑیاں جکڑدی جاتی تھیں تاکہ کوئی نگاہ چراکر بھاگ نہ نکلے ، معمولی معمولی غلطیوں بلکہ تسکین قلب کے لیے رومی رؤسا غلاموں کو اذیت ناک اور روح فرساسزائیں دیا کرتے تھے ، انتہاتو اس وقت ہوجاتی جب رومی رئوساء وعوام تفریح اور دل لگی کے لیے غلاموں کے درمیان جان لیوا کھیل کھیلنے پر مجبور کرتے۔ غلاموں کو تلوار اور نیزہ دے کر اکھاڑے میں ڈھکیل دیا جاتا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کا تماشہ اور خوفناک منظر کو دیکھ کر اپنے دلوں کو تسکین پہنچاتے تھے۔ مرنے والے کے حصہ میں موت آتی اور جینے والوں کو تحائف و انعامات سے نوازا جاتا۔ مگر اگلے مقابلے تک ، اگلے مقابلے میں کون جیتے گا یہ کہنا مشکل تھا۔
حقیقت تویہ ہے کہ ان کی جنگوں کا مقصد ہی حصول غلام ہوا کرتاتھا۔ رومی غلاموں کو اتنی وحشت ناک اور خوفناک سزائیں دیتے کہ اس سے جنگ کرنے والی قوم کو جب شکست کا یقین ہوجاتا تو وہ خودکشی کرلیتی تھی تاکہ رومی سلطنت کا غلام بننے سے چھٹکارا حاصل کرسکے۔ رومی سلطنت کی غلام کے ساتھ اس سختی و شدت کی وجہ سے غلاموں نے متعدد دفعہ بغاوتیں کیں۔
غلامی ایران و عراق میں:
ماضی میں ایران وعراق بڑی بڑی سلطنتیں رہی ہیں۔ ان حکومتوں میں غلامی کا رواج موجود تھا، یہاں بھی غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھاجاتاتھا جو دیگر ہم عصر سلطنتوں میں رکھا جاتا تھا۔غلاموں کی حیثیت جانور سے بدتر تھی، جنہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا تھا ۔ جنہیں خاندان بسانے کا حق تھا نہ مال و جائداد رکھنے و جمع کرنے کا۔ بابل کے عوام کو بادشاہ کا غلام تصور کیا جاتا تھا۔والدین کو اولاد کے آقا کی حیثیت حاصل تھی ، انہیں اولاد کو فروخت کرنے کا حق بھی حاصل تھا۔ لونڈی کی آزادی کی کچھ صورتیں بھی تھیں جیسے اگر آقاکے ازدواجی تعلقات کی وجہ سے لونڈی کا بچہ پیدا ہوجائے تو وہ ناقابل فروخت ہوتی ، کچھ حالات میں وہ آزاد ہوتی، آقا کی وفات کے بعد بذات خود لونڈی اور اس کے بچے آزاد ہوجاتے ۔
ایران میں سائرس اعظم نے کچھ اصلاحات کیں۔ انہوں نے غلامی کے خاتمے کے لیے بہت سے اقدامات کیے اور کثیر تعداد میں غلاموں کو آزادی دلائی۔ مگراس کے باوجود اسلام کی آمد تک کسی نہ کسی شکل میں ان سلطنتوں میں غلامی باقی رہی۔
قدیم مصر میں غلامی:
دنیا کی دیگر سلطنتوں اور مملکتوں کی طرح مصر بھی غلامی کا مرکز رہاہے۔ یہاں سماج ومعاشرہ کا ایک بڑا طبقہ غلاموں پر مشتمل تھا۔قانونی طورپر یہاں کی رعایا فرعون (مصری بادشاہوں کا لقب) کا غلام ہی نہیں ہوتی بلکہ فرعون رعایا کے لیے معبود تصور کیا جاتاتھا ، رعایا سے اطاعت و فرماں برداری اور عبادت کا مطالبہ کیا جاتاتھا۔ اہرام کی تعمیر میں ہزاروں غلاموں کی شرکت کی تفصیلات ملتی ہیں۔ جن سے طاقت سے زیادہ کام لیاجاتا جس کی وجہ سے کثیر تعداد میں غلام موت کے شکار ہوتے تھے۔
دیگر ہم عصر مملکتوں کی طرح یہاں بھی غلام بنیادی حقوق سے محروم تھے۔ یہاں بھی سختیاں اور شدتیں روارکھی جاتی تھیں، مختلف طریقے سے سزائیں دی جاتی تھیں۔ جانوروں جیسا بلکہ اس سے بدتر سلوک کیا جاتاتھا۔ مصر میں غلاموں کا ایک طبقہ حکومتی ملازمتوں سے منسلک تھا جس کی حالت نسبتاً بہتر ہوتی تھی۔ یہاں چوری اور دیگر جرائم کی وجہ سے غلام بنائے جانے کا ثبوت ملتا ہے اسی طرح یہاں کی غریب عوام میں غربت وافلاس اور مجبوری کی وجہ سے اپنے آپ کو فروخت کرنے اور غلام بن جانے کا رجحان پایا جاتا تھا۔ مصرکی تاریخ میں حضرت یوسف علیہ السلام ایک بڑا نام ہے ۔ آپ کئی ادوار سے گذرے۔ پہلے غلام بنائے گئے ، جیل میں ڈالے گئے حالات بدلے ، آپ کو آزادی ملی اور ایک دن سلطنت کے وزیر ہوئے۔ آپ نے غلامی کے خاتمے کی بڑی کوشش کی۔ کثیر تعداد میں غلاموں کو آزاد کیا۔ انہیں ملازمتیں اور روزگار فراہم کئے۔
غلامی چین میں:
دنیا کی تاریخ میں چین کثرت آبادی والا ملک رہاہے۔ قدیم چینی دور میں بھی غلامی پائی جاتی تھی۔ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق ہانگ خاندان کے دور میں تقریباًآبادی کا پانچ فیصد حصہ غلاموں پر مشتمل تھا چین میں غلامی کی یہ کڑی بیسویں صدی عیسوی تک پائی جاتی ہے۔ دیگر سلطنتوں کی طرح چین میں بھی غلام بنانے کے وہی طریقے پائے جاتے تھے، اور یہاں بھی وہی سلوک روا رکھا جاتا تھا جو دیگر ممالک میں رکھا جاتا تھا۔ کثرت آبادی کی وجہ سے چین میں غلامی اور نیم غلامی کی مختلف شکلیں اور صورتیں رہی ہیں۔ چین کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کبھی بھی مکمل غلامی کا معاشرہ نہیں بن سکا۔
غلامی ہندوستان میں:
قدیم ہندوستان میں غلامی کا حوالہ ملتا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ میں ذات پات کے نظام کی جڑیں بہت مضبوط رہی ہے، یہاں تک کہ نچلی ذات کے ہندئوں اور طبقوں کے نصیب میں غلامی لکھ دی گئی تھی۔ ہندو عقیدے کے مطابق ، غلامی انسانوں کے پچھلے جنم کے کرتوت کا نتیجہ ہے۔
ہندوستان میں غلامی کی تاریخ دوسرے ممالک سے کچھ مختلف رہی ہے۔ دیگر خطوں اور ملکوں کی نسبت ہندوستانی غلاموں کے حالات کچھ بہتر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہاں متعدد انسانیت نواز مذاہب نے جنم لیا۔ بدھ مت کے رہنماگوتم بدھ کی تعلیمات نے غلاموں کے حالات بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اپنے متبعین کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ اپنے غلاموں سے بقدر استطاعت ہی کام لیا کریں۔ طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالیں۔
چندرگپت موریہ (300Bc-100Bc)کے زمانے میں غلامی سے متعلق متعدد قوانین وضع کئے گیے، جن میں یہ بھی تھا کہ غلاموں کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا جائے ۔ انہیں یوں ہی سزا نہ دی جائے، آریائی غلاموں کے تعلق سے حقوق متعین کیے گئے کہ مقروض شخص اور اس کی آل واولاد کو حکومتی فیصلے کے بعد ہی غلام بنایا جاسکتا ہے ، غلاموں کو جائداد رکھنے ، محنت و مزدوری کی اجرت وصول کرنے، آزادی خریدنے جیسے دیگر اختیارات حاصل تھے۔ بعض حالات میں غلامی محدود مدت تک رکھی جاتی، جس مدت کے اختتام پر غلام خود آزاد ہوجاتا۔
ہندوستان میں غلاموں کے حالات دیکھ کر بعض سیاح تصور کربیٹھے کہ ہندوستان میں غلامی نہیں پائی جاتی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہاں دلت قوم آج بھی غلامی کی زندگی جی رہی ہے۔
غلامی عرب میں:
عرب ایک ایسا ملک رہا ہے جو کسی مرکزی حکومت کے تحت نہیں تھا، یہاں کا نظام قبائلی تھا، ملک کے گوشے گوشے میں متعدد قبائلی ریاستیں قائم تھیں۔ عرب میں غلامی کی تاریخ قدیم بھی ہے اور بھیانک بھی۔ عرب معاشرہ میں غلاموں کا طبقہ سب سے حقیر ترین طبقہ تھا۔ یہاں غلام کا مطلب جانور سے بھی بدتر ہوتاتھا ۔ غلام بنیادی حقوق سے بھی محروم تھے۔ غلاموں کی خریدوفروخت کی باقاعدہ منڈی بھی سجائی جاتی تھی۔ افریقہ ، روم، عراق اور شام وغیرہ ممالک سے یہاں غلاموں کی درآمد ہوتی تھی۔ آقائوں کو غلاموں پر مکمل اختیارات حاصل تھے۔ وہ ان کے موت و حیات کے مالک بن بیٹھے تھے ۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ ابوجہل نے اپنی لونڈی حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لونڈیاں جو گھر کے کام کاج کے لیے ہوا کرتی تھیں پر آقا کو مکمل جنسی حقوق حاصل تھے۔ ان کا جنسی استحصال معمول کی بات تھی۔ آقا نہ صرف لونڈیوں سے خود جنسی تسکین حاصل کرتاتھا بلکہ اس کی جسم فروشی کے ذریعہ آمدنی بھی حاصل کیا کرتا تھا۔ یہاں غلاموں کی کثرت آقا کے جاہ وجلال اور دولت کے اظہار کا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی جنگیں ،اغوا کرنا ، حملہ آور ہونا ، قرض کے بدلے غلام بنانا اور تجارت وغیرہ غلام میں اضافے کا طریق کار ہوا کرتا تھا۔
عرب کا نظام سیاست قبائلی ہونے کی وجہ سے غلامی کی مختلف صورتیں رہی ہیں۔ شہری غلاموں کی بہ نسبت صحرائی اور دیہاتی غلاموں کی حالت بہتر ہوتی تھی۔ دیہاتی غلام زیادہ تر کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے۔ بعض غلام اپنے مالک سے یومیہ معاوضہ کی بنیاد پر آزاد ہوجایا کرتے تھے۔ یہاں نیم غلام کا بھی ایک طبقہ موجود تھا جس کے پاس خود کی زمین نہیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ جاگیرداروں سے زمین لے کر کاشتکاری کیا کرتے تھے۔ اس طبقہ کو اپنے آقا کو چھوڑ کر جانے کا اختیار حاصل تھا۔
بنی اسرائیل:
بنی اسرائیل حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے پوتے حضرت یعقوب علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد ہیں۔ بنی اسرائیل کو ایک مرکزی حکومت کے تحت آباد کرنے کا سہرا حضرت یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کو جاتا ہے۔ جنہوں نے انہیں مصر میں دریائے نیل کے ڈیلٹا علاقے میں آباد کیا۔ ادوار گذرنے کے بعد مصر کے قدیم باشندوں نے اسرائیلی بادشاہ ہکوس کو اقتدار سے بے دخل کردیا اور بنی اسرائیل غلام بنالیے گئے۔
قرآن اور بائبل کی تاریخ بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل قدیم زمانے سے غلامی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آزادی دلانے اور ایک اللہ کی دعوت دینے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو بحیثیت نبی مبعوث کیا ۔ آپ نے انہیں اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی ، وہ ایمان لائے اور انہیں فرعون کی غلامی سے آزادی ملی۔ بنی اسرائل کو حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی حیات مبارکہ میں اردن کے علاقے میں اقتدار ملا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی دستور حیات کے لیے تورات کی شکل میں ایک مجموعہ عطاکیا، جس میں دیگر تعلیمات کے ساتھ غلامی سے متعلق بھی قوانین موجود تھے۔
بنی اسرائیل ایک خود غرض ، مطلب پرست اور ہٹ دھرم قوم رہی ہے۔ تعلیمات الٰہی اور انبیاء کی مخالفت کرنا، ان کی تحقیرو تذلیل کرنا، ان کی جان کے درپے ہونا اس قوم کا شیوہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قوم نے عروج و زوال کے متعدد ادوار دیکھے۔ ان کی اصلاح کے لیے متعدد انبیاء کرام مبعوث کیے گئے ۔ حضرت سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام تک بنی اسرائیل کی حکومت تعلیمات الٰہی کے مطابق رہی، اور سربلندی کی زندگی بسر کی۔ بعد کے ادوار میں چند انبیاء کے عہد کو چھوڑ کر حکمرانوں نے انحراف کا رویہ اختیار کیا، تورات میں تحریف کے نتیجہ میں غلامی اور ذلت و رسوائی کی زندگی ہاتھ آئی۔
غلامی اور یہودیت و عیسائیت:
گذشتہ صفحات میں غلامی کی روح فرسا اور دلخراش تاریخ پر مختصراً روشنی ڈالی گئی، ان حالات میں یہودیت و عیسائیت نے فوری طور پر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے غلامی کے تعلق سے کوئی انقلاب برپا ہوجائے۔ ہاں کچھ تعلیمات دیں جن کی وجہ سے غلاموں کی سختی وشدت میںوقتی طور پر کچھ کمی آئی۔
یہودیت میں نسبتاً یہودی غلاموں کے لیے تحفظات کے ثبوت ملتے ہیں۔ جیسے یہودی غلام کا درجہ دوسرے غلاموں سے بلند ہوتا، یہ چھ سال کی غلامی کے بعد خود بخود آزاد ہوجاتے۔یہودیوں کی کتابوں میں غلاموں کے لیے چند تحفطات ملتے ہیں جیسے:
۱۔ اپنے غلاموں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے کو اسے آزاد کرنا ہوتا۔
۲۔ اگر آقا غلام کو آزاد کرنے کا زبانی اظہار کردیتا تو غلام آزاد ہوجاتا۔ آقا کو اپنے الفاظ واپس لینے کا حق نہیں ہوتا۔
۳۔ آقا غلام کی شادی کسی آزاد عورت سے کرادے، مذہبی کتاب کی کوئی تین آیت پڑھ دے یا پھر اس کو ایسے عمل کا حکم دے جو آزاد لوگوں کے لیے مخصوص ہے تو غلام آزاد مانا جاتاتھا ۔
عیسائیت میں باقاعدہ واضح طورپر غلامی کی مذمت کا تذکرہ نہیں ملتا ہے بلکہ عیسائی علماء کا اقرار ہے کہ ان کے یہاں مذہبی اعتبار سے غلام بنانا مشروع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں کے یہاں غلامی اور اس کی تجارت کا رواج بڑی شدت سے پایا جاتا ہے۔
عیسائی تعلیمات میں غلاموں پر نرمی اور غلاموں کو آزادی کی بشارت ضروردی گئی ہے۔ جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام مزدوروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’اے محنت ومشقت کرنے والواور وزنی بوجھ اٹھانے والو! میرے پاس آئو،میں تمہیں آرام پہنچائوں گا (متی، باب:۱۱)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’خداوند روح مجھ پر ، اس نے مجھے مسح کیا ہے تاکہ غریبوں کو خوشخبری سنائوں ، اس نے مجھے بھیجا ہے، تاکہ میں قیدیوں کو رہائی کرائوںاور اندھوں کو بینائی کی خبر دوں، کچلے ہوئوں کو آزادی بخشوں، اور خداوند کے سال مقبول کا اعلان کروں‘‘۔ (لوقا، باب :۴)
اسی طرح متعدد مقامات پر آپ نے تمام انسانوں کو برابر قرار دیا ہے۔ عیسائیت میں غلاموں کو آقاؤں کے ساتھ وفادار رہنے اور آقاؤں کو غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ عیسائیت میں غلام سے متعلق علیحدہ تعلیم دینے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں ہوئی کہ آپ کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے تھے بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو زندہ کرنے کے لیے آئے تھے۔
یہ بات تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ تورات و انجیل ، یہودیت و عیسایت کے پیشہ ور، تن پسند اور خواہش نفس کے پیروکار رہنماؤں کی بدنیتی کی شکارہوئی، ان میں تحریفات کی گئیں ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ غلامی سے متعلق قوانین و ضوابط اور تعلیمات میں بھی تحریف و تبدیلی کی گئی ہو۔
یوروپ میں غلامی کی تاریخ:
بزعم خود انسانیت نواز مہذب ومتمدن کہلانے والے یوروپ میں غلامی کی تاریخ بھیانک اور خوفناک ہے ۔ یوروپ میں پانچ چھ صدیوں پر محیط غلامی کی تاریخ ایک ایک لمحہ انسانیت کے شرف و عزت اور وقار کو پیروں تلے روندنے سے عبارت ہے ۔ ایک ایک صفحہ مظلوم و بے بس لوگوں کے لہو اور اشکوں سے لکھا گیا ہے۔ انسانیت کی جتنی تذلیل انہوں نے کی دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ یوروپ نے غلاموں کو پنجڑوں میں بند رکھا ، جانوروں کی طرح گلے میں رسیاں ڈالیں۔ جسمانی وجنسی استحصال کیا، معمولی معمولی غلطیوں پر ان کا خون کیا۔
مغرب میں باقاعدہ غلامی کا آغاز اس وقت ہوا جب 1441ء میں پرتگیزی شہزادہ ہنری نے مغربی افریقہ کے ساحل سے مردوں ، عورتوں اور بچوں پر مشتمل بارہ افریقی باشندوں کو غلام بناکر اپنے ساتھ پرتگال لایا۔ اس کے بعد متعدد بار افریقی باشندوں کو غلام بناکر پرتگال لایا گیا۔
اسپین میں غلاموں کی تجارت کا آغاز 1442ء میں ہوا ۔ یہاں پرتگال سے غلاموں کی درآمدی ہوتی تھی، ان غلاموں سے عموماً کان کنی کاکام لیا جاتاتھا ۔ سولہویں صدی کے دوسرے عشرے میں اسپین حکمراں نے چار ہزار حبشی غلام سالانہ ہیٹی، کیوبا، جمیکااور پورٹوریکور بھیجنے کا معاہدہ کیا ، یہاں سے باقاعدہ افریقہ اور امریکہ کے درمیان غلاموں کی تجارت کا سلسلہ جاری ہوا۔
1502ء میں پہلی بار کچھ افریقی غلاموں کو ہیٹی لے جایا گیا۔ افریقہ میں سولہویں صدی عیسویں میںبڑے پیمانے پر غلاموں کی فروخت کا آغاز ہوا۔ پرتگالیوں نے انگولا وغیرہ میں حملہ بول کر عوام کو غلام بنانا شروع کیا۔ اس کے بعد اس عمل میں برطانیہ، فرانس ، جرمن اور دیگر ممالک بھی شریک ہوگئے ۔ 1593ء سے 1700ء تک 30لاکھ افریقی باشندوں کو غلام بناکر لاطینی امریکہ بھیجاگیا۔
برطانیہ میں غلامی کی تجارت کا آغاز 1691ء میں ہوا، اس تجارت میں سب سے پہلے ملوث ہونے والے انگریز کا نام سرجان ہاکنس (Sir John Hokins)تھا۔ 1619ء میں افریقی غلاموں کی پہلی کھیپ ایک ڈچ جہاز کے ذریعہ جیمز ٹائون لائی گئی ، اس کے بعد سے تجارت کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1790ء تک ورجینیا کی ریاست میں 2لاکھ نیگرو غلام درآمد کیے گئے۔ 1700ء سے لے کر 1786ء کے عرصہ میں چھ لاکھ دس ہزار غلام صرف اور صرف جمیکا کے لیے درآمد کیے گئے۔ ایک اندازہ کے مطابق برطانوی نوآبادیات اور جزائر غرب الہند (West Indies)) میں1680ء سے لے کر 1786ء کے درمیان اکیس لاکھ تیس ہزار افریقی غلام درآمد کیے گئے ، جن کی سالانہ اوسط آمدنی بیس ہزار پچانوے ہوتی ہے۔ اس تجارت کے لیے ایک سو بانوے جہاز استعمال کیے جاتے تھے۔
غلامی کی تجارت کا یہ جال اکثر مغربی ممالک میں پھیلا ہواتھا ، جس کا سلسلہ انیسویں بلکہ بیسویں صدی تک جاری رہا۔
یوروپ میں غلام بنانے کا طریقہ اوران کا غلاموں کے ساتھ کیے جانے والا سلوک اس سے بھی کہیں بھیانک اور دل دہلادینے والا تھا۔ افریقی باشندوں کو غلام بنانے کے لیے رات میں بستیوں پر حملہ کیا جاتا یا آگ لگا دی جاتی اور آگ کی زد میں آنے والے وہیں موت کی نیند سلا دیے جاتے، بچ کر نکل جانے والوں کو پکڑکر اہل یوروپ غلام بنالیتے اور جیتے جی مرنے پر مجبور کردیتے۔ مزاحمت کرنے والوں پر گولیاں چلادی جاتی تھیں۔
افریقی غلاموں سے متعلق ایک انگریز گورنر نے اپنی کتابHistory of Nigeriaمیں لکھا ہے :
’’ہر ایک سفر میں بیسیوں غلام مرجاتے تھے اوربہت سے موت سے بھی بدتر اذیتوں سے بچنے کے لیے موقع ملتے ہی سمندر میں کود جایا کرتے تھے، کھانے پر مجبور کرنے کے لیے عورتوں اور مردوں کو کوڑے لگائے جاتے تھے جب کہ شدید اذیت کی وجہ سے کھانا نہ کھاسکنے والے غلاموں کو کھانے پر مجبور کرنے کے لیے گرم سلاخ استعمال کی جاتی تھی۔ جہاز کے ملاحوں کو عورتوں کی حدتک غیر معمولی اختیارات حاصل تھے۔ غلام مردوں کو ہتھکڑیوں اور پیروں میں زنجیروں کے ساتھ باندھ دیا جاتاتھا۔ غلاموں کو ایک دوسرے کے اوپر اس طرح ٹھونسا جاتاتھاکہ وہ صرف ایک پہلو پر ہی لیٹ سکتے تھے۔ 1785ء میں ایک جہاز غلاموں کو لے کر چلا جو اس قدر بھرا ہواتھا کہ جب ویسٹ انڈیز پہنچا تو آدھے سے زیادہ غلام مرچکے تھے‘‘۔
غلاموں کو جہازوں سے اتارنے کے بعد بالکل برہنہ کردیا جاتاتھا اور بطور علامت شناخت کے لیے گرم سلاخ کے ذریعہ سینوں میں داغا جاتا ، داغنے کا یہ عمل صرف مرد غلام کے ساتھ ہی نہیں بلکہ عورتوں کے ساتھ بھی کیا جاتاتھا۔
افسوس کا پہلو یہ ہے کہ انسانی تجارت کے اس گھناؤنے عمل میں مذہب کے ٹھیکیدار بھی برابر کے شریک رہے۔ مذہب کا سہارا لے کر افریقی باشندوں کو عیسائیت میں داخل کیا اور مذہبی تعلیمات کو بنیاد بناکر انہیں غلام بناتے رہے۔ جیساکہ بعض افریقی سردار کا بیان ہے کہ ’’جب وہ ہمارے پاس آئے اس وقت ان کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس زمینیں۔اب ان کے پاس زمینیں ہیں اور ہمارے پاس بائبل ‘‘۔ مذہب کے ٹھیکیدار پادری اور بشپ حضرات ایک طرف اہل یوروپ کو تعلیم دیتے تھے کہ افریقیوںکو غلام بنانا تمہارا حق ہے تو دوسری طرف افریقی باشندوں کو دلاسا دیتے تھے کہ غلام بننا تمہاری قسمت میں ہے، تمہاری کرتوت کا نتیجہ ہے۔ غلامی اللہ نے تمہارے لیے منتخب کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پادری حضرات سینکڑوں غلام کے مالک ہواکرتے تھے ۔
روشن خیال مغربی مفکرین و دانشوروں کابھی یہی حال ہے جو ایک طرف سیاہ فام اقوام کو سفید اقوام کے کاندھوں کا بوجھ ، تو دوسری طرف غلامی کو جمہوریت کی بنیاد قرار دیتے۔ وہ مساوات انسانیت کے نظریے کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔
غلامی کی موجودہ صوت حال:
کہنے کو تو قانونی طورپر دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہوگیا ہے اور غلامی کی تمام شکلوں کو ممنوع قرار دیا جاچکا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آج بھی پوری دنیا میں غلامی نئی شکل اور نئے شرائط کے ساتھ موجود ہے اور ہر ملک اپنے اپنے مفادات کے مطابق اس کا استعمال کررہا ہے۔ آج بھی طاقت ور ممالک کمزور ملکوں اور طاقت ور لوگ کمزور لوگوں پر اپنے حاکمانہ و ظالمانہ تسلط قائم کیے ہوئے ہیں۔ انفرادی، خاندانی، علاقائی، ملکی، نسلی ، مذہبی اور دیگر بنیادوں پر انسانوں کو غلامی کے نئے ایندھن میں جھونکا جارہا ہے۔ نفسیاتی طورپر پوری دنیا ایک خاص سوچ و فکر کے بندھن میں جکڑتی جارہی ہے۔ یہ تو غلامی کی عام شکل ہے۔ یہاں غلامی کی کچھ صورتوں پر بحث کی جارہی ہے۔
موجودہ دور میں غلامی کی بات کی جائے تو تقریباً چالیس ملین لوگ کسی نہ کسی طرح غلامی کے شکار ہیں ۔ موجودہ دور کی غلامی کو موڈرن ڈے سلیوری (Modern day Slavery)اور کبھی ہیومن ٹریفکینگ (Human Trafficking)کا نام دیا جاتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا اور افریقہ کے بعض ممالک ایسے ہیں جہاں غلامی کی شرح زیادہ ہے۔ چین، ہندوستان اور پاکستان بھی زبردستی مزدوری اور غلامی کے معاملے میں سرفہرست ہیں۔ بڑھتی غربت، مسلح تنازعات اور فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے روز بروز غلامی کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ موجودہ حالات میں غلامی کی کچھ مشہور شکلیں درج ذیل ہیں۔
(۱) گھریلو غلامی (Domestic Slavery)موجودہ دور میں غلامی کی سب سے عام شکل گھریلو غلامی اور مشقت ہے۔ دنیا میں کروڑوں مردوعورت اور بچے ایسے ہیں جو دوسروں کے گھروں میں دووقت کی روٹی کے لیے کام کرتے ہیں، جن کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو ماضی میں غلاموں کے ساتھ کیا جاتاتھا۔ ان کو ظلم تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ انہیں قانونی طورپر بنیادی حقوق حاصل ہیں لیکن عملی طور پر وہ بہت سے بنیادی حقوق سے محروم ہوتے ہیں۔
جنسی اسمگلنگ (Sex Trafficking)
موجودہ دور میں غلامی کی ایک شکل جنسی اسمگلنگ ہے۔ آج پوری دنیا میں یہ کاروبار بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے۔ خصوصاً مجبورافراد کو مستقبل کا جھانسہ دے کر بڑے بڑے خواب دکھاکر اغوا کرکے، بلیک میل کرکے، منشیات کا عادی بناکر اور دیگر تشدد کے طریقے اپناکر اپنے قبضے میں لیا جاتا ہے پھر اس کی جنسی اسمگلنگ کی جاتی ہے۔ دنیا میں کروڑوں عورتیں بچے اور مرد جنسی اسمگلنگ کے شکار ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 4.5ملین افراد سیکس ٹریفکنگ کے شکار ہیں۔ انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی معیشت اسی سے جڑی ہوئی ہے۔
جبری مشقت (Forced Labour)
موجودہ دور میں غلامی کی ایک شکل جبری مشقت ہے۔ عالمی پیمانے پر جبری مشقت کا رجحان پایا جاتا ہے۔ بے بس ولاچار مزدور جبری مشقت کی وجہ سے مرنے پر مجبور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں 20.9ملین مزدور جبری مشقت کے شکار ہیں۔
بندھوا مزدور (Bonded Labour)مروجہ غلامی کے اقسام جس سے ایک بانڈیڈ لیبر ہے ، قرض کے بدلے کسی فرد کو گروی رکھنا ، کسی معاشرتی پابندی اور رواج کی وجہ سے غلام بنانایا دیگر مفادات کی وجہ سے کسی شخص کو کسی کی ملکیت میں رہنا بانڈیڈلیبر کہلاتاہے۔ جدید غلامی کی اکثریت کا تعلق اس قسم سے ہے، جنوبی ایشیامیں دیگر خطوں کے مقابلے میں اس کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
بچوں سے مشقت لینا (Child Labour)
جدید دنیا میں بچوں سے مشقت کرانا، ان کے مستقبل سے بے پرواہ ہوکر ان سے خدمت لینا ایک سماجی و معاشرتی ناسور اور المیہ ہے۔ غربت وافلاس اور دیگر وجوہات کی بنا پر کروڑوں بچے جبری مشقت کے شکار ہیں۔ تحقیق کے مطابق دنیا کے غلاموں کے ایک چوتھائی سے زیادہ بچے ہیں یعنی غلامی کے شکار ہر چار افراد میں ہے ایک بچہ ہے۔
جبری شادی (Forced Marriage)بین الاقوامی ادارہ محنت کے مطابق جبری شادی بھی جدید دنیا میں غلامی کی ایک شکل ہے۔ دنیا میں لاکھوں بچیوں کی زندگیاں جبری شادی کے ذریعہ دوسرے کے مفادات کی نذر ہوجاتی ہیں۔ خواتین پر ریسرچ انٹرنیشنل سینٹر کے اندازے کے مطابق 51ملین بچیوں کی شادی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہوتی ہے۔ افریقی اور ایشیائی ممالک کے ساتھ یوروپ ، امریکہ اور آسٹریلیاوغیرہ میںیہ وباپھیلی ہوئی ہے۔ ان بچیوں سے جبری شادی کی آڑ میں، کھیتی باڑی، گھریلو مشقت ، بھیک منگوانا اور دیگر مشقت کے کام لیے جاتے ہیں۔دنیا میں … ظلم و ستم کے شکار لوگوں کا یہ عمومی جائزہ ہے۔ اگلے باب کے کچھ طبقات کے ضمن میں جائزہ لیا جاتا ہے کہ وہ کس طرح مظالم کے شکار ہیں اور ان کے ظلم کا مداوا کہاں ہے۔
حواشی و مراجع:
۱- اسلام میں غلامی کی حقیقت، مولانا سعید اللہ اکبر آبادی، مکتبہ جمال، لاہور، ۲۰۱۱ء
۲- اسلام میں غلامی کا تصور، مولانا رفیع عثمانی، مکتبہ بیت العلوم، لاہور
۳- W.W.W.Slavery in modern age
۴- سفید سامراج کے سیاہ جرائم، مشتاق علی شان (پورٹل حال احوال)
۵- https.www.vrm,wikipedea,org
۶- (Resisting slavery of Rome by Keith Bradley P. by Cambridge University Press 2011)
۷- اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کا انسداد، محمد مبشر نذیر
۸- انسائیکلوپیڈیا آف ورلڈ ہسٹری یا تاریخ عالم، ولیم ایل لینگر، اردو ترجمہ غلام رسول مہر، الوقار پبلی کیشنز، ۲۰۱۰ء (مجلد ۱-۲-۳)
۹- قدیم ہندوستان کی تاریخ، رما شنکر ترپاٹھی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، مترجم سید شیخ یحییٰ نقوی ۲۰۱۲
۱۰- دائرۃ معارف قرآن الحرمین، فرید وجدی
۱۱- انسائیکلوپیڈیا آف ریلجنس اینڈ اتھکس، ایڈیٹڈ بائی جمیس ہاسٹنگ، مضمون غلامی
۱۲- غلامی ایک تحقیقی جائزہ، نگار سجاد
۳۱- کتاب مقدس (یعنی پرانا اورنیاعہد نامہ) بائبل، سوسائٹی ہند، بنگلور 1985
۳۲- اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب، لاہور، بعنوان غلامی جلد ۱۴؍۲