فرشتہ اُس کا ہمسفر بن جاتا ہے

تحریر:۔حافظ اکبر علی اختر علی سلفی

الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، أما بعد:

محترم قارئین ! کئی احباب درج ذیل حدیث کی بابت سوال کرتے ہیں جو کہ ایک امیج کی صورت میں معاشرے میں گردش کر رہی ہے:

💓 آپ کا رفیق سفر کون ہوتا ہے؟💓

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو شخص سفر کی حالت میں اللہ تعالی کی یاد اور ذکر میں لگا رہتا ہے تو فرشتہ اُس کا ہمسفر ہو جاتا ہے اور اگر شعر و شاعری (گانے و موسیقی) میں مشغول رہتا ہے تو شیطان اس کا رفیق سفر بن جاتا ہے“۔
(المعجم الکبیر للطبرانی :324/17، ح:895)

اللہ کی توفیق سے اِس حدیث کی مفصل تحقیق پیش خدمت ہے:

💓 امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الشامی الطبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:360ھ) فرماتے ہیں:
”حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ شُعَيْبٍ الْأَزْدِيُّ، ثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ لَهِيْعَةَ، عَنْ يَزِيْدَ بْنِ أَبِي حَبِيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَرَاحِيْلَ قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” مَا مِنْ رَاكِبٍ يَخْلُوْ فِي مَسِيْرِهِ بِاللهِ وَذِكْرِهِ إِلَّا رَدَفَهُ مَلَکٌ، وَلَا يَخْلُوْ بِشِعْرٍ وَنَحْوِهِ إِلَّا رَدَفَهُ شَيْطَانٌ“.

[ترجمہ] عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو مسافر، اپنے سفر میں اللہ کی یاد اور اُس کے ذکر میں لگا رہتا ہے تو فرشتہ اُس کا ہم سفر ہو جاتا ہے اور جو شعر و شاعری اور اِس جیسی چیزوں میں لگا رہتا ہے تو شیطان اُس کا رفیقِ سفر بن جاتا ہے“۔

[تخریج] المعجم الکبیر للطبرانی بتحقیق حمدی السلفی :324/17، ح:895.

[حکم حدیث] یہ حدیث منکر ہے اور اِس کی سند ضعیف ہے۔

[سبب] اِس سند میں عبد اللہ بن شراحیل ہیں جن کا ترجمہ ہی نہیں مل سکا۔

اِن کی بابت علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”أما عبد الله بن شراحيل فهو غير معروف في شيء من كتب الرجال حتى إن الحافظ المزي لم يذكره في الرواة عن عقبة ولا فيمن روى عنه يزيد بن أبي حبيب، والطبراني نفسه لم يذكر تحت ترجمته غير هذا الحديث وهذا يدل على أنه مجهول لا يعرف
”رہی بات عبد اللہ بن شراحیل کی تو یہ کتب رجال میں غیر معروف ہیں حتی کہ امام مزی رحمہ اللہ نے اِن کو عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں اور یزید بن حبیب رحمہ اللہ کے اساتذہ میں ذکر نہیں کیا ہے اور امام طبرانی رحمہ اللہ نے خود اِن کے ترجمے میں صرف اسی حدیث کا ذکر کیا ہے اور یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ مجہول ہیں، نہیں پہچانے جاتے ہے“۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ :420/14، ح:6688)

اِس کے علاوہ اِس سند میں امام ابن لہیعہ المصری رحمہ اللہ بھی ہیں. آپ کی کتابیں جلنے کے بعد آپ اپنے حفظ سے حدیث بیان کرنے لگے اور غلطی کا شکار ہو گئے، تلقین قبول کرنے لگے، آپ پر دوسروں کی حدیثیں داخل کر دی گئیں۔ پھر آخری عمر میں آپ اختلاط کا شکار ہو گئے۔ اسی وجہ سے آپ کی مرویات میں منکر روایتوں کی کثرت ہوگئ.
دیکھیں :(نهاية الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط ،ص:190-197 وغیرہ)

اور جن جن لوگوں نے آپ سے آپ کی کتابیں جلنے سے پہلے سنا ہے، اُن میں عبد اللہ بن صالح کاتب اللیث المصری رحمہ اللہ کا نام نہیں ہے۔
دیکھیں : (تقریب التھذیب لابن حجر بتحقیق محمد عوامۃ، ت:3563 و تحریر تقریب التھذیب : 258/2 وسیر اعلام النبلاء للذہبی بتحقیق شعَيب الأرنؤوط ومحمد :11/8،ت: 4 و معجم اسامی الرواۃ : 660/2 و فتاوی علمیۃ للشیخ زبیر علی زئی :470/2، الناشر : المکتبۃ الاسلامیۃ)

اِس پر مزید یہ کہ آپ تیسرے طبقے کے مدلس ہیں۔
دیکھیں :(المجروحين بتحقیق محمود إبراهيم زايد : 11/2، ت: 538 وطبقات المدلسین لابن حجر بتحقیق عاصم بن عبدالله، ص:54)
اور آپ نے سماع کی صراحت نہیں کی ہے۔

🌺 زیر بحث حدیث سے متعلق علماء کرام کے اقوال:

💓 امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی رحمہ اللہ (المتوفی:911ھ) :
آپ رحمہ اللہ نے اِس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
دیکھیں :(التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ للصنعانی بتحقیق الدکتور محمد اسحاق :469/9، ح:8014)

💓 علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ :
آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”منکر … وہذا إسناد ضعیف، ليس فيه دون الصحابي من المذكورين ثقة غير يزيد بن أبي حبيب“
”حدیث منکر ہے ۔۔۔ اور یہ سند ضعیف ہے۔ اِس میں صحابی سے نیچے مذکورہ رواۃ (یعنی عبد اللہ بن صالح، عبد اللہ بن لہیعہ، یزید بن حبیب، عبد اللہ بن شراحیل) میں سے کوئی ثقہ نہیں ہے سوائے یزید بن حبیب رحمہ اللہ کے“۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ :419/14، ح:6688)

🌺 اب چند باتیں بطور تنبیہ پیش خدمت ہیں:

[تنبیہ نمبر :1] امام عبد العظیم بن عبد القوی المنذری رحمہ اللہ (المتوفی :656ھ) زیر بحث حدیث پر حکم لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
”رواه الطبراني بإسناد حسن“
”اِس حدیث کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے“۔
(الترغيب والترهيب بتحقیق إبراهيم شمس الدين :39/4، ح:4709)

اور امام ابو الحسن علی بن ابو بکر الہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی:807ھ) فرماتے ہیں:
”رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ“
”اِس حدیث کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور اِس کی سند حسن ہے“۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد بتحقیق حسام الدين القدسي:131/10، ح:17096)

علامہ البانی رحمہ اللہ امام منذری رحمہ اللہ کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
كذا قال! وتبعه الهيثمي، وقلدهما الثلاثة، وفيه من العلل ثلاثة، بيانها في الضعيفة (6688)“
”اِسی طرح کہا ہے آپ نے اور امام ہیثمی رحمہ اللہ نے آپ کی متابعت کی ہے اور الترغیب والترہیب للمنذری پر تعلیق لگانے والے تینوں لوگوں نے اِن دونوں ائمہ کرام کی تقلید کی ہے اور اِس حدیث میں تین علتیں ہیں جن کابیان الضعیفہ (6688) میں ہے“۔
(ضعیف الترغیب والترہیب :285/2، تحت الحدیث :1816)

[تنبیہ نمبر :2] علامہ البانی رحمہ اللہ نے زیر بحث حدیث کو صحیح الجامع الصغیر میں درج کر کے حسن قرار دیا ہے۔
دیکھیں:(صحيح الجامع الصغير وزياداته :995/2، ح:5706)

صحیح الجامع الصغیر کے مذکورہ حوالے میں زیر بحث حدیث کے تحت لکھا ہوا ہے :
”(حسن) [طب] عن عقبة بن عامر. الترغيب : 67/4، مجمع الزوائد : 131/10“.

قارئین! صحیح الجامع الصغیر میں آپ رحمہ اللہ نے زیر بحث روایت کو کیوں حسن قرار دیا؟ اِس کی کوئی مضبوط وجہ معلوم نہیں ہو سکی لیکن بظاہر جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ جس وقت آپ نے زیر بحث روایت کو صحیح الجامع الصغیر میں جگہ دے کر حسن قرار دیا، اُس وقت -غالباً- امام منذری اور امام ہیثمی رحمہما اللہ کی متابعت میں حسن قرار دیا تھا کیونکہ آپ کو سند دستیاب نہیں ہوئی تھی۔ اگر سند دستیاب ہوتی تو آپ اسے حسن کبھی نہیں کہتے کیونکہ اِس سند میں امام ابن لہیعہ رحمہ اللہ موجود ہیں اور اِن کی بابت آپ رحمہ اللہ کا جو موقف ہے، وہ آپ کی کتابوں سے بالکل واضح ہے۔ جس حالت میں آپ رحمہ اللہ امام ابن لہیعہ رحمہ اللہ کی روایت کو صحیح یا حسن قرار دیتے ہیں، وہ حالت زیر بحث روایت میں موجود ہی نہیں ہے۔
پھر جب آپ کو سند دستیاب ہوئی اور اِس کا ضعف واضح ہوا تو آپ رحمہ اللہ نے الضعیفہ میں اِس کی مفصل تحقیق پیش کی ہے اور ضعیف الترغیب والترہیب میں امام منذری وغیرہ کا تعاقب کرتے ہوئے الضعیفہ کا حوالہ دیا۔ واللہ اعلم۔

مزید بطور فائدہ دیکھیں : (الضعیفہ : 743/10، ح: 4986)

کئی احباب ایسے ہیں جنہوں نے زیر بحث حدیث کے لیے صحیح الجامع الصغیر کا حکم نقل کیا ہے مثلاً :جمع الفوائد من جامع الاصول و مجمع الزوائد بتحقیق سلیمان بن دریع :544/1، ح:3216.

لہذا تمام احباب سے گزارش ہے کہ صحیح الجامع الصغیر کا حوالہ دے کر علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحسین نقل نا کریں۔ واللہ ولی التوفیق.

🌸 خلاصۃ التحقیق :
مسؤلہ روایت منکر اور ضعیف ہے۔ واللہ اعلم.

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *