قرآن مجیدکی تفہیم میں عقل کی اہمیت و کردار

محمد جرجیس کریمی

——————————-

موجودہ دور میں اہل مغرب خاص طور سے مستشرقین اور قرآن پر اعتراض کرنے والوں نے یہ باور کرانے میں اپنی پوری کوشش صرف کر دی ہے کہ قرآن مجید آزادانہ عقلی بحث و نظر کی راہ میں رکاوٹ ہے؛ کیوں کہ اس کی تعلیمات جامد اور اس کے قوانین بے لچک ہیں،جو علم و تحقیق پر پابندی لگاتے ہیں۔ دوسری طرف عالم اسلام کی پس ماندگی اور تخلف اس کی عملی شہادت پیش کر رہا ہے۔مگر کیا واقعی یہی بات ہے کہ قرآن مجید عقلی تدبر کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ اور وہ اپنے متبعین کو پس ماندگی اور انحطاط کی طرف لے جاتا ہے اور کیا واقعی علمی و سائنسی اور تہذیبی و فکری ترقیات پر بندھ باندھتا ہے؟ زیر نظر مقالہ میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے:

اللہ تعالی نے انسان کو حواس خمسہ ظاہرہ اور عقل کی ایک قدر مشترک سے نوازا ہے۔حواس خمسہ یعنی دیکھنے، سننے، چھونے، سونگھنے اور محسوس کرنے کی قوتیں فکر و نظر کا مواد مہیا کرتی ہیں۔ فکر و نظر کی دعوت عقل تک پہنچاتی ہے اور عقل  اس مواد سے کام لینے اور دعوت کو قبول یا رد کرنے کی ذمہ دارہے۔”لو کنا نسمع أو نعقل ما کنا فی أصحاب السعیر”]الملک: ١٠[(ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں میں شامل نہ ہوتے)۔

دعوت کا طریقہ یہی ہے لیکن اگر اس کے مقابلے میں کوئی غیر فطری طریقہ نہ ہو تو پھر قرآن مجید کی کوئی امتیازی شان باقی نہیں رہتی۔ عقل سے قرآن کا تخاطب اتنا واضح اور نمایاں ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن عقل کو جگاتا ہے، بیدار کرتا ہے، گرد و پیش کے حقائق سے دو چار کر کے چونکاتا ہے اور جھنجھوڑتا ہے۔ چناں چہ قرآن مجید میں جا بجا ”أفلا تعقلون، أفلا یعقلون، أفلا یتدبرون، أفلا یتفکرون، أفلا ینظرون، أفلا یبصرون، لآیات لأولی النُھیٰ، لآیات لأولی الألباب وغیرہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔اس کے مقابلے میں کسی دوسرے سے اپنی بات منوانے کا ایک طریقہ وہ بھی ہے جسے ‘تنویم’کہا جاتا ہے یعنی مخاطب کی عقل کو سلا دیا جائے اس کی عقل کی مقاومت کو ختم کر دیا جائے، عقل غور و فکر کے اپنے تمام وسائل و ذرائع کو معطل کر کے اپنی عقل اور ارادے سے کام لے کر دعوت قبول کرنے کے بجائے داعی کے ارادے کے محض بے عقل تابع بن جائے۔

آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو انبیاء آئے ان کی دعوت میں عمومی طور پر یہی طریقہ اختیار کیا گیا؛ چناں چہ طفل گہوارہ کو بولتے دیکھ کر، مردہ کو زندہ کرتے دیکھ کر، چڑیوں کے منتشر اجزاء کو یک جا ہوتے اور ان میں جان پڑتے دیکھ کر، لاٹھی کو اژدھا بنتے دیکھ کر، عصا کو دریا میں مارنے سے راستہ بنتے دیکھ کر عقل مد ہوش ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جس دعوت کو سوچ سمجھ کر بہ حالت ہوش قبول کرنے کو تیار نہ تھی اس دعوت کو بہ حالت مد ہوش اتباع کرنے لگتی ہے۔ علماء نے اس کو”ادہاش” کا نام دیا ہے۔ یعنی مد ہوش کر کے بات منوائی جائے۔ قرآن مجید نے اپنی دعوت، تعلیمات، عقائد و احکامات میں کہیں”ادہاش” (مدہوش کر کے) بات منوانے کا طریقہ اختیار نہیں کیا ہے۔معجزات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں ان کے بارے میں جو بھی اختلاف ہو؛ مگر اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ قرآن مجید نے دعوت کی بنیاد معجزات پر نہیں رکھی؛ کیوں کہ اگر کوئی قرآن کا انکار کرتا ہو تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزہ دکھاکر اس کی عقل کو عاجز کر دیا ہو بلکہ کفار مکہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ کا مطالبہ کیا تو ان کو جواب ملا کہ میرا معجزہ تو قرآن مجید ہے۔

قرآن مجید ایسا کوئی جادو کا منتر نہیں جس کا خطاب عقل سے نہ ہو بلکہ قرآن مجید سیدھی سادی صاف سمجھ میں آنے والی زبان میں ایسی تعلیمات پیش کرتا ہے کہ جو عقل و فہم میں آنے والی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے”ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی أقوم”]السرائ:٩[ (حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے)۔دوسری جگہ ارشاد ہے۔”ولقد یسّرنا القرآن للذکر فھل من مدّکر”]القمر٢٢[(ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے،پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟)۔

قرآن مجید کی دل چسپی کا مرکز انسان ہے، قرآن مجید کا اصلی مخاطب انسان ہے، لہذا قرآن اس کے بارے میں بحث کرتا ہے اور اس میں کوئی حیرت و استعجاب کی بات نہیں ہے؛ کیوں کہ انسان کو زمین پر خلیفہ کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے، تمام مخلوقات پر اسے فضیلت دی گئی ہے، عقل و ادراک کی صلاحیتوں سے اسے ممتاز کیا گیا ہے اور زمین کی آباد کاری، اس میں تہذیب کی تشکیل کی ذمہ داری اسی کے  ناتواں کندھے پر ڈالی گئی ہے اور انسان اس راہ میں ادراک کے حسی اور عقلی وسائل و ذرائع کے استعمال کے لیے جواب دہ ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری ہے۔”ان السمع والبصر والفؤاد کلّ أولئک کان عنہ مسئولاً’‘]الاسراء :٣٤[(یقینا آنکھ کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہوگی)۔

نظر و تدبر کے آغاز کی شرط عقل کی موجودگی ہے۔ قرآن مجید میں عقل مطلق معنی میں وارد نہیں ہے؛ بلکہ عقلی نظر و تدبر کا لفظ عقل کے استعمال کے معنی میں آتا ہے؛ کیوں کہ عقل کی کوئی قائم بالذات ماہیت نہیں ہے، عقلی سرگرمیوں کی صراحت متعدد آیات میں موجود ہے۔ قرآن میں عقل کے مشتقات ٤٩آیات میں وارد ہیں اور سب کے سب فعل کے صیغے میں ہیں۔ مثلاً: أفلا یعقلون، تعقلون، نعقل، عقلوہ  وغیرہ۔ لفظ ”العقل” اسم کی حیثیت سے قرآن میں وارد نہیں ہے لیکن اس کے دیگر مترادفات جیسے لبّ، ألباب، نُھیٰ، حلم، حجر، فؤاد، قلب وارد ہیں۔

قرآن مجید کی درجنوں آیات میں بحث و نظر، تفکر و تدبر اور تأمل کے لیے عقل کو استعمال کی دعوت دی گئی ہے۔ ذیل میں اس کی تھوڑی تفصیل پیش کی جاتی ہے:

قرآن کی بعض آیات میں عقل کو ایک فطری ملکہ کی حیثیت سے استعمال کرنے پر زور دیا گیا ہے اور ان نعمتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو فطرت سلیمہ سے ہم آہنگ ہیں۔ جیسے درج ذیل آیت۔”سخّر لکم اللّیل والنھار والشمس والقمر والنجوم مسخرات بأمرہ ان فی ذلک لآیات لقوم یعقلون” ]النحل:١٢[(اس نے تمہارے لیے رات دن اور سورج وچاند کو مسخر کر دیا،  اس کے حکم سے ستارے مسخر ہیں، ان چیزوں میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں)۔اس اسلوب کی متعدد آیات قرآن مجید میں وارد ہوئی ہیں۔ دیکھیے: (الرعد: ٤، النحل:٦٧، الروم:٢٤ )۔

قرآن مجید میں بہت سی وہ آیات ہیں جو عقل کے وظائف اور ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور اسے تدبر و تفکر، تفقہ و تذکر کی طرف متوجہ کرتی ہیں، یہ سب وہ عقلی کارروائیاں اور سرگرمیاں ہیں جن کے مختلف درجات ہیں۔

قرآن مجیدمیں١٢٩ آیات میں ‘نظر’ کی دعوت دی گئی ہے جو مختلف معنی میں وارد ہیں۔ ایک مفہوم آنکھ سے دیکھنے کا ہے، دوسرا مفہوم انتظار کرنے کا ہے، تیسرا مفہوم بحث و تحقیق سے کام لینے کا ہے۔ جیسے ارشاد ہے:

فلینظر الانسان الی طعامہ ]عبس:٢٤[ (انسان اپنی خوراک کو دیکھے)۔

فلینظر الانسان مِمَّ خُلق”]الطارق:٥ [(انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے)۔

قرآن کی بعض آیات میں ‘ابصار’ یعنی بصیرت (دیدہ بینا سے کام لینے کی دعوت دی گئی ہے۔ارشاد ہے:

وفی أنفسکم أفلا تبصرون” ]الذاریات: ٢١[ (اور خود تمہارے اپنے وجودمیں ہیں کیا تم کو سوجھتا نہیں)؟

یہ دعوت مظاہر قدرت و حیات  یعنی حقائق و مشاہد پر غور کرنے کی ہے۔

قرآن کی چار آیات میں تدبر اور سولہ آیات میں تفکر کی دعوت دی گئی ہے۔

ارشاد ہے: ”کتاب أنزلناہ الیک مبارک لیدّبّروا آیاتہ ولیتذّکر أولو الألباب”]ص: ٢٩[ (یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی!) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں)۔

وسخر لکم ما فی السموات وما فی الارض جمیعا منہ ان فی ذلک الآیات لقوم یتفکرون”]الجاثیة: ١٣[(اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے، سب کچھ اپنے پاس سے، اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں)۔

قرآن مجید کی سات آیات میں اعتبار (عبرت پذیر) کی دعوت دی گئی ہے:

لقد کان فی قصصھم عبرة لأولی الألباب”]یوسف: ١١[ (اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے)۔

قرآن کی بیس آیات میں تفقہ یعنی گہرے غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے:

انظر کیف نصرف الآیات لعلھم یفقھون” [الانعام: ٦٥](دیکھو ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں،شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں)۔

اسی طرح قرآن میں  بار’ تذکر’ کا مادہ وارد ہوا ہے۔ ارشاد ہے۔

قد فصّلنا الآیات لقوم یذّکّرون”]الانعام:١٢٦[(اور اس کے نشانات ان لوگوں کے لیے واضح کر دیئے گئے ہیں جو نصیحت قبول کرتے ہیں)۔

ویبیّن آیاتہ للنّاس لعلھم یتذکّرون” ]البقرة: ٢٢١[( اور وہ اپنے احکام لوگوں کے سامنے واضح طورپر بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے)۔

قرآن مجید صحیح عقل سے کام لینے والوں کو ‘اولو الالباب’ سے خطاب کرتا ہے اور سولہ مقامات پر مدح کے اسلوب میں ان کا تذکرہ ہوا ہے۔ارشاد ہے:

انما یتذکر أولو الألباب ”]الرعد:١٩[ (نصیحت تو دانش مند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں)۔

وما یذّکّر الا أولو الألباب” ]آل عمران: ٧[(اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانش مند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں)۔

قرآن مجید عقل سے کام نہ لینے والوں کی مذمت کرتا ہے اور ان کو مانند چوپائے شمار کرتا ہے۔

ارشاد ہے:  ”ان شرّ الدّوابّ عند اللہ الصّم البکم الذین لا یعقلون” ]الانفال:٢٢ [(یقینا اللہ کے نزدیک بد ترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے)۔ایک دوسری جگہ ارشاد ہے

أم تحسب أن أکثرھم یسمعون  أو یعقلون، ان ھم الا کالأنعام بل ھم أضلّ سبیلاً” ]الفرقان: ٤٤[ (کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سننے اور سمجھتے ہیں یہ تو جانوروں کی طرح ہیں؛بلکہ ان سے بھی گئے گزرے)۔یعنی جو عقل کے ذرائع سمع وبصر سے کام نہیں  لیتااور غور و فکر سے فارغ ہو جاتا ہے وہ مانند چوپایہ ہے۔

قرآن مجید کی بہت سی آیات میں عقل کے مترادفات الفاظ کا احاطہ کیا گیا ہے۔جیسے لب۔ نھی، حلم، حجر اور قلب وغیرہ اور ان کے استعمال کی دعوت دی گئی ہے۔ ارشاد ہے:

کلوا وارعوا أنعامکم ان فی ذٰلک لآیات لأولی النُھیٰ ”]طہ: ٥٤[(کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ،  یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے)۔دوسری جگہ ارشاد ہے:

أم تأمرھم أحلامھم بھذا أم ھم قوم طاغون” ] الطور: ٢٣[  (کیا  ان کی عقلیں انھیں ایسی ہی باتیں کرنے کے لیے کہتی ہیں؟ یا در حقیقت یہ عناد میں حد سے گزرے ہوئے لوگ ہیں)۔

قرآن مجید نے نہ صرف عقل اور اس کے مختلف وسائل وذرائع کے استعمال کی پر زور دعوت دی ہے اور اس پر ابھارا ہے؛بلکہ اس نے اس کا منہاج بھی متعین کیا ہے، چناں چہ اس ضمن میں دو باتیں بہت بنیادی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ قرآن مجید ان رکاوٹوں کو بھی دور کرنے کی دعوت دیتا ہے جو عقلی سرگرمیوں کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ جیسے اندھی تقلید، ظن مذموم اور نفسانی خواہشات جس کو قرآن نے ‘ھوائے نفس’ کہا ہے۔ ذیل میں اس کی تھوڑی تفصیل پیش کی جاتی ہے:

تقلید عقلی سرگرمیوں کو تعطل کا شکار بنا دیتی ہے اور مقلد جب کسی دلیل یا حجت کے بغیر دوسرے کی بات مان لیتا ہے تو وہ اندھا ہو جا تا ہے اور ہر کس ونا کس کی بتا ئی ہوئی بات تسلیم کرلیتا ہے۔ یہ صورت حال قرآن کی دعوت کے خلاف ہے اور فہم وشعور اور قرآنی دلائل وبراہین سے متصادم ہے جو قرآن مجید میں مذکور ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”واذا قیل لھم اتّبعوا ماأنزل اللہ قالوا بل نتبع ما ألفینا علیہ آبائنا، أولو کان آباؤھم لایعقلون شیئا ولا یھتدون ]البقرة ١٧٠[(ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکامات نازل کیے ہیں ان کی پیروی کرو  تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقہ کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کوپایا ہے۔ اچھا! اگر چہ ان کے  باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو، تو کیا پھر یہ بھی انہی کی پیروی کیے چلے جائیں گے)۔تقلید کو مردود  قرار دینے کی قرآنی دعوت در اصل حقائق تک پہنچنے کے لیے ایک اہم اصول کی طرف رہ نمائی ہے۔

قرآن مجید عقلی تدبرو تفکر کی قدر وقیمت متعین کرتے ہوئے ظن اور گمان محض سے اجتناب کی بھی دعوت دیتا ہے۔ ارشاد ہے ‘‘قل ھل عندکم من علم فتخرجوہ لنا ان تتبعون الا الظّنّ وان انتم الا تخرصون” [الانعام ١٤٨)](ان سے کہو! کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے  جسے تم  پیش کر سکو؟ تم محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرہے ہو)۔ ایک دوسری جگہ ارشادہے ‘‘مالھم بہ من علم الااتباع الظن” [النساء ١٥٧]  (ان کے پاس  اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے)۔

قرآن مجید نے عقلی استدلال کے وسیلے سے کا م لیتے وقت ہوائے نفس سے بھی اجتناب کا حکم دیا ہے؛ کیوں کہ جب ہوائے نفس کی بنیاد پر اشیاء کے بارے میں غور وفکر ہوگا تو لا محالہ وہاں فساد رونما ہوگا۔ ارشاد باری ہے ”وانّ کثیرا منھم لیضلون بأھوائھم بغیر علم” ]الانعام ١١٩[ (اور بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی پیروی کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں)۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے  ”بل اتبع الذین ظلموا أھوائھم بغیر علم” ]الروم ٩٢[(مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے پڑے ہیں)۔

قرآن مجید کوئی منطق وفلسفہ اور سائنس کی کتا ب نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے اس میں موضوعات کے مباحث نہیں ملیں گے؛مگر چوں کہ وہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے لہذا اس میں عقلی استقرائی استدلالات بھی موجود ہیں اور علمی اورتجربی حقائق کی رہ نمائی بھی کی گئی ہے ۔        قرآن مجید میں عقلی واستدلالی اسلوب کی مختلف جہات کا پتا چلتا ہے، مثلا اس میں تشبیہ وتمثیل سے بات سمجھائی گئی ہے، اور یہ تمثیلات قرآن میں تقریبا چالیس مرتبہ بیان کی گئی ہیں۔ ارشاد باری ہے ”ویضرب اللّہ الامثال للناس لعلھم یتذکرون”      ] ابراہیم٥ ٢[ (یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے تاکہ لوگ ان سے سبق لیں)۔

عموم خصوص اور جزئیہ سے استدلال کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”قل الحمد للہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ۔ آللہ خیر أمّا یشرکون، أمّن خلق السمٰوٰت والأرض وأنزل لکم من السماء ماء فأنبتنا بہ حدائق ذات بھجة، ماکان لکم أن تنبتوا شجرھا أالہ مع اللہ، بل ھم قوم یعدلون ]النمل ٥٩ ..٦٠[(ان سے پوچھیے اللہ بہتر ہے یا وہ معبود جنھیں وہ شریک بنا رہے ہیں۔ بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود بھی ان کاموں میں شریک ہے؟ بلکہ یہ لوگ راہ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں)۔

قرآن مجید میں مقابلہ سے استدلال کی بھی صورتیں ملتی ہیں۔ اس کے معنی ٰ یہ ہیں کہ دو چیزوں کے درمیان دو معاملات میں یا دو اشخاص میں مقابلہ وموازنہ کیا ہوتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کون کس کام میںزیادہ مؤثر ہوسکتا ہے اور جب یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ فلاں کی تأثیر زیاہ ہے تو اسے ترجیح حاصل ہوجاتی ہے۔ارشاد باری ہے ”أفمن یخلق کمن لا یخلق أفلاتذکّرون وان تعدّوا نعمة اللّہ لا تحصوھا، ان اللہ لغفور رحیم” [النمل ١٧.. ١٨[(پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے دونوںیکساں ہیں؟ کیا تم ہوش میں نہیں آتے؟اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ و ہ بڑا ہی درگزرکرنے والا اور رحیم ہے)۔

قرآن مجید نے تا ریخی واقعات اورقصص سے بھی استدلال کیا ہے۔ ارشاد ہے ”لقد کان فی قصصھم عبرة لأولی الألباب” ]یوسف١١١[ (ان قصوں میں ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے)۔

قرآن مجید میں مناظرہ اور مجادلہ کا بھی اسلوب اختیار کیا گیاہے اور اس کے ذریعے باطل عقائد وتصورات کی تردید کی گئی ہے۔ ارشاد ہے ‘‘وقالو ا لولا أنزل علیہ ملک ولو أنزلنا ملکا لقضی الأمر ثم لا ینظرون ولو جعلناہ ملکا لجعلناہ رجلا وللبسنا علیھم ما یلبسون]الأنعام٨۔٩[ (یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس بنی پر کو ئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ اگر ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا ان کا فیصلہ کبھی کا ہو چکا ہوتا؛ پھر انھیں مہلت نہ دی جاتی اور اگر ہم فرشتہ کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتیاور  اس طرح کرکے انھیں اس  شبہ میں مبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں)۔

قرآن مجید نے انسانی عقل کو چیلنج بھی کیاہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو کام میں لائے اور قرآن جیسا کلام بنا لے آئے۔ ارشاد ہے ”أم یقولو ن افتراہ قل فأتوا بعشر سور  مثلہ مفتریات” ]ھود:١٣[(کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبرۖ نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟  کہو! اچھا،یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤ)۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ”وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنافأتوا بسورة من مثلہ’‘ ]البقرة ٢٣[(اگرتمہیں اس بارے میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے یہ ہماری ہے یانہیں؟ تو اس کے مانند ایک ہی سورت لے آؤ)۔

قرآن مجید میں مناقضہ (یعنی کسی ناممکن عمل پر تبصرہ تاکہ کسی چیز کے نا ممکن الوقوع پر دلالت کرسکے) کا اسلوب بھی بیان کیا ہے۔ ارشاد ہے ”ان الذین کذّبو بآیٰتنا واستکبوا عنھا لا تفتح لھم أبواب السما ء ولایدخلون الجنة حتیٰ یلج الجمل فی سمّ الخیاط ”] الاعراف٤٠[ (یقین جانو جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلا یا ہے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے، حتیٰ کہ اونٹ سوئی کی نوک میں داخل ہوجائے ،یعنی جس طرح سوئی کی نالی میں اونٹ نہیں گھس سکتے اسی طرح وہ بھی جنت میں نہیں جا سکتے)۔

اسی طرح قرآن نے مجاراة یعنی فریق مخالف کے مجادلہ ومباحثہ کے اسلوب سے بھی غور وفکر کی دعوت دی ہے تاکہ اس کی غلطی  واضح ہوجائے۔ اس کی شکل یہ ہے کہ مخاطب کے بعض مقدمات کو تسلیم کر لیا جائے؛ لیکن یہ بھی واضح کیا جائے کہ ان سے وہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا جو مخاطب چاہتا ہے، بلکہ اس کے برعکس نتیجہ بر آمد ہوتا ہے۔ مثلا کفار رسول اللہ ۖ کی بشریت کو رسالت  کے لیے ممنوع سمجھتے تھے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے بشریت ہی کو رسالت کے لیے موزوں قرار دیا۔ ارشاد ہے ”قالت لھم رسلھم ان نحن الا بشرمثلکم ولکن اللہ یمنّ علیٰ من یشاء من عبادہ” ]ابراہیم١١[(ان کے رسولوں نے ان سے کہا، واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم جیسے انسان، لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے)۔

یہ چند منطقی اسالیب میں عقلی استدلالات کی مثالیں ہیں جو قرآن مجید نے پیش کی ہیں۔ ایسی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ قرآن مجید تجربی علمی تحقیقات کو بھی تسلیم کرتا ہے اگر وہ حقائق کے مطابق ہوں۔ مثال کے طور پر انسان کی تخلیق کے وہ مراحل جورحم مادر میں پیش آتے ہیں اور جن کی طرف قرآن نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے اشارات کردیے ہیں ، آج جدید سائنس ان سے پردہ اٹھا رہا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں حرام کردہ اشیاء کی طبی مضرات آج کی جدید میڈیکل سائنس تصدیق کر رہی ہے ؛ جب کہ قرآن مجید نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ان کو واضح کر دیا تھا۔ ان تمام حقائق سے متعلق قرآن جامع انداز میں کہتا ہے ”سنریھم آیٰتنا فی الآفاق وف أنفسھم حتٰی یتبین لھم أنہ الحق” ]فصلت٥٣[ (عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق  میں بھی دکھا ئیں گے اوران کے اپنے انفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے)۔

جہاں تک سائنس اور تجربی علوم و ترقیات میں مسلمانوں کے تخلف و پس ماندگی کا سوال ہے تو اس کا ذمہ دار قرآن مجید نہیں؛ بلکہ مسلمانوں کا طرز عمل ہے۔ مسلمانوں نے ان میدانوں میں محنت وجانفشانی نہیں کی؛ اس لیے انھوں نے سائنس میں ترقی نہیں کی۔ جن قوموں نے محنت وجانفشانی سے کام لیا وہ بام عروج تک پہنچی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کارشاد ہے ”ان اللہ لایغیّر ما بقوم حتیٰ یغیّروا  ما بأنفسھم ]الرعد ١١[(حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدلتی)۔

****

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *