از قلم:ندیم أختر سلفی
)فاضل جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ,داعی اسلامک دعوہ سینٹر حوطہ سدیر,سعودی عرب (
گناہ اور اللہ کی نافرمانی پر قائم رہتے ہوئے بہت سارے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کے پاس مال واولاد اور زندگی کی جو خوشحالی میسر ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور اللہ کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر ہیں، تو دوسری طرف کئی سارے لوگ مال ودولت ، اولاد اور رفاہی زندگی سے محرومی کا سبب یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ان سے ناراض ہے، جب کہ معاملہ ایسا بلکل نہیں ہے ۔
قرآنی آیتوں اور ہلاک ہونے والی امتوں کی تاریخ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ اس سے بلکل مختلف ہے، معاملہ وہ نہیں ہے جو آج کے نافرمان دنیا پرستی میں غرق لوگ سمجھتے ہیں دراصل ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ وقتی طور پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کو کھول دیتا ہے، جب وہ اس میں خوب مگن ہوجاتے ہیں اور اپنی مادی خوش حالی اور ترقی پر اترانے اور تکبر کرنے لگتے ہیں تو اللہ انہیں اپنے گرفت میں لے لیتا ہے اور ان کی جڑوں کو کاٹ دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: «وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ ، فَلَوْلا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمْ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ، فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ ، فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ»(سورۃ الأنعام: 42-45)
(ترجمہ: اور ہم نے آپ سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے انہیں تنگ دستی اور بیماری سے پکڑلیا تاکہ وہ عاجزی کا اظہار کرسکیں، جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیار کی؟ لیکن ان کے دل سخت ہوگئےاور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں مزین اور آراستہ کردیا، پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئے، یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر جو انہیں ملی تھیں خوب اترا گئے تو ہم نے ان کو دفعۃً پکڑ لیا پھر وہ تو بلکل مایوس ہوگئے، پھر ظالموں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالی کا شکر ہے جو تمام عالم کا پرور دگار ہے)۔
یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے تو ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا ، کھلے عام اللہ کی نافرمانی کی، اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کیا اور سرکشی میں حد سے بڑھ گئےتو ہم نے انہیں محتاجی ، بیماری اور آفات و مصائب میں گرفتار کرلیا تاکہ پلٹ جائیں اور توبہ کرلیں، لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا ، بلکہ ان کے دل اور سخت ہوگئے اور باطل پرمزید اڑ گئے پھر ہم نے ان کے ساتھ یہ کیا کہ ان پر رزق کے دروازے کھول دئے، اور جسے یہ نعمت سمجھ رہے تھے در اصل اللہ کی طرف سے انہیں ڈھیل دیا جارہا تھا ، پھر جب وہ اترانے لگے تو اچانک اللہ نے انہیں عذاب میں گرفتار کرلیا جس کی انہیں امید بلکل نہ تھی اور ہر بھلائی سے وہ مایوس ہوگئے، اور اللہ کے نافرمان مال ودولت میں ڈوبے خوشحال لوگوں پر اللہ کا عذاب ایسے ہی اچانک آتا ہے ۔
مسند احمد میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی مرفوعاً روایت ہے : «إذا رأيت الله يعطي العبد من الدنيا على معاصيه ما يحب، فإنما هو استدراج»(ترجمہ : جب دیکھو کہ اللہ بندے کو ا س کی نافرمانی اور سرکشی کے باوجود دنیا کی دولت سے نواز رہاہے تو سمجھو کہ یہ اللہ کی طرف سے ڈھیل ہے )۔ (مسند احمد ح: (17311)، علامہ البانی نے “صحیح الجامع” حدیث: (561) میں اسے صحیح کہا ہے )
ابو حازم سلمہ بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں : «إذا رأيت الله عز وجل يتابع نعمه عليك وأنت تعصيه فاحذره»(جب دیکھو کہ تمہاری نافرمانی کے باوجود اللہ تمہیں لگاتار نعمتوں سے نواز رہا ہے تو سنبھل جاؤ)۔(سير أعلام النبلاء (6/101)
قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیوی ترقی اور خوشحالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ اللہ کا محبوب ہے اوراللہ اس سے راضی ہے، اللہ کی نافرمانی کے باوجود دولت اور خوشحال زندگی کا میسر ہونا اللہ کی رضامندی ، اور اس سے محروم ہونا اللہ کی ناراضگی کی دلیل نہیں ، اگر اللہ نافرمانیوں کے باوجود ہمیں عطا کر رہا ہے تو ہمیں ہوشیار اور سنبھل جانا چاہئے کہ ہو نہ ہو یہ اللہ کی طرف سے ڈھیل دیا جارہا ہو، لیکن جس دن وہ پکڑے گا تو سختی کے ساتھ اچانک پکڑے گا، اس وقت سنبھلنے کا موقع نہیں ملے گا۔
سماج میں ایسے غافل اور نا سمجھ لوگوں کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں عقاب ِ الہی کی ذرا بھی پرواہ نہیں، پھر جب اللہ کی طرف سے کوئی سختی آتی ہے چاہے اس کی جو بھی صورت ہو تو فوراً کہنے لگتے ہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں، ہماری کیا غلطی تھی ، ہمارا کیا قصور تھا؟ ہمارے ساتھ یہ کیوں ہورہا ہے؟ اگر انسان اللہ کی نعمتوں کو پاکر بھی اس کی نافرمانی پر مُصر رہے، کھلے عام معصیت کو انجام دے، غیر اللہ سے اپنی حاجت کا سوال کرے، آستانوں پر جاکر مدد کی دُہائی دے، نمازوں سے دور رہے، حلال وحرام کی پرواہ نہ کرے، اللہ کے بندوں پر ظلم کرے ، اس کے حقوق کو غصب کرے، اللہ کے نافرمانوں کی مشابہت اختیار کرے اور پھر بھی اس خوش فہمی میں رہے کہ اللہ اس سے خوش ہوکر نعمتوں سے نواز رہا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے بلکہ اللہ نے تو اس کے لئے اپنی ڈور کو چھوڑ رکھا ہے پھر جب پکڑے گا تو انہیں احساس تک نہیں ہوگا، اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب خوشحال طبقہ اللہ کی نافرمانی پر کمر بستہ ہوجائے تو اللہ پھر انہیں اپنے عذاب میں گرفتار کرلیتا ہے سورہ اسراء آیت نمبر (16) میں اللہ تعالیٰ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : «وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا»(اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہوجاتی ہےپھر ہم اسے تباہ وبرباد کریتے ہیں)، اس لئے منصب، دولت اور شہرت پاکر فرعون وقارون اور دنیا کے ظالموں کی طرح کوئی اترانے، سرکشی کرنے اور شیخی بگھاڑنے کی کوشش نہ کرے ورنہ اللہ کو اس کے انجام تک پہنچانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔