مولانا محمد جرجیس کریمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین ,أما بعد
عصری تعلیم گاہیں اشیاء کی معرفت پر مبنی ہیں جبکہ مدارس عربیہ معرفت الٰہی پر مبنی ہیں۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عصری تعلیم معرفت اشیاء کا نام ہے اور دینی تعلیم معرفت الٰہی کا نام ہے اور دونوں معرفتوں کے اثرات جداجدا ہیں جو زندگی میں گہرے طریقے سے ظاہر ہوتے ہیں۔ دینی تعلیمی اداروں میں بچوں کو آغاز ہی سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور اس کی اوصاف و صفات اور احکام سے واقف کرایا جاتاہے جبکہ عصری تعلیم گاہوں میںآغاز ہی سے اشیاء کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں چیز کیا ہے اور کیسی ہے؟ اس کی کیا خصوصیات و فوائد ہیں؟اس نصاب میں آخر تک کوئی ایسا مرحلہ نہیں آتا کہ جب پڑھنے والے کو بتایا جاتا ہو کہ اللہ ان چیزوں کا خالق ہے جس نے اپنے ارادہ اور قوت سے ان کو وجود بخشاہے۔ ظاہر ہے کہ اس بنیادی فرق سے ان اداروں میں پڑھنے والوں کی زندگیاں الگ الگ ہوتی ہیں۔
معرفت اشیاء اور معرفت الٰہی کے حوالے سے ابوحامد غزالی لکھتے ہیں:
انسان کے جسم میں موجود ہر عضو کا ایک فائدہ اور کام ہے دل کا فائدہ اور کام حکمت اورمعرفت الٰہی ہے۔ انسان دوسری مخلوقات کے مقابلے میں اکل و شرب اورجنسی قوت کی وجہ سے ممتاز نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ممتاز ہے کہ وہ چیزوں کا ا دراک اورعرفان کرتا ہے اور چیزوں کی اصل اور اس کا موجد اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہے۔ لہٰذا جس نے تمام چیزوں کی معرفت حاصل کرلیا مگر اللہ کی معرفت حاصل نہیں کیا تو گویا اس نے کسی چیز کی معرفت حاصل نہیں کی۔ (احیاء علوم الدین، ابوحامد غزالی ،٥٤٣)
مدارس اس معرفت الٰہی کے مراکز کے طور پر کام کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسے
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
خدا کی ضرورت کیوں؟
موجودہ دور میں انسان نے مختلف علوم و فنون میں بے پناہ ترقی کی ہے۔ زندگی کے وسائل و ذرائع میں کافی اضافہ ہوگیا ہے، ہر شعبۂ علم میں روز افزوں نئے نئے انکشافات ہورہے ہیں، انسان چاند سے آگے مریخ پر جانے کے لیے کمند ڈال رہا ہے۔ میڈیکل سائنس میں انسان کے مختلف اعضا تبدیل کیے جارہے ہیں۔ مواصلات کے پہلو سے دنیا ایک گاؤں بن چکی ہے۔ ان تمام ترقیوں کے باوجود انسان کی حالت دگر گوں ہے۔ دنیا میں لاکھوں نفوس ہر سال مختلف ذہنی، نفسیاتی اور سماجی اسباب کے تحت خودکشی کی نذر ہورہے ہیں۔ دنیا میں مختلف جارحانہ جرائم میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے، اس کے علاوہ دنیا کے مختلف گروہوں اور قومو ں کے درمیان خونی تصادم جاری ہے اور بظاہر اس کو روکنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تضاد خدا سے دست برداری کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ترقیاں ہیں تو دوسری طرف انسانوں کی آہوں اور کراہوں کی آوازیں ہیں۔ ایک طرف بلند و بالا عمارتیں ہیں تو دوسری طرف انسان کی اخلاقی پستیاں ہیں۔ ایک طرف حیرت انگیز سائنسی ترقیوں کے عجائبات ہیں تو دوسری طرف انسانوں کی خواہشات نفسانی کے دلدل میں پھنسا ہونا ہے۔ ان تمام مظاہر کا بنیادی سبب الحاد اور خدا بیزاری ہے۔ خدا کے اقرار اوراس پر ایمان سے آدمی کے اندر اس کا خوف، اس کی گرفت کا ڈر اور آخرت میں جواب دہی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں انسان بے لگام ہوجاتا ہے اور اس کی زندگیاں اضطرابات سے بھر جاتی ہیں۔ دینی نظام تعلیم میں اول روز سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں بتایا جاتا ہے تاکہ بچے کی ایسی ذہنی تربیت ہو کہ بڑا ہو کر وہ خدا سے بیزار نہ ہو اور اپنی زندگی کو اس کے احکام کے تابع بنا کر گذارے۔ اس کے برعکس عصری نظام تعلیم میں اول سے آخر تک کہیں بھی خدا کے لیے جگہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بھیانک نتائج انسانوں کو جھیلنے پڑتے ہیں۔
مذہب اور تعلیم
مسلم علماء و مفکرین کے مطابق مذہب ایک شخص کی ذات اور شخصیت سے نہایت گہرائی اوروسعت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور اس وقت تک اس کا مکمل کردار سامنے نہیں آتا جب تک کہ ایک نوع کی تعلیم وتربیت سے وہ مربوط نہ ہو۔
علم دین کا حصول ایک فرد کو مذہبی حقائق کی تلاش و جستجو پر ابھارتا ہے اور اخلاقی زندگی گذارنے پرمائل کرتا ہے۔ علم انسان کو خلوص دل کے ساتھ خدا کی بندگی پر مائل کرتا ہے۔اور اسی ذریعہ سے وہ خود آگہی کے منزل سے بھی قریب ہوتا ہے۔ بہرحال اہل مدارس کے نزدیک تعلیم و تعلم کا آخری مقصد خدا کی رضا اور اس کی خوش نودی کا حصول ہے۔ عام اسلوب میں اگر کہا جائے تو اس طرح کہا جاسکتا ہے، علم ایک عملیہ ہے وہ تعلم سے شروع ہوتا ہے اور عمل پر ختم ہوجاتا ہے۔ دینی و عصری علوم کے ضمن میں ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لینا چاہیے۔ اسکول، کالج اوریونیورسٹی کی تعلیم ہماری بہت سی دنیاوی ضروریات کو پورا کرتی ہے اور دنیا کو تمدنی ٹیکنالوجی ترقیوں سے ہمکنار کرتی ہے، مگر اس تعلیم کی تمام تر افادیت و معنویت اسی دنیا کی زندگی تک محدود ہے اور انسان کی آنکھ بند ہوتے ہی اس تعلیم کی افادیت منقطع ہوجاتی ہے۔ پھر اس کے بعد قبرکی زندگی، حشر کی زندگی، قیامت کا مرحلہ اور جنت و جہنم کے مراحل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جب کہ ہمارے عقیدے کے مطابق اس دنیا کی زندگی بہت عارضی اور محدود ہے اور آنے والی زندگی بہت طویل اور حقیقی ہے۔ اس حقیقی زندگی کے لیے صرف دینی تعلیم ہی رہنمائی کرتی ہے۔ مزید یہ کہ عصری تعلیم انسان کی صرف مادی ضررتوں کی تکمیل میں معاون ہیں جبکہ دینی تعلیم انسان کی روحانی و اخلاقی ضرورتوں کی تکمیل کرتی ہیں جس کا انتظام مدارس عربیہ ہی کرتے ہیں۔ اخلاقی تربیت کے ضمن میں دینی تعلیم کی امتیازی صفت و خصوصیت یہ ہے کہ اس کا سب سے بڑا قلعہ یا مرکز مدارس عربیہ ہی ہیں۔ یہاں کا تعلیمی نظام سراپا اخلاقی سانچوں میں ڈھلا ہوا ہوتا ہے۔ مدارس کے طلبہ کو ہمہ دم یہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ اگرچہ دین و شریعت سے متعلق بحث و مباحثہ اور مطالعہ و تجربہ کی اپنی اہمیت ہے تاہم اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ان کی نگاہ تعلیم کے اہداف و مقاصد سے نہیں ہٹنی چاہیے۔ اس کا مقصد خدا کی معرفت کا حصول اور اخلاقی سطح پرمثالی انسان بننا ہے۔ اخلاقی ہدایات و تعلیمات پر عمل آوری کا مطلب یہ بھی ہے کہ اپنی غلطیوں کی اصلاح اور خوب سے خوب تر کی جستجو کے لیے خود کو آمادہ رکھا جائے۔
گہوارۂ نبوت میں تربیت پانے کی سعادت
نبی کریم ﷺ کے دیدار اور ان کی صحبت کا شرف صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین کو حاصل ہوا تھا۔ صحابہ کرام براہ راست حضور اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے ارشادات و فرمودات کو سماعت کرتے تھے۔ آپ کی حرکا ت و سکنات اور اعمال کو دیکھ کر ان کی اقتدا کرتے تھے۔ اب آپ کی وفات کے بعد یہ شرف و سعادت کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی مگر مدارس عربیہ وہ مراکزہیں جہاں رسول اکرمﷺکے گہوارہ میں تربیت پانے کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ گو کہ آپ سراپا موجود نہیں ہوتے مگر آپ کی ایک ایک حرکت ایک ایک فعل، ایک ایک عمل، ایک ایک ارشاد اور ایک ایک فرمودہ کا بیان ہوتا ہے۔ جس کو طلبۂ مدارس پوری عقیدت اور ایمان کے ساتھ نہ صرف سماعت کرتے ہیں بلکہ ان پر عمل کرنے کی مشق بھی کرتے ہیں۔ حدیث کی تعلیم گہرے طور پر قرآن کی تعلیمات سے جڑی ہوئی ہے۔ قرآن میں دو طرح کے اسالیب کا استعمال کیا گیا ہے۔ واعظانہ (تذکیری) یا تعلیمی۔ مدارس عربیہ میں بھی انھیں دونوں اسالیب کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ظاہری طور پر قرآن و حدیث کے ظاہری الفاظ و حروف سے طلباء کو آشنا کرایا جاتا ہو بلکہ مدارس کی تعلیم کا مقصد طلبہ کو وسیع معنی میں قرآن و حدیث کا عملی نمونہ بنانے کے پروگرام پر عمل کیا جاتا ہے۔
مدارس کے نصاب کا ایک مرکزی مضمون فقہ بھی ہے۔ فقہ جس کو کبھی شریعت سے بھی تعبیر کردیا جاتاہے، معاشرے کے لیے اخلاقی رہنمائی کی بنیاد اور اس کا ذریعہ ہے۔ کلاسیکی فقہ کے متون کو پڑھنا ایک نہایت خوشگوار اور دلچسپ تجربہ ہے۔ اسے طلبہ اسلامی روایت کے بنیادی مسائل کو اچھی طرح اپنے دائرۂ ادراک میں لا سکتے ہیں اور ایک مستند اور معتبر ذریعہ سے اسلام کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ جو لوگ اسلام کی اس نظام تعلیم و تعلم کی روایت سے جڑتے ہیں ان کے سر پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں اور ان کی شخصیت کو اعتبار و استناد بھی حاصل ہوتا ہے۔
ہندوستان میں مدارس عربیہ کا پس منظر
ہندوستان میں مدارس عربیہ کے قیام کے پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو مدارس کی موجودہ افادیت مزید اجاگرہوجاتی ہے۔ 1857ء کے غدر کے بعد مسلمانوں کے اندر جو شکست و ریخت کا بھیانک احساس پیدا ہوگیا تھا اورمسلمانوں کے دینی و ملی وجودکو جو اضطراب لاحق ہوگیا تھا۔ اس کے پس منظر میں مدارس عربیہ کا قیام عمل میں آیا۔ وہ خطرات اور اندیشے آج بھی موجود ہیں اور ملت کے دینی وجود کا تحفظ انھیں مدارس کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ بعض مدارس عربیہ کا قیام مدارس عربیہ کے مروجہ نصاب تعلیم میں اصلاح کی غرض سے کیا گیا تھا۔ آج بھی اس کی ضرورت باقی ہے۔ 9/11کے واقعہ کے بعد مدارس عربیہ کی حیثیت و ا فادیت پر اعتراضات کا جو تیر و تفنگ چلایاگیا اور جس طرح علماء مدارس و طلبائے مدارس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس سے بھی ظاہر ہے کہ یہ مدارس اہل باطل کو بری طرح کھٹکتے ہیں۔ ظاہر ہے خود یہ چیز مدارس کی عصری افادیت کو اجاگر کرتی ہے۔ہندوستان میں اسلامی ریاست کب کی ناپید ہوچکی ہے، مگر مدارس آج بھی اسلام کی آبیاری کرنے میں مصروف ہیں۔