از قلم:۔شیخ ندیم أختر سلفی
فاضل جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ,داعی و مبلغ اسلامک دعوہ سینٹر,حوطہ سدیر؛سعودی عرب
ازدواجی زندگی کی کامیابی کے بڑے اسباب میں سےایک سبب یہ ہے کہ اس کی قیادت مرد کے ہاتھ میں ہو، جس طرح ایک گاڑی کا دو ڈرائیور ، ایک کشتی کا دو بادبان اور دو تلوار کا ایک میان میں ہونا محال ہے اسی طرح ازدواجی زندگی کے دو قائد نہیں ہوسکتے۔
خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سارے کام کی ذمہ داری مردوں کے ہاتھ میں سونپی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:«الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ»(ترجمہ: مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں)(سورة النساء: 34)
مردوں کے قوّام اور سرپرست ہونے کی اللہ نے دو وجہ بیان فرمائی ہے، ایک تو یہ کہ مرد جسمانی لحاظ سے عورتوں سے زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں، اور ذمہ داریوں کو نبھانے کی صلاحیت بھی عورتوں کی نسبت مردوں میں زیادہ ہوتی ہے، اور دوسری وجہ یہ کہ وہ اپنے اہل ِ خانہ کے تمام تر معاشی اخراجات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اللہ کا یہ فطری نظام جب یورپ میں بگڑ گیا تو خاندان بکھر گئے ، سماج انتشار کا شکار ہوگیا، سماجی اور خاندانی معاملے برباد ہوگئے، فطری اور سماوی نظام وقانون سے بغاوت کا انجام یہی ہوتا ہے جو یورپ میں آئے دن ہورہا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں ایک بڑی اچھی بات کہی ہے: ” عورت کی جب شادی ہوجاتی ہے تو اس کے والدین سے زیادہ اس کا شوہر اس کا مالک بن جاتا ہے، اور اس پر اپنے شوہر کی اطاعت زیادہ واجب ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:«فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ»(ترجمہ: چنانچہ نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں، مرد کی غیر موجودگی میں اللہ کی دی ہوئی حفاظت سے(اس کے حقوق کی ) کی حفاظت کرتی ہیں)(سورة النساء: 34)۔
اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «الدُّنْيَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ»(ترجمہ : دنیا سامان ہے ، اور دنیا کا سب سے بہترین سامان نیک عورت ہے)(مسلم: 1467)
اور ایک دوسری روایت میں ہے:«خير النساء امرأة إذا نظرت إليها سرتك، وإذا أمرتها أطاعتك، وإذا غبت عنها حفظتك في نفسها ومالك»(ترجمہ : سب سے بہتر عورت وہ ہے کہ جب اسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہوجائے، جب اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے، اور جب تم گھر میں موجود نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے)، (مسند البزار ح: 8537)
اور مسند احمد میں عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے:«إِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا قِيلَ لَهَا: ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْت»(ترجمہ : جب پانچ وقت کی نماز پڑھے، ماہ ِ رمضان کے روزے رکھے، اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کرے، اور شوہروں کی فرمانبرداری کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ وہ جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے)(مسند أحمد ح: 1661)
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:«إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا لَعَنَتْهَا المَلاَئِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ»(ترجمہ: جب مرد اپنی بیوی کو بستر پر بلائےاور وہ نہ آئے اور شوہر اس پر ناراضگی کی حالت میں رات گزار دے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں)(بخاري: 3237، مسلم: 1436)
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ شوہر کو قرآن مجید میں سیّد(سردار) کہا گیا ہے اور پھر سورہ یوسف کی آیت نمبر (25) تلاوت کی جس کا ترجمہ ہے : (اور دروازے کے پاس ہی عورت کا شوہر دونوں کو مل گیا)۔
عورت کی حیثیت اس کے شوہر کے نزدیک ایک قیدی اور محکوم کی سی ہے ، اس کے لئے جائز نہیں کہ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے، اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرف کرے، چاہے اس کے ماں باپ نے ہی کیوں نہ کہا ہو، اور اس پر سارے ائمہ کا اتفاق ہے۔
لیکن یاد رہے کہ شوہر کی اطاعت کی بھی ایک حد ہے ، اپنی حد سے نکلنے والے شوہر کی اطاعت نہیں کرے گی،شوہر کے جس حکم میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا عنصر ہو وہاں وہ شوہر کی بات نہیں مانے گی، کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں کسی بھی مخلوق کی بات ماننے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
مذکورہ دلائل سے عورت کے لئے اپنے شوہر کی اطاعت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے، نیز جہاں اس کے لئے یہ دنیا وآخرت کی کامیابی کا سبب ہے ، وہیں گھر کی کامیابی کی ایک بنیادی وجہ بھی ہے اور اس کامیابی میں سماج و ملک دونوں کی کامیابی ہے۔
جب شریعت نے شوہر کو گھر میں یہ مقام دیا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے مقام کو پہچانے، اپنی ذمہ داری کا احساس کرے، بیوی اور اولاد کے حقوق کو پہچانے، ان کی بہتری کے لئے کوشش کرتا رہے، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئے، ان پر ظلم نہ کرے، ان کی نصیحتوں اور ان کے مشوروں سے فائدہ اٹھائے ، اپنی مَن مانی نہ کرے، اور ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے شوہر یہ بھی یاد رکھے کہ اہل خانہ کی صحیح طور پر رعایت اور دیکھ بھال نہ کرنے کے نتیجے میں وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم ہوسکتا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:«مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً، فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ، إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ»(ترجمہ: جس شخص کو اللہ نے کسی رعایہ کا نگراں بنایا پھر اس کی خیر خواہی کا خیال نہ رکھا وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا)(بخاری: 7150، مسلم: 142)۔
عورت کی آزادی کے نام پر ان کے ملک اور ان کی ازدواجی زندگی کو برباد اور خانہ خراب کرنے کی اہل ِ یورپ جس طرح کی کوشش کر رہے ہیں وہ کسی پر پوشیدہ نہیں، پھر بھی عورتیں ان کے فریب آرہی ہیں اور صرف خاندان وسماج ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کے لئے بھی رسوائی کا باعث بن رہی ہیں ، انہیں سمجھنا چاہئے کہ اسلام نے انہیں جتنا مقام دیا ہے کسی اور دھرم اور مذہب میں اس کا عُشر عشیر بھی نہیں، اگر عورتیں اسلامی شعائر کو ادا کرتی رہیں اور اپنے خاوندوں کی اطاعت کرتی رہیں تو جنت سے بڑا ان کے لئے اورکیا بدلہ ہوسکتا ہے؟