مساوات کا قیام ؛اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

از قلم:محمد جرجیس کریمی

الحمد لله رب العالمين ،و الصلاة و السلام على أشرف الأنبياء و المرسلين أما بعد 

آج کی دنیا کا ایک سنگین مسئلہ اور ظلم جو انسانیت کے ایک بڑے طبقے بلکہ طبقات کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، نابرابری اور عدم مساوات کا ہے۔ ہندوستان میں دلت طبقہ، یورپ اور امریکہ میں سیاہ فام طبقہ اور مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کا طبقہ کسی نہ کسی طرح آج بھی سماجی اور معاشرتی امتیاز و تفریق اور غیرعادلانہ سلوک کا شکار ہے دلتوں پر ظلم کے ذیل میں اس کی تفصیلات فراہم کی جاچکی ہیں۔ سیاہ فام اور خواتین کی بھی حالت پوری دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ امریکہ میں آزادی کے اعلامیہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر حقوق انسانی پر دنیا کے اکثر ممالک و اقوام کے دستخط اور منظور کرلینے کے باوجود انسانیت کے یہ طبقات مساوات اور برابری کے مسرتوں سے شاد کام نہیں ہوسکے اور احساس ذلت و خواری میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے شودروں اور دلتوں کی مظلومیت پر آنسو بہاتے ہوئے اپنے احساسات کو اس طرح بیان کیا ہے:

آہ شودر کے لیے ہندوستان غم خانہ ہے

درد انسانی سے اس کا دل بے گانہ

———

شب ہندی غلاماں را سحر نیست

بایں خاک آفتاب را گزر نیست

یہ دو اشعار دلتوں کی مظلومیت کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ مگر سوال بیان مظلومیت کا نہیں ہے بلکہ اس کے ازالے اور خاتمے کا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ازم اور نظریہ کے پاس اس کا علاج نہیں ہے۔ اگر اس کا علاج اور حل ہے تو وہ رب العالمین کا عطا کردہ دین اور رحمۃ للعالمین کی تعلیمات میں ہے۔ آئیے نصوص قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کے تصور مساوات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ان عوامل کا جائزہ لیا جاتا ہے جن کی بنیاد پر نابرابری اور عدم مساوات کا خیال فاسد ذہن انسانی میں پیدا ہوتا ہے۔ عوامل میں بعض دائمی ہیں اور بعض عارضیاور وقتی عوامل ہیں۔دائمی عوامل خاندان اورنسل، رنگ و نسب، زبان، علاقہ و قومیت، پیشہ اور حرفت ور عارضی عوامل میں مال و اولاد ، طاقت و قوت، حسن و جمال، علم و فن، تہذیب و تمدن، خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ذیل میں ان کی مختصر تشریح کی جاتی ہے:

خاندان اور نسب:

انسانی تاریخ میں عدم مساوات کے جو اسباب وعوامل رہے ہیں ان میں خاندانی افتخار اور اعلیٰ نسب کا گمان اولین سبب کے طور پر موجود رہا ہے۔ آدمی کا خاندان اگر اونچا ہو جیسے کسی آدمی کا تعلق پیغمبر، رسول، بادشاہ و حکمراں کے خاندان سے ہو تو اس کو بھی اونچا اور بلند تصور کیا جاتا ہے۔ اگر اس کے برعکس معاملہ ہو تو اس کو نیچی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک ایسا عامل رہا ہے جس نے سماج اورمعاشرہ میں عدم مساوات کو جنم دیا ہے اور اس کی آبیاری کی ہے۔ مگر اسلام کے نزدیک محض خاندان و نسب سے تعلق شرافت و بزرگی کی بنیادنہیں بن سکتا۔  اسلام تمام انسانوں کو ایک آدم و حوا کی اولاد قرار دیتا ہے اور خاندانی و نسبی سلسلے محض باہم تعارف کے لیے ہیں، ارشاد ہے:

یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (الحجرات:۱۳)

لوگوں،ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا) سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کوشناخت کرو اور اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والاوہ ہے جو زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا اور سب سے خبردار ہے۔

اسلام نے نسلی امتیاز و تفریق کے اس بنیاد کو جڑ سے ختم کردیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد آیات وارد ہیں جن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نسب و خاندان و انسان کی فلاح و نجات یا شرافت و بزرگی کا معیار نہیں بن سکتا۔ ارشاد ہے:

فَإِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَیْْنَہُمْیَوْمَئِذٍ وَلَا یَتَسَاء لُونَ، فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ، وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوا أَنفُسَہُمْ فِیْ جَہَنَّمَ خَالِدُونَ (المومنون:۱۰۱-۱۰۳)

جس دن صورمیں پھونک ماری جائے گی (یعنی قیامت واقع ہوگی) تو اس دن لوگوں کے درمیان رشتے ناتے کا کچھ لحاظ نہ رہ جائے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کی بابت دریافت کریںگے۔ پس جس کے ترازو بھاری ہوںگے تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہوںگے اور جن کے ترازو ہلکے ہوئے تو یہ لوگ ہوںگے جو ناکام اپنی جان کی ازی ہار گئے یہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

لَن تَنفَعَکُمْ أَرْحَامُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِیَفْصِلُ بَیْْنَکُمْ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ  (الممتحنہ:۳)

قیامت کے روز تمہارے رشتے ناتے اور تمہاری ذات تمہارے کچھ کام نہ آئے گی۔ اللہ تمہیں ایک دوسرے سے جدا کردے گا اور اللہ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف ارشادات میں نسب و خاندان، فخر جتانے اور اسے باعث عزت و بزرگی تصور کرنے کی نفی فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:

کلکم بنی آدم و آدم من تراب (ترمذی: ۳۹۵۵)

تم میں سے ہر ایک آدم کی اولاد ہے اورآدم مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔

ایک اور ارشاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من بطّأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ (مسلم، کتاب الذکر، باب فضل الاجتماع علی الذکر و تلاوۃ القرآن)

جو اپنے اعمال میں پیچھے رہ گیا تو اس کا حسب و نسب اسے کچھ آگے نہ بڑھاسکے گا۔

رنگ و قومیت

انسانوں کی آبادیاں دنیا کے مختلف جغرافیائی خطوں میں آباد ہیں، جہاں مختلف رنگ و نسل کے لوگ ہوتے ہیں۔ کسی جگہ لوگ گورے ہوتے ہیں اور کسی جگہ لوگ کالے ہوتے ہیں۔ گورا و کالا ہونا مختلف اسباب کے تحت ہوتا ہے۔ یہ کوئی فخر و امتیازکے لیے نہیں ہے مگر انسانوں نے اس کو بھی فخر و امتیاز کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ چنانچہ گورے نسل والے اپنے کو ممتاز سمجھتے ہیں اور کالوں کی تذلیل و تحقیر کرتے ہیں۔ قدیم زمانے میں آریہ نسل کے لوگ اپنے علاوہ دوسروں کو حقیر تصور کرتے تھے، نازیوں نے غیر نازی کی تذلیل کی، مغربی ممالک کے باشندے مشرقی لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رنگ و نسب کے اختلاف کو اپنی نشانیوںسے ایک نشانی قرار دیا ہے اور اس کو باہمی افتخار و امتیاز کی ہرگز بنیاد نہیں بتایا ہے۔ ارشاد ہے:

وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ (فاطر:۲۸)

اسی طرح انسانوں، جانوروں،اور چوپایوں میں مختلف رنگ کے ہیں ایسا ہی معاملہ ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ (مسلم کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم و خذلہ و احتقارہ)

زبان وعلاقائیت:

رنگ و قومیت کی طرح علاقہ اور خطہ اسی طرح زبان کو بھی بنیاد بنا کر انسانیت کو تقسیم کیا گیا ہے۔ اسلام کے نزدیک رنگ و قومیت کی طرح زبان و علاقہ بھی ایسا عامل نہیں ہے جس کی بنیاد پر انسانوں میں باہم نفرت و عداوت پیدا ہوا اور لوگ ایک دوسرے کی تذلیل و تحقیر کریںیا ان کا خون بہائیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک رنگ و قومیت کے اختلاف کی طرح زبان و خطہ کا اختلاف اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ ارشادہے:

وَمِنْ آیَاتِہِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْعَالِمِیْنََ (روم:۲۴)

اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا مختلف ہونا ہے ۔ بے شک اس کے اندر نشانیاں ہیں ان کے لیے جو سمجھ رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہر زبان میں اپنے پیغمبر و رسول بھیجیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر زبان کی اہمیت ہے۔ ارشاد ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمُْ(ابراہیم:۴)

ہم نے جو رسول بھی ارسال کیا وہ اپنی قوم کی زبان میں بات کرتا تاکہ ان کے سامنے دلائل کو کھول کھول کر بیان کردے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد میں بہت وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر، کوئی فضیلت نہیں ہے۔ (مسند احمد ۲۳۴۸۹)

علاقائیت اور خطہ بھی فضیلت و شرف کا ذریعہ سمجھا گیا۔ مغرب و مشرق کی تفریق مہذب و غیر مہذب کی تفریق بن گئی۔ مقامی طور پر ایک علاقہ دوسرے علاقے سے برتر اور افضل تصور کیا گیا۔ ایک کو پس ماندگی کی علامت سمجھا گیا جبکہ دوسرے کو علم و ترقی کا نشان مانا گیا۔ اسلام کے نزدیک نہ مغرب و مشرق کی تفریق ہے نہ بہار اور یوپی کی۔ نہ جنوب و شمال کی ، حقیقت واقعہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اورپھر اسے مٹی میں ہی مل جانا ہے اور مٹی ہی سے دوبارہ زندہ کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُون(روم:۲۰)

اوراس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اب تم انسان ہو کر پورے جہاں میں پھیلے پڑے ہوئے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

قُلْ ہُوَ الَّذِیْ ذَرَأَکُمْ فِیْ الْأَرْضِ وَإِلَیْْہِ تُحْشَرُون (الملک: ۲۴)

اے نبی کہہ دیجئے اس نے تم کو زمین میں پھیلادیا اور اسی کی طرف تمہیں جمع کیا جائے گا۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ کسی علاقہ و خطہ کو تقدس و پاکیزگی حاصل نہیں ہے اور محض وہاں رہنے بسنے سے آدمی کے اندر شرف و عزت پیدا نہیں ہوجاتی ے۔ شرف و عزت کا باعث در اصل انسانوں کے اعمال اور ایمان ہے۔

پیشہ و حرفت:

دنیا میں انسانوں کے درمیان تفریق و امتیاز اور اشرف و ارذل کے تصور کو فروغ دینے اور اس کی برقراری میں پیشہ و حرفت کا بھی کردار رہا ہے۔ خاص کر وہ پیشے اور صنعتیں ہیں جو پس ماندگی کی علامت رہی ہیں۔ حالاں کہ سماجی طور پر انسانی زندگی مختلف پیشہ و حرفت کے سہارے ہی چلتی ہے اورروز مرہ کے معمولات تمام طرح کے پیشہ و حرفت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی مکمل ہوتے ہیںمگرانسانوں نے اس کو بھی فضیلت اور برتری کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ اسلام کے نزدیک پیشہ و حرفت، عزت و ذلت کا ہرگز ذریعہ نہیں بن سکتی۔ خود انبیاء و رسل کا سلسلۃ الذہب مختلف پیشوں سے وابستہ رہا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی بنائی، دائود علیہ السلام لوہاری (زرہ گری) کا کام کرتے تھے۔ حضرت زکریا بڑھئی تھے۔ حضرت ادریس علیہ السلام درزی گری کا کام کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ گلہ بانی سے وابستہ رہے خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرائی ہیں اور تجارت فرمایا ہے، صحابہ کرام کھیتی اورباغ بانی فرما یا کرتے تھے۔ بڑے بڑے علماء و محدثین مختلف پیشوں سے وابستہ رہے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی اعتبار سے پیشہ و حرفت عزت و ذلت کا ذریعہ نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔

مال و اولاد:

پیشہ حرفت کی طرح مال و اولاد سے بھی آدمی کے اندر فخر و غرور پیدا ہوتا ہے اوراس سے محروم شخص کی حقارت و تذلیل کی جاتی ہے بلکہ بسا اوقات مال و اولاد کو اللہ سے قریب اور اس کی رضامندی کی علامت تصور کیا جانے لگتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

وقالوا نحن أکثر اموالاً و أولاداً و ما نحن بمعذبین  (سبا:۳۵)

انھوں نے کہا کہ ہم مال اور اولاد میں بڑھے ہوئے ہیںاور ہم پر عذاب نہیں آئے گا۔

قرآن مجید نے اس خیال فاسد کی تردید کی ہے اور انسانوں کو اس غلط فہمی کے دور کرلینے کی دعوت دی ہے۔ ارشاد ہے:

ان الذین کفروا لن تغنی عنھم أموالھم و أولادھم من اللہ شیئاً و اولئک ھم وقود النّار (آل عمران: ۱۰)

بے شک جنھوں نے کفر کیا تو کچھ کام نہ آئیںگے ان کے مال اور اولاد اللہ کے بالمقابل اور یہ لوگ جہنم کے ایندھن ہوںگے۔

قرآن مجید کی بعض آیات میں مال و اولاد کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیادہ عذاب کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:

فَلاَ تُعْجِبْکَ أَمْوَالُہُمْ وَلاَ أَوْلاَدُہُمْ إِنَّمَا یُرِیْدُ اللّہُ لِیُعَذِّبَہُم بِہَا فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَتَزْہَقَ أَنفُسُہُمْ وَہُمْ کَافِرُونَ (التوبہ:۵۵)

ان کے مال اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر تعجب نہ کرو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعے سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی بتلائے عذاب کرے اور یہ جان بھی دیں تو بظاہر حق کی حالت میں نہ دیں۔

علم و فن:

مال و دولت کی طرح باہمی افتخار کا ذریعہ علم و فن کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔ انفرادی طور پر یہ فخر و مباہات کا ذریعہ بنتا ہی ہے۔ قومی سطح پر علم و فن متمدن اور غیر متمدن اور مہذب اور غیر مہذب خانوں میں تقسیم کرتاہے۔ مغرب چونکہ علم و فن میں دوسری قوموں سے آگے ہے۔ لہٰذا اس نے باقی قوموں کو غلام تصور کیا۔ اسلام نے اس فخر و غرور کو بھی انسان کی غلطی قرار دیا ہے اور وہ انسان کے ذہن نشین کراتا ہے کہ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو لا علمی کی حالت میں ہوتا ہے۔ا للہ ہی اس کو علم و ہنر سے نوازتا ہے۔ ارشاد ہے:

وَاللّہُ أَخْرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَیْْئاً وَجَعَلَ لَکُمُ الْسَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون(النحل:۷۸)

اور اللہ نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹ سے نکالا دراں حالیکہ کچھ جانتے نہ تھے اور اس نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے شاید کہ تم شکر گذار بنو۔

اللہ تعالیٰ نے علوم و فنون کی بے شمارشاخیں پیدا کیں اور ان میں سے بعض علم و فن بعض کو عطا کیا اور بعض کو بعض دوسرے علوم وفنون عطا کیے۔ دنیا کا کوئی فرد تمام علوم و فنون جاننے والا نہیں ہوتا یعنی ایک پہلو سے وہ عالم ہے تو دوسرے پہلو سے جاہل ہوتا ہے۔

سارے علوم کا جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہے۔ پھر فخر و مباہات کس لیے۔

وفوق کل ذی علم علیم(یوسف: ۷۶)

ہر جاننے والے کے اوپر جاننے والا ہے۔

انہی کے ذریعہ انسانوں کے درمیان باہم عصبیتیں پیداہوتی ہیں جن کے نتیجے میں آدمی اندھا بہرہ ہو کر اپنی پسندیدہ قوم و گروہ کی حمایت بے جا کرنے لگتا ہے۔ اور حق و انصاف کے تقاضوں کو مجروح کردیتا ہے۔ انسانیت مختلف خانوں اور گروپوں میں منقسم ہوجاتی ہے اور وحدت انسانیت کا تصور پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔ اسلام نے اس طرح کی تمام عصبیتوں کو جڑ سے ختم کردیا ہے۔ اور ختم کردینے کی تعلیم دی ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

لیس منامن دعا الی عصبیۃ و لیس منا من قاتل لعصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ (ابوداؤد، کتاب الآداب، باب العصبیۃ، حدیث نمبر ۵۱۲۱)

وہ شخص ہم میں سے نہیں ے جو عصبیت کی طرف بلائے۔ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو حدیث کے لیے جنگ کرے اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر جان دے۔

اسلام نے مساوات و برابری کا جو تصور اور تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ کسی انسان کے تخیل کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ حالات اور معاشرتی کشمکش و آویزش کے نتیجے میںیہ پیش کیا گیا ہے بلکہ اس کا پیش کرنے والا خالق کائنات، رب العالمین  اللہ واحد کی ذات گرامی ہے۔ اللہ رب العزت نے صرف برابری اور مساوات کا عقیدہ ہی پیش نہیں کیا ہے بلکہ اس کی ٹھوس بنیادیں فراہم کی ہیں جن کے نتیجے میں انسانیت کو تقسیم کرنے والی تمام دیواریں خود بخود منہدم ہوجاتی ہیں۔ ذیل میں ان بنیادوں کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے۔

تمام انسانوں کا پیدا کرنے والا اللہ ہے:

انسان کا خالق اللہ رب العالمین ہے، اس نے اپنے حکم و ارادے سے روئے زمین پر زندگی کا وجود بخشا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو ہی پیدا نہیں کیا بلکہ اس کرہ کو لاکھوں ہزاروں قسم کے جانداروں اورحیوانوں سے آباد کردیا اور ان کو الگ الگ صلاحیتیں عطا کیا تاکہ انسان کی زندگی سہل ہو اور وہ دنیا میں اپنی تخلیقی مقصد کی تکمیل بخوبی کرسکے۔ چنانچہ انسان کوالگ الگ خطوں اور ملکوں میں بسانے کا اہتمام کیا گیا۔ وہاں کے حالات اس کے لیے سازگار بنائے گئے اور مختلف علوم و فنون، پیشہ و ہنر سکھایا گیا۔ الگ الگ خاندانی شجرے جاری ہوئے مگر سب کا خالق ایک ہے اور سارے انسانوں کی اصل بھی ایک ہے۔ ارشاد ہے:

(12) یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (الحجرات: ۱۳)

اے لوگو! ہم نے تم کو پیدا کیا مرد اور ایک عورت سے اور بنادیا ہے تم کو مختلف قومیں اور قبیلے تاکہ تم  ایک دوسرے کی پہچان کرسکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔

تمام انسانوں کے ماں باپ آدم و حوا ہیں:

روئے زمین پر انسان کی تخلیقی سلسلہ کا آغاز آدم و حوا علیہما السلام کے ذریعے ہوا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سارے انسان انہی کی اولاد ہیں۔ قرآن مجید میں اس حقیقت کو بہت واضح الفاظ میں واشگاف کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:

یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء  وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَاء لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْباً (النساء:۱)

اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے جس نے تم کو پیدا کیا ایک جان سے، اس سے اس کا جوڑے اور پھیلادیے ان سے بے شمار مرد و عورتیں اور ڈرو اللہ سے جس کا تم آپس میں واسطہ دیتے ہو۔ اور خبردار رہو رشتوں سے۔ بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔

اس اسلوب میں قرآن مجید کی متعد دآیات ہیں جنھیں انسان کے تخلیقی شروعات کا حوالہ دے کر انسان کو غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ (دیکھئے الانعام: ۹۸؛ الاعراف: ۱۸۹، الزمر:۶)

سارے انسانوں کا مادہ تخلیق بھی یکساں ہے:

انسانوں کاخالق اللہ، ان کے ماں باپ آدم و حوا بھی ایک اور ان کا مادۂ تخلیق بھی ایک مٹی (تراب) اور نطفہ بھییکساں، طریقۂ تخلیق بھییکساں اور سارے انسانوں کی تخلیق بھی یکساں اہتمام و توجہ سے کی گئی ہے۔ پھر آخر تفریق و امتیاز کی بنیاد کیا ہے۔ ارشاد ربانیہے:

اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر تمہارے جوڑ ے بنادیے۔ کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ اللہ کے لیےیہ بہت آسان کام ہے۔ (فاطر: ۱۱)

ازل میں لیے گئے میثاق میں سارے انسان شریک ہیں:

ازل میں سارے انسانوں سے یکساں طور پر میثاق لیا گیا۔ قرآن مجید میں وارد ہے کہ ازل میں حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت سے بندگی کا عہد لیا گیا تھا تو اس میں بھی کسی خاص نسل قوم اوربرادری کی افضلیت کا تذکرہ یا تخصیص بیان نہیں کی گئی تھی بلکہ تمام انسانوں سے یکساں طور پر میثاق لیا گیا اور سارے لوگوںنے یک زبان ہو کر اس کا اقرار کیا تھا۔ ارشاد ہے:

  وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِن بَنِیْ آدَمَ مِن ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَلَسْتَ بِرَبِّکُمْ قَالُواْ بَلَی شَہِدْنَا أَن تَقُولُواْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِیْنَ،أَوْ تَقُولُواْ إِنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّن بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ(الاعراف: ۱۷۲-۱۷۳)

اور اے نبی! لوگوںکو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اورانھیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا، ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں‘‘ انھوں نے کہا تھا’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘‘یہ ہم نے اس لیے کہا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم اس بات سے بے خبر تھے۔یایہ کہنے لگو کہ ’’شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادانے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔

عزت و تکریم تمام انسانوں کو یکساں طور پر بخشی گئی:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر مخلوقات سے اشرف بنایا ہے انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا۔ خشکی اورتری میں سفر کرنے کے ذریعے عطا کیے۔ عقل و دانش سے نوازا اور علوم و فنون کی صلاحیتیں عطا کیں۔ ان سا رے پہلوئوں سے سارے انسانوں کو سرفراز کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ بعض کو یہ فضیلتیں دی گئیں اور بعض کو نہیں دی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلا (الاسراء: ۷۰)

اورہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی اور ان کو سواری دی اور ہم نے ان کو فضیلت عطا کی ان بہتوں پر جن کو ہم نے پیدا کیا، بہت زیادہ۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

الرَّحْمَنُ،عَلَّمَ الْقُرْآنَ ،خَلَقَ الْإِنسَانَ ، عَلَّمَہُ الْبَیَان، (الرحمن:۱-۴)

رحمن، جس نے سکھایا قرآن، پیدا کیا انسان کو اور سکھایا اس کو بولنا۔

تمام انسانوں کو ایک ہی مقصد کے لیے پیدا کیا گیا:

دنیا میں انسانوںنے خود ساختہ طبقات بنالیے اور ان کے لیے الگ الگ مقصد زندگی طے کرلیا۔ برہمن کا مقصد زندگی وید پڑھنا اور پوجا پاٹ قرار دیا گیا، جبکہ شودر کا مقصد زندگی دوسری نسلوںکی غلامی اور خدمت کرنا قرار دیا گیا۔ اسلام کے نزدیک انسانوں کے اس مقصد زندگی کی تفریق و تقسیم ناقابل تسلیم ہے۔ اللہ رب العزت نے سارے انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ چاہے برہمن ہو، چاہے شودر ہو، چاہے عربی ہو، چاہے عجمی ہو، چاہے مغرب کا ہو، چاہے مشرق کا ہو، ارشاد ہے:

و ما خلقت الجنّ و الانس الا لیعبدون (الذاریات: ۵۶)

ہم نے انسانوں اور جنوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔

انسانیت کے تمام طبقات حسن سلوک کا مستحق ہیں:

اسلام نے انسانیت کے ہر طبقہ سے حسن سلوک کی تعلیم دی ہے،دنیا میں نابرابری اور عدم مساوات کے نتیجے میں انسانیت مختلف طبقات میں منقسم ہوگئی۔ غلام، آقا، عورت، مرد، مزدور، آجر، کمزور اور طاقت ور، حاکم اور محکوم وغیرہ اسلام نے تمام پس ماندہ طبقات چاہے وہ غلاموں کا ہو، چاہے مزدوروں کا یا عورتوں یا بے سہارا کمزوروں کا یکساں طور پر سب کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے اور ان کے لیے سماجی معاشی اور قانونی تحفظات فراہم کیے ہیں۔ حضرت علی ۔رضی اللہ عنہ۔ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری کلمات یہ تھے، نماز کی پابندی کرو اور ماتحتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ ارشاد ہے:

عن علیؓ قال کان آخر کلام رسول اﷲﷺ الصلوٰۃ الصلوٰۃ واتقوا اﷲ فیما ملکت أیمانکم (ابوداؤد کتاب الادب باب حق المملوک)

حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ وفات کے وقت رسول اللہ ﷺ کے آخری کلمات یہ تھے۔ نماز ، نماز اور ڈرو اللہ سے اس کے سلسلے میں جو تمہاری ملک میں ہیں۔

قرآن مجید میں نیکی کے حقیقی معنی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرلینا نیکی نہیں ہے بلکہ حقیقی نیکییہ ہے کہ اللہ، آخرت، ملائکہ، کتاب اور انبیاء پر ایمان لایا جائے اور اللہ کی محبت میں اپنا محبوب مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، ضرورت مندوں اورغلاموں کی آزادی میں خرچ کیا جائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو کمزوروں میں تلاش کرو، تمہیں رزق انھیں کمزوروں کی وجہ سے عطا کی  جاتی ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب الانتصار برذل الخیل و الضعفۃ)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر انسانوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ (ترمذی، ابواب البر و الصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الناس)

مساوات کے قیام میں نبی کریمﷺکا اسوہ:

برابری اورمساوات کے ضمن میں قرآن مجید کی تعلیمات و تلقینات کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ بھی موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق کے منصب پر قائم تھے۔ ساتھ ہی آپ ؐ نے سماجی اورمعاشرتی مساوات کا ایسا نمونہ بھی پیش کیا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قا صر ہے۔ ذیل میں چند واقعات درج کیے جاتے ہیں۔

۱-     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مجلسیں لگایا کرتے تھے مگر آپؐ کبھی صحابہ کرامؓ سے ممتاز ہو کر اونچی جگہ یا مقام پر نہیں بیٹھے۔ جب کہ آج کل مذہبی رہنماؤں اور سیاسی لیڈروں کا طریقہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام صحابہ کرام کے ساتھ مل جل کر بیٹھتے تھے۔ ساتھ کھانا تناول فرماتے، حتی کہ غلاموں کے ساتھ میں بیٹھا کرتے تھے۔

۲-    مشکل حالات میں قوم کے مخصوص شخصیات کے ساتھ خصوصی معاملہ ہونے لگتا ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکلات اور مصائب میں بھی اپنے لیے کوئی علاحدہ مقام و مجلس نہیں بنایا نہ امتیازی معاملہ کرنا گوارہ فرمایا، شعب ابی طالب میں محصوری سیرت نبوی کے مشکل ترین ادوارمیں سے ہے۔ تین سال تک آپ کا اورآپ کے ساتھیوں کا سماجی و معاشی بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ اس دوران فاقہ کشی کی نوبت آئی مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دوسروں کو چھوڑ کر آپ کو کھانا مہیا کیا جاتاہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو گوارافرمایا ہو۔ جنگ احزاب کے موقع پر خندق کھودنے کے دوران صحابہ کرامؓ کے ساتھ آپ بہ نفس نفیس خندق کھودنے میں شریک رہتے۔ صحابہ اگر فاقہ کشی سے گذر رہے تھے تو آپﷺکے  بطن مبارک پر دو دو پتھر بندھے ہوتے تھے۔

غزوات اور جنگوں میں سواریوں کے ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ سے کوئی سواری کا اہتمام نہیں فرمایا۔غزوۃ ذات الرقاع میں چھ چھ آدمیوں پر ایک سواری آتی تھی۔ آپ ﷺکا نام بھی چھ اصحاب میں شامل کیا گیا اور باری باری آپﷺسواری فرماتے۔ صحابہ کرامؓ کے اصرار کے باوجود آپﷺنے الگ سے سواری لینا پسند نہ فرمایا۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر میں آپﷺصحابہ کرامؓ کے ساتھ برابر شریک رہے۔ دیگر صحابہ کی طرح آپﷺبھی اینٹ پتھر اور گارا ڈھوتے تھے۔

سماجی مساوات کے ضمن میں آپﷺنے اپنے کو عدالت میں انتقام کے لیے پیش فرمایا۔ آپﷺنے اپنی ذات گرامی کے ساتھ اپنے خاندان  اور اہل بیت پر قانون کے نفاذ کا اعلان فرمایا۔ آپﷺکے بے لاگ فیصلہ اور قانون عدل و مساوات برپا کرنے کے نتیجہ میں بہت کم مدت میں جزیرۃ العرب میں عدل و انصاف کی حکمرانی قائم ہوگئی اور ظلم استبداد کا خاتمہ ہوگیا۔

ایک اشکال اوراس کا جواب:

اسلام کی تعلیمات مساوات و برابری کی عکاس ہیں۔ تمام سماجی، معاشی اور قانوی امورمیں مختلف طبقات کے درمیان مساوات کی تعلیم دی گئی ہے جس کامطالعہ سابقہ صفحات میں پیش کیا گیا مگر مسلمانوںکی عملی زندگی اور ان کا معاشرہ ا ور سماج طبقاتی تقسیم اور امتیاز کے خطرناک اور بھیانک جال میں پھنسا ہوا ہے، مثلاً جس طرح ہندو مذہب میں ورن آشرم ا ور ذات پات کے تقسیمات ہیں اسی طرح مسلم سماج میں بھی ذات پات، اشرف و ارذل کے خانوں میں منقسم ہے۔ سید،شخ، پٹھان، خان، انصاری، منصوری، سیفی، عثمانی،قریشی وغیرہ وغیرہ مختلف برادریوں میں نہ صرف منقسم ہے بلکہ ان کے درمیان سماجی سلوک اور رویوں میں تحقیر و تذلیل اور معاشرتی مسائل میں تفریق و امتیاز پایا جاتا ہے۔ شادیوں میں کفو کے حوالے سے ایک برادری دوسری برادری سے تعلق رکھنے کی وجہ سے باہمی نکاح اور شادیاں نہیں ہوتیں اگر ہوجائے تو وہ کام یاب نہیں ہوتیں۔ آخر پھر اسلام کے تصور مساوات کا کیا حاصل ہے اور قرآ ن و حدیث کے نصوص کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا فائدہ کیا ہے؟

اشکال کا جواب :

یقینا اشکال بہت سنجیدہ اور سنگین ہے اور واقعی مسلمانوں میں عملی طور پر یہ کوتاہیاں موجود ہیں مگر اس ضمن میں کچھ بنیادی باتوں پر غور کرلیا جائے تو صورت مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

۱-     ذات پات کا تصور اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہے جبکہ ہندو مذہب میں طبقاتی تقسیم مذہب کا حصہ ہے۔ ہندو مت کی معتبر کتابوں میں اس کی تعلیمات دی گئی ہیں اور ہزاروں سالوں سے برادرانِ وطن نے اس پر مذہبی تعلیم کی حیثیت سے عمل کیا ہے۔ ظاہر ہے ایک برائی کو مذہب کیتائید بھی حاصل ہو تو اس کی حیثیت دوسری ہوجاتی ہے، جبکہ اسلام کی خالص تعلیمات اور قرآن وحدیث میں کہیں بھی ذات پات کا حوالہ نہیں ملتاہے۔اس کے برعکس نصوص شرعیہ میں نسلی و خاندانی عصبیتوں کو جاہلی امور میں شمار کیا گیا اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے۔

۲-    مسلمانوں کے طرز عمل کو کبھی بھی اسلام کا ترجمان نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ان کا طرز عمل ایک چیز ہے اور اسلام کی تعلیمات دوسری چیزہیں۔ ذات پات کے تصور کے ضمن میں ہی نہیں بلکہ اور بھی دوسرے پہلوئوں سے مسلمانوں میں بے شمار عملی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ اسلام ان سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔ چنانچہ علماء امت اور مصلحین قوم مستقل انھیں ان کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ متعدد علماء نے ذات پات کے تصور کو اپنی تحقیق کاموضوع بنایا ہے اور اس کی قباحتوں کو واشگاف کر کے ملت کو اپنی اصلاح کی دعوت دی ہے۔

۳-    ذات پات کا تصور ہندوستانی معاشرہ ہی میں پایا جاتا ہے۔ دنیا کے اور دوسرے مسلم معاشرے میں اس کا کوئی وجود نہیں اور اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں میںیہ تصور ہندومعاشرے کی وجہ سے ہے۔ مسلمانوں میں اب بیداری آرہی ہے اور رفتہ رفتہ مسلمان اس کے حصار سے باہر نکل رہے ہیں۔

۴-    مسلم معاشرے میں ذات برادری کا تصور صرف تہذیبی معاملے میں پایا جاتا ہے۔ سماجی معاملات میں اس کی وجہ سے کسی سے بھی امتیازانہ سلوک نہیں کیا جاتا، یعنی کسی مسلمان کی پس ماندگی کا حوالہ تہذیبی طور پر دیا جاتا ہے کہ فلاں کے اندر تعلیم کی کمی ہے ، فلاں معاشرتی اصول و آداب سے واقف نہیں وغیرہ مگر خرید و فروخت، لیں دینیا سکونت کے اعتبار سے ذات پات کا تصور نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہندو آبادی اور بستیاں ذات پات اور طبقاتی تقسیم کے اعتبار سے متعارف ہوتی ہیں ویسے ہی مسلم بستیاں متعارف نہیں ہیں۔ ہندو معاشرے میں دلت گاؤں، چمار بستی، ٹھاکر گائوں سے جانے جاتے ہیں، مسلمانوں میں ایسا کبھی نہیں رہا کہ شیخ گاؤں، سید گاؤں، انصاری بستی، قریش گاوں سے جانا گیا ہو۔

۵-    مسلم معاشرے میں چاہے جس درجے میں ذات برادری کے تصورات موجود ہوں مساجد اور عبادت گاہیں بہرحال آج بھی  ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز کی تصویر پیش کرتی ہیں جو کہ ایک اطمینان کا پہلو ہے۔ متعدد مسلم حکمرانوں نے اپنے غلاموں کو اقتدار سونپ کر سنہری مثالیں قائم کی ہیں۔ اس ضمن میں مسلم حکمرانوں کی تاریخ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

۶-    ہندوستان میں مسلمانوں میں ذات پات کے تصور کو ا سلام کی دعوت اور اس کے فروغ کو روکنے کے لیے بڑھاچڑھاکر پیش کیا گیا۔چنانچہ ڈاکٹر بھیم رائوامبیڈکر کے واقعہ سے بھییہ ظاہر ہوتاہے کہ انھوں نے جب اپنی برادری کے ساتھ اسلام قبول کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو برہمن لابی ان کے پیچھے پڑ گئی اور مسلمانوں کے اندر ذات پات کے تصور کو اتنے بھیانک انداز میں پش کیا کہ موصوف اسلام قبول کرنے کے ارادے سے پیچھے ہٹ گئے اور بودھ دھرم قبول کرلیا۔ اور بھی دوسری مثالیں اس کا ثبوت ہیں۔ جب باطل کی اسلام کی صاف و شفاف تعلیمات کے اثرات کے روکنے میں ایک نہیں چلی تو اس نے مسلم سماج میں موجود ذات پات کے تصور کو مبالغہ آمیز طورپر اجاگر کیا اور برادران وطن کے ذہن کو مسموم کیا۔

۷-    موجودہ دورمیں بہت سی سماجی معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ آج مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تعلیم سے آراستہ وپیراستہ ہورہی ہیں۔ اور مزعومہ ذات پات کے حصار سے وہ خود کو نکال رہی ہیں اور بینذات شادیاں منعقد ہورہی ہیں۔ یہ ایک خوشد آئند بات ہے گو کہ اس کے محرکات دینی نہیں ہیں بلکہ سماجی معاشی اور معاشرتی ہیں مگر بہرحال تصویر بدل رہی ہے۔

۸-    مسلم سماج میں ذات پات کے بعض حوالے ضرور موجود ہیں مگر اس کی مثال خال خال کی ہے۔ بعض حوالے انگریزی دور حکومت کی یا دگار ہیں اس وقت مسلمان غلامی اور محکومی کی حالت میں تھے۔ آزادی کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی ہے اور دینی اعتبار سے بھی لوگوں میں بیداری آ رہی ہے۔ کئی مسلم تنظیمیں اور جماعتیں اس حوالے سے سرگم عمل ہیں اور مسلمانوں کو تمام باطل وغیر شرعی رسوم و رواج کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرانے کی جہد مسلسل اور سعی مشکور کررہی ہیں۔

خلاصہ بحث یہ کہ مساوات اسلام کی ایک بہت بنیادی قدر ہے جو بہر صورت دوسرے مذاہب،نظریات اور معاشروں میں نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا دنیا میں ظلم و استبداد کے خاتمے کے لیے مساوات کو برپا کرنا مسلمانوں کے فرائض منصبی میں سے ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *