از قلم: شمیم اختر ثناء اللہ سلفی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
کسی بھی قوم و ملت کی ترقی کا دارو مدار تعلیم پر منحصر ہو تا ہے، تعلیم ہی ہمہ جہت ترقی کا ضامن ہے ۔ تعلیم کی اہمیت و افادیت قدیم زمانے سے ہر قوم و طبقہ میں رہی ہے ۔ تعلیم سے قوموں کی شناخت ہو تی ہے تعلیم سے قو میں مہذب کہلاتی اور با اخلاق کہی جاتی ہیں ۔ ماضی میں مسلمانوں میں تعلیم تھی اس لئے مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں عروج حاصل ہوا اور دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمان سیا سی طاقت بن کر ابھرے,ہندوستان میں مسلمانایک مدت مدید تک حکومت کر تے رہے ۔ جس کی بنیادی وجہ تعلیم تھی, لیکن آج کل مسلمانوں میں تعلیم کا فقدان ہے؛اب حکومت کرے تو کیسے کرے؟ ۔ تعلیم چا ہے روایتی ہو یا عصری ہو ، دونوں میں ان کی نمائندگی اور موقف بہت کمزور ہے ۔ ایسے میں کیسے مسلمان ہمہ جہت ترقی حاصل کر ے گا ۔ مسلمانوں کی تعلیم سے دوری کا ایک سبب یہ بتلایا جا تا ہے کہ یہ طبقہ آزادی کے بعد معاشی طور پر کمزور ہو گیا ہے ، اس کی معاشی جڑیں کاٹ دی گئی ہیں ۔ دیگر ابنائے وطن کو بھی یہ احساس ہے کہ آزادی کے بعد مسلمان تعلیمی طور پر پسماندہ ہو گئے جب کوئی قوم تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہو جا تی ہے تو اس کی نمائندگی زندگی کے ہر شعبہ میں کمزور ہو جا تی ہے اور اس کا معاشی سماجی اقتصادی ، تہذیبی ، ثقافتی موقف کمزور ہو جا تا ہے ، چنانچہ 1۷۵۸۱ء کے بعد مسلمانوں میں تعلیم سے بیداری و تعلیمی شعور اجا گر کر نے کیلئے بانئی علی گڑھ مسلم یونیور سٹی سر سید احمد خاں ، مولانا الطاف حسین حالی ، علامہ شبلی نعمانی نے انہیں جدید تعلیم کی طرف سے مائل کر نے کی کوشش کی لیکن پھر بھی 21یں صدی میں مسلمان تعلیمی طور پر پسماندہ ہے تدارک کے طور پر بہت کچھ کوششیں کی جارہی ہیں ۔ ہر دیہی علاقے گاؤں میں تعلیمی مہم چلائی جا رہی ہے؛ مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کے تدارک کیلئے کاوشیں ہو تی رہی ہیں اور ہو تی جارہی ہیں ۔ لیکن پھر بھی تعلیمی طور پر ان کا موقف بہت کمزور ہے، اس کا انسداد و تدارک ناگزیر ہے ۔ مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کیلئے ایس سی ، ایس ٹی کی طرح سب پلان بنانا ضروری ہے تاکہ مسلم طبقہ ہر لحاظ سےکامیاب ہو سکے ۔ ۔
مسلمان بر سوں سے عصری تعلیم سے دور ہے ، عصری تعلیم کا جذبہ معاشی کمزور ی کے جذبے کے تحت مانڈ پڑگیا ہے ۔ آج بھی درسگاہوں ، جامعات میں عصری تعلیم و عصری کورسیز میں مسلمانوں کی تعلیمی شرح بہت ہی کم ہے مختلف مذہبی گروہوں کی بنسبت ہم مسلمانوں کی تعلیمی حالات نا کے برابر ہے ،ہندستانی مسلمان اپنی آبادی کے مقابلے میں ملک میں تعلیمی لحاظ سے پسماندہ طبقات سے بھی کافی پیچھے رہے ہیں ۔ ہندوستان میں دیگر کمیونٹیوں کے تناسب سے مسلمانوں میں ابتدائی درجے سے ہائر ایجوکیشن تک تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرح سب سے کم ہے جوانتہائی افسوس کی بات ہے ۔ بہر حال دیگر طبقات کے لوگ خطیر رقم دے کر عصری اور جدید سائنس ٹکنا لوجی پر مبنی کورسیز کر رہے ہیں ۔ ویسے مسلمان معاشی فکر میں ایسے منہمک ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم عصری تعلیم کے ثمرات و فوائد سے کوسوں دور ہیں ، اس کا ذمہ دار کون ہے سیاسی جماعتیں ۔ سماجی دانشور یا مسلمانوں کی غفلت لاپرواہی اہل دانش کیلئے سوالیہ نشان ہے وہی قو میں عروج حاصل کر تی ہیں جو زیور تعلیم سے آراستہ پیراستہ ہوں کیوں کہ شعبہ حیات میں ترقیات بھی تعلیم سے ہو تی ہیں لیکن اس ملک میں ایسے پسماندہ ہیں کہ وہ عصری جدید تعلیم کی فیس بھی ادا نہیں کر سکتے ۔ صرف ایک مثال انجنیئرنگ اور میڈیکل کی لے لیں ، اگر ان کورسیس کے انٹرانس امتحانات میں مسلم بچے میرٹ یا ایک ہزار کے اندر رینک نہ لائیں تو خطیررقم دے کر مذکورہ کورسیس میں اتنی معاشی طاقت و قوت نہیں ہے کہ وہ پیسہ دے کر تعلیم حاصل کر سکیں ۔ مسلمانوں کو آزادی کے بعد معاشی طور پر کمزور کر دیا گیا ۔ مختلف ایکٹ کے تحت ان کی جاگیریں اور زمین چھین لی گئی ۔ بالخصو ص موجودہ بی جے پی حکو مت جب سے آئی ہے تب سے بے قصور مسلم نوجوان طلبا ء و طالبات کو کبھی ’لوجہاد‘کے نام پر کبھی ’ماب لنچگ ‘کے نام پر کبھی این ایس اے ،یو اے پی اے‘ کے تحت جیل کے سلاخو ں میں ڈھکیل دیا جا تا ہے جہاں عدا لتوں سے انصاف ملنا ممکن ہی بلکہ محال ہے ۔ ایک طالب علم کے پاس جو بھی معاشی ذرائع اور وسیلے ہو تے ہیں وہ بھی تبا ہ و بر باد اور ختم کر دئے جاتے ہیں ۔ اور جگہ جگہ اوقافی جائیداد وں پر نا جائز قبضہ ہے اور بعض جائیداد یں فروخت کر دی گئی ۔ اوقافی جائیدادوں سے مسلمانوں کو فیض پہنچ سکتا تھا لیکن نہیں پہنچ رہا ہے ۔ اب یہ قوم حکومت پر تکیہ کئے ہوئے ہے کہ حکومتی اسکیمات سے مدد مل جائے تو فیض اٹھا ئیں ۔ اس سے بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے کیو نکہ ان اسکیمات کے اصول اور قواعد سخت ہوا کر تے ہیں ۔ بہر حال غریبوں تک فائدہ کم ہی پہنچ رہا ہے کوئی ایسی ترکیب اور پلان بنا یا جائے جس کے ذریعہ مسلمان عصری تعلیم حاصل کر سکے ۔ ملک میں جدید اور عصری ٹکنالوجی کے ادارے موجود ہیں اور عصری تعلیمی ادارہ بھی ہیں لیکن ان میں مسلمانوں کا تناسب نہ کے برابر ہے اب بتائیے کیسے مسلمان زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کر سکے ۔
ان کا معاشی ، سماجی ، سیاسی، ثقافتی معاشرتی موقف بہت کمزور ہے ۔ کسی بھی شعبہ میں عہدہ ،رتبہ نہیں ملا اور نہ ملے گا ، ایک تعلیم ہی ہے جس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی معاشی ، سماجی ، سیاسی ، تہذیبی معاشرتی حالت درست ہو سکتی ہے اور ان کا تعلیمی THINK TANK تیار ہو گا ۔ اب تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ مسلمان ہندوستان کے حالات کے رحم و کرم پر جی رہا ہے ۔ مسلمانوں کو ملک کے دیگر ابنائے وطن کے برابر کر تا ہو تو مرکزی اور ریاستی حکومتیں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے تدارک و انسداد کیلئے سب پلان بنا ئے اور ملازمتوں کے لئے 12فیصد تحفظات کا اعلان کریں ۔ یہ یاب حقیقت ہے کہ تحفظات سے تعلیمی ، معاشی ترقی ہو سکتی ہے اور ہورہی ہے جو غریب طبقہ تھا جب ان کیلئے سب پلان کا اعلان ہوا تو ان کی زندگیوں میں تبدیلیاں آئیں ہیں ۔ ایسے میں مسلمانوں کیلئے وقت و حالات کے تقاضوں کے تحت تحفظات کی از حد ضروری ہے ۔
سرسید احمد خاں سے لے کر سید حامد تک مسلمانوں میں تعلیمی بیداری شعور لا نے کی انتھک کوشش کی گئی ہیں ۔ تعلیمی کارواں کا آغاز ہوا اور ہر انجمن تعلیمی ترقی کے لئے جدو جہد کررہی ہےلیکن پھر بھی خاطر خواہ نتائج بر آمد نہیں ہو رہے ہیں ؛آخر کیا بات ہے؛جی ہاں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں عصری تعلیم عام کر نے کیلئے کوئی مضبوط تنظیم نہیں ہے اور نہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق ہے ۔ مختلف امتیازات و مسالک کی بنیاد پر بھارت کے مسلمان بٹے ہوئے ہیں اس لئے مسلم طبقہ سماجی ابتری کا شکار ہو گیا ہے ۔
لہذا اگر مسلم طبقہ تمام اختلافات کو با لائے طاق رکھ کر تعلیمی و ترقی کیلئے متحد ہو جائے تو مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب آسکتا ہے ۔ مسلمانوں کے بڑے تعلیمی ادارہ خود مسلمانوں کو فیض پہنچانے سے قاصر ہیں ، ان کے اداروں میں غیر مسلم بچوں کی تعداد زیادہ ہو تی ہے ۔ موجودہ تعلیمی نظام میں زمانے کے تقاضوں کے تحت جو تعلیم مروج ہے، اس پر زور دینا ضروری ہے اور مسلم بچوں کو ترغیب دینا ہوگا کہ عصری تعلیم کے حصول کے لئے جدو جہد کریں ۔ مسلم طبقہ عصری تعلیم کے ثمرات اس کی اہمیت و افادیت سمجھے ۔ صرف چند خاندان کے افراد عصری تعلیم حاصل کر لیں تو کچھ نہیں ہوگا بلکہ مسلم طبقہ عصری تعلیم کے حصول پر توجہ دیں ۔ آزادی کے بعد مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں پسماندہ ہوگیا ۔ اس طبقہ کا نہ کوئی THINK TANK ہے اور نہ مسائل کی سنوائی کر نے والا ہے ، ان کے معاشی ،تعلیمی ، سماجی تقاضوں کی تکمیل کیلئے کل ہند سطح پر مدبر سیاست داں ، دانشوروں کا آکال پا یا جا تا ہے ۔ بہر مسلم طبقہ کو چاہئے کہ وہ اپنے نو نہالوں اور بچوں کو عصری تعلیم کی طرف متوجہ کریں ۔ عصری تعلہم سے سماج میں ایک مقام بنے گا اور شناخت قائم ہوگی ورنہ زما نہ و وقت ہمیں معاف نہیں کر ے گا ۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آغاز اسلام سے لے کر آج تک اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم و عصری ی علوم کو حاصل کر نے کی تہذیب مسلمانوں میں مسلسل موجود رہی ہے ۔ اگر ہم سائنس کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں مسلمانوں کا کرشمہ ہے ۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم نے امت کو جہاں مفسرین، محدثین،مفکرین اور فقہاء دئے ہیں وہیں انہیں تاریخ ، ہندسہ، فلکیات اور جغرافیہ کی جدید راہوں کی طرف رہنمائی کر نے والے سائنس داں بھی دئے ہیں ۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں تعلیم گاہوں میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم طبیعاتیاور سائنسی علوم کی بھی تعلیم دی جاتی تھی ، اور تعلیمی ،تربیتی ، تمدنی انتظامی اور سیاسی تعلیمی اداروں کی روایت ہ میں بتاتی ہے کہ دینی علوم کی تعلیم کے ساتھ وقت کے تقاضوں کے مطابق عصری علوم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا رہا ہے ۔ جہاں تک دینی مدارس میں عصر ی علوم پڑھانے کی بات ہے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مدارس کے نصاب میں ہمیشہ سے عصری تعلیم موجود رہی ہے بقدر ضرورت ۔ علم جغرافیہ ، فلکیات اور حساب ہر زمانہ میں اس نصاب کا حصہ رہے ہیں ۔ عصرحاضر میں دینی و تحقیقی کاموں میں انٹر نیٹ کی ضرورت و اہمیت ، ابلاغی ذمہ داریوں کو پورا کر نے کے لئے انگریزی و عربی زبانوں پر عبور اور صحافت کے فن کو حاصل کر نے کے لئے بہت سے مدارس نے انگریزی و عربی کو شامل کیا ہے ۔ کمپیوٹر ، صحافت ، دعوت و ارشاد اور جدید ابلاغی تدرسی صلاحیتوں پر مبنی چھوٹے بڑے متعدد کورسز جاری کر رکھے ہیں جہاں اکثر طلبا و طالبات ان چیزوں سے استفادہ کر تے ہیں ۔ بہر حال برصغیر میں انگریزوں کے غلبہ سے پہلے عصری و دینی علوم کے مابین فرق نہ تھا ۔ ۔ اس وقت جہاں ’’مدارس‘‘ کا لفظ بو لا جا تا تھا تو اس سے مراد صرف دینی تعلیم نہ ہو تی تھی بلکہ دنیاوی تعلیم بھی تھی 1780ء سے پہلے مسلم دنیا میں ایک نظام تھا جب انگریزوں کی آمد ہندوستان میں ہوئی تو بہت سے مسائل نے جنم لیامسلمانوں کی تعلیم پر بھی منفی اثر پڑا ۔ انگریزوں نے مسلمانوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دئے تا کہ مسلمانوں پسماندہ ہو جائیں ۔ ان سنگین حالات میں مسلمانوں کو دو بڑے چیلنجز کا سامنا کر نا ایک تو دین اسلام کو محفوظ کرکے آئندہ نسلوں میں منتقل کر نا اور دوسرا دشمن اسلام کا مقابلہ کر نا مسلمانوں نے دین کو محفوظ کرنے کے لئے جگہ جگہ مدارس قائم کئے جو دین کے قلعے ہیں جہاں سے خالص کتاب و سنت و بقائے دین کے لئے صدائیں بلند ہو تی ہیں ۔
لہٰذامسلم معاشرہ کی ضروریات اور مقتضیات کے لحاظ سے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کی وکالت کرتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی کو اس بات کا شدید احساس ہو گیا تھا کہ جدید مغربی تعلیم مسلمانوں کے لئے کتنا ضروری ہے اور اگر وہ اس میدان میں پیچھے رہ گئے تو ترقی کی دوڑ میں بھی پیچھے رہ جائیں گے ۔ لہٰذا فر ماتے ہیں کہ مسلمان اس وقت کش مکش زندگی کے میدان میں ہیں ان کی ہم سایہ قو میں مغربی تعلیم ہی کی بدولت ان سے اس میدان میں سبقت لے جارہی ہیں ۔ اگر خدانحواستہ مسلمان عصری و مغربی تعلیم میں ذرا بھی پیچھے رہ جائیں تو ان کی ملکی اور قومی زندگی دفعتہ برباد ہو جا ئے گی ۔ (مقالات شبلی، مطبع معارف اعظم گڑھ ، ج ۳،۷۲۱،ء۲۱)اس کے ساتھ آپ کو اس بات کا بھی احساس دامن گیرتھا کہ جدید تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم کا انتظام نہیں ہے ۔ یہ اک بہت بڑی کمی ہے جس کی تلافی ضروری ہے ۔ اس کے متعلق فر ماتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس (جدید) طریقہء تعلیم میں ہماری مذہبی اور قومی خصوصیات کا کوئی انتظام نہیں ہے اس میں نہ مذہبی تعلیم ہے اور نہ ہی قومی تاریخ سے کچھ واقفیت ہو سکتی ہے، نہ ہی اسلامی اخلاق اور مسائل اخلاق کا علم ہو سکتا ہے ۔
لہٰذا آپ ان اداروں میں تعلیم حاصل کر نے والے طالب علموں کے لئے دینیات کے ایسے نظام کی ضرورت کو محسوس کرتے تھے جس سے وہ دین کی بنیادی تعلیم اور ضروری مسائل سے واقف ہوں ۔ فرماتے ہیں کہ یہ ظاہر ہے کہ انگریزی تعلیم یافتہ لوگوں سے ہم کو مذہبی خدما ت یعنی امامت ،وعظ اور افتاء کا کام نہیں لینا ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ وہ خود بخود بقدر ضرورت مسائل اسلام اور تاریخ اسلام سے واقف ہوں ۔ اس کے لئے صرف ایک مختصر اور جامع و مانع سلسلہ بہ سلسلہ کتب دینیات کی ضرورت ہے جس میں سلسلہ بہ سلسلہ اسکول سے کالج تک کے قابل کتابیں ہوں اس سلسلہ میں تین قسم کی کتا بیں ہونی چاہئے ۔ عقائد اور تاریخ اسلام و فقہ وغیرہ ۔ علامہ شبلی چاہتے تھے کہ مسلمان دینی اور عصری جدید اور قدیم دونوں طرح کی تعلیم حاصل کریں ، اور جدید تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم لازم کر دی جائے تا کہ طالب علم کا اپنے مذہب سے تعلق باقی رہے اور اسی طرح قدیم تعلیم کے ساتھ جدید اور عصری تعلیم طلباء کو پڑھا یا جائیں تا کہ وہ اپنے معاش کا نظم کرسکیں ۔ فر ماتے ہیں کہ ’’یہ مناسب نہیں کہ مشرقی تعلیم سے بالکل بے اعتنائی اختیار کی جائے ، البتہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کو زیادہ کارآمد بنا یا جائے اور مذہبی حصہ کو چھوڑ کر باقی چیزوں میں ایسی ترقی اور اصلاح کی جائے کہ مشرقی تعلیم یافتہ لوگوں کی معاش کے لئے کچھ وسائل پیدا ہوسکیں ۔ ’’(مقالات شبلی،ج۳، ۰۵۱)نیز فرماتے ہیں ’’ہم نے بارہاکہا ہے اور اب پھر کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے لئے نہ صرف انگریزی مدرسوں کی تعلیم کا فی ہے نہ ہی قدیم عربی مدرسوں کی ۔ ہمارے درد کا علاج ایک ’’معجون مرکب ہے ، جس کا ایک جزء مشرقی اور دوسرا جزء مغربی ہے ‘‘ اسی طرح آپ نے بالخصوص علماء کرام کے لئے انگریزی زبان سیکھنے پر بہت زور دیا ہے تاکہ وہ انگریزی جاننے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے انگریزی میں باتیں کریں اور اسلام کی صحیح تعلیمات ان کے سامنے پیش کریں ۔ ایک جگہ علامہ شبلی فر ماتے ہیں کہ :’’عالم یا فاضل کے درجہ کے بعد ضروری ہے کہ چند طلبا ء کو دو برس تک خالص انگریزی زبان میں تحریر و تقریر کا ملکہ ان کے اندر پیدا ہواور ایسے علماء پیدا ہو ں کہ یورپ کی علمی تحقیقاتی کو اسلامی علوم میں اضافہ کر سکیں اور انگریزی داں جماعت کے مجمع میں ان ہی کی زبان اور خیالات میں اسلامی عقائد اور مسائل پر تقریر کر سکیں ۔ (مقالات شبلی ،ج۳)بنیادی دینی تعلیم کا حصول ہر شخص پر واجب ہے لیکن علوم دینیہ میں اختصاص کمال اور اس فن میں مہارت تامہ حاصل کر نا ہر ایک پر واجب نہیں ، کیونکہ اگر ایک شخص دینی علوم میں مہارت تامہ حاصل کر نے لگے گا تو جدید علوم کے ماہرین کہاں سے آئیں گے جن کے بغیر دنیا میں طاقت و قوت کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کوئی زندہ اور ترقی یافتہ قوم ان علوم سے صرف نظر ہی کر سکتی ہے ۔ انسان کے ناتواں کاندھوں پر خلافت کی عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے ۔ خلافت کی عظیم ذمہ دایوں کو عمدہ طریقہ سے پایہ ٔ تکمیل تک پہنچانے کے لئے دنیا کے انتظام و انصرام ، ایجادات اور فن کا جاننا اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر وہ خلافت کے بار عظیم کو بہتر طریقہ سے انجام نہیں دے سکتا ۔ لہٰذا آج مسلمانوں میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم وفنون کاحاصل کر نا اشدضروری ہے اس کی طرف بھرپور توجہ دی جائے کیونکہ قرآن و سنت کے مطالعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہمیں دنیاوی تعلیم یعنی جدید و عصری علوم حاصل کر نے سے نہیں روکا ہے بلکہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے ’’طلب العلم فریضۃعلی کل مسلم ۔ (ابن ماجہ کتاب العلم )مذکورہ حدیث میں صرف ’’العلم ‘‘کا لفظ آیا ہے جس سے دینی و دنیاوی تعلیم دونوں مراد ہیں ۔ اسی طرح جب ہم اسلامی تاریخ کا بنظرغائرمطالعہ کر تے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جب غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور کافر شکست خوردہ ہو گئے تھے ، اور مال غنیمت کے ساتھ کافروں کے ستر ۷۰ آدمی قید بھی کر لئے گئے تھے تو حضورپاک ﷺ نے کفار قیدیوں کے لئے فدیہ کا حکم صادر فر ما یا اور یہ بھی حکم دیا کہ اگر کوئی فدیہ نہ دے سکے تو وہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفار جو دس مسلمان بچوں کو تعلیم دیتے تھے وہ صرف دینی ہی نہیں بلکہ دنیاوی و عصری علوم بھی شامل تھیں ۔ اسی طرح کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں سے لکھنا سیکھا تھا ۔ (سیرۃ النبی علامہ شبلی نعمانی، ج،۱)اسی طرح صحابہ کرام جہاں قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کر تے ہیں وہیں سائنسی علوم سے بھی بہرہ مند ہو تے۔
مذکورہ ان تمام باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائنسی ایجادات کا سلسلہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو آپ ﷺ کے زمانے سے ہی شروع ہو گیا تھا ۔ لہٰذا صحابہ کرام کے دور میں عصری علوم وفنون نے خوب ترقی کی ۔ بحری بیڑے کی ایجاد مسلمانوں کا عظیم الشان کا ر نامہ ہے ۔ مسلمانوں نے ہر دور میں جدید تقاضوں کے مطابق بڑے بڑے اسلحے ایجاد کئے ۔ لہٰذا موجودہ دور میں مسلمانو ں میں دینی و اسلامی تربیت کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کی فراہمی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ ہم جمیع مسلمانوں کو اپنے بچے اور بچیوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم حاصل کرنے اور اس کی طرف بھر پورتوجہ دینے کی توفیق دے اور دونوں علوم وفنون کی قیمتی جوہر سے آراستہ و پیراستہ ہونے کی توفیق عطافر مائے ۔ (آمین)