از:ندیم أختر سلفی
(فاضل جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ؛داعی و مبلغ اسلام دعوہ سینٹر حوطہ سدیر)
“بُزدِلی“: کسی ناگوار اور غلط چیزکودیکھکر جان و مال اور مفاد کا ڈر اور خوف کے اندیشے سے اسےنہ روکنابزدلی کہلاتی ہے اور ایسے انسان کوبُزدل کہاجاتاہے، یہ خوف انسان کے ارادوں کو مضبوط نہیں ہونےدیتا، اسےنڈر، بےباک اور حق کہنے والا نہیں بننےدیتا۔
“بُزدلی” ایک نہایت مذموم اور ذلیل صفت ہے، بزدلوں کا اللہ پرتوکل بہت کمزورہوتاہے، بزدلی پر کسی تہذیب کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی، قوم و ملت کی ترقی نہیںہوسکتی، بزدلی سے حقوق ضائع ہوتےہیں، فرائض اور واجبات بربادہوتےہیں، اخلاق وقِیَم کا وجود خطرے میں پڑجاتاہے، اس سے رشتےکمزورہوتےچلےجاتےہیں، کسی بھی سماج کے لئےبزدلی کا وجود امن و شانتی کے لئےخطرہ بن جاتاہے، بزدلی کا سایہ پورے سماج کوجنگل بنادیتاہے، بزدلی منافقوں کی صفت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رذیل صفت سے پناہ مانگاکر تےتھےجیسا کہ حدیث میں ہے:÷اللَّهُمَّ إنِّي أعُوذُ بكَ مِنَ الجُبْنِ، وأَعُوذُ بكَ مِنَ البُخْلِ× “اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے، تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے” (بخاری: ح 6374)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےبارے میں فرمایا :÷لا تَجِدُونِي بَخِيلًا، ولَا كَذُوبًا، ولَا جَبَانًا×”مجھےبخیل، جھوٹا اور بُزدلنہیںپاؤگے” (بخاری ح: 2821)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ÷ألَا لا يَمنَعَنَّ أحَدَكم رَهْبةُ النَّاسِ أنْ يقولَ بحَقٍّ إذا رَآهُ أو شَهِدَه؛ فإنَّه لا يُقرِّبُ من أجَلٍ، ولا يُباعِدُ من رِزْقٍ× “لوگوں کا ڈرتمہیں حق بات کہنے سے نہ روکے، جب کوئی حق بات دیکھے (تو اسے بلا خوف وخطر کہہ ڈالے) کیونکہ اس سے نہ وہ موت کے قریب ہوگا اور نہ ہی رزق سے روک دیاجائےگا” (ترمذی ح: 2191)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:÷شرُّ ما في رجلٍ شُحٌّ هالِعٌ وجُبنٌ خالعٌ×”انسان میں دو وصف بہت بُرے ہوتے ہیں: ایک یہ کہ حریص وبخیل ہونے کے ساتھ ساتھ دل کا کچا ہو، دوسرا یہ کہ اتنا بزدل ہوکہ گویا دل ہی نکل جائے گا” (ابو داؤد ح: 2511)۔
اب تو سماج کے کچھ لوگ اتنے بزدل اور مفاد پرست ہوچکےہیں کہ منکر اور خلاف شرع بات اور کام کودیکھ کرنہ صرف خاموش رہتےہیں بلکہ اس کی ہاں میں ہاں بھی ملاتےہیں، شادی بیاہ کے موقع پر اس کا خوب مشاہدہ ہوتاہے، غلط رسم ورواج کوکرنےوالےچندہوتےہیں، لیکن خاموش تماشائی اور بزدل بن کر اس کوبڑھاوادینےوالےسارے ہوتےہیں، انہیں ڈرہوتاہےکہ کہیں انسانی بخشش سے محروم نہ کردئےجائیں، کہیں ان کا مالی نقصان نہ ہوجائے، کہیں وہ بے عزت نہ کردئےجائیں۔
کیایہ بات سچ ہے کہ اب ہمارے سماج میں بزدلی کا سایہ بڑھتا جارہا ہے؟اگرنہیں تو پھرشرکوبدعات، مُحَرَّمات اور شادی کے جاہلانہ اور مشرکانہ رسم ورواج جہیز، بارات اور مہندی وغیرہ کے خلاف خاموشی کیوں؟ اگریہ بزدلی نہیں تو مخالف شرع کسی بھی تقریب میں خاص طور پرشادی کی تقریب میں آپ اور آپ کے اہل خانہ شریک کیوں ہوتےہیں، اس کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے؟ اگرایسانہیں کرتے تو آپ مانیں یانہ مانیں آپ بزدل ہیں۔
ہر سال مدارس اسلامیہ اور مختلف علوم وفنون سے لیس فارغ ہونےوالے علم دوست اور سماجی کے لئے بہتر سوچ رکھنے والے حضرات آخر ہیں کہاں؟ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیوں نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ بھی بزدلی کے شکارہوگئےہیں؟لوگ پڑھنے کے بعد جری اور بہادربنتےہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ پڑھنے کے بعد بزدل بنتےجارہےہیں۔
اگرایساہے تو پھر سماج کی بربادی کے وہ ذمہ دار تو ہوں گےہی آسمان والےکی طرف سے عمومی عذاب کے شکار بھی ہوسکتےہیں، کیونکہ جب کھلے عام غلط کام کرنےوالوں کا ہاتھ نہیں روکاجاتاہے تو اس بستی پراللہ کا عمومی عذاب آتا ہے، پھردعاؤں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ÷والذي نَفسي بيدِهِ لتأمُرُنَّ بالمعروفِ، ولتنهَوُنَّ عن المُنكَرِ، أو ليوشِكَنَّ اللهُ أنْ يبعَثَ عليكم عِقابًا منه، ثم تَدْعونَهُ فلا يُستجابُ لكم×”مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضروربالضرورنیکی کا حکم دو گے اور گناہوں سے روکوگےیاپھراللہ اپنےہاں سے تم پر عذاب بھیج دےگا، پھر تم دعائیں بھی کروگے تو تمہاری دعائیں قبول نہ ہوں گی”(ترمذی ح: 2169)
اگر کسی کو آپ ہاتھ اور زبان سے نہیں روک سکتے تو دل میں برا جانتےہوئے اس تقریب سے الگ ہوجائیں، چاہےوہ تقریب آپ کے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو حالانکہ یہ ایمان کا سب سے آخری درجہ ہے، اگریہ انکار کرنا اور علیٰحدہ ہونا تعلقات میں کشیدگی کا سبب بن رہاہے تو بننےدیں آپ کا کوئی نقصان نہیں اگر آپ مخلص ہیں، اللہ کے سوا کسی کا بھی خوف آپ کو حق بات کہنے اور خلاف شرع باتوں کی مذمت کرنے سے نہ روکے، یہ نہ آپ کے رزق کے مالک ہیں اور نہ نفع و نقصان کے، وہ تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
مصلحت ہے کہ بزدلی ہمدمؔ
خامشی آگئی سخن میں بہت