مظلوم و مقہور مسلمان

 از قلم:محمد جرجیس کریمی

الحمد لله الذي علَّمَ بالقلم، علَّم الإنسانَ ما لم يعلَم، والصَّلاة والسَّلام على النبيِّ الأكرَم، نبيِّنا ومعلِّمنا محمد – صلَّى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلَّم.

اعداد و شمار کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو دنیا کی ایک بڑی قوت کی حیثیت سے امت مسلمہ سامنے آئے گی۔ ١٩٦٠ء میں پوری دنیا میں مسلمانوں کی آبادی صرف چالیس کروڑ تھی، آج ٢٠٢١ء میں یہ آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ ہے، یعنی دنیا کی آبادی کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے۔ دنیا میں تقریباً دو سو ممالک ہیں جن میں ستاون مسلمانوں کی زیر حکمرانی ہیں۔ چینی قوم دنیا کی ایک بڑی قوم ہے ، اس کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ سے زیادہ ہے؛ مگر اس کے پاس صرف ایک ملک ہے۔ ہندو قوم بھی بڑی قوم ہے، اس کی آبادی ایک ارب ہے ؛ مگر اس کے پاس صرف دو ملک ہندوستان اور نیپال ہیں۔مسلم ملکوں کا مجموعی رقبہ تقریباً دو کروڑ مربع کلو میٹر ہے۔ چین کا رقبہ ٩٥ لاکھ اور ہندوستان کا ٣٢ لاکھ مربع کلو میٹر ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ امت مسلمہ کے پاس ایک چین اور تین ہندوستان ہیں۔ مسلم دنیا میں انڈونیشیاسب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ جس کی آبادی ٢٥ کروڑ کے قریب ہے۔ سب سے کم آبادی والا ملک مالدیپ ہے، جس کی آبادی صرف چار لاکھ کے قریب ہے۔غیر مسلم ملکوں میں بھی بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی بیس کروڑ سے زائد ہے ۔ اس طرح چین، روس، امریکہ، یوروپ اور آسٹریلیا میں کثیر تعداد میں مسلمان آ باد ہیں۔

یہ مسلمانوں کی تصویر کا صرف ایک پہلو ہے ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ امت مسلمہ اس وقت پوری دنیا میں ظلم و استبداد کا شکار بنی ہوئی ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں مسلمانوں کی مظلومیت کی داستان ختم نہیں ہونے پاتی کہ کسی دوسرے کونے میں نئی داستانِ مقہوریت لکھی جانے لگتی ہے۔ مقامی و ملکی سطح سے لے کر عالمی پیمانے تک مسلمانوں کو لقمۂ تر اور چارۂ نرم بنا لیا گیا ہے۔فرقہ وارانہ فسادات میں جان و مال کا ضیاع ، تعلیم کا بھگوا کرن، مسلم پرسنل لا میں مداخلت، یکساں سول کوڈ، اوقاف پر نا جائز قبضے، مذہبی مقامات پر قبضے ، دہشت گردی کے نام پر مسلم نو جوانوں کی گرفتاریاں، مسلم آزاری اور بے روزگاری کے کوڑے امتِ مسلمہ ہندیہ پر مسلسل برسائے جا رہے ہیں تو عالمی سطح پر فلسطین، افغانستان، عراق، چیچنیا، اراکان، تھائی لینڈ، چین میں سنگیانگ، بنگلہ دیش میں پاکستانی بہاری، دنیا بھر میں سات کروڑ مسلم مہاجرین کی حالت زار، مسلمانوں کی مظلومیت و مقہوریت کی داستان سنانے کے ساتھ ان کی بے بسی اور لا چارگی کی تصویربھی پیش کرتی ہیں۔ بعض ملکوں کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی داستان صدیوں سے لکھی جا رہی ہے اور پوری عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ کے ارکان ممالک خاموش تماشائی ہی نہیں بلکہ ظالموں کی پیٹھ تھپتھپانے میں مصروف ہیں۔ ذیل میں اس اجمال کی تھوڑی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔

مظلوم فلسطینی:

ادارۂ حقوقِ انسانی کی رپورٹ کے مطابق فلسطین میں١٩٤٨ء سے لے کر آج تک یہودیوں نے پندرہ لاکھ افراد کو گرفتار کیا ہے، ان کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور طویل عرصے تک مقدمہ چلائے بغیر جیلوں میں بند رکھا ہے۔ تین لاکھ فلسطینیوں کو زخمی کیا ہے اور ان میں سے چالیس ہزار سے زیادہ افراد کو مستقلاً معذور بنا دیا ہے۔اصل فلسطین عرب باشندوں میں سے اتنی بڑی تعداد کو ملک بدر کیا ہے۔کہ اب فلسطین سے باہر فلسطینی مہاجرین کی تعداد ٤٥ لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو اسرائیل کی پوری یہودی آبادی کے برابر ہے۔ غزّہ کو اوپن جیل کہا جاتا ہے اورآئے دن ان پرراکٹوں اور طیاروں سے حملے کرنا اسرائلی حکومت کی عادت بن گئی ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ فلسطین مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو امریکہ نے اب تک (یعنی اقوامِ متحدہ کے قیام سے لے کر اب تک) ستّر بار ‘ویٹو’کیا ہے، ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم پر ظلم کرتا جا رہا ہے اور اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔

دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت  روہنگیا مسلمان:

برمی حکومت اراکان کے (روہنگیا) مسلمانوں پر عرصۂ حیات طویل عرصے سے تنگ کرتی جا رہی ہے ۔ مسلمانوں کے ملّی تشخص کو مٹانے اور ان کو دین و ایمان سے الگ کرنے میں برمی حکومت نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ حکومتی شعبوں سے اراکانی مسلمانوں کو بے دخل کیا گیا، ملک کے اندر آزادانہ آمد و رفت پر پابندی لگائی گئی، جائیداد فروشوں پر جبری محصولات لگائے گئے، ان کی تجارت و صنعت کو ضبط کیا گیا، اکثر مدارس و مساجد میں تالے لگائے گئے، مسلمانوں کو بیرون ملک امت مسلمہ سے روابط سے روکا گیا۔١٩٧٨ء کے دوران منظم طریقے سے لاکھوں مسلمانوں کو ملک بدر کیا گیا ۔ سرکاری ریکارڈ میں پہلے دو لاکھ اور ٢٠١٧ء میں پانچ لاکھ سے زائد اراکانی مسلمانوں کو بالجبر ہجرت پر مجبور کیا گیا۔لاکھوں مسلمان مرد، عورت، بچے اور بوڑھوں کو دردناک طریقے سے قتل کیا گیا۔

اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ میں رخائین (روہنگیا) مسلمانوں کو روئے زمیں پر سب سے زیادہ مظلوم اقلیت قرار دیا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق  تو دور کی بات ہے انھیں خود کو ملک کی شہری کہلانے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ برما دنیا میں واحد ملک ہے جو محض مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے شہریوں کو شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔حکمرانوں کا خیال ہے کہ چوں کہ مسلمان یہاں غیر قانونی طور پر ہجرت کر کے آئے ہیں اس لیے انھیں کسی طرح کے شہری حقوق حاصل نہیں ہو سکتے۔ چناں چہ انھیں تاریخ کے مختلف ادوار میں اجتماعی ہجرت کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے بلکہ ان کا اجتماعی قتل بھی کیا گیا ہے۔ برما میں اراکانی (روہنگیا) مسلمانوں پر ظلم و ستم کی داستان طویل ہے۔ ١٩٦٢ء میں فوجی حکومت نے لاکھوں مسلمانوں کا قتل کیا۔ ١٩٨٢ء تک قتل و غارت گری جاری رہی ١٩٩٧ء میں رخائین صوبے میں مسلمانوں پر اندھا دھند گولیاں چلا کر قتل عام کیا گیا۔ ٢٠٠١ء میں سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ ایک درجن مساجد منہدم کی گئیں ، ٢٠١٢ء میں ایک بودھ لڑکی کو اسلام قبول کرنے اور پھر اس کے قتل کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا گیا۔ اسی طرح سال بسال مختلف حیلے، بہانے سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ہوتی رہی، یہاں تک کہ ٢٥ اگست ٢٠١٧ء کی تاریخ طلوع ہوئی اس دن سے مسلمانوں کے خلاف قتل عام کا ایسا خوف ناک اور بھیانک سلسلہ شروع ہوا کہ پوری انسانیت شرمسار ہے۔ ایمینشی انٹر نییشنل کی جانب سے اقوامِ متحدہ کو لکھے گئے ایک مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ”میانمار میں فوج اور حکومتی جتھوں کی جانب سے ٥ روز میں دوہزار ایک سو گاؤں کو مسلمانوں سمیت خاکستر کر دیا گیا ، دس ہزار افراد بھاگتے ہوئے مارے گئے، ایک ہزار پانچ سو سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی ۔ زندہ انسانوں کے اعضا کاٹ کر چیل کووں کو کھلایا گیا ، ایک لاکھ تیس ہزار افراد شدید زخمی ایک لاکھ افراد جنگلوں میں محصور ہیں۔ بنگلہ دیش حکومت کی سنگ دلی کی باعث کشتیوں میں سوار بیس ہزار افراد سمند میں بھٹکنے پر مجبور ہیں۔ لگتا ہے دنیا میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔آئندہ دس دنوں میں کسی ملک نے مداخلت نہ کی تو اموات میں لاکھوں کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ فوری طور پر امن فوج بھیجی جائے”  (سہ روزہ دعوت ١٣ ستمبر ٢٠١٧ئ)

امن فوج تو بھیجی نہیں جا سکی ، لاکھوں جانوں کی ہلاکت ہوئی اور لاکھوں افراد ملک بدر ہوئے ، اللہ معلوم ظلم و ستم کا یہ سلسلہ کب ختم ہوگا؟

مظلوم عراقی:

١٩٩٠ء میں عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا ۔ اس کا بہانہ بنا کر امریکہ کی سرکردگی میں دنیا کے انتیس ممالک نے عراق پر حملہ کر دیا اور عراقی افواج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ کئی سال تک عراق کا معاشی محاصرہ کیا گیا جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد اور بچے فوت ہو گئے ، نائن الیون کے بعد امریکہ نے عراق پر پھر ایک بار حملہ کر دیا ۔ ٢٠١٠ء کے آغاز تک عراق میں اکتیس لاکھ جانوں کا اتلاف ہو چکا تھا۔ ابو غریب جیل میں چار لاکھ عراقی مقید تھے ۔ عراق میں ایسی اور ٣٦ جیل ہیں جہاں لاکھوں لوگ نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ لاکھوں عراقی دوسرے ممالک میں پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے ہیں اور انتہائی بد ترین حالات کے شکار ہیں ۔ لاکھوں عراقی زخمی اور معذوری کی حالت میں جی رہے ہیں جن کومناسب علاج تک دست یاب نہیں، پال بریمرجو عراق کا امریکی وائس رائت تھا وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ”جو کچھ ہوا اس کا بیان کرنا ہول ناک، نا قابل برداشت، غیر انسانی اور انسانی شرف، عالمی امن اور اخلاقی اقدار کے خلاف ہے”   (المجتمع، کویت، عدد ١٩٨١، دسمبر ٢٠١١ئـعالمی سہارا ، ٢٠ مارچ ـترجمان القرآن ، لاہور، جون ٢٠٠٤ئ)

گوانتا ناموبے کے مظلوم قیدی:

قیدیوں کے عقوبت خانے گوانتاناموبے کیمپ کا حوالہ ذرائع ابلاغ میں گذشتہ کئی سالوں سے آتا رہا ہے ،۔ امریکہ نے پہلے افغانستان سے مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر قید کیا اور یہاں کے قید خانوں میں مقید کیا پھر عراق اور دوسرے مختلف ممالک سے مسلمانوں کو قیدی بنا کر لایا گیا ، مجموعی طور پر چالیس سے پینتالیس ممالک کے قیدی یہاں لائے گئے جن کی تعداد سینکڑوں (تقریباً آٹھ سو ) افراد پر مشتمل ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کو رہا کیا گیا مگر جو لوگ بھی یہاں لائے گئے، سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا اور نہ کوئی عدالتی کارروائی کی گئی۔

ایک ارب ساٹھ کروڑ کی امت مسلمہ کے مقابلے میں چند سو افراد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مگر گوانتاناموبے میں مقید بد نصیبوں کو جس انسانیت سوز طریقے سے سزائیں دینے کی اطلاعات اخبارات میں شائع ہوئی ہیں، یقیناً وہ نہ صرف امت مسلمہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے بلکہ انسانیت کے لیے شرمناک ہے خود بعض امریکی فوج کے اعلی ذمہ داران نے اعتراف کیا ہے کہ یہاں جو بد نصیب لائے جاتے ہیں انھیں کچھ پتہ نہیں کہ وہ کبھی یہاں سے زندہ نکل پائیں گے ؟ ان میں کئی بے گناہ ہیں لیکن اس بات کی تصدیق ہوجانے کے باوجود کئی کئی برس تک اذیت ناک قید کاٹتے ہیں۔  (افکارِ ملّی،جولائی ٢٠٠٤ئ)

مظلوم افغانی:

١١ ستمبر ٢٠٠١ء میں ورلڈٹریڈسینٹر پر حملے کا بہانہ بنا کر ١٧اکتوبر ٢٠٠١ء میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا ، فضائی اور زمینی جنگ میں سینکڑوں ٹن گولہ بارود افغانستان کی سر زمین پر پھینک گرایا جس کی وجہ سے پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک افغانی مارے گئے اور لاکھوں زخمی ہوئے۔تیس لاکھ کی تعداد سے زیادہ افغانی پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔٣١اگست ٢٠٢١ء کو امریکہ اور دیگر قابض ملکوں نے افغانستان سے انخلاء کر لیا ہے ؛ مگر افغانستان کی تعمیرِ نو اور باز آباد کاری میں سالوں لگیں گے۔

مظلوم چیچن:

چیچن مسلمان روسی مظالم کے چار سو سالوں سے شکار ہیں اور روس نے وہاں سنگین انسانی حقوق کی پامالی اور جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔اس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی سے ہوا اور باربار چیچن آبادی کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ ١٩٤٤ء میں اسٹالن نے پوری چیچن قوم کو ملک بدر کر کے پوری نسل کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی۔جن میں پندرہ لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے۔پھر ظلم و ستم کی چکی سال بسال چلتی رہی اور چیچین اس میں پستے رہے۔ یہاں تک کہ ١٩٩٩ء  میں روس نے چے چینیا پر جدید جنگی ہتھیاروں سے حملہ کر دیا اور بے تحاشا فضائی بم باری کی۔ جس میں عورتیں اور معصوم بچے بڑی تعداد میں مارے گئے ، مختلف کارروائیوں میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ تین لاکھ کے قریب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے باقی اپنے ہی گھروں میں بے گھر ہیں یعنی ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیااور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

چین میں خونِ مسلم کی ارزانی:

مشرقی ترکستانی جمہوریہ جس کو سنگیانگ (چین) بھی کہا جاتا ہے ،١٩٦٩ء میں چین نے قبضہ کر لیااورچین کا ایک صوبہ قرار دے دیا جب کہ اس سے پہلے وہ ایک آزاد مملکت کی حیثیت رکھتا تھا اس کی آبادی ایک کروڑ نوے لاکھ تھی اور نوے فیصد مسلمانوں کی آبادی تھی مگر چینی حکومت کی متعصبانہ پا لیسیوں کی وجہ سے اب وہاں پیتالیس فیصد مسلمان رہ گئے ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں کو ایغور کہا جاتا ہے۔ یہ مستقل چینی حکومت کے ظلم و جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ تمام طرح کے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے اور آئے دن مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو گرفتار کیا  جاتا ہے اور انھیں جیلوں میں ڈالنا چینی حکومت کا معمول بن گیا ہے۔ مجموعی طور پر ایغور مسلمان سخت تنگی اور جبر کے ماحول میں جی رہے ہیں اور ان کے مختلف انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں ۔(چین میں مسلم خون کی ارزانی، ابوظفر عادل، افکار ملّی ، اگست ٢٠٠٩ئ)

لہو لہان شام:

٢٠١١ء سے شام لہو لہان ہے۔حکومت کے خلاف عوامی احتجاج نے تشدد کی شکل اختیار کر لی ہے اور پھر مسلح بغاوت کی تحریک شروع ہو گئی۔ حکومت کی طرف سے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے بے تحاشا لوگوں حتی کہ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کیا گیا۔ ٢٠١١ء سے اب نصف ملین (پانچ لاکھ) سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ سرسٹھ لاکھ کی تعداد میں دوسرے سرحدی پڑوس ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں بعض پناہ گزیں کیمپوں کی حالت انتہائی بد تر ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ نہ حکومت اقتدار چھوڑنے کے لیے آمادہ ہے۔ نہ باغی اسلحہ رکھنے پر آمادہ ہیں، قتل و غارت گری کا سلسلہ یوں ہی جاری ہے ۔سطور ذیل لکھے جانے تک بغاوت پوری طرح کچل دی گئی ہے گویا مکمل طور سے ظالم حکومت کا اقتدار بحال ہو چکا ہے۔ شام کے متعدد شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی مندوب گیئر ہیڈرسن نے اس بات پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ دس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اقوامِ متحدہ اب تک شام کے بحران کو حل کرنے میں کوئی طریقہ تلاش نہیں کر سکا انھوں نے مزید کہا کہ شام کا بحران حالیہ تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک شمار کیا جائے گا اور شام کے عوام اس صدی کے عظیم ترین متأثرین کہلائیں گے۔

مظلوم پناہ گزیں:

اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین نے ٢٠٢٠ء کے عالمی رجحانات کے بارے میں اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیاہے کہ جنگ، تشدد، ظلم و استبداد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے تقریباً آٹھ کروڑ چوبیس لاکھ افراد کو جبری طور پر بے گھر ہونا پڑا۔ یہ تعداد ٢٠١٩ء کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ ہے۔گذشتہ نو سال سے مسلسل اس میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے سرحدوں کی بندش بھی لوگوں کو مہاجرت سے نہیں روک سکی۔کیوں کہ جنگ اور مظالم کی وجہ سے وہ اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

جبری طور پر ہجرت کرنے والوں میں تقریباً آٹھ کروڑ بیس لاکھ افراد میں سے دو کروڑ چونسٹھ لاکھ وہ پناہ گزیں ہیں۔جنھوں نے اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں پناہ لے رکھی ہے۔جبکہ باقی لوگ لڑائیوں اور تشدد کی وجہ سے اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو کر محفوظ علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے۔اس نوعیت کے مہاجرین کی تعداد پچھلے دس برسوں میں دگنی ہو گئی ہے۔ان میں چوبیس فیصد نابالغ بچے ہیں۔ بیرون ملک میں پناہ گزینوں میں دو تہائی افراد کا تعلق شام و نیزویلا افغانستان ، جنوبی سوڈان اور میانمار سے ہے۔

١٩٤٨ء میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور میں کہا گیا کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ظلم و ستم سے بچنے کے لیے پناہ تلاش کرے اور اسے حاصل کرے۔ ١٩٥٠ء میںپہائی کمشنر برائے اقوام متحدہ کا دفتر قائم کیا گیا۔١٩٥١ء میں پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے کنویشن نے اس بین الاقوامی ذمہ داری کی بنیاد کا تعین کر دیا ہے کہ وہ ایسے افراد کو ان ملکوں میں واپس نہیں بھیجیں گے، جہاں ان کی زندگیوں اور ان کی آزادی کو خطرہ لاحق ہو۔

اقوام متحدہ کے ان واضح ہدایات کے باوجود آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خاص طور سے یوروپ اور امریکہ پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے اپنی سرحدوں پر دیواریں کھڑی کرنے ، خار دار باڑ لگانے اور سمندری راستوں پر زیادہ چو کسی برتنے جیسے اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ گویا پناہ گزین دوہرے حالات کے شکارہیں ، مظالم کی وجہ سے وہ اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں تو جہاں وہ پناہ لینا چاہتے ہیں۔ وہاں بھی نا موافق حالات کا نشانہ بنتے ہیں۔

مسلم اقلیتوں کی صورت حال:

ہندوستان میں ١٨دسمبر کو اقلیتی حقوق کا دن منایا جاتا ہے لیکن انسانی حقوق کے کار کنوں کا کہنا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے جبکہ ایک بین الاقوامی رپورٹ میں بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔

ساؤتھ ایشیاء اسٹیٹ آف مائنارٹیز رپورٹ ٢٠٢٠ء میں کہا گیا ہے کہ بھار ت بر سر اقتدار پارٹی کے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں اور اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک بن گیا ہے ۔ ساؤتھ ایشیاء ہیومن رائٹس ڈاکیومنیشن سینٹر کے ذمہ دار اعلی نے کہا کہ یوں تو موجودہ حکومت اور ہندتوا کی طاقتوں نے جو خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے اس سے تمام ہی اقلیتی فرقے خوف زدہ ہیں لیکن مسلمانوں کی صورت حال کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔ روی نائر کا کہنا ہے کہ ”حکومت بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے منصوبہ بند کوششیں کر رہی ہے، شہریت ترمیمی قانون بل اور پھر دفعہ اسی لیے بنایا گیا ہے ، اتر پردیش میں انسداد تبدیلی مذہب کا قانون اس سلسلے کا حصہ ہے۔ اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر اقدامات شروع کر دیئے گیے ہیں۔”

سچر کمیٹی رپورٹ میں ہندوستانی مسلمانوں کو در پیش مسائل کو اجاگر کر کے ان کو ختم کرنے کے بارے میں تجاویز دی گئی تھیں۔ یہ مسائل خاص طور سے معاشی، سیاسی، اور سماجی پہلوؤں سے متعلق تھے۔ہندوستانی مسلمانوں کی پس ماندگی پر یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی چودہ فی صد ہے مگر بھارتی سول سروس (انڈین بیورو کریس) میں ان کی نمائندگی محض ڈھائی فی صد ہے۔ سچر کمیٹی نے یہ بھی واضح کیا کہ مسلمانوں کی حالت شیڈول کاسٹ (دلت) اور شیڈول قبائل (آدی باسیوں ) سے بھی گئی گزری ہے۔ سچر کمیٹی رپورٹ نے قومی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ عدم مساوات کو واضح کیا ہے۔

ہندوستان میں ملک کے دستور میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ملک میں اقلیتی ادارے موجود ہیں، عدالتوں میں ہر ایک کو فریاد کرنے کی آزادی حاصل ہے؛ مگر اس کے باوجود یہاں اقلیتوں پر ظلم و زیادتی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔گو رکھشکوں کی طرف سے مآب لنچنگ میں درجنوں مسلمانوں کو مارا گیا ، بعض لوگوں کو وندے ماترم، جی شری رام اور بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا ، اکثریتی فرقے کے انتہا پسند گروہ ملک پر مکمل اجارہ داری حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس راہ میں وہ مسلمانوں کو اپنا حریف تصور کر کے اس کے قلع قمع کرنے کے در پے ہے۔

دنیاکے دیگر خطوں میں بھی مسلم اقلیتوں کی حالت بہتر نہیں ہے۔ مغربی ممالک میں گزشتہ دو دھائیوں سے قرآن، اسلام، رسالتِ مآب اور شعائر اسلام کی توہین کے ذریعے مسلمانوں کا مذہبی و جذباتی استحصال کیا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک یوروپ و امریکہ میں نائن الیون کے بعد برقع، ٹوپی، داڑھی اور اذان پر پابندیاں لگانے کی کوششیں کی گئیں ، برقع پوش خواتین کی تذلیل کے متعدد واقعات رونما ہوئے، لمبی داڑھی والے مسلمانوں کی داڑھیاں نوچی گئیں حتی کہ بعض اوقات انھیں ملک چھوڑنے کی دھمکی بھی دی گئی خاص طور سے فرانس، برطانیہ اور جرمنی جیسے ملکوں میں مسلمان تنگی اور خوف کے ماحول میں جی رہے ہیں۔

****

One response to “مظلوم و مقہور مسلمان”

  1. adminz says:

    ما شاء اللہ
    بہترین تجزیہ
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *