معاف کرنانبی کے اخلاق میں سے ہے

از قلم:ندیم أختر سلفی مدنی 

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے نبی کے کمالِ اخلاق کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا:(وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ)( سورۃ القلم:4)(اور بے شک آپ بہت بڑے اخلاق پر ہیں)۔

ہرکسی کو معاف کردینا آپ ﷺ   کے عظیم اخلاق میں سے ہے، چنانچہ بخاری ومسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ  وہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم    کے ساتھ نجد کے اطراف میں ایک غزوہ میں شریک تھے، جب آپ جہاد سے واپس ہوئے تو آپ کے ساتھ  یہ بھی واپس ہوئے، راستے میں قیلولہ (یعنی دوپہر میں آرام)کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں ببول کے بہت درخت تھے، آپ نے اسی وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ پوری وادی میں (درخت کے سائے کے لئے) پھیل گئے، آپ نے بھی ایک ببول کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکادی، ہم سب سوگئے تھے کہ آپ کے پکارنے کی آواز سنائی دی تو دیکھا کہ ایک دیہاتی آپ کے پاس تھا، آپ نے فرمایا کہ اس نے غفلت میں میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور میں سویا ہوا تھا، جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی، اس نے کہا: مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ! تین مرتبہ(میں نے اسی طرح کہا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرگئی)، آپ نے اس بدوی کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ بیٹھ گئے”۔ (راہ البخاری:2910)۔

اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی  جو آپ نے اٹھالی اور اس سے کہا: “اب تجھ کو مجھ سے کون بچائے گا؟”  تو اس نے کہا کہ میرے ساتھ اچھا معاملہ کریں، آپ نے اس سے کہا کہ تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی برحق معبود نہیں اور  میں اللہ کا رسول ہوں؟اس نےکہا: نہیں،  لیکن آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ آپ سے قتال نہیں کروں گا اور نہ ان کا ساتھ دوں گا جو آپ سے قتال کریں گے،  تو آپ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا اور اسے جانے دیا،  وہ آدمی اپنے ساتھیوں کے پاس آیا  اور کہاکہ میں سب سے بہتر انسان کے پاس سے آرہا ہوں”۔(صحیح ابن حبان:2883)۔

غور کریں کہ آپ نے اس شخص کو اتنے مشکل وقت میں بھی معاف کردیا، آپ چاہتے تو اس سے بدلہ لے سکتے تھے  کیونکہ آپ اس پر قادر تھے، لیکن آپ نے اپنے بلند اخلاق اور بہادری کی مثال دیتے ہوئے اسے معاف کردیا،  اور نبی کی یہی شان  ہوتی ہے۔

êاس واقعہ کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ  ایسے مشکل وقت میں بھی آپ وعظ ونصیحت اور دعوت وارشاد سے غافل نہیں ہوئے، بلکہ اس بہترین فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شخص پر دین کو قبول کرنے کی دعوت پیش کی اور اسے شہادتین یعنی لا الہ الا اللہ اور محمد رسول  اللہ کے اقرار پر ابھارا،  انکار کرنے پر نہ اسے اسلام پر مجبور کیا ، نہ قتل کرنے کا حکم دیا اور نہ کوئی اور سزا دی، پھر صحابہ کرام کو عمدہ اخلاق کو اپنانے پر وہ عملی سبق دیا جسے وہ کبھی نہ بھولیں۔

یہ تھا نبیصلی اللہ علیہ وسلم    کا وہ اخلاق جسے آج نہ صرف بیگانے بلکہ اپنوں کو بھی بتانے کی ضرورت ہے، اگر عفو و در گزر میں نبی کے اخلاق کو اپنالیں تو ہم ملکی،  عائلی اور  سماجیبہت ساری دشواریوں سے آسانی سے نکل سکتےہیں، غیروں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لئے آج کے مسلمانوں کو اپنے نبی کا اخلاق پیش کرنا ہوگا، ان کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا تبھی جاکر ہم دوقوموں کے بیچ کی کھائی کو پاٹ سکتے ہیں۔ اللہ ہمیں اپنے  نبی کا سچا جانشیں بنائے۔آمین

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *