تحریر: نسیم لعل
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امام الہند مولانا أبوالکلام آزاد ایک عبقری، نابغہ روز گار اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، اللہ تعالٰی نے انہیں غیرمعمولی ذہانت وفطانت اور علم وبصیرت سے نوازا تھا، وہ ایک ماہر عالم دین، عظیم مفکر وفلسفی، بلند پایہ خطیب وادیب اور میدان سیاست کے ایک کامیاب وممتاز سیاستداں تھے، محبت وطن سے حد درجہ سرشار اور ہر وقت آزادی وطن اور عوام کی فلاح وبہودی کے لیے فکر مند رہنے والے ایک مقبول قائد تھے، پر امن بقائے باہم اور ملکی اتحاد وقومی یکجہتی کے عظیم علمبردار تھے، انہوں نے ہندومسلم اتحاد کے لئے بہت ہی جانفشانی اور اور سخت محنت وکوشش کی اسی لیے اس قومی اتحاد کو منشر کرنے والے شرپسند عناصر کی زبردست زجر وتوبیخ کرتے اور ایسے بیان دینے والوں کی سخت نوٹس لیتے، خود ہمیشہ ایسے بیان وتحریر سےپرہیز کرتے تھے جس سے ہند ومسلم اتحاد پر ضرب پڑے کیونکہ ان کے نزدیک ملکی اتحاد اورقومی ہم آہنگی کے بغیر آزاد کا خواب دیکھنا بہت بڑی بھول تھی، وہ فقط مسلمانوں کے ہیرو اور رہنما نہ تھے بلکہ پورے ہندوستان کے ایک مقبول اور پراعتماد قائد تھے، وہ صرف ایک بے باک ودلیر مجاہد ہی نہیں بلکہ لشکر مجاہدین کے اولین سپہ سالار تھے، خلافت تحریک اور تحریک عدم تعاون میں شرکت کرکے بہت سے انمٹ نقوش اور لا زوال کارنامے انجام دیئے، انہوں نے “بھارت چھوڑو” نعرہ جوکہ نہایت ہی انقلابی، پرجوش اور ولولہ انگیز تھا جب بلند کیا تو برطانوی حکومت کی چولیں ہل گئیں اور اسے یقین ہوچلا کہ اب ہمارا اقتدار زیادہ دن تک قائم رہنے والا نہیں ہے
آزادی ہند میں انگریزوں کو ملک سے بھگانے اور ان کے ناپاک قدم کو اکھاڑ پھینکنے اور ظلم و استبداد کے پنجوں سے وطن عزیز کو چھڑانے کے لیے انہوں نے جو کدوکاش، جدوجہد، سعی پیہم اور انتھک محنت ومشقت کی ہے اس سے کوئی بھی سچا محب وطن اور عقلمند انسان چشم پوشی نہیں کرسکتا
تحریک آزادی میں انہوں نے ایک جانباز سپاہی کی طرح تن من دھن کی بازی لگادی بلکہ اپنے آپ کو ملک کی سالمیت اور وطن عزیز کو تمغہ آزادی دلانے کے لیے وقف کردیا کیونکہ وہ فقط گفتار کے غازی نہ تھے بلکہ میدان عمل وکردار کے بھی مرد مجاہد تھے، انہوں نے دن رات کی بے پناہ اور عظیم کوششوں کے ذریعہ عوام کے آزای کے سنہرے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا
جو اتنے دور اندیش اور بابصیرت سیاستداں تھے کہ ان کے مشورے کے بغیر سیاسی پالیسیاں طے نہیں ہوتی تھیں جسے پنڈت نہرو گاندھی وغیرہ اپنا مشیر خاص سمجھتے تھے، جنہوں نے گاندھی افکار و نظریات کی تشہیر کے لیے پورے ملک کا دورہ کیا، جس کے سیاسی بصیرت کے معترف گاندھی، نہرو اور سردار پٹیل بھی تھے اور وہ انہیں اپنا سچا رہنما اور مخلص وفادار ساتھی مانتے تھے، محبت وطن سے اس قدر لگاؤ اور اس کی راہ میں جانثاری وجذبہ فداکاری کا یہ عالم تھا کہ کسی بھی قیمت پر برطانوی حکومت کو برداشت کرنے اور ان سے کسی بھی طرح کی کمپرومائز کرنے کے لئے ہرگز تیار نہ تھے، ان کے ناپاک وجود کو اپنے لیے باعث عار اور اسے ختم کرنے کے لیے ہر ممکن تدبیر عمل میں لاتے تھے جس کے لیے انہوں نے ہر ممکن محاذ پر کوششیں جاری رکھیں
انہوں نے اپنی خداداد صلاحیت کی بنیاد پر صحافت وخطابت کے ذریعے عوام میں آزادی کی روح پھونکنے کی کامیاب کوشش کی، جس کی وجہ سے ایوانِ انگریزی حکومت میں زلزلہ برپا ہوگیا اور عوام آزادی کے لیے بےتاب نظر آنے لگی، انہوں نے انگریز کو دیش بدر کرنے کے لیے متعدد جرائد ورسائل کی ادارت کی جن میں الہلال اور البلاغ سرفہرست ہیں، ان میں علم وأدب، تہذیب وثقافت، تاریخ و فلسفہ اور سیاست ومعاشرت کے ساتھ آزادی وطن کے حوالے سے بہت سے ولولہ انگیز اور انگریز دشمنی پرمبنی ، حریت و آزادی پر ابھارنے والے اور ملکی اتحاد و حفاظت کے لیے جانثاری کی دعوت دینے والے وقیع اور اہم مضامین و تحریر بھی شائع ہوتے تھے، جو عوام میں میں گلوکاز کا کام کرتے تھے، لوگ ان کا بڑی شدت سے انتظار کرتے تھے،آہستہ آہستہ جب رسالہ الہلال کے مثبت اور دوررس نتائج نظر آنے لگے تو انگریز حکومت فورا حرکت میں آکر اس پر پابندی لگ دی لیکن پھربھی آپ نے ہمت نہ ہاری بلکہ اس مشن کو استمرار بخشنے اور عوامی افکار و نظریات میں آزادی کا چراغ روشن رکھنے کے لیے البلاغ نامی دوسرے رسالے کا آغاز کیا ، اس کا نام گرچہ الگ تھا لیکن دونوں کے مقصد میں مکمل یگانگت تھی، لوگوں کے ان اخبارات ورسائل سے شوق ولگاؤ کا یہ عالم تھا کہ اگر پتہ چل جاتا کہ مولانا کا رسالہ فلاں علاقے میں پہونچ چکا ہے توسب لوگ وہاں دوڑپڑتے اور بیک وقت سب یکجا ہو جاتےپھرایک بلند آواز عقلمد قاری اسے پڑھتا اورسب لوگ ہماتن گوش سماعت کرتے، غرض کہ مولانا کی مخلص صحافت نے دیش کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے، ان کی تحریریں مطلب ومفاد پرستی سے بالا تر حد درجہ خلوص، بے نفسی وبے لوثی، صداقت وحقیقت پسندی، جرأت وہمت اور وطن پرستی کے جذبے سے معمور ہوتی تھیں
احمد سعید ملیح آبادی لکھتے ہیں :”مولانا أبوالکلام آزاد کی صحافت تجارت نہیں تھی بلکہ ان کی صحافت کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی، ملک کی آزادی اور عوام کو برطانوی سامراج کے غلامی سےنجات دلانا تھا اس بات کی وضاحت خود مولانا نے الہلال کے پہلے ہی شمارے میں اس طرح کی تھی” اگر میرے تمام کام تجارتی کاروبار اور ایک دکاندارانہ شغل ہیں جس سے میں قومی خدمت اور ملت پرستی کے نام سے گرم بازاری پیدا کرنا چاہتا ہوں تو قبل اس کے کہ میں اپنی جگہ سے سنبھل سکوں وہ میری عمر کا خاتمہ کردے اور میرے تمام کاموں کو ایک دن بلکہ ایک لمحے کے لیے بھی کامیابی کی لذت چکھنے نہ دے “(عظیم صحافی رہنما:الہلال 1912، جولائی 13)
انہوں نے اپنی بے نظیر ودلکش زور بیان کے ذریعہ انگریزوں کی نیند اڑادی، اپنی قوت خطابت کا بھر پور استعمال کرکے بہت سے بے مثال کارہائے نمایاں انجام دیئے بلکہ یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ ان کے پرزواور مؤثر خطابت کے سامنے بڑی بڑی فوجی طاقتیں، جنگی طیارے اور توپیں بھی ماند پڑجاتی تھیں، ان کے سحرآموز تقریر، بلند پایہ خطابت اور شعلہ بیانی کے معترف دشمنانِ ہند انگریز بھی تھے، اپنے دور کے بڑے بڑے خطباء جو سرزمین ہند میں نمودار ہوئے وہ انہی کے لاجواب شجر خطابت کے خوشہ چیں تھے ان کے شاہکار اور علم و بصیرت سے لبریز خطبات کا مجموعہ کا آج بھی موجود ہے، شاید وہ ہندوستان کے پہلے رہنما ہیں جنہوں نے متحدہ قومیت کے لیے فن خطابت کا سہارا ، انہوں نے اس مشکل گھڑی میں قوم کو صحیح سمت دکھلایا جب ہمارے دیش کے بہت سے نام نہاد اور اور دل چور رہنما اپنے متعلق یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ انہیں معرکہ آزادی میں کیسے اور کس طرح حصہ لینا ہے،م؟!!
تحریک آزادی میں کامیابیوں کا سہرا سجانے والی انڈین نیشنل کانگریس اپنی سوسالہ تاریخ عزیمت میں اس جیسا قابل رہنما پیش نہیں کرسکتی، ان کے نظریہ سیاست، بلند فکر اور حب الوطنی کو سراہتے ہوئے گاندھی جی نے کہا تھا “مولانا کی دیش بھکتی اسی طرح پختہ ہے جس طرح اسلام میں ان کا عقیدہ” (فخر وطن :368)
انہوں نے ایک وطن پرست اور سچے رہنما کا رول ادا کرتے ہوئے 1911ء میں جس طرح قومی یکجہتی، ہندومسلم اتحاد اور ملک کی حفاظت کی خاطر آواز بلند کی اور تحریک چلائی تھی اس طرح کی سچی وفاداری وجانثاری،حکمت عملی اور جذبے کی صداقت اس دور کے اکثر سیاستدانوں کے یہاں مفقود نظر آتی ہے
لیکن آزادی قوم کی خاطر انہیں کتنی جاں گسل وادیاں طے کرنی پڑی ، کتنی اذیتوں، پریشانیوں اور بے چینیوں سے دوچار ہونا پڑا، مصائب وآلام کی کتنی دشوار کن پہاڑیاں سر کرنی پڑی، اہل وعیال کو ترک کرکے کتنی سال جیل کے سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑے، کتنی راتوں کی نیند کو قربان کرنا پڑا اور دل میں جنم لینے والی کتنی خواہشات و آرزوؤں کو قربان کرنا پڑا در حقیقت یہ راہ آزادی میں انگیز کی جانے والی مشکلات کا ایک درد ناک پہلو ہے جس کا صحیح اندازہ ہم جیسے عیش پرستوں اور نازو نعم میں پلنے والوں کے لیے بہت ہی مشکل ہے
آزادی کے بعد ہندوستان کے اولین وزیر تعلیم ہونے کی حیثیت سے ان کی تعلیمی وتعمیری خدمات جگ ظاہر ہیں، آج جتنے بھی علمی و سائنسی، فنی و تکنیکی یونیورسٹیاں نظر آتی ہیں یہ سب انہی کی کوششوں کا ثمرہ ہے
لیکن آزادی کے اتنے بڑے سپوت کے ساتھ آج جو ناانصافیاں کیجارہی ہیں، جس طرح آج اسے یکسر بھلا دیاگیا ہے، اسکے لازوال کارنامے وخدمات کو جس طرح طاق نسیاں بنا دیا گیا، بلکہ کچھ شرپسند عناصر ان کی شخصیت کو مشکوک کرکے انہیں صرف مسلمانوں کا قائد باور کرنے میں لگے ہیں وہ بڑا ہی تکلیف دہ اور حد درجہ افسوسناک ہے اور موجودہ حکومت کی گندی ذہنیت و فسطائیت کا پتہ بھی دے رہا ہے!!-
اللہ تعالیٰ مولانا علیہ الرحمہ کو غریق رحمت کرے اور ان کے جملہ خدمات کو شرف قبولیت بخشے