تحریر:عبد السَّلام بن صلاح الدین مدنی
مدیر برقی مجلہ: ارمغان ِ اسلام,داعی و مبلغ اسلامک دعوہ سینٹر(میسان)۔طائف)
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین ۔أما بعد
پچھلے کئی ماہ کے اندر جھارکھنڈ کی اہم اور مقتدر شخصیات ہم سب کو داغ مفارقت دے گئیں,اور اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں,جن میں بطور ِ خاص فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا محمد الیاس ریاضی کی شخصیت انتہائی قابل قدر تھی,آپ بیک وقت مقرر بھی تھے,قلم کار ,انشاء پرداز اور مصنف و مؤلف بھی تھے,اور ایوان ِ باطل میں لرزہ پیدا کرنے والی لائق صد احترام ہستی بھی تھے,جن کے بارے میں بلا مبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ؎
چشم ِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری تھی ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری
مگر وہ بہت جلد ہم سے بچھڑ کر چلے جائیں گے,یہ سوچا بھی نہیں تھا,مگر چونکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے,جس سے مجال انکار ہے اور نہ ہی شک و شبہ کی کوئی ادنی گنجائش۔
ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ آں رحمہ اللہ کی حیات و خدمات کے کچھ متروک گوشے منکشف کرنے کی جسارت کروں گا,اسی سوچ و تامل کے منجدھار میں ہچکولے کھا رہا تھا کہ ۳۰ اگست ۲۰۲۱ء مطابق ۲۰ محرم ۱۴۴۳ ھ کی صبح جب موبائل کھولا تو رسائل و پیغامات کا تانتا لگ گیا کہ مناظر اسلام ,صوبہ ٔ جھارکھنڈ کےمصلحِ عظیم حضرت العلام مولانا محمد زکریا فیضی پرتاپ گڑھی ثم مدھوپوری ۔رحمہ اللہ۔اس دنیا کو الوداع کہہ کر دار ِ آخرت کو رخصت ہوگئے اور ہم متعلقین کو سوگوارچھوڑ گئے ,فإنا للہ و إنا إلیہ راجعون ۔
یہ خبر کیا تھی,بجلی کی شاک تھی,جو جسم و جان سے مس ہوتے ہوئے روح تک اتر گئی تھی,دماغ و مزاج کی کیفیت کیا تھی,مت پوچھئے,دل و روح کی کیا حالت ہوئی,اس تعلق سے کوئی سوال مت کیجئے,بس لب پر دعائیں تھی,تعزیتی کلمات تھے,اور اللہ تعالی کے فیصلہ پر رضا و رغبت کا اظہار ,اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہ تھا,سو ہم سب نے اس معاملہ کو بھی اللہ کے سپرد کردیا,اور دوسری صبح منگل کے روز شہر مدھوپور کے پناہ کولہ کے قبرستان میں سپرد ِ خاک کا اعلان ہوگیا,اور ۳۱ اگست ۲۰۲۱ءکو حضرت مولانا کی جسد ِ خاکی کو آں رحمہ اللہ کے ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں دفن کردیا گیا,مولانا کے متعلقین و معتقدین کی ایک جم غفیر نے جنازہ کی نماز میں شرکت فرمائی,جن میں علماء بھی تھے,دعاۃ بھی ,مصلحین بھی تھے اور عوام بھی,کثرت تعداد دیکھ کر اہالیان مدھوپور کو آپ کی شہرت و شخصیت کا بھر پور اندازہ ہوا,مجھے لگتا ہے کہ اس سے پہلے کسی نے آپ کی بھاری بھرکم شخصیت کا اندازہ نہیں کیا تھا
یہاں ایک بات عرض کردوں اور اس سے پہلے بھی میں نے کئی بار سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے لکھا ہے کہ ہمارے یہاں عمومی طور پر کسی بھی شخصیت سے متعلق قصیدہ خوانی اس وقت کی جاتی ہے جب وہ اس دنیا سے جا چکی ہوتی ہے,جب تک وہ بقید ِ حیات ہوتی ہے,قدر دانی کے ق سے بھی گزر نہیں ہوتا ,مرنے کے بعد ساری قدر دانیاں انڈیل کر آجاتی ہیں,پھر تعریفوں کے پل ,اور مدح سرائیوں کے تانے بانے ,اور آسمان و زمین کے قلابے ملانے کے اسالیب و انداز جدا گانہ ,مت پوچھئے,اور اس پر قربان(!!!)ہوتے رہئے۔
خیر ۔
حضرت العلام مولانا محمد زکریا بن محمد یحیی بن محمد معصوم فیضی ,یوپی کے ضلع پرتاپ گڑھ کے ایک گاؤں دوند مؤو کے رہنے والے تھے,وہیں آں رحمہ اللہ نے ۱۹۴۷ء میں آنکھیں کھولیں,وہیں پلے پڑھے,وہیں جوان ہوئے,تعلیم کا سلسلہ بھی وہیں سے اپنے دادا مرحوم حضرت مولانا معصوم کے بدست شروع فرمایا,دہلی کے مدرسہ سبل السلام سے ہوتے ہوئے,شہر ِ علم و سخن مئو ناتھ بھنجن کےجامعہ اثریہ کے راستے جامعہ اسلامیہ فیض عام پہنچے اور ۱۹۷۱ ء میں جامعہ اسلامیہ فیض عام سےسند فراغت(فضیلت) حاصل کی,اور حالات و ظروف کے پیش نظر تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا,اور مدھیہ پردیش ہوتے ہوئے,ایٹہ کے راستے ۱۹۷۶ء میں جھارکھنڈ (بہار سابقا)کے ایک مشہور شہر مدھوپور وارد ہوئے,اور اپنی(تقریبا ۴۵ سالہ ) پوری زندگی تعلیم و تربیت,کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت,تزکیہ و تطہیر,اصلاح و دعوت,ارشاد و توجیہ,قیادت و سیادت,رہنمائی و تبلیغ کے میدان ہائے مختلفہ میں یہیں صرف فرمادی,اور کسی طرف جھانک کر بھی نہیں دیکھا,اس راہ میں آپ کو پریشانیاں لاحق ہوئیں,مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا,اغیار سے بھی لوہا لینا پڑا اور اپنے بھی پرائے ہوئے,اور سازشیں کرتے رہے,آپ کو سرکاری نوکری سے ہاتھ بھی دھونا پڑا,لیکن اس کی پرواہ کئے بغیر اپنے مشن سے منسلک رہے,اور اللہ کے دین کی تبلیغ و دعوت میں کوئی دقیقہ بھی فروگزاشت نہیں فرمایا,فجزاہ اللہ خیرا,و رحمہ رحمۃ الأبرار۔
مولانا۔رحمہ اللہ۔کیسے اور کن کے واسطے سے مدھوپور تشریف لائے تھے,راقم آثم نے جھارکھنڈ کی ایک بزرگ ہستی (جنہوں نے مولانا کو انتہائی قریب سے دیکھاہے,پرکھا ہے,اور خوب خوب برتا ہے,میری مراد مولانا عبد الستار بن محمد اسلام السلفی کی ذات سےہے)سے اس تعلق سے سوال کیا تو کچھ یوں جواب عنایت فرمایا,ان کے لفظوں میں ہی ملاحظہ فرمائیں,لفظ لفظ تاریخ سے بھر پور ہے,آپ بھی پڑھئے اور حقیقت جانئے,مولانا سلفی ۔حفظہ اللہ۔کا جواب ملاحظہ فرمائیے,فرماتے ہیں::((فضیلۃ الشیخ عبد السلام مدنی حفظہ اللہ وتولا ہ نے دریافت کیا ہے کہ مولانا زکریا صاحب فیضی رحمہ اللہ مدھوپور خود آئے یا ان کو کسی نے بلایا تھا؟اور وہ آئے تو کہاں ٹھہرے، اور ان کو آتے ہی صدر مدرس منتخب کر لیا گیا یا کچھ دنوں بعد،(ان کو صدر مدرس بنا دیا گیا )اس سلسلے میں تفصیل کے لیے کچھ پیچھے جا نا پڑے گا ،در اصل مدرسہ اسلامیہ مدھوپور میں قاری عبد المنان صاحب اثری رحمہ اللہ صدر مدرس تھے
منکرین حدیث سے اختلاف کے بعد وہ مدرسہ اسلامیہ سے مستعفی ہوگئے تھے اور ان کے بعد ان کی جگہ پر مولانا واعظ الحق صاحب چمپارنی آئے تھے،اور مولانا واعظ الحق صاحب کے جانے کے بعد مولانا محمد سلیمان صاحب دربھنگوی آئے تھے اور ان کے جا نے کےبعد مولانا فاروق صاحب مدھوبنی والے آئے تھے ،لیکن یہ لوگ زیادہ دنوں تک نہیں رہے تھے،اس لیے مد رسہ اسلامیہ میں صدرِ مدرس کی جگہ خالی تھی۔
اب آئیے مولانا محمد زکریا صاحب فیضی رحمہ اللہ کی طرف، اس وقت حاجی محمد طیب صاحب اور حاجی محمد سنوں مکھیاصاحب جگدیش پور والے وغیرہ مدرسہ اسلامیہ کے اور مدھوپور کے جماعت کے ذمہ دارں میں تھے مدرسہ اسلامیہ میں صدر مدرس کی جگہ خالی تھی، تو حاجی محمد طیب صاحب نے لوگوں سے کہہ رکھا تھا کہ کوئی قابل مولانا ملےتو مدھوپور کے لئے بلائیے اس سلسلے میں انہوں نے قاری محمد یونس صاحب تکمیلی حفظہ اللہ وتولا ہ کو بھی کہہ رکھا تھا وہ اس وقت پٹنہ میں رہتے تھے کہ اچھا مولانا ملے تو مد ھوپور کے لئے بھیجئے، اتفاق سے انہیں دنوں مولانا محمد زکریا صاحب فیضی رحمہ اللہ پٹنہ مسجد کے سلسلے میں تعاون کے لئے درزی ٹولہ مسجد میں ٹھریے ہوئے تھے نماز کے بعد انہوں نے اعلان کیا مجھے صرف دس منٹ کا وقت چاہیے مولانا نے خوب زور دار تقریر کی، لوگ بہت متاثر ہوئے، قاری محمد یونس صاحب تکمیلی اس مجلس میں موجود تھے انہوں نے مولانا سے کہا کہ مدھوپور میں مدرسہ اسلامیہ میں صدر مدرس کی جگہ خالی ہے آپ وہاں چلے جائیں،مولا نا محمد زکریا صاحب فیضی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھے کلکتہ جانا ہے تعاون کے سلسلے میں،قاری صاحب نے فرمایا کہ مدھوپور راستہ میں پڑ ے گا وہاں اتر لیجیے گا اور با ت چیت کر لیجئے گا میں ایک خط حاجی محمد طیب صاحب کے نام لکھ دیتا ھوں، اور اس کے بعد آپ کلکتہ چلے جائیے گا، مولانا پٹنہ سے جمعرات کے دن مدھوپور پہونچے اور حا جی طیب صاحب کے دوکان پر پہونچے حاجی صاحب دوکان بند کر رہے تھے انہوں نے قاری محمد یونس صاحب تکمیلی کا خط ان کو دیا وہ سیدھے عید گاہ مسجد لے آئے اور کھانا کھلا یا اور ان سے فرمایا کہ کل جمعہ ہے آپ جمعہ پڑھا کر جائیے گا اور یہیں مسجد کے حجرہ میں میں آرام فرمائیے, اس وقت باہر سے آنے والے لوگ مسجد ہی میں ٹہراا کرتے تھے،چنانچہ مولانا نے جمعہ کا خطبہ خوب زور دار دیا اور لوگوں نے پسند بھی فرما یا اس کے بعد مولانا سے فائنل بات چیت ہوگئی اور ان کی تقرری صدر مدرس کی جگہ ہوگئی بعد میں مولانا گھر سے اپنا سامان وغیرہ لیکر آئے اور عید گاہ مسجد کے حجرہ میں ٹھردے،اور جب تک مکان نہیں بنائے,اس وقت تک اسی مسجد کے حجرہ میں ان کا قیام رہا، ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔عبد السّتار محمد اسلام سلفی أمیر صوبائی جمعیت اہل حدیث دھلی و مدیر کلیہ التربیہ السلفیہ للبنات مد ھوپور ضلع دیوگھر جھارکھنڈ))
مولانا سلفی ۔حفظہ اللہ۔کا لفظ لفظ پڑھنے کے قابل ہے,اور آپ کے اس تبصرہ سے کئی مسائل کشید کئے جا سکتے ہیں,جو قارئین کرام پر چھوڑتا ہوں,لیکن مولانا سلفی نے انتہائی اہم گوشوں پر روشنی ڈالی ہے اور خوب ڈالی ہے,جس سے تشنگی بجھ جاتی ہے,اور مطلعِ قلم بے غبار ہوجاتا ہے۔
یہ بات بھی طے ہے کہ کئی شخصیات بلکہ اہم شخصیات نے اپنے قدوم ِ لزوم ِ میمنت سے اس شہر(مدھوپور)کو شادکام فرمایا ہے,جن میں قاری عبد المنان اثری شنکر نگری,وغیرہ جیسے اساطین ِ علم و معرفت خصوصیت کے ساتھ ذکر کئے جا سکتے ہیں,جنہوں نے اپنی شخصیت کا لوہا منوایا,اور شہر و مضافات کی بھر پور خدمت کی,کتاب و سنت کی نشر و اشاعت میں حصہ لیا اور خوب خوب حصہ لیا,مدرسے قائم کئے,جامعات بنائے,تعلیمی اداروں کی بنیاد ڈالی اور علاقے سے شرک و بدعات کی پے در پے ظلمتیں کافور کرنے اور تہہ در تہہ رسوم و وراج اور خرافات کو دور کرنے کے لئے سعی ٔ پیہم فرمایا, مدرسۃ الرشاد سے لے کر جامعہ رحمانیہ تک کی پوری تاریخ اس پر شاہد ِ عدل ہے, فجزاہم اللہ خیرا و تقبل جہودہم و رحمہم رحمۃ الصالحین و أسکنہم فسیح جناتہ جنات النعیم فی سدر مخضود و طلح منضود و ظل ممدود یا غفور یا ودود۔
مولانا فیضی ۔رحمہ اللہ۔بھی مدھوپور تشریف لائے اور یہاں پر موجود بدعات و خرافات کے قلع قمع کرنے,اور شرک و بدعات,رسوم ِباطلہ,رواج ِ بد اور ضلالت و خرافات کی سرکوبی و بیخ کنی میں بھر پور حصہ لیا,اس کے لئے شبانہ روز ایک کردیا,انتھک کوششیں فرمائیں,جہد ِ متواصل سے خطہ کو لالہ زار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں فرمایا,آپ جس وقت مدھوپور وارد ہوئے,فتنہ ٔ انکار سنت نے انتہائی شد ومد کے ساتھ اپنا سر اٹھایا ہوا تھا,اور اس فتنے کی سرکوبی و بیخ کنی کے لئے جماعت کو ایک شیر ببر مجاہد کی ضرورت تھی,سو مولانا کی صورت میں اللہ نے پرتاپ گڑھ سے روانہ فرما دیا تھا,مولانا نے اس چیز کو محسوس فرمایا,اور اپنا سب کچھ داؤں پر لگاکر اس کی سرکوبی کے لئے سینہ سپر ہوگئے,سنت کی اہمیت و ضرورت اور انکار ِ سنت کی شناعت و قباحت پرتقریریں کی,حجیت ِ حدیث پر زور صرف فرمایا,لوگوں کے سامنے اس کی اہمیت بیان فرمائی,منکرین ِ حدیث سے شاندار اور کامیاب مناظرے کئے,سنت و حدیث کی ضرورت پر خطبے دئے, لوگوں کے سامنے پند و نصائح فرمائےفتنہ انکار حدیث کے قلع قمع کے لئے ڈٹ کر کھڑے ہوئے,منکرین حدیث سے خوب خوب جنگ کی,ضرورت پڑی تو اپنی علمی ضخامت کے ساتھ اپنی لحامت و شحامت کو بھی بروئے کار لایا,اور انہیں مات دینے کی بھر پور کوششیں فرمائیں,اور بحمدہ تعالی ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فتنہ انکار سنت نے دم توڑ دیا,اس کا خاتمہ ہوا,اور اب اگر آپ دوا کے لئے کوئی منکر ِ حدیث تلاش کریں گے,تو مدھوپور کے اطراف و اکناف میں بھی شاید کوئی نہ ملے,بلاشبہ یہ مولانا مرحوم جیسے اجلہ علماء کی کوششوں کا خوبصورت کامیاب نتیجہ تھا ,اللہ ان تمام علمائے عظام کو اس کے بدلے جنت الفردوس کا مکین بنائے۔
مولانافیضی ۔رحمہ اللہ۔ ایک سلفی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے,سلفی علماءسے اخذ و استفادہ فرمایا تھا,اورسلفی منہج سے بے تحاشا وابستگی تھی,اس لئے آپ کے رگ و ریشے میں سلفیت رچی بسی تھی,اور ہمیشہ اس کی نشر و اشاعت,ترویج و تفہیم اور تبلیغ و تائید کے لئے کوشاں و سرگراں رہتے تھے,اور اس کے لئے شبانہ روز تیار اور بر سر ِ پیکار رہتے تھے,پیدل چلنے کی ضرورت پڑی تو آپ نے کبھی انکار نہیں کیا,دور جانے کی حاجت پیش آئی تب بھی کوئی تردد و تذبذب نہیں کیا,سفر کرنے کی نوبت آئی تب بھی کبھی ہچکچاہٹ کے شکار نہیں ہوئے,کمر ہمت باندھا,جہاں کہا,جب ضرورت پڑی,جس وقت ضرورت پڑی,سر پر کفن باندھا اور نکل پڑے,اور بحمدہ تعالی ہر جگہ فاتح و کامیاب ہوکر واپس ہوئے,کبھی ایسا موقعہ نہیں آیا کہ آپ نے شکست کھائی ہو,شیر جھارکھنڈ حضرت مولانا و حافظ قطب الرحمن فیضی نے اپنے کئی مناظروں میں مولانا کے اپنے ساتھ موجود ہونے کا تذکرہ فرمایا ہے,جس کا تذکرہ میں نے اپنی کتاب (کوکبۃ من أئمۃ النور و الہدی فی دیاجیر الظلمات بولایۃ جارکھند)میں کیا ہے
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فتنہ ٔ انکار سنت کی سرکوبی میں جہاں مولانا فیضی۔رحمہ اللہ۔ نے بھر پور کردار ادا فرمایاہے,وہیں پر دیگر علمائے عظام نے بھی کافی قربانیاں پیش فرمائی ہیں,اور کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں فرمایاہے,جن میں مولانا محمد طیب مدنی,حافظ قطب الرحمن فیضی ,مولانا علاء الدین اصلاحی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
مولانا فیضی مرحوم بہترین خطیب بھی تھے,اور اپنے خطبوں سے آپ نے پورے علاقے کو مالامال کیا ہے,علاقے کا کوئی گاؤں یا بستی ایسی نہیں ہوگی جہاں آپ نہ پہنچے ہوں اور خطاب نہ فرمایا ہو,مولانا ہر جگہ پہنچتے,خطاب فرماتے,تقریریں کرتے,علاقے میں ہونے والے اجلاس ہائے عام کی کبھی صدارت فرماتے,تو کبھی نظامت کرتے,اور کبھی بطور ِ مقرر شرکت فرماتے,اور اپنے وجود سے سبھوں کو شادکام فرماتے,پورے خطے میں آپ کی شخصیت مشہور و معروف, ہر جا آپ کی تقریروں کے تذکرے ہوا کرتے تھے,آپ کے جوش و جذبے سے بھر پور خطابات کی شہرت تھی,اور جن ایام میں آپ شہر ِ مدھوپور کی مسجد ( عید گاہ مسجد )میں خطبہ ٔ جمعہ دیا کرتے تھے,سامعین دور دور سے حاضر ہوتے تھے اور آپ کے خطبہ ہائے جمعہ سے مستفید ہوا کرتے تھے اور حاضرین مہینوں تک آپ کے خطبہ ہائے جمعہ کی چاشنی محسوس فرماتے تھے,یہ حقیقت ہے مبالغہ بالکل بھی نہیں ۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ جب مولانا کی وفات ہوئی تو نماز جنازہ میں شرکت کے لئے قریب و دور سے کاخ و قصور,اور اطراف و اکناف ِ مدھوپور سے دیوانہ وار سیلاب کی طرح امنڈ آئے,اور جوق در جوق شریک ہوئے,اس پر بعض گروپوں میں بات آئی تھی,خاکسار نے اس پر کچھ یوں تبصرہ کیا تھا,افادہ ٔ عامہ کے لئے اسے بعینہ نقل کیا جا رہا ہے
بلاشبہ علماء کی حاضری قابل صد رشک تھی,مگر اگر آپ حضرات کی اجازت ہو تو ایک تلخ بات کہوں(بہت معذرت)(اس سے پہلے عرصہ پہلے اس قبیل کی پوسٹ میں نے اسی گروپ میں کی تھی)
ہماری جماعت کا المیہ ہے کہ جب تک زندہ ہیں,ان کی قدر نہیں ,مرنے کے بعد ساری قدر دانیاں انڈیل کر آجاتی ہیں,مولانا کا وجود جماعت کے لئے ہیرے جواہرات ,اور سونے چاندی سے کم نہیں تھا,مگر ہم نے مولانا ۔رحمہ اللہ۔کی کما حقہ قدر ہی نہیں کی
اب وہ اپنی آخرت اپنے جملہ اعمال و خدمات کے ساتھ سدھار گئے,جو نیک خدمات فرما گئے,یقینا صدقہ ٔ جاریہ ہوں گی,اللہ مغفرت کرے,اس مرد ِ مجاہد کی,اور جنت الفردوس مکیں کرے ,بڑی صفات ِ حمیدہ کے مالک تھے,جماعت کو سنبھالا دیا,ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جماعت کو جب ضرورت پڑی تو اپنی لحامت و شحامت اور علمی ضخامت سے خوب خوب فائدہ پہنچایا,پرتاپ گڑھ سے آکر جماعت و جمعیت کی خدمت کرنا,اور اپنا وطن مالوف چھوڑ کر دیار غیر کو اپنا بنا لینا,جماعت کی ناک کی خاطر اپنی نوکریاں تج دینا,کسی عظیم جگر کے مالک انسان کا کام ہوسکتا ہے,ہما شما نہیں کر سکتا ,مولانا کے تعلق سے بڑی ساری باتیں ہیں,کبھی فرصت میں لکھوں گا۔ان شاء اللہ۔
اب ایک زندہ و جاوید مثال لے لیجئے اور اپنے علاقے کی لیجئے
استاذ گرامی حضرت مولانا محمد خالد فیضی۔حفظہ اللہ ورعاہ,و شفاہ و عافاہ۔ ابھی بقید حیات ہیں,اور عرصہ سے بیمار چل رہے ہیں,علم کے پہاڑ,معلومات کے خزینہ,سلفی دستاویزات کی چلتی پھرتی لائبریری,ان کے پاس بیٹھ جائیے,اور ہیرے و جواہرات لوٹتے جائیے,الفاظ ,تعبیرات,معلومات,دستاویزات, جھارکھنڈ میں تاریخ سلفیت سنتے جائیے ,مگر,مگر,مگر ۔۔۔۔۔
اس لئے میں نے ایک بار جماعت کے لعل و گہر کی فہرست تیار کرنا شروع کی تھی,مگر حوصلہ افزائی سے بھی میں محروم رہا(یقینا کچھ اخوان نے سراہا,حوصلہ افزائی فرمائی,جزاہم اللہ خیرا)تاہم ابھی خاموش نہیں بیٹھا ہوں ,کوشش کر رہا ہوں,اللہ کامیاب کرے,السعی منا و الإتمام من اللہ
مولانا فیضی کے سینے میں موجود جھارکھنڈ کی سلفی داستان حاصل کرنے کی کوشش کبھی ہم نے نہیں کی,اب تو ایسا لگتا ہے کہ مولانا اس دنیا سے اپنے سینہ میں معلومات کا خزینہ دبائے چلے جائیں گے,اور ہم کف افسوس ملتے رہیں گے,اور ہم ہی ہوں گے جو صفحات کے صفحات سیاہ کریں گے ,کاش ہم اپنے با حیات علماء کی ان کی زندگی میں قدر کر پاتے‘ان کے علم سے استفادہ کر پاتے,ان کے وجود کو غنیمت جان پاتے ,
غلطیاں اور خامیاں,اختلافات اور دشمنیاں کہاں اور کس جماعت میں نہیں ہیں,مگر جتنا اور جس قدر ہماری جماعتِ حقہ اس کی زد میں ہے,شاید کوئی دوسری جماعت ہو,اللہ تعالی ہمیں اہل علم سے استفادہ,ان کی قدردانی,اور صراط ِ مستقیم پر چلنے کی توفیق ارزانی کرے ,آمین یا رب العالمین
اور یقینا مولانا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا,حقیقی بات تو یہ ہے کہ مولانا ۔رحمہ اللہ۔کی جس قدر قدر ہونی چاہئے,نہیں ہوسکی ,آپ کی شخصیت جس قدر عظیم تھی,اس کے شایان ِ شان آپ کو مقام نہیں مل سکا۔
مولانا۔رحمہ اللہ ۔ تعلیم و تربیت ,دعوت ِ تبلیغ کا عنوان تھے, اس حوالہ سے آپ کے اندر پر عزم جوش, جذبہ ٔ فراواں ,بھر پورنشاط,بے تحاشا حیویت,اور شاندار فدا کاری تھی ,اور ہمیشہ اس کے لئے سرگرم,فعال اور پر عزم رہا کرتے تھے,اور آخری عمر تک اس جذبہ و جوش میں کوئی کمی نہیں آئی۔
مولانا مرنجامرنج طبیعت کے حامل واقع ہوئے تھے,ہر ایک سے انتہائی پرتپاک و خوش مزاج ملتے تھے,ہمیشہ ہنسی آپ کے چہرے پر کھیلتی تھی,جس سے ملتے ,ایسا لگتا کہ ان سے آں رحمہ اللہ کی پرانی شناسائی اور تعارف ہے,مولانا سے کئی بار ملنے کا اتفاق ہوا ہے,آپ ہنس کر ملتے تھے,آپ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رواں دواں رہتی تھی۔
مولانا کی اردو انتہائی اسٹرانگ تھی,اور جھارکھنڈ جیسے علاقے میں رہ کر بھی آپ کی اردو متاثر نہیں ہوئی تھی,اس تعلق سے کبھی کبھار انتہائی ظرافت ِ طبع بکھیرتے اور بعض لوگوں کی طرف سے صادر ہونے والی اغلاط کا تذکرہ انتہائی ظرافت آمیز لہجے میں کیا کرتے تھے,خطہ میں ایک انتہائی مشہور و معروف خطیب کے تعلق سے فرمانے لگے:مولانا! فلاں (۰۰۰۰۰۰۰)مولانا یلغار کو مذکر استعمال کرتے ہیں حالانکہ یلغار اردو میں مؤنث استعمال ہوتا ہے۔
جب خاکسار آثم کی کتاب (بدعات اور ان کی ہلاکت خیزیاں)(جو تقریبا ساڑھے تین سو سے متجاوز صفحات کو محیط ہے)منظر عام پر آئی اور مولانا کے پاس پہنچی تو پوری کتاب پڑھی,ایک بار مجھ سے ملاقات ہوگئی,فرمانے لگے:مولاناعبد السلام !آپ نے کتاب تو بہت شاندار لکھی ہے,پڑھ کر مزہ آگیا,مگر علاقے کے اعتبار سے آپ نے زبان ذرا سخت استعمال کی ہے,جس سے عام لوگ کم استفادہ کر پائیں گے,زبان تھوڑا عام فہم کیجئے,میں نے مولانا کا شکریہ ادا کیااور عام فہم کرنے کا وعدہ
کیا,نیزفرمانے لگے:مولانا مشق ِ قلم جاری رکھئے گا,آپ جیسے نوجوان عالم کی امت کو سخت ضرورت ہے,اور قلم کی بھی سخت ضرورت ہے(واضح رہے کہ کتاب کی زبان سخت ہونے کی بات علامہ ڈاکٹر لقمان سلفی ۔رحمہ اللہ۔ اور دار السلام ریاض (سعودی عرب)کے منیجنگ ڈائریکٹر مولانا عبد المالک مجاھد نے بھی کی تھی,مجاہد صاحب نے زبان سہل کرنے پر اپنے ادارہ سے شائع کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا؛مگر ؎اے بسا آرزو کہ خاک شدہ,اب تک اس کے لئے فراغت نہ مل سکی,یہ کتاب جھارکھنڈ کے معروف ادارہ جامعہ الإمام ابن باز ۔ستلا سے طبع ہوئی ہے اور فضیلۃ الشیخ احمد مجتبی سلفی مدنی نے اس پر ایک انتہائی وقیع اور طویل مقدمہ تحریر فرماکر کتاب کی معنویت میں دہ چند اضافہ فرمایا ہے,فجزاہ اللہ خیرا ,نیز رفیق مکرم شیخ محمد کلیم انور مدنی نے اپنے اہتمام ِ خاص سے اسے شائع فرماکر دیں دوستی اور علماء نوازی کا ثبوت بہم پہنچایا ہے اور ساتھ ہی ایک بیش قیمت مقدمہ ٔ ناشر بھی تحریر فرماکر حوصلہ افزائی فرمائی ہے,فجزاہ اللہ خیرا)
بحمدہ تعالی شہر مدھوپور میں جب خاکسار کا گھر بن کر تیار ہوگیا اور مدھوپور میں سکونت پژیر ہوا تو آپ کے زیر انتظام تعمیر شدہ مسجد (مسجد محمدی)میں کئی بار خطبہ ٔ جمعہ دینے کا اتفاق ہوا,پہلی بار جب خطبہ دیا تو مولانا بھی موجود تھے,سنتوں کے بعد علیک سلیک ہوا ,مولانا نے خوب خوب سراہا,ستائش فرمائی اور خوب دعاؤں سے نوازا
علاقے کے علماء آپ کا بڑا احترام کرتے تھے,آپ کی صالحیت کے گن گاتے تھے,مدھوپور جب بھی تشریف لاتے مولانا سے ضرور ملتے ,علاقہ کی مشہور شخصیت حضرت مولانا ابو القاسم اثری صاحب کے ساتھ مولانا سے بار بار ملاقات کا شرف حاصل رہا ہے,اثری صاحب جب بھی مدھوپور آتے ,مولانا ۔رحمہ اللہ۔سے ملاقات کے بغیر نہیں جاتے۔
مولانا سے جب بھی ملاقات ہوتی علاقہ کے حالات پر دکھ کا اظہار فرماتے,جہل ِ مرکب کا تذکرہ فرماتے,حالات ِ حاضرہ کا تذکرہ بڑے دکھی انداز میں کرتے,اصلاح کے طریقوں پر بحث فرماتے,اور بڑے عالمانہ تبصرہ کرتے۔
ایک افسوس ناک حقیقت اور مولانا فیضی ۔رحمہ اللہ۔
میں نے عرصہ قبل ایک تحریر نشر کی تھی,اس افسوس ناک حقیقت کا آغاز اسی سے کرنا چاہتا ہوں(افادہ ٔ عامہ کے لئے اسے بعینہ نقل کیا جا رہا ہے,یہ تحریر تمام واٹس ایپ گروپس,اور میرے فیس بک پیج پر نشر کیا گیا تھا)
اوہ !!!اموات کا یہ سلسلۂ اندوہ ناک
محترم و مکرم علمائے ذی وقار
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ و بعد
امید کہ آپ تمام حضرات بخیر و عافیت ہوں گے
حضرات ِ گرامی !جب بھی واٹس ایپ ‘فیس بک کھولئے ‘کسی نہ کسی کی موت کی خبر آہی جاتی ہے‘ابھی حال ہی میں علاقہ جھارکھنڈ کی کئی نامی گرامی ہستیوں کی وفات کی خبر نے دل و دماغ کو بالیقین جھنجھوڑ کر رکھ دیا ‘اور یقین مانیں کہ آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے
لیکن کبھی سوچتاہوں کہ میرے بھائی! مرنے کے بعد تو ایک جانی دشمن بھی روتا ہے ‘کمال تو تب ہے کہ جو علمائے ذی شان بچ گئے ہیں :۔
مرنے کے بعد ان کی قصیدہ خوانی سے بہتر ہے کہ ان کی حیات ہی میں ان کی قدر کر لی جائے۔۔۔ان کا ۔اللہ کے بعد ۔سہارا بن جایا جائے ۔۔۔ان کی حیات و خدمات کو جمع کر لیا جائے۔۔۔ ان کو ان کی زندگی میں ہی تعلیمی و دعوتی ایوارڈ سے نواز دیا جائے ۔۔۔۔ان کی زندگی میں ان کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ان کی خدمات کو سراہا جائے اوران کی کوششوں کی ستائش کی جائے۔۔۔ان کے خلاف سازشیں کرنے کی بجائے ان کے دست و بازو بن جایا جائے ۔۔۔حسد کرنے کی بجائے ان کےکاموں کی تعریف کی جائے(اگر تعریف کے قابل ہے)اور اگر نہیں تو اصلاح کی کوشش کی جائے اور پرسنل میں سرّی طور پر اصلاح کی جائے ۔۔۔ان کے لئے کچھ معاوضہ مقرر کردیا جائے (کیوں کہ ان بزرگوں میں سے اکثر ہمارے اساتذہ ہیں یا ہمارے محسن یا ہمارے علاقہ کے محسن اور مسیحا و معمار )اگر کسی میں کمی ہے تو احسن طریقے سے اس کی طرف نشان دہی کی جائے ۔۔۔جو سست رفتار ہیں ‘انہیں احسن طریقے سے کام کرنے پر مہمیز لگایا جائے اور ابھارا جائے ۔۔۔ان کی پگڑی اچھالنے کی بجائے ان کی غلطیوں پر پردہ ڈالا جائے ۔۔۔ان بزرگ علمائے عظام کی ایک فہرست تیار کی جائے ۔۔۔ان کی زندگی کے گوشوں اور شعبوں کا بغور جائزہ لیا جائے ۔۔۔ان کے پیٹھ پیچھے غیبتیں کرنے کی بجائے ان سے مل کر انہیں سمجھایا بجھایا جائے(اگر کچھ خامیاں ہیں تو۔۔۔)
میں سمجھتا ہوں کہ وفات کے بعد مگر مچھ کے چند آنسو بہانے سے بہتر ہے کہ ان کی زندگی میں یہ چند کام کئے جائیں جو ہم سب کے لئے بہتر اور بہت بہتر ثابت ہوں گے‘ورنہ رسمی تعزیت تو بی جے پی والے کانگریس کے کسی لیڈر کی وفات پر بھی کرجاتے ہیں
میرے کہنے کا یہ ہرگز مطلب نہ نکالا جائے کہ میں تعزیت سے روک رہا ہوں ‘قطعی نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہم ان ذی شان و عالی وقار علمائے عظام کی ان کی زندگی ہی میں ان کی قدر کریں ۔۔۔
(ایک عام بات لکھی گئی ہے ‘کوئی صاحب اپنے اوپر منطبق نہ کرے)
کچھ مخلصین و صادقین با وفا کو اگر مستثنی قرار دیا جائے,تو یہ بلا تردد بات کہی جا سکتی ہے کہ مولانا کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ,بلا شبہ جھارکھنڈ کے معروف ادارہ جامعہ امام ابن باز ۔ستلا۔ نے آپ کی قدر دانی فرمائی,اپنے سلسلہ ٔ تکریم علماء کا آپ ۔رحمہ اللہ۔ کو حصہ بنایا, توصیفی سند اور کچھ نقد سے نوازا,جس پر ذمہ داران ابن باز یقینا داد و تحسین کے قابل ہیں,اور گزارش گزار ہیں کہ یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہنا چاہئے؛اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
مولانا نے مختلف اداروں میں اپنی خدمات انجام دی کبھی مدرسہ اسلامیہ میں کبھی جھوم پورہ میں تو کبھی جامعہ رحمانیہ(مدھوپور) میں تو کبھی مدرسہ فیض عام(چھاتا پتھر) میں مگر آخری عمر میں کہیں سے کوئی تعاون نہیں ملا ,فیض عام میں کوئی ۸ سال خدمت کی,مدھوپور سے لہر جوری(چھاتا پتھر) روزانہ آنا جانا اور سائیکل سے آنا جانا یہ کسی صاحب جگر گردے کا کام ہوسکتا ہے,عام انسانوں کے بس کا روگ تو نہیں ہوسکتا ,جامعہ رحمانیہ میں بھی کوئی ۸ سال سالہ تدریسی فریضہ انجام دیا,اس دوران ظاہر ہے کہ مختلف موڑ آتے رہے ہوں گے,مختلف درشت طبع لوگوں سے سامنا ہوا ہوگا,متعدد افراد مقابل ہوئے ہوں گے ,مگر حالات سے گھبرانے کا ہنر نہیں سیکھا بلکہ ان کا مقابلہ کیا اور انتہائی جواں مردی سے مقابلہ کیا ؎
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا ۔
کچھ مشورے کچھ تجاویز:
جب بھی علمائے عظام کی وفات ہوتی ہے تو حقیقی بات یہ ہے کہ ہماری ساری ہمدردیاں,پیار,محبتیں,الفتیں,عقیدتیں,اور لگن امنڈ کر سامنے آجاتی ہیں,قلم کاروں کے قلم جوش مارنے لگتے ہیں,انشاء پردازان کی انشاء پردازیاں اپنے جوہر دکھاتی ہیں,اور خوب خوب دکھاتی ہیں,شعراء قصیدہ خوانی پر اتر آتے ہیں,جمعیات اور تنظیمیں پر جوش ہوجاتی ہیں,مگر جو کام کرنے کے ہیں وہ نہیں کرتے یا اس طرف دھیان نہیں جاتا
(۱)مرکز عنایۃ العلماء
اپنے اساتذہ کا جب حال دیکھتے ہیں تو بلاشبہ و بلا مبالغہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں,دل پسیج جاتا ہے,آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں,لوگ یوم اساتذہ پر تو خوب لکھتے ہیں,مگر کیا طلبہ نے اساتدہ کے حال زار پر کبھی غور کیا؟کتنے اساتذہ ایسے ہیں جو بستر ِ مرگ پر ہوتے ہیں,ان کاکوئی پرسان حال نہیں ہوتا,دوا علاج کے لئے وہ ترستے رہتے ہیں,پیسے پیسے کو محتاج ہوتے ہیں,مگر ان کا کوئی پوچھنے والا,ان کی خبر گیری کرنے والا نہیں ہوتا,آخر ہم کب تک صرف لکھتے پڑھتے رہیں گے ؟
لہذاضرورت اس بات کی ہے کہ ایک (مرکز عنایۃ العلماء)قائم کیا جائے,جہاں سے اساتدہ و علماء کی خبر گیری,علاج و معالجہ,دیکھ ریکھ,اور ان کی بہتر زندگی گزارنے کے لئے سامان ِ معاشرت فراہم کیا جا سکے
(۲)شعبۂ اہتمامِ اساتذہ کا قیام
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ وہ اساتذہ جو مدرسوں میں اپنی جی جان لگا کر زندگی بھر نونہالان قوم و ملت کو اپنے خون جگر سے سینچتے ہیں,شجر کاری کرتے ہیں,آدم گری کا فریضہ انجام دیتے ہیں,ننہے سے پودے کی طرح چھوٹے سے انتہائی محبت و عقیدت کے ساتھ بڑا کرتے ہیں,اس کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کردیتے ہیں ,جب وہی مدرس مدرسے سے الگ ہوتا ہے تو اسے کوئی اہمیت دی جاتی ہے اور نہ ادب و احترام کا پاس و لحاظ کیا جاتا ہے ,اور نہ ہی مدرسہ چھوڑنے کے بعد اس کے حال احوال پوچھے جاتے ہیں,بلکہ انہیں یوں ہی زندہ لاش بناکر چھوڑ دیا جاتا ہے,اور یہ بیچارے مولانا صاحب (جنہوں نے زندگی بھر معلمی کا فریضہ انجام دیا)محتاج ِ غیر بنے نگاہِ قنوط و یاس کے ساتھ دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں, کہ کاش کوئی ہماری یاوری کرتا,اور اس دکھ بھری گھڑی میں دست ِ معاونت دراز کرتا,لہذا میرا ایقان ہے کہ اگر ہر مدرسہ میں ایک عدد (شعبہ ٔ اہتمامِ اساتذہ ) ہو تو کوئی بھی استاذ پریشان حال زندگی گزارنے پر قطعی مجبور نہ ہوگا,نہ ہی اسے در بہ در کی ٹھوکریں کھانا پڑیں گی,اور نہ ہی اسے علاج و معالجہ کے لئے قلب پریشان کی طرح پریشان ہونا پڑے گا
(۳)شعبہ ٔ تکریمِ اساتذہ
ہمارے ہندوستانی مدارس میں عام بلوی(مصیبت) یہ ہے کہ وہ حوصلہ افزا کلمات اور تشجیعی جملے سننے کو ترس جاتے ہیں,تدریس کے لئے (أحسنت),شاباش,جزاک اللہ خیرا,آج آپ کا انداز درس انتہائی نرالا تھا,آپ ہمارے لئے انمول موتی ہیں,آپ کی وجہ سے ہماری مدرسے کی شان اونچی ہوتی ہے,آپ پر ہمیں ناز ہے,وغیرہ جیسے کلمات سننے کو ایک مدرس ترس جاتا ہے,جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ ہر مدرسے میں اپنے مدرسین کی تکریم کے لئے باقاعدہ ایک شعبہ ہونا چاہئے جو انتہائی فعال اور نشیط ہو,اور سالانہ باری باری ہر استاذ کی تکریم ہو تاکہ دیگر اساتذہ کو کام کرنے کا حوصلہ ملے,اور بڑھ چڑھ کر تدریس میں حصہ لے اور تکریم کئے گئے مدرس کی طرح بننے کی کوشش کرے,اس کے لئے ایک معیار متعین کیا جائے کہ کن بنیادوں پر تکریم کی جائے گی,اور ان امور و عناصر کو اساتذہ روم میں آویزاں کیا جائے تاکہ ہر مدرس کے اندر مسابقت و مسارعت کا جذبہ پیدا ہو,میرا مشاہدہ ہے کہ مملکت ِ سعودی عرب کے تمام چھوٹے بڑے مدارس و جامعات,معاہد و کلیات میں اپنے اساتذہ (بشمول معلمین و معلمات)کو ہر سال شکر و تقدیر کی سند عطا کی جاتی ہے
(۴)پنشن کا انتظام :
مدارس میں ضروری طور پر ایک انتظام یہ بھی ہو کہ ان کی تنخواہ سے ہر ماہ ایک مقرر رقم منہا کرلی جائے,جو اس کے مدرسے سے سبکدوشی کے وقت عنایت کیا جائے,تاکہ مدرسہ چھوڑتے وقت ایک خطیر رقم اس کے ہاتھ میں ہو,اور وہ اللہ کے بعد کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو,اس لئے کہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ ایک مدرس جب مدرسے سے سبکدوش ہوتا ہے تو اس کا ہاتھ بالکل خالی ہوتا ہے,پھر وہ انتہائی مجبور ہوجاتا ہے اور کیا کرے کچھ سمجھ میں نہیں آتا
اس لئے اگر پنشن کا انتظام ہوجائے تو اسی مدرس میں تنخواہ سے منہا رقم اس کی زندگی میں پھولوں کا سیج پیدا کرسکتی ہے
حضرت مولانا محمد زکریا فیضی ۔رحمہ اللہ۔ پر لکھتے ہوئے عمومی چند تجاویز نوک ِ قلم آگئی ہیں,اگر ان پر عمل شروع ہوجائے تو بالیقین علماء و اساتذہ کا بڑا بھلا ہوگا,اور وہ خوش گوار زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ باعزت زندگی بھی گزار سکیں گے,اور کوئی انہیں میلی آنکھوں سے دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کر سکے گا
رب کریم سے دعا ہے کہ ہمیں علماء کا ءقدر دان بنائے,تکریم اساتذہ کی توفیق دے,جو ہمارے مشایخ اس دار ِ فانی سے دار آخرت کو سدھار گئے,ان کی بال بال مغفرت فرمائے,جنت الفردوس میں اعلی مقام کرے,ان کی خدمات و مساعی کو شرف ِ قبولیت سے باریاب فرمائے,اور بتقاضائے بشریت ان کی غلطیوں سے صرف ِ نظر فرمائے,آمین یا رب العالمین