از:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین ۔أما بعد
۱/جنوری ۲۰۲۲ءکو حیدر آباد کی جمعیت ِ اہل حدیث کے بینر تلے منعقد ہونے والی میٹنگ میں پیش آمدہ واقعہ نے پوری ملت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے,میٹنگ کیوں بلائی گئی تھی,یہ تو پتہ نہیں چل سکا,مگر اتنا ضرور پتہ چلا کہ یہ میٹنگ صرف اس لئے بلائی گئی تھی تاکہ ایک معزز,سنجیدہ ,لائق صد احترام اور قابل قدر عالم دین کی سر عام توہین کی جائے,انہیں ذلیل کیا جائے,انہیں مارا جائے,پیٹا جائے,زدو کوب کیا جائے,اور انہیں ان کے عہدہ سے کسی بہانے معزول کرکے من مانا کیا جائے ؛یہ میٹنگ اس لئے بلائی گئی تھی ,اس واقعہ کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوا اور خوب ہوا کہ عہدوں کے لالچی بھیڑئے,منصبوں کے شیطانی چوزے کس حد تک گر سکتے ہیں,اور جاہ و منصب کے حصول کے لئے کردار کشی کے کیسے کیسے جال بن سکتے ہیں,تانے بانے تیار کر سکتے ہیں,حادثہ کو دیکھ کر یہ یقین ہوگیا کہ جب کوئی عہدوں کے نا مسعود ہوی و ہوس کا شکار ہوتا ہے,تو پھر ایسے مناظر سامنے آتے ہیں کہ شیطان کی شیطنت بھی شرما جائے,ابلیس کی ابلیسیت مدہم پڑجائے,سوال یہ ہے کہ:۔
(۱) اس عالم نے کیا غلطی کی تھی؟اس عالم کاجرم کیا تھا؟ اس نے آخرکونسی غلطی کردی تھی ؟
جی ہاں مذکورہ امور پر کوئی بحث نہیں,اس سے کوئی سرو کار نہیں,بس مطلب اس بات سے کہ انہیں مارا جانا ہے,اپنے دل کی بھڑاس نکالنی ہے,دل کے پھپھولے صاف کرنے ہیں,اور پرانی رنجش و چپقلش کا بدلہ لینا ہے,قدیم عداوتوں کا قرض چکانا ہے,اور بس ۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارے امور جمعیت اہل حدیث کے بینر تلے انجام دئے گئے,یہ سارے شیطانی حربے سلفیت کے نام لیواؤں نے انجام دیا,وہ جماعت جو اسلام کا صحیح اور قرار واقعی ترجمان ہے,جس کی تعلیمات شفاف اور واضح ہیں,اور جس کے پیغامات انتہائی کلیر اور صاف ہیں,اس کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے انجام دیا,جنہیں جماعت سے مطلب ہے نہ جمعیت سے,قوم و ملت سے سروکار ہے اور نہ اسلامی تعلیمات سے ,اور نہ ہی جماعتی مفادات و مصالح سے۔
انہیں تو غرض ہے اپنی کرسی سے,اپنے عہدے سے,اپنے منصب سے,انہیں اگر فکر ہے تو اس بات کی کیسے اقتدار پر کیسے قبضہ کیا جا سکے,اور بس۔
اس واقعہ نے پوری جماعت کی کرکری کروائی ؛پوری سلفیت داغ دار کی گئی,اس کی شبیہ بگاڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کی گئی ؛جمعیت کی بدنامی ہوئی,سلفیت کی بھی بدنامی ہوئی اور خوب ہوئی ؛غیر جماعتی افراد نے اس ویڈیو کو مزے لے لے کر شیئر کیا,جماعت اہل حدیث کو منہ بھر بھر گالیاں دیں,خوب خوب کوسا,طعن و تشنیع کی,اس صاف ستھری جماعت کو برا بھلا کہا,سب و شتم کیا؛حالانکہ ان نا ہنجاروں کو کیا معلوم کہ جماعت اور سلفیت اس سے دور اور کوسوں دور ہے,ان سب امور سے سلفیت ہمیشہ پرے رہی ہے,ایک آدھ واقعہ اگر پیش آگیا تو جماعت کا اس سے کوئی تعلق نہیں؛اور نہ ہی اسے جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔
اس میٹنگ میں جو کچھ ہوا ,انتہائی گھناؤنا,غلیظ اور خبیث حرکت تھی,کوئی بھی انصاف پسند انسان اس کی تعریف نہیں کر سکتا,تعریف کیا ,کوئی صاحب ِ عقل اسے دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتا,اور جس نے بھی دیکھا,سراپا حیرت و استعجاب بن کر زیرِ زمین گڑ گیا۔
یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جماعت کے ایک باحمیت؛حق گو,صاف سخن,شفاف دہن ,با بصیرت ,با حکمت وباغیرت عالم شیخ حسین مدنی حفظہ اللہ کے ساتھ پیش آنے والا سانحہ صرف ایک سانحہ یا حادثہ نہیں ہے بلکہ پوری علماء برادری کے لئے عموما اور مدنی علماء کے لئے خصوصا ایک لمحۂ فکریہ اور نمونۂ عبرت ہے,جس سے عبرت حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے
جمعیت اہل حدیث تلنگانہ کے زیر اہتمام منعقدہونے والی میٹنگ کی ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہے,کن امور کو لے کر یہ میٹنگ بپا کی گئی تھی,یہ مطلع تو اب تک غبار آلود ہے,تاہم یہ بالکل دو دو چار کی طرح طشت از بام ہے کہ یہ میٹنگ ایک معتبر,مستند,باغیرت و با حمیت اور انتہائی صاف گو و حق گو مدنی عالم کو سر ِ عام ذلیل کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھی,جیسا کہ شروع میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے,کیوں کہ آپ کے ہوتے ہوئے جماعت کے بد خواہوں کی دال گلتے نظر نہیں آرہی تھی,جمعیت کو اپنی لونڈی سمجھنے والے لوگ آپ کے سامنے من مانی نہیں کر پا رہے تھے ,سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ فضیلۃ الشیخ سید حسین مدنی۔حفظہ اللہ۔سے ہمارا قریب و دور کا کوئی رشتہ نہیں ہے؛ہم نے جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں آپ کا زمانہ ٔ طالب علمی پایا ہے اور نہ آپ میرے رشتہ دار ہیں,ہاں اتنی بات تو ضرور ہے کہ مولانا ممدوح کی تعریف ان لوگوں نے کی ہے اور خوب کی ہے جنہوں نے آپ کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے,چنانچہ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کے کلیہ اللغہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے عمری عالم دین فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ مشتاق عمری مدنی فرماتے ہیں:((عزیز القدر مولانا حسین احمد مدنی زمانہ طالب علمی سے ہی نہایت ذہین اور شریف النفس انسان ہیں، میں نے انہیں عمرآباد اور مدینہ یونیورسٹی میں بھی قریب سے دیکھا ہے، اللہ تعالی نے جتنی ذہانت دی ہے اسی قدر شرافت اور خوش مزاجی بھی، بڑوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت، ملنے جلنے میں خوش اخلاقی، طبیعت میں نیک طینت، معاملات میں اخلاص وللہیت، کام کی دھن اور اس میں محنت و لگن، دعوتی جذبہ، علمی ذوق و شوق، ایسے خوش اخلاق انسان کے خلاف سازش، الزام تراشی اور دست درازی کی خبر سن کر دل بیٹھ گیا، کچھ بولنے کی سکت نہیں رہی، آدمی دنیا اور عہدے کی لالچ میں کتنا نیچے گر جاتا ہے کہ الزام تراشی تک کی نوبت آجاتی ہے، اس سے پہلے بھی آندھرا کی جمعیت میں ناظم کے ساتھ ہوائے نفس میں گرفتار لوگ ایسا کر چکے ہیں، ان کی یہ شاطرانہ چال ہے، دراصل ان کے قدوہ مدینہ کے منافقین ہیں جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کردار کشی کی کوشش کی، لہذا عوام ایسے لوگوں سے خبردار رہیں، اور ان کی چالبازیوں کو ناکام بنائیں),نیز رفیق مکرم ڈاکٹر عبد المعید بن نوشاد عالم سلفی مدنی(آپ جامعہ سلفیہ بنارس سے فارغ التحصیل ہیں,اور جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کی حدیث فیکلٹی سے بی اے کرنے کے بعد ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے) نے بھی۔جنہوں نے آپ کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے,آپ کو برتا ہے,آںموصوف کی کھلے بندوں مدح سرائی فرمائی ہے,,یہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی مشہور ہستی اور معروف قلم کار فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اجمل منظور مدنی (حفظہ اللہ)نے آپ کی نیک خوئی کی شہادت دی ہے,اس واقعہ کے بعد آپ فرماتے ہیں:((شیخ کے یہاں دراصل مکاری عیاری نہیں ہے، وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، میں شیخ کے ساتھ مدینہ یونیورسٹی میں رہ چکا ہوں، ایک ہی ٹیبل پر بم دونوں کھایا کرتے اور دیر تک باتیں کرتے، شیخ بہت کم بولا کرتے تھے۔۔۔
البتہ منہجی غیرت رکھتے ہیں، اسکے خلاف جو ہوا اسے نہیں چھوڑتے، چنانچہ جب داعش کو سلفیت سے جوڑا گیا تو اسکے خلاف آواز اٹھائی، اخوانی حزبیوں کے خلاف آپ کے تقریر کرنے پر آپ کو ڈرایا دھمکایا گیا۔۔۔))؛فضیلۃ الشیخ عالم فیضی فرماتے ہیں:((یقینا میری بھی شیخ سے کئی ملاقاتیں ہیں بہت سنجیدہ مزاج اور نہایت خوش اخلاق ہیں))جی ہاں مولانا ممدوح کی تعریف کئی خواتین نے بھی کی ہے,اوران کی صالحیت اور نیک خوئی کی شہادت دی ہے,جن کے یہاں مولانا کا ایک طویل عرصہ گزرا ہے,اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ حق کا اظہار کیا جانا چاہئے اور ضرور کیا جانا چاہئے
میٹنگ میں ایک خاتون کے بیان ۔چاہے وہ سچ ہو یا جھوٹ ۔پر ایک صاحب شعلہ زن ہوئے اور نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ,اوردھاوا بول دیا؛مار پیٹ پر اتر آئے,ہاتھا پائی اور گھونسا بازی جیسی شنیع حرکت اپنائی گئی ,اور وہ بھی عام فرد کے ساتھ نہیں ؛بلکہ ایک عالم دین کے ساتھ,اور وہ بھی ایک انتہائی سنجیدہ اور صالح عالم دین ,جن کی صالحیت و صلاحیت کی شہادت عوام و خواص اور متعدد مرد و زن نے دی ہے,ایسے موقعہ پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شیخ الاسلام امام ذہبی کا وہ جملہ نقل کر دیا جائے جو آب ِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے,فرماتے ہیں(سُـنَّـةُ اللهِ في كلِّ مَـن ازْدَرَى بالعُلَماءِ بَقِيَ حقيراً)(تاریخ الاسلام از ذہبی:۱۳؍۲۵۶)(ترجمہ:یہ اللہ کی سنت رہی ہے کہ علماء کی توہین کرنے والا ہمیشہ حقیر رہا ہے)
عمران بن موسی ۔رحمہ اللہ کہتے ہیں :((دخلت على أبي العروق لأنظر إليه، فمكث خمسة وأربعين يوماً ينبح كما ينبح الكلب))((ترجمہ:میں ابو العروق کے پاس گیا,یہ وہ شخص تھا ,جس نے امام احمد بن حنبل۔رحمہ اللہ۔کو کوڑے مارے تھے,میں نے دیکھا کہ وہ پینتالیس دن تک کتے کی طرح بھونکتے بھونکتے مر گیا))(دیکھئے:مناقب أحمد ص؍۲۴۲)
سوال یہ ہے کہ کیا شریعت ان سب چیزوں کی اجازت دیتی ہے ؟
کیا شریعت ِ اسلامیہ اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ کسی کی مار پیٹ کی جائے؟
کیا شیخ حسین مدنی کو صفائی کا موقعہ دیا گیا ؟وائرل ویڈیو میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مولانا مدنی کو بولنے کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا ,اور ہاتھا پائی شروع کردی گئی ؛حد تو یہ ہوئی کہ وہ خاتون مسلسل بلا روک ٹوک تقریبا پندرہ منٹ بولتی رہی,الزامات دھرتی رہی,اتہامات لداتی رہی,اور مولانا موصوف کو ایک منٹ کا موقعہ نہیں دیا گیا,جس کا صاف مطلب ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش منصوبہ بند پلان کے ساتھ یہ عمل انجام دیا گیا
کیا ہمارا مذہب ِ اسلام یہی سکھاتا ہے کہ ہم یک طرفہ بات سن لیں اور کسی پر ہاتھا پائی پر اتارو ہوجائیں
کیا انہوں نے کبھی اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور کیا ,جس میں اللہ تعالی نے فرمایا:( وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا)(الأحزاب:۵۸)(ترجمہ : اور جو ایمان دار مردوں اور عورتوں کو ناکردہ گناہوں پر ستاتے ہیں سو وہ اپنے سر بہتان اور صریح گناہ لیتے ہیں۔)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:(فقد احتملوا بهتانًا وإثمًا مبينًا، وهذا هو البهت البيِّن أن يحكي أو ينقل عن المؤمنين والمؤمنات ما لم يفعلوه، على سبيل العيب والتنقُّص لهم، ومن أكثر من يدخل في هذا الوعيد الكفرة بالله ورسوله، ثم الرافضة الذين يتنقصون الصحابة، ويعيبونهم بما قد برأهم الله منه، ويصفونهم بنقيض ما أخبر الله عنهم)) (تفسیر القرآن العظیم:۶؍۴۸۰)
یہ کونسا دین سکھاتا ہے کہ بغیر کسی تحقیق و تنقیح کے مار پیٹ کے لئے ہاتھ پاؤں کا استعمال کیا جائے؟ہم تو اہل حدیث ہیں,قرآن و احادیث ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے,ذرا کلیجہ پر پتھر رکھ کر اس حدیث کو سماعت کیجئے جس میں حضرت ابو مسعود ۔رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں (كنت اضرب غلاما لي بالسوط، فسمعت صوتا من خلفي اعلم ابا مسعود فلم افهم الصوت من الغضب، قال: فلما دنا مني إذا هو رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا هو، يقول: اعلم ابا مسعود اعلم ابا مسعود، قال: فالقيت السوط من يدي، فقال: اعلم ابا مسعود ان الله اقدر عليك منك على هذا الغلام، فقلت: لا اضرب مملوكا بعده ابدا “،)(مسلم حدیث نمبر:۱۶۵۹)(ترجمہ: میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کوڑے سے، ایک آواز میں نے پیچھے سے سنی جیسے کوئی کہتا ہے:“ ”جان لے ابو مسعود!“ میں غصے میں تھا کچھ نہیں سمجھا جب وہ آواز قریب پہنچی میں نے دیکھا تو رسول اللہ ﷺہیں۔ آپﷺ فرما رہے ہیں: ”جان لے ابو مسعود! جان لے ابو مسعود!“ میں نے اپنا کوڑا ہاتھ سے پھینک دیا، آپ ﷺنے فرمایا ”اے ابو مسعود! جان لے کہ اللہ تجھ پر زیادہ قدرت رکھتا ہے اس سے جتنی تو اس غلام پر رکھتا ہے۔“ میں نے کہا: اب میں کبھی کسی غلام کو نہ ماروں گا۔)
وہ حضرات اللہ کے یہاں کیا جواب دیں گے جنہوں نے طرفین کے حقائق جانے بغیر ہاتھ پاؤں چلانا شروع کر دیا ,وہ اللہ کے یہاں کیا منہ دکھائیں گے ؟جنہوں نے بغیر کسی تحقیق کے ایک عالم ِ دین کی کردار کشی کی,اور ان کے ساتھ نا زیبا سلوک کیا,وہ حضرات یہ حدیث ذرا سینہ پر ہاتھ رکھ کر اور ٹھنڈے دماغ سے پڑھیں,حضرت ابو ہریرہ ۔رضی اللہ عنہ ۔فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:(أَتَدرونَ مَنِ المُفلِسُ؟ قالوا: المُفلِسُ فينا يا رسولَ اللهِ مَن لا دِرْهَمَ له ولا مَتاعَ، قال: المُفلِسُ مِن أُمَّتي يومَ القِيامةِ مَن يأتي بصلاةٍ وصيامٍ وزكاةٍ، ويأتي قد شتَمَ عِرْضَ هذا، وقذَفَ هذا، وأكَلَ مالَ هذا، وضرَبَ هذا، فيُقعَدُ فيَقتَصُّ هذا مِن حَسناتِه، وهذا مِن حَسناتِه، فإنْ فنِيَتْ حَسناتُه قبلَ أنْ يُقضى ما عليه، أُخِذَ مِن خطاياهم، فطُرِحَ عليه، ثمَّ طُرِحَ في النّارِ. وقال عبدُ الرحمنِ -يعني ابنَ مَهْديٍّ-: فيُقَصُّ، وقال عبدُ الرحمنِ: قبلَ أنْ يَقْضي ما عليہ)(مسلم حدیث نمبر:۲۵۸۱,ترمذی حدیث نمبر:۲۴۱۸؛مسند احمد حدیث نمبر:۸۴۱۴)(ترجمہ: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟لوگوں نے کہا’’ مفلس ہمارے یہاں وہ شخص کہلاتا ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ کوئی سامان ‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز،روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا)
کاش وہ سر پھرے,بے لگام غنڈے,سورہ ٔ النور کی آیت نمبر ۴ سے لے کر آیت نمبر ۱۲ تک کا مطالعہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ فرما لیتے تو کسی بھی غیر مناسب حرکت سے باز رہتے ۔
کیا ایک خاتون کا سر ِ بزم بیٹھ کر الزام دھرتے جانا اور تمام سامعین کا سنتے جانا ایک المیہ نہیں ہے ؟,تقریبا پندرہ منٹ تک اس خاتون کا الزام پر الزام دھرے جانا اور پورے ہال کا خاموش رہنا زبان حال سے کہہ رہا تھا ؎
مُجھ کو تو اپنا بنا یا نہ بنا تیری خوشیvتو زمانے میں میرے نام سے بدنام تو ہے
میرے حصے میں کوئی جام نہ آئے نہ سہیvتیری محفل میں میرے نام کوئی شام تو ہے
کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالی انہی جیسی خواتین کے تعلق سے فرمایا ہے(إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ)(سورہ ٔ یوسف:28),حتی کہ عورتوں کے مکر و فریب کے مقابلے میں شیطانی چالوں کو بھی کمزور قرار دیا ہے,چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:( إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا )(سورہ ٔ النساء:76))۔
علامہ شنقیطی فرماتے ہیں:( قوله -تعالى-: (إن كيدكن عظيم) هذه الآية الكريمة إذا ضُمَّت لها آية أخرى حصل بذلك بيان أن كيد النساء أعظم من كيد الشيطان، والآية المذكورة هي قوله: (إن كيد الشيطـان كان ضعيفا) لأن قوله في النساء: (إن كيدكن عظيم) وقوله في الشيطان: (إن كيد الشيطـان كان ضعيفا) يدل على أن كيدهن أعظم من كيده)(اضواء البیان :۲/۲۱۷,نیز دیکھئے:تفسیر القرطبی:۹/۱۷۵,إغاثۃ اللہفان از ابن القیم:۲/۳۳۷,تفسیر ابی السعود :۴/۲۷,تفسیر المنار از رشید رضا مصری:۱۲/۲۳۸)۔
علامہ صدیق حسن قنوجی بھوپالی فرماتے ہیں کہ اسی لئے بعض علماء فرماتے ہیں: (إنِّي أخافُ مِن النساءِ ما لا أخافُ مِن الشيطانِ؛ فإنَّه تعالى يقولُ: إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا، وقال للنساءِ: إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ، ولأنَّ الشيطانَ يوسوسُ مسارقةً، وهنَّ يواجِهْنَ به الرجالَ)(دیکھئے:تفسیر القنوجی :۶/۳۲۰)
وہ کیسی داعیہ خاتون ہے کہ بھری بزم میں بولے جا رہی ہے اور اس پر نکیل کسنے والا کوئی نہیں؟
وہ خاتون کون سی دعوت کا کام کر رہی ہے جس میں عزتیں سر ِ عام نیلام ہورہی ہوں؟اور وہ خاموش تماشائی بنی ہوئی سارا منظر دیکھ کر زیر ِ لب مسکرا رہی ہو
یہ عادت کیسی بری عادت ہے,کہ ایک قبیح عمل انجام دے کر,ایک جید عالم ِ دین کی تذلیل کرکے اس کی تشہیر بھی کی جائے,ویڈیو وائرل کر دیا جائے,تاکہ لوگ مزید اہانت آمیز کلمات کہیں
حضرات ِ گرامی ! بے بنیاد الزام لگانا اور بہتان تراشی کرنا بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے ، سوشل میڈیا نے جہاں رابطوں کو عام ، تعلقات کے دائرے کو وسیع اور ہر کہہ ومہہ کو کہنے لکھنے کا موقع فراہم کردیا ہے ، وہاں الزام تراشی کی وبا بھی عام اور آسان ہوگئی ہے ، اس سے قبل تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، مذہبی اور سیاسی؛مسلکی اور قبائلی اختلافات رکھنے والے ، نیچے سے اوپر تک اکثر اس وبا کا شکار نظر آتے ہیں ، ذاتی اختلاف رکھنے والے ، اسے انتقامی حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں,جاہ و منصب کے لالچی و حریص اسے عہدوں پر قبضہ جمانے کے لئے یہ کام کرتے اور کراتے ہیں,مال و دولت کے پجاری اسے حصول ِ مال و زر کے لئے اپناتے اور کام میں لاتے ہیں
یہاں یہ بات بھی انتہائی واضح رہنا چاہئے کہ الزام تراشی کے معاملے میں اسلامی تعلیمات ہمیشہ حساس رہی ہیں,ذرا اندازہ کیجئے کہ اللہ تعالی نے کس طرح اپنے نبی ﷺکو خصوصی تعلیم دی,فرمایا:( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ)(سورہ ٔ الممتحنہ:۱۲)(ترجمہ: اے نبی جب آپ کے پاس ایمان والی عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں گی اور نہ کسی نیک بات میں آپ کی نافرمانی کریں گی تو ان کی بیعت قبول کر اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگ، بے شک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے)
بہتان بازی ,افترا پردازی اور الزام تراشی چونکہ ایک انتہائی قبیح و شنیع جرم ہے اس لئے اسلام نے اسے کبائر میں شامل کر کے شدید نفرت دلائی ہے اور کھلے الفاظ میں کہہ دیا کہ: ”ولا یأتین ببہتان یفترینہ بین أیدیہن وأرجلہن“(ترجمہ: اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں گی)اور خواتین سے ان معاملات میں بیعت لینے کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اس معاملے میں دوسرے سے آگے ہوتی ہیں اور وہ کسی پر بھی الزام دھر سکتی ہیں,جی ہاں اس حقیقت سے بھی مجال ِ انکار نہیں کہ ساری خواتین اس طرح نہیں ہوتی ہیں,آج بھی قوم و ملت میں ہزاروں خواتین عائشہ,فاطمہ ,صفیہ,ام کلثوم ۔رضی اللہ عن الجمیع۔جیسی عقلمند و ہوش مند خواتین موجود ہیں,اور تعلیم و تربیت کے موتی لٹا رہی ہیں,دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہی ہیں,اور صلاحیت و صالحیت کے زیور ِ نایاب سے مسلح اور لیس ہیں,کثر اللہ من أمثالہن۔
مجھے تعجب ہوتا ہے کہ جمعیت کا ایک ذمہ دار بغیر کسی تحقیق اور چھان بین کے فیصلے پر کیسے اتر آیا اور اسے فیصلہ کرنے پر ذرا برابر بھی شرم نہیں آئی,جبکہ الزام زنا کا تھا, زنا جس کے لفظ سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں,پورا وجود ہل جاتا ہے,جس کے ثابت کرنے کے لئے شریعت نے انتہائی شدید شرطیں رکھی ہیں,اللہ تعالی نے فرمایا:﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ * إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾(سوہ ٔ النور:۴)(ترجمہ: اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہ نہیں لاتے تو انہیں اسّی دُرّے مارو اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور وہی لوگ نافرمان ہیں۔ مگر جنہوں نے اس کے بعد توبہ کرلی اور درست ہو گئے تو بے شک اللہ بھی بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔) نیز فرمایا:( لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ )(سورہ ٔ النور:۱۳)(ترجمہ: یہ لوگ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے، پھر جب وہ گواہ نہ لائے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں),حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب سعدبن عبادہ ۔رضی اللہ عنہ۔نے نبی کریم ﷺسے فرمایا:( يا رسول الله ! إن وجدت مع امرأتي رجلا أأمهله حتى آتي بأربعة شهداء )تو نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:(نعم)(مسلم حدیث نمبر:)اور اس لئے اسلام نے اتنی کڑی شرطیں رکھی تاکہ کوئی کسی پر ناحق الزام نہ دھر بیٹھے,اسی لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:(والشهادة على الزنا لا يكاد يقام بها حد وما أعرف حدا أقيم بها وإنما تقام الحدود إما باعتراف وإما بحبل ..” )(منہاج السنہ:۶؍۹۵)اسی لئے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جرم ِ زنا چار موجود عادل و ثقہ کی شہادت کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا ہے,جو اپنے سر کی آنکھوں سے زنا کرتے ہوئے دیکھیں, انہیں تثبت بھی ہو اور یقین بھی ,چار گواہوں کا ہونا شرط ِ اولین ہے,کم نہیں ,اگر چار سےکم ہوں,یا کسی ایک نے گواہی دینے سے انکار کردیا تو ناقابل تسلیم ہوگا,اور باقی لوگوں کو جھوٹا قرار دیا جائے گا,اور اصل مجرم کو چھوڑ کر انہیں ہی سزا دی جائے گی)ہاں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اس طرح کی سخت شرطوں کی پابندی سے اسلام نے زناکاروں کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی بلکہ ان پر قد غن لگایا ہے جو ذاتی مفادات کے لئے الزامات باندھتے رہتے ہیں,امام شافعی ۔رحمہ اللہ۔نے کتنی بہترین بات کہی ہے,فرماتے ہیں:( وإذا شهد أربعة على رجل بالزنا فرجم، فرجع أحدهم عن شهادته، سأله القاضي عن رجوعه، فإن قال: عمدت أن أشهد بزور، قال له القاضي: علمت أنك إذا شهدت مع غيرك قُتل ؟ فإن قال: نعم، دفعه إلى أولياء المقتول، فإن شاءوا قتلوا ، وإن شاءوا عفوا، فإن قالوا: نترك القتل ونأخذ الدية، كان لهم عليه ربع الدية، وعليه الحد في هذا كله [أي حد القذف],وإن قال: شهدت ولا أعلم ما يكون عليه القتل، أو غيره، أُحْلِفَ ما عمد القتلَ ، وكان عليه ربع الدية ، والحدُّ,وهكذا الشهود معه ، كلهم ، إذا رجعوا)(الأم:۷/۱۳۲)
ایک خاتون کی بات سن کر,اس کے الزام کو سچ مانتے ہوئے جنہوں نے مولانا مدنی کو زدو کوب یا؛وہ اللہ سے ڈریں اور رب کی سزا کے لئے تیار رہیں,بہتان تراشی اور زنا کا الزام کوئی عام گناہ نہیں ,بلکہ گناہ ِ کبیرہ ہے,اور خود اللہ تعالی نے تین سزائیں مقرر فرما ئی ہیں:
(۱)انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں
(۲)ان کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے
(۳)وہ عند اللہ اور عند الناس فاسق ہیں (دیکھئے:تفسیر احسن البیان ص۹۶۴)
بہر حال حیدر آباد کی جمعیت کے بینر تلے,جو کچھ ہوا ,انسانیت اس سے شرمسار ہوئی,سلفیت کا سر شرم سے جھک گیا؛اہل حدیث کا بچہ بچہ اس حرکت کو دیکھ اور سن کر نادم و شرمندہ ہوا, کیوں کہ وہ حرکت انتہائی شنیع اور قبیح حرکت تھی,جس کی جس قدر اور جتنا بھی مذمت کی جائے,کم اور بہت کم ہے,ہم اس اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں,اور اس موقعہ سے چند تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں
(۱)یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جمعیت (چاہے وہ مرکزی ہو یا صوبائی یا مقامی)کا کبھی بھی کسی غیر عالم کو ذمہ دار نہیں ہوناچاہئے
(۲)یہ حادثہ انتہائی عبرت ناک تھا جس نے ہمیں درس دیا کہ کسی بھی دینی و اسلامی تنظیم کے ذمہ داران اہل علم ہوں,اور اگر کوئی جاہل اس میں بیجا مداخلت کرنے,اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرے تو تمام علماء کو اس سے کنارہ کشی اختیار کرلینا چاہئے (واضح ہو کہ جب بھی کسی دینی تنظیم (مسجد و مدرسہ)کا ذمہ دار کوئی (دینی علوم سے)جاہل شخص ذمہ دار بنتا ہے تو اس کے عواقب انتہائی خطرناک اور افسوس ناک ہوتے ہیں,جس کی کئی مثالیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں)
(۳)اس واقعہ نے صرف مدنی علماء پر ہی نہیں بلکہ تمام علماء کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا ہے,لہذا تمام علماء کو ایک متحدہ پلیٹ فارم سے اس واقعہ کی شدید مذمت کرنی چاہئے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرکے ان ظالموں,مجرموں,جماعت کے ان غنڈوں,اور جمعیت کے عہدوں کے لالچیوں کو کیفر ِ کردار تک پہنچانا ضروری سمجھنا چاہئے
(۴)زنا جیسے امور پر الزام تراشی اور بہتان بازی کے سلسلہ میں وارد آیات و احادیث کو موضوع خطاب بنانا چاہئے؛تاکہ عوام الناس تک ایک متحدہ پیغام پہنچے,کیوں کہ اگر اب بھی ہم چپ رہے تو شاعر کی زبان میں ؎
جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپر آپ کا ہےv آگ کے پیچھے تیز ہواہے,آگے مقدر آپ کا ہے
اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا vمیرے قتل پہ آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کاہے
(۵)جن ظالموں؛طالع آزماؤں,اور جماعت کے غداروں نے مولانا پر ہاتھ اٹھایا ہے,ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی ہونی چاہئے ۔
(۶)جن ظالموں اور مجرموں نے مولانا پر زدو کوب کیا ہے,انہیں جمعیت سے فوری طور پرمعزول کیا جانا چاہئے,اور آئندہ کسی بھی عہدہ پر انہیں بحال نہیں کیا جانا چاہئے, تاکہ ہم بجا طور پر کہہ سکیں کہ ؎
خوش ہو رہے ہیں ہم پہ جو کیچڑ اچھال کے vدن آگئے قریب اب ان کے زوال کے
اور اگر وہ زبردستی جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو علماء کو اس سے کنارہ کشی اختیار کرلینا چاہئے
(۷)جن ظالموں نے ایک بے بنیاد یا با بنیاد الزام پر مولانا کو مارا پیٹا ہے,ان پر ضروری ہے کہ وہ اس الزام کوشرعی اصولوں کی بنیاد پر ثابت کریں,ورنہ «البَيِّنَةَ أو حَدٌّ في ظَهْرِكَ» (بخاری حدیث نمبر:۲۶۷۱) کے لئےتیار رہیں
(۸)فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا حسین احمد بن عثمان عمری مدنی ۔حفظہ اللہ۔کو دو بارہ اپنے عہدہ پر بحال کیا جائے,اور بغیر کسی ٹال مٹول کے بحال کیا جائے؛اور ان ظالموں کو اپنے عہدوں سے معزول کیا جائے
(۹)جن ظالموں نے مولانا پر الزام لگایا ہے ؛ زدو کوب کیا ہے,ہاتھا پائی کی ہے,گالیاں دی ہیں,اہانت آمیز حرکت کی ہے,وہ سارے لوگ سوشل میڈیا پر آکر معافی مانگیں اور خود ویسے ہی اس ویڈیو کو وائرل کریں۔
یہ چند باتیں؛وضاحتیں اور گزارشیں تھیں,جن کا عرض کرنا ضرور سمجھا گیا؛ کیوں کہ ؎
جب تم زمین والوں کو نیچا دکھاؤگے vبے داغ صورتوں کو جو شیشہ دکھاگے
اس وقت زمین سے آئے گی یہ صداvو تعز من تشاء و تذل من تشاء
اللہ کریم سے دعا گو ہے کہ وہ ہم سب کو ایمان و عمل کی توفیق ارزانی کرے,شریعت ِ غراء کی تعلیمات و توجیہات پر سدا قائم رکھے,اور اپنے عقیدہ و شریعت کی حفاظت و صیانت کی توفیق بخشے,آمین یا رب العالمین