نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کہنے کا بیان

از قلم:جلال الدین ۔ابو عائش بہرو 

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

اذان اسلام کے شعائر میں سے ایک شعیرہ ہے، جوکہ نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے لئے مشروع ہے، اسلئے اذان کی حکمت نماز کا اعلان کرنا مقصود ہے کہ نماز کا وقت داخل ہوچکا ہے، اذان ایک عبادت ہے جسے غافل کو ہوشیار اور سوئے ہوئے کو جگانا مقصود ہے، اور کسی مقصد کے لئے اذان دینا، فخر کرنا یا مال کمانے کے لئے مشروع نہیں ہے۔

سید الاولین والآخرین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خود اپنی اولاد ابراھیم کا نام رکھنا ثابت ہے، لیکن ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت یا مجرد اذان کہنا ثابت نہیں ہے۔

اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے نومولود بچوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتے تھے؛ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکے لئے برکت کی دعا کرتے، اور تحنیک فرماتے تھے۔ اس میں اذان واقامت کہنے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ دیکھئے: (صحیح مسلم 286)، (ابو داؤد 5106).

اگر نومولود کے کان میں اذان واقامت کہنا مشروع ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہ ضرور منقول ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ہمارے نومولودوں کے کان میں اذان واقامت کہی جس طرح کہ برکت اور تحنیک کا ذکر کرتے ہیں۔

یہ ہے اصل حکم کہ ہرکوئی بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، پھر اسکے بعد اسکے باپ پر ہے کہ اسے مسلمان ہی رکھنا چاہتا ہے یا یہودی، نصرانی (عیسائی) یا مجوسی بنانا چاہتا ہے۔ (صحیح بخاری 1358)، (صحیح مسلم2658)، ایک روایت میں ہے یا اسے مشرک بنانا چاہتا ہے۔ (مسند الحمیدی 1146).

البتہ مسئلہ ھذا میں کچھ احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں  اذان اور اقامت یا صرف اذان کہنے کا ذکر ہے وہ ساری ضعیف اور موضوع ہیں جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:

1- عن أبي رافع قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذّن في أذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة”. ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے کان میں نماز جیسی اذان کہتے ہوئے دیکھا جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسے جنم دیا۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے (السنن، ح 5105)، اور ترمذی نے (الجامع، ح 1514) میں روایت کیا ہے۔

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا دارومدار عاصم بن عبید اللہ پر ہے اور وہ ضعیف ہے۔ (التلخیص الحبیر 4/367).

اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی “سلسلہ الأحادیث الضعیفہ” (1/493) میں اسکو ضعیف کہا ہے۔

2- وعن حسين بن علي رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “من ولد له مولود فاذّن في أذنه اليمنى واقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان“، الحسین بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہوا، اور اس کے دائیں کان میں اذان، اور بائیں کان میں اقامت کہی، تو اس بچے کو ام الصبیان نامی بیماری کوئی نقصان نہیں پہنچاتی ہے۔ اس حدیث کو ابو یعلی نے (المسند) حدیث نمبر (6780) میں الحسین بن علی رضی اللہ عنہما کے واسطے سے روایت کیا ہے، اور یہ حدیث موضوع اور منگھرٹ ہے، اس میں دو علتیں ہیں:

پہلی علت: اس میں یحیی بن العلاء نامی ایک راوی ہے جس کو امام احمد نے کذاب اور من گھڑت احادیث گھڑتا تھا کہا ہے۔ اور دارقطنی نے اسے متروک راوی کہا ہے۔

دوسری علت: اس میں مروان بن سالم نامی اور ایک راوی ہے جسکو ابو عروبہ الحرّرانی نے حدیث گھڑتا تھا کہا ہے، بخاری، مسلم اور ابو حاتم الرازی نے منکر الحدیث، اور دارقطنی نے متروک راوی کہا ہے۔

اور امام العراقی نے اسکو اپنی کتاب “تخریج الإحیاء” (494) میں ضعیف کہا ہے۔ اور امام الہیثمی “مجمع الزوائد 4/69) میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں مروان بن سالم الغفاری نامی ایک متروک راوی ہے۔

اور شیخ البانی نے “ارواء الغلیل”  حدیت نمبر (1174)، اور “سلسلہ الأحادیث الضعیفہ” حدیث نمبر (321) میں اس حدیث کو موضوع  اور منگھرٹ کہا ہے۔

3- وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم أذّن في أذن الحسن بن علي يوم ولد فأذن في أذنه اليمنى واقام في أذنه اليسرى“،  ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الحسن بن علی رضی اللہ عنہما کے یوم ولادت میں انکے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ اس حدیث کو بیہقی نے (شعب الإیمان، ح 8255) میں روایت کیا ہے، اور یہ حدیث بھی موضوع اور منگھرٹ ہے، اس میں تین علتیں ہیں:

پہلی علت: اس میں الحسن بن عمرو بن سیف نامی ایک راوی ہے جسکو امام بخاری نے (التاریخ الکبیر 2/299) میں کذاب کہا ہے۔

دوسری علت: اس میں محمد بن یونس الکدیمی نامی اور ایک راوی ہے ابو داؤد اور دارقطنی فرماتے ہیں کہ اس پر جھوٹ کی تہمت لگی تھی۔

تیسری علت: القاسم بن مطیّب نامی ایک راوی ہے جوکہ ضعیف ہے۔

4- وعن عبد الله بن عباس قال: حدثتني أم الفضل بنت الحارث الهلالية قالت: مررتُ بالنبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس بالحجر فقال يا أم الفضل قلت لبيك يا رسول الله قال إنك حامل بغلام قلت يا رسول الله وكيف وقد تحالفت قريش أن لا يأتوا النساء قال هو ما أقول لك فإذا وضعتيه فأتني به قالت فلما وضعته أتيت به النبي صلى الله عليه وسلم فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى وألبأه من ريقه وسماه عبد الله ثم قال اذهبي بأبي الخلفاء قالت فأتيت العباس فأعلمته …”، ۔۔۔ اس میں یہ ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ام الفضل الہلالیہ سے فرمایا کہ تو ایک حاملہ خاتون ہے جب بچے کو جنم دے گی، اسے میرے پاس لے آنا، ام الفضل فرماتی ہیں جب میں نے بچے کو جنم دیا میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، اور اپنے لعاب مبارک سے انکی تحنیک فرمائی، اور انکا نام عبد اللہ رکھا۔۔۔”۔

اس حدیث کو طبرانی نے (المعجم الأوسط، ح 9250) میں روایت کیا ہے، اور یہ حدیث ضعیف جدا، سخت ضعیف ہے،  اس میں احمد بن راشد بن خثيم نامی ایک راوی ہے، ہیثمی فرماتے ہیں کہ احمد بن راشد کو اس حدیث میں جھوٹ کی تہمت لگی ہے۔ (مجمع الزوائد 5/187).

یہ تھیں وہ چار احادیث جو نومولود کے کان میں اذان واقامت یا مجرد اذان کہنے کے بارے میں وارد ہوئیں ہیں۔

بعض علماء نے ان ہی ضعیف احادیث کو جمع کر کے جواز کا استدلال کیا ہے کہ فضائل کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے، جبکہ اصول یہ ہیکہ جمع الطرق کی وجہ سے حدیث میں تقویت کا پہنچنا تب صحیح ہوتا ہے جب کسی راوی میں ضعف شدید نہ ہو بلکہ ضعف یسیر ہو اور وہ ضعف راوی کے ضبط میں ہو نہ کہ عدالت میں، اور جس سے تقویت پہنچائی جائے وہ پہلی والی روایت سے ضعف میں برابر ہو یا ضعف میں اسے کم تر ہو۔

یہاں مسئلہ ھذا میں ضعف کا معاملہ ضعف شدید سے ہے نہ کہ یسیر سے۔

دیکھئے پہلی حدیث، حدیث ابو رافع اسمیں دوسری تین احادیث کے مقابلے میں ضعف تھوڑا ہلکہ ہے، اور اس حدیث کو اگر تقویت پہنچانا مقصود ہو، تو محدثین کے اصول کے مطابق دوسرا طریق ضعف میں اسی جیسا یا ضعف میں اسے کم اور ہلکہ ہونا چاہئے، یہاں دوسرا طریق حسین بن علی کا طریق ہے، یا ابن عباس کا طریق، یا ابن عباس جس میں ام الفضل کا  قصہ ہے کا طریق ہے اور یہ تینوں طریق ضعف کے اعتبار سے ضعیف جدا، سخت ضعیف ہیں جو تقویت کے لئے قابل اعتبار اور صالح نہیں ہے۔

اسلئے نومولود کو اپنی اصل حالت یعنی فطرت اسلام پر ہی رکھا جائے، اور ماں باپ کو بحیث ماں باپ ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ میرا مولود اسی اصل حالت یعنی فطرت اسلام پر ہی تاحیات ثابت قدم رہے، اور اللہ تعالی سے ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم۔

ابو عائش بھرو الجابناروی/جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ 18/03/2022.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *