از قلم:رشید سمیع سلفی
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد
اسلام اور مغربی تہذیب فکر وعمل کے دو متضاد رخ ہیں،ان کا راستہ الگ الگ اور منزل جدا جدا ہے،یہ دریا کے دو کنارے ہیں جو کبھی مل نہیں سکتے،دنیا کو فواحش ومنکرات کے گندے پانیوں میں ڈبونے کے بعد یہ کلچر از خود اپنی نارسائی کا رونا رو رہا ہے،انسانیت کو بربادی کے دہانے پر پہونچانے کے بعد ان کے دانشوروں کے سر اور تال بدلے بدلےلگ رہے ہیں،اب بےقید آزادی اور مرد وزن کا آزادانہ اختلاط بہتیرے فتنوں کی جڑ قرار پایا ہے، دنیا میں بڑھتے ہوئے مسائل اور بحران کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے ضابطے انسانیت کے درد کا درماں نہیں ہوسکتے،بلکہ انسانوں کیلئے انسانوں کے خالق کا بنایا ہوا نظام زندگی ہی نجات دہندہ اورموجب فلاح ہے ۔
اس حقیقت کے آشکارا ہونے کے باوجود آج بھی دنیا میں مغربی کلچر اور اس کی ایجاد کردہ خرافات کا سحر ٹوٹا نہیں ہے،شناعت اور قباحت کتنی بھی شمار کرادی جائے لیکن ہوس پرست طبائع آنکھیں میچ کر ان مشاغل جنس وشہوت کی پذیرائی کریں گے جو کارگہ مغرب سے برآمد ہوئے ہیں۔
یہ سچ ہیکہ عشق ومحبت جیسے ناپاک آزار اور ام الخبائث کو پروان چڑھانے میں مغرب اور مغرب نواز روشن خیالوں کا ہاتھ ہے،آج دنیا کا اخلاقی منظرنامہ شہوت کے منہ زور دھاروں میں ڈوب اور ابھر رہا ہے ،دنیا میں شہوانی طوفان اٹھانے کے بعد بھی انہیں چیننہ آیا تو14فروری کو ویلنٹائن ڈے کا فتنہ لا کر فحاشی کےچوپٹ دروازے کھول دیے،اس لعنتی ڈے کی تبہ کاریوں نے دنیا کو اس مقام پر لاکر کھڑا کیا ہیکہ اس شب دنیا کا چپہ چپہ فواحش ومنکرات کی لپیٹ میں ہوتا ہے ،انسانی بستیاں شہوات کی بھٹی میں تبدیل ہوجاتی ہیں،کڑوڑوں لوگ “یوم عاشقاں” مناتے ہیں،محبت کے کارڈ کے تبادلے ہوتے ہیں،پیاسی حسرتیں بامراد ہوتی ہیں،شراب وشباب میں مدہوش روحوں کو قرار آجاتا ہے،فاسقوں وفاجروں کی نخل امید بارآور ہوتی ہے،پھول ،کارڈ اور تحائف کے بزنس پر بہار آجاتی ہے،سوچئے؛جب یہ دن ہی پیار ومحبت کے نام کردیا گیا ہے تو جو آگ پورے سال بھڑک رہی تھی اس دن اس کی شدت وہولناکی کا عالم کیا ہوگا؟
اس بدنام زمانہ دن کی تاریخ میں بتایا جاتا ہیکہ یہ ایک مشرکانہ رومی تہوار “لوپر کالیا” کا تسلسل ہے جس میں لڑکیوں کے نام ایک برتن میں ڈال دیے جاتے ہیں اور مرد آنکھیں بند کر جس لڑکی کا نام نکالتے ہیں وہ تہوار کے ختم ہونے تک ان کے ہمراہ ہوتی ہے اوریہ 14فروری کو ہوتا تھا،رومی تہذیب میں عشق کے نشان ”سُرخ پھول” ایک دوسرے کو پیش کئے جاتے ہیں۔Cupid نام کا ایک پرندہ جس کے بارے میں یہ مشرکانہ عقیدہ ہیکہ وہ محبت کاخدا ہے،اسکی تصویر کارڈز پر لگا کر اظہارِ عشق کیا جاتا ہے،گذرتے دن رات کے ساتھ اس میں لوازمات کا اضافہ اور الگ الگ تہذیبوں کا تڑکا لگتا رہا،برطانوی کاؤنٹی ویلز میں اس موقع پر دوست لڑکیوں کو دینے کیلئے لکڑی کے چمچ تراشےجاتے تھے جس پر دل اور چابیاں بنی ہوتی تھیں،یہ اس بات کی علامت ہوتی تھی تم میرے بند دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول دو،ایک روایت کے مطابق یہ محبت کیلئے ایک پادری کی قربانی کی یادگار ہے جس کا نام ہی ویلنٹائن تھا، اس لئے عاشقوں نے اسے عاشقوں کے تہوار کا نام دیااور اس کا نام ویلنٹائن ڈے رکھا،اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جو لغواور فضولیات پر مبنی ہیں جس کے تذکرے سے گفتگو طویل ہوجائے گی۔
ممکن ہے ہمارے بہت سے مسلمان بھائی اس سے ناواقف ہوں،مگر ایک کثیر تعداد اس دن کیلئے اپنے اندر جذبات رکھتی ہے،دبے لہجے میں اس کی تائید کرتی ہے ،اس لئے اس پر اظہار خیال کی ضرورت محسوس کی گئی ہے،وقت کا روشن خیال طبقہ ایسے اسلام مخالف نظریات کیلئے بڑے خوشنما فلسفے گڑھ کر لاتا ہے اور کھینچ تان کر ایسے نظریات اور مروجات کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے،دراصل یہ لوگ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام اور مغربی تہذیب میں کوئی دوئی نہیں ہے،اسلام مغربی نظریات و افکار کیلئے بڑی گنجائش رکھتا ہے،اس لئے کہتے ہیں کہ چلئے مان لیا کہ عشق ومحبت سب خرافات ہیں،اسلام سے ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں،لیکن کیا ویلنٹائن ڈے کے دن اپنی بیوی کو پھول نہیں پیش کرسکتے؟اس سے اظہار محبت نہیں کرسکتے،اس میں کیا مضائقہ ہے؟محبت کوئی بری شئی تو ہے نہیں،اگر کسی لڑکی کو اس دن کی برکت سے اس کا جیون ساتھی مل جاتا ہے اور اس کی ویران اور سونی زندگی میں بہار آجاتی ہے تو بھلا اسلام کو اس میں پروبلم کیوں ہے؟کنوارے اور کنواریاں اس دن اپنے لیۓ رشتہ تلاش کرتے ہیں،یہ اور اس طرح کے درجنوں منطق ہیں جو ویلنٹائن ڈے کو جواز فراہم کرنے کیلئے دئے جاتے ہیں،یہ سب شیطانی لاجک ہیں جو لبلروں کا فتنہ پرور دماغ گڑھ گڑھ کر لاتا ہے،یہ طبقہ اسلام کو مغربی افکار ونظریات کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے،اسلام کی پاکیزگی اور تقدس کو مغربی تہذیب کے بھینٹ چڑھانا چاہتا ہے جو ان شاءاللہ کبھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔
سوال یہ ہیکہ کیا اسلام میں اس طرح کے تہوار کی گنجائش ہے؟کیا اسلامیوں کا ویلنٹائن ڈے میں شریک ہونا درست کہلائے گا،ہرگز نہیں،اسلام عشق ومحبت کے فتنوں کی تائید نہیں کرتا،اسلام جذبۂ محبت کو تو تسلیم کرتا ہےکیونکہ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہےلیکن اس کے نام پر موجودہ دور کے خرافات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا،جذبۂ محبت کی تسکین کیلئے وہ نکاح کا شریفانہ اور مہذب طریقہ انسانوں کو دیتا ہے،اس طریقے کی تائید دنیا کے دیگر مذاھب بھی کرتے ہیں،نکاح کے ذریعے مرد اور عورت میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہوجائیں اور ایک دوسرے سے دل کھول کر محبت کریں،انھیں کوئی نہیں روکتا،نکاح کے بغیر محبت اور محبت کے نام پر آوارگی،انارکی اور فحاشی کی قطعی اجازت نہیں ہے،جہاں تک بات ویلنٹائن کے ذریعہ رشتہ تلاش کرنےکی ہے تو لڑکی کیلئے رشتے کی تلاش اس کے سرپرستوں کے ذمے داری ہے،اسے ویلنٹائن ڈے کے انتظار کی اور سلبریٹ کرنےکی ضرورت نہیں ہے،سوچئے کہ اسلام اس فتنۂ عالم رسا کا حامی کیسے ہوسکتا ہے جو پردہ حجاب اور پاکدامنی کی تعلیمات دےکر اس کی بنیاد کو ہی ڈھادیتا ہے,اسلام کی تعلیمات کی رو سے مرد وعورت غض بصر کے پابند ہیں،اسلام مردوعورت کے تخلیہ پر پابندی عائد کرتا ہے،اسلام حیا و شرم کے جذبات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے،اختلاط اور مرد وعورت کا آزادانہ میل جول پر قدغن لگاتا ہے،ان تعلیمات کے فریم میں ویلنٹائن ڈے کسی صورت نہیں بیٹھتاہے،ویلنٹائن ڈے کا اسلام سے دور دور کا بھی کوئی رشتہ نہیں ہے،البتہ جو خاموش لب ولہجہ میں اس کی گنجائش نکالنا چاہتے ہیں وہ جان لیں کہ جس دن یہ لعنت ہمارے کلچر کا حصہ بنے گی،ہماری بد نصیبی کے دن بھی شروع ہونگے،ہمارے سماج میں بھی بےحیائی،فحاشی اور اباحیت کا سیلاب موج ماررہا ہوگا،اخلاقیات واقدار کا بچا کھچا سرمایہ فحاشی کےسیلاب میں بہہ جائے گا،ہمارے سڑکوں اور پبلک مقامات پر بھی وہی مناظر ہونگے جو یورپ اور امریکہ کا مقدر بن چکے ہیں،نگاہوں کا تقدس پامال ہوگا اور معصوم عصمتوں کو دور حاضر کے جنسی درندوں سے کوئی بچا نہیں پائے گا کیونکہ اب یہ سماجی برائی نہیں ہوگی بلکہ سینٹ ویلنٹائن کی روح کو خراج عقیدت ہوگی۔